Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

Collapse
This topic is closed.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #76
    Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

    Originally posted by i love sahabah View Post
    شاباش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب جواب نہ ہو تو پھر وہی کاپی پیسٹ کر دو جس کا جواب میں دے چکا ہوں۔۔۔۔
    جناب جواب دینے کو چاہوں تو بہت تفصیل سے دے سکتا ہوں لیکن بات کو مختصر کرتا ہوں ۔۔۔


    تم نے اوپر 10 احادیث پیش کی رفع یدین کی۔۔۔۔
    تمہارا ان 10 میں سے کسی بھی حدیث پہ عمل نہیں ہے۔۔
    لولی سچ بتاؤ کیا تمہاری اپنی نماز ان 10احادیث کے مطابق ہے؟؟؟؟؟؟
    تم ان 10 احادیث سے نماز میں 4 جگہ کا رفع یدین دکھا سکتے ہو؟؟؟؟؟؟؟


    اور کاپی پیسٹ بھی عقل سے کیا جاتا ہے بیوقوفوں کی طرح نہیں۔۔
    تم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کی ہے۔۔۔


    عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ حِينَ يُكَبِّرُوَيَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ وَحِينَ يَرْكَعُ وَحِينَ يَسْجُدُ

    مسند احمد مسند المکثرین من الصحابہ مسند عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، اصل صفۃ صلاۃ جلد 1 ص 193

    “ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز شروع کرتے وقت جب تکبیر کہتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور رکوع اور سجدے میں بھی ایسا کرتے


    یہاں سجدوں کے رفع یدین کا بھی ذکر ہے جس کے تم منکر ہو۔۔۔
    کیا تم اس حدیث پہ عمل کرتے ہو اور سجدوں میں رفع یدین کرتے ہو؟؟؟؟؟؟؟

    یہ تمام احادیث تم نے خود اپنے موقف میں پیش کی ہیں تو لولی تم کو ان 10 احادیث سے اپنا موقف نماز میں 4 جگہ کا رفع یدین ثابت کرنا ہے۔






    لوگو دیکھ لو آئ لو صحابہ کا دماغ خراب ھو گیا ہے . بیچارہ فقہ حنفی میں اتنا ڈوبا ہے کہ کبھی احادیث کے بارے میں کیا کہتا ہے کبھی کیا


    یہ اپنے امام کو نہیں چھوڑ سکتے . لکن صحیح احادیث کو ٹھوکر مار سکتے ہیں

    فیصلہ پڑھنے والے کر سکتے ہیں

    میرے بھائی کے لیے سب مل کر دعا کریں کہ اللہ ان کو صحت دے

    آمین

    ثم

    آمین

    مجھ سے یہ بیچارہ یہ پوچھتا ہے

    Originally posted by i love sahabah View Post
    Originally posted by i love sahabah View Post

    ابو حمید ساعدی رضی اللہ کی حدیث بخاری شریف میں بھی ہے جس میں صرف پہلی دفع کا رفع یدین ہے۔

    (امام بخاری رح فرماتے ہیں کہ) ہم سے یحییٰ بن بکیر نے حدیث بیان کی کہا کہ ہم سے لیث نے خالد کے واسطہ سے (حدیث بیان کی) ان سے سعید نے ان سے محمد بن عمر بن {حلحلة} نے ان سے محمد بن عمر بن {عطاء} نے (حدیث بیان کی)....
    اور (دوسری سند سے امام بخاری رح فرماتے ہیں) کہا کہ مجھ سے لیث نے یزید بن ابی حبیب اور یزید بن محمد کے واسطہ سے بیان کی. ان سے محمد بن عمر بن {حلحلة} نے ان سے محمد بن عمر بن {عطاء} نے (حدیث بیان کی)....
    کہ وہ چند صحابہ (رضی الله عنھم) کے ساتھ بیٹھے ہوۓ تھے. نماز_نبوی کا ذکر ہوا تو (صحابی_رسول) حضرت ابو حمید ساعدی (رض) نے کہا کہ مجھے نبی (صلی الله علیہ وسلم) کی نماز (کی تفصیلات) تم سب سے زیادہ یاد ہے....میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبیر (تحریمہ) پڑھی، تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں شانوں کی مقابل تک اٹھائے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکوع کیا، تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر جما لئے، اپنی پیٹھ کو جھکا دیا، جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر (رکوع سے) اٹھایا تو اس حد تک سیدھے ہوگئے کہ ہر ایک عضو (کا جوڑا) اپنے اپنے مقام پر پہنچ گیا، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدہ کیا تو دونوں ہاتھ اپنے زمین پر رکھ دیئے، نہ ان کو بچھائے ہوئے تھے، اور نہ سمیٹے ہوئے تھے، اور پیر کی انگلیاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبلہ رخ کرلی تھیں، پھر جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو رکعتوں میں بیٹھے تو اپنے بائیں پیر پر بیٹھے، اور داہنے پیر کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑا کر لیا، جب آخری رکعت میں بیٹھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بائیں پیر کو آگے کر دیا، اور دوسرے پیر کو کھڑا کرلیا، اور اپنی نشست گاہ کے بل بیٹھ گئے

    [صحيح البخاري » كِتَاب الْأَذَانِ » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ » بَاب سُنَّةِ الْجُلُوسِ فِي التَّشَهُّدِ, رقم الحديث: 789(828

    اس صحیح سند والی حدیث میں نبی کی نماز میں نماز کے شروع میں رفع یدین کے علاوہ کا ذکر نہیں۔
    اور بخاری شریف کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صرف پہلی دفع کا رفع یدین کیا۔
    کیا آپ اس حدیث کو مانتے ہیں؟؟؟


    لکن ا س بیچارے کو تو یہ بھی پتا نہیں

    اگر یہ حدیث تکبیر تحریمہ کے رفح یدین کے علاوہ دوسرے رفح یدین کو منسوخ کرنے کی دلیل ہے تو

