Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

ابد کا کنارہ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • ابد کا کنارہ

    ابد کا کنارہ


    کسی نے کہا ہے کہ دنیا تخلیق کی گئی ہے۔۔جو دستاویز یہ کہتی ہے وہ غلط ہے چنانچہ اسے رد کر دینا چاہیے۔۔اگر کسی دیوتا نے دنیا تخلیق کی ہے تو وہ تخلیق سے پہلے کہاں تھا؟ وہ کسی خام مال کے بغیر دنیا کیسے بنا سکتا تھا۔ اگر اپ کہیں کہ اس نے خام مال بنایا پھر دنیا تو اپ ایسے ہی سوالوں کے لا محدود سلسے میں گھر جائیں گے۔۔جان لیں کہ دنیا بنائی نہیں گئی جیسا کہ خود وقت ہے بغیر ابتدا بغیر انتہا کے اور یہ دنیا اصولوں پر قائم ہے۔

    The Mohapurna_JInsena ( Hindostan 9th Century)


    ایک تجربہ ایسا ہے جو ہر زبان اور ہر کلچر میں مشترک ہے اور وہ ہے پیدائش۔۔اپنی پیدائش کاہمارے ذہن مں دھندلا سا خاکہ ہوتا ہے۔ایک دھیما سا احساس ہلکی سی جھلک۔۔یہ یاداشتیں نہں ہو تیں۔۔۔اور یہ بڑی حیرت کی بات ہوتی اگر ہمارا ابتدئی تجربہ ہماری دیو مالا ، مذہب اور فلسفے اور سائنس پر اثر انداز نہ ہوا ہو۔۔ایک بچے کی پیدائش ہمارے ذہن میں دوسری چیزوں کے اسرار کے بارے میں سوالات پیدا کرتی ہے کہ دنیائوں کی پیدائش کائنات کی لامحدویت اور لافانیت۔۔وہ کیسے وجود میں آئی۔۔اس سے پہلے کیا تھا۔۔کیا ابتدا نہیں ہے؟ اس کے بارے میں سائنس کی تشریح ایک دھماکے سے شروع ہوتی ہے۔۔تقریبا پندرہ ارب سال پہلے کائنات میں موجود تمام مادہ اور توانئی ایہک چھوٹی سی جگہ پر جمع تھی ۔۔ایک پن کے سر کے برابر۔۔پھر کاسموس ایک عظیم دھماکے سے پھٹ گیا۔۔اس دھماکے کو بگ بینگ کہتے ہیں۔۔ اس دھماکے سے کائنات کا مادہ خلا مع خلا کے ڈھانچے کے چاروں طرف پھیلنے لگا اور اج تک پھل رہا ہے۔۔ شروع میں شدید گرم اور بالکل سفید تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ریڈایشن ٹھنڈی ہوتی گئی اور تمام نظر انے والی روشنی کے علاوہ خلا تاریکی میں ڈوب گیا جسیا کہ اج بھی ہے

    پھر گیس کے چھوٹے چھوٹے علاقے بننا شروع ہو گئے ،مکڑی کے جالے جیسے جھنڈ وجود میں انے لگے۔۔بے ڈھنگے طریقے سے حرکت کرتی ہوئی عظیم کالونیاں۔۔آہستہ آہستہ گھومتی ہوئی اور دھیمی دھیمی چمکتی ہوئی چیزیں۔۔ جن مین اربوں روشن نکتے تھے۔۔کائنات میں ایک ہی نظر انے والا عظیم ڈھانچہ وجود میں اچکا تھا۔ ہم اج انہیں دیکھتے ہیں اور ان میں سے کسی ایک کے کونے پہ اباد ہیں۔۔ ہم انہیں کہکشائیں کہتے ہیں۔ کچھ بے شکل جھنڈ ہیں۔۔ کچھ باقاعدہ، کچھ گول، کچھ بیضوی، کچھ چکر دار ہیں۔ ہم نے کہکشائوں کی چھان بین ایک صدی سے بھی کم عرصے کی مدت سے شروع کی ہے ۔۔ان کی پیدائش ارتقا ور حرکت کی تحقیقات۔۔یہ تحقیق ہمارے شعور کو کائنات کے دور ترین کونوں میں لے جاتی ہے ہم کائنات کی اس عظیم ترین شکل دیکھنے کے قابل ہو گئے ہیں۔۔ہم پر کہکشائوں کی شان و شوکت سائنس نے ظاہر کی ہے۔ ستارے ہر کہکشاں میں مختلف ترتیب سے ہیں جب اتفاق سے کسی چکر دار کہکشاں کا رخ ہماری طرف ہوتا ہے تو ہمیں اس کے روشن بازو میں اربوں ستارے نظر اتے ہیں۔ جب اس کا کنارہ ہماری طرف ہوتا ہے تو ہم اس کے مرکز میں دھول اور گیس کے بادلوں کو گہرا ابر دیکھتے ہیں جہاں نئے ستارے بن رہے ہں،۔ اس کے وسیع بل کھاتے ہوئے بازووں میں کائناتی مادے کا دریا بہہ رہا ہے جو کہکشاں کے مرکز کو بازئوں سے ملاتا ہے۔۔انڈے کی شکل کی کہکشائیں۔۔دیو کی طرح بڑی اور بونوں کی طرح چھوٹی کہکشائیں۔۔بہت سی کہکشائیں پر اسرار ہیں جہاں کوئی خوفناک گڑ بڑ ہو گئی ہے۔۔اس میں دھماکے، ٹکراو، گیس کے چشمے اور ستارے جو کہکشائوں کے درمیان پل بن گئے ہیں۔۔


