Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

Science ki dunya----jan kay geo :p

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #16
    Re: Science ki dunya----jan kay geo :p

    اسلامُ علیکم
    جمیل بھائی بہت ہی معلوماتی تھریڈ بنایا ہےآپ نے
    اس خوبصورت شئیرنگ کا شکریہ
    اُمید ہے کہ یہ سلسلہ رکے گا نہیں
    ریپو قبول فرمائے
    :star1:

    Comment


    • #17
      Re: Science ki dunya----jan kay geo :p

      آپ کتنے پرکشش ہیں؟



      انگلیاں انسان کو روزمرہ کے کام کاج میں ہی مدد فراہم نہیں کرتیں بلکہ وہ پرکشش شخصیت کا ایک اہم حصہ بھی ہیں۔ ایک حالیہ سائنسی مطالعے سے ظاہر ہوا ہے کہ مرد کی چوتھی انگلی کی لمبائی یہ تعین کرنے میں مدد دیتی ہے کہ اس کی شخصیت خواتین کے لیے کتنی جاذب نظر ہے۔

      جمیل اختر | مانچسٹر 29.05.11


      کیا آپ کی شخصیت پرکشش اور جاذب نظر ہے؟

      اس سوال کا جواب حقیقی جواب دے سکتی ہیں بے دھیانی میں آپ کی جانب اٹھنے والی آنکھیں۔ اچھا نظر آنا اور بالخصوص صنف مخالف کی نظروں کو بھانا ہر انسان کی ایک فطری خواہش ہے اور یہی وہ خواہش ہے جس کے دم سے کاسمیٹکس کی صنعت کھربوں ڈالر کی انڈسٹری بن چکی ہے۔

      حسن دو طرح کا ہوتا ہے ایک وہ جو منہ پر پانی کا چھینٹا مارتے ہی دھل جاتا ہے اور دوسرا وہ جو زیور اور زیبائش کا محتاج نہیں ہوتا اور عمر بھر قائم رہتاہے۔




      ماہرین کا کہنا ہے کہ حسن کا تعلق رنگت سے ہے نہ ناک نقشے سے، بلکہ حسن تناسب کا نام ہے۔ الگ سے اچھی دکھائی نہ دینے والی چیز، اگر چند دوسری چیزوں کے ساتھ تناسب سے رکھی ہوتو آنکھوں کو بھانے لگتی ہے۔

      کچھ عرصہ پہلے دنیا کی حسین ترین شخصیات کی تصویروں کو جب کمپیوٹر کے ذریعے پرکھا گیا تو پتا چلا کہ ان کے چہرے کی ساخت، آنکھ، ناک، کان اور دہن میں تناسب موجود تھا اور جس کا تناسب جتنا بہتر تھا، وہ چہرہ اتنا ہی حسین اور پرکشش تھا۔

      کیا آپ دوسروں کے لیے پرکشش اور جاذب نظر ہیں ؟ یہ جاننے کے لیے آپ کو آئینہ دیکھنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی سے پوچھنے کی جاجت۔ اس سوال کا جواب موجود ہے آپ کی اپنی انگلیوں کے پاس۔ جس طرح ایک پامسٹ ہاتھ کی لکیریں دیکھ کر آپ کے مستقبل کی پیش گوئی کرسکتا ہے، اسی طرح اپنے ہاتھ کی چوتھی انگلی پر نظر ڈال کر آپ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ کی شخصیت دوسروں کے لیے کتنی پرکشش اور جاذب نظر ہے۔

      حال ہی میں یونیورسٹی آف جنیوا میں کی جانے والے ابک سائنسی مطالعے سے ظاہر ہوا ہے کہ مرد کے ہاتھ کی چوتھی انگلی ، دوسری انگلی کے مقابلے میں جس نسبت سے بڑی ہوگی، اس کا چہرہ صنف مخالف کے لیے اتنا ہی پرکشش ہوگا۔



