Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

ابد کا کنارہ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #16
    Re: ابد کا کنارہ

    Originally posted by Sub-Zero View Post


    *اچھا تو یہ پر مغز تحریر تھی سبحان اللہ یعنی آپ سو ارب نوری سال کی بے پر کی اڑائے تو ہم کو بلا چوں چرا مان لینا چاہئے
    یعنی سب آئٹم قوارک جو جین کی طرح عنصر کو رنگ روپ دیتا ہے اس کو روشنی کہنے لگیں
    باقی تھا کیا تحریر میں سوائے فلسفہ کے وہ بھی خلا کو ہواااااا بنا بنا کر کپکپوانے کے علاوہ



    @
    یہ کوئی مذہبی یا سیاسی معاملہ نہیں جس میں حسب منشا تاویل کی جائے۔۔بنادی ذرات قوارک سے ملکر بنے ہوتے ہیں پروٹان میں ان کو قوراک اور الیکڑان میں ان کو لیپٹان کہا جاتا میں ان کو انگلش میں بھی لکھ دیتا اس میں گنواروں کی طرح لرنے کی کیا ضرورت اپ گوگل یا کسی بھی سائنسی حوالے سے ان کی تصدیق کر سکتے ہیں
    قوراک یا لیپٹان ایک مرغولے ایک نور کے سوا کچھ بھی نہیں یہ رہے ان کے نام انگلش میں

    ٖ
    Quark
    Lepton

    باقی کوسارز کی جو بات یہ اپ کو معلوم بھی نہیں ہوگا کیا بلائیں ہیں اپ اپنے تہیں ان کو ستارے سمجھ رہے ہونگے لیکن اسی وجہ سے میں نے کہا تھا کہ پوسٹ پڑھ لئجے گا یہ کمبخت سائنس اپ ک سوچ سے بھی بہت اگے نکل گئی ہے۔۔
    اور انہی کسارز پہ میں نے خلا کی عظمت بیان کی مجھے ہر گز اپ کو انساپئر نہیں کرنا تھا کہ میں جانتا حیران ہونے کی سعادت بھی انہی کے حصے میں آت جن کو خدا نے حیران ہونے کا ظرف دیا ہے ورنہ ہمیاری حیرتوں پہ حیران ہونے والوں کی بھی کمی نہیں


    خوش رہیں


    ڈاکٹرفاسٹس

    :(

    Comment


    • #17
      Re: ابد کا کنارہ

      میرا مقصد ان کو الیکیٹرون کہنا نہیں تھا بلکہ یہ کہنا تھا ان میں ایکٹرک چارچ ہوتا ہے جو الیکٹرون بنانے کے لئے ضروری ہے مگر کام اس کا وہی ہے مادہ کو رنگ و روپ دینا البتہ اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے یہ روشنی ہے
      روشنی ایک غیر مادی یا توانائی کی قسم ہے مگر قوارک کو ہم روشنی کیسے کہیں جبکہ یہ خود مادہ کا حصہ یا ذرہ ہے؟
      ا
      ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
      سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

      Comment


      • #18
        Re: ابد کا کنارہ

        @ topic


        کیا ہم ایسی کائنات میں رہتے ہیں جو پھیلتی ہی جائے گی یا ایسی کائنات میں جو تخلیق اور فنا کے لامحدود چکر میں گرفتار ہے۔۔اس کو سمجھنے کا ایک ذریعہ ہے توہمات اور پر اسرار فلسفے ہیں۔۔بلکہ سائنس اور یہ کام صرف پوری کائنات میں پھلے ہوئے مادے کا شمار کر کے ہو سکتا ہے یا پھر کائنات کے کنارتے کو دیکھ کر۔۔۔


