Announcement
Collapse
No announcement yet.
Unconfigured Ad Widget
Collapse
استغفر اللہ جہالت کی انتہا
Collapse
X
-
Re: استغفر اللہ جہالت کی انتہا
Originally posted by Sub-Zero View Post
شہداء مرتے نہیں مرنے سے پہلے اٹھا لئے جاتے ہیں
وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ۔ أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَاس موضوع کو اگر آج کی امّت میں موجود تمام تر شرک و کفر کی جڑ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ لوگ ایک اللہ یعنی ایک مالک و معبود کو چھوڑ کر مردہ انسانوں کی قبروں، مزاروں اور آستانوں پر اسی لئے بھاگے پھرتے ہیں کہ انہیں انکے پسندیدہ فرقے نے یہی سمجھایا ہوتا ہے کہ قبروں میں مدفون یہ بڑے بڑے ناموں والے لوگ مردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں، تمہاری پکاروں کو سنتے ہیں اور پھر انہیں آگے اللہ تک پہنچاتے ہیں اور تمہارے لئے اللہ سےسفارش کرتے ہیں اور وسیلہ بنتے ہیں۔ امت میں موجود ان گنت فرقوں کے عقائد میں اس حوالے سے تھوڑا بہت فرق تو یقیننا ہے لیکن اصل فارمولا جو ان سب میں یکساں ہے وہ مرنے کے بعدروح کا زمینی قبر میں مدفون جسم میں قیامت سے پہلے لوٹا دیے جانے کا عقیدہ ہے۔ اسی باطل عقیدے سے تمام شرک و بدعت کی ابتدا ہوتی ہے کیونکہ جب لوگوں کو کہا جائے گا کہ مردہ جسم میں روح واپس لوٹا دی جاتی ہے اور وہ زندہ ہو جاتا ہے اور سنتا ہے تو ظاہر ہے وہ مرنے والے کو مدد کے لئے پکاریں گے یا پھر اس سے دیگر قسم کی توقعات بھی وابستہ کر لیں گے۔ لیکن جب ہم اس عقیدہ کو قران و صحیح حدیث کی روشنی میں پرکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ عقیدہ اور اس سے متعلقہ تمام عقائد باطل اور خود ساختہ ہیں جنہیں یہ فرقے قران و حدیث سے ثابت کرنے کی بجائے انکے حق میں اپنے نامی گرامی علماء کے فتوے لا کر ثابت کرتے ہیں - قران و حدیث کے خلاف گھڑے جانے والے عقائد و رسومات اور انہیں ایجاد کرنے واے لوگ سب طاغوت کے زمرے میں آتے ہیں جن کا رد کرنا ایمان کی تکمیل کے لئے ضروری ہے۔
اور جنہیں الله کے سوا پکارتے ہیں وہ کچھ بھی پیدانہیں کرتے اور وہ خود پیدا کیے ہوئے ہیں۔ وہ تو مردے ہیں جن میں جان نہیں اور وہ نہیں جانتے کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔
سورة النحل آیات ۲۰ ۔ ۲۱
اسلام میں زندگی اور موت کا تصور بڑا ہی سیدھا ہے اور وہ یہ کہ جب روح اللہ کے حکم سے انسانی جسم کے ساتھ جڑ جائے تو اسے زندگی کہا جاتا ہے اور جب روح جسم سے علیحدہ ہو جائے تو اسے موت کہتے ہیں۔ اس حوالے سے قران میں صرف دو زندگیوں کا ذکر ملتا ہے یعنی پہلی زندگی وہ جب روح کو انسانی جسم سے جوڑا جاتا ہے اوراسکی پیدائش ہوتی ہے اور دوسری زندگی قیامت کے بعد حشر کے دن عمل میں آئے گی جب تمام انسانی جسم دوبارہ تخلیق کئے جائیں گے اور انکی ارواح واپس ان اجسام میں ڈال دی جائیں گی اور تمام انسان میدانِ حشر میں حساب کتاب کے لئے جمع ہو جائیں گے۔كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
تم الله کا کیونکر انکار کرسکتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے پھر تمہیں زندہ کیا پھر تمہیں مارے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا پھر تم اسی کے پاس لوٹ کر جاؤ گے۔