    جاری ہے
    :(

  • #2
    Re: ابد کا کنارہ

    بہت عمدہ اگر کہنے کا حق سب کو ہے تو معاف کیجئے گا پوچھنے والے یہ بھی پوچھ سکتے ہیں وہ مادہ چاہے سوئی جتنا کہاں سے آیا جب خدا ہمیشہ سے نہیں ہوسکتا اور بغیر مادہ کائنات تو مادہ کہاں سے آ سکتا ہے؟
    ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
    سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

    Comment


    • #3
      Re: ابد کا کنارہ

      @

      جمیل جیسے جیسے یہ پوسٹ اگے بڑھتی اپ کو اس سوال کا جواب بھی مل جائے گا خوش رہیں۔



      کہکشائیں بظاہر ٹھہری ہوئی بے حرکت نظر اتی ہیں کیوکہ ہم کائناتی فلم کا صرف اک فریم دیکھ رہے ہیں۔۔وہ حرکت کر رہی ہیں۔۔ان کے بازو گھوم رہے ہیں اور شکلیں بدل رہی ہیں لیکن یہ عمل کروڑوں سالوں میں ہوتا ہے۔ایک کہشاں اربوں سورجوں سے ملکر بنی یے جو کشش کی وجہ سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ مختلف شکلوں کے دیو قامت کہکشائیں پوری کائنات میں بکھری پڑی ہیں۔۔ان کا ارتقا ہر جگہ بالکل ایک ہی انداز اور ایک ہی طرح کے طبعی قوانین کے مطابق ہوتا ہے۔جب کہکشائیں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں تو بالکل ایسا لگتا ہے جیسے کہ کوئ گولی شہد کی مکھیوں کے جھنڈ سے نکل گئی ہو ستارے شاید ہی کبھی ٹکراتے ہوں لیکن کہکشاوں کی شکل بگڑ جاتئ ہے۔۔دو کہکشاوں کی ٹکر کئی کروڑ سال تک جاری رہتی ہےا اور ان ک ستاروں کو خلا میں بکھھیر دیتی ہیں۔۔جب اک چھوٹی کہکشاں ایک بڑ ی کہکشاں میں گھس جاتی ہے تو بہت خوبصورت منظر ہوتا ہے۔۔کائناتی خلا کے مخمل میں جڑی ہوئی ہزاروں نوری سال لمبی حلقے دار کہکشائیں۔۔۔ کچھ وقت کے لیے ادھر ادھر بھٹکنے والے ستاروں کا مجموعہ بن جاتا ہے۔۔کائنات کا تالاب میں ایک چھپاکہ ہوتا ہے۔۔کبھی کبھی کہکشائیں خود کو تباہ بھی کر لیتی ہیں۔۔کواسارز جو اربوں نوری سال دور ہیں نوجوان کہکشائوں کے اسی ٹکراو کا نتیجہ ہیں لیکن یہ ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے ہیں کو سارز ابھی تک ایک راز ہیں۔۔کہکشائیں کائناتی ترتیب اور حسن کی علامت ہیں لیکن ان کے ساتھ ہی بد نظمی اور خوفناک شدتوں کا اظہار بھی کرتی ہیں جو ہمارے خواب و خیال میں بھی نہیں آسکتا۔۔کائنات نہ مہربان ہے نہ دشمن بس وہ ہم جیسی مخلوق کے مسائل سے لاتعلق ہے۔۔






