Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

Science ki dunya----jan kay geo :p

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Science ki dunya----jan kay geo :p

    Bagare driver ki cars google ki daryaft
    Attached Files
    ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
    سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

  • #2
    Re: Science ki dunya----jan kay geo :p

    soraj kay dhamako ki new photage
    Attached Files
    ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
    سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

    Comment


    • #3
      Re: Science ki dunya----jan kay geo :p

      50 crore -- face book kay members
      Attached Files
      ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
      سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

      Comment


      • #4
        Re: Science ki dunya----jan kay geo :p

        کتنی عمر باقی ہے؟


        Attached Files
        ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
        سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

        Comment


        • #5
          Re: Science ki dunya----jan kay geo :p

          taleem yafta biwi lambi umar ki zamin
          Attached Files
          ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
          سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

          Comment


          • #6
            Re: Science ki dunya----jan kay geo :p

            16 foot lambi shark ab-doz
            Attached Files
            ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
            سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

            Comment


            • #7
              Re: Science ki dunya----jan kay geo :p

              کانوں میں آوازیں گونجنے کا مرض

              کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ کو ڈاکٹر کے پاس اس لیے جانا پڑا کہ آپ کو اپنے کانوں میں بھنبھناہٹ جیسی آوازیں سنائی دینے لگیں جو درحقیقت اپنا وجود نہیں رکھتی تھیں۔اگر ایسا ہوا ہے تو آپ اکیلے نہیں ہیں۔ صرف امریکہ میں ہر سال تقریباً پانچ کروڑ افراد اس مرض میں مبتلاہوجاتے ہیں جب کہ دنیا بھر میں اس کے مریضوں کی تعداد کا تخمینہ دوارب سے زیادہ کا لگایاگیا ہے۔اس مرض کا نام ہے Tinnitusجس کا تاحال کوئی مستند علاج موجود نہیں ہے۔

              ریٹائرڈ کرنل ہورس ہمفریس کا کہنا ہے کہ ٹینی ٹس کے مرض سے آپ کی پوری زندگی متاثر ہو سکتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ میں نے ایسی راتیں بھی گزاریں جب میں سو نہیں سکا۔ اس بیماری کی وجہ سے میری یادداشت بھی متاثر ہوئی ہے۔ میں اب زیادہ اونچی آوازیں نہیں سن سکتا۔

              کرنل ہمفریس امریکی فضائیہ سے منسلک تھے ۔ وہ بتاتے ہیں کہ ویت نام جنگ کے دوران جو وہ اپنے مرکز کی طرف جارہے تھے تو ایک راکٹ ان کی جیپ کے قریب آکر پھٹا ۔

              ان کا کہناہے کہ راکٹ کے پھٹنے سے میری جیپ ایک طرف سے اٹھ گئی اور اس کی تیز آواز سے میرے کان بج اٹھے۔

              ان کے کانوں میں آوازیں بجنے کا سلسلہ اس کے بعد شروع ہوا اور ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جاری رہا۔ ایک اندازے کے مطابق فوج کے 20 سے 40 فیصد افراد کان بجنے کے مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اور عمر کے اضافے کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ بڑھتا ہی جاتا ہے ۔
              واشنگٹن یونیورسٹی کے ڈاکٹر جے پی سیریلو کے مطابق اس مرض میں مبتلاہونے والے افراد خود کو بہت اکیلا محسوس کرتے ہیں۔

              ان کے نزدیک Tinnitus کا مرض نہ صرف آپ کے صوتی نظام کو متاثر کرتا ہے بلکہ رفتہ رفتہ دماغ کے کچھ حصوں کو بھی متاثر کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ گو وہ زوردار آواز جس کی وجہ سے آپ اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں، غائب ہو جاتی ہے لیکن اس آواز کی گونج آپ کے کانوں میں باقی رہتی ہے۔
              لیکن یہ ضروری نہیں کہ جنگ سے واپس آنے والے تمام فوجی ٹینی ٹس کے مرض میں مبتلا ہوں۔ تو ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کچھ لوگ اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں اور کچھ نہیں؟ یہ وجہ جاننے کے لیے ریاست ٹیکساس کی واشنگٹن یونیورسٹی نے عراق اور افغانستان جانے سے پہلے دو سو امریکی فوجیوں کے انٹرویو اور ان کے دماغ کے ایکس رے کیے۔تاکہ واپسی پر ان فوجیوں کے دماغ کے ایکس رےاور انٹرویوز دوبارہ کرکے یہ دیکھا جا سکے کہ ان میں سے کتنے فوج اس مرض میں مبتلا ہوئے۔

