Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

راز و نیاز

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #16
    Re: راز و نیاز

    Good thread......Baba Jee yaad aa gaye!!

    Comment


    • #17
      Re: راز و نیاز

      Originally posted by Son of Mountains View Post
      Good thread......Baba Jee yaad aa gaye!!

      کون بابا جی؟ پہاڑی نوجوان
      ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
      سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

      Comment


      • #18
        Re: راز و نیاز

        زندگی کی حقیقت

        اٹھارہ سو انسٹھ ء میں چارلس ڈارون نامی ایک شخص نے ایک انتہائی خطرناک نظریہ پیش کیا جسے 'نظریہ ارتقاء' کہا جاتا ہے۔ اگراس کے نظریہ ارتقاء کو ایک جملے میں لکھا جائے تو ہم کہیں گے: ماحول کے مطابق حیاتی اجسام میں مسلسل تبدیلی اپنی بقاءکے لیے۔ ڈارون نے اپنے نظریے میں انسان کی بات نہیں کی تھی مگر بہرحال اُس کا نظریہ ہر جاندار شئے پہ لاگو ہوتا ہے بشمول بنی نوع انسان ک- ڈارون کے نزدیک تمام جاندار اپنی ہیت کو تبدیل کرتے رہتے ہیں اپنے اطراف کے ماحول میں زندہ رہنے کے لیے۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ بعض پانی کے جانور کروڑوں سال پہلے چرندے تھے مگر کسی وجہ سے اُن کو اپنی زندگی طویل عرصہ تک پانی میں گزارنی پڑی تو ان کے پاﺅں غائب ہو گئے اور وہ مچھلی کی طرح کی شکل اختیار کر گئے۔ اسی طرح مچھلیوں کو جب زمین پر زندگی گزارنی پڑی تو ان کے پاؤں نکل آئے اور ان کی شکل پہلے مگرمچھ اور پھر بعد میں دیگر جانداروں کی سی ہو گئی۔ یعنی اپنی بقاء کے لیے قدرت ﴿اللہ تعالٰیٰ نے نہیں) نے انکی جون تبدیل کر دی۔ اسی طرح انسان کے بارے میں نظریہ ارتقاء کے حامی کہتے ہیں کہ انسان بن مانس کی نسل سے تھا جو اپنے ماحول کی وجہ سے تبدیل ہو کر ویسا ہو گیا جیسا کہ آج ہے۔ چمپینزی جیسے چو پائے سے دو پیروں پر انسان اس لیے کھڑاہو گیا کہ وہ اُس زمانے میں اور اُس وقت کے ماحول کے مطابق اُس کی بقاء کے لیے ضروری تھا۔ سننے میں تو یہ نظریہ بڑا دلچسپ ہے اور اسی لیے اس پر سینکڑوں کہانیاں اور کتابیں لکھی جچا چکی ہیں اور متعدد فلمیں بن چکی ہیں

        جاری ہے
        Attached Files
        ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
        سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

        Comment


        • #19
          Re: راز و نیاز

          نہائت خوش اسلوبی سے آسان فہم الفاط میں تھریڈ کو جاری رکھنے پر آپ مبارکباد کے مستحق ہیں ۔
          :star1:

          Comment


          • #20
            Re: راز و نیاز

            Originally posted by Sub-Zero View Post

            کون بابا جی؟ پہاڑی نوجوان
            Baba jee, jesay Ishfaq Ahmad kaha kartay thay.......1 Baba jee k pas hamara bhi ana jana hy na:)

            Comment


            • #21
              Re: راز و نیاز

              Originally posted by Son of Mountains View Post


              Baba jee, jesay Ishfaq Ahmad kaha kartay thay.......1 Baba jee k pas hamara bhi ana jana hy na:)

              پہنچے ہوئے بابا جی لگتے ہیں ان کی صحبت سے فیض حاصل کرو نوجوان
              ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
              سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

