میں کافی عرصے سے ایک ہی بات کو مختلف الفاظ کے جوڑ توڑ سے آپ سب تک پہنچانے کی کوشش کر رہا ہوں جو کہ کچھ ایسے لوگوں کو سمجھ نہیں آتی جو اپنے آپ کو عقلِ کلُ سے کچھ کم نہیں سمجھتے ، اسی بات کو عام فہم انداز میں لکھنے کی دوبارہ کوشش کرتا ہوں کہ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انسان کی عقل اس کے علم اور تجربہ پر مبنی ہوتی ہے۔ شائد اسی لیے ہمارے پاکستانیوں میں ایک بات مشہور ہے کہ اگر کوی کم عمر غلطی کرتا ہے تو اسکو عقل کی کمی کا کہہ کر معاف کر دیا جاتا ہے کہ “چلو ابھی بچہ ہے عقل کم ہے” یعنی جوں جوں عمر بڑھے گی مزید علم اور تجربہ حاصل ہو گا مزید عقل حاصل ہو گی ۔
لہذا جب ہم یہ مانتے ہیں کہ عقل علم اور تجربہ پر مبنی ہے تو ہمیں یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ علم میں ہمیشہ اضافہ ہوتا رہتا ہے اور انسان مزید عقل حاصل کرتا رہتا ہے ، اس چیز کو سمجھنے کی کوشش کے لیے میں سب سے نزدیکی مثال پیش کرنا چاہوں گا اپنے میٹھے اور پیارے بزرگ اجمل چاچا کی جو اس عمر میں بھی بہت سی چیزوں کے بارے میں لا علمی اور کم علمی کا دعویٰ کر کے سیکھنے کی بات کرتے ہیں ۔ جب ہم یہ مان لیتے ہیں کہ انسان ہمیشہ بہت سی چیزوں سے لا علم رہتا ہے تو ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ بہت سے ایسے سوالات ہو سکتے ہیں جنکا جواب کسی انسان کے پاس موجود نہ ہو ، اسی لیے کسی سوال کے جواب کا نا ہونا کوی بڑی بات نہیں ۔
مثال دیتا ہوں ایک دہریہ سوال کرتا ہے کہ بتاو فزکس اور طبیعات کے قوانین کس نے بنائے آپ ایک شریف اور اچھے مسلمان ہونے کے ناطے وہی کہتے ہیں جو آپ کی امی نے آپکو سکھایا تھا یعنی ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہے لہذا فزکس اور طبیعات کے علم سے لا علم ہوتے ہوے آپ بڑے بڑے ماہرین فزکس و طبیعات کے نام لے کر بتانے کی بجاے کہ فلاں قانون فلاں ماہر نے بتایا فلاں ، فلاں ماہر نے بتایا آپ اپنی امی کی سکھائی ہوی بات دہرا دیتے ہیں کہ ہر چیز کا خالق مالک اللہ ہے لہذا فزکس کے قوانین کو بھی اللہ نے ہی بنایا، دہریہ گوہرِ مقصود حاصل کر کے بڑا خوش ہوتا ہے اور جوش میں آکر آپ پر ایک اور سوال داغ دیتا ہے
دہریہ : بہت اچھے یعنی تم مانتے ہو کہ فزکس اور طبیعات کے قوانین تمہارے خدا نے بنائے ؟
معصوم مسلمان: جی سر
دہریہ : یعنی تمہارے نزدیک ہر چیز کا کوی نہ کوی خالق موجود ہے ؟
معصوم مسلمان : جی سر
دہریہ : اچھا اگر ہر چیز کا خالق ہونا ضروری ہے تو پھر بتاو تمہارے خدا کا خالق کون ہے ؟
معصوم مسلمان : سر خدا کو کسی نے تخلیق نہیں کیا وہ ازل سے تھا اور ابد تک رہے گا
دہریہ : اچھا بتاو ابد کے بعد کہاں جائے گا ؟
معصوم مسلمان : سر ابد مخلوق پر ہوتی ہے خالق پر نہیں