      چوتھی انگلی کو انگوٹھی کی انگلی بھی کہا جاتا ہے جب کہ دوسری انگلی بالعموم شہادت کی انگلی کہلاتی ہے۔

      ڈاکٹر کیملی فرڈینزی کی سربراہی میں ہونے والی اس تحقیق کے دوران 49 رضاکار مردوں کی چوتھی اور دوسری انگلیوں کی لمبائی کی پیمائش کی گئی اور ان میں پایا جانے والا تناسب ریکارڈ کیا گیا۔

      اس کے بعد ان مردوں کی تصویریں مختلف خواتین کے سامنے رکھی گئیں اور ان سے کہا گیا کہ وہ مردانہ وجاہت اور کشش کے لحاظ سے تصویروں کی درجہ بندی کریں۔

      جب اس درجہ بندی کا موازنہ چوتھی انگلی کی لمبائی سے کیا گیا تو ماہرین کو پتا چلا کہ جن مردوں کی چوتھی انگلی ، دوسری انگلی کی نسبت زیادہ لمبی تھی، خواتین نے انہی کو پرکشش قرار دیاتھا۔ دلچسپ بات یہ ہے انگلی کی لمبائی کا تناسب جتنا زیادہ تھا، وہ چہرہ خواتین کے لیے اتنا ہی زیادہ پرکشش تھا۔ جب کہ خواتین کو انگلیوں کی ساخت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا تھا۔

      تحقیق کے دوران خواتین کو ایک سوال نامہ مکمل کرنے کے لیے کہا گیا جس میں ایک یہ سوال بھی موجود تھا کہ ان تصویروں میں سے وہ کس مرد کو اپنا جیون ساتھی چننا پسند کریں گی۔ انہوں نے جن تصویروں کا انتخاب کیا، وہ انہی مردوں کی تھیں جن کی چوتھی انگلی نمایاں طور پر لمبی تھی۔ جب کہ خواتین کو مردوں کی مالی حیثیت وغیرہ کے بارے میں بھی بتایا گیا تھا۔




      ڈاکٹر فیردنزی کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنی تحقیق سے یہ پتا چلا ہے کہ خواتین نے لمبی چوتھی انگشت کے مردوں کو اس لیے بھی پسند کیا کیونکہ ان میں مردانہ وجاہت بھی زیادہ تھی۔

      اس سے قبل ایک اور سائنسی مطالعے سے یہ ظاہر ہوچکا ہے کہ مردوں کی چوتھی انگلی کی لمبائی جتنی زیادہ ہوتی ہے ، ان میں جنسی ہارمونز کی مقدار بھی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہارمونز کی مقدار مردوں کی شخصیت پر اثرانداز ہوتی ہے اور زیادہ ہارمونز انہیں زیادہ پرکشش بناتے ہیں۔

      کچھ عرصہ پہلے انگلیوں کی لمبائی سے متعلق ایک اور تحقیق سے یہ معلوم ہوا تھا کہ اسٹاک ایکس چینج اور دیگر کاروباری اداروں کی کامیاب شخصیات کی چوتھی انگلی کی لمبائی غیر معمولی طورپر زیادہ تھی۔

      ڈاکٹر فیرونزی کا یہ بھی کہنا تھا کہ صرف انگلیوں کی ساخت اور لمبائی سے ہی جنسی ہارمونز کی مقدار کا تعین نہیں ہوتا، بلکہ پسینے کی مخصوص بو اور آوا ز سے بھی اس کی جانچ کی جاسکتی ہے۔ لیکن یہ وہ چیزیں ہیں عمر بڑھنے اور بلوغت کے بعد مرد میں ظاہر ہوتی ہیں، جب کہ انگلیاں ماں کی کوکھ سے ہی بچے کے ساتھ آتی ہیں۔
      Attached Files
      Last edited by Jamil Akhter; 24 June 2011, 18:30.
      ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
      سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

