Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

تاریخ کی نکوئی

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • تاریخ کی نکوئی

    اسلام علکیم

    امید کرتا ہوں سب دوست بخریت ہونگے۔۔۔اج کل وقت کی کمی ہے اور میں شادی کی تیاریوں میں مصروف تو بہت سی تحریریں ادھوری ہیں ان کو مکمل کرنا او کچھ مزید مقالات تابانی سے شئیر کرنا باقی ہے۔۔ اس پوسٹ کا نام تاریخ کی نکوئی ہے۔۔۔یہ بالخصوص اس فورم کی ایسے ممبرز جو تاریخ کا شعور نہیں رکھتے اور ہر بات کو چودہ سو سال پہلے سے جاملاتے ان کے نزدیک چودہ سو سال پہلے سب دنیا ایک جہالت کدہ تھی۔۔لوگوں کو طہارت و پاکیزگی نام کی کس شے کا پتہ نہیں تھا جو ہوا وہ ہمارے اجددا نے اکر کیا۔۔اس میں ان لوگوں کو بھی قصور نہیں کیونکہ میہ جو تاریخ پڑھتے ائے ہیں وہ سرکاری تار یخ تھی جس میں سب اچھا کی رپورٹ ہوتی مثلا اج بھی پی ٹی وی کا سرکاری خبر نامہ سن لیں تو پتہ چلے گا کہ پاکتسان زبردست ترقی کر رہا ہے وغیرہ وغیرہ

    ۔۔جرمن مفکر ہرڈر نے کہا تھا کہ تاریخ نام ہے نوع انسانی کی تربیت کا مطلاعہ تاریخ سے وسعت قلب اور کشادگی فکر پیدا ہوتی ہے اس لیئے بعض فلاسفہ نے تاریخ اور فلسفے کو مترادف خیال کیا ہے۔۔اطالوی فلسفی کروچے کا قول ہے کہ تاریخ نگاری صرف فلاسفہ کو کرنی چاہیے اور فلسفے پر صرف مورخئین کو ہی قلم اٹھانا چاہیے۔۔۔تو فلسفے کے ایک ادنی سے طالب علم کے قلم سے پڑھئے



    ملتے ہیں ایک بریک کے بعد۔۔۔


    پروفیسر بے تاب تابانی عفی عنہہ
    :(

  • #2
    Re: تاریخ کی نکوئی

    تاریخ میں فلسفے کا رنگ اسی وقت پیدا ہو سکتا ہے جب تمام حقائق و واردات کو بلا رد و بدل پیش کر دیا جائے تاکہ قاری کو ان تمام پہلوئوں پر غور و عوض کرنے کا موقع مل سکے۔۔قدما تاریخ اس اصول سے واقف تھے طبری، ابن الاثیر مسعودی، بلاذری، ابن خلدون وغیرہ اکابر مورخئین اسلام نے تمام واقعات پوست کندہ بیان کر دئے ہیں۔۔ تاریخ حرارت و قوت کا وہ اتش کدہ ہے جس سے قومیں زندگی اور اگہی کے شعلوں کا اقتباس کرتی ہیں۔۔مگر برصغیر کے مسلمانوں نے تاریخ کو مجموعی طور پر جس انداز سے قبول کیا وہ انداز بڑا ہی مہلک ہے۔۔افسوس ناک بات یہ ے کہ یہاں تاریخ کو سر کے بل کھڑا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔۔تاریخ کا جائزہ لینے اور اس کا مطالعہ کرنے کے وران ہماری یہ کواہش رہتی ہے کہ ظالم کی طرح بے قصور اور مظلوم کسی ترکیب سے قصور وار ثابت ہو جائے۔۔۔جب ہم اس سرکاری تاریخ کو پڑھتے تو ہمارے مورخئین تاریخ و تمدن پر قلم اٹھاتے ہیں تو اس کا اغاز صدر اسلام سے کرتے ہیں اور ماقبل اسلام کے سارے زمانے کو دور جاہلیت سے تعبیر کرتے ہیں۔۔اور یہاں تک کہ ہمارے طالب علم سمجھتے کہ صدر اسلام سے پہلےفسق و فجور کے علاوہ کچھ تھا ہی نہیں۔۔اسی طرح جب پاکتسان کا مصنف محمود غزنوی اور فردوسی ک ے سلسے میں لکھتا ے تو کچھ ایسی فضا قائم کرتا ہے کہ خوامخواہ محمود غزنوی معصوم رحم دل اور فردوسی ناشکرا قسم کا ایک بددمااغ شاعر نظر ائے۔۔۔عالم گیر اور دارشکوہ کے معاملے میں خوش عقیدہ مسلمانوں کا جھکاو ہمیشہ عالم گیر کی حمائت میںً ہوتا ہے۔۔بہت سارے مضامن میں ہمارے ہنرمندوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ عظیم الشان دانش ور منصور حلاج ایک خطرناک اور گم راہی پھیلانے والا قلندر تھا جسے تختہ دار پر چڑھا کر عباسی خلیفہ نے اسلام اور شریعت اسلامیہ کی ناقبال فراموش خدمت سرانجام دی ہے