        ریڈیو ٹیلی سکوپ بہت دور کی بہت مدھم چیزوں کو بھی دیکھ سکتا ہے جب ہم خلا کی گہرائی میں جھانکتے ہیں تو ہم بہت دور ماضی میں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔۔۔ سب سے قریبی کوسار ہم سے تقریبا پانچ کروڑ نوری سال کے فاصلے پر ہے اور سب سے دور والا دو سو ارب نوری سال یا شاید اس سے بھی زیادہ دور ہو۔۔ لیکن ہم اگر کوئی چیز اربوں نوری سال کے فاصلے پر دیکھتے ہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے ہم اسے اس طرح دیکھر ہے ہیں جیسی وہ اربوں نوری سال پہلے تھی۔ خلا مں بہت دور دکھنے کا مطلب ہے کہ ہم وقت میں بھی پیچھے بہت پیچھے دیکھ رہے ہیں۔۔واپس کائنات کی افق کی طرف۔۔واپس بگ بینگ کے دور کی طرف۔۔

        ریڈیو ٹیلی اسکوپ کا بہت بڑا بیڑہ وی ایل اے جس میں 27 ریڈیو ٹیلوسکوپ شامل ہیں نیو میکسیکو کے دو دراز علاقے میں قائم ہے۔۔ یہ سب ایک دوسرے سے منسلک ہیں یہ ٹیلسکوپ ناقبال بیان حد تک حساس ہیں۔ایک کوسار اتنا مدھم ہوتا ک اس کی ریڈی ایشن جو یہ ٹیلی سکوپ وصول کرتے ہیں واٹ سے کئی ارب گنا کم ہوتی ہے۔۔زمین کے تمام ٹیلی سکوپ نے نظام شمسی کے باہر جتنی توانائی وصول کی ہے وہ ایک پر کے زمین کے ٹکرانے کی توانئی سے بھی کم ہے۔۔کائنات کے پس منظر کی ریڈی ایشن کی تلاش کوسارز کی گنتی اور کائنات میں کسی دوسری حیات کے ریڈیو سگنلز کے منتظر ان ریڈیو ٹیلی سکوپ کے ماہرین کا توانائی کی اتنی چھوٹی مقدار سے واسطہ ہے جو مشکل سے ہی وجود رکھتی ہے۔۔۔


        کچھ مادہ خاص طور ستاروں میں موجود مادہ نظر آنے والی روشنی خارج کرتا ہے لیکن دوسرا مادہ مثلا کہکشائوں کے بیرونی حصے میں دھول اور گیس بڑی مشکل سے گرفت میں اتی ہیں کیونکہ اس سے نظر انے والی روشنی خارج نہیں ہوتی۔۔۔ اگرچہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ ریڈیائی لہریں خارج ہو رہی ہیں۔۔۔یہی وجہ ہے کہ کائنات کےا سرار کو جاننے کے لیے ہمیں انہائی احساس اور انتایہ ترقی یافتہ آلات کی ضرورت ہوتی ہے۔۔ زمین کے مدار سے کیا جنے والا مشاہدے سے دریافت ہوا کہ کہشائیوں کے درمیان ایکس ریز ایک تیز روشنی پھیلی ہوئی ہے۔۔ پہلے یہ سمجھا گیا کہ یہ کہکشائوں کے درمیان کی گرم ہائیڈروجن ہے۔۔یہ اتنی بڑی مقدار میں ہے جو اس سے پیشتر نہیں دیکھی گئی تھی۔۔ شاید اتنی زیادہ کے کائنات کو سکیڑنے کے لیے کافی تھی۔۔ اس سے ہ گارنٹی ہو جاتی کہ ہم پھیلتی سکڑتی کائنات میں پھنسے ہیں۔۔لیکن اس کے بعد ریکارڈو گیاکونی نے الگ الگ نکتوں سے ایکس ریز کا خراج دریافت کر لیا شاید یہ ہت دور کوسارز کا بڑا غول ہے۔۔یہ کائنات کے مادے کی بہت بڑی مقدار مہیا کرتا ہے جس کا پہلے علم نہ تھا۔۔ جب کائنات کا شمار مکمل ہوگیا اور تما کہشئاوں کوسارز بلیک ہول، کہکشائوں کے درمیان ہائیڈروجن، کشش ثقل کی لہروں اور کائنات کی ابھی تک اجنبی ایشا کی کمیت معلوم کر لی گئی تو پھر ہم جان سکیں گے کہ ہم کس قسم کی کائنات میں رہ رہے ہیں۔۔۔