      جاری ہے
      :(

      Comment


      • #4
        Re: ابد کا کنارہ

        ممکن ہے کوسارز تیزی سے گھومنے والے پیلسار کی کوئی دیوقامت شکل ہوں۔۔یا ہوسکتا ہے کہ کوسارز کہکشائوں کے مرکز پر جمع لاکھوں ستاروں کے تکڑاو کا نتیجہ ہوں جو ایک کہکشاں کے مرکز مں بہت بڑے بلیک ہول میں ٹکرا کر گر رہے ہوں۔۔۔۔بلیک ہول ہی جیسی چیز،کوئی بہت کثیف بہت ٹھوس اور چھوٹی سی چیز ہماری پروسی کہکشاں میں ٹک ٹک اور خر خر کر رہی ہے۔۔ ہماری اپنی ملکی وے کے ستارے بڑے باوقار اور ترتیب سے ھرکت کرتے ہیں۔۔ہمارا سورج اس کہکشاں کے مرکز کے گرد ایک چکر پچیس کروڑ سال میں پورا کرا ہے۔۔اس کہکشاں کے بیرونی حصے اور اندرونی علاقوں کے مقابلے میں اہستہ گردش کرتے ہیں اس کے نتیجے میں دھول اور گیس چکراتے ہوئے بادلوں کی شکل میں جمع ہوجاتی ہے یہ بادل بہت ٹھوس ہوتے ہیں یہیں نئے ستارے پیدا ہوتے ہیں یہ ستارے تقریبا ایک کروڑ سال تک چمکتے ہیں پھر پھٹ جاتے ہیں۔۔


        سورج اپنی پیدائش کے بعد سے تین بار ملکی وے کا چکر لگا چکا ہے اج کل ہم اپنی کہکشاں کے بل کھاے ہوئے بازو کے کنارے پہ اباد ہیں۔ہماری کہشاں دس لاکھ نوری سال لمبی ہے اس کے اندر حرکت جاری رہتی ہے اور کود کہکشاں بھی حرکت کرتی ہے جو اربوں نوری سال پر پھیلی ہوئی ہے یہ حرکت بگ بینگ کی علامت ہے۔۔ پوری کائنات کا مطالعہ قدرت کے تمام مظاہر سے کیا جسکتا ہے۔۔ زندگی کے روزمرہ تجربات۔۔۔حرکت کوتی ہوئی چیزیں لہرہں پیدا کرتی ہیں۔۔یہ لہریں روشنی کی بھی ہو سکتی ہیں اور آواز کی بھی یہ کسی بھی طرح کی لرہں ہو سکتی ہیں



        جاری ہے
        :(

        Comment


        • #5
          Re: ابد کا کنارہ

          @
          جمیل اس ھصے میں اپ کو اپنے سوال کی کچھ وضاعت مل جائے گی باقی پوسٹ اہسہ اہستہ اگے بڑھتی رہے گی


          جب کوئی حرکت کوتی ہوئی چیز ہمارے قریب سے گزرتی ہے تو ہم اس کی اواز کی سطع میں تبدیلی محسوس کرتے ہیں اسے ڈوپلر ایفکٹ کہا جاتا ہے۔۔یہ دریادفت کر لیا گیا ہے کہ روشنی کا ڈوپلر افیکٹ کائنات کی چابی ہے کہکشائوں کے پیچھے روشنی کی ایک سرخی مائل لکیر جو ریڈ شفٹ کہلاتی طاہر کرتی ہے کہکشائیں ہم سے دور جا رہی ہیں۔۔لیکن کہکشائیں ہم سے گریزاں کیوں ہیں کیا اس کی وجہ یہ کہ کئنات میں ہمارا کوئی اہم مقام ہے؟ یا ہم نے کہکشائوں کی سماجی زندگی میں کوئی ایسا گناہ یا غلطی کر دی ہے کہ سب ہم سے دور بھاگ رہے ہیں؟ زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ خود کائنات پھیل رہی ہے اور کہکشائوں کو اپنے ساتھ لیے ہوئے۔۔آہسہ آہستہ یہ واضح ہو گیا ہبل نے بگ بینگ دریافت کر لیا تھا اگر یہ کائنات کی ابتدا نہیں تو بھی کم از کم اس کا موجود جنم ضرور ہے۔