              Comment


              • #22
                Re: راز و نیاز

                نظریہ ارتقاء کے حامی ابھی بھی اس بات کا جواب نہیں دے سکتے کے حیات کی ابتداء کیسے ہوئی؟ جب بگ بینگ سے کائنات وجود میں آئی تو اُس میں جاندار مادّہ تو کوئی تھا نہیں۔ تو پھر زندگی کی ابتداء کیونکر ہوئی؟ کچھ کہتے ہیں کہ کسی کیمیائی عمل سے ایسا ہوا۔ تو اگر کیمیا گری سے زندگی وجود میں آ سکتی تو سائنس اتنی ترقی کرنے کا بعد علم کیمیا سے کو ئی معمولی نوعیت کا جاندار یا کیڑا پیدا کر کے کیوں نہیں دکھا دیتی؟ بہرحال بات ڈارون کے مشہور زمانہ اور ساتھ ہی انتہائی متنازع نظریہ ارتقاء کی ہو رہی ہے۔ جو صرف وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں زندگی پہلے سے ہی موجود تھی۔ تفصیلی بحث میں جائے بغیر ہم انسانوں کے ارتقاء کی طرف آتے ہیں۔ یعنی بن مانس سے مانس بننے کا سفر۔موجودہ دور کے انسان کو سائنس ہوموسیپینز کہتی ہے۔ اس سے پہلے کی نسل کو ہومو ایریکٹس کہتے ہیں۔ علم الانسان یا بشریات کے ماہر یعنی اینتھروپولوجسٹ اپنی تما م تر کوشش کے بعد بھی ہوموسیپینزاور ہومو ایریکٹس کے درمیان کوئی جوڑ پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ آج تک دنیا بھر میں زمین کی کھدائی سے کوئی ایک بھی ہڈی ایسی نہیں ملی جو ہوموسیپینزاور ہومو ایرکٹس کے درمیان کے دور کو ثابت کرتی ہو۔ اس بات کو ہم مسِنگ لنکِ کا نام دیتے ہیں۔
                Attached Files
                ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                Comment


                • #23
                  Re: راز و نیاز

                  یہ بات واقعی میں بہت عمدہ ہے کہ

                  اگر زندگی کسی کیمیائی عمل کا نتیجہ ہے تو اس کا مطلب ہےکہ اُس کے تمام عوامل اسی زمین پر موجود ہیں

                  تو پھر سائینس دان صبح شام جانداروں کا نئے سے نیا ماڈل مارکیٹ میں کیوں نہیں لاتے؟؟؟
                  :star1:

                  Comment


                  • #24
                    Re: راز و نیاز

                    Originally posted by S.A.Z View Post
                    یہ بات واقعی میں بہت عمدہ ہے کہ

                    اگر زندگی کسی کیمیائی عمل کا نتیجہ ہے تو اس کا مطلب ہےکہ اُس کے تمام عوامل اسی زمین پر موجود ہیں

                    تو پھر سائینس دان صبح شام جانداروں کا نئے سے نیا ماڈل مارکیٹ میں کیوں نہیں لاتے؟؟؟


                    یہ بہت جلد ہو جائے گا جنیٹک انجئینرنگ میں وہ کمال ھاصل کر چکے اور زندگی کی ایک ابدائی سی اور انتہائی سادہ سی شکل بنانے پہ قادر بھی ہو چکے۔۔موصوف جو اپ کو تھیوریاں تا رہے یہ پرانی ہو چکیں حقیت ایسی نہیں ہے لیکن وہ کیا ہے ہے نہ ہمرا ہر خیال؛ ابدی صداقت کا حامل ہوتا۔۔سائنس کو ابھی ائ ہوئے دن ہی کتنے ہوئے کوئی ایک صدی کہہ لیں جب کے زندگی تو یہاں اربوں سال میں ارتقائی عملوں سے گزر کر یہاں تک پہنچی تو میرے بھائی وہ دن دور نہیں جب اپ کو ان سوالوں کے جواب بھی مل جائیں گے۔۔
                    :(