دہریہ جواب نہ ہونے پر بیزار ہوتے ہوے ) اچھا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جب ہر چیز کا خالق موجود ہو اور خدا کا خالق نہ ہو
معصوم مسلمان: (جواب دیتے ، دیتے تنگ آگیا تو سوال کرنے پر آگیا) اچھا سر آپ یہ بتائیں کہ کیا مرد کسی بچے کو جنم دے سکتا ہے نو مہینے اپنے پیٹ میں رکھنے کے بعد ؟
دہریہ سوال سے پریشان ہوتے ہوے) فلحال اسکا ممکن ہونا نا ممکنات میں سے ہے ، کیونکہ یہ مرد کی صفات کے خلاف ہے
معصوم مسلمان: بس اسی طرح خالق کا تخلیق ہونا ناممکن ہے کیونکہ یہ خالق کی صفات کے خلاف ہے کیونکہ خدا وہ ہے جسے کسی نے پیدا نہیں کیا ۔
دہریہ : لمبی خاموشی
معصوم مسلمان: اچھا سر یہ بتائیں کہ آپ یہ کہتے ہیں کہ کسی چیز کا کوی خالق نہیں تو یہ کائنات کیسے وجود میں آئی ؟
دہریہ : (لمبی لمبی سائنسی بونگیا مارتے ہوے جو یہ بتاتی ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ خود بہ خود ہر چیز وجود میں آگئی)
معصوم مسلمان: اچھا تو بتائیں پھر گندم خود بہ خود وجود میں کیوں نہیں آتی ؟ پاکستان کے گاوں کے لوگوں کی تو بات نہ کریں شہری بجلی کے نہ ہونے سے پریشان ہیں وہ خود بہ خود وجود میں کیوں نہیں آتی ؟
بتائیں سڑکیں خود بہ خود وجود میں کیوں نہیں آتی ؟
بتائیں کہ کالا باغ ڈیم کیوں نہیں بن جاتا پاکستانیوں کے مسائل حل ہو جائیں ؟
دہریے کے پاس کوی جواب نہیں لیکن وہ ابو جہل کی طرح اپنی ضد پر بھی اڑے گا لہذا سائنس کو اپنے بونگیوں کے دفاع کے لیے الٹے سیدھے شوشے چھوڑ کر استعمال کیا جائے گا جن کا نہ کہ کوی سر ہے نہ پیر۔
اس ساری بات کا مدعا اپنے پہلے پرا گرافس میں کی ہوی بحث کو ثابت کرنا تھا کہ انسان کو یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ دنیا میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جنکا اسکو علم نہیں چناچہ انکے بارے میں کیے جانے والے سوالات کا جواب بھی موجود نہیں ، یہ ہی بات سائنس بھی کرتی ہے اسکو حقیقی مثال سے سمجھیں۔
ہمارے ایک انگریزی کے استاد ہوا کرتے تھے مسٹر بو مین ایک دفعہ وہ بتانے لگے کہ انکی دادی کے زمانے میں جہاز نہیں اڑا کرتے تھے اور وہ کہا کرتی تھیں کہ انسان کبھی بھی ہوا میں اڑنے کے قابل نہ ہو گا ، اور انکے بڑھاپے میں جہاز اڑنا شروع ہو گئے اور وہ دیکھا کرتی تھیں ہواوں میں جہازوں کو اڑتے ہوے ۔ اب ایک زمانہ تھا کہ انسان کو علم ہی نہ تھا کہ ایسا کیسے ممکن ہے لیکن اب نہ صرف معلوم ہے بلکہ اتنی حد تک آگاہی ہے کہ اگر کوی ایک پلین کریش ہو جائے تو اسکی الف سے لے کر ی تک مکمل تحقیق کی جاتی ہے کہ ایسا کیوں ہوا اور آئندہ کس طرح ایسا ہونے سے بچا جا سکتا ہے ؟
