Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

help me

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • help me

    اسلام علکیم

    مجھے ایک کنفیوژن ہو گئی ہے کوئی اس کو اتھنٹک انداز میں کلیر کر سکےک تو ممنون
    ہوں گا


    :rose

    کتاب تذکرہ الحفاظ جلد اول صفحہ ٣ پر درج ہے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لوگوں
    کو جمع کیااور کہا تم رسول اللہ کی بہت سی حدیثیں بیان کرتے ہواور ان میں اختلاف بھی کرتے
    ہواور تمہارے بعد کے لوگ بہت زیادہ اختلاف کریں گے پس تم رسول اللہ صعلم سے کوئی حدیث
    نہ بیان کرو۔۔جو کوئی تم سے پوچھے تو کہدوکہ ہم میں ور تمہارے میں اللہ کی کتاب یعنی قران مجید ہے



    حضرت عمر فاروق نے بھی بہت دفعہ اوربہت لوگوں کو آنحضرت سے حدیثوں کے روایت کرنے سے
    منع کیا اور کہا کہ حسنا کتاب اللہ یہاں تک کے ایک دفعہ انہوں نے بڑے عالماورفقیہ تین صحابیوں
    کو یعنی ابن مسعود، ابوداود اورابو مسعود انصاری کو اس لیے کہ وہ انحضرت صلی علیہ واسلم سے
    بہت سی حدیثیں روایت کیا کرتے تھے قید کر دیا


    ۔
    حضرت ابوبکر اورحضرت عمر کے بعد جو زمانہ آیا جس میں مشاجرات صحابہ اور جنگ جمل اور جنگ
    صفین واقع ہوئیاوراخر کار دردناک واقعہ شہادت حسین علیہ اسلام کا واقع ہوا پھر بنی امیہ اور بنی عباس
    کا زمانہ آیا اور وہ ایسا شور شغب کا زمانہ تھااورروایات پر بد اثر ڈالنے والا بہت سی حدیثیں گھڑی گئی
    کے بیان سے باہر ہے


    ایک چیز جب ثابت ہو گئی کے آپ سے جتنی بھی حدیثیں روایت ہیں ماسوائے شاز و نادر چھوٹی حدیثوں
    کے سب بالمعنی روایت کی گئی ہیں یعنی جو بات آپ نے جن لفظوں میں فرمائی تھیں وہ لفظ بعینہ
    و بجنسہ نہیں ہیں بلکہ راویوں نے جو مطلب سمجھا اس کو ان لفظوں میں جن میں وہ بیان کر سکتے تھے
    بیان کیا۔۔پھر اسی طرح دوسرے روای نے پہلےراوی کے اورتیسرے راوی نے دوسرے راوی کے اورچوتھے
    راوی نے تیسرے راوی کے بیان کو اپنے لفظوں میں بیان کیا اور علی ہذاالقیاس۔۔


    ابجو حدیث کی کتابیں لکھی گئیں ہیں وہ اخری راوی کے الفاظ ہیں اور معلوم نہیں ہوتا کہ اس درمیان
    اصلی الفاظ کس قدر ادل بدل اور الٹ پلٹ ہو گئے ہوں اور کچھ عجب نہیں کہ اصلی حدیث
    کا مطلب ہی بدل گیا ہو۔۔۔


    تو بتائے گا کہ حدیث بلفظہ روایت کرنی جائز ہے یا بالمعنی
    اوراگر بالمعنی ہے تو پھر ان شکوک کو جن کا ذکر اوپر میں نے کیا دور کرنے کے لیے
    کون سا پیمانہ کون سا اصول کون سی کسوٹی بنائی گئی ہے


    خوش رہیں


    عامر احمد خان

    :(

  • #2
    Re: help me

    کسوٹی صرف قرآن ہے





    Comment


    • #3
      Re: help me

      یہ تو کوئی جواب نہ ہوا نہ کوئ وضاعت نہ کوئی دلائل

      بھئی علما اسلام نے اخر کوئی نہ کوئ تواصول و ضوابط بنائے ہونگے
      حدیث کی صحت جانچنے کو؟؟؟کوئی طریقہ وضع کیا گیا ہوگا؟
      Last edited by Dr Fausts; 12 August 2011, 10:04.
      :(

      Comment


      • #4
        Re: help me

        صل میں مجھے شاید صحیح طور پر آپ کی کنفیوژن سمج نہیں آئی تھی، جی ہاں اس وقت کے علما نے اس کا پورا علم بنایا ہے جسے علم حدیث اسما رجال کے نام سے جانا جاتا ہے
        میں نے پورا تو نہیں ہاں تھوڑا بہت یہ علم سیکھا ہے اس علم کے بارے میں میری اپنی رائے تو کچھ اور ہے جو کہ میں یہاں بیان نہیں کرنا چاہتا ۔ لیکن اس علم سے آپ کے سامنے اگر کوئی حدیث پیش کی جائے تو آپ اس کی صحت کے بارے میں جان سکتے ہیں یعنی کہ وہ صحیح ہے یا قوی ہے یا ضعیف ہے یا مرسل ہے یا موضوع ہے وغیرہ وغیرہ

        حدیث کے بارے میں جو آپ نے اوپر صحابہ کرام کی طریقہ کار پیش کیا وہ بھی حدیثوں کی کتابوں میں موجود ہے ۔





        Comment


        • #5
          Re: help me

          app ka jawab aabhi bhai theek say dain gain...wasay mere nazar say jitni bhi hadesen guzri hain buhat sabaq amoz aur nasehat say bharpor thin...like..ilma hasil karo chy cheen jana pary,,ilm mard aur aurat dono par farz hay,,namaz janat ki kunji hay,pani teen sans may pena chyii,safyi nisf iman a etc
          ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
          سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

          Comment


          • #6
            Re: help me

            ہمممم کچھ پلےنہیں پڑا چلیں دیکھتے ہیں اگر کوئی اور دوست بھی رائے دیتا
            تواس کےبعد بات کرتا
            :(

            Comment


            • #7
              Re: help me

              Originally posted by بابا کھجل سائیں View Post
              ہمممم کچھ پلےنہیں پڑا چلیں دیکھتے ہیں اگر کوئی اور دوست بھی رائے دیتا
              تواس کےبعد بات کرتا
              kin chakro may party ho app, Allah ko yad rakho,namaz parho sab bhol jao
              ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
              سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

              Comment


              • #8
                Re: help me

                Originally posted by Jamil Akhter View Post
                app ka jawab aabhi bhai theek say dain gain...wasay mere nazar say jitni bhi hadesen guzri hain buhat sabaq amoz aur nasehat say bharpor thin...like..ilma hasil karo chy cheen jana pary,,ilm mard aur aurat dono par farz hay,,namaz janat ki kunji hay,pani teen sans may pena chyii,safyi nisf iman a etc
                to janab ma na arz keya masiway choti hadeso ka baqi sab Bilmani rewayat huii hai jo baillafz rewayat huii
                jo ap na quote ki aun sa to mujhe koi ilqa nahii haan jo bilmani huii mara question un ka bary ma hai..
                :(

                Comment


                • #9
                  Re: help me

                  Originally posted by بابا کھجل سائیں View Post
                  to janab ma na arz keya masiway choti hadeso ka baqi sab Bilmani rewayat huii hai jo baillafz rewayat huii
                  jo ap na quote ki aun sa to mujhe koi ilqa nahii haan jo bilmani huii mara question un ka bary ma hai..
                  ok bat tu samjhdari ki hay..wasay hadeson pay chalta tu koi hay nahi...tu asli kya hay man ghat kya..ok meet you in evening tc Allah hafiz
                  ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                  سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                  Comment