              امریکی ریاست پنسیلوانیا کی پٹس برگ یونیورسٹی کے میڈیکل کالج سے منسلک ڈاکٹر تھانو زونوپولس اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس مرض میں مبتلا افراد کے دماغ دیگر لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں ۔انہوں نے اس حوالے سے اپنی لیبارٹری میں چوہوں پر تجربہ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نےنوٹ کیا کہ جن چوہوں میں اس بیماری کے آثار دکھائی دیتے تھے انہیں جب تیز آوازیں سنائی گئیں تو ان کے اس بیماری میں مبتلا ہونے کے امکانات نارمل چوہوں سے زیادہ تھے۔

              ان چوہوں کوآواز کی ایک خاص حد میں 45 منٹ تک رکھا گیا ۔ یہ آواز ایمبولینس کے سائرن جتنی تھی۔ چند ہفتے بعد ، ماہرین نے انہیں نسبتا کم آواز میں رکھا ۔ یہ آواز دل کی دھڑکن کی طرح تھی جسے وقفے وقفے سے چلایا اور بند کر دیا جاتا ۔ عام چوہوں میں اس آواز کے نسبتاً کم اثرات دیکھے گئے جبکہ وہ چوہے جن میں ٹینی ٹس کے آثار موجود تھے ، وہ ان آوازوں سے زیادہ متاثر ہوئے۔
              اس مرض پر کام کرنے والے ماہرین کا کہناہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ کانوں میں بجنے والی آوازوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ سائنس دان نئی نسل کے بارے میں بہت فکرمند ہیں جو ایم پی پلیئرزپر اونچی آواز میں گانے سنتی ہے ۔ ان کا کہناہے کہ جیسے جیسے ان کی عمر بڑھے گی ان میں ٹینی ٹس میں مبتلا ہونے کا امکان بھی بڑھتا جائے گا۔ اور تب ان کے کانوں میں ہر وقت گونجتی آوازوں کو ختم کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہوگا۔

              Attached Files
              ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
              سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

              Comment


              • #8
                Re: Science ki dunya----jan kay geo :p

                :thmbup:

                Comment


                • #9
                  Re: Science ki dunya----jan kay geo :p

                  ابتدائی انسانی نسلیں گفتگو کی صلاحیت رکھتی تھیں، تحقیق


                  محققین نے دعویٰ کیا ہے کہ "نین ڈرتھلز" سمیت انسانوں کی صفحہ ہستی سے معدوم ہوجانے والی دیگر ابتدائی نسلوں کے افراد سیدھے ہاتھ سے کام کرنے کا عادی تھے اور ان کے ہاں زبان کا استعمال رائج تھا۔

                  "نین ڈرتھلز" کو موجودہ انسانی نسل کا جدِ امجد تصور کیا جاتا ہے۔ یورپ اور مغربی و وسطی ایشیاء میں بسنے والے انسانوں کی یہ ابتدائی نسل ہزاروں برس قبل معدوم ہوگئی تھی۔

                  سائنسدانوں کے درمیان یہ بحث طویل عرصے سے چلی آرہی ہے کہ آیا انسانوں کی ابتدائی نسلیں زبان کے استعمال کی ذہنی وجسمانی صلاحیت کی حامل تھی یا نہیں۔

                  امریکہ کی یونیورسٹی آف کینساس سے منسلک انسانی تاریخ کے ماہر ڈیوڈ فریئر کی سربراہی میں کام کرنے والی ماہرین کی ایک ٹیم "نین ڈرتھلز" اور ان سے بھی پہلے کی انسانی نسل کے افراد کے دانتوں کے فوسلز پر تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ انسانی نسل میں زبان و بیان کا استعمال پانچ لاکھ برس سے رائج ہے۔

                  محققین کی اس ٹیم نے "نین ڈرتھلز" کے دانتوں پر موجود ان نشانات کا مطالعہ کیا ہے جو سائنسدانوں کے بقول پتھروں کے بنے ہوئے تیز دھار اوزاروں کی وجہ سے نقش ہوئے جو یہ لوگ شکار کیے گئے جانوروں کی کھال اتارنے اور گوشت کے ٹکڑے کرنے کیلیے استعمال کیا کرتے تھے۔

                  سائنسدانوں کے بقول ابتدائی دور کے یہ لوگ شکار کردہ جانوروں کا گوشت دانتوں سے نوچ کر کھایا کرتے تھے جس کیلیے بعض اوقات انہیں تیز دھار اوزاروں کی مدد بھی لینا پڑتی تھی۔