لیکن اتنی ترقی کے بعد بھی انسان کوی ایسی مشین نہیں بنا سکا جو اسکو وقت کا سفر کروا سکے یا پھر اسکو اس گلیکسی سے ہی باہر لیجا سکے ۔ کیا اس کائنات میں ہمارے علاوہ بھی کوی مخلوق بستی ہے ؟؟؟ سائنس اور دہریوں کے پاس اس سوال کا بھی کوئی واضح جواب نہیں ، بہرحال میری بات کا مدعا یہ ہی ہے کہ ہزاروں چیزیں ایسی ہیں جنکا انسان کے پاس کوی جواب موجود نہیں اور مستقبل میں بھی ہزاروں چیزوں کا جواب نہ ہونا ممکن ہے ۔
دہریے کے پاس جواب نہ ہونے کی کوی معقول وجہ موجود نہیں ، وہ زیادہ سے زیادہ یہ ہی شور مچا سکتا ہے کہ ابھی ہم اس کا جواب حاصل کرنے پر لگے ہوے ہیں ، مستقبل میں اسکا جواب معلوم ہونے کے کتنے مواقعے ہیں یہ بھی معلوم نہیں ، ہزاروں افراد کینسر سے مر گئے سائنسی دنیا اسکا مکمل علاج حاصل نہ کر سکی ، ہزاروں انسان ایڈز سے مر رہے ہیں دہریوں اور سائنسی دنیا ابھی تک اسکا مکمل علاج تلاش نہیں کر سکی ۔ مستقبل میں کیا نتائج ہیں یہ بھی معلوم نہیں ۔
دہریوں کے ساتھ ایک نفیساتی مسلہ ہوتا ہے ، ہر دہریہ کسی بھی مسئلہ میں لا علمی کے باوجود اپنے آپکو علامہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے ،ایک بات کو اپنی مرضی سے سمجھنے کا شوق اور کسی مسئلہ پر اپنے اصول لاگو کرنے کا شوق ہر دوسرے دہریے کو ہوتا ہے ۔ ہمارا دہریے سے سوال ہے کہ ہم ہر چیز کو سائنس کی عینک پہن کر کیوں دیکھیں ؟؟؟ کیا یہ ضروری ہے ؟؟؟ مجھے یقین ہے کہ دہریہ اس سوال کا کوی اطمینان بخش جواب دینے سے قاصر ہو گا ، اس دفعہ بھی دہریے نے قرآن کی آیات کو اپنی سائنس کی عینک پہن کر دیکھا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ فزکس و طبیعات کے قوانین بھی خدا پر لاگو ہوتے ہیں اور دہریے کی دلیل سورۃ الاعراف کی آیت نمبر ۵۴ ہے
دہریہ کہتا ہے کہ وہاں یہ لکھا ہے کہ خدا نے عرش پر جلوہ افروز ہوا اور چونکہ لغت میں عرش بادشاہ کے بستر یا کرسی کو کہتے ہیں ، دہریہ کہتا ہے کہ اگر خدا کرسی پر بیٹھتا ہے تو اسکو بٹھانے کے لیے کشش کا ہونا بھی ضروری ہے جو اسکو کرسی کی طرف کھینچے نیز یہ کہ خدا تھک بھی جاتا ہے اسی لیے کرسی پر بیٹھتا ہے ۔
دہریے کی یہ بات ثابت کرتی ہے کہ دہریہ بائبل سے ناراض دہریوں کی زبان بول رہا ہے ، اور اسی کو قرآن پر اپلائی کرنے کے چکر میں ہے ، بائبل سے ناراض دہریے ہی اس بات پر اعتراض اٹھاتے ہیں کہ خدا تھک جاتا ہے ۔ اس بارے میں معصوم مسلمان کہتا ہے کہ دہریہ نہ تو قرآن کو سمجھا نہ ہی مسلمانوں کے نظریے کو۔