        کائنات کے اس عظیم ڈھانچے سے بحث کرتے ہوئے اکثر فلکیات دانوں کا کہنا ہے کہ کائنات محدود ہے لیکن اس کی حد نہیں ہے۔۔ نہ جانے وہ کیا باتیں کر رہے ہیں لیکن ہم فرض کرتے ہیں کہ ہم ایک عجیب دنیا میں رہتے ہیں جہاں ہر چیز بالکل چپٹی ہے ایسی دنیا کا ڈئزائن ایبٹ ایڈون نے بنایا تھاق وہ ملکہ وکٹوریا کے دور میں شکسپئیر کا ایک عالم تھا

        جاری ہے
        :(

        Comment


        • #19
          Re: ابد کا کنارہ

          بہت خوب یعنی کہ آپ اپنے آپ کو ماہر فلکیات کہتے ہیں اور لکیر کے فقیر کی طرح جیسا لکھا ہے بغیر سوچے سمجھے لکھے جارہے ہیں
          کوئی بھی کہکشاں آج تک کی تاریخ میں ساڑھے تیرہ ارب نوری سال سے زیادہ فاصلہ پہ دریافت نہیں ہوئی جبھی سائنسدانوں کو یقین ہے
          یہ کائنات آج سے چودہ ارب سال پہلے وجود میں آئی اگر یہ کہکشائیں روشنی کی رفتار سے بھی دور جائیں تو چودہ ارب سال بنتے ہیں دو سو نوری سال نہیں
          ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
          سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

          Comment


          • #20
            Re: ابد کا کنارہ

            آج پھر آپ کے مضمون کا ایک ایک لفظ پڑھا

            آپ کی تمام تحریر سے جو میں اخز کر سکا ہوں وہ یہ ہےکہ آپ کے نزدیک کائینات کو بنانے والا کوئی نہیں

            سبھی جانتے ہیں کہ اس فورم کا سب سے ان پڑھ و جاہل فرد میں ہوں لیکن آپ کی تحاریر پڑھ کر شکر کرتا ہوں کہ الحمدُللہ اتنا علم اللہ نے مجھے نہیں دیا کہ مت ہی ماری جائے۔

            یقینی طور پر آپ ایک جاہل فرد کی کسی پوسٹ کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھیں گے کیونکہ آپ ٹھہرے منطقی اور میں ٹھہرا ایک خدا پر تکیہ کرنے والا۔

            سید مولانا جوہر علی سے کسی نے پوچھا کہ آپ خدا کو مانتے ہو عبادت کرتے ہو آخرت کے روز حساب کو مانتے ہو لیکن اگر مرنے کے بعد پتہ چلا کہ خدا نامی کوئی وجود نہیں ہے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

            تو مولانا جوہر علی نے جواب دیا کہ اگر مرنے کے بعد پتہ چلا کہ خدا نامی کوئی وجود نہیں ہے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو کچھ بھی نہیں کوئی بات نہیں اگر زندگی میں میں برائیوں سے بچ کر زندگی بسر کرتا رہا دنیاوی قوانین بھی تو یہی کہتے ہیں کہ کسی کہ حق مت چھینو زندگی میں کسی کو نقصان مت دو وغیرہ لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر میں خدا سے نہ ڈرتے ہوئے زندگی بدکاریوں میں گزار دوں اور مرنے کے بعد پتہ چلے کہ خدا ہے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت مار پڑے گی :(۔


            سو آپ کا کہا سر آنکھوں پر لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے مار سے ڈر لگتا ہے

            خدا آپ کےنزدیک دیومالائی قصے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اس کے باجود آپ اپنی تحریر میں کہیں کہیں لفظ خدا کو استعمال کرنے پر مجبور ہوئے۔