                  سائنسدانوں کا کہناہے کہ ان کے پاس موجود انسانی دانتوں کے تمام فوسلز پر ان اوزاروں کے جو نشانات پائے گئے ہیں ان کے زاویوں سے واضح ہوتا ہے کہ یہ لوگ اوزار تھامنے کیلیے اپنے دائیں ہاتھ کا استعمال کیا کرتے تھے۔

                  سائنسدانوں کے مطابق اس انکشاف سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ "نین ڈرتھلز" کا دماغ بھی موجودہ دور کے انسانوں کی طرح دو حصوں میں منقسم تھا جس کا بایاں حصہ ان کے ہاتھوں کے استعمال اور حرکات کو کنٹرول کرتا تھا۔

                  محققین کی ٹیم کے بقول چونکہ موجودہ انسانی دماغ کا بایاں حصہ ہی زبان کو سمجھنے اور اس کا جواب دینے کی صلاحیت کو کنٹرول کرتا ہے، لہذا اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ "نین ڈرتھلز" بھی گفتگو کی صلاحیت رکھتے تھے۔

                  موجودہ تحقیق کے سامنے آنے سے قبل کئی سائنسدان یہ اصرار کرتے آئے تھے کہ "نین ڈرتھلز" کے منہ کی اندرونی ساخت کچھ ایسی تھی کہ وہ الفاظ کی ادائیگی کے قابل نہیں تھے۔

                  تحقیق کے سربراہ ڈیوڈ فریئر کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم کی تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسانی نسل میں گفتگو اور زبان کے فہم کی صلاحیت خاصی قدیم ہے۔

                  فریئر کی ٹیم نے جن انسانی دانتوں کے فوسلز پر تحقیق کی انہیں اسپین کے علاقے برگس کے ایک قدیمی غار سے برآمد کیا گیا تھا۔ سائنسدانوں کے مطابق مذکورہ فوسلز پانچ لاکھ سال قدیم ہیں اور ان کا تعلق "یورپی نین ڈرتھلز" کی ابتدائی نسلوں سے ہے۔

                  تحقیق کیلیے فریئر کی ٹیم نے کروشیا اور فرانس سے ملنے والے انسانی دانتوں کے قدیم فوسلز کا مطالعہ بھی کیا۔ مذکورہ تحقیق برطانوی جریدے "لیٹریلیٹی" میں شائع ہوئی ہے۔
                  Attached Files
                  ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                  سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                  Comment


                  • #10
                    Re: Science ki dunya----jan kay geo :p

                    پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ



                    پاکستان کی وفاقی وزارت صحت کے مطابق ملک میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

                    جمعہ کو قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے ایک تحریری بیان میں بتایا گیا کہ اس مرض پر قابو پانے کے لیے لوگوں کو تیزی سے رونما ہونے والی ثقافتی اور سماجی تبدیلوں، شہری آبادی میں اضافے، غذائیت کی تبدیلیوں، طبی سہولتوں اور غیر صحت مندانہ طرز زندگی سے متعلق اقدامات کے بارے میں معلومات فراہم کی جا رہی ہیں۔

                    بیان میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کے تمام ہسپتالوں میں ذیابیطس کا مکمل علاج فراہم کیا جاتا ہے جہاں ماہرین غذائیت کی سہولیات بھی موجود ہیں جو اس مرض کے شکار افراد کو غذا سے متعلق معاونت فراہم کرتے ہیں۔

                    وزارت صحت کے مطابق سرکاری سطح کے علاوہ نجی شعبے اور غیر سرکاری تنظیموں کی مدد سے بھی ہسپتالوں میں ذیابیطس کے بارے میں سیمیناروں اور کانفرنسوں کے ذریعے اس مرض سے متعلق آگاہی پھیلائی جا رہی ہے۔
                    Attached Files
                    ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                    سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                    Comment


                    • #11
                      Re: Science ki dunya----jan kay geo :p

                      کافی چھاتی کے سرطان سے بچاتی ہے



                      چائے کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ پیا جانے والا مشروب، کافی، ہے۔ طبی ماہرین کا کہناہے کہ کافی میں موجود کیفین انسان کو چاق وچوبند رکھتی ہے ۔ چائے میں بھی کیفین موجود ہوتی ہے، تاہم اس میں یہ مقدار کافی کے مقابلے میں کہیں کم ہوتی ہے۔

                      حال ہی میں ایک نئی تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ کافی کے پانچ کپ روزانہ پینے سے 50 سال سے زیادہ عمر کی خواتین میں چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہونے کا خطرہ کم ہوجاتاہے۔