سورة البقرہ، آیت ۲۸
قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍ مِّن سَبِيلٍسو قران ہمیں بتاتا ہے کہ عالم دنیا میں زندگی کا معاملہ کیسا ہے اور اسی طرح موت کے بعد تمام ارواح کو ، چاہے وہ اچھے انسانوں کی ہوں یا بروں کی، انہیں ایک آڑ کے پیچھے لے جایا جاتا ہے جسے عالمِ برزخ کہتے ہیں اور اس عالم سے روح کی اپنے جسم میں واپسی صرف اور صرف قیامت یا روز حشر ہی ممکن ہے جیسا کہ اللہ تعالی قران میں فرماتا ہے۔
وہ کہیں گے اے ہمارے رب تو نے ہمیں دو بار موت دی اورتو نے ہمیں دوبارہ زندہ کیا پس ہم نے اپنے گناہوں کا اقرار کر لیا پس کیا نکلنے کی بھی کوئی راہ ہے۔
سورة غافر، آیت ۱۱
وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَلہذا یہ بات واضح ہو گئی کہ مردہ انسان کی روح کا قیامت سے پہلے اپنے مدفون جسم میں لوٹ آنے کا یہ عقیدہ قران کے خلاف ہے۔ یہ اسلئے کہ تمام ارواح قیامت تک عالمِ برزخ میں رہیں گی چاہے یہ نیک انسانوں یعنی شہداء ، انبیا ء اور مومنین کی ارواح ہوں اور چاہے بدکاروں کی ارواح ہوں۔ سب کو انکے دنیاوی اعمال کا اچھا یا برا بدلہ عالم ِبرزخ میں ہی ملنا شروع ہو جاتا ہے اور قیامت کے بعد اس ثواب یا عذاب میں مزید زیادتی کردی جائے گی۔ یہی ثواب یا عذاب راحتِ قبر یا عذابِِ قبر کہلاتا ہے۔
اور ان کے آگے اس دن تک برزخ (حائل) ہے (جس دن) وہ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے۔
سورۃ المومنون ۱۰۰
لہذا یہ بات سمجھ لینا بہت ضروری ہے کہ یہاں قبر سے مراد وہ زمینی گڑھا نہیں جہاں مردے کو دفن کیا جاتا ہے بلکہ یہاں اس سے مراد موت کے بعد اور قیامت سے پہلے کا وہ دور ہے جسے برزخی زندگی یا عالمِ برزخ کا دورانیہ کہا جا سکتا ہے۔
برزخ کی یہ زندگی یا دورانیہ کسی بھی طرح سے اس دنیاوی زندگی جیسا نہیں ہے یعنی دنیاوی زندگی پر اس کا قیاس ممکن نہیں۔ یہ آخرت کے حوالے سے دیگرچند معاملات کی طرح ہے جنہیں ہم مکمل طور پر سمجھ نہیں سکتے کیونکہ ہمیں اس حوالے سے قران و حدیث میں بہت محدود معلومات دی گئی ہیں۔ لہذا ہمیں احادیث میں بیان کی گئی معلومات پرہی انحصار کرنا پڑتا ہے اوراس معاملے میں بہتر طریقہ یہی ہے کہ ہم نہ تو اپنی سوچ لڑائیں اور نہ ہی احادیث کو اوپر بیان کئے گئے قرانی احکام سے علیحدہ کرکے انکی تشریح کریں کہ ہمارے ہاں زیادہ تر یہی ہوتا ہے۔ لہذا اس موضوع پر موجود تمام صحیح احادیث کو قرانی احکام اور پھر اس موضوع پر موجود دیگر صحیح احادیث کی روشنی میں ہی سمجھنا بہت ضروری ہے۔ یہ اسلئے کہ قران میں موت کے بعد کی زندگی یا اس کے معاملات کے حوالے سے بہت زیادہ تفصیلات نہیں دی گئیں جیسا کہ اللہ تعالٰی قرآن میں شہداء کے بارے میں یہی ارشاد فرماتا ہے۔وَلَاثابت ہوا کہ ہمارے لئے اایک ایسے موضوع کا مکمل ادراک ہوناممکن ہی نہیں جب قران نے خود بتا دیا کہ ’’تمہیں اس کا شعور نہیں‘‘ سو ایک بار پھر ہمیں اتنی بات پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے جتنی ہمیں بتا دی گئی۔ اسی طرح قران میں شہداء کی زندگی کے حوالے سے ذیل کی آیت بھی ملتی ہے۔
تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ
أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ
اور جو لوگ اﷲ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ مت کہو۔ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں انکی زندگی کا شعور نہیں۔
سورة البقرہ، آیت ۱۵٤
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَرَبِّهِمْ يُرْزَقُونَاس طرح سے ہمیں بتا دیا گیا کہ شہداء ’’عندربھم‘‘ یعنی اپنے رب کے پاس ہیں اور وہاں رزق پا رہے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے مناسب ہے کہ ہم صحیح مسلم کی مندرجہ ذیل حدیث دیکھیں کہ جب صحابۂ کرام نے شہداء کے حوالے سے یہی سوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو انہوں نے کیا ارشاد فرمایا۔
اور جو لوگ الله کی راہ میں مارے گئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ اور اپنے رب کے پاسرزق پا رہے ہیں ۔
سورة آل عمران ۱٦۹
مسروق نے کہا کہ ہم نے عبداللہ بن مسعود سے قران کی اس آیت ’’اور جو لوگ الله کی راہ میں مارے گئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس رزق پا رہےہیں‘‘ (سورۃ آل عمران ۱٦۹ ) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے اس آیت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ شہدا کی روحیں سبز اُڑنے والے قالبوں میں ہیں اور ان کے لئے قندیلیں عرش الٰہی سے لٹکی ھوئی ہیں۔ وہ جنت میں جہاں چاہیں گھومتے پھرتے ہیں اور پھر ان قندیلوں میں آکر بسیرا کرتے ہیں۔ ان کی طرف ان کے رب نے جھانکا اور ارشاد فرمایا کہ کسی اور چیز کی تمہیں خواہش ہے؟ شہدا نے جواب دیا کہ اب ہم کس چیز کی خواہش کر سکتے ہیں، جب ہمارا یہ حال ہے کہ ہم جنت میں جہاں چاہیں مزے کریں، اللہ تعالٰی نے اس طرح تین بار ان سے یہی دریافت کیا اور شہدا نے دیکھا کہ جب تک وہ کسی خواہش کا اظہار نہ کریں گے ان کا رب ان سے برابر پوچھتا رہے گا تو انہوں نے کہا مالک ہماری تمّنا یہ ہے کہ ہماری روحوں کو پھر ہمارے جسموں میں لوٹا دیا جائے اور ہم دوسری بار تیری راہ میں شہید کئے جائیں۔ اب مالک نے دیکھ لیا کہ انہیں کسی اور چیز کی خواہش نہیں تو پھر ان سے پوچھنا چھوڑ دیا۔اس صحیح حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ شہداء کی ارواح کو خاص قسم کے اڑنے والے جسم دیئے گئے ہیں اور وہ اپنی زمینی قبروں میں نہیں بلکہ جنتوں میں خوش و خرم ہیں ۔ اللہ تعالٰی ان سے کلام فرماتا ہے اور پوچھتا ہے کہ اگر تمہیں کسی اور چیز کی تمنا ہو تو بتاؤ لیکن جب وہ اس خواہش کو ظاہر کرتے ہیں کے انکی روح کو واپس ان کے دنیاوی جسم میں لوٹا دیا جائے تاکہ وہ ایک بار پھر اللہ کی راہ میں جہاد کر کے شہادت کی سعادت حاصل کریں تو مالکِ کائنات اس خواہش کے جواب میں اپنی سنت نہیں بدلتا بلکہ انہیں جنت میں عیش و عشرت کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔
صحیح مسلم جلد ۲
اوپر پیش کی گئی دونوں آیات یعنی البقرہ ۱۵٤ اور آل عمران ۱٦۹ اکثر اوقات دنیاوی قبروں میں زندگی کے ثبوت کے طور پر پیش کی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ دیکھو اللہ تو فرما رہا ہے کہ شہید زندہ ہوتے ہیں انہیں مردہ مت کہو اور پھر اسی بنیاد پر تمام انبیاء اور اولیاء کو زبردستی انکی قبروں میں زندہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ ان آیات کے اپنے الفاظ اور پھر صحیح مسلم کی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح سے پتہ چلتا ہے کہ شہداء کو مردہ کہنا درست نہیں لیکن وہ قبروں میں نہیں بلکہ اللہ کے پاس زندہ ہیں اور رزق پا رہے ہیں اور انہیں واپس اپنے مدفون جسموں میں آنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ امام بخاری بھی اپنی صحیح میں شہداء کے حوالے سے ذیل کی حدیث لائے ہیں۔