            اور میں اسی مجبوری کو خدا مانتا ہوں "میں جس کام کا ارادہ کرلوں اور پھر وہ نہ کر سکوں تو مجھے اندازہ ہوتا ہےکہ خدا ہے"۔

            ویسے آپ کے خلا اور میرے خدا میں کتنی مماثلت ہے اور آپ نے کہا کہ ""قوراک یا لیپٹان ایک مرغولے ایک نور کے سوا کچھ بھی نہیں"""۔

            میرا قرآن بھی کہتا ہے کہ خدا کا کوئی تصوراتی خاکہ نہیں وہ صرف ایک نور ہے ۔
            :star1:

            Comment


            • #21
              Re: ابد کا کنارہ

              اطہر بھائی ان جناب کو بات مکمل کرنے دیں جو قوارک کو فوٹون بنارہے ہیں اور زبردستی پوسیٹران جو پروٹان کا چھوٹا حصہ ہوتا ہے کو لپٹون جو الیکٹرون کا چھوٹا حصہ ہوتا ہے بنوارہے ہیں



              lepton...positron...quark
              ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
              سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

              Comment


              • #22
                Re: ابد کا کنارہ

                @

                پوسٹ نمبر سات میں میں خدا کے باب میں فلسفیوں کی رائے کی ترجمانی مختصرا لیکن اتنہائی جامع طور پرکر چکا ہوں لیکن حسب عادت، حسب دستور حسب روایات یہاں کچھ لوگ اپنے رویہ سے یہ ظاہر کر رہے کہ جذبات اور صرف جذبات یہی وہ مقدس دولت ہے جس کے استعمال کرنے کا حق قدرت نے انہی کے سپرد کر رکھا ہے ہماری تمام تر کاوشییں محض مذہب اور بحث برائے بحث تک محصور ہو گئی ہیں۔۔۔میں مودبانہ گزاش کروں گا جناب جمیل صاحب اور جناب ایس اے زیڈ سے
                کہ وہ براہ مہربانی پوسٹ پہ اور مجھ پہ رحم کھائیں خالص سئانسی نوعیت کی پوسٹ پہ اس قسم کی کج بحثی قلم کی فحاشی کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔اور دوسری بات میں کسی کا مقابل ہوں نہ کسی کا مدعی اور نہ کوئی میرا مقابل اور مدعی قرار دیا جائے۔۔جان لو کے مسابقت اور مقابلے مییں بڑے ہی فتنے ہیں اور ما ن لو اس میں روھوں کے لیے غلیظ بیماریوں کا عذاب پوشیدہ ہے۔۔۔
                :(

                Comment


                • #23
                  Re: ابد کا کنارہ

                  Originally posted by Dr Faustus View Post
                  @

                  پوسٹ نمبر سات میں میں خدا کے باب میں فلسفیوں کی رائے کی ترجمانی مختصرا لیکن اتنہائی جامع طور پرکر چکا ہوں لیکن حسب عادت، حسب دستور حسب روایات یہاں کچھ لوگ اپنے رویہ سے یہ ظاہر کر رہے کہ جذبات اور صرف جذبات یہی وہ مقدس دولت ہے جس کے استعمال کرنے کا حق قدرت نے انہی کے سپرد کر رکھا ہے ہماری تمام تر کاوشییں محض مذہب اور بحث برائے بحث تک محصور ہو گئی ہیں۔۔۔میں مودبانہ گزاش کروں گا جناب جمیل صاحب اور جناب ایس اے زیڈ سے
                  کہ وہ براہ مہربانی پوسٹ پہ اور مجھ پہ رحم کھائیں خالص سئانسی نوعیت کی پوسٹ پہ اس قسم کی کج بحثی قلم کی فحاشی کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔اور دوسری بات میں کسی کا مقابل ہوں نہ کسی کا مدعی اور نہ کوئی میرا مقابل اور مدعی قرار دیا جائے۔۔جان لو کے مسابقت اور مقابلے مییں بڑے ہی فتنے ہیں اور ما ن لو اس میں روھوں کے لیے غلیظ بیماریوں کا عذاب پوشیدہ ہے۔۔۔
                  آپ لفظوں کو گھما پھرا کر اگر یہ کہو کہ "جو دستاویز یہ کہتی ہیں کہ دنیا تخلیق کی گئی ایسی دستاویز کو رد کر دو"جو کہ قرآن بھی ہے "اور اشارو کنایوں میں خدا کے وجود سے انکار کرتے جاو اور کہو کہ صرف سائنسی طور پر بات کرو تو بھائی مجھ جسے نکمے مسلمان کو اتنا یاد ہے کہ اگر میں نے دجال کو یہ کہا کہ اچھا اگر تم خدا ہوتو کوئی نشانی دکھاو تب بھی میں ظالموں میں سے ہوجاوں گا"اگر مجھ کو اتنی بات کہنے سے بھی روکا گیا ہے تو میں صرف سائنس صرف سائنس کے رٹے میں خود کو رول نہیں سکتا۔