                  • #10
                    Re: help me

                    محترم جناب آپ کی بات کے جواب میں زیادہ تفصیل سے کچھ لکھنا نہیں چاہتا کیوں کہ میں جو کچھ لکھوں گا وہ میرے اپنے علم کے مطابق ہوگا اور جسے میں مانتا ہوں وہ ہوگا، لیکن ایسا کرنے سے ہوسکتا ہے میری وہ بات کسی ایک مسلک کی تائید میں ہو یا پھر کسی بھی مسلک سے اس کی تائید نہ ہوتی ہو، اور اس طرح یہاں مسلک کی ایک جنگ چھڑ جائے گی جو کہ میں نہیں چاہتا اور یہ تو آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ علما کا تعلق مسلک سے ہوا کرتا ہے ، اس لیے آپ کا جو سوال ہے رویت بالمعنی کے حوالے سے اس میں بھی علما کی الگ الگ رائے ہے۔

                    سمجھنے کے لیے صرف ایک بات کہہ دیتا ہوں کہ اگر علما کے نزدیک روایت بالمعنی ناجائز ہوتا تو اتنی روایت موجود ہی نہ ہوتیں اور جہاں تک معیار ہے انکی صحت کا تو اس کے بارے میں آپ کو اپنی پہلی پوسٹ میں بتا چکا ہوں۔

                    آپ کم از کم یہ تو بتائیں کہ آپ کو دلائل کس قسم کے چاہیں کسی کتاب کا حوالہ یا پھر علمی بات





                    Comment


                    • #11
                      Re: help me

                      اسلام علکیم


                      میرا مقصد کوئی جھگڑا کرنا نہیں یا فساد پھیلانا نہیں،،میں خود مذہبی بحثوں میں نہیں
                      الجھتا لیکن مجھے واقعی میں اس مسئلہ کی سمجھ نہیں آئی۔۔۔یہ سوال کافی عرصہ سے
                      میرے ذہن میں تھا۔ اور میں جانتا بھی یہاں صاحب علم لوگ ہیں یہ جان کر پوسٹ کی
                      لیکن افسوس شاید مجھ سے غلطی ہوئی۔۔۔۔ علم تو وہ دولت جو خرچ کرنے سے بڑھتی ہے
                      میرا ایمان تو اس چیز پہ اورمیں نے ہمیشہ کوشش بھی یہی کی وہ چیز لکھوں جس سے
                      کسی کے علم میں اضافہ ہو تشفی ہو۔۔۔


                      باقی کتابی بات ہو یا علمی یا بزرگان دین کی۔۔۔ برہان منطقی و صداقت ِ ریاضی
                      کے بغیر کسی بات کو تسلیم کرنے پرمیں کسی بھی شرط پر امادہ نہیں ہوتا سنی سنائی
                      باتیں اندھی تقلید یا آنکھیں بند کر کے جذاک اللہ کہنے والوں سے میں نہیں ہوں۔۔۔


                      افسوس اس بات پہ ہم میں اتنی اخلاقی جرات بھی نہیں کہ اہل سنت کہلوانے والوں میں کوئی بھی
                      ایسا نہیں جو مظلموں کی حمائت میں میدان میں اترتا۔۔۔ اہل حدیث کہہلوانے والوں میں سے کس
                      میں جرات جو حضور کی اس احادیث پہ عمل کرتا کہ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا
                      بہترین جہاد ہے ؟؟ اہل بیت میں سے کون جو حضرت حسین کے رستے پہ چلتے اپنے عہد کے
                      یزید سے ٹکراتا ہو؟؟؟؟؟ہم سب مصلحتوں کے اسیر ہیں کسی کو پوسٹ میں ریپلائی کی اجازت نہیں
                      کسی کو فساد کا ڈر۔۔۔

                      سچ اچھا۔ پر اس کے جلو میں، زہرکا ہے اک پیالہ
                      پاگل ہو ؟کیوں ناحق کو سقراط بنو خاموش رہو

                      حق اچھا، پر اس کے لیے کوئی اور مرے تو اور اچھا
                      تم بھی کوئی منصور ہو جو سولی پہ چڑھو؟؟؟؟ خاموش رہو



                      بی کے ایس
                      Last edited by Dr Fausts; 12 August 2011, 23:09.
                      :(

                      Comment


                      • #12
                        Re: help me

                        app tu shirminda kar rahay app jo itni knowledge rakhty hain bay-bas hain tu sab ki nhi pni bat karta hoon kasay malom ho
                        ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                        سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                        Comment


                        • #13
                          Re: help me

                          Originally posted by بابا کھجل سائیں View Post
                          اسلام علکیم


                          میرا مقصد کوئی جھگڑا کرنا نہیں یا فساد پھیلانا نہیں،،میں خود مذہبی بحثوں میں نہیں
                          الجھتا لیکن مجھے واقعی میں اس مسئلہ کی سمجھ نہیں آئی۔۔۔یہ سوال کافی عرصہ سے
                          میرے ذہن میں تھا۔ اور میں جانتا بھی یہاں صاحب علم لوگ ہیں یہ جان کر پوسٹ کی
                          لیکن افسوس شاید مجھ سے غلطی ہوئی۔۔۔۔ علم تو وہ دولت جو خرچ کرنے سے بڑھتی ہے
                          میرا ایمان تو اس چیز پہ اورمیں نے ہمیشہ کوشش بھی یہی کی وہ چیز لکھوں جس سے
                          کسی کے علم میں اضافہ ہو تشفی ہو۔۔۔


                          باقی کتابی بات ہو یا علمی یا بزرگان دین کی۔۔۔ برہان منطقی و صداقت ِ ریاضی
                          کے بغیر کسی بات کو تسلیم کرنے پرمیں کسی بھی شرط پر امادہ نہیں ہوتا سنی سنائی
                          باتیں اندھی تقلید یا آنکھیں بند کر کے جذاک اللہ کہنے والوں سے میں نہیں ہوں۔۔۔


                          افسوس اس بات پہ ہم میں اتنی اخلاقی جرات بھی نہیں کہ اہل سنت کہلوانے والوں میں کوئی بھی
                          ایسا نہیں جو مظلموں کی حمائت میں میدان میں اترتا۔۔۔ اہل حدیث کہہلوانے والوں میں سے کس
                          میں جرات جو حضور کی اس احادیث پہ عمل کرتا کہ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا
                          بہترین جہاد ہے ؟؟ اہل بیت میں سے کون جو حضرت حسین کے رستے پہ چلتے اپنے عہد کے
                          یزید سے ٹکراتا ہو؟؟؟؟؟ہم سب مصلحتوں کے اسیر ہیں کسی کو پوسٹ میں ریپلائی کی اجازت نہیں
                          کسی کو فساد کا ڈر۔۔۔

                          سچ اچھا۔ پر اس کے جلو میں، زہرکا ہے اک پیالہ
                          پاگل ہو ؟کیوں ناحق کو سقراط بنو خاموش رہو

                          حق اچھا، پر اس کے لیے کوئی اور مرے تو اور اچھا
                          تم بھی کوئی منصور ہو جو سولی پہ چڑھو؟؟؟؟ خاموش رہو



                          بی کے ایس


                          سر جی میں معافی چاہتا ہوں شاید میرے ریپلائ سے آپ کے جذبات کو ٹھیس پہنچی اور آپ نے اسے میری بزدلی سمجھا ہو سکتا ہے یہ میری بزدلی ہی ہو لیکن میری نیت صرف یہی ہے کہ یہاں مسلک کی جنگ نہ چھڑے اور اس کے علاوہ ایک بات اور ہے میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ جب بھی اور جہاں بھی سیئرز میٹرز پر کوئی بات ہو تو اس کے جواب میں قرآن کی تعلیم کو پیش نظر رکھوں، شاید آپ میری بزدلی کو قرآن کے اس واقعے سے سمجھ سکیں.