    جاری ہے
    :(

    Comment


    • #3
      Re: تاریخ کی نکوئی

      Aap ki threer o tehqeeq ka shidat se intazar ha :)

      Comment


      • #4
        Re: تاریخ کی نکوئی

        چلیں دیکھتے ہیں پٹاری میں سے کیا برآمد ہوتا ہے بہرحال تمہید سے تو لگتا ہے یہ کسی نقاد کی شعلہ فشانی ثابت ہونے والی ہے
        ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
        سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

        Comment


        • #5
          Re: تاریخ کی نکوئی

          Originally posted by umeedz View Post
          Aap ki threer o tehqeeq ka shidat se intazar ha :)
          Dislike Kyun Keya Ha Ji :(
          :(

          Comment


          • #6
            Re: تاریخ کی نکوئی

            Originally posted by Dr Faustus View Post
            Dislike Kyun Keya Ha Ji :(
            ohh sorry ghalti se ho geya ho ga :(

            Comment


            • #7
              Re: تاریخ کی نکوئی

              اس مقصدی تاریخ نویسی کا ایک دلسچپ پہلو یہ ہے کہ ہمارے مورخئین تاریخ و تمدن پر قلم اٹھاتے ہیں تو مقابل اسلام کے سارھ زمانے کو دور جاہلیت سے تعبیر کرتے ہیں اس کا اغاز سید امیر علی کی تاریخ اسلام سے ہوا تھا اور یہ سلسہ اج تک جاری ہے۔اس میں شک نہیں کہ ظہور اسلام کے وقت اکثر متمدن اقوام تنزل کا شکار ہو چکیں تھیں چھٹی اور ساتویں (ق م) صدیاں ہمہ گیر زوال کی آئینہ دار ہیں لیکن ولادت مسیح سے کم و بیش چار ہزار سال قبل سے لیکر تیسری صدی بعد از مسیح تک اور مصر بابل اشوریا،فنیقیہ، کرلطیس، یونان روم چین اور ہند میں مختلف تمدن اپنی اپنی بہار دکھا چکے تھے اور ان اقوام کے علمی و فنی کارناموں نے نوع انسانی کی تمدنی میراث کا مالا مل کر دیا۔۔سمریوں نے سب سے پہلے دن رات کو چوبیس گھنٹوں میں تقسیم کیا۔۔ہفتے کے سات دن اور مہینے کے تیس دن قرار دئے۔۔تحریر کا فن ایجاد ہوا۔۔بابل اور اشوریا میں علم ہئیت کی بنیاد رکھی گئی۔۔مصریوں نے ریاضی ہندسہ جر ثقیل موسیقی تعمیر اور مجسمہ سازی کے علوم و فنون کو ترقی دی فنیقوں نے حرف ابجد کو ترتیب دے کر دنیائے علم میں انقلاب برپا کر دیا نیز جہاز رانی اور بین القوامی تجارت کو فروغ دیا۔۔یونانیوں نے کائنات کے مظاہر میں محقاققانہ غور و فکر کا اغاز کیا۔۔نظری سائنس اور فلسفے کی تاسیس کی اور ڈرامہ اور مجسمہ سازی کی تکمیل کی۔۔رومیوں اور ایرانیوں نے ملک داری اور جہانبانی کے اصول وضع کئے اور مختلف اقوام پر حکومت کے ان میں لچک اور وسعت پیدا کی۔۔۔چینیوں نے کاغز، بارود چھاپہ خانہ اور قطب نما کی ایجادات پیش کی۔۔۔ہندیوں نے کسر اعشاریہ اور ہندسوں سے عربوں کو روشناس کروایا۔۔اسکندریہ کی لائبریری میں پانچ لاکھ سے زیادہ کتب رکھی گئی۔۔تیسری صدی قبل از مسیح سکندریہ کے ایک شہری اریٹو ستھینس نے زمین کا قطر معلوم کر لیا تھا وہ یہ بھی جان گیا تھا کہ زمین گول ہے ساموس کے عظیم ماہر فلکیات تین سو سال قبل از مسیح ی جان گئے تھے کہ ستارے عقلیم فاصلوں پر واقع ہیں اور زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے۔۔