                    Comment


                    • #25
                      Re: راز و نیاز

                      Originally posted by Dr Faustus View Post




                      یہ بہت جلد ہو جائے گا جنیٹک انجئینرنگ میں وہ کمال ھاصل کر چکے اور زندگی کی ایک ابدائی سی اور انتہائی سادہ سی شکل بنانے پہ قادر بھی ہو چکے۔۔موصوف جو اپ کو تھیوریاں تا رہے یہ پرانی ہو چکیں حقیت ایسی نہیں ہے لیکن وہ کیا ہے ہے نہ ہمرا ہر خیال؛ ابدی صداقت کا حامل ہوتا۔۔سائنس کو ابھی ائ ہوئے دن ہی کتنے ہوئے کوئی ایک صدی کہہ لیں جب کے زندگی تو یہاں اربوں سال میں ارتقائی عملوں سے گزر کر یہاں تک پہنچی تو میرے بھائی وہ دن دور نہیں جب اپ کو ان سوالوں کے جواب بھی مل جائیں گے۔۔
                      خیر اب ایک صدی تو نہ کہیں سائنس تو اپنی تاریخ پیدائش پہئے کی ایجاد سے شروع کرتی ہے :)۔
                      :star1:

                      Comment


                      • #26
                        Re: راز و نیاز

                        مماثلتیں ارتقا کا نہیں، تخلیق کا ثبوت ہیں

                        انسانی جسم کا کسی دوسری جان دار نوع سے سالماتی مماثلت رکھنا ایک بالکل قدرتی عمل ہے، کیونکہ یہ سب ایک جیسے سالموں سے بنائے گئے ہیں، یہ سب ایک ہی پانی اور فضا استعمال کرتے ہیں اور ایک جیسے سالموں پر مشتمل غذائیں استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کے نظام ہائے استحالہ (میٹابولزم) اور جینیاتی بناوٹیں ایک دوسرے سے مشابہ ہیں۔ تاہم اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان تمام انواع (انسان اور حیوان) کا جدِ امجد ایک ہی تھا۔
                        یہ ’’یکساں مادہ‘‘ ارتقا کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ ان کا ’’یکساں ڈیزائن‘‘ ہے، گویا ان سب کو ایک ہی منصوبے کے تحت تخلیق کیا گیا ہے۔
                        اس موضوع کو ایک مثال سے واضح کرنا ممکن ہے: دنیا میں تمام عمارات ایک جیسے مادے (اینٹ، پتھر، لوہا، سیمنٹ وغیرہ) سے تعمیر کی جاتی ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب یہ نہیں کہ تمام عمارتیں ایک دوسرے سے ارتقا پذیر ہوئی ہیں۔ وہ تمام علیحدہ علیحدہ، مگر یکساں مادے سے تیار کی گئی ہیں۔ یہی بات جان داروں (انسانوں اور حیوانوں) کے لیے بھی درست ہے۔
                        یہ زندگی ایک غیر شعوری، غیر منصوبہ بند سلسلہ عوامل کا نتیجہ نہیں، جیسا کہ ارتقا پرست دعویٰ کرتے ہیں۔ بلکہ خالق عظیم اللہ عز و جل کی تخلیق کا نتیجہ ہے جو لامحدود علم اور حکمت کا مالک ہے۔

                        میں اپنی آخری بات کے ساتھ اس موضوع کو اختتام پزیر کرتا ہوں آئندہ ہم زندگی کی ابتداء برائے سائنس پہ بات کریں گئے
                        ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                        سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                        Comment


                        • #27
                          Re: راز و نیاز

                          بہت شکریہ جمیل بھائی

                          اگلی تحریروں کا انتظار رہے گا۔
                          :star1:

                          Comment


                          • #28
                            Re: راز و نیاز

                            Originally posted by S.A.Z View Post
                            بہت شکریہ جمیل بھائی