    لیجئے ہم اسی جیسی ایک ایسی صحیح حدیث پیش کرتے ہیں جس میں تکبیرتحریمہ والے رفع الیدین کے ترک کی دلیل بھی موجود ہے ملاحظہ ہو

    صحیح بخاری میں ہے

    ۔۔۔ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، " كَانَ يُكَبِّرُ فِي كُلِّ صَلاَةٍ مِنَ المَكْتُوبَةِ، وَغَيْرِهَا فِي رَمَضَانَ وَغَيْرِهِ، فَيُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْكَعُ، ثُمَّ يَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ثُمَّ يَقُولُ: رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ قَبْلَ أَنْ يَسْجُدَ ، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ حِينَ يَهْوِي سَاجِدًا، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَسْجُدُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ مِنَ الجُلُوسِ فِي الِاثْنَتَيْنِ، وَيَفْعَلُ ذَلِكَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ حَتَّى يَفْرُغَ مِنَ الصَّلاَةِ "، ثُمَّ يَقُولُ حِينَ يَنْصَرِفُ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنِّي لَأَقْرَبُكُمْ شَبَهًا بِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ كَانَتْ هَذِهِ لَصَلاَتَهُ حَتَّى فَارَقَ الدُّنْيَا

    [صحيح البخاري:1 /159رقم803]
    ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر نماز میں تکبیر کہتے تھے فرض ہو یا کوئی اور رمضان میں (بھی) اور غیر رمضان میں (بھی) ، پس جب کھڑے ہوتے تھے تکبیر کہتے، پھر جب رکوع کرتے تھے تکبیر کہتے، پھر سجدہ کرنے سے پہلے سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہتے اس کے بعدرَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ کہتے، اس کے بعد جب سجدہ کرنے کے لئے جھکتے، اللہ اکبر کہتے، پھر جب سجدوں سے اپنا سر اٹھاتے، تکبیر کہتے۔ پھر جب (دوسرا) سجدہ کرتے تکبیر کہتے، پھر جب سجدوں سے اپنا سر اٹھاتے ، تکبیر کہتے، پھر جب دو رکعتوں میں بیٹھ کر اٹھتے، تکبیر کہتے، (خلاصہ یہ کہ) اپنی ہر رکعت میں اسی طرح کرکے نماز سے فارغ ہوجاتے، اس کے بعد جب نماز ختم کر چکتے تو کہتے کہ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے بلاشبہ میں تم سب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے زیادہ مشابہت رکھتا ہوں، بلا شبہ آپ کی نماز اس وقت تک
    بالکل ایسی ہی تھی جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو چھوڑا



    غورفرمائیں اس صحیح حدیث میں تکبیرتحریمہ والے رفع الیدین کا بھی ذکرنہیں ہے تو کیا آپ کے اصول کے مطابق تکبیرتحریمہ والے رفع الیدین کے ترک پر صحیح حدیث ہے یا نہیں؟
    لطف تو یہ ہے کہ آپ کے اصول کے مطابق تکبیرتحریمہ والے رفع الیدین کے ترک پر دلالت کرنے والی اس حدیث میں یہ صراحت بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل تاحیات تھا اس حدیث کے اخیرمیں دیکھیں آپ کو یہ الفاظ نظر آئیں گے

    إِنْ كَانَتْ هَذِهِ لَصَلاَتَهُ حَتَّى فَارَقَ الدُّنْيَا


    کیا خیال ہے تکبیرتحریمہ والے رفع الیدین کے ترک پر آپ کے اصول کے مطابق یہ کیسی زبردست دلیل ہے جس میں تاحیات اور آخری وقت کی بھی صراحت



    اگرآپ کہیں کہ اس صحیح حدیث سے تکبیرتحریمہ والے رفع الیدین کے ترک پر استدلال درست نہیں ہے تو یہی تو ہم بھی کہتے ہیں کی رکوع کے بعد والے رفع الیدین کے ترک پر بھی کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے اورجن صحیح احادیث سے استدلال کیا جاتا ہے ان سے استدلال درست نہیں ہے جیسا کہ وضاحت کی گئی ۔

    اس تفصیل سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ تکبیرتحریمہ والے رفع الیدین کی جوحیثیت ہے- وہی حیثیت رکوع والے رفع الیدین کی بھی ہے۔

    Comment


    • #77
      Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

      Originally posted by shizz View Post
      [ATTACH]105744[/ATTACH]

      امام بخاری نے بھی اس راوی پر جرح کی ہے اور ابن المديني نے وجہ بھی بیان کر دی ہے کہ
      کسی روایت میں منفرد ہو تو اس کی روایت قابل قبول نہ ہوگی
      دوسرے راوی سفيان
      رتبته عند ابن حجر : ثقة حافظ فقيه عابد إمام حجة ، و كان ربما دلس
      سفيان بن سعيد بن مسروق الثورى بلاشبہ ثقہ ہیں لیکن ان پر تدلیس کرنا ثابت ہے اور اصول ھدیث کے قاعدے کے مطابق اگر مدلس راوی صیغہ عن سے روایت کرے تو اس کی بیان کردہ روایت ضعیف ہوتی ہے اور اس حدیث میں وہ صیغہ عن سے روایت کر رہے ہیں اسی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔
      Shizz........Hadees ibn masood(RS) pe jirah ka jawab baad mie du ga,,,,,,,, pehly LOVELY ki rewayat ka jawab de du.......jab hamari wo baat khatam ho jaye gi to es ka jwab deta hun.....