                  اُمید ہے آپ اپنی معلومات کا سلسلہ جاری رکھیں گے ۔
                  :star1:

                  Comment


                  • #24
                    Re: ابد کا کنارہ

                    Originally posted by S.A.Z View Post


                    آپ لفظوں کو گھما پھرا کر اگر یہ کہو کہ "جو دستاویز یہ کہتی ہیں کہ دنیا تخلیق کی گئی ایسی دستاویز کو رد کر دو"جو کہ قرآن بھی ہے "اور اشارو کنایوں میں خدا کے وجود سے انکار کرتے جاو اور کہو کہ صرف سائنسی طور پر بات کرو تو بھائی مجھ جسے نکمے مسلمان کو اتنا یاد ہے کہ اگر میں نے دجال کو یہ کہا کہ اچھا اگر تم خدا ہوتو کوئی نشانی دکھاو تب بھی میں ظالموں میں سے ہوجاوں گا"اگر مجھ کو اتنی بات کہنے سے بھی روکا گیا ہے تو میں صرف سائنس صرف سائنس کے رٹے میں خود کو رول نہیں سکتا۔


                    اُمید ہے آپ اپنی معلومات کا سلسلہ جاری رکھیں گے ۔


                    میرے بھائی یہی بات میں کب کا عرض کر رہا کے پوسٹ پڑھ کر رئپلائ کریں مں ہر سوال کا جواب دوں گا اب اپ کو ہی دیکھ لیجئے جس پیراگراف کو اپ نے کوٹ کیا وہ اس طرح لکھا ہے


                    کسی نے کہا ہے کہ دنیا تخلیق کی گئی ہے۔۔جو دستاویز یہ کہتی ہے وہ غلط ہے چنانچہ اسے رد کر دینا چاہیے۔۔اگر کسی دیوتا نے دنیا تخلیق کی ہے تو وہ تخلیق سے پہلے کہاں تھا؟ وہ کسی خام مال کے بغیر دنیا کیسے بنا سکتا تھا۔ اگر اپ کہیں کہ اس نے خام مال بنایا پھر دنیا تو اپ ایسے ہی سوالوں کے لا محدود سلسے میں گھر جائیں گے۔۔جان لیں کہ دنیا بنائی نہیں گئی جیسا کہ خود وقت ہے بغیر ابتدا بغیر انتہا کے اور یہ دنیا اصولوں پر قائم ہے۔

                    The Mohapurna_JInsena ( Hindostan 9th Century)