                      دنیا میں ہر سال 40 ہزار سے زیادہ خواتین چھاتی کے کینسر سے ہلاک ہوجاتی ہیں۔



                      ماہرین کا کہناہے کہ روزانہ کافی کے زیادہ استعمال سے چھاتی میں گلٹی بننے کا امکان 20 فی صد تک گھٹ جاتا ہے۔

                      اس مرض کی ایک اور قسم ، جو زیادہ عام نہیں ہے، ای آر نیگیٹو کے نام سے جانی جاتی ہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ اس مرض میں مبتلا خواتین کی تعداد کافی نہ پینے والوں کے مقابلے میں ان سے نصف ہوتی ہے جو باقاعدگی سے کافی پیتی ہیں۔

                      ماہرین کایہ بھی کہناہے کہ تاہم ابھی اس بارے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ کافی چھاتی کے سرطان خلاف اتنی مؤثر کیوں ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ممکن ہے کہ اس کی وجہ کافی میں بڑی مقدار میں اینٹی آکسی ڈینٹس کی موجودگی ہو۔

                      چائے میں بھی بڑی مقدار میں اینٹی آکسی ڈینٹس موجود ہوتے ہیں اور کچھ عرصے قبل کی ایک تحقیق سے ظاہر ہواتھا کہ کالی چائے انسان کی قوت مدافعت بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے جس کی وجہ سے انسان بیماریوں کے حملوں کا بہتر طورپر مقابلہ کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔

                      جریدے بریسٹ کینسر ریسرچ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں بتایا گیا ہے کہ حال ہی میں سویڈن کے Karolinska انسٹی ٹیوٹ میں ماہرین نے پانچ ہزار ایسی خواتین پر تحقیق کی جن کی عمریں 50 سال سے زیادہ تھیں اور ان میں سے تقریباً نصف چھاتی کے سرطان میں مبتلا تھیں۔

                      ماہرین نے زیر مطالعہ خواتین کا اس پہلوسے جائزہ لیا کہ ان میں کونسی خواتین کافی پیتی ہیں اور پھر ان کی درجہ بندی کافی کے روزانہ استعمال کو سامنے رکھتے ہوئے کی ۔

                      ماہرین کو معلوم ہوا کہ جو خواتین کافی کے پانچ کپ روزانہ پیتی تھیں ، ان میں مجموعی طورپر چھاتی کے سرطان میں مبتلا ہونے کا خطرہ 20 فی صد کم تھا۔

                      ماہرین نے جب یہ جاننے کے لیے کینسر سے متاثرہ خواتین کس قسم کے سرطان میں مبتلا ہیں، ان کی سکریننگ کی تو انہیں معلوم ہوا کہ زیادہ مقدار میں کافی پینے والی خواتین میں ای آر نیگیٹو کینسر کی شرح 57 فی صد سے بھی کم تھی۔

                      ای آر نیگیٹو کینسر بہت کم ہوتا ہے ، لیکن اس کا علاج بھی بہت مشکل ہے۔

                      امریکن کینسر سوسائٹی کا کہنا ہے کہ ہر سال دولاکھ سے زیادہ خواتین میں بریسٹ کینسر کی تشخص ہوتی ہے۔
                      Attached Files
                      ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                      سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                      Comment


                      • #12
                        Re: Science ki dunya----jan kay geo :p

                        Originally posted by jamil123 View Post
                        soraj kay dhamako ki new photage
                        informative thread... keep sharing..:rose
                        bas aik yhe post digest nai hoye...
                        میں نعرہ مستانہ، میں شوخی رندانہ

                        Comment


                        • #13
                          Re: Science ki dunya----jan kay geo :p

                          Originally posted by jamil123 View Post
                          ابتدائی انسانی نسلیں گفتگو کی صلاحیت رکھتی تھیں، تحقیق


                          محققین نے دعویٰ کیا ہے کہ "نین ڈرتھلز" سمیت انسانوں کی صفحہ ہستی سے معدوم ہوجانے والی دیگر ابتدائی نسلوں کے افراد سیدھے ہاتھ سے کام کرنے کا عادی تھے اور ان کے ہاں زبان کا استعمال رائج تھا۔

                          "نین ڈرتھلز" کو موجودہ انسانی نسل کا جدِ امجد تصور کیا جاتا ہے۔ یورپ اور مغربی و وسطی ایشیاء میں بسنے والے انسانوں کی یہ ابتدائی نسل ہزاروں برس قبل معدوم ہوگئی تھی۔