              لیکن ہمارے مورخئین اس بات پہ بضد ہیں کہ ما قبل اسلام لوگوں کو طہارت کے طریقے تک نہیں آتے تھےا س بات پہ دلالت کرتا کہ ہمارے مورخئین تاریخ و تمدن سے ناشنا ہیں یا شاید انہیں اس بات کا اندیشہ ہے کہ اگر ان تمدنی روایات کا ذکر کیا گیا تو مسلمانوں کے کارنامے ماند پڑ جائیں گے۔مسلمانوں کی علم دشمنی کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا کہ اسکندریہ کی عظیم الشان لائبریری جب مسلمان حضرت عمر فاروق کے دور میں مصر پہ قابض ائے تو سعد بن اب وقاص نے خط لکھ کر مسلمان خیلفہ سے پوچھا کہ لائبریری کی کتابوں کا کیا کرنا ہے؟ ھضرت عمر فاروق نے جواب دیا کہ یا تو یہ کتابیں قران کے مطابق ہیں اس صورت میں ہمارے لیے قران کافی ہے۔۔اور اگر قران کے برخلاف ہیں تو یہ مہلک ہیں سو ان کو تلف کر دو۔۔اس کے بعد بردوں اسکندریہ کے حمام ان کتابوں کو جلا جلا کے گرم کئے جاتے رہے۔۔



              جاری ہے ،،،
              :(

              Comment


              • #8
                Re: تاریخ کی نکوئی

                Dr, Sahab,
                ap ne shayad islami tarkheekh ki kutub sahi se nahi parhi hai ap ko serf tarekh tabri ka hawala de raha hoon musalmanoon ki tareekh adam(alhe sallam) se shoro hoti hai aur ap serf
                ولادت مسیح سے کم و بیش چار ہزار سال قبل سے
                ki tareekh bata rehe hai kuch aur pelhe ki janib looteen shabash koshish kareen.
                dusri baat jab islami murkh jis ko jahalat ki baat karete haan wo faqt arboon se mutaliq hai kyun ke quran ne bhi un ko "ummi" kaha tha jin mian koi kitab nazil nahi hoi thi.
                tu apni ghlat fahmiyaan apne pass hi rakheen to bahter hai.

                Comment


                • #9
                  Re: تاریخ کی نکوئی

                  Originally posted by abdullah786 View Post
                  dr, sahab,
                  ap ne shayad islami tarkheekh ki kutub sahi se nahi parhi hai ap ko serf tarekh tabri ka hawala de raha hoon musalmanoon ki tareekh adam(alhe sallam) se shoro hoti hai aur ap serf
                  ولادت مسیح سے کم و بیش چار ہزار سال قبل سے
                  ki tareekh bata rehe hai kuch aur pelhe ki janib looteen shabash koshish kareen.
                  Dusri baat jab islami murkh jis ko jahalat ki baat karete haan wo faqt arboon se mutaliq hai kyun ke quran ne bhi un ko "ummi" kaha tha jin mian koi kitab nazil nahi hoi thi.
                  tu apni ghlat fahmiyaan apne pass hi rakheen to bahter hai.