      Comment


      • #78
        Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

        Originally posted by shizz View Post


        حدثنا أبو بكر بن عياش ، عن حصين ، عن مجاهد قال : « ما رأيت ابن عمر يرفع يديه إلا في أول ما يفتتح الصلاة

        مصنف ابن ابی شیبہ

        اس حدیث کو ضعیف میں نہیں بلکہ کبار محدثین نے کہا ہے اب آپ کے لئے حوالہ جات کتب محدثین سے پیش ہیں اس حدیث پر بحث کرتے ہوے امام اللبيهقي اپنی کتاب معرفة السنن والآثار میں فرماتے ہیں

        وقد تكلم في حديث أبي بكر بن عياش محمد بن إسماعيل البخاري ، وغيره من الحفاظ

        کہتے ہیں کی اس حدیث ابوبکر بن عیاش پر امام بخاری اور دوسرے حفاظ نے کلام کیا ہے

        مما لو علمه المحتج به لم يحتج به على الثابت عن غيره أخبرنا أبو عبد الله الحافظ قال : أخبرنا محمد بن أحمد بن موسى البخاري قال : حدثنا محمود بن إسحاق قال : حدثنا محمد بن إسماعيل البخاري قال : والذي قال أبو بكر بن عياش ، عن حصين ، عن مجاهد ، عن ابن عمر في ذلك قد خولف فيه عن مجاهد .قال وكيع ، عن الربيع بن صبيح : « رأيت مجاهدا يرفع يديه » . وقال عبد الرحمن بن مهدي ، عن الربيع : « رأيت مجاهدا يرفع يديه إذا ركع ، وإذا رفع رأسه من الركوع » وقال جرير ، عن ليث ، عن مجاهد ، أنه : « كان يرفع يديه » هذا أحفظ عند أهل العلم .

        قال : وقال صدقة : إن الذي روى حديث مجاهد أنه لم يرفع يديه إلا في أول التكبيرة ، كان صاحبه قد تغير بأخرة يريد أبا بكر بن عياش قال البخاري : والذي رواه الربيع ، وليث أولى مع رواية طاوس ، وسالم ، ونافع ، وأبي الزبير ، ومحارب بن دثار ، وغيرهم ، قالوا : « رأينا ابن عمر يرفع يديه إذا كبر ، وإذا ركع ، وإذا رفع »

        کہتے ہیں اس سے دلیل نہیں لی جاے گی آگے امام بخاری اس کی وجہ بتاتے ہوے کہتے ہیں کہ اس لئے کہ ابو بکر بن عیاش یہ روایت مجاھد کے خلاف بیان کرتے ہیں کیوں کی مجاھد کا خود کا عمل رفع الیدین تھا نہ کی ترک رفع الیدین اور ان کے اس عمل کی تین اسناد سے تائید بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کی اہل علم میں یہی بات معروف ہے اصل میں آخری عمر میں ابو بکر بن عیاش کا حافظہ خراب ہو گیا تھا اس وجہ سے اس نے روایت غلط بیان کی اور حضرت ابن عمر کا عمل تو رفع الیدین ہی تھا نہ کے ترک رفع الیدین جسے ان سے طاوس،سالم،نافع،ابن زبیر،محارب بن دثار اور دوسرے بیان کرتے ہیں کی عبداللہ بن عمر رفع الیدین کیا کرتے تھے تکبیر میں رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت۔

        قال الشيخ أحمد ،وهذا الحديث في القديم كان يرويه أبو بكر بن عياش ، عن حصين ، عن إبراهيم ، عن ابن مسعود مرسلا . موقوفا ، ثم اختلط عليه حين ساء حفظه ، فروى ما قد خولف فيه ، فكيف يجوز دعوى النسخ في حديث ابن عمر بمثل هذا الحديث الضعيف

        اس پوری عبارت سے ہمیں پتہ چلتا ہے کی اس حدیث کے بارے میں امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کی پہلے ابو بکر بن عیاش اس روایت کو عبداللہ بن مسعود سے مرسل اور موقوف روایت کرتا تھا پر جب یہ اختلاط کا شکار ہوا اور اس کا حافظہ خراب ہوا تو اس کو اس طرح بیان کرنے لگا۔اور ابن عمر کے قریبی لوگوں نے اس کے خلاف بیان کیا ہے۔اور یہ حدیث ضعیف ہے اس قسم کی ضعیف روایت سے ابن عمر کی رفع الیدین کی روایت کو کیسے منسوخ کہا جا سکتا ہے

        الكتاب : معرفة السنن والآثار للبيهقي

        اس پوری بات سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کے اس روایت سے ترک رفع الیدین پر دلیل قائم کرنا انتہائی درجے کی لا علمی کا ثبوت ہے۔جیسے کے احناف کا اصول ہےکہ راوی اپنی بیان کی ہوئی روایت کو سب سے بہتر جانتا ہے اور اس روایت کے پہلے راوی جناب مجاھد کا خود کا عمل با سند صحیح رفع الیدین ہے نہ کہ ترک رفع الیدین تو احناف کے اپنے اصول پر بھی یہ روایت ضعیف ٹھہرتی ہے۔اب ہم کچھ حوالہ جات نصب الرایہ سے پیش کرتے ہیں

        وَإِذَا رَفَعَ ، وَكَانَ يَرْوِيهِ أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ قَدِيمًا عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ إبْرَاهِيمَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ مُرْسَلًا مَوْقُوفًا : أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ ، ثُمَّ لَا يَرْفَعُهُمَا بَعْدُ ، وَهَذَا هُوَ الْمَحْفُوظُ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ ، وَالْأَوَّلُ خَطَأٌ فَاحِشٌ لِمُخَالَفَتِهِ الثِّقَاتِ مِنْ أَصْحَابِ ابْنِ عُمَر

        پہلے ابو بکر بن عیاش اس روایت کو عبداللہ بن مسعود سے مرسل اور موقوف روایت کرتا تھا اور یہ بات محفوظ ہےاور یہ بات خطا فاحش ہے کیوں کی اس نے ابن عمر کے اصحاب کی مخالفت کی ہے۔
        نصب الرایہ

