Announcement
Collapse
No announcement yet.
Unconfigured Ad Widget
Collapse
ﺗﺼﻮﻑ
Collapse
X
-
Re: ﺗﺼﻮﻑ
Originally posted by Umeed E Sahar View Post
is k maani hum jamil.. ya waseem le sakty hain :p
آپ تو ماشاء اللہ کافی ذھین ہیں ویسے آپ کا نک بھی بہت اچھا ہے ایک روشنی کی امید
جلد میں بھی ایسا نک رکھنا چاہتا ہوں جس میں امید کی کرن ہو آپ مدد کریں گئی
Last edited by Jamil Akhter; 19 October 2014, 14:30.ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں
Comment
-
Re: ﺗﺼﻮﻑ
السلام علیکم -
بعض اہل قلم نے تصوف کے بارے میں کچھ اسطرح اظہارخیال کیا ہے:
حقیقی تصوف یہودیت سے شروع ہوا ہے جب ان کے مذہبی پیشواوں نے اسکندریہ میں یونانی فلسفہ کا مطالعہ کیا اور وہاں اس فلسفہ اور اپنے معتقدات کے امتزاج سے ایک نیا مذہب ایجاد کیا۔ فیلو اس مذہب کا امام ہے جبکہ تصوف کا ابولاباء دراصل افلاطون کو کہا جاسکتا ہے۔ جس نے سب سے پہلے یہ تصور پیش کیا تھا کہ اس عالم محسوس کے اوپر ایک اور عالم مثال ہے وہ عالم حقیقی ہے اور یہ عالم صرف اسکا پرتو ہے۔ افلاطون کے اس فلسفہ کی نشاۃ ثانیہ بعد کے فلاسفروں کے ہاتھوں ہوئی جن کا امام فلاطینس تھا ان میں سے ایک فلاسفر نے ہندوستان کا سفر کیا اور وہاں کے برہمنوں سے ہندی تصوف سیکھا۔ فلاطینس رومی لشکر کے ساتھ ایران گیا وہاں کے مغوں سے مجوسی تصوف کی تعلیم حاصل کی اسکے تعد ان فلاسفروں نے فلاطینس کی زیر سرکردگی افلاطون کے فلسفہ قدیم کو ان ہندی اور ایرانی تصورات کے ساتھ ملا کر ایک جدید قالب میں ڈھالا۔ اسکا نام نوفلاطونی فلسفہ ہے اس فلسفہ کا مرکز اسکندریہ تھا جہاں فیلو کا یہودی تصوف اس سے متاثر ہوا۔ اسکا سب سے پہلا تاثر یہ پیدا ہوا کہ تورات کی شریعت معرفت اور حقیقت میں بدل گئی۔
یہودیوں کی ایک اہم کتاب زہار میں لکھا ہے:تورات کی روح درحقیقت اس کے باطنی معنوں میں پوشیدہ ہے۔ انسان ہر مقام پر خدا کا جلوہ دیکھ سکتا ہے بشرطیکہ وہ تورات کے ان باطنی معانی کا راز پا جائے۔
جہاں تک امام غزالی کا تعلق ہے تو اس میں تو کوئی شک نہیں کہ "تصوف " میں ان کا ایک اعلیٰ مقام ہے -لیکن تصوف سے امام غزالیؒ کی برأت
کے بارے میں امام سبکی رح اپنی کتاب طبقات الشافعیہ میں غزالی کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
''وہ آخری ایام میں خالص کتاب وسنت کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔(اللہ کرے ایسا ہی ہو) مگر امام غزالیؒ نے آخری ایام میں کوئی ایسی کتاب نہیں لکھی جس سے ثابت ہو کہ وہ کتاب وسنت کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔''[طبقات الشافعیۃ،بحوالہ:حامش:ہذہ ہي الصوفیۃ،ص
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ غزالی نے اپنی کتاب الاحیاء علوم میں یزید بن معاویہ کی تعریف و توصیف کی ہے اور ان پر لعنت بھیجنے اور ان کو فاسق کہنے کی ممانعت کی ہے
جو کہ صوفیا کرام کے مذہب میں ایک نازیبا چیز تصور کی جاتی ہے - صوفیا کی اہل بیت سے محبّت تریباً اس طرز پر ہے جس پر اہل تشیع ہیں - اور وہ بھی یزید بن معاویہ پر لعنت بھیجنا اپنے مذہب میں لازم و ملزوم سمجتھے ہیں - جیسا کہ اہل تشیع- لیکن امام غزالی کا نظریہ یزید بن معاویہ کے بارے میں اس کا بر عکس رہا ہے -
جہاں تک حضرت حسن بصری کا تعلق ہے تو باوجود اہل تصوف کا ان سے گہرا تعلق ہونے کے تاریخی اعتبار سے یہ ثابت نہیں کہ ان کی اپنے ہوش بلوغت میں حضرت علی رضی الله عنہ یا کسی بدری صحابی سے ملاقات ہوئی تھی - آخری صحابی حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ جب مدینہ میں سن ٩٣ ہجری میں فوت ہوے تو اس وقت حضرت حسن بصری اپنے والد کے ساتھ مدینہ ضرور آ ے تھے - لیکن اس وقت ان کی عمر ١٠ یا ١١ سال سے زیادہ نہیں تھی)- اس لئے صوفیوں کا حضرت علی رضی الله عنہ یا کسی صحابی سے حسن بصری رح سے تعلق قائم کرنا تاریخی ا عتبار سے صحیح نہیں (واللہ ا علم)Last edited by Muhammad Ali Jawad; 19 October 2014, 15:37.
Comment
Comment