ابد کا کنارہ
کسی نے کہا ہے کہ دنیا تخلیق کی گئی ہے۔۔جو دستاویز یہ کہتی ہے وہ غلط ہے چنانچہ اسے رد کر دینا چاہیے۔۔اگر کسی دیوتا نے دنیا تخلیق کی ہے تو وہ تخلیق سے پہلے کہاں تھا؟ وہ کسی خام مال کے بغیر دنیا کیسے بنا سکتا تھا۔ اگر اپ کہیں کہ اس نے خام مال بنایا پھر دنیا تو اپ ایسے ہی سوالوں کے لا محدود سلسے میں گھر جائیں گے۔۔جان لیں کہ دنیا بنائی نہیں گئی جیسا کہ خود وقت ہے بغیر ابتدا بغیر انتہا کے اور یہ دنیا اصولوں پر قائم ہے۔
The Mohapurna_JInsena ( Hindostan 9th Century)
ایک تجربہ ایسا ہے جو ہر زبان اور ہر کلچر میں مشترک ہے اور وہ ہے پیدائش۔۔اپنی پیدائش کاہمارے ذہن مں دھندلا سا خاکہ ہوتا ہے۔ایک دھیما سا احساس ہلکی سی جھلک۔۔یہ یاداشتیں نہں ہو تیں۔۔۔اور یہ بڑی حیرت کی بات ہوتی اگر ہمارا ابتدئی تجربہ ہماری دیو مالا ، مذہب اور فلسفے اور سائنس پر اثر انداز نہ ہوا ہو۔۔ایک بچے کی پیدائش ہمارے ذہن میں دوسری چیزوں کے اسرار کے بارے میں سوالات پیدا کرتی ہے کہ دنیائوں کی پیدائش کائنات کی لامحدویت اور لافانیت۔۔وہ کیسے وجود میں آئی۔۔اس سے پہلے کیا تھا۔۔کیا ابتدا نہیں ہے؟ اس کے بارے میں سائنس کی تشریح ایک دھماکے سے شروع ہوتی ہے۔۔تقریبا پندرہ ارب سال پہلے کائنات میں موجود تمام مادہ اور توانئی ایہک چھوٹی سی جگہ پر جمع تھی ۔۔ایک پن کے سر کے برابر۔۔پھر کاسموس ایک عظیم دھماکے سے پھٹ گیا۔۔اس دھماکے کو بگ بینگ کہتے ہیں۔۔ اس دھماکے سے کائنات کا مادہ خلا مع خلا کے ڈھانچے کے چاروں طرف پھیلنے لگا اور اج تک پھل رہا ہے۔۔ شروع میں شدید گرم اور بالکل سفید تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ریڈایشن ٹھنڈی ہوتی گئی اور تمام نظر انے والی روشنی کے علاوہ خلا تاریکی میں ڈوب گیا جسیا کہ اج بھی ہے
پھر گیس کے چھوٹے چھوٹے علاقے بننا شروع ہو گئے ،مکڑی کے جالے جیسے جھنڈ وجود میں انے لگے۔۔بے ڈھنگے طریقے سے حرکت کرتی ہوئی عظیم کالونیاں۔۔آہستہ آہستہ گھومتی ہوئی اور دھیمی دھیمی چمکتی ہوئی چیزیں۔۔ جن مین اربوں روشن نکتے تھے۔۔کائنات میں ایک ہی نظر انے والا عظیم ڈھانچہ وجود میں اچکا تھا۔ ہم اج انہیں دیکھتے ہیں اور ان میں سے کسی ایک کے کونے پہ اباد ہیں۔۔ ہم انہیں کہکشائیں کہتے ہیں۔ کچھ بے شکل جھنڈ ہیں۔۔ کچھ باقاعدہ، کچھ گول، کچھ بیضوی، کچھ چکر دار ہیں۔ ہم نے کہکشائوں کی چھان بین ایک صدی سے بھی کم عرصے کی مدت سے شروع کی ہے ۔۔ان کی پیدائش ارتقا ور حرکت کی تحقیقات۔۔یہ تحقیق ہمارے شعور کو کائنات کے دور ترین کونوں میں لے جاتی ہے ہم کائنات کی اس عظیم ترین شکل دیکھنے کے قابل ہو گئے ہیں۔۔ہم پر کہکشائوں کی شان و شوکت سائنس نے ظاہر کی ہے۔ ستارے ہر کہکشاں میں مختلف ترتیب سے ہیں جب اتفاق سے کسی چکر دار کہکشاں کا رخ ہماری طرف ہوتا ہے تو ہمیں اس کے روشن بازو میں اربوں ستارے نظر اتے ہیں۔ جب اس کا کنارہ ہماری طرف ہوتا ہے تو ہم اس کے مرکز میں دھول اور گیس کے بادلوں کو گہرا ابر دیکھتے ہیں جہاں نئے ستارے بن رہے ہں،۔ اس کے وسیع بل کھاتے ہوئے بازووں میں کائناتی مادے کا دریا بہہ رہا ہے جو کہکشاں کے مرکز کو بازئوں سے ملاتا ہے۔۔انڈے کی شکل کی کہکشائیں۔۔دیو کی طرح بڑی اور بونوں کی طرح چھوٹی کہکشائیں۔۔بہت سی کہکشائیں پر اسرار ہیں جہاں کوئی خوفناک گڑ بڑ ہو گئی ہے۔۔اس میں دھماکے، ٹکراو، گیس کے چشمے اور ستارے جو کہکشائوں کے درمیان پل بن گئے ہیں۔۔
جاری ہے