        لولی سب سے پہلے تو تمہارا اصول قرآن اور حدیث ہے اور میں تمہیں حدیث بیان کر رہا ہوں اور تم محدثین کے حوالے دے رہے ہو۔۔ یہ خود تمہارے اصول کے خلاف ہے۔۔
        دوسرا یہ جو جرح ہے یہ بے سند ہے۔۔ کیونکہ سب سے پہلے یہ جرح امام بخاری کی اپنی کتابوں میں نہیں ہے۔۔ جز بخاری میں صرف اتنا ہے کہ ابو بکر بن عیاش نے ابن عمر کے اصحاب کی مخالفت کی ہے یہ محمود بن اسحاق کا قول ہے نہ کہ امام بخاری کا۔۔۔
        دوسرا ایسی کوئی مرسل روایت امام بخاری یا امام احمد سے نہیں ہے جس ،میں يَرْوِيهِ أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ قَدِيمًا عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ إبْرَاهِيمَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ مُرْسَلًا مَوْقُوفًا ہو۔۔۔۔۔۔ یعنی ابن عیاش، عن حصین، عن ابراہیم عن ابن مسعود سے روایت کریں۔
        خود امام بخاری نے یہی سند ابوبکر بن عیاش عن حصین سے روایت کی ہے تو ثابت ہوا کہ اگر یہ جرح امام بخاری کی ہوتی تو وہ اس سند سے کوئی روایت ہی نہ لیتے۔۔
        صحیح بخاری میں اسی سند سے روایت کا ہونا ہی اس جرح کو غلط ثابت کرتا ہے۔۔


        تیسرا آخری عمر میں حافظے کی غلطی کی جرح کو تسلیم کر کے آپ نے اتنا تو کیا آپ تسلیم کرتے ہی کہ بخاری کی روایت پہ بھی یہ جرح ہے اور کیا یہ جرح بخاری کی روایت پہ بلکل صحیح ہے؟؟؟
        اور جس زبیر علی زئی کی کتاب سے اپ بخاری کے راوی پہ جرح نقل کر رہے ہیں کہ آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے تو جناب وہاں زبیر زئی نے خود ایک اصول بیان کیا ہے۔۔۔



        کہ '' صحیحین میں جس مختلاط و متغیر راوی سے استدلال کیا گیا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کے شاگردوں کی روایت اختلاط سے پہلے کی ہے '' ( نور العینین صفحہ 95)۔
        یہی زبیر زئی لکھتا ہے کہ '' مختالطین کی صحیحین میں بطور حجت روایت کا مطلب یہ ہے کہ وہ اختلاط سے پہلے کی ہیں ، یہ قوم دوسرے قرائن کی روشنی میں بلکل صحیح ہے۔''( مقالات، جلد1 صفحہ 435)۔


        جو سند میں نے پیش کی ہے مجاھد رح کے علاوہ بلکل وہی سند بخاری شریف میں بھی موجود ہے۔
        لولی ذرا بخاری کا حوالہ دیکھ لو۔

        حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ يَعْنِي ابْنَ عَيَّاشٍ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ قَالَ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أُوصِي الْخَلِيفَةَ بِالْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ أَنْ يَعْرِفَ لَهُمْ حَقَّهُمْ وَأُوصِي الْخَلِيفَةَ بِالْأَنْصَارِ الَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُهَاجِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقْبَلَ مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَيَعْفُوَ عَنْ مُسِيئِهِمْ.
        { كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ – بَاب وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ}

        Click image for larger version

Name:	00000000000000000.jpg
Views:	3
Size:	219.8 KB
ID:	2426614
        جناب لولی صاحب ! جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ اس روایت کے راوی بلکل صحیح ہیں تو اگر امام احمد حنبل، امام یحییٰ بن معین اور امام دار قطنی کی جرح ابوبکر بن عیاش کے وھم کی وجہ سے اگر یہ روایت باطل ہے تو یہی ابوبکر بن عیاش کی انہی راویں سے روایت بخاری شریف میں بھی ہے جس کا حوالہ میں نے پیش کیا ہے تو اس روایت کو بھی باطل قرار دے دیں۔

        اور امام احمد حنبل، امام یحییٰ بن معین اور امام دار قطنی کا اس روایت کو ابوبکر بن عیاش کی وجہ سے وہم وغیرہ کهنا، تو عرض ہے کہ امام نووی نے مختلط روات کے متعلق قاعدہ بیان کرتے ہوے فرمایا ہے کہ صحیحین میں مختلط روات کی جو روایات لی گئی ہیں وہ قبل الاختلاط اخذ پر محمول ہیں۔
        (تہذیب الاسماء للنووی ج 6ص 040)
        اور ہماری پیش کردہ روایت عن ابن ابی شیبہ ابی بکر بن عیاش کے طریق سے مروی ہے اور یہی طریق صحیح بخاری (ج 6ص 074) میں موجود ہے۔ معلوم ہو کہ یہ روایت قبل الاختلاط مروی ہے۔ پس وہم والا اعتراض بھی باطل ہے۔

        تو جناب اس اصول کے تحت یہ روایت بلکل صحیح ہے کیونکہ خود امام بخاری نے یہی سند ابوبکر بن عیاش عن حصین سے بخاری میں روایت پیش کی ہے۔۔
        اگر اس سند کو آپ مردود اور ضعیف کہتے ہیں تو آپ کو تسلیم کرنا پڑےا گا کہ بخاری کی روایت بھی اسی سند اور اسی ابوبکر بن عیاش کے اختلاط اور وھم کیو جہ سے ضعیف ہے۔۔۔
        کیا آپ تسلیم کرتے ہین کہ بخاری کی روایت بھی اسی وجہ سے اور اسی سند کی بدولت ضعیف ہے؟؟؟؟؟


