Re: Mujhe kuch kehna hai
مجھے صرف یہ کہنا ہے مسلک کی جنگ جاری ہے صدیوں سے جب امام ابو حنیفہ اور حضرت علی جدا ہوگئے
@جواد بھائی
صرف یہ کہنا ہم قرآن کی بات کرتے ہیں یا حدیث کی تو بات ہے سمجھ کی آپ نے کیا سمجھا
یہی سمجھ جو الگ الگ ذہن بنا دیتی ہے اور ہم اس کو لے کر ایک موقف اپنا لیتے ہیں
مولانا رومؒ کی ایک حکایت کا لب لباب یہ ہے کہ ہندوستان میں صدیوں پہلے چھ نابینا رہا کرتے تھے۔ وہ عالم تو نہ تھے مگر ان میں علم کی زبردست طلب موجود تھی۔ ایک بار انہیں معلوم ہوا کہ ان کے علاقے میں ہاتھی آیا ہے۔ انھوں نے ہاتھی کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا مگر انہیں معلوم نہیں تھا کہ ہاتھی کیسا ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ مل جل کر ہاتھی دیکھنے پہنچے۔ نابینا افراد دیکھ نہیں سکتے، اس لیے وہ لمس کو اپنی آنکھ بناتے ہیں۔ نابینا ہاتھی کے قریب پہنچے تو ان میں سے ایک نے آگے بڑھ کر ہاتھی کا پیٹ چھوا اور کہا: ارے ہاتھی تو ’’ہمدرد‘‘ سا ہے، چنانچہ یہ بالکل دیوار کی طرح ہے۔ دوسرے نابینا نے ہاتھی کا پیر چھوا اور کہا کہ ہاتھی دیوار کی طرح تھوڑی ہے، یہ تو درخت کے تنے کی طرح ہے۔ تیسرے نابینا کا ہاتھ ہاتھی کے دانتوں پر پڑا جو چکنے اور نوکیلے تھے۔ چنانچہ اس نے اعلان کیا کہ ہاتھی نہ دیوار کی طرح ہے نہ درخت کے تنے کی طرح، بلکہ ہاتھی ’’نیزے‘‘ کے جیسا ہے۔ چوتھے نابینا کا ہاتھ ہاتھی کے کان پر پڑا۔ اس نے کان کو اچھی طرح چھوا اور فرمایا کہ ہاتھی دراصل ’’پنکھے‘‘ کی طرح ہے۔ پانچویں نابینا کے ہاتھ میں ہاتھی کی سونڈ آگئی، اس نے سونڈ کو اچھی طرح ٹٹولا اور فیصلہ سنایا کہ باقی نابینا غلط کہتے ہیں، ہاتھی ان کے بیانات کے برعکس ’’سانپ‘‘ کی طرح ہے۔ چھٹے نابینا نے اتفاق سے ہاتھی کی دُم پکڑ لی اور اس کو اچھی طرح محسوس کرکے کہا کہ اس کے تمام دوستوں کا خیال غلط ہے، اصل میں ہاتھی ’’رسّی‘‘ کے جیسا ہے۔ اس حکایت کا مفہوم عیاں ہے۔ زندگی کی حقیقت اور انسانوں کا باہمی تعلق ہاتھی اور نابینا افراد کا تعلق ہے۔ اورانسانوں کی عظیم اکثریت نابینا افراد کی طرح زندگی کے ایک جزو کو کُل سمجھ لیتی ہے اور اسی پر اصرار کرتی ہے
@جواد بھائی
صرف یہ کہنا ہم قرآن کی بات کرتے ہیں یا حدیث کی تو بات ہے سمجھ کی آپ نے کیا سمجھا
یہی سمجھ جو الگ الگ ذہن بنا دیتی ہے اور ہم اس کو لے کر ایک موقف اپنا لیتے ہیں
مولانا رومؒ کی ایک حکایت کا لب لباب یہ ہے کہ ہندوستان میں صدیوں پہلے چھ نابینا رہا کرتے تھے۔ وہ عالم تو نہ تھے مگر ان میں علم کی زبردست طلب موجود تھی۔ ایک بار انہیں معلوم ہوا کہ ان کے علاقے میں ہاتھی آیا ہے۔ انھوں نے ہاتھی کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا مگر انہیں معلوم نہیں تھا کہ ہاتھی کیسا ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ مل جل کر ہاتھی دیکھنے پہنچے۔ نابینا افراد دیکھ نہیں سکتے، اس لیے وہ لمس کو اپنی آنکھ بناتے ہیں۔ نابینا ہاتھی کے قریب پہنچے تو ان میں سے ایک نے آگے بڑھ کر ہاتھی کا پیٹ چھوا اور کہا: ارے ہاتھی تو ’’ہمدرد‘‘ سا ہے، چنانچہ یہ بالکل دیوار کی طرح ہے۔ دوسرے نابینا نے ہاتھی کا پیر چھوا اور کہا کہ ہاتھی دیوار کی طرح تھوڑی ہے، یہ تو درخت کے تنے کی طرح ہے۔ تیسرے نابینا کا ہاتھ ہاتھی کے دانتوں پر پڑا جو چکنے اور نوکیلے تھے۔ چنانچہ اس نے اعلان کیا کہ ہاتھی نہ دیوار کی طرح ہے نہ درخت کے تنے کی طرح، بلکہ ہاتھی ’’نیزے‘‘ کے جیسا ہے۔ چوتھے نابینا کا ہاتھ ہاتھی کے کان پر پڑا۔ اس نے کان کو اچھی طرح چھوا اور فرمایا کہ ہاتھی دراصل ’’پنکھے‘‘ کی طرح ہے۔ پانچویں نابینا کے ہاتھ میں ہاتھی کی سونڈ آگئی، اس نے سونڈ کو اچھی طرح ٹٹولا اور فیصلہ سنایا کہ باقی نابینا غلط کہتے ہیں، ہاتھی ان کے بیانات کے برعکس ’’سانپ‘‘ کی طرح ہے۔ چھٹے نابینا نے اتفاق سے ہاتھی کی دُم پکڑ لی اور اس کو اچھی طرح محسوس کرکے کہا کہ اس کے تمام دوستوں کا خیال غلط ہے، اصل میں ہاتھی ’’رسّی‘‘ کے جیسا ہے۔ اس حکایت کا مفہوم عیاں ہے۔ زندگی کی حقیقت اور انسانوں کا باہمی تعلق ہاتھی اور نابینا افراد کا تعلق ہے۔ اورانسانوں کی عظیم اکثریت نابینا افراد کی طرح زندگی کے ایک جزو کو کُل سمجھ لیتی ہے اور اسی پر اصرار کرتی ہے
Comment