                          حضرت موسیٰ علیہ اسلام کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے قرآن بتاتا ہے کہ جب وہ چالیس دن کے لیے اپنی قوم سے دور گئے اور حضرت ہاروں علیہ اسلام کو قوم کے پاس چھوڑا تو واپس آکر دیکھتے ہیں کہ قوم نے گوسالہ پرستی شروع کردی ہے. اب وہ اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ اسلام سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے ہوتے ہوے یہ سب کام ہوا اور تم نے روکا بھی نہیں کیسے اسے گوارا کرلیا ، اب ذرا غور کریں کیا مقام ہے ایک نبی پوچھ رہا ہے ایک نبی سے تو بھائی جواب کیا دیتا ہے اگر میں انکی بات نہ مانتا تو تیری قوم تفرقے میں پڑ جاتی لہذٰا میں کچھ عرصے تک اس کو برداشت کرلیا باقی بات کہنے سے پہلے یہ بات کہوں گا کہ گوسالہ پرستی شرک ہے جو سب سے بڑا گناہ کہلاتا ہے لیکن ایک پیغمبر تفرقہ نہ ہونے پائے ا س وجہ سے کچھ عرصے کے لیے اسے بھی برداشت کر لیتا ہے پر تفرقہ کو برداشت نہیں کرتا.
                          بت پرستی یا گوسالہ پرستی تو جہالت ہے سرے سے ناسمجھی ہے مگر فرقہ پرستی اور ساتھ ہی مسلمان کہلانا شاید اس سے بھی بڑا جرم ہے

                          میری آپ سے گذارش ہے کہ میری پوسٹ کو اسی تناظر میں لیجیے
                          کیوں کہ میری زندگی کا مقصد صرف قرآن کی تعلیمات کو سمجھنا اور اس کا عام کرنا ہے
                          مسلکوں یا پھر فرقوں کی جنگ میںنہیںپڑنا.

                          میں ایک بار پھر معذرت چاہتا ہوں اگر میری کسی بات سے آپ کو دکھ پہنچا ہو.

                          شکریہ





                          Comment


                          • #14
                            Re: help me

                            اسلام علیکم معزز قارئین کرام جیسا کہ ایک صاحب نے روایت بالمعنٰی کے حوالہ سے چند شبہات کا اظہار فرمایاہے اور احباب نے ہماری توجہ اس امر کی طرف دلوائی اور جواب دینے کو کہا تو ہم نے اس ضمن میں درج زیل مقالہ ترتیب دیا ہے ۔
                            ترتیب اس مقالہ کی یوں ہوگی کہ اس میں اول ہم روایت بالمعنٰی کی تعریف پیش کریں گے پھر روایت بالمعنٰی کے حجت ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے محدثین و فقہاء اور اصولیین کے اختلاف کی تحقیق پیش کی جائے گی جبکہ آخر میں بطور محاکمہ معترض کے اعتراضات کو نقل کرکے انکا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ پیش کیا جائے گا دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں حق کہنے حق لکھنے اور حق ہی کی ترویج و اشاعت کی توفیق عطا فرمائے اور قیامت والے دن حق والوں ہی کے ساتھ ہمارا حشر فرمائے آمین

                            روایت بالمعنٰی تعریف و مفھوم :


                            مفھوم :
                            روایت بالمعنی یہ ہے کہ راوی روایت کے الفاظ کے بجائے معنی کو اپنے الفاظ میں بیان کردے چناچہ اس ضمن میں حافظ ابن الصلاح اپنی کتاب مقدمہ میں رقمطراز ہیں کہ:

                            إذا أراد رواية ما سمعه على معناه دون لفظه

                            یعنی جب وہ سنی ہوئی بات کے الفاظ کے بجائے معانی کی روایت کرئے تو یہ روایت بالمعنٰی ہوگی ۔

                            روایت بالمعنٰی کی شرعی حیثیت :

                            روایت بالمعنٰی کی حیثت پر فقہاء محدثین اور اصولیین کے مختلف اقوال وارد ہیں لیکن ا س پر سب کا اتفاق ہے اس شخص کے لیے روایت بالمعنی جائز نہیں کہ جسے الفاظ اور اسکی تعبیرات اور مدلولات پر اسکی دلالت کی معرفت حاصل نہ ہو چناچہ حافظ ابن الصلاح اپنی کتاب " مقدمہ " میں رقمطراز ہیں کہ :

                            ۔ ۔
                            ۔فإن لم يكن عالما عارفا بالألفاظ ومقاصدها خبيرا بما يحيل معانيها بصيرا بمقادير التفاوت بينها فلا خلاف أنه لا يجوز له ذلك وعليه أن لا يروي ما سمعه إلا على اللفظ الذي سمعه من غير تغيير ۔۔۔۔

                            یعنی اگر وہ الفاظ اور اسکے مقاصد کا علم اور معرفت رکھنے والا نہیں نیز الفاظ کے معنٰی کے تغیر کا سے آگاہ نہیں اور وہ انکے تفاوت کے مقادیر کا شعور نہیں رکھتا تو اس کے لیے روایت بالمعنٰی بالاتفاق ناجائز ہے اور اس پر لازم ہے کہ جو کچھ اس نے سنا اسے بغیر کیس تغیر کے انہی الفاط میں روایت کرے کہ جن میں اس نے سنا تھا ۔

                            چناچہ اسی ضمن میں علامہ آمدی اپنی کتاب " الإحكام في أصول الأحكام " میں رقمطراز ہیں :

                            والذی علیہ اتفاق الشافعی ، ومالک ، وابوحنیفہ واحمد بن حنبل الحسن البصری واکثر الائمہ انہ یحرم علی الناقل از کان غیر عارف بدلالات الالفاظ واختلاف مواقعھا ۔ ۔ ۔

                            یعنی :جس رائے پر امام شافعی ،مالک ،ابوحنیفہ ،احمد اور حسن بصری اور اکثر ائمہ کا اتفاق ہے وہ یہ ہے کہ اگر ناقل الفاظ کی دلالت اور انکے اختلاف کے مواقع کی معرفت نہیں رکھتا تو اس کے لیے روایت بالمعنٰی حرام ہے ۔ ۔ ۔

                            اسی طرح کی بات مشھور اصولی امام غزالی علیہ رحمہ نے بھی فرمائی کے کہ اگر آدمی الفاظ کی باریکیوں کی معرفت نہیں رکھتا تو اس پر روایت بالمعنٰی حرام ہے ۔۔
                            (بحوالہ اصول حدیث ڈاکٹر خالد علوی )

                            علامہ ڈاکٹر محمود الطحان اپنی کتاب " تیسیر مصطلح الحدیث " میں روایت بالمعنٰی کی بحث کے تحت رقمطراز ہیں کہ :

                            کسی روایت کو بالمعنی نقل کرنے میں علمائے امت کا اختلاف ہے بعض کے نزدیک ناجائز جبکہ بعض کے نزدیک جائز ہے ۔

                            فقہاء اور محدثین کی ایک جماعت نے اسے ناجائز قرار دیا ہے ان میں ابن سیریں اور ابوبکر رازی قابل ذکر ہیں جبکہ جمہور سلف محدثین ،فقہاء اور اصولیین نے اسے جائز قرار دیا ہے ان میں ائمہ اربعہ بھی شامل ہیں مگر یہ سب راوی کے روایت کے حقیقی الفاظ کے معنٰی پر قطیعت علمی کی شرط عائد کرتے ہیں ۔

                            قطیعت کے علاوہ جو شرائط قائلین جواز کی طرف سے عائد کی گئی ہیں وہ درج زیل ہیں ۔

                            1: روای الفاظ اور انکے مقاصد کا بخوبی علم رکھتا ہو۔
                            2:الفاط کے معنٰی اور تغیرات سے واقف ہو ۔


                            روایت بالمعنٰی کے جواز و عدم جواز میں ائمہ سلف سے تین طرح کا اختلاف منقول ہے ایک گروہ مطلقا جواز کا قول کرتا ہے جبکہ دوسرا گروہ مطلقا ناجائز ہونے کا قول کرتا ہے جبکہ تیسری اور صائب الرائے جماعت مشروط جواز کا قول کرتی ہے اور یہی رائے سلف و خلف اور جمہور ائمہ دین و ملت کی ہے ۔