        اپ نے محدثین کے حوالے دئے تو میں بھی جواب کے طور پہ محدثین کے حوالے دیتا ہوں۔
        علامہ ابن حجر رح رفع یدین کرنے اور نہ کرنے کی احادیث بیان کر کے لکھتے ہیں کہ دونوں روایات کا مفہوم یہ ہے کہ'' ابن عمر رضی اللہ کے نزدیک رفع یدین کرنا ضروری نہیں یہی وجہ ہے کہ آپ نے ایک بار رفع یدین کیا اور آخر میں چھوڑ دیا''۔(فتح الباری جلد 2 صفحہ 173)۔
        تو ابن حجر کے ھوالے دے واضح ہو گیا کہ ابن عمر رضی اللہ نے رفع یدین ترک کر دیا تھا۔


        Comment


        • #79
          Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

          Originally posted by i love sahabah View Post
          شاباش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب جواب نہ ہو تو پھر وہی کاپی پیسٹ کر دو جس کا جواب میں دے چکا ہوں۔۔۔۔
          جناب جواب دینے کو چاہوں تو بہت تفصیل سے دے سکتا ہوں لیکن بات کو مختصر کرتا ہوں ۔۔۔


          تم نے اوپر 10 احادیث پیش کی رفع یدین کی۔۔۔۔
          تمہارا ان 10 میں سے کسی بھی حدیث پہ عمل نہیں ہے۔۔
          لولی سچ بتاؤ کیا تمہاری اپنی نماز ان 10احادیث کے مطابق ہے؟؟؟؟؟؟
          تم ان 10 احادیث سے نماز میں 4 جگہ کا رفع یدین دکھا سکتے ہو؟؟؟؟؟؟؟


          اور کاپی پیسٹ بھی عقل سے کیا جاتا ہے بیوقوفوں کی طرح نہیں۔۔
          تم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کی ہے۔۔۔


          عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ حِينَ يُكَبِّرُوَيَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ وَحِينَ يَرْكَعُ وَحِينَ يَسْجُدُ

          مسند احمد مسند المکثرین من الصحابہ مسند عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، اصل صفۃ صلاۃ جلد 1 ص 193

          “ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز شروع کرتے وقت جب تکبیر کہتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور رکوع اور سجدے میں بھی ایسا کرتے


          یہاں سجدوں کے رفع یدین کا بھی ذکر ہے جس کے تم منکر ہو۔۔۔
          کیا تم اس حدیث پہ عمل کرتے ہو اور سجدوں میں رفع یدین کرتے ہو؟؟؟؟؟؟؟

          یہ تمام احادیث تم نے خود اپنے موقف میں پیش کی ہیں تو لولی تم کو ان 10 احادیث سے اپنا موقف نماز میں 4 جگہ کا رفع یدین ثابت کرنا ہے۔

          لولی تم نے اپنی ہی پیش کردہ ان 10 احادیث سے اپنا موقف ثابت کرنا ہے۔۔۔۔
          کیا تم میں اتنی بھی ہمت نہیں کہ اپنی ہی پیش کردہ ان 10 احادیث سے اپنا موقف ثابت کر سکو؟؟؟؟؟؟؟


          اگر ان احادیث سے تمہار ا موقف ثابت ہوتا ہے تو جواب دینے سے بھاگ کیوں رہے ہو؟؟؟
          اس سے بڑا جاہل اور کون ہو گا جو اپنی ہی پیش کردہ احادیث سے اپنا ہی موقف ثابت نہ کر سکے۔۔۔۔۔۔

          Comment


          • #80
            Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

            Originally posted by i love sahabah View Post

            لولی تم نے اپنی ہی پیش کردہ ان 10 احادیث سے اپنا موقف ثابت کرنا ہے۔۔۔۔
            کیا تم میں اتنی بھی ہمت نہیں کہ اپنی ہی پیش کردہ ان 10 احادیث سے اپنا موقف ثابت کر سکو؟؟؟؟؟؟؟


            اگر ان احادیث سے تمہار ا موقف ثابت ہوتا ہے تو جواب دینے سے بھاگ کیوں رہے ہو؟؟؟
            اس سے بڑا جاہل اور کون ہو گا جو اپنی ہی پیش کردہ احادیث سے اپنا ہی موقف ثابت نہ کر سکے۔۔۔۔۔۔


            لوگو دیکھ لو آئ لو صحابہ کا دماغ خراب ھو گیا ہے . بیچارہ فقہ حنفی میں اتنا ڈوبا ہے کہ کبھی احادیث کے بارے میں کیا کہتا ہے کبھی کیا


            یہ اپنے امام کو نہیں چھوڑ سکتے . لکن صحیح احادیث کو ٹھوکر مار سکتے ہیں

            فیصلہ پڑھنے والے کر سکتے ہیں

            میرے بھائی کے لیے سب مل کر دعا کریں کہ اللہ ان کو صحت دے

            آمین

            ثم

            آمین

            Comment


            • #81
              Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

              Originally posted by i love sahabah View Post

              لولی تم نے اپنی ہی پیش کردہ ان 10 احادیث سے اپنا موقف ثابت کرنا ہے۔۔۔۔
              کیا تم میں اتنی بھی ہمت نہیں کہ اپنی ہی پیش کردہ ان 10 احادیث سے اپنا موقف ثابت کر سکو؟؟؟؟؟؟؟


              اگر ان احادیث سے تمہار ا موقف ثابت ہوتا ہے تو جواب دینے سے بھاگ کیوں رہے ہو؟؟؟
              اس سے بڑا جاہل اور کون ہو گا جو اپنی ہی پیش کردہ احادیث سے اپنا ہی موقف ثابت نہ کر سکے۔۔۔۔۔۔
              لولی صرف تمہارے لئے۔۔۔۔۔۔۔۔

              جو بندہ اپنے موقف کو اپنے ہی اصول اور اپنی ہی پوسٹ سے ثابت نہ کر سکے اس سے بڑا جایل اور کون ہو گا۔۔۔

              Comment


              • #82
                Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

                Originally posted by i love sahabah View Post
                لولی صرف تمہارے لئے۔۔۔۔۔۔۔۔

