حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سب سے آخر میں دوزخ سے جو شخص نکالا جائے گا میں اسے پہچانتا ہوں۔ وہ نجات پاکر دوزخ کے کنارے پہ کھڑا ہوجائے گا اور رب کا شکر ادا کرے گا۔ جس نے اسے آگ کے اس بھڑکتے الاؤ سے نجات دی۔ پھر وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرے گا، یا اللہ! دوزخ کے اس ہولناک اور ڈراؤنے منظر نے مجھے ہراساں کیا ہوا ہے۔ تو میرا رخ جنت کی طرف کردے تاکہ میں اس خوف و ہراس سے چھٹکارا حاصل کرلوں اور اس ذہنی عذاب سے نجات پاؤں۔
ارشاد خداوندی ہوگا : میرے بندے! اگر ہم نے تیرا یہ مطالبہ مان لیا تو پھر تو اور مطالبہ کرے گا؟ وہ بندہ عرض کرے گا۔ خداوندا! میں سچے دل اور پکی زبان کے ساتھ عہد کرتا ہوں کہ اور کچھ نہیں مانگوں گا، مجھے صرف دوزخ سے دور کردیا جائے۔
چنانچہ اس کا یہ مطالبہ مان کر اسے جنت سے کافی فاصلے پر کھڑا کردیا جائے گا۔
وہ عرصہ دراز تک دور سے جنت کے نظارے کرتا رہے گا۔ آخر ایک روز اس کا پیمانہ صبر لبریز ہوجائے گا اور وہ عرض کرے گا : خداوندا! مجھے درِ جنت کے قریب کردے یہ خوبصورت منظر مجھے بہت بھلا لگ رہا ہے، میں اسے قریب سے دیکھنا چاہتا ہوں، حکم ہوگا : اے بندے! تو نے تو کہا تھا مزید کوئی مطالبہ نہیں کروں گا؟ بندہ کہے گا : اے مالک! یہ مطالبہ مان لے اور کچھ نہیں مانگوں گا، پکا وعدہ کرتا ہوں کہ اب قول سے نہیں پھروں گا اور وعدے پر قائم رہوں گا۔ چنانچہ اس کی فرمائش اور درخواست پر اسے بہشت بریں کے دروازے کے قریب کردیا جائے گا۔
اب وہ جنت کے اندرونی مناظر سے بھی لطف اندوز ہونے لگ جائے گا۔ جنت کی دل کش آرائش و زیبائش، روحانیت افروز عیش و عشرت، اور بیش بہا نعمتوں کی افزائش و فراوانی، اسے حیرت زدہ کردے گی وہ سوچنے لگ جائے گا کہ انہیں کس طرح حاصل کرے اور آخر ایک روز اس کے وعدوں کے بندھن ڈھیلے پڑجائیں گے اور وہ عرض کرے گا :
رب کریم! تو مجھے اس جنت میں داخل کردے۔ ٹھیک ہے تو مجھے عہد شکن اور وعدہ خلاف کہے گا، لیکن مالک کیا کروں، ان آسائشوں کو دیکھتے ہوئے صبر نہیں ہورہا، دل مچل رہا ہے، رحم کر اور اپنے اس گناہ گار بندے کو رحمت خاص سے نواز۔ اگرچہ وہ اس کے لائق نہیں ہے۔
اس کی عاجزی و سرفگندی، رب کی رحمت پر ناز اور اس کی ادائے دلبری، رب کی رحمت کو منالے گی۔ وہ فرمائے گا، اے میرے بندے! تو باز نہیں آئے گا۔ جنت میں چلا جا اور ایک ہی مرتبہ سب کچھ مانگ لے۔