                  جب جواب نہیں ہوتا نہ پھر ایسے ہی کھمبا نوچتے ہیں۔۔اور بات یہاں اکر ختم کرتے کے اسلامی تاریخ کا اغاز ادم علیہ اسلام سے ہی ہو گیا تھا اللہ اللہ خیر صلہ۔۔حالنکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ایسی کوئی تاریخی شہادت نہیں ہے۔۔اب اپ تو جو مرضی کہتےجائے جتنی مرضی مقصدی تاریخ نویسی کر لیں لیکن جو نقاد یورپ اور مغرب میں بیٹھے ان کو ان من گھڑت قصہ کہانیوں سے مطمئین نہیں کیا جاسکتا۔۔اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں کہ انسان شروع سے ہی خدائے واحد کو مانتا تھا۔۔ہمارے خدا جس کو ہم اللہ مانتے ان کا تصور بھی حضرت موسیٰ کی پیدائش کے سینکڑوں سال بعد تک نہیں تھا۔۔یہودی متعدد قبائیلی اورمقامی خداوں کی پرستش کرتے تھے۔۔ملی خدا یہواہ کا تصور بہت بعد کی دین ہے جس میں قبائلی خدا واحد اور فرشتے شیطان دوزخ جنت وغیرہ ۔۔اس پر بھی تقابلی مذہب والی پوسٹ میں بات کر چکا ہوں۔۔

                  :(

                  Comment


                  • #10
                    Re: تاریخ کی نکوئی

                    اسی طرح ہمارے ارباب اختیار یہ ثابت کرنے کی فکر میں لگے رہتے کہ تمام قدیم اقوام نے عورت کو ذلے اور پستی کے گڑھے میں دھکیل دیا تھا مسلمانوں نے اسے اُس گڑھے سے نکالا اور عزت و توقیر کے مقام پہ فائز کیا۔۔حقیقت یہ ہے اگرچہ بے حد ناگوار ہے کہ جہاں جہاں ہمارے حکومتیں قائم ہوئی اس ملک میں بردی فروشی کا کاروبار چمک اٹھا۔۔بغحداد، سامرہ، حلب قرطبہ دمشق بردہ فروشی کے لیے رسوائے زمانہ تھے ان کے ابزاروں میں کنزینں بھیڑ بکروں کی طرغ بکتی تھیں۔۔خلفا اور سلاطین کے محلات میں ہزاروں کنیزیں موجود ہوتی تھیں جو اپنے اقائوں کی ہوائوں ہوس کی تسکین کے علاوہ مجلس ناو نوش میں ساقی گری بھی کرتی تھیں۔۔بنو امیہ کے دور میں مکہ مدینہ اور طائف میں موسیقی اور رقص کے لیے بڑی بڑی درسگاہیں قائم تھیں جہاں بردہ فروش کنیزوں کو تعلیم دلا کر گران قیمتوں پر فروخت ہوتی تھیں۔۔ان مقام حیرت نہیں کہ 37 خلفائے عباس میں صرف 2 خلیہفہ ایسے تھے جو کنیزوں کے بطن سے پیدا نہیں ہوئے تھے یعنی سفاح اورا امین الرشید۔۔باقی سب کنیز زادے تھے۔۔اور یہ بھی یاد رہنے پائے کہ اسلامی ممالک میں یہ سلسہ 19 صدی تک جاری تھا تاناکہ مغرب نے بردہ فروشی کا خلاف قانون دے کر اس کا خاتمہ کیا۔۔اب جا کہ دنیا بھر میں بردہ فروشی کو جرم سمجھا جاتا ہے۔۔لیکن نجدی مملکت میں آج ھی مذہب کے نام پہ کنیزوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے

                    ان حقائق کی مووجدگی میں مسلمانوں کی جان سے دعوی کے انہوں نے عورت سے بہتر سلوک کیا محل نظر ہے۔۔۔



