ابن صفی اردو ادب کا ایسا کردار ہیں جو اپنی زندگی میں ہی دیو مالائی شخصیت بن گئے تھے ۔ آج (26 جولائی) ان کی 82 سالگرہ اور تیسویں برسی ہے ۔ مگر ان کی رخصتی کے ان تیس برسوں بعد بھی ان کا نام زندہ اور تابندہ ہے ۔ کیونکہ اردو کے جاسوسی ادب میں ان کا کوئی جواب پیدا نہیں ہو سکا ۔ ان کے ناول آج بھی اسی ذوق و شوق سے پڑھے جا رہے ہیں ۔ جیسے ان کی زندگی میں پڑھے جا رہے تھے او رشاید کل بھی پڑھے جاتے رہیں گے ۔ بلکہ اس وقت تک پڑھے جاتے رہیں گے جب تک اردو زبان زندہ ہے ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اردو زبان میں ابن صفی سے زیادہ کسی ادیب کو نہیںپڑھا گیا ۔ انہیں جتنے قاری میسر آئے کسی دوسرے ادیب کو نہیں ملے ۔ درحقیقت انہوں نے ادب کو خواص سے نکال کر عوام تک پہنچا دیا تھا جو نہ صرف ان کے ناولوں کا مطالعہ کرتا تھا بلکہ آنے والے ناول کا بے چینی سے انتظار کرتا تھا اور انہوں نے مضامین نو کے انبار لگا دئے ۔
سنہ 1952 میں ہی ابن صفی الہ آباد سے ہجرت کر کے کراچی ( پاکستان ) چلے گئے ۔ پھر ان کے ناول ہر ماہ کراچی اور الہ آباد دونوں جگہوں سے شائع ہونے لگے ۔ ان کے ناولوں کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ بک اسٹال پر آتے ہی یہ ناول ختم ہو جاتے تھے ۔ بلکہ کچھ پبلشر نے ان کے نام کی مقبولیت کا یہ فائدہ اٹھایا کہ ان کے نام سے یا ان کے ملتے جلتے ہوئے نام سے سیکڑوں جاسوسی ناول شائع کر دئے ۔ لیکن ان ناولوں میں زبان و بیان کا وہ ذائقہ کہاں سے ہو سکتا تھا ۔ ابن صفی نے بار بار تردید کی کہ یہ ناول ان کے لکھے ہوئے نہیں ہیں لیکن سرقہ کرنے والے پبلشروں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا ۔
اردو کے اس عظیم ادیب کا صرف 52 سال کی عمر میں 26 جولائی سنہ 1980 کو کراچی میں انتقال ہو گیا ۔ انہوں نے خود ہی کہا تھا
لکھنے کو لکھ رہے ہیں غضب کی کہانیاں
لیکن نہ لکھ سکے کبھی اپنی ہی داستاں
یہ ایک حقیقت ہے کہ اردو زبان میں ابن صفی سے زیادہ کسی ادیب کو نہیںپڑھا گیا ۔ انہیں جتنے قاری میسر آئے کسی دوسرے ادیب کو نہیں ملے ۔ درحقیقت انہوں نے ادب کو خواص سے نکال کر عوام تک پہنچا دیا تھا جو نہ صرف ان کے ناولوں کا مطالعہ کرتا تھا بلکہ آنے والے ناول کا بے چینی سے انتظار کرتا تھا اور انہوں نے مضامین نو کے انبار لگا دئے ۔
سنہ 1952 میں ہی ابن صفی الہ آباد سے ہجرت کر کے کراچی ( پاکستان ) چلے گئے ۔ پھر ان کے ناول ہر ماہ کراچی اور الہ آباد دونوں جگہوں سے شائع ہونے لگے ۔ ان کے ناولوں کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ بک اسٹال پر آتے ہی یہ ناول ختم ہو جاتے تھے ۔ بلکہ کچھ پبلشر نے ان کے نام کی مقبولیت کا یہ فائدہ اٹھایا کہ ان کے نام سے یا ان کے ملتے جلتے ہوئے نام سے سیکڑوں جاسوسی ناول شائع کر دئے ۔ لیکن ان ناولوں میں زبان و بیان کا وہ ذائقہ کہاں سے ہو سکتا تھا ۔ ابن صفی نے بار بار تردید کی کہ یہ ناول ان کے لکھے ہوئے نہیں ہیں لیکن سرقہ کرنے والے پبلشروں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا ۔
اردو کے اس عظیم ادیب کا صرف 52 سال کی عمر میں 26 جولائی سنہ 1980 کو کراچی میں انتقال ہو گیا ۔ انہوں نے خود ہی کہا تھا
لکھنے کو لکھ رہے ہیں غضب کی کہانیاں
لیکن نہ لکھ سکے کبھی اپنی ہی داستاں
Comment