                جو بندہ اپنے موقف کو اپنے ہی اصول اور اپنی ہی پوسٹ سے ثابت نہ کر سکے اس سے بڑا جایل اور کون ہو گا۔۔۔

                جاہل کون ہی یہاں سب کو پتا چل چکا ہے

                Comment


                • #83
                  Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

                  جی بلکل سب کو پتہ چل چکا ہے کہ کون ہر بار ٹاپک تبدیل کر کے نئی بات کرتا ہے اور کون قرآن اور حدیث کے حوالوں سے بھاگتا ہے۔۔۔


                  جو بندہ اپنے موقف کو اپنے ہی اصول اور اپنی ہی پوسٹ سے ثابت نہ کر سکے اس سے بڑا جایل اور کون ہو گا۔۔۔

                  جو بندہ اپنے موقف کو اپنے ہی اصول اور اپنی ہی پوسٹ سے ثابت نہ کر سکے اس سے بڑا جایل اور کون ہو گا۔۔۔

                  جو بندہ اپنے موقف کو اپنے ہی اصول اور اپنی ہی پوسٹ سے ثابت نہ کر سکے اس سے بڑا جایل اور کون ہو گا۔۔۔

                  Comment


                  • #84
                    Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

                    Originally posted by i love sahabah View Post
                    جی بلکل سب کو پتہ چل چکا ہے کہ کون ہر بار ٹاپک تبدیل کر کے نئی بات کرتا ہے اور کون قرآن اور حدیث کے حوالوں سے بھاگتا ہے۔۔۔


                    جو بندہ اپنے موقف کو اپنے ہی اصول اور اپنی ہی پوسٹ سے ثابت نہ کر سکے اس سے بڑا جایل اور کون ہو گا۔۔۔

                    جو بندہ اپنے موقف کو اپنے ہی اصول اور اپنی ہی پوسٹ سے ثابت نہ کر سکے اس سے بڑا جایل اور کون ہو گا۔۔۔

                    جو بندہ اپنے موقف کو اپنے ہی اصول اور اپنی ہی پوسٹ سے ثابت نہ کر سکے اس سے بڑا جایل اور کون ہو گا۔۔۔




                    ٹاپک تو سب پڑھ چکے ہیں میرے بھائی

                    اس پر تم کیا بات کرو گے

                    جو اپنے فقہ کو بچا نے کی خاطر صحیح احادیث کی کتابوں میں عربی اور اس کا ترجمہ اڑا دیں ان سے اور کیا توقع ھو سکتی ہے



                    Comment


                    • #85
                      Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے



                      آپ لوگ تو صحیح بخاری کی احادیث کو امام ابو حنیفہ رحم اللہ کے اقوال پر ترجیح دیتے ھو

                      پھر تم لوگوں سے صحیح احادیث پیش کر کے میں کیسے بات کر سکتا ہوں

                      ایک طرف صحیح بخاری اور دوسری طرف تمہاری ہدایہ اور بہشتی زیور

                      جو بندہ مانتا ہے اپنی ہدایہ اور بہشتی زیور کی ہے اس کو صحیح بخاری یا صحیح مسلم کی احادیث بتانے کا کیا فائدہ

                      اور مزے کی بات کہ فتویٰ بھی کھلے عام دیتے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کر رھے ہیں یہ لوگ

                      اللہ ہی ھدایت دے ان کو

                      آمین



                      ثبوت







                      Question: 6768

                      گزشتہ چند سالوں سے میں سعودی عربیہ میں مقیم ہوں۔ میرے دادا اورنانا دونوں دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہیں۔ میرا سوال یہ ہے
                      کیا صحیح بخاری قرآن شریف کے بعد سب سے معتبر کتاب ہے؟اگر ایسا ہے، تو پھر ہم ہندوستان میں صحیح بخاری کی بہت ساری احادیث کے بر خلاف کیوں عمل کرتے ہیں۔ بطور مثال، ہم انڈیا میں نماز میں رفع یدین نہیں کرتے ہیں، ہماری وتر کی نماز بخاری شریف میں مذکور طریقہ کے مطابق نہیں ہے، ہم ایک خاص مذہب کی اقتداء کرتے ہیں، اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی بھی صحابہ کسی خاص مسلک سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم انڈیا میں کچھ علماء کی رائے کی اقتداء کرتے ہیں بغیر ان کی آراء کے ذریعہ کی تحقیق کیے ہوئے۔کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ جس طریقہ سے ہم انڈیا میں نماز ادا کرتے ہیں وہ صحیح بخاری اور مسلم کی مستند احادیث سے کیوں نہیں ملتا ہے؟ ہم مسلم اوربخاری شریف کے بجائے ہدایہ کی اقتداء کیوں کرتے ہیں؟ اب میں بہت الجھن میں ہوں، کیوں کہ سعودی عربیہ میں ،مجھے اپنے سوالوں کے جوابات قرآن اور صحیح حدیث سے ملتیہیں، جس کو ان دنوں کوئی تصدیق کرسکتا ہے۔تاہم میں نے دارالافتاء کے جواب قرآن اور حدیث کے بجائے، بہشتی زیور یا دوسری کتابوں کے حوالہ سے دیکھے۔ کیا بہشتی زیور بخاری شریف اور مسلم شریف سے زیادہ مستند اورمعتبر ہے؟ برائے کرم میری الجھن کودورکرنے میں مدد کریں۔ میں نے یہ سوچنا شروع کردیا ہے کہ جس اسلام پر ہم انڈیا میں عمل کرتے ہیں وہ وہ نہیں ہے جس کو اللہ تبارک و تعالی نے اس زمین پر اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ بھیجاہے۔