      Comment


      • #18
        Re: Science ki dunya----jan kay geo :p

        معمول سے زیادہ بڑا اور روشن چاند


        فلکیات کے ماہرین کاکہناہے کہ جن علاقوں میں بادلوں یا کسی اوروجہ سے لوگ سپر مون کا نظارہ نہیں کر سکے، اب انہیں اس کے لیے لگ بھگ 19 سال انتظار کرنا پڑے گا۔

        جمیل اختر | مانچسٹر 29.05.11


        چوہودیں کاچاندشاعروں اور لطیف جذبات رکھنے والوں کے لیے ہمیشہ سے دلچسپی کا باعث رہاہے۔رات کی خاموشی اور تاریکی میں جب پورا چاند اپنی سونے جیسی زرد کرنیں بکھیرتا ہے توگویا پورے ماحول پر ایک جادو سا چھا جاتا ہے۔

        اگرچہ ہر قمری ماہ کی 14 تاریخ کو چاند اپنے پورے جوبن پر آتا ہے مگر کئی برسوں میں ایک بار 14 کا چاند ، دوسرے سارے برسوں کی چوہودیں مختلف ہوتا ہے۔یعنی معمول سے بہت بڑا اور بہت زیادہ روشن، جسے سائنس کی اصطلاح میں سپر مون کہاجاتا ہے۔ اس بار بھی چوہودیں کا چاند سپر مون تھا۔ اور اس مرتبہ سپر مون طلوع ہوا ہے پورے اٹھارہ برسوں کے بعد۔

        معمول سے بڑا پورا چاند دکھائی دینے کی وجہ اس کا وہ مدار جس پر وہ زمین کے گرد گردش کرتا ہے۔ یہ مدار گول ہونے کی بجائے انڈے کی شکل کاہے۔ مارچ 1993 کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ چاند اپنے مدار میں گردش کرتا ہوا زمین کے بہت زیادہ قریب سے گذرا۔ ظاہر ہے کہ چاند زمین کے جتنا قریب ہوگا ، وہ اتنا ہی زیادہ بڑا بھی دکھائی دے گا۔

        زمین سے چاند کا فاصلہ اوسطاً دولاکھ 38 ہزار نو سو میل ہے، جو اپنے مدار پر گردش کے دوران گھٹتا بڑھتا رہتا ہے ۔ لیکن ایسا موقع لگ بھگ 18 /19 برس میں آتا ہے کہ وہ اپنی مخصوص گردش کی بنا پر زمین کے بہت قریب آجائے۔ اس بار چوہودیں تاریخ کو وہ زمین سے دو لاکھ 21 ہزار چھ سو میل کے فاصلے پر تھا۔

        سپر مون عموماً مارچ میں ہی نمودار ہوتا ہے۔ چونکہ اکثر علاقوں میں یہ فصلوں کی کٹائی اور بعدازاں بجائی کا موسم ہوتا ہے اس لیے قدیم امریکی قبائل سپر مون کواچھی فصل کی ایک علامت سے تعبیر کرتے تھےاور وہ ا سے ایسی چیزوں اور پرندوں سے منسوب کرتے تھے جن کاتعلق فصلوں سے ہوتا ہے۔

        زمین کے گرد چاند کی گردش سے قمری ماہ و سال بنتے ہیں۔چاند کا ایک ماہ تقریباً 29 دن اور آٹھ گھنٹوں کا ہوتاہے۔زمین کے گرد اس کے گھومنے کی رفتار 2300 میل فی گھنٹہ ہے۔ اپنے بیضوی مدار میں گردش کے دوران تقریباً 18 برس میں ایک موقع ایسا آتاہے کہ چاند زمین سے اپنے کم ترین فاصلے پر آجاتاہے۔ جس کی وجہ سے وہ معمول کے پورے چاند سےزیادہ بڑا اور زیادہ روشن دکھائی دینے لگتاہے۔