          اگر پھیلتی ہوئی کائنات میں بگ بینگ کا نظریہ درست ہے تو پھر ہمارے سامنے کچھ اور مشکل سوالات اجائے گے کہ بگ بینگ کے وقت صورت حال کیا تھی؟ اس سے پہلے کیا ہوا کیا مادہ سے عاری کوئی ننھی سی کائنات تھی اور پھر یکایک مادہ عدم سے وجود میں اگیا؟ ایسا کیسے ہوا؟ بہت سی تہذیبوں میں عام طور پر یہی جوا ب دیا گیا کہ خدا نے کائنات تخلیق کی۔۔یہ تو محض ٹل مٹول والی بات تھی۔۔۔ اگر ہم اس سوال کو بہادری سے اگے بڑھائے تو اگلا سوال ہوگا کہ خدا کہاں سے آیا؟ اور اگر ہم فیصلہ کر لیں کہ اس سوال کا کوئی جواب نہیں تو پھر یہ فیصلہ کیوں نہ کریں کہ کائنات کی ابتدا کے سوال کا کوئی جواب نیں ہے۔۔اور اگر ہم یہ کہیں کہ خدا ہمیشہ سے موجود تھا تو پھر یہ کیوں نہ کہیں کہ کائنات بھی ہمیشہ سے موجود تھی۔۔۔۔


          ہر تہہذیب میں دنیا کی تخلیق سے پہلے اور دنیا کی تخلیق کا ذکر ان کی دیو مالا میں موجود ہے اکثر تو دیوتائوں کی جنسی خرمستیوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اور پھر کوئی کائناتی اندا تھا جس سے یہ سب کچھ برامد ہوا۔۔عام طور پر بڑی معصومیت سے کائنات کو کسی انسان یا جانور کا سلسلہ ظاہر کیا جاتا ہے۔۔یہ پانچ مثالیں مختلف دیوا مالا سے لی گئیں ہیں



          جاری ہے
          :(

          Comment


          • #6
            Re: ابد کا کنارہ

            تحریر شاندار جا رہی ہے جب یہ فیصلہ ہونا ہی نا ممکن ہے تو ہمیں خدا پہ یقین یا ہونے کا یقین کیوں نہیں کرنا چاہئے ، بگ بینگ ایک تھیوری ہے نظریہ کوئی حتمی بات نہیں
            سب سے پہلے تو یہ بات سمجھنی چاہئے کسی بھی چیز یا چیزوں کو سلیقہ رکھنے کے لئے ایک سلیقہ مند ہستی چاہئے ، بالفرض ایک سیکنڈ کے لئے تصور کریں اس کائنات
            جو اربوں میل پھیلی اور گھربوں ٹن وزنی ہے ایک سوئی کے ناکہ جتنے مادہ سے وجود میں آنا پھر پیڑ پودے جانور انسان ، اس پہ بھی مقناسی فضائی پٹی ،اوزون کی تہ ۔
            ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
            سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

            Comment


            • #7
              Re: ابد کا کنارہ

              Originally posted by Sub-Zero View Post
              Originally posted by Sub-Zero View Post
              تحریر شاندار جا رہی ہے جب یہ فیصلہ ہونا ہی نا ممکن ہے تو ہمیں خدا پہ یقین یا ہونے کا یقین کیوں نہیں کرنا چاہئے ، بگ بینگ ایک تھیوری ہے نظریہ کوئی حتمی بات نہیں
              سب سے پہلے تو یہ بات سمجھنی چاہئے کسی بھی چیز یا چیزوں کو سلیقہ رکھنے کے لئے ایک سلیقہ مند ہستی چاہئے ، بالفرض ایک سیکنڈ کے لئے تصور کریں اس کائنات
              جو اربوں میل پھیلی اور گھربوں ٹن وزنی ہے ایک سوئی کے ناکہ جتنے مادہ سے وجود میں آنا پھر پیڑ پودے جانور انسان ، اس پہ بھی مقناسی فضائی پٹی ،اوزون کی تہ ۔