                            اگلی تحریروں کا انتظار رہے گا۔


                            کیوں نہیں میرے محترم ساتھی
                            مجھے یہ دیکھ کر دلی راحت محسوس ہوئی ہے آپ کو جاننے اور بہت کچھ جاننے کی آرزو ہے میری دلی تمنا ہے کہ آپ اپنی اس آرزو کو کبھی مرنے مت دیجئے گا

                            ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                            سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                            Comment


                            • #29
                              Re: راز و نیاز


                              یہ ایک فلسفہ ہے ایک نظریہ اس سے زیادہ کچھ نہیں جسے سائنس زندگی کی ابتداء سے تعبیر کرتی ہے
                              سائنس کہتی ہے جب چودہ ارب سال پہلے کائنات وجود میں آئی اور ہر طرف تعمیر و ترقی ہورہی تھی سائنس کی نظر میں ہماری کہکشاں جسے ملکی وے کہا جاتا ہے بہت بعد میں وجود میں جیسے سمجھ لیں اللہ نے چھ دن میں کائنات بنائی یا جسے چھ مرحلے بھی کہ لیں تو آخری نمبر ہماری کہکشاں اور دنیا کا تھا ۔۔ لگ بھگ پانچ ارب سال پہلے جب ہماری دنیا وجود میں آئی تو یہ دہکتا ہوا گولا تھی یہ دنیا اور ہماری کہکشاں ایک مزید دھماکے سے وجود میں آئی جسے سپر نوا کہتے ہیں جس سے ہمارا سورج اور سیارے وغیرہ وجود میں آئے
                              *نظامِ شمسی کی ابتدا:اس کےمتعلق کہا جاتا ہےکہ آج سے کوئی 4 سے 4.5بلین سال پہلے ایک آوارہ ستارہ(دمدار ستارہ)ہمارے سورج کے بہت قریب آ گیا۔نتیجتاً دونوں ستارے ایک دوسرے سے ٹکرا گئے۔اس تصادم کے بعد یہ آوارہ ستارہ اپنے راستے پر نکل گیا جبکہ تصادم کے نتیجے میں خلا میں بکھرنے والا مادہ سورج کی کشش سے اور پھر ٹھنڈا ہونے پر مختلف سیاروں کی شکل میں سورج ک غِرد چکر لگانے لگا اور مادے ے وہ ٹکرے جس پر سورج کی کشش کا اثر تھااس کے گرد مختلف مداروں میں چکر لگانے لگے جبکہ بقیہ مادہ خلا میں گُم ہو گیا اس لیے نظام شمسی کے تمام کے تمام سیارے اس سمت میں گردش کر رہے ہیں جس رخ کو سورج اپنے محور کے گرد گردش کر رہا ہے۔اس کے علاوہ اور متعدد نظریات سامنے آ چکے ہیں۔