        امریکی خلائی ادارے ناسا کی ایک رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ اس بار چاند 14 فی صد بڑا اور تقریباً 30 فی صد زیادہ روشن تھا۔ شاعر وں اور لطیف جذبات و احساسات رکھنے والوں نے اس غیر معمولی طورپر بڑے چوہودیں کے چاند کے یقیناً خوبصورت نام رکھے ہوں گے ، تاہم ماہرین فلکیات اسے سپر مون کہہ کر پکارتے ہیں۔

        یہ تصور عام ہے کہ پورا چاند انسان کی نفسیاتی کیفیات پر ہی نہیں بلکہ سمندر کی لہروں کو بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہناہے کہ چاند کے گھٹنے بڑھنے سے سمندر میں پیدا ہونے والے تلاطم کی وجہ چاند کی مقناطیسی کشش ہے، جو زمین پر موجود ہر چیز کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ زمین ٹھوس اجسام کو تو اپنی جگہ قائم رکھنے میں کامیاب رہتی ہے مگر وہ پانی پر پوری طرح قابو نہیں پاسکتی جس کا نتیجہ چاند راتوں میں سمندر میں اونچی اونچی بے تاب لہروں کی شکل میں نکلتا ہے۔

        تاہم سائنس دانوں کا کہناہے کہ حال میں جاپان میں آنے والے سونامی کا چاند سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

        چاند کے بارے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ انسان ہمیشہ سےاس کا ایک ہی رخ دیکھتا آرہاہے ۔ وہ رخ جس میں بڑھیا چرغا کاتتی نظر آتی ہے۔مگر وہاں بڑھیا ہے نہ چرغا، جوکچھ ہمیں دکھائی دیتاہے وہ چاند کے لق ودق پہاڑوں اور کھائیوں کی پرچھائیاں ہیں۔

        کئی مطالعاتی جائزوں سے ظاہر ہوا ہے کہ چوہودیں کا چاند انسانی مزاج اور صحت پر بھی اثرڈالتا ہے۔ 2007ء میں امریکی ریاست فلوریڈا کے ایک سائنسی مطالعے سے معلوم ہواتھا کہ ریاست میں قتل اور جارحیت سے منسلک زیادہ تر جرائم چاند کے جوبن کے دنوں میں ہوئے۔ لیڈز یونیورسٹی کا ایک مطالعاتی جائزہ یہ بتاتا ہے کہ بڑھتے چاند کی تاریخوں میں ڈاکٹروں کے پاس زیادہ مریض جاتے ہیں جب کہ ایک طبی مطالعے میں یہ بتایا گیا تھا کہ چاندراتوں میں دمے کے مریضوں کو زیادہ دورے پڑتے ہیں۔تاہم 2005ء میں اسی سلسلے میں ریاست منی سوٹا کے مائیو کلینک میں کی جانے والی تحقیق اس کی نفی کرتی ہے۔

        فلوریڈا میں ٹریفک حادثات سے متعلق چار سال کے اعدادوشمار سے یہ ظاہر کرتے ہیں اندھیری راتوں کی نسبت چاندراتوں میں حادثات کی شرح انتہائی کم رہی۔تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اس کی وجہ چاند کی روشنی تھی یا اس کا مقناطیسی اثر۔

        ان کا یہ بھی کہناہے کہ انسان چاند کے تابع نہیں ہے کیونکہ وہ اسے اپنے قدموں تلے روند چکاہے۔

        فلکیات کے ماہرین کاکہناہے کہ جن علاقوں میں بادلوں یا کسی اوروجہ سے لوگ سپر مون کا نظارہ نہیں کر سکے، اب انہیں اس کے لیے لگ بھگ 19 سال انتظار کرنا پڑے گا۔
        Attached Files
        Last edited by Jamil Akhter; 24 June 2011, 18:30.
        ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
        سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

        Comment


        • #19
          Re: Science ki dunya----jan kay geo :p

          پاکستانی سالانہ 438 ارب روپے کی سگریٹ پھونک دیتے


          Attached Files
          ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
          سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