              جانی بات یہ ہے کہ یہ سوال اتنا سیدھا نہیں اور مجھ سے شکی جو ہربات پہ کیوں اور کیسے کی صدا بلند کرتا اس پہ یقین لانا میرے لیے بعید از قیاس ہے اب میری سنو۔۔۔فلسفے کے اغاز سے لیکر اب تک یہ سوال ہر فلسفی کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔۔فلسفے کا سب سے زیادہ دقیق شعبہ مابعد الطبعیات یا فلسفہ اولیٰ اسی سوال سے بحث کرتا ہے۔۔ہم دیکھتے ہیں کہ فلسفیوں سے جس چیز کے بارے میں بار بار سوال کیا جاتا ہے وہ یہی ہے۔۔ایک مرتبہ یونان سوفسطائی مفکر پروتاگورس سے کسی دانش طلب نے سوال کیا کہ وجود خدا کے باب میں آپ کی کیا رائے ہے؟ سو فسطائی مفکر نے جواب دیا اے شخص مسئلہ پیچیدہ ہے اور عمر کم لہذا میں کوئی جواب نہیں دے سکتا؛؛حقیقت یہ ہے کہ آج کو کوئ ذًے دار فلسفی بھی اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا۔ یہ صھیح ہے کہ بہت سے فلسفیوں نے خدا کے وجود کو ثابت کرنے کو کوشش کی ہے لیکن یہ جان لینا ضروری ہے کہ فلسفیوں کا خدا ارباب مذہب کے خدا سے بالکل مختلف ہے۔یعنی قصہ مختصر فلسفے کو کوئی اسکول بھی اس سوال کی تکسین نہیں کر سکا اب یہی صورت کہ اس سوال کے سلسے میں اب ہم مذہب سے رجوع کریں مگر مذہب کو یہ دقت پیش ائے گی کہ وہ اس بحث کے دوران مذہب نہیں رہے گا بلکہ فلسفہ یا منطق بن جائے گھا اور اگر بہت زیادہ احتیاط بھی برتی جائے تو کم از کم علم الخلاف کی شکل اختیار کئے بغیر چارہ نہیں اور علم الخلاف فلسفے اور منطق ہی کے کارخانے کا ڈھلا ہوا سکہ ہے۔ مختصر یہ کہ مذہب اپنی حدود میں رہ کر اس مسئلے کا حل نہیں پیش کر سکتا اور حدود سے تجاوز کرنا کم از کم مذہب کا شیوہ نہیں۔

              اب رہی اپ کی دوسری بات کے سوئی کی نوک جتنے مادے سے کائنات کیسے وجود میں آئی تو جانی سن کان کھول کے سن اج میں لہر میں ہوں تو سن جسے کو مادے کہتے جو جابجا دیکھ رہا کچھ بھی نہیں ہے مادہ اٹیم سے ملکر بنا اور اٹیم کچھ بنیادی ذرات سے جیسے الیکٹورون، پروٹان، نیوٹرون سے اور یہ بنیادی ذرےکس سے بنے۔۔قوارک سے اور قوراک کیا ہے،،صرف روشنی یعنی غیر مادی۔۔تو کیا سمجھا؟؟؟ روشنی سے قوراک بنے قواراک ملکر پروٹان، نیو ٹرون الیکڑان بنے، اور پروٹان الیکٹران نیوٹران ملکر اٹیم بنے اٹیم ملکر مالیکول بنے اور مالیکول ملر عنصر بنے اور عنصت ملکر مرکبات بنے مادہ جو جا بجا نظر اتا لیکن حقیقت میں یہ کچھ نہیں۔اگر کائنات کی تمام مادے سے خلا نکال دو تو سوئی کی نوک کے برابر مادہ ہی بچے گا اور اور اور سن یہ فلسفہ ہے ذہن کی انتہا کی دلیری اس کی زبان سے سن
              کن فیکون یا بگ بینگ کچھ نہیں ہے اگر کسی میں خدائی صفات ہیں تو تو وہ چیز صرف اور صرف خلا ہے کیا سمجھے ’خلا‘‘ کیوں خدائی صفات یں خلا میں غور سے سن اور کانپ
              تمام کائنات میں سب سے بڑا اور عظیم خلا ہے اس کی کوئی حد نہیں کوئی ابتدا نہیں جوئی انتہا نہیں اس کی بڑائی کا اندازہ اس سے لگاو کہ ان گنت عظیم ترین کہکشائیں خلا کے جس حصے سے گزر جائیں تو دوبارہ وہاں سے ان کا کوئی گزر نہیں ہوتا۔۔ایک سو ارب نوری سال کے فاصلے تک کوسارز دریافت ہوچکے لیکن خلا اس سے بھی بہت اگے اتنا اگے کے تمہاری کیلکولیشنز ختم ہو جائیں۔

              خلا ایک ہے واحد ہے ۔تمام کائنات نوع نوع کی مادی اشیا سے بھری پڑی لیکن اگر کوئی ہر جانب یکساں صورت اور خواص رکھنے والی ہے تو وہ خلا ہے سیاروں ستاروں کے علاوہ فلکی اجسام میں سے بھی کوئی بالکل اس جیسا نہیں۔خلا کا تسلسل کہیں ختم نہیں ہوتا۔

              خلا کسی سے پیدا نہیں ہوا اس کائنات میں صرگ خلا ہی ’’خود آ‘‘ ہے باقی مادہ توانائی اور توانئی مادے میں تبدیل ہو رہی ہے اور یہ سلسہ خلا میں جاری ہے۔۔مادی چیزیں اپنے وجود کے لئے خلا ک محتاج ہیں کیونکہ مادہ جگہ گھیرتا ہے اور یہ جگہ خلا فراہم کرتا ہے۔۔لیکن خلا کسی کا محتاج نہیں وہ بے نیاز ہے۔۔مادی اشا تغیر کا شکار رہتی ہیں اور کوئی مادی شکل برقرار نہیں۔۔ اسے اخر کار زوال اتا ہے جب کہ خلا۔۔ابدی اور لازاوال ہے