کسی نے کہا ہے کہ دنیا تخلیق کی گئی ہے۔۔جو دستاویز یہ کہتی ہے وہ غلط ہے چنانچہ اسے رد کر دینا چاہیے۔۔اگر کسی دیوتا نے دنیا تخلیق کی ہے تو وہ تخلیق سے پہلے کہاں تھا؟ وہ کسی خام مال کے بغیر دنیا کیسے بنا سکتا تھا۔ اگر اپ کہیں کہ اس نے خام مال بنایا پھر دنیا تو اپ ایسے ہی سوالوں کے لا محدود سلسے میں گھر جائیں گے۔۔جان لیں کہ دنیا بنائی نہیں گئی جیسا کہ خود وقت ہے بغیر ابتدا بغیر انتہا کے اور یہ دنیا اصولوں پر قائم ہے۔
The Mohapurna_JInsena ( Hindostan 9th Century)
ایک تجربہ ایسا ہے جو ہر زبان اور ہر کلچر میں مشترک ہے اور وہ ہے پیدائش۔۔اپنی پیدائش کاہمارے ذہن مں دھندلا سا خاکہ ہوتا ہے۔ایک دھیما سا احساس ہلکی سی جھلک۔۔یہ یاداشتیں نہں ہو تیں۔۔۔اور یہ بڑی حیرت کی بات ہوتی اگر ہمارا ابتدئی تجربہ ہماری دیو مالا ، مذہب اور فلسفے اور سائنس پر اثر انداز نہ ہوا ہو۔۔ایک بچے کی پیدائش ہمارے ذہن میں دوسری چیزوں کے اسرار کے بارے میں سوالات پیدا کرتی ہے کہ دنیائوں کی پیدائش کائنات کی لامحدویت اور لافانیت۔۔وہ کیسے وجود میں آئی۔۔اس سے پہلے کیا تھا۔۔کیا ابتدا نہیں ہے؟ اس کے بارے میں سائنس کی تشریح ایک دھماکے سے شروع ہوتی ہے۔۔تقریبا پندرہ ارب سال پہلے کائنات میں موجود تمام مادہ اور توانئی ایہک چھوٹی سی جگہ پر جمع تھی ۔۔ایک پن کے سر کے برابر۔۔پھر کاسموس ایک عظیم دھماکے سے پھٹ گیا۔۔اس دھماکے کو بگ بینگ کہتے ہیں۔۔ اس دھماکے سے کائنات کا مادہ خلا مع خلا کے ڈھانچے کے چاروں طرف پھیلنے لگا اور اج تک پھل رہا ہے۔۔ شروع میں شدید گرم اور بالکل سفید تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ریڈایشن ٹھنڈی ہوتی گئی اور تمام نظر انے والی روشنی کے علاوہ خلا تاریکی میں ڈوب گیا جسیا کہ اج بھی ہے
پھر گیس کے چھوٹے چھوٹے علاقے بننا شروع ہو گئے ،مکڑی کے جالے جیسے جھنڈ وجود میں انے لگے۔۔بے ڈھنگے طریقے سے حرکت کرتی ہوئی عظیم کالونیاں۔۔آہستہ آہستہ گھومتی ہوئی اور دھیمی دھیمی چمکتی ہوئی چیزیں۔۔ جن مین اربوں روشن نکتے تھے۔۔کائنات میں ایک ہی نظر انے والا عظیم ڈھانچہ وجود میں اچکا تھا۔ ہم اج انہیں دیکھتے ہیں اور ان میں سے کسی ایک کے کونے پہ اباد ہیں۔۔ ہم انہیں کہکشائیں کہتے ہیں۔ کچھ بے شکل جھنڈ ہیں۔۔ کچھ باقاعدہ، کچھ گول، کچھ بیضوی، کچھ چکر دار ہیں۔ ہم نے کہکشائوں کی چھان بین ایک صدی سے بھی کم عرصے کی مدت سے شروع کی ہے ۔۔ان کی پیدائش ارتقا ور حرکت کی تحقیقات۔۔یہ تحقیق ہمارے شعور کو کائنات کے دور ترین کونوں میں لے جاتی ہے ہم کائنات کی اس عظیم ترین شکل دیکھنے کے قابل ہو گئے ہیں۔۔ہم پر کہکشائوں کی شان و شوکت سائنس نے ظاہر کی ہے۔ ستارے ہر کہکشاں میں مختلف ترتیب سے ہیں جب اتفاق سے کسی چکر دار کہکشاں کا رخ ہماری طرف ہوتا ہے تو ہمیں اس کے روشن بازو میں اربوں ستارے نظر اتے ہیں۔ جب اس کا کنارہ ہماری طرف ہوتا ہے تو ہم اس کے مرکز میں دھول اور گیس کے بادلوں کو گہرا ابر دیکھتے ہیں جہاں نئے ستارے بن رہے ہں،۔ اس کے وسیع بل کھاتے ہوئے بازووں میں کائناتی مادے کا دریا بہہ رہا ہے جو کہکشاں کے مرکز کو بازئوں سے ملاتا ہے۔۔انڈے کی شکل کی کہکشائیں۔۔دیو کی طرح بڑی اور بونوں کی طرح چھوٹی کہکشائیں۔۔بہت سی کہکشائیں پر اسرار ہیں جہاں کوئی خوفناک گڑ بڑ ہو گئی ہے۔۔اس میں دھماکے، ٹکراو، گیس کے چشمے اور ستارے جو کہکشائوں کے درمیان پل بن گئے ہیں۔۔
جاری ہے
Comment