تخلیق آدم کا قصہ قران پاک میں بڑی تفصیل سے پیش ہوا ہے قرون وسطی کے علمائے دین نے اس قصے کی خوب خوب تشریحیں کی ہیں قرون وسطیٰ کے فارسی انگریزی اور اردو شاعووں کو بھی یہ بڑا محبوب موضوع رہا ہے اس قصے سے عام طور پر یہ نتیجہ اخد کیا جاتا ہے کہ شیطان کو اپنے فرشتے پن پہ اتنا غرور تھا کہ اس نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا اور نافرمانی کی پاداش میں راندہ درگا ہ ہوا۔ادب میں بھی ابلیس کو شر وفساد اور تکبر و نحوت کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا لیکن صوفیوں کے مسلک کی اساس چوں کہ محبت تھی اس لیے انہوں نے شیطان کو وسری نظر سے دیکھا۔۔
رابعہ بصری کا ایک قول نقال کرتا ہوں بڑا ہی دل کو چھو لینے والے الفاظ ہیں غور کجئے گا
۔۔‘‘ ذات باری کی محبت مجھ پہ اتنی غالب ہے کہ میرے دل میں محمد صلی علیہ واسلم کی محبت کی بھی گنجائش باقی نہیں رہی پھر ابلیس سے نفرت کی گنجائش کہاں۔۔؟؟
جان لیا جائے یہ خدا سے محبت کی انتہا ہے۔۔اسی لئے میں یہ کہتا ایا کہ صوفیا نے اسلام کو مقبول بنانے اور مولویوں نے اسلام کو مطعون کرنے میں کیسی کیسی گراں بار خدمات سرانجام دی ہیں۔۔
Comment