                            گروہ اول کے دلائل کہ روایت بالمعنی مطلقا جائز ہے :

                            بعض حضرات کے نزدیک روایت بالمعنی مطلقا جائز ہے اور ان کا مدار استدلال وہ حدیث جسے ابن مندہ نے معرفۃ الصحابہ میں طبرانی نے اپنے معجم کبیر میں روایت کیا ہے چناچہ علامہ جلال الدین سیوطی علیہ رحمہ اپنی مشھور زمانہ تصنیف تدریب راوی جو کہ شرح تقریب کی اس میں رقمطراز ہیں کہ:

                            رواه ابن منده في معرفة الصحابة والطبراني في الكبير من حديث عبد الله بن سليمان بن أكتمة الليثي قال قلت يا رسول الله إني أسمع منك الحديث لا أستطيع أن أؤديه كما أسمع منك يزيد حرفا أو ينقص حرفا فقال إذا لم تحلوا حراما ولم تحرموا حلالا وأصبتم المعنى فلا بأس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔فذكر ذلك للحسن فقال لولا هذا ما حدثنا ۔ ۔ ۔ ۔
                            ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔وروى البيهقي عن مكحول قال دخلت أنا وأبو الأزهر على واثلة بن الأسقع فقلنا له يا أبا الأسقع حدثنا بحديث سمعته من رسول الله صلى الله عليه و سلم ليس فيه وهم ولا مزيد ولا نسيان فقال هل قرأ أحد منكم من القرآن شيئا فقلنا نعم وما نحن له بحافظين جدا إنا لنزيد الواو والألف وننقص قال فهذا القرآن مكتوب بين أظهركم لا تألونه حفظا وأنتم تزعمون أنكم تزيدون وتنقصون فكيف بأحاديث سمعناها من رسول الله صلى الله عليه و سلم عسى أن لا نكون سمعناها منه إلا مرة واحدة حسبكم إذا حدثناكم بالحديث على المعنى ۔۔۔۔


                            یعنی کہ عبداللہ بن سلیمان اکتمۃ اللیثی کہتے ہیں میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ سے حدیث سنتا ہوں مگر یہ استطاعت نہیں رکھتا کہ میں اسی طرح ادا کروں کہ جس طرح آپ سے سنتا ہوں اس میں حرف کا اضافہ ہوجاتا ہے یا کمی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہیں بناتے اور معنی کو ٹھیک سمجھتے ہو تو کوئی حرج نہیں۔ ۔ ۔ ۔

                            ۔ ۔ ۔ ۔
                            اور جب حسن بصری کے سامنے اس کا ذکر کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ اگر یہ اجازت نہ ہوتی تو ہم حدیثیں بیان ہی نہ کرپاتے ۔ ۔ ۔ ۔

                            ۔ ۔۔
                            اسی طرح امام بیقہی نے مکحول سے نقل کیا وہ کہتے ہیں کہ میں اور ابو الازہر واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو ہم نے ان سے کہا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی ایسی حدیث سناؤ کہ جسے آپ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو اور کوئی وہم نہ ہوا ہو نہ الفاظ میں کوئی اضافہ ہو اور نہ ہی خطا ۔
                            اس پر انہوں نے جواب دیا کہ کیا تم میں سے کسی نے قرآن کا کچھ حفظ کیا ہے ؟ ہم نے عرض کیا جی ہاں مگر وہ ہمیں اچھی طرح سے یاد نہیں ہم سے اس میں واؤ یا الف کی کمی بیشی ہوجاتی ہے تو انہوں نے کہا یہ قرآن ہے کہ جو تمہارے پاس لکھی ہوئی صورت میں موجود ہے اور تم اس کے حفظ میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے اور اس کے باوجود تم سے اس میں کمی بیشی ہوجاتی ہے تو یہ بات احادیث کی روایت میں کیونکر ممکن نہیں کہ جنہیں ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اور ممکن ہے ایک ہی بار سنا ہو۔ اور تمہارے لیے یہی کافی ہے کہ ہم تم تک حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مفھوم کی روایت کریں ۔ ۔ ۔ ۔


                            ۔ ۔ وفي المدخل عن جابر بن عبد الله قال قال حذيفة إنا قوم عرب نردد الأحاديث فنقدم ونؤخر ۔ ۔ ۔


                            ۔ ۔۔ واستدل لذلك الشافعي بحديث أنزل القرآن على سبعة أحرف فاقرؤا ما تيسر منه قال وإذا كان الله برأفته بخلقه أنزل كتابه على سبعة أحرف علمنا منه بأن الكتاب قد نزل لتحل لهم قراءته وإن اختلف لفظهم فيه ما لم يكن اختلافهم إحالة معنى كان ما سوى كتاب الله سبحانه أولى أن يجوز فيه اختلاف اللفظ ما لم يحل معناه ۔ ۔


                            ۔ ۔ ۔اسی طرح مدخل میں جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ حذیفہ نے کہا کہ ہم عرب لوگ جب باتوں کو دہراتے ہیں تو ہم اس میں تقدیم و تاخیر کرجاتے ہیں ۔ ۔ ۔

                            ۔۔۔اور امام شافعی نے حدیث
                            " انزل القرآن علی سبعۃ احرف " سے استدلال کیا ہے کہ اللہ پاک نے مخلوق کے لیے اپنی رحمت سے اپنی کتاب کو سات حرفوں پر نازل کیا تو ہمیں اس سے معلوم ہوا کہ کتاب اللہ کو اس طرح سے اس لیے نازل کیا تاکہ الفاظ کے اختلاف کے باوجود اس کی قرآت جائز ہو بشرطیکہ اس کے معنی تبدیل نہ ہوں تو کتاب اللہ کے سوا دیگر امور میں تو الفاظ کا اختلاف بطریق اولی جائز ہوگا بشرطیکہ معنی تبدیل نہ ہوں۔۔ ۔

                            مطلقا ناجائز کہنے والوں کے دلائل :

                            بعض ائمہ کے نزدیک روایت بالمعنٰی مطلقا ناجائز ہے چناچہ علامہ حافظ سخاوی نے اپنی کتاب فتح المغیث میں اس رائے کا ذکر یوں کیا ہے ۔۔۔

                            وقيل : لا تجوز له الرواية بالمعنى مطلقا . قاله طائفة من المحدثين والفقهاء والأصوليين من الشافعية وغيرهم ۔ ۔

                            اور کہا گیا ہے روایت بالمعنی مطلقا ناجائز ہے اور یہ کہا ہے محدثین ،فقہاء اور اصولیین کہ ایک گروہ نے کہ جو شافعی المسلک ہیں ۔

                            خطیب نے الکفایہ میں ان آراء کو جمع کیا ہے کہ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض صحابہ روایت تحت الفظ کو واجب سمجھتے تھے ۔

                            مشروط جواز کے قائلین اور انکے دلائل :

                            جمہور علماء محدثین اور فقہاء اور اصولیین نے روایت بالمعنی کو جائز قرار دیا یے لیکن بعض شرائط کے ساتھ حافظ ابن الصلاح کہتے ہیں :

                            ۔ ۔
                            ۔فأما إذا كان عالما عارفا بذلك فهذا مما اختلف فيه السلف وأصحاب الحديث وأرباب الفقه والأصول : فجوزها أكثرهم ولم يجوزه بعض المحدثين وطائفة من الفقهاء والأصوليين من الشافعيين وغيرهم
                            ومنعه بعضهم في حديث رسول الله صلى الله عليه و سلم وأجازه في غيره
                            ١٢٣ ) والأصح : جواز ذلك في الجميع إذا كان عالما بما وصفناه قاطعا بأنه أدى معنى اللفظ الذي بلغه لأن ذلك )
                            هو الذي تشهد به أحوال الصحابة والسلف الأولين . وكثيرا ما كانوا ينقلون معنى واحدا في أمر واحد بألفاظ
                            مختلفة وما ذلك إلا لأن معولهم كان على المعنى دون اللفظ ۔ ۔۔