وہ شاداں و فرحاں جنت میں داخل ہوجائے گا اور ہر طرف نعمتوں کی بہتات دیکھ کر بے حد خوش ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا! یہ سب کچھ اور اسی کی مثل دس گنا اور تیرے لئے ہے۔ بندہ اتنا کچھ پاکر بے ساختہ پکار اٹھے گا : خداوندا! تو نے مجھے اتنا دیا ہے جتنا شاید کسی اور کو نہیں دیا ہوگا (حالانکہ اسے سب سے کم جنت ملی ہوگئی جو اس دنیا سے دس گنا بڑی ہوگئی )
(مسلم، 105، 101)
ارشاد خداوندی ہوگا : میرے بندے! اگر ہم نے تیرا یہ مطالبہ مان لیا تو پھر تو اور مطالبہ کرے گا؟ وہ بندہ عرض کرے گا۔ خداوندا! میں سچے دل اور پکی زبان کے ساتھ عہد کرتا ہوں کہ اور کچھ نہیں مانگوں گا، مجھے صرف دوزخ سے دور کردیا جائے۔
چنانچہ اس کا یہ مطالبہ مان کر اسے جنت سے کافی فاصلے پر کھڑا کردیا جائے گا۔
وہ عرصہ دراز تک دور سے جنت کے نظارے کرتا رہے گا۔ آخر ایک روز اس کا پیمانہ صبر لبریز ہوجائے گا اور وہ عرض کرے گا : خداوندا! مجھے درِ جنت کے قریب کردے یہ خوبصورت منظر مجھے بہت بھلا لگ رہا ہے، میں اسے قریب سے دیکھنا چاہتا ہوں، حکم ہوگا : اے بندے! تو نے تو کہا تھا مزید کوئی مطالبہ نہیں کروں گا؟ بندہ کہے گا : اے مالک! یہ مطالبہ مان لے اور کچھ نہیں مانگوں گا، پکا وعدہ کرتا ہوں کہ اب قول سے نہیں پھروں گا اور وعدے پر قائم رہوں گا۔ چنانچہ اس کی فرمائش اور درخواست پر اسے بہشت بریں کے دروازے کے قریب کردیا جائے گا۔
اب وہ جنت کے اندرونی مناظر سے بھی لطف اندوز ہونے لگ جائے گا۔ جنت کی دل کش آرائش و زیبائش، روحانیت افروز عیش و عشرت، اور بیش بہا نعمتوں کی افزائش و فراوانی، اسے حیرت زدہ کردے گی وہ سوچنے لگ جائے گا کہ انہیں کس طرح حاصل کرے اور آخر ایک روز اس کے وعدوں کے بندھن ڈھیلے پڑجائیں گے اور وہ عرض کرے گا :
رب کریم! تو مجھے اس جنت میں داخل کردے۔ ٹھیک ہے تو مجھے عہد شکن اور وعدہ خلاف کہے گا، لیکن مالک کیا کروں، ان آسائشوں کو دیکھتے ہوئے صبر نہیں ہورہا، دل مچل رہا ہے، رحم کر اور اپنے اس گناہ گار بندے کو رحمت خاص سے نواز۔ اگرچہ وہ اس کے لائق نہیں ہے۔
اس کی عاجزی و سرفگندی، رب کی رحمت پر ناز اور اس کی ادائے دلبری، رب کی رحمت کو منالے گی۔ وہ فرمائے گا، اے میرے بندے! تو باز نہیں آئے گا۔ جنت میں چلا جا اور ایک ہی مرتبہ سب کچھ مانگ لے۔
وہ شاداں و فرحاں جنت میں داخل ہوجائے گا اور ہر طرف نعمتوں کی بہتات دیکھ کر بے حد خوش ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا! یہ سب کچھ اور اسی کی مثل دس گنا اور تیرے لئے ہے۔ بندہ اتنا کچھ پاکر بے ساختہ پکار اٹھے گا : خداوندا! تو نے مجھے اتنا دیا ہے جتنا شاید کسی اور کو نہیں دیا ہوگا (حالانکہ اسے سب سے کم جنت ملی ہوگئی جو اس دنیا سے دس گنا بڑی ہوگئی )
(مسلم، 105، 101)
Comment