                          سائنسدانوں کے درمیان یہ بحث طویل عرصے سے چلی آرہی ہے کہ آیا انسانوں کی ابتدائی نسلیں زبان کے استعمال کی ذہنی وجسمانی صلاحیت کی حامل تھی یا نہیں۔

                          امریکہ کی یونیورسٹی آف کینساس سے منسلک انسانی تاریخ کے ماہر ڈیوڈ فریئر کی سربراہی میں کام کرنے والی ماہرین کی ایک ٹیم "نین ڈرتھلز" اور ان سے بھی پہلے کی انسانی نسل کے افراد کے دانتوں کے فوسلز پر تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ انسانی نسل میں زبان و بیان کا استعمال پانچ لاکھ برس سے رائج ہے۔

                          محققین کی اس ٹیم نے "نین ڈرتھلز" کے دانتوں پر موجود ان نشانات کا مطالعہ کیا ہے جو سائنسدانوں کے بقول پتھروں کے بنے ہوئے تیز دھار اوزاروں کی وجہ سے نقش ہوئے جو یہ لوگ شکار کیے گئے جانوروں کی کھال اتارنے اور گوشت کے ٹکڑے کرنے کیلیے استعمال کیا کرتے تھے۔

                          سائنسدانوں کے بقول ابتدائی دور کے یہ لوگ شکار کردہ جانوروں کا گوشت دانتوں سے نوچ کر کھایا کرتے تھے جس کیلیے بعض اوقات انہیں تیز دھار اوزاروں کی مدد بھی لینا پڑتی تھی۔

                          سائنسدانوں کا کہناہے کہ ان کے پاس موجود انسانی دانتوں کے تمام فوسلز پر ان اوزاروں کے جو نشانات پائے گئے ہیں ان کے زاویوں سے واضح ہوتا ہے کہ یہ لوگ اوزار تھامنے کیلیے اپنے دائیں ہاتھ کا استعمال کیا کرتے تھے۔

                          سائنسدانوں کے مطابق اس انکشاف سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ "نین ڈرتھلز" کا دماغ بھی موجودہ دور کے انسانوں کی طرح دو حصوں میں منقسم تھا جس کا بایاں حصہ ان کے ہاتھوں کے استعمال اور حرکات کو کنٹرول کرتا تھا۔

                          محققین کی ٹیم کے بقول چونکہ موجودہ انسانی دماغ کا بایاں حصہ ہی زبان کو سمجھنے اور اس کا جواب دینے کی صلاحیت کو کنٹرول کرتا ہے، لہذا اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ "نین ڈرتھلز" بھی گفتگو کی صلاحیت رکھتے تھے۔

                          موجودہ تحقیق کے سامنے آنے سے قبل کئی سائنسدان یہ اصرار کرتے آئے تھے کہ "نین ڈرتھلز" کے منہ کی اندرونی ساخت کچھ ایسی تھی کہ وہ الفاظ کی ادائیگی کے قابل نہیں تھے۔

                          تحقیق کے سربراہ ڈیوڈ فریئر کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم کی تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسانی نسل میں گفتگو اور زبان کے فہم کی صلاحیت خاصی قدیم ہے۔

                          فریئر کی ٹیم نے جن انسانی دانتوں کے فوسلز پر تحقیق کی انہیں اسپین کے علاقے برگس کے ایک قدیمی غار سے برآمد کیا گیا تھا۔ سائنسدانوں کے مطابق مذکورہ فوسلز پانچ لاکھ سال قدیم ہیں اور ان کا تعلق "یورپی نین ڈرتھلز" کی ابتدائی نسلوں سے ہے۔

                          تحقیق کیلیے فریئر کی ٹیم نے کروشیا اور فرانس سے ملنے والے انسانی دانتوں کے قدیم فوسلز کا مطالعہ بھی کیا۔ مذکورہ تحقیق برطانوی جریدے "لیٹریلیٹی" میں شائع ہوئی ہے۔
                          yeh b adi digest hoye hy...
                          میں نعرہ مستانہ، میں شوخی رندانہ

                          Comment


                          • #14
                            Re: Science ki dunya----jan kay geo :p

                            Originally posted by *pIoUs FaIrY* View Post


                            yeh b adi digest hoye hy...
                            thanks & keep visit....mujhy lagta tha apka zahan buhat zarkheez hay like me :p aur science say bhi aap ko lgao hay thats good...
                            ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                            سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                            Comment


                            • #15
                              Re: Science ki dunya----jan kay geo :p

                              nice informative thread

                              Comment

                              Working...
                              X