                    مطلب یہ مرے الفاظ نہییں ہیں بلکہ میں نے اگے کسی فلاسفر کو کوٹ کیا اور کوٹ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ اپ اس سے متفق ہیں۔۔سائنس اور فلاسفہ میں کیوں اور کیسے ہی کا تو سارا چکر اور پھر جب اپ علم حاصل کرنے کو اتے تو پھر اپ کو دوسرے کی بات سننا ہی پڑے گی چاہیے وہ کتینی ہی خلاف عقیدہ کیوں نہ ہو؟ پوسٹ نمبر سات کے ابتدائی بیراگراف میں میں نے خدا کے باب مییں جو بحث کی اپ اس پہ بات کرنا چاہتے تو جذبات کے بجائے عقل اور دلائل سے ائیں تحمل سے آئیں میں کھلے بازئوں سے آپ کو ویلکم کروں گا۔۔لیکن یہ جذبات میں جائیں تو پھر میرا اپ سے کوئی مقابلہ نہیں۔۔کیونکہ میں فورمز پہ جس طبقہ کی نمائندگی کرتا وہ سائنس اور فلاسفہ سے علاقہ رکھتی ہیں۔۔جان لیا جائے تاریخ اب چند شاہی خاندانوں یا قوموں کے عورج و زوال کی داستان نہیں رہی دانایان مغرب نے علوم جدیدہ کی مدد سے شجر و حجر، حیوان و انسن سب کی عہد بہ عہد ارتقا کی تاریخ مرتب کر لی ہے یہ دنیا کب وجود میں ایئ اس میں زندگی کے اثار کب اور کیسے نمودار ہوئے حیوانوں اور انسانوں کی ابتدائی شکلیں کیسی تھیں اور ان میں تبدیلیاں کیسے آءی اور تو اور اب مذہاب عالم کی تاریخ بھی مرتب ہو چکی اور میں نے مضامین سیکشن میں تقابلی مذاہب کے نام سے پوسٹ کی بھی تھی اپ پڑھ سکتے ہیں۔۔۔اور جب علم کے حصول کو دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ایک تخیل اور دوسرا تشکک۔۔تشکک ہمیں سراب اور حقیقت میں تمیز کا شعور دیتا ۔۔امید کرتا ہوں بات کلیر ہوگئی ہو گی

                    خوش رہیں

                    ڈاکٹر فاسٹس
                    :(

                    Comment


                    • #25
                      Re: ابد کا کنارہ

                      فوسٹس صاحب میں نے پہلی پوسٹ میں ہی واضح کر دیا کہ آپ کی تمام پوسٹس حرف بہ حرف پڑھی ہیں

                      آپ اپنی بات کو آگے چلائیں۔
                      :star1:

                      Comment


                      • #26
                        Re: ابد کا کنارہ

                        پوسٹ کو ‘‘بوجوہ’’ مختصر کر کے اختتام کر رہا ہوں گزشتہ قسط میں دوجہتی، تین جہتی اور چار جہتی دنیا پہ بحث کرنے لگا تھا لیکن اسے موخر کر دیا ہے۔۔پھر کبھی سہی۔۔۔۔۔ جان لیا جائے کہ اب کائنات بہت پیچدہ اور عظیم ہو گئی ہے سائنس نے کائنات کو تنگ نہیں وسیع کیا ہے وہ برابر پھیل رہی ہے اور پھیلتی جائے گی اور ادب اس وسعت، عظمت اور متحرک لامحدودیت مں پروز کرتا رہے گا۔۔۔اس ادب کا نشان تاریخ فکر و فن کے ان عظیم الشان سلسلوں میں ملے گا جن تک ہمارے ناقدوں کی رسائی نہیں اور جس کی محرمی اس وقت تک ان کو ھاصل نہ ہوگی جب تک وہ اپنی سہل انگاری، کم نظری، عقیدہ پرستی، اور فکر دشمنی سے باز نہیں آئیں گے۔۔

                        بہت زیادہ خوش رہیں

                        ڈاکٹر فاسٹس حاجی شاہ اٹک


                        ۔۔

                        کائنات کا مرکز کہاں ہے۔۔۔۔۔کیا کائنات کا کوئی کنارہ ہے۔۔۔ اس کے باہر کیا ہے۔۔۔دوجہتی کائنات میں جو تیسری جہت کے ذریعے مڑی ہوئی ہے اس کا کوئی مرکز نہیں۔۔۔۔ ایسی کائنات کا مرکز خود اس کائنات میں نہیں۔۔۔۔یہ ایک تیسری جہت میں ہے جس تک پہنچا نہیں جا سکتا۔۔۔ اس لیے کائنات کا اکوئی کنارہ نہیں۔۔یہ فنٹ ہے لیکن بے کنار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور
                        یہ سوال کہ اس کے باہر کیا ہے بے معنی ہے۔۔دو جہتی دنیا کے باشندے خود اپنے آپ اپنی دوجہتی دنیا سے آزاد نہیں ہو سکتے۔۔۔۔۔


