Re: رافضہ کے توسیعی عزائم
”حضرت علی کرم اللہ وجہہ جب یمن میں تھے تو وہاں لوگوں نے حضرت علی
کے بارہ میں کچھ باتیں کیں، جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اطلاع ہوئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے حجة الوداع کے بعد واپسی پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی قدر و منزلت کو بیان کرتے ہوئے یہ فرمایا: ”جو شخص مجھ سے محبت رکھتا ہے وہ علی سے بھی محبت رکھے۔“ (مرقاة، ص:۵۶۸، ج:۵)
اس کے ساتھ ہی اگر حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید
کی کتاب ”اصلاحی مواعظ“ میں حضرت علی مولیٰ کہنے کی وجہ اور اس کے پس منظر کو پڑھ لیا جائے تو معاملہ اور زیادہ واضح ہوکر سامنے آجاتا ہے، کیونکہ دیکھا جائے تو حضرت شہید نے اس قسم
کے تمام اقوال اور تحقیقات کا خلاصہ اور عرق بایں الفاظ کشید کیا ہے
”مولیٰ کے بہت سے معنی آتے ہیں، ان میں سے ایک معنی محبوب کے بھی ہیں، مطلب یہ کہ جو شخص کہ مجھ سے محبت رکھتا ہو وہ علی رضی اللہ عنہ سے بھی محبت رکھے، اور یہ بات اس لئے ارشاد فرمائی تھی کہ حجة الوداع سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو یمن بھیجا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہیں یمن سے مکہ مکرمہ آکر ملے تھے اور وہاں یمن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دوسرے حضرات بھی گئے ہوئے تھے، ان کا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا آپس میں کسی بات پر مناقشہ ہوگیا اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شکایت کی، اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رنج ہوا کہ جب میری زندگی میں حضرت علی پر اعتراض کئے جارہے ہیں تو بعد میں کیا ہوگا؟ اس لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت کو ایک
فریضہ لازمہ کے طور پر امت کے ذمہ ضروری قرار دے دیا، یہ مطلب ہے اس حدیث : ”من کنت مولاہ فعلی مولاہ“ کا۔
کے بارہ میں کچھ باتیں کیں، جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اطلاع ہوئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے حجة الوداع کے بعد واپسی پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی قدر و منزلت کو بیان کرتے ہوئے یہ فرمایا: ”جو شخص مجھ سے محبت رکھتا ہے وہ علی سے بھی محبت رکھے۔“ (مرقاة، ص:۵۶۸، ج:۵)
اس کے ساتھ ہی اگر حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید
کی کتاب ”اصلاحی مواعظ“ میں حضرت علی مولیٰ کہنے کی وجہ اور اس کے پس منظر کو پڑھ لیا جائے تو معاملہ اور زیادہ واضح ہوکر سامنے آجاتا ہے، کیونکہ دیکھا جائے تو حضرت شہید نے اس قسم
کے تمام اقوال اور تحقیقات کا خلاصہ اور عرق بایں الفاظ کشید کیا ہے
”مولیٰ کے بہت سے معنی آتے ہیں، ان میں سے ایک معنی محبوب کے بھی ہیں، مطلب یہ کہ جو شخص کہ مجھ سے محبت رکھتا ہو وہ علی رضی اللہ عنہ سے بھی محبت رکھے، اور یہ بات اس لئے ارشاد فرمائی تھی کہ حجة الوداع سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو یمن بھیجا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہیں یمن سے مکہ مکرمہ آکر ملے تھے اور وہاں یمن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دوسرے حضرات بھی گئے ہوئے تھے، ان کا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا آپس میں کسی بات پر مناقشہ ہوگیا اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شکایت کی، اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رنج ہوا کہ جب میری زندگی میں حضرت علی پر اعتراض کئے جارہے ہیں تو بعد میں کیا ہوگا؟ اس لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت کو ایک
فریضہ لازمہ کے طور پر امت کے ذمہ ضروری قرار دے دیا، یہ مطلب ہے اس حدیث : ”من کنت مولاہ فعلی مولاہ“ کا۔
Comment