اور بغیر سمجھے اعتراض کرنے کے بارے میں عظیم فلسفی و دانشور انکل ٹام نے “لتر لا کے بندے کی آہو آہو سیکنے ” کی سزا تجویز کی ہے ، پہلی بات تو یہ ہے کہ خدا نے یہ کلام انسان کے لیے اتارا ہے اسی لیے انسان کے سمجھنے کے انداز سے بات کی ہے ۔ اسی لیے ہر جگہ لغوی معنی نہیں لیا جا سکتا ، مثال کے طور پر چوہدری صاحب ایک کم علم عام انسان ہیں وہ کہتے ہیں کہ” دہریہ اسلام پر بھونکتا ہے ” اگر لغت میں بھونکنے کا مطلب دیکھا جائے تو یہ صفت ایک ایسے جانور کے ساتھ موصوف ہے جسکی چار ٹانگیں اک دُم ہے اور لوگ اسکو کتا کہتے ہیں ۔ بٹ صاحب کہتے ہیں کہ یہاں پر بھونکنا لغوی معنوں میں استعمال نہیں ہوا اصطلاحی معنوں میں استعمال ہوا ہے یعنی چونکہ کتے کے بھونکنے کو نا پسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے لہذا بٹ صاحب نے دہریے کی بکواس کو کتے کے بھونکنے کی طرح نا پسندیدہ خیال کیا ہے ۔
اسی طرح خدا پرست سوال کرتا ہے کہ تھکنا ، بیٹھنا ، جیسی صفات انسانون کے ساتھ موصوف ہیں ، اور ہم نے خدا کو انسان پر کب قیاس کیا ہے ؟؟؟ پہلے تو آپ خدا پرستوں کی قرآنی تشریحات سے یہ ثابت کر دیں کہ خدا بھی انسانوں کی طرح ہیں لہذا جیسے انسانوں کو بیٹھنے کی ضرورت ہے ایسے ہی خدا کو بھی ۔ مثال کے طور پر ملک صاحب کہتے ہیں کہ مشرف کے بعد زرداری کرسی پر بیٹھا تو کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے گا کہ زرداری حقیقی طور پر کرسی پر بیٹھا ، ہو سکتا ہے کہ اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھنے والا کوی دہریہ اسکو حقیقت سمجھے لیکن کوی بھی معصوم مسلمان اس جملے سے زرادری کے امورِ حکومت کو چلانے پر ہی قیاس کرے گا ۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ آیات متشابہات میں سے ہے ۔
متشابہات کے سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ متشابہ آیتوں میں جو مفہوم پنہاں ہوتا ہے، اور جسے سمجھنے سے ہم قاصر رہتے ہیں وہ کبھی دین کے ان بنیادی عقائد پر مشتمل نہیں ہوتا جن پر ایمان و نجات کی اولین شرط ہو، اللہ نے جن عقائد پر ایمان رکھنے کا ہم کو پابند کیا ہے وہ کھول کھول کر بیان کر دئیے ہیں ، اور ان میں سے ہر ایک عقیدہ ایسا ہے جسے عقل کی کوئی دلیل چیلنج نہیں کر سکتی۔‘‘متشابہات ’’ وہ چیزیں ہوتی ہیں جن کا سمجھ میں نہ آنا انسان کی نجات کے لئے چنداں مضر نہ ہو ، اور جس کے جاننے پر کوئی بنیادی عقیدہ یا عملی حکم موقوف نہ ہو، قرآنی متشابہات کے کہ اسلام اور ایمان ان کے سمجھنے جاننے پر موقوف نہیں،اگر کوئی شخص ساری عمر متشابہات سے بالکل بے خبر رہے تو اس کے ایمان میں فرق نہیں آتا۔
اس لئے کہ ‘‘ متشابہات ’’ سے مراد وہ باتیں ہوتی ہیں جن کا مطلب انسانی سمجھ میں نہ آسکے وہ باتیں نہیں ہوتیں جو عقل کے خلاف ہوں، گویا متشابہات عقل سے ماورا ء توہوتے ہیں لیکن عقل کے خلاف نہیں ہوتے ، اسلام میں متشابہات کی دو۲ قسمیں ہیں ، ایک تو وہ جن کا سرے سے کوئی مطلب ہی سمجھ میں نہیں آتا، مثلاً حروف مقطعات کہ الٓمّٓ وغیرہ حروف کا کوئی مفہوم ہی یقینی طور سے آج تک بیان نہیں کرسکا ، دوسری قسم وہ ہے کہ الفاظ سے ایک ظاہری مفہوم سمجھ میں آتا ہے ، مگر وہ مفہوم عقل کے خلاف ہوتا ہے، اس لئے یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں ظاہری مفہوم تو یقیناً مراد نہیں ہے ، اور اصل مفہوم کیا ہے؟ وہ ہمیں معلوم نہیں ، مثلاً قرآن کریم میں ہے :۔
اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَویٰ ،
رحمان عرش پر سیدھا ہوگیا ۔
ان الفاظ کا ایک ظاہری مفہوم نظر آتا ہے ، اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ عرش پر سیدھا ہوگیا ہے ، لیکن یہ مفہوم عقل کے خلاف ہے ، اس لئے کہ اللہ کی ذات غیر متناہی ہے ، وہ کسی مکان کی قید میں مقید نہیں ہوسکتی ، اس لئے جمہور اہل ِ اسلام یہ کہتے ہیں کہ اس آیت کا ظاہر ی مفہوم مراد نہیں ہے ۔ ‘‘ عرش پر سیدھا ہونے سے ’’ کچھ اور مراد ہے جو ہمیں یقینی طور سے معلوم نہیں ،
مسلمان مذکورہ آیت میں یہ کہتے ہیں کہ اس کا ظاہری مفہوم یعنی ‘‘ خدا کا عرش پر بیٹھنا ’’ ہر گز مراد نہیں ہے ، کیونکہ وہ عقل کے خلاف ہے ، گویا وہ خلاف ِ عقل بات کو عقیدہ نہیں بناتے ، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ اس کی صحیح مراد ہمیں معلوم نہیں ہے ،
دوسرے الفاظ میں مسلمان قرآن ِ کریم کی جن آیتوں کو ‘‘ متشابہ ’’ قرار دیتے ہیں اُن کے بارے میں اُن کا عقیدہ یہ ہے کہ ان آیتوں میں حقیقۃً جو دعویٰ کیا گیا ہے وہی ہم نہیں سمجھ سکے،لیکن جو دعویٰ بھی ہے وہ عقل کے مطابق اور دلیل کے موافق ہے ۔
پس ثابت ہوا کہ دہریے کہ اعتراض کی بنیاد ہی تھوک کے سیمنٹ سے بنی ہوی تھی لہذا اسکے “ممکنہ امکانات بھی” اور جب بنیاد ہی گر گئی تو دسویں منزل پر الو کیسے بولیں گے ؟؟؟
اور آخر میں سنیں کہ قرآن کیا کہتا ہے
هُوَ الَّذِيَ أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ في قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاء الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاء تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الألْبَابِ
سورۃ ال عمران، 7
وہی ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری اس میں بعض آیتیں محکم ہیں (جن کے معنیٰ واضح ہیں) وہ کتاب کی اصل ہیں اور دوسری مشابہ ہیں (جن کے معنیٰ معلوم یا معین نہیں) سو جن لوگو ں کے دل ٹیڑھے ہیں وہ گمراہی پھیلانے کی غرض سے اور مطلب معلوم کرنے کی غرض سے متشابہات کے پیچھے لگتے ہیں اور حالانکہ ان کا مطلب سوائے الله کے اور کوئی نہیں جانتا اور مضبوط علم والے کہتے ہیں ہمارا ان چیزوں پر ایمان ہے یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت وہی لوگ مانتے ہیں جو عقلمند ہیںسورۃ ال عمران، 7
Comment