                        تمام جہتوں میں ایک کا اضافہ کریں تو اپ ایسی صورت حال میں ہونگے جو ہم پر لاگو ہوتی ہے ایک چار جہتی کائنات جس کا کوئی مرکز ہے اور نہ کنارہ۔۔۔نہ اس کے باہر کچھ ہے۔۔۔ تمام ککشائیں ہم سے دور جاتی ہوئی کیوں محسوس ہو رہی ہیں ہائیپر سفیر کسی ایک نکتے سے پھیل رہا ہے۔۔جیسے چار جہتی غبارے نے پھول کر ہر سمت میں زیادہ سے زیادہ جگہ پیدا کر دی ہے۔۔۔۔۔۔۔ ایک مخصوص کہکشاں کے ماہرین فللکیات کا خیال ہے کہ تمام کہکشائیں ان سے دور بھاگ رہی ہیں۔۔۔ جتنی دور کہکشاں ہیں اتنی تیزی سے دور جا رہی ہیں۔۔اس گول کائنات کی سطع پر نہ کوئ حد ہے نہ مرکز۔۔۔۔۔ اور سوال کہ موجودہ کائنات میں بگ بینگ کہاں ہوا۔۔۔؟۔۔۔ اس کا جواب صاف ہے کہ ہر جگہ۔۔۔۔۔


                        اگر کائنات مں اتنا مادہ نہیں جو اسے ابد تک پھیلنے سے روک سکے تو پھر یہ کھلی شکل کی ہونی چہایے۔۔۔۔گھوڑے کی زمین کی طرح خمدار جس کی سطع تین جہتی تمثیل میں ابد تک پھیلی ہوئی ہے۔۔لیکن اگر اتنا زیادہ ہے تو پھر یہ بند شکل کی ہونی چاہیے کرے کی طرح گول۔۔۔اگر کائنات بند ہے تو روشنی اس سے باہر نیں نکل سکتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔1920 میں ایم31 کے بالکل مخلف سمت میں بہت دور دو کہکشائیں دیکھی گئیں۔۔۔دیکھنے والوں نے سوچا کہ کیا ممکن ہے کہ وہ دوسری سمت ست ایم31 اور ملکی وے دیکھ رہے ہوں؟ یہ بالکل ایسا تھا جیسے اپ اپنے سر کا پچھلا ھصہ دیکھ رہے ہوں۔۔اس کا مطلب یہ ہوتا کہ روشنی کائنات کا چکر لگا کر واپس اگئےی ہے۔۔۔۔لیکن اب ہم جانتے ہیں کہ کائنات اس سے کہیں زیادہ بڑی ہے جتنی وہ 1920 میں سمجھتے تھے۔۔۔۔روشنی کو کائنات کا چکر لگانے کے لیے کائنات کی عمر سے بھی زیادہ مدت درکار ہے اور کہکشائیں کائنات سے کم عمر ہیں۔۔ لیکن اگر کائنات بند ہے وار روشنی آزاد نہیں ہو سکتی تو پھر شاید یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ کائنات ایک بلیک ہول ہے۔۔۔اگر اپ جاننا چاہیں کہ بلیک ہول کے اندر کیا ہوتا ہے تو اپنے چاروں طرف نظر ڈال لیجئے۔۔