                            اگر راوی الفاظ اور انکے مقاصد کا عالم ہو تو اسکی روایت بالمعنی کے بارے میں سلف، اصحاب حدیث اور ارباب فقہ اور اصول کی اکثریت نے جائز قرار دیا ہے جبکہ بعض شافعی المسلک محدثین اور اصولیوں نے اسے ناجائز کہا ہے بعض نے اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے سلسلہ میں ناجائز اور غیر رسول کی حدیث میں جائز کہا ہے جبکہ اصح( یعنی زیادہ صحیح رائے) یہی ہے کہ روایت بالمعنی ہر قسم کی حدیث میں جائز ہے اگر راوی ایسا عالم ہو جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے اور اسے یقین ہو کہ اس نے اس لفظ کے معنی کو ادا کردیا ہے جو اس تک پہنچا تھا۔ کیونکہ یہ وہی صورتحال ہے کہ جس پر صحابہ اور اوائل دور کے سلف کہ احوال شاہد ہیں ان میں سے اکثر حضرات ایک ہی مفھوم کو مختلف الفاظ میں ادا کرتے تھے کیونکہ ان کا اعتماد لفظ کی بجائے اسکے معنی پر ہوتا تھا ۔

                            اسکے علاوہ امام غزالی ،خاتم المحدثین امام ابن حجر عسقلانی ،امام ترمذی مشھور متکلم امام رازی ،امام ابن حزم ،علامہ آمدی اور جمہور محدثین و فقہاء اور اصولیین کی یہی رائے ہے لہزا اس ضمن میں ہم ان تمام ائمہ نے جو شرائط بیان کی ہیں ان کا اختصار کے ساتھ ذکر کریں گے اور وہ شرائط درج زیل ہیں ۔

                            1:راوی الفاظ و معنی کے مدلولات اور دقائق کا عالم و عارف ہو
                            2:مترادف لفظ کی تبدیلی جائز ہے بشرطیکہ صورتحال مشتبہ نہ ہو
                            3:حدیث کا تعلق جوامع الکلم سے نہ ہو کیونکہ جوامع الکلم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہے لہزا اس میں روایت بالمعنی جائز نہیں ۔
                            4: حدیث کا تعلق امور تعبدی سے نہ ہو جیسے تکبیر صلوۃ اور تشھد وغیرہ نیز حدیث میں بیان شدہ کلمات کا تعلق ادعیہ و اذکار ماثور و مسنونہ سے نہ ہو ۔
                            5:بعض کے نزدیک مفردات میں لفظ کی تبدیلی جائز ہے جبکہ مرکبات میں نہیں ۔
                            6: روایت بالمعنی کی صرف اسے اجازت ہے کہ جسے الفاظ مستحضر ہوں اور وہ ان میں تصرف کی قدرت رکھتا ہو۔
                            7: امام مالک علیہ رحمہ کے نزدیک حدیث مرفوع کی روایت بالمعنی جائز نہیں جبکہ دیگر کی جائز ہے
                            8۔ اور اسی طرح بعض محدثین کے نزدیک روایت بالمعنی کا اختیار فقط صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے کیونکہ وہ کلام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دقائق اور وقائع دونوں کے ناظر و مشاہد ہیں
                            ۔۔۔۔

                            معزز قارئین کرام یہ تو تھی روایت بالمعنی کے جواز و عدم وجواز پر مشتمل اختلاف کی امہات الکتب سے تحقیقی اور انتہائی مختصر بحث ۔ہم نے قارئین کی بوریت اور وقت کی قلت کی وجہ سے اس بحث کو انتہائی مختصر رکھا وگرنہ علم حدیث کے مبتدی طالب علم پر یہ بات روشن ہے کہ اجلہ محدثین ،فقہاء اور اصولیین نے اس باب میں کس کس طریق سے اور کتنی طویل اور بامعنی بحوث نقل کی ہیں جسے شوق ہو امہات کتب کی طرف رجوع کرے ۔۔۔ اللہ پاک ان سب کے درجات بلند فرمائے کہ انھوں نے دین اسلام کی خدمت میں اپنے شب و روز ایک کرڈالے اور ہمارے لیے معاملہ بہت آسان کردیا کہ ہم تو اب محض ناقلین ہیں ۔ ۔
                            اب اس کے بعد اگلے مراسلہ میں ہم محترم معترض کے چند اعتراضات کو نقل کرکے عقل و نقل کے اعتبار سے اسکا تحقیقی و تنقیدی جائزہ پیش کریں گے نیز ہمارا اگلا مراسلہ اس موضوع پر بصورت محاکمہ ہوگا ۔۔۔
                            فقط والسلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے ۔ ۔
                            ۔۔

                            Last edited by aabi2cool; 19 August 2011, 07:19.
                            ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                            Comment


                            • #15
                              Re: help me

                              اسلام علیکم معزز قارئین کرام اس سے پہلے کہ ہم معترض کے اعتراضات کی طرف بڑھیں ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں انتہائی مختصر طور پر حدیث رسول کی تعریف پیش کردی جائے ۔

                              حدیث کے لفظی معنی بات اور گفتگو کے ہیں علامہ جوہری صحاح میں لکھتے ہیں : " الحدیث الکلام قلیلہ وکثیرہ "

                              یعنی حدیث بات کو کہتے ہیں کم ہو یا زیادہ ۔

                              یہی کلام جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے حوالہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال ،افعال و اوصاف اور تقاریر کی صورت میں بیان کیا جائے یعنی روایت کیا جائے تو احادیث کی اس روایت یعنی تحدیث کو (یعنی آگے پہنچانا ) کہا جاتا ہے
                              ۔

                              حدیث لغوی معنی: لغوی معنٰی جدید (نیا) اس کی جمع احادیث خلاف ضابطہ آتی ہے۔
                              حدیث اصطلاحی تعریف : ایسا قول فعل یا تقریر جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب منسوب ہو یعنی محدثین کی اصطلاح میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر کو حدیث کہتے ہیں ۔
                              محدثین نے صحابہ اور تابعین کے اقوال ،افعال اور تقاریر پر بھی حدیث کا اطلاق کیا ہے ۔