                    جاری ہے۔۔


                    :hii:
                    :(

                    Comment


                    • #11
                      Re: تاریخ کی نکوئی

                      Originally posted by Dr Faustus View Post



                      جب جواب نہیں ہوتا نہ پھر ایسے ہی کھمبا نوچتے ہیں۔۔اور بات یہاں اکر ختم کرتے کے اسلامی تاریخ کا اغاز ادم علیہ اسلام سے ہی ہو گیا تھا اللہ اللہ خیر صلہ۔۔حالنکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ایسی کوئی تاریخی شہادت نہیں ہے۔۔اب اپ تو جو مرضی کہتےجائے جتنی مرضی مقصدی تاریخ نویسی کر لیں لیکن جو نقاد یورپ اور مغرب میں بیٹھے ان کو ان من گھڑت قصہ کہانیوں سے مطمئین نہیں کیا جاسکتا۔۔اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں کہ انسان شروع سے ہی خدائے واحد کو مانتا تھا۔۔ہمارے خدا جس کو ہم اللہ مانتے ان کا تصور بھی حضرت موسیٰ کی پیدائش کے سینکڑوں سال بعد تک نہیں تھا۔۔یہودی متعدد قبائیلی اورمقامی خداوں کی پرستش کرتے تھے۔۔ملی خدا یہواہ کا تصور بہت بعد کی دین ہے جس میں قبائلی خدا واحد اور فرشتے شیطان دوزخ جنت وغیرہ ۔۔اس پر بھی تقابلی مذہب والی پوسٹ میں بات کر چکا ہوں۔۔

                      Dr. Sahab,
                      main ne hawale se baat ki hai tareekh tabri mager ap nahi mante to phir main yahi kehta hoon ke ap ke tarkhi batoon ki kia hasiyat hai ap apne main koi authority hain jis ke baat sub man o an man li jaye aur jo hawale ke sath bhi aetraz kare us ki kitab bhi ghalt aur wo bhi ghalt mager ap bilkul sahi jo ap ne likh diya wo harf akhar
                      ilm hasil karna achi baat hai mager main hi ilm rkhta hoon ya soch ghalat hai. Allah aqal ata kare.

                      Comment


                      • #12
                        Re: تاریخ کی نکوئی

                        Originally posted by Dr Faustus View Post
                        اسی طرح ہمارے ارباب اختیار یہ ثابت کرنے کی فکر میں لگے رہتے کہ تمام قدیم اقوام نے عورت کو ذلے اور پستی کے گڑھے میں دھکیل دیا تھا مسلمانوں نے اسے اُس گڑھے سے نکالا اور عزت و توقیر کے مقام پہ فائز کیا۔۔حقیقت یہ ہے اگرچہ بے حد ناگوار ہے کہ جہاں جہاں ہمارے حکومتیں قائم ہوئی اس ملک میں بردی فروشی کا کاروبار چمک اٹھا۔۔بغحداد، سامرہ، حلب قرطبہ دمشق بردہ فروشی کے لیے رسوائے زمانہ تھے ان کے ابزاروں میں کنزینں بھیڑ بکروں کی طرغ بکتی تھیں۔۔خلفا اور سلاطین کے محلات میں ہزاروں کنیزیں موجود ہوتی تھیں جو اپنے اقائوں کی ہوائوں ہوس کی تسکین کے علاوہ مجلس ناو نوش میں ساقی گری بھی کرتی تھیں۔۔بنو امیہ کے دور میں مکہ مدینہ اور طائف میں موسیقی اور رقص کے لیے بڑی بڑی درسگاہیں قائم تھیں جہاں بردہ فروش کنیزوں کو تعلیم دلا کر گران قیمتوں پر فروخت ہوتی تھیں۔۔ان مقام حیرت نہیں کہ 37 خلفائے عباس میں صرف 2 خلیہفہ ایسے تھے جو کنیزوں کے بطن سے پیدا نہیں ہوئے تھے یعنی سفاح اورا امین الرشید۔۔باقی سب کنیز زادے تھے۔۔اور یہ بھی یاد رہنے پائے کہ اسلامی ممالک میں یہ سلسہ 19 صدی تک جاری تھا تاناکہ مغرب نے بردہ فروشی کا خلاف قانون دے کر اس کا خاتمہ کیا۔۔اب جا کہ دنیا بھر میں بردہ فروشی کو جرم سمجھا جاتا ہے۔۔لیکن نجدی مملکت میں آج ھی مذہب کے نام پہ کنیزوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے

                        ان حقائق کی مووجدگی میں مسلمانوں کی جان سے دعوی کے انہوں نے عورت سے بہتر سلوک کیا محل نظر ہے۔۔۔



                        جاری ہے۔۔


                        :hii:
                        jahan har 20 minat mian 1 rap case fail hota hai wahan izat ki jati hai.