                      فتوی: 1223=1057/ ب



                      یہ بات بالکل درست ہے کہ قرآن کریم کے بعد سب سے مستند اور صحیح کتاب ?بخاری شریف? ہے،اس کتاب کی روایتیں بہت مضبوط ہیں، اورائمہ کرام بہ کثرت اس سے استدلال کرتے ہیں، البتہ اگر احناف کوئی روایت اس سے بھی مضبوط پاتے ہیں تو پھر بخاری شریف کو چھوڑدیتے ہیں، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ بخاری شریف سب سے صحیح ہے تو کیوں چھوڑا گیا، کیوں کہ حدیث کے اندر ضعف راویوں کی وجہ سے آتا ہے، اورامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ یہ امام بخاری سے بہت پہلے کے ہیں، اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور صحابہٴ کرام کے درمیان صرف ایک واسطہ اور کہیں کہیں براہِ راست روایت ہے، اس لیے بہت ممکن ہے کہ ایک حدیث امام صاحب کے یہاں مضبوط ہو اور امام بخاری رحمہ اللہ کے یہاں راوی بڑھ جانے کی وجہ سے ضعف آگیا ہو، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے نہ لی ہو۔ اور نماز میں رفع یدین کے بارے میں جو اختلاف ہے وہ محض اولیٰ اور غیر اولیٰ کا ہے، جواز اور عدمِ جواز کا اختلاف نہیں ہے، رہا وتر کا مسئلہ تو وتر جس طرح ہم لوگ پڑھتے ہیں وہ طریقہ بخاری شریف میں مذکور ہے، اس وقت کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو محض افترا پردازی کرتے ہیں، اور سب باتوں کو سامنے نہیں لاتے۔ رہی یہ بات کہ ہم لوگ ایک خاص مسلک کی اقتداء کرتے ہیں، تو اس میں کیا حرج ہے؟ صحابہٴ کرام کے دور میں خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے اور انھوں نے اپنے کانوں سے سب کچھ سنا اور اور اگر کوئی بات نہیں سنی تو دوسرے صحابہ سے پوچھ کر ان کی اقتدا کی،کیا یہی صحابہٴ کرام جب دوسرے ملکوں میں گئے تو ان کی اقتدا نہیں کی گئی؟ پھر اقتدا کرنے کا حکم قرآن میں موجود ہے: فَاسْئَلُوْا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ ہاں آپ کو یہ اختیار ہے کہ چاروں ائمہ میں سے آپ کسی خاص امام کی اقتدا کرسکتے ہیں، البتہ ایک مسلک اختیار کرلینے کے بعد کسی خاص مسئلے میں آسانی کے لیے دوسرے مسلک پر عمل کرنا جائز نہیں، یہ تو محض کھلواڑ بن جائے گا، او راگر کوئی ایسا شخص ہے جو تمام مسائل، اصولِ تخریج، اصولِ ترجیح اور تمام علومِ عربیہ پر مہارت رکھتا ہے تو اسے بھی اجازت ہے کہ وہ براہِ راست قرآن و حدیث سے مسائل نکالے، لیکن اس امت کی محرومی ہے کہ ان چاروں ائمہ کے علاوہ آج تک کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوا، البتہ کچھ لوگ اپنے ہی منھ سے امام بن بیٹھے ہیں، ان کا اعتبار ہی کیا؟ ہم یہ بات بڑے وثوق سے کہتے ہیں کہ ائمہ کرام نے جو کتابوں میں لکھا ہے وہ ان کی رائے نہیں ہے بلکہ قرآن وحدیث میں بیان کردہ مسائل و اصول کی روشنی میں انھوں نے مسائل حل کیے ہیں، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ: ?اگر میرے قول کے خلاف کوئی ضعیف حدیث بھی مل جائے تو میرا قول چھوڑدینا? اگر آپ کے یہاں کچھ ایسے مسائل ہیں تو لکھ بھیجیں، ان شاء اللہ قرآن کی آیات اور احادیث سے مدلل جواب ارسال کیا جائے گا، جہاں تک ?ہدایة? کا سوال ہے تو اس میں کسی کی ذاتی رائے نہیں ہے بلکہ وہ فقہِ حنفی کے مسائل پر مشتمل ہے اور وہ فقہ بھی جو حدیث سے ماخوذ ہے۔ اسی طرح ?بہشتی زیور? ایک نہایت ہی معتبر اور باعمل عالم کی کتاب ہے، اس میں خود ان کی رائے نہیں ہے۔

                      Fatwa ID:6768 - Darul Ifta


                      یہ سوال اور جواب غور سے پڑھیں ، اور تبصرہ کریں
                      اور نیچے دیے گئے فتوی کو بھی پڑھ لیں ،


                      Fatwa ID:27069 - Darul Ifta
                      فتوی(ھ): 2656=1040-11/1431


                      Question: 27069
                      سوال یہ ہے کہ عقائد میں امام ابوحنیفہ کی تقلید نہ کرنے کی وجہ کیا ہے؟

                      ہرفن میں اس فن کے مسلم اکابرِ فن کی تقلید کی جاتی ہے، جس طرح فن حدیث شریف میں امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کی تقلید نہیں کی جاتی بلکہ ائمہ فن حدیث شریف کی تقلید کی جاتی ہے اسی طرح علم کلام میں بھی اُسی فن کے ائمہٴ کرام کی تقلید ناگزیر ہے: کما لا یخفی علی من لہ عقل سلیم امید ہے کہ اب کچھ اشکال جناب کو نہ رہے گا۔


                      دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

                      اس فتوی میں بتایا گیا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کو عقیدہ اور حدیث میں اس لیے چھوڑا گیا کیونکہ وہ ماہر نہیں تھے اس فن میں تو پھر مسا ئل کیسے اخذ کیے ، امام کے قول آنے پر صحیح حدیث چھوڑنے کی تعلیم کیوں دی جا رہی ہے اس بات کی سمجھ نہیں آتی ،


                      کیا یہ کھلی منافقت نہیں


                      Comment


                      • #86
                        Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