              خلا کی چوتھی سمت یعنی فورتھ ڈائنمشن وقت ہے ہر شے رقی و تنزلی کے لیے خلا کی اس سمت کی محتاج ہے۔۔پیدا ہونے سے مرنے تک کے مرحلے کو وقت کی ضرورت ہوتی ہے یوں خلا عروج بھی دیتی ہے اور زوال بھی۔۔۔ وقت ہر شے پہ قادر ہے چونکہ خلا سے وقت کو اور وقت کو خلا سے جدا نہیں کیا جساکتا لہذا خلا کی صفت یہ ہوئی کی خلا زندگی اور موت دینے پہ قادر ہے ۔۔کائنات کے ذرے ذرے میں خلا سمایا ہوا ہے خلا ہر جگہ حاضر و ناظر ہے ٹھوس ترین چیزوں کے ایٹموں میں بھی خلا ہے اور اگر تمام کہکشائوں سے خلا نکال لیا جائے تو سوئی کی نوک برابر مادہ بچے گا اور وہ بھی ضد مادہ سے ٹکا کر فنا ہوجائے گا اور باقی کیا بچے گا خلا ابدی اورلازوال خلا۔۔۔کائنات میں مادہ ہر جگہ موجود نہیں صرف اور صرف خلا ہی ہر جگہ ھضر و ںاطر ہے۔۔لے اس مسئلے کا حل تیرے سامنے ہے اس کو پڑھ بار بار پڑھ اور یار رکھ صوفی ہمیشہ سے لا کی تبلیغ کرتے ائے لا کلمے کا پہلا حرف لا نہیں اور ہے یعنی خلا جو لا بھی ہے اور موجود بھی ہے۔۔

              خوش رہو میاں


              تاریخ روزگار فنا لکھ رہا ہوں میں
              دیباچہ وجود پہ لا لکھ رہا ہوں میں

              پہنائی سکوت میں گم ہے تمام تر
              اور اس تمام تر میں صدا لکھ رہا ہوں میں

              :(

              Comment


              • #8
                Re: ابد کا کنارہ

                اس کا مفصل جواب آپ کی خدمت میں کل پیش کروں گا
                ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                Comment


                • #9
                  Re: ابد کا کنارہ

                  @ Topic


                  عام طور پر بڑی معصومیت سے کائنات کو کسی انسان یا جانور کا سلسلہ ظاہر کیا جاتا ہے۔۔یہ پانچ مثالیں مختلف دیوا مالا سے لی گئیں ہیں۔۔
                  ابتدا میں ہر چیز مکمل تاریکی میں ساکن تھی، رات نے ہر چیز کو ایک چادر کی طرح چھپا رکھا تھا


                  The Great Father Myth of the Aranda People of Contral AusTalia


                  ہر چیز تذبذب میں تھی، مکمل خاموشی مکمل خاموشی اور مکمل طور پہ بے حرکت، ساکن اور پورے اسمان کی وسعت خالی پڑی تھی

                  The Popol Vuh Of the Quiche Maya

                  ںارائین خلا مں ایک بادل کی طرح تنہا بیٹھا تھا جو معدوم میں تیر رہا تھا وہ سویا نہیں اس یے کہ نیند تھی ہی نہیں اسے بھوک نہیں لگی اس لیے کہ ابھی تک بھوک تھی ہی نہیں۔۔بہت طویل عرصہ تک وہ ایسے رہا یہاں تک کے اس کے دماغ میں اک خیال آیا اسے نہ خود سے کہا ‘“ میں ایک چیز بناو گا’’۔۔


                  A Myth From Maiana.Gilbert Island

                  سب سے پہلے ایک کائناتی انڈا تھا اس انڈے کے اندر انتشار پیدا ہوا اور انتشار میں تیرتا ہوا پان کو نامکمل خدائی رحم میں اور پان کو انڈا توڑ کر باہر نکلا۔آج کے انسان سے چار گنا بڑا اس کے ایک ہاتھ میں ہتھوڑا اور دوسرے ہاتھ میں چھینی تھی جس سے اس نے ی دنیا گھڑی۔

                  The Pan Ku Myths, china ( around Third Century)