                        Comment


                        • #13
                          Re: تاریخ کی نکوئی

                          Originally posted by abdullah786 View Post
                          jahan har 20 minat mian 1 rap case fail hota hai wahan izat ki jati hai.
                          Isi Koi Baat Nahii ka har 20 min ma aik case file hota huu ..Khair agar hota bhi to dawa ap log karty champion honay ka wo nahiii :P
                          :(

                          Comment


                          • #14
                            Re: تاریخ کی نکوئی

                            ------/---


                            Allah-o-Akbar Kabeera, Wal Hamdulillaah-e-Kaseera, Subhan Allah-e-Bukratan-wa-Aseela

                            Comment


                            • #15
                              Re: تاریخ کی نکوئی

                              Originally posted by Dr Faustus View Post



                              جب جواب نہیں ہوتا نہ پھر ایسے ہی کھمبا نوچتے ہیں۔۔اور بات یہاں اکر ختم کرتے کے اسلامی تاریخ کا اغاز ادم علیہ اسلام سے ہی ہو گیا تھا اللہ اللہ خیر صلہ۔۔حالنکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ایسی کوئی تاریخی شہادت نہیں ہے۔۔اب اپ تو جو مرضی کہتےجائے جتنی مرضی مقصدی تاریخ نویسی کر لیں لیکن جو نقاد یورپ اور مغرب میں بیٹھے ان کو ان من گھڑت قصہ کہانیوں سے مطمئین نہیں کیا جاسکتا۔۔اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں کہ انسان شروع سے ہی خدائے واحد کو مانتا تھا۔۔ہمارے خدا جس کو ہم اللہ مانتے ان کا تصور بھی حضرت موسیٰ کی پیدائش کے سینکڑوں سال بعد تک نہیں تھا۔۔یہودی متعدد قبائیلی اورمقامی خداوں کی پرستش کرتے تھے۔۔ملی خدا یہواہ کا تصور بہت بعد کی دین ہے جس میں قبائلی خدا واحد اور فرشتے شیطان دوزخ جنت وغیرہ ۔۔اس پر بھی تقابلی مذہب والی پوسٹ میں بات کر چکا ہوں۔۔

                              انگریز مورخ "بوکا ئے " لکھتا ہے انسانی تاریخ صرف 7500 سال پرانی ہے آسمانی کتابوں میں ایک عظیم و-شان طوفان کا ذکر بھی ملتا ہے جو نوح کا طوفان کہلاتا ہے یہ طوفان تقریباً 6000 سال یعنی 4000 ق.م واسطی ایشیا میں آیا تھا اور روے زمین پر موجود تمام جانداروں اور ان کی نسلوں کو نگل گیا تھا -صرف نوح اور نوح کے خدا کو ماننے والے چند انسان اور جانور زندہ بچے - آگے لکھتا ہے کہ "کوئی بھی آسمانی کتاب اس عظیم طوفان کے ذکر سے خالی نہیں اس کا مطلب ہے کہ اس کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ انسانیت ایک مرتبہ خدا کے عذاب کا شکار ہو چکی ہے بعد میں انہی بچے کچے لوگووں اور جانوروں کی نسلوں سے زندگی ایک بار پھر آباد ہوئی -

                              یاد رہے کہ قرآن میں اس طوفان کی تفصیل الله نے ١٤٠٠ سال پہلے اپنے آخری نبی صل الله علیہ وسلم پر نازل کر دی تھی


                              Allah-o-Akbar Kabeera, Wal Hamdulillaah-e-Kaseera, Subhan Allah-e-Bukratan-wa-Aseela

                              Comment

                              Working...
                              X