                              *جیسا کہ یہ شروع میں دہکتا انگارہ تھی تو ٹھنڈی ہونے میں ایک ارب سال لگ گیا یعنی سو کروڑ سال ، جب یہ ٹھنڈی ہوئی تو جو آکسیجن اور ہائیڈروجن کے بخارات اوپر اٹھے تھے ان کے تعامل سے پانی بن گیا یہ پانی بارش کی صورت برستا مگر نیچے تو آگ کا دریا تھا یہ پھر اوپر اٹھ جاتے کروڑوں سال لگ بھگ بیس کروڑ سال تک یہ ہوا اس کے بعد بہت بڑے بڑے شہابیہ زمین سے ٹکرائے جس سے سیکڑوں فٹ گہرے گڑھے بن گئی چونکہ یہ دم دار ستارے کے ٹکڑے تھے ان میں امائنو ایسڈ اور ان آرگنک میٹر تھا جو زندگی کی بنیاد ہیں*
                              کہتے ہیں وہ کیمکل تعامل انہی گڑھوں میں چونکہ سات لاکھ سال مسلسل بارش ہوئی تو دنیا سمندر کا روپ دھار گئی*
                              کرے کو چاراقسام میں تقسیم کیاجاتاہے۔کرہ ہوا،کرہ ہجری،کرہ آب،کرہ حیات کرہ ہوا ہمارےلیے زندگی کی بنیادہےجو مختلف گیسوں،آبی بخارات،خاکی ذرات اورمختلف کثافتوں کامجموعہ ہے۔یہ مٹی یا پانی کی سطح سے چند میٹر یا فٹ سے شروع ہو کر تقریباً60،000کلومیٹڑ کی بلندی تک پھیلا ہوا ہے۔یہ سورج سےآنے والی روشنی اور حرارت کو سطح زمین تک آنے دیتاہےاوراس کو واپس خلا میں جانے سےروکتاہے۔ کرہ ہجری کرہ ہوا کے نیچے پایاجاتا ہےجس سے مراد کرہ ارض پر سب سے بیرونی حصہ ہے۔اس میں زمین کی بیرونی سطح کی تمام چٹانیں شامل ہیں۔کرہ ہوا اور کرہ ہجری کےدرمیان کئی مسلسل اور غیر مسلسل پٹیوں اور دیگر آ بی اجسام کی صورت کرہ آبموجود ہے۔یہ زمین کے71٪کوگھیرےہوئےہے۔کرہ حیاتہر طرح کی زندگی کا گھر اور مرکز ہے ۔ان تینوں میں مربوط تعلق ہے۔ ٭زمین کی ابتدا:ہماری زمین ہمارا گھرکائنات میں ہمارے لیےبہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔یہ نظام شمسی میں اپنےمقام،تعلق اورزندگی کی رعنائیوں کی ویہ سےبہت سی منفرد خصوصیات کی حامل ہے۔نظام شمسی میں زمین کی حیثیت اور بقا دو اصولوں پرمبنی ہےجوکشش ثقل اور مرکزگریز قوتہیں۔ان میں کشش ثقل کی وجہ سورج اسےاپنی طرف کھینچنے رکھتا ہےورنہ یہ خلا میں بھٹک کر بکھرجائےاوردوسرےاصول کےتحت یہ سورج کے گردایک مدارمیں چکرلگاتی ہے۔اگر یہ قوت ختم ہو جائے توزمین سورج کےاندر کی جانب جل کرتباہ ہو جائے۔یہی وہ قانون ہیں۔جن کےتحت سارا نظام چل رہا ہے۔
                              بعد کی کہانی تو سب کو پتہ ہے کیسے سب اتفاق سے ہوا تعامل اتفاق ، ستارے کا ٹکرانا اتفاق ، زمین کا خاص پوزیشن اتفاق ۔ درخت انسان حیوان کا بننا اتفاق
                              کروں کا بننا اتفاق مطلب الف سے ے اتفاق*


                              ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                              سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                              Comment


                              • #30
                                Re: راز و نیاز

                                Originally posted by S.A.Z View Post


                                خیر اب ایک صدی تو نہ کہیں سائنس تو اپنی تاریخ پیدائش پہئے کی ایجاد سے شروع کرتی ہے :)۔
                                ۔تو جناب سائنس تب سے ہے جب سے انسان نے سوچنا شروع کیا لیکن سائنس کے ساتھ جو ہوا اس کی تاریخ سقراط سے سرمد تک اپ پڑھ سکتے ہین۔۔خیر بیسیوں صدی کو سائنس کی صدی کہا جاتا ہے یہ دور کی بات نہہیں 1985 سے 90 تک 486 کمپیوٹر استمعال ہوتے تھے اور اب اپنے گرد دیکھ لیں دنیا کس تیزی سے سکڑی ہے۔۔اور اب مستقبل کے اگلے بچاس سالوں کو ذہن میں رکھیں۔ کہ کیا کیا حشر سامانیاں نظر ائیں گی۔
                                :(

                                Comment

                                Working...
                                X