                        کائنات میں بغیر بے پایاں، فاصلہ طے کئے ہوئے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کا صرف ایک ہی ممکنہ طریقہ ہے۔۔۔۔۔۔۔جی ہاں ایک ہی طریقہ۔۔اور وہ یہ ہے وارم ہول۔۔۔۔ہم وارم ہول کے بارے میں صرف یہ تصور کر سکتے ہیں کہ یہ ایسی سرنگ ہے جو تین جہتی دنیا سے چار جہتی دنیا میں لے جاتی ہے۔۔ہمیں نہیں معلوم کہ کسی ایسے وارم ہول کا وجود ہے یہ نہیں لیکن اگر ایسا ہے تو پھر یقینا ہمیں کائنات کے کسی دوسرے ھصے تک لے جائے گا۔۔۔ یا شاید کسی اور کائنات م،یں۔۔۔۔کسی ایسی جگہ جو ہماری پہنچ سے باہر ہے۔۔۔۔ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ اور بھی بہت سے کائناتیں ہو سکتی ہیںً۔۔۔۔ایک دوسری کے بطن میں۔۔۔




                        ایک خیال ہے عجیب و غریب۔۔۔۔۔۔ حیران کن، آسیب زدہ۔۔۔، قدیم یادوں کو زندہ کرنے والا۔۔۔۔۔ سائنس یا مذہب مییں ایک قیاس بہت نفیس ہے جس کا کسی بھی طرح مظاہرہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔۔۔۔۔اور شاید یہ کبھی ثابت بھی نہ ہو سکے لیکن اس خیال سے ہمارے ہوش اڑ جاتے ہیں۔۔کہا جاتا ہے کہ کائناتوں کا ایک لامحدود سلسلہ ہے ۔۔۔یہاں تک کہ الیکٹرون جیسا بنیادی ذرہ بھی اگر س کے اندر جھانکا جائے تو وہ خود ایک بند کائنات ہے۔۔۔ اس کے اندر ہماری کہکشئوں کی ترتیب کی طرح لاتعداد اس سے چھوٹے ذرات ہیں جو ایک سطع پر خود ہی کائنات ہیں۔۔۔کائنات میں کائنات جس کا کوئی اختتام نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


                        جتنا میں جانتا ہوں یہ صرف ہندو دیو مالا ہے جو لا محدود کائناتوں کا تصور پیش کرتی ہے۔۔۔دوسری کائناتیں کس طرح کی ہو گی؟۔۔۔کیا وہ بالکل دوسرے طبقاتی اصولوں پر بنی ہو گئیں ۔۔۔۔۔۔کیا ان میں کہکشائیں۔۔۔ستارے۔۔۔اور سیارے ہونگے۔۔۔؟۔۔۔۔ ان میں جانے اور ان کو جاننے کے لیے ہمیں چوتھی جہت میں جانا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کوئی اسان مسلہ نہیں۔۔۔۔ لیکن شاید بلیک ہول ہمیں اس میں کوئ مدد دے سکے۔۔۔ہو سکات ہے کہ خود ہمارے پڑوس میں ایسے بلیک ہول ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو ابد کی سرحدوں پر کھڑے ہمارے منتظر ہوں۔۔۔



                        ختم شد
                        :rose
                        :(

                        Comment


                        • #27
                          Re: ابد کا کنارہ

                          آخری قسط یا حصہ بہت ہی زبردست تھا بماقبلہ شروعاتی چار جہتی یا فورتھ ڈائمنشن بہت ہی پیجیدہ معاملہ ہے اس پر تو پی ایچ ڈی ہونی چاہئے مگر یہ ہے کہاں اس کو کون دیکھ سکتا ہے ہم یا صرف وہ ذات جو غائب کا علم
                          کہتے ہیں جس دن فورتھ ڈائمشن پہ انسان کا تسلط ہوگیا اس کی طاقت خدا کے قریب ہوجائیگی وہ مستقبل ماضی سب میں جھانک سکے گا اس سے شائد بہت سے مسائل بھی پیدا ہوجائیں تو خدا ایسا کیوں چاہے گا

                          بہرحال اتنا قیمتی وقت دینے کا شکریہ
                          ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                          سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                          Comment

                          Working...
                          X