                        اسلام و علیکم -
                        احناف اپنے امام کے قول کو صحیح ثابت کرنے اور ان کے اجتہادات کو بچانے کے لئے کس طر ح ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں اس سے اکثریت واقف ہے -بلکہ خود احناف بھی اس سے اچھی طر ح واقف ہیں - لیکن الله نے جو قرآن میں فرما دیا ہے ؛

                        وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا سوره بنی اسرئیل ٨١
                        .اور کہہ دو کہ حق آیا اور باطل مٹ گیا بے شک باطل مٹنے ہی والا تھا
                        آ یے دیکھتے ہیں کیسے -:

                        سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں اور اہل سنت کہلانے والے تمام فرقوں کا ان کے صحابی ہونے پر اتفاق ہے۔

                        انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز شروع کرتے وقت ، رکوع جاتے وقت، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرنا بیان کیا ہے اور سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کا عمل بھی اسی طرح تھا۔ (دیکھئے صحیح بخاری ج ۱ ص ۱۰۲ ، درسی نسخہ ، صحیح بخاری مترجم ظہور الباری ۱۷۴/۱)

                        آلِ دیوبند رکوع کے وقت رفع یدین نہیں کرتے اور اس رفع یدین کے متعلق کہتے ہیں کہ
                        یہ رفع یدین نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائی دور میں کیا تھا
                        چنانچہ آل ِ دیوبند کے ’’شیخ‘‘ الیاس فیصل دیوبندی نے لکھا ہے:
                        ’’رفع یدین کرنے کی روایات ابتدائ دور سے متعلق ہیں پھر ان سے کیسے استدلال کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘ (نماز پیمبر صلی اللہ علیہ وسلم ص ۱۷۴)
                        سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جلسہ استراحت (یعنی طاق رکعت میں دوسرے سجدے کے بعد تھوڑی دیر بیٹھنا) بھی بیان کیا ہے۔
                        اور سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کا اپنا عمل بھی اپنی بیان کردہ اسی حدیث کے مطابق تھا۔


                        (
                        دیکھئے صحیح بخاری ۱/۱۱۳ درسی نسخہ ، صحیح بخاری مترجم ظہور الباری دیوبندی ۱/۴۱۰ اور خزائن السنن ۲/۱۱۴)

                        اور آل ِ دیوبند جلسہ استراحت بھی نہیں کرتے اور اس کے متعلق کہتے ہیں کہ
                        یہ فعل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنیآخریعمر میں بڑھاپے کی وجہ سے کیا تھا
                        چنانچہ آلِ دیوبند کے ’’شیخ‘‘ الیاس فیصل دیوبندی نے لکھا ہے:
                        ’’ذخیرہ احادیث میں جلسہ استراحت کرنا ایک ذاتی کیفیت بڑھاپے کی وجہ سے تھا‘‘ (نماز پیمبر صلی اللہ علیہ وسلم ص ۱۹۴)
                        آل ِ دیوبند کا اس بات پر اتفاق ہے کہ
                        سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ صرف بیس روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ہیں
                        ، چنانچہ آل ِ دیوبند کے ’’امام‘‘ سرفراز خان صفدر نے کہا:
                        ’’مالک بن حویرث کل بیس روز تک نبی علیہ الصلاۃ و السلام کی خدمت میں رہے۔ (بخاری ج ۱ ص ۸۸) ‘‘ (خزائن السنن ص ۳۸۵)
                        سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے متعلق امین اوکاڑوی دیوبندی نے لکھا ہے:
                        ’’بلکہ صحیح بخاری ص ۸۸، ص ۹۵، ج۱ پر صراحت ہے کہ وہ صرف بیس رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہے۔‘‘ (تجلیات صفدر ۲/۲۷۵)
                        آلِ دیوبند کے مناظر اسماعیل جھنگوی دیوبندی نے لکھا ہے:
                        ’’ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ وہ صحابی ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کل بیس دن ٹھہرے۔ بیس دن کے بعد وطن واپس چلے گئے اور پھر دوبارہ آنے کا موقع نہیں ملا۔ ‘‘ (تحفہ اہل حدیث ص ۱۰۶ حصہ دوم)
                        ظہور الباری دیوبندی نے رفع یدین کی احادیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
                        ’’دوسری حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی جن کے بارے میں خود صحیح بخاری ج ۱ ص ۸۸ پر صراحت ہے کہ وہ صرف بیس راتیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے۔‘‘ (تفہیم البخاری ۱/۳۷۵ ب)
                        قارئین کرام! اب آپ خود فیصلہ کریں کہ آلِ دیوبند کے اصولوں کی روشنی میں سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کل بیس روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہے ہیں اور انہی بیس دنوں میں انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رفع یدین اور جلسہ استراحت کرتے ہوئے دیکھا۔ آل ِ دیوبند ایک عمل کو ابتدائی دور کا عمل اور دوسرے عمل کو آخری دور کا عمل کہتے ہیں۔ کیا صرف بیس دنوں میں یہ ممکن ہے؟ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا دور صرف بیس دنوں پر مشتمل ہے۔
                        اگر ایسا نہیں اور یقیناً نہیں تو آلِ دیوبند کو چاہئے کہ پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر غور کر لیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
                        ’’ ابتدا ء سے تمام انبیاء کا جس بات پر اتفاق رہا ہے وہ یہ ہے کہ جب حیاء نہ ہو تو جو چاہو کرو۔‘‘ (صحیح بخاری مترجم ۳/۴۳۰)
                        بیس دنوں میں تو ایسا ممکن ہی نہیں اگر بیس دنوں کو بیس سال بھی بنا لیا جائے تب بھی آلِ دیوبند کی بات صحیح ثابت نہیں ہو سکتی، کیونکہ سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اپنی بیان کردہ دونوں احادیث پر عمل پیرا بھی تھے۔





                        Allah-o-Akbar Kabeera, Wal Hamdulillaah-e-Kaseera, Subhan Allah-e-Bukratan-wa-Aseela

                        Comment

                        Working...
                        X