                  زمین اور اسمان کے وجود میں انے سے پہلے ہر چیز مبہم اور بے شکل تھی جو چیز صاف تھی وہ روشنی مل کر اسمان بن گئے جو چیز بھاری اور گدلی تھی جم کر زمین بن گئی۔پاک و شفاف چیزوں کا ایک جگہ جمع ہونا بہت اسان تھا لیکن گدلی اور بھاری چیزوں کا جمنا مشکل۔ چنانچہ اسمان پہلے مکمل ہو گئے اور زمین بعد میں۔ جب اسمان اور زمین خالی پن میں اک دوسرے سے جڑ گئے اور سب کچھ بالکل سادہ تھا تب چیزیں تخلیق کئے بغیر وجود میں آگئیں۔۔یہ ایک عظیم یکتائی تھی ہر چیز اس یکتائی سے نکلی تھیںB لیکن سب مختلف ہو گئیں


                  Huai Nan zu.China


                  یہ دیو مالائیں انسان کی جرات اور بے باکی کی علامت ہیں ہماری بگ بیبنگ کی ماڈرن اور سائنسی دیو مالا اور ان کے درمیان فرق یہ ہے سائنس خود سوال کرتی رہتی ہے اور ہم اپنے نظریات اور مشاہدات پرکھ سکتے ہیں لیکن تخلیق کی یہ مالا کہنیاں ہمارے گہرے احترام کی مستحق ہیں۔۔۔



                  جاری ہے
                  :(

                  Comment


                  • #10
                    Re: ابد کا کنارہ

                    Originally posted by Sub-Zero View Post
                    اس کا مفصل جواب آپ کی خدمت میں کل پیش کروں گا
                    شوق سے پیش کریں لیکن سوچ سمجھ لینا جواب اسی زبان میں ہوناچاہیے جس میں میں نے جواب داخل کیا یعنی فلسفے، سائنس، اور تصوف کی زبان میں۔۔۔ باقی یہ قصہ کہانیوں عقائد وغیرہ وغیرہ سے مجھے کچھ لینا دینا نہیں نہ میں ان پہ یقین کرتا ٹھوس دلائل سے تحمل سے کی گئی ہر بات کا بازگشت بن کر جواب دوں گا لیکن آف ٹاپک اور ذلیل ترین توہم پرستی کو میں منہ نہیں لگاتا کہ ۔۔۔؎

                    بارے میں ھق کے اور حقیقت کے باب میں
                    رودادِ لُکنت فصحا لکھ رہا ہوں میں

                    کارخانے میں خون تھوکنے کے

                    اپنی روزی کما رہا ہوں میں

                    خوش رہو
                    :(

                    Comment


                    • #11
                      Re: ابد کا کنارہ

                      آپ کی کافی باتیں سمجھ میں آتی ہیں جیسے ایٹم سے مالیکیول اور پھر عنصر یہ ترتیب و سلیقہ ہر جاندار اور بے جان میں ہے ایک مرکز جیسے انسان میں ڈی این اے ، عنصر میں ایٹم ہمارا شمسی نظام میں سورج
                      اور اسی طرح ہر گلیکسی یا کہکشاں کا مرکز ۔۔ یہ قانون قدرت ہے ہر چیز دوسرے کو ہڑپنہ اور دوسری بچنا چاہتی ہے یہی سبب ہے ہر چیز بشمول جاندار مرکز کے تابع ہیں اور اسی مرکز میں ان کی بقا پوشیدہ ہے
                      آپ کا یہ کہنا قوارزم سے مادہ وجود میں آیا ناممکن ہے مادہ تین اہم چیزوں سے بنتا ہے پروٹان ، الیکٹون اور نیوٹرون ۔ ان میں سے پروٹان اور نیوٹران تو ہمیشہ سے بن چکے ہیں قوارک صرف انہں الیکٹرون کی
                      ترتیب دیتا ہے جس سے ایٹم کی ساخت مکل ہوجاتی ہے اور الیکٹرک چارچ یا الیکٹرون کو مکمل مادہ کہنا زیادتی ہے ۔ جب کہ روشنی بیک وقت توانائی بھی ہے اور مادہ بھی
                      رہی بات خلا کی تو لازمی بات ہے خلا خود کچھ بھی نہیں تو یہ آف ٹاپک ہے ۔۔
                      ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                      سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                      Comment


                      • #12
                        Re: ابد کا کنارہ

                        چلیں سب آئٹم کو تو آپ لہراتے ہوئے حل کرتے رہیں ایک بات اوپر آپ نے کی سو ارب نوری سال؟ اس کائنات میں کوئی بھی چیز روشنی سے تیز رفتار نہیں ٹھیک یہ گلیگسیاں اس سے بھی کم سپیڈ سے دو ہورہی ہیں ۔۔ بگ بینگ یا آپ کے مزیدار قارم نے سب کائنات 14 ارب سال پہلے بنائی تو یہ 14 ارب سال میں سو ارب جتنی دور کیسے پہنچ گئیں
                        ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                        سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                        Comment


                        • #13
                          Re: ابد کا کنارہ

                          @ jameel

                          Yani Jo Ap na Likha iS ko Mufasial Jawab Kehtay Hain???