          Comment


          • #20
            Re: Science ki dunya----jan kay geo :p

            دنیا کا تیز ترین سپر کمپیوٹر


            Attached Files
            Last edited by Jamil Akhter; 24 June 2011, 18:31.
            ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
            سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

            Comment


            • #21
              Re: Science ki dunya----jan kay geo :p

              اسلامُ علیکم
              بہت ہی عمدہ معلومات شئیر کی ہیں
              انگلیوں والے تھریڈ میں ہم انگوٹھے کے بعد شہادت کی انگلی کو پہلا درجہ دیتے ہیں اس حساب سے انگھوٹی والی انگلی کو تیسرا نمبر دیا جاتا ہے جو کہ آپ کی تحریر کا مرکز ہے
              چاند والی تحریر میں "بڑھیا بیچاری کو چرغا نصیب نہیں ،وہ وہاں بیٹھی چرخہ کات رہی ہے :)۔
              مزید معلوماتی شیرنگز کا انتظار رہے گا
              :star1:

              Comment


              • #22
                Re: Science ki dunya----jan kay geo :p

                رنگت گوری کرنے کی دوا گلوٹاتھیون مضر صحت


                Attached Files
                ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                Comment


                • #23
                  Re: Science ki dunya----jan kay geo :p

                  اسٹریس کی سطح کو کم رکھنے سے ڈپریشن سے بچا جا سکتا ہے: ڈاکٹر چیمہ


                  Attached Files
                  ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                  سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                  Comment


                  • #24
                    Re: Science ki dunya----jan kay geo :p

                    اصلی جیسا نقلی گوشت



                    جمیل اختر | مانچسٹر


                    ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                    سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                    Comment


                    • #25
                      Re: Science ki dunya----jan kay geo :p



                      ایک تحقیق کے مطابق وہ والدین جن کا پہلا بچہ اپنی پہلی سالگرہ سے پہلے ہی فوت ہوجاتا ہے ایسے والدین خود بھی جلد موت کا شکار ہو سکتے ہیں۔

                      یارک اور سٹرلنگ یونیورسٹیوں کے تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ سوگوار ماں باپ کی اپنے نوزائیدہ بچے کی موت کے بعد آنے والی دہائی میں مرنے کے خدشات چار گنا بڑھ جاتے ہیں۔

                      گزشتہ تحقیقوں سے پتہ چلتا ہے کہ خاوند اور بیوی میں سے کسی ایک کی موت بھی اکثر دوسرے ساتھی کا دل توڑ کر رکھ دیتی ہے جو اس کی جلد موت کا سبب بن سکتی ہے۔

                      تاہم اس سے قبل تحقیق میں بچے کی موت کے اثر کا جائزہ نہیں لیا گیا تھا۔

                      تازہ تحقیق ایک میگزین بی ایم جی سپورٹِو اینڈ پیلیاٹِو کیئر میں شائع ہوئی جس میں برطانوی والدین پر تحقیق کی گئی۔

                      تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق شدید تشویش کا باعث ہے اور اس موضوع پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

                      اس تحقیق میں اس بات کا احاطہ نہیں کیا گیا ہے کہ بچہ کی موت کے بعد کتنے والدین کی اموات خودکشی یا پھر ذہنی تناؤ کے باعث ہوتی ہیں۔

                      رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سوگواری انتہائی اہم انداز میں اثر انداز ہوتی ہے مثال کے طور پر یہ جسم کے مدافعتی نظام کو متاثر کرتی ہے جس کے باعث کسی بھی بیماری کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔

                      ایک اور نظریہ یہ ہے کہ مردہ بچے کی پیدائش یا نوزائیدہ بچے کی موت ایسے والدین کے ہاں زیادہ ہوتی ہے جن کی صحت خراب ہوتی ہے۔
                      ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                      سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                      Comment

                      Working...
                      X