                              روایت نام ہے حدیث کی تحدیث یعنی TRANSMISSION کا ۔ دنیا جہان کی ہر زبان اور اس کے قواعد و ضوابط میں کسی بھی کلام کو متکلم کی نسبت سے بیان کرنے کے لیے ہر دو طریق بالاتفاق رائج ہیں ایک ہوتا ہے کلام کو تحت اللفظ یعنی بعینہ متکلم کے الفاظ میں نقل کرنا اور دوسرا ہوتا ہے تحت المعنی یعنی کلام کو متکلم کی مراد کے مطابق نقل کرنا ان میں سے پہلے طریق پر تو کوئی گفتگو نہیں وہ بالاتفاق جائز و درست ہے ۔
                              جبکہ دوسرے طریق پر کچھ اضافی اصول و قواعد ہیں یعنی یہ کے قائل متکلم کے کلام کا ہر پہلو سے احاطہ کیے ہوئے ہو۔ یعنی الفاظ اور اسکے مدلولات پر قائل کو مکمل دسترس ہو نیز اسکے ساتھ ساتھ وہ کلام کے دقائق اور متکلم کے مرادی معنی کے اعتبار سے ماحول وقائع کا بھی عالم ہو وغیرہ وغیرہ تو ایسی صورت میں اس کا کسی بھی کلام کو تحت اللفظ کی بجائے تحت المعنی بیان کرنا بالکل جائز امر ہوگا اور ویسے بھی یہ منطقی اصول ہے کہ کلام میں اصل مقصود بالذات معنی ہوتے ہیں نہ کہ الفاظ کا تناسب یعنی کسی بھی کلام کا مقصود اصلی اسکا معنی و مفھوم ہوتا ہے یعنی ہم جب بھی بولنے کے لیے کوئی کلمہ منہ سے نکالتے ہیں تو اس سے اصلا ہماری مراد ہمارے مخاطبین تک اس معنی کا انتقال ہوتا ہے جو کے ہماری معلومات میں ہو یعنی جو مرادی معنی ہماری دسترس علمی میں ہوتا ہے ہم اسے ہی مختلف الفاظ کی شکل میں چاہے مشترک ہوں یا متحد المعنی مفرد ہوں یا مرکب اپنے مخاطبین تک منتقل کرتے ہیں ۔
                              لہذا ثابت یہ ہوا کلام نفسی میں اصلا مقصود الفاظ نہیں بلکہ اس کلام نقسی کا مراد و مفھوم معتبر و مقصود بالذات ہوا کرتا ہے سو یہی وجہ ہے روایت حدیث میں بھی اس منطقی اصول کی پیروی کی گئی ہے لہذا مشروط طور روایات کو بالمعنی طریق سے روایت کرنے کی اجازت دی گئی ہے جیسا کہ ہم اوپر بیان کرچکے چناچہ یاد رہے کہ محدثین کی اصطلاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال و اقوال اور آپ کے سامنے پیش آئے واقعات کو حدیث کہا جاتا ہے لہذا اگر روایت بالمعنی کی کوئی ضرورت پیش آئے بھی تو وہ فقط اقوال رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی حدیثوں میں تو آسکتی ہے مگر آپ کے افعال و احوال کو جب بھی بیان کیا جائے گا تو راوی اسے اپنے ہی الفاظ میں ہی بیان کرئے گا۔ اور یہ ایک ایسی بدیہی بات ہے کہ جس کا کوئی انکار نہیں کرے گا الا یہ کہ جاہل ۔
                              لہذا جب یہ ثابت ہوا کہ علم حدیث کی رو سے روایات کا ایک بڑا ذخیرہ خود محتاج ہے کہ اسے بالمعنی طریق پر بیان کیا جائے چناچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال و احوال کو بیان کرنے والا ہر روای اپنے اپنے تجربہ و مشاہدہ کی رو سے ان واقعات کو خود اپنے ہی الفاظ میں نقل کرتا ہے۔

                              جہاں تک بات ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کی تو ان میں بھی جیسا کہ ہم اوپر نقل کر آئے اذکار و ادعیہ ،اذان و اقامت تشھد و تسبیحات ،احادیث اخلاق ،احادیث قدسیہ اور جوامع الکلم کے بارے میں بلا خوف تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب کہ سب تحت اللفظ ہی منقول ہیں ان کے علاوہ جو احادیث ہیں انھے بھی صحابہ کرام تحت اللفظ یاد رکھنے کا بڑا اہتمام کیا کرتے تھے جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ بعض صحابہ تو اسکے وجوب کے قائل تھے نیز اگر کہیں روایت بالمعنی ناگزیر ہو بھی جائے تو بھی اس کے لیے چند شرائط مذکور ہیں کہ جو اگر پیش نظر ہوں تو حدیث کا مفھوم بدلنا ناممکن ہے ۔

                              یعنی راوی عربی زبان کے اسرار و رموز سے واقف ہو یعنی عربی زبان و ادب نیز اسکے قواعد و ضوابط کے ساتھ ساتھ اسکے محاورہ اور عرف کا بھی عالم ہو
                              نیز شریعت کی غرض و غایت اور مقاصد سے بھی آگاہ ہو نیز وہ ایسی حدیث بالمعنی بیان کرئے جو کہ حلال و حرام سے متعلق نہ ہو اور اگر ہو تو مفھوم اس طریق سے ادا کرئے کہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہ بنائے ۔
                              لہذا جو راوی ان شرائط پر پورا نہ اترے محدثین کے نزدیک اسکی روایت بالمعنی مطلقا مقبول نہیں
                              ۔

                              نیز روایت بالمعنی کے سلسلے میں یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ احادیث نبویہ کے اولین راوی صحابہ کرام ہیں وہ جہاں ایک طرف اعلی درجہ کا حافظہ رکھنے والے تھے وہیں مزاج آشنا رسول اور نزول وحی کے شاہد و محافظ اور اعلی درجہ کی کردار و سیرت کے مالک تھے کہ جن کی نیتوں اور صدق ایمان و اعمال کی گواہی متعدد بار قرآن پاک نے دی ہے لہذا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کے مفھوم میں کسی قسم کے ایک ذرہ برابر بھی تغیر و تبدل کو اپنے لیے محال سمجھتے تھے لہزا اس قسم کے راویوں نے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو اپنے الفاظ میں بیان کردیا ہے تو اس سے یہ خیال کرنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کے اصل معنی میں تغیر واقع ہوگیا ہوگا صحابہ کرام سے تعصب ہے ۔ العیاذباللہ ۔

                              معزز قارئین کرام حدیث کو مشکوک بنانے کی سازش کوئی پہلی مرتبہ نہیں کی گئی ایک عرصہ سے منکرین حدیث مختلف حیلوں بہانوں اور اوچھے ہتھکنڈوں سے امت کے بھولے بھالے افراد کا ناطہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم توڑنے کی کوشش کررہے ہیں اور قرآن کی آڑ میں عامۃ الناس کو بہکارہے ہیں ۔

                              عمومی طور پر منکرین حدیث روایت بالمعنی کو جواز بنا کر احادیث کے اس ذخیرہ کو مشکوک ٹھرانے کی سازش کرتے کہ جسکو محدثین نے اخلاص و للٰہیت کے ساتھ شب و روز کی انتھک محنتوں بے لوث خدمتوں اور ان گنت کاوشوں کے زریعہ سے ایسا نکھار کرپیش کیا ہے کہ اب باطل کی کوئی چارہ جوئی انکے قائم کردہ اس علمی حصار کو توڑ کر امت مرحومہ کا رشتہ اپنے محبوب آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی دلنشیں سنتوں سے نہیں بگاڑ سکتی اور نہ ہی مشکوک بنا سکتی ہے اللہ پاک تمام محدثین و فقہاء پر اپنی خصوصی رحمتیں فرمائے آمین ۔

                              منکرین حدیث سے ایک الزامی سوال :
                              عمومی طور پر منکرین حدیث حجیت حدیث کا یہ کہہ کر انکار کردیتے ہیں کہ احادیث میں روایات بالمعنی شامل ہیں سو احادیث کا ذخیرہ قابل احتجاج نہیں اور یوں وہ امت کا رخ حدیث سے موڑ کر براہ راست قرآن کی طرف جوڑتے ہیں اور اپنے زعم باطل میں داعی قرآن بنے پھرتے ہیں لیکن یہی سوال ہم ان سے قرآن کی بابت کرتے ہیں کہ یہ طے شدہ بات ہے کہ قرآن میں قصص سابقہ انبیاء و امم بکثرت موجود ہیں اور یہ بات بدیہی ہے کہ تمام انبیاء اور ان کی امتوں کی زبان ہرگز عربی نہ تھی بلکہ بعض کی عبرانی بعض کی سریانی اور بعض کی دیگر زبانیں اور لہجے تھے تو پھر کیا وجہ ہے قرآن پاک میں ان سب کے قصص فقط عربی زبان میں مذکور ہیں نیز اس پر بھی بعض جگہ ایک ہی واقعہ کو اختصارا بیان کیا گیا ہے اور بعض جگہ اسی واقعہ کو تطویلا بیان کیا گیا ہے اور تو اور قرآن کریم میں ایک ہی واقعہ کو متعدد اسالیب میں بیان کیا گیا ہے اور بیان کے وقت الفاظ اور ترتیب میں نمایاں فرق بھی ہے ۔ لہذا جو لوگ روایات بالمعنی کی بنیاد پر حدیث کو مشکوک ٹھراتے ہیں وہ قرآن کے بارے میں کیا جواب دیں گے ؟؟؟؟
                              ما ھو جوابکم فھو جوابنا ۔۔فاعتبروا یااولی الابصار
                              ۔۔