                          :souch::souch:



                          Itni Purmaghaz Tehreer Ka jwab ma Ya Sawal karna saaf zahir hota ap na post ka
                          parha hi nahii


                          Anyways KHush rehay


                          Dr Faustus
                          :(

                          Comment


                          • #14
                            Re: ابد کا کنارہ

                            اوپر پوسٹ میں بات کی تھی کے اٹیم کچھ بنیدی ذرات سے ملکر بنے ہوتے ہیں جن میں اہم پروٹان، نیوٹران اور الیکٹرون ہیں۔۔بنیادی ذرے بھی اگے قوراک سے بنے ہوتے قوراک مرتکز روشنی یا نور کہلاتے ہیں یہ ہوتے بھی ہیں اور نیہں بھی ہوتے انتنی موہوم سی شے قوراک ہے۔۔دوسری چیز میں نے اوپر والی پوسٹ میں اس بات کا ذکر بھی کیا تھا کہ کن فیکون یا بگ بینگ والا معاملہ یہاں نہیں خلا کی کوئی انتہا نہیں اس ضمن میں کواسارز ک کی مثال دی لیکن مجال جو ہم پوسٹ پڑھیے ۔۔سوری مسٹر جمیل فار ڈس لایکز۔۔



                            پھر سے ٹاپک کی طرف بڑھتے ہیں


                            کائنات کے بارے میں سب سے زیادہ باقاعدہ تصورات ایشا سے ائے ہں بالخصوص ہندوستان سے۔۔۔ وہاں عظیم کائناتی رازوں پر شک واور انکساری کی روایت بہت پرانی ہے۔۔ہندو مذہب دنیا میں وہ واحد مذہب ہے جو یہ تصور رکھتا ہے کہ کائنات موت اور دوبارہ پئیدائش کے لافانی سلسلے میں بندھی ہے ان کے ہاں وقت کا تصور اج کی جدید فلکیات کے تصور سے ملتا جلتا ہے یقینا یہ اتفاقیہ ہے۔ ان کا سائیکل برہما کے ایک دن اور ایک رات سے چلتا ہے۔جو 2۔46 ارب سال لمبا ہے یعنی زمین اور سورج کی عمر سے زیادہ طویل اور بگ بینگ سے آدھا،،، ابھی وقت کے اور بھی لمبے پیمانے موجود ہیں۔۔۔ دلچسپ اور فکر انگیز عقیدہ یہ ہے کہ کائنات محض دیوتا کا خواب ہے۔ یہ کائنات اس کے خواب کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔۔پھر ایک برہما صدی کے بعد وہ کروٹ لیتا ہے اور دوبارہ کائناتی خواب دیکھنا شروع کر دیتا ہے اور پھر کائنات وجود میں آجاتی ہے۔۔ایسی ہی دوسری لاتعداد کائناتیں ہیں جن کا اپنا دیوتا ہے جو ان کا خواب دیکھ رہا ہے۔یہ عظیم خیالات اور ایک عظیم خیال کو جنم دیتے ہیں۔۔کہا جاتا ہے انسان دیوتا کا خواب نہیں بلکہ دیوتا انسان کا خواب ہیں


                            جاری ہے
                            :(

                            Comment


                            • #15
                              Re: ابد کا کنارہ

                              Originally posted by Dr Faustus View Post
                              @ jameel

                              Yani Jo Ap na Likha iS ko Mufasial Jawab Kehtay Hain???





                              :souch::souch:



                              Itni Purmaghaz Tehreer Ka jwab ma Ya Sawal karna saaf zahir hota ap na post ka
                              parha hi nahii


                              Anyways KHush rehay


                              Dr Faustus


                              *اچھا تو یہ پر مغز تحریر تھی سبحان اللہ یعنی آپ سو ارب نوری سال کی بے پر کی اڑائے تو ہم کو بلا چوں چرا مان لینا چاہئے
                              یعنی سب آئٹم قوارک جو جین کی طرح عنصر کو رنگ روپ دیتا ہے اس کو روشنی کہنے لگیں
                              باقی تھا کیا تحریر میں سوائے فلسفہ کے وہ بھی خلا کو ہواااااا بنا بنا کر کپکپوانے کے علاوہ

                              ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                              سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                              Comment

                              Working...
                              X