اسلام علکیم
مجھے ایک کنفیوژن ہو گئی ہے کوئی اس کو اتھنٹک انداز میں کلیر کر سکےک تو ممنون
ہوں گا
:rose
کتاب تذکرہ الحفاظ جلد اول صفحہ ٣ پر درج ہے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لوگوں
کو جمع کیااور کہا تم رسول اللہ کی بہت سی حدیثیں بیان کرتے ہواور ان میں اختلاف بھی کرتے
ہواور تمہارے بعد کے لوگ بہت زیادہ اختلاف کریں گے پس تم رسول اللہ صعلم سے کوئی حدیث
نہ بیان کرو۔۔جو کوئی تم سے پوچھے تو کہدوکہ ہم میں ور تمہارے میں اللہ کی کتاب یعنی قران مجید ہے
حضرت عمر فاروق نے بھی بہت دفعہ اوربہت لوگوں کو آنحضرت سے حدیثوں کے روایت کرنے سے
منع کیا اور کہا کہ حسنا کتاب اللہ یہاں تک کے ایک دفعہ انہوں نے بڑے عالماورفقیہ تین صحابیوں
کو یعنی ابن مسعود، ابوداود اورابو مسعود انصاری کو اس لیے کہ وہ انحضرت صلی علیہ واسلم سے
بہت سی حدیثیں روایت کیا کرتے تھے قید کر دیا
۔
حضرت ابوبکر اورحضرت عمر کے بعد جو زمانہ آیا جس میں مشاجرات صحابہ اور جنگ جمل اور جنگ
صفین واقع ہوئیاوراخر کار دردناک واقعہ شہادت حسین علیہ اسلام کا واقع ہوا پھر بنی امیہ اور بنی عباس
کا زمانہ آیا اور وہ ایسا شور شغب کا زمانہ تھااورروایات پر بد اثر ڈالنے والا بہت سی حدیثیں گھڑی گئی
کے بیان سے باہر ہے
ایک چیز جب ثابت ہو گئی کے آپ سے جتنی بھی حدیثیں روایت ہیں ماسوائے شاز و نادر چھوٹی حدیثوں
کے سب بالمعنی روایت کی گئی ہیں یعنی جو بات آپ نے جن لفظوں میں فرمائی تھیں وہ لفظ بعینہ
و بجنسہ نہیں ہیں بلکہ راویوں نے جو مطلب سمجھا اس کو ان لفظوں میں جن میں وہ بیان کر سکتے تھے
بیان کیا۔۔پھر اسی طرح دوسرے روای نے پہلےراوی کے اورتیسرے راوی نے دوسرے راوی کے اورچوتھے
راوی نے تیسرے راوی کے بیان کو اپنے لفظوں میں بیان کیا اور علی ہذاالقیاس۔۔
ابجو حدیث کی کتابیں لکھی گئیں ہیں وہ اخری راوی کے الفاظ ہیں اور معلوم نہیں ہوتا کہ اس درمیان
اصلی الفاظ کس قدر ادل بدل اور الٹ پلٹ ہو گئے ہوں اور کچھ عجب نہیں کہ اصلی حدیث
کا مطلب ہی بدل گیا ہو۔۔۔
تو بتائے گا کہ حدیث بلفظہ روایت کرنی جائز ہے یا بالمعنی
اوراگر بالمعنی ہے تو پھر ان شکوک کو جن کا ذکر اوپر میں نے کیا دور کرنے کے لیے
کون سا پیمانہ کون سا اصول کون سی کسوٹی بنائی گئی ہے
خوش رہیں
عامر احمد خان
مجھے ایک کنفیوژن ہو گئی ہے کوئی اس کو اتھنٹک انداز میں کلیر کر سکےک تو ممنون
ہوں گا
:rose
کتاب تذکرہ الحفاظ جلد اول صفحہ ٣ پر درج ہے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لوگوں
کو جمع کیااور کہا تم رسول اللہ کی بہت سی حدیثیں بیان کرتے ہواور ان میں اختلاف بھی کرتے
ہواور تمہارے بعد کے لوگ بہت زیادہ اختلاف کریں گے پس تم رسول اللہ صعلم سے کوئی حدیث
نہ بیان کرو۔۔جو کوئی تم سے پوچھے تو کہدوکہ ہم میں ور تمہارے میں اللہ کی کتاب یعنی قران مجید ہے
حضرت عمر فاروق نے بھی بہت دفعہ اوربہت لوگوں کو آنحضرت سے حدیثوں کے روایت کرنے سے
منع کیا اور کہا کہ حسنا کتاب اللہ یہاں تک کے ایک دفعہ انہوں نے بڑے عالماورفقیہ تین صحابیوں
کو یعنی ابن مسعود، ابوداود اورابو مسعود انصاری کو اس لیے کہ وہ انحضرت صلی علیہ واسلم سے
بہت سی حدیثیں روایت کیا کرتے تھے قید کر دیا
۔
حضرت ابوبکر اورحضرت عمر کے بعد جو زمانہ آیا جس میں مشاجرات صحابہ اور جنگ جمل اور جنگ
صفین واقع ہوئیاوراخر کار دردناک واقعہ شہادت حسین علیہ اسلام کا واقع ہوا پھر بنی امیہ اور بنی عباس
کا زمانہ آیا اور وہ ایسا شور شغب کا زمانہ تھااورروایات پر بد اثر ڈالنے والا بہت سی حدیثیں گھڑی گئی
کے بیان سے باہر ہے
ایک چیز جب ثابت ہو گئی کے آپ سے جتنی بھی حدیثیں روایت ہیں ماسوائے شاز و نادر چھوٹی حدیثوں
کے سب بالمعنی روایت کی گئی ہیں یعنی جو بات آپ نے جن لفظوں میں فرمائی تھیں وہ لفظ بعینہ
و بجنسہ نہیں ہیں بلکہ راویوں نے جو مطلب سمجھا اس کو ان لفظوں میں جن میں وہ بیان کر سکتے تھے
بیان کیا۔۔پھر اسی طرح دوسرے روای نے پہلےراوی کے اورتیسرے راوی نے دوسرے راوی کے اورچوتھے
راوی نے تیسرے راوی کے بیان کو اپنے لفظوں میں بیان کیا اور علی ہذاالقیاس۔۔
ابجو حدیث کی کتابیں لکھی گئیں ہیں وہ اخری راوی کے الفاظ ہیں اور معلوم نہیں ہوتا کہ اس درمیان
اصلی الفاظ کس قدر ادل بدل اور الٹ پلٹ ہو گئے ہوں اور کچھ عجب نہیں کہ اصلی حدیث
کا مطلب ہی بدل گیا ہو۔۔۔
تو بتائے گا کہ حدیث بلفظہ روایت کرنی جائز ہے یا بالمعنی
اوراگر بالمعنی ہے تو پھر ان شکوک کو جن کا ذکر اوپر میں نے کیا دور کرنے کے لیے
کون سا پیمانہ کون سا اصول کون سی کسوٹی بنائی گئی ہے
خوش رہیں
عامر احمد خان
Comment