                              اب ہم ذیل میں محترم معترض موصوف کے اعتراضات کو نقل کرکے ان کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ پیش کریں گے ۔ ۔ ۔

                              اقتباس:
                              اعتراض نمبر ایک :
                              کتاب تذکرہ الحفاظ جلد اول صفحہ ٣ پر درج ہے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لوگوں
                              کو جمع کیااور کہا تم رسول اللہ کی بہت سی حدیثیں بیان کرتے ہواور ان میں اختلاف بھی کرتے
                              ہواور تمہارے بعد کے لوگ بہت زیادہ اختلاف کریں گے پس تم رسول اللہ صعلم سے کوئی حدیث
                              نہ بیان کرو۔۔جو کوئی تم سے پوچھے تو کہدوکہ ہم میں ور تمہارے میں اللہ کی کتاب یعنی قران مجید ہے


                              لگتا ہے ہمارے ممدوح معترض موصوف منکرین حدیث کے لٹریچر سے متاثر ہیں کیونکہ جو سوال انھوں نے اٹھایا ہے اس قسم کہ سوالات ایک عرصہ سے منکرین حدیث کبھی غلام احمد پرویز کبھی حافظ محمد اسلم جیراجپوری اور کبھی تمنا عمادی کی صورتوں میں اٹھا چکے ہیں اور علمائے حق سے منہ کی کھا چکے ہیں ۔
                              لہزا انکے شافی اور مسکت جوابات ایک عرصہ سے علمائے حق نے منکرین حدیث کے رد میں لکھی گئی بے شمار کتب میں دے رکھے ہیں ۔مگر لگتا ہے کہ ہمارے ممدوح کی پہنچ میں ابھی تک فقط منکرین حدیث کا ہی لٹریچر آیا ہے لہزا یہی وجہ ہے کہ انھوں نے امام ذھبی کی تذکرۃ الحفاظ میں اصل حوالہ دیکھے بغیر کسی منکر حدیث کی کتاب سے فقط اعتراض نقل کردیا ہے آئیے ہم آپکے سامنے امام ذھبی کی اصل عبارت اور پھر اس پر امام صاحب کا ذاتی تبصرہ بھی نقل کریں :

                              ومن مراسيل ابن أبي مليكة أن الصديق جمع الناس بعد وفاة نبيهم فقال إنكم تحدثون عن رسول الله صلى الله عليه و سلم أحاديث تختلفون فيها والناس بعدكم أشد اختلافا فلا تحدثوا عن رسول الله شيئا فمن سألكم فقولوا بيننا وبينكم كتاب الله فاستحلوا حلاله وحرموا حرامه
                              فهذا المرسل يدلك على أن مراد الصديق التثبت في الأخبار والتحري لا سد باب الرواية ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔


                              امام صاحب نے اس اثر کو مراسیل ابی ملیکہ سے نقل کیا ہے اور مرسل روایت علم اصول حدیث کی رو سے بالاتقاق ضعیف روایت شمار ہوتی ہے لہذا حجت نہیں نیز حافظ ذھبی کہتے ہیں یہ مرسل زیادہ سے زیادہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ صدیق اکبر روایات کے معاملہ میں خوب چھان پھٹک ( investigation and confirmation ) کرنے والے تھے یعنی بہت محتاط تھے اسی لیے انھوں نے حضرت صدیق اکبر کا تذکرہ ان الفاط کے ساتھ شروع کیا ہے کہ
                              " وكان اول من احتاط في قبول الاخبار " کہ آپ وہ پہلے محتاط شخص تھے کہ جنھوں نے قبول روایت میں احتیاط برتی ۔
                              لہذا امام صاحب نے لکھا کہ یہ مرسل اس بات پر دلالت ہے کہ صدیق اکبر روایات کہ سلسلہ میں انتہائی احتیاط برتنے والے تھے تاکہ خبر کی تحقیق بصورت توثیق تصدیق کی جاسکے جبکہ انکا ہرگز مطلب (بیان) روایات کا سدباب کرنا نہ تھا ۔

                              جبکہ ہم کہتے ہیں کہ امر اول تو یہ ہے کہ یہ روایت خود ضعیف ہے جبکہ اس کے مقابلہ میں بخاری و مسلم اور دیگر کتب صحاح کی جید روایات اس امر پر شاہد ہیں احادیث کو بیان کیا جائے امر دوم یہ کہ ہمارے محترم معترض نے " روایت بالمعنی " کے عنوان کہ تحت اس روایت کو نقل کیا ہے جبکہ اس روایت میں روایت بالمعنی کا تو سرے سے ذکر ہی موجود نہیں بلکہ اس روایت میں تو مطلقا روایت کرنے کی ممانعت ہے لہزا معترض کہ نکتہ اعتراض کی " معقولیت " کے اعتبار سے بھی یہ روایت" پایہ استدلال " کو نہ پہنچ سکی ۔۔

                              اقتباس:
                              اعتراض نمبر دو : حضرت عمر فاروق نے بھی بہت دفعہ اوربہت لوگوں کو آنحضرت سے حدیثوں کے روایت کرنے سے
                              منع کیا اور کہا کہ حسنا کتاب اللہ یہاں تک کے ایک دفعہ انہوں نے بڑے عالماورفقیہ تین صحابیوں
                              کو یعنی ابن مسعود، ابوداود اورابو مسعود انصاری کو اس لیے کہ وہ انحضرت صلی علیہ واسلم سے
                              بہت سی حدیثیں روایت کیا کرتے تھے قید کر دیا


                              یہ روایت بھی ہمارے ممدوح نے کسی منکر حدیث کی کتاب سے نقل کی ہے لہذا یہی وجہ کے اصل ماخذ کتاب کا نام اور تبصرہ مصنف مفقود ہے ۔

                              آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ روایت کس کتاب میں آئی ہے اور اسکی حیثیت کیا ہے
                              یہ روایت توجیہ النظر سے لی گئی ہے آئیے ہم اسی کتاب سے مکمل روایت اور مصنف کا تبصرہ نقل کردیں ۔

                              قال علي ورووا عنه أنه حبس عبد الله بن مسعود۔۔۔۔۔۔ قال قال عمر لابن مسعود ولأبي الدرداء ولأبي ذر ما هذا الحديث عن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال وأحسبه أنه لم يدعهم أن يخرجوا من المدينة حتى مات قال علي هذا مرسل ومشكوك فيه من شعبة فلا يصح ولا يجوز الاحتجاج به ثم هو في نفسه ظاهر الكذب والتوليد ۔ ۔
                              یعنی جب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس روایت کا ذکر کیا گیا کہ تو انھوں نے فرمایا کہ یہ مرسل مشکوک ہے کیونکہ اس میں شعبہ ہے اور یہ صحیح نہیں اور اس سے احتجاج بھی جائز نہیں اور پھر یہ روایت فی نفسہ ہی جھوٹ اور کذب ہے جو کہ گھڑی گئی ہے ۔۔۔

                              ہم کہتے یں کہ اول روایت مرسل ہے اور شدید ضعیف اور پھر اس سے بھی بڑھ گھڑنتو اور مکذوب ہے لہزا قابل احتجاج نہیں ثانیا اس روایت میں بھی مطلقا روایات نہ بیان کرنے کی بات کہی گئی ہے روایات بالمعنی کا ایشو یہاں زیر بحث نہیں لہزا اصول کے مطابق معترض کو اس سے احتجاج جائز نہیں اور نہ ہی یہ انکے موئید ہے۔

                              لطیفہ : منکرین حدیث کے لٹریچر میں یہ ایک بڑا لطیفہ ہے کہ سارے کا سارا لٹریچر حجیت حدیث کے خلاف ہوتا ہے اور امت کو یہ باور کرانے میں ہوتا ہے کہ احادیث ناقابل احتجاج ہیں کیونکہ فنی حیثیت سے سب کی سب مشکوک ہیں مگر طرفہ یہ ہے ان کے تمام لٹریچر میں* احتجاج بھی خود روایات سے ہی کیا جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر ان روایات سے کو جو فن حدیث اور اصول حدیث کے اعتبار ناقابل احتجاج ہیں یعنی اتنے بڑے ذخیرہ احادیث یکسر ناقابل احتجاج ٹھرانے کے لیے منکرین حدیث خود اشی شئے کا سہارا لیتے ہیں کہ جس شئے کو ناقابل حجت بیان کر رہے ہوتے ہیں اور اس ذخیرے میں بھی ان کو صحیح حدیث شاذ ہی اپنے مطلب پر ملتی ہے تبھی تو ضعیف حتی کے موضوع روایات سے اپنی مطلب برآری چاہتے ہیں فیا للعجب ۔ ۔ ۔

                              اقتباس:
                              تیسرا اعتراض :حضرت ابوبکر اورحضرت عمر کے بعد جو زمانہ آیا جس میں مشاجرات صحابہ اور جنگ جمل اور جنگ
                              صفین واقع ہوئیاوراخر کار دردناک واقعہ شہادت حسین علیہ اسلام کا واقع ہوا پھر بنی امیہ اور بنی عباس
                              کا زمانہ آیا اور وہ ایسا شور شغب کا زمانہ تھااورروایات پر بد اثر ڈالنے والا بہت سی حدیثیں گھڑی گئی
                              کے بیان سے باہر ہے


                              صحابہ کرام ان کے کردار اور انکے اخلاص و للٰہیت پر تو کوئی بھی صاحب نظر کلام نہیں کرسکتا رہ گئی بنو امیہ اور بنو عباس کہ پر فتن دور کی بات تو ان ادوار میں جہاں وضاعین احادیث نے اپنا کام دکھایا وہیں محدثین نے بھی اصول حدیث روایتا اور درایتا کی ایسی ایسی چھلنیاں تیار کیں کہ ہر کھرا اور کھوٹا نکھر کر سامنے آگیا سو علم حدیث کا مبتدی طالب علم بھی ایسی ہر قسم کی روایات سے بخوبی آگاہ ہے لہذا فقط اس اعتراض کی رو سے تمام ذخیرہ احادیث کو نہ تو یکسر نظر انداز کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس اعتراض کی براہ راست ضرب روایت بالمعنی کی حجیت پر پڑتی ہے جو کہ ہمارے ممدوح معترض کے موئید ہو ۔۔۔

                              اقتباس:
                              چوتھا اعتراض :
                              ایک چیز جب ثابت ہو گئی کے آپ سے جتنی بھی حدیثیں روایت ہیں ماسوائے شاز و نادر چھوٹی حدیثوں
                              کے سب بالمعنی روایت کی گئی ہیں یعنی جو بات آپ نے جن لفظوں میں فرمائی تھیں وہ لفظ بعینہ
                              و بجنسہ نہیں ہیں بلکہ راویوں نے جو مطلب سمجھا اس کو ان لفظوں میں جن میں وہ بیان کر سکتے تھے
                              بیان کیا۔۔پھر اسی طرح دوسرے روای نے پہلےراوی کے اورتیسرے راوی نے دوسرے راوی کے اورچوتھے
                              راوی نے تیسرے راوی کے بیان کو اپنے لفظوں میں بیان کیا اور علی ہذاالقیاس


                              اوپر بیان کیے گئے اعتراضات سے روایات بالمعنی کا عدم جواز کہاں سے ثابت ہوا اگر برسبیل تنزل اوپر بیان کیے اعتراضات کو درست تسلیم کیا جائے تو عقل کا تقاضا یہ ہے کہ ان سے مطلقا روایات حدیث کو ہی مجروح قرار دے دیا جائے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے اور نہ ہی یہ ہمارے ممدوح کا بھی مطالبہ اور دعوٰی ہے ثانیا معترض کا یہ کہنا کہ سوائے معدودے چند چھوٹی حدیثوں کہ باقی سب کی سب احادیث روایات بالمعنی ہیں ایک ایسا دعوٰی ہے جو کہ بلا ثبوت اور محتاج دلیل ہے لہزا اول اس امر کا ثبوت فراہم کیا جائے کہ کس قدر روایات بالمعنی ہیں اور پھر ہر دور میں کہاں کہاں کس کس روایت میں کن کن روایوں نے اپنے الفاظ شامل کیے ؟؟؟؟ اس ضمن میں اگر فقط چند ایک امثال ہی نقل کردی جائیں تو کافی ہونگی زیادہ تفصیلی اعداد و شمار کی حاجت نہیں امید ہے کہ ہم مایوس نہ ہونگے ہمارے ممدوح معترض ضرور اس امر کا ثبوت باہم پہنچائیں گے ۔۔

                              حقیقت یہ ہے کہ ہمارے محترم ممدوح کا یہ اعتراض محض مفروضے پر مبنی ہے لہذا بے سرو پا ہے اور محتاج دلیل ہے لہزا یہی وجہ ہے کہ اصول حدیث اور نقل اور عقل ہر دو اصولوں کے خلاف ہے اول ہم اوپر نقل کر آئے روایات بالمعنی مشروط اعتبار سے جمہور محدثین کے نزدیک قابل قبول ہے اور پھر روایات بالمعنی پر انحصار اس وقت تک زیادہ تھا جب کہ ابھی زیادہ تر روایات کی تدوین نہ ہوئی تھی یعنی دور صحابہ لہزا یہی وجہ ہے کہ بعض اصولیین کے نزدیک صحابہ کا روایت بالمعنی کرنا جائز ہے جبکہ ان کے بعد والوں کا نہیں اور پھر سب سے بڑھ کر جب روایات تابعین کے دور میں زیادہ تیزی سے مدون ہونا شروع ہوگئیں تو روایات بالمعنی کی ضرورت بھی معدوم ہوتی گئی چناچہ یہی وجہ ہے متن حدیث تو ایک طرف بعد میں آنے والے محدثین جب کسی مدون شدہ نسخہ کی سند میں بھی کوئی وضاحتی نوٹ دینا چاہا تو اول سند کے الفاظ جوں کے توں نقل کیے اور پھر بعد میں حاشیہ یا پھر قوسین میں وضاحتی نوٹ ساتھ لکھا تاکہ وہ اصل کتابیں جب بعد میں آنے والے لوگ پڑھیں تو فرق کرسکیں کہ اصل محدث کے کیا الفاظ تھے جب کہ محشی و شارح کے کیا الفاط ہیں ۔۔۔

                              یہی ہمارے ممدوح معترض بنیادی اعتراضات تھے کہ جن کے جوابات ہم نے عرض کردیے باقی ہمیں اپنے ممدوح معترض پر حسن ظن ہے کہ انھے منکرین حدیث کا لٹریچر پڑھ کر واقعی شبہات لاحق ہوگئے تھے لہزا ہم نے اپنی سی کوشش کرتے ہوئے انھے مطمئن کرنے کی کوشش ضرور کی اب ہم اس میں کس حد تک کامیاب ہویے اس بات کا فیصلہ قارئین کرام پر چھوڑتے ہیں والسلام ۔ ۔ ۔
                              Last edited by aabi2cool; 19 August 2011, 07:23.
                              ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                              Comment

                              Working...
                              X