انس ؓ سے روایت کہ حارثہ بن سراقہ انصاری ؓ جو ابھی نوعمر لڑکے تھے ‘ بدر کے دن شہید ہو گئے تھے ( پانی پینے کے لیے حوض پر آئے تھے کہ ایک تیر نے شہید کر دیا ) پھر ان کی والدہ ( ربیع بنت النصر ‘ انس ؓ کی پھو پھی ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ ، آپ کو معلوم ہے کہ مجھے حارثہ سے کتنا پیار تھا ، اگر وہ اب جنت میں ہے تو میں اس پر صبر کروں گی اور اللہ تعالیٰ کی امید رکھوں گی اور اگر کہیں دوسری جگہ ہے تو آپ دیکھ رہے ہیں کہ میں کس حال میں ہوں ۔ نبی صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، خدا تم پر رحم کرے ، کیا دیوانی ہو رہی ہو ، کیا وہاں کوئی ایک جنت ہے ؟ بہت سی جنتیں ہیں اور تمہارا بیٹا جنت الفردوس میں ہے ۔اسی طرح بخاری ہی میں شہداء کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراھیم جن کی نومولدگی میں ہی وفات ہو گئی کے حوالے سے بھی یہ حدیث ملتی ہے۔
صحیح بخاری ، کتاب المغازی
براء بن عازب ؓ سے سنا ‘ انہوں نے فرمایا کہ جب حضرت ابراہیم ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ) کی وفات ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں ان کے لیے ایک دودھ پلانے والی ہے ۔اب آئیے شہداء کے علاوہ دیگر انسانوں بشمول انبیاء کرام کا معاملہ بھی دیکھتے ہیں، اور اس حوالے سے بھی صحیح بخاری میں ایک بڑی تفصیلی حدیث ملتی ہے جس سے ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ تمام اچھے اور برے انسان بشمول انبیاء اور مومنین عالمِ برزخ میں زندہ ہیں جہاں وہ اکٹھے راحت و عذاب کے سلسلے سے گزارے جاتے ہیں ۔ اسی طرح اس حدیث سے ہمیں یہ بھی علم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی مدینہ والی قبر میں نہیں بلکہ جنت کے سب سے اعلی گھر میں زندہ ہیں اور اس حدیث کے مطابق انہیں اپنا یہ مقام دکھایا گیا جہاں اپنی وفات کے بعد انہوں نے رہنا تھا۔ یہ حدیث کافی لمبی ہے لیکن انتہائی اہمیت کی حامل ہے سو ہم اسے یہاں مکمل کاپی کر رہے ہیں۔
صحیح بخاری، کتاب الجنائز
سمرہ بن جندبؓ نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلوٰۃ الفجر پڑھنے کے بعد (عموماً) ہماری طرف منہ کر کے بیٹھ جاتے اور پوچھتے کہ آج رات کسی نے کوئی خواب دیکھا ہو تو بیان کرو۔ راوی نے کہا کہ اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو اسے وہ بیان کر دیتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تعبیر اللہ کو جو منظور ہوتی بیان فرماتے۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمول کے مطابق ہم سے دریافت فرمایا کیا آج رات کسی نے تم میں کوئی خواب دیکھا ہے؟ ہم نے عرض کی کہ کسی نے نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے کہ دو آدمی میرے پاس آئے۔ انہوں نے میرے ہاتھ تھام لیے اور وہ مجھے ارض ِمقدس کی طرف لے گئے۔ اور وہاں سے عالم ِبالا کی مجھ کو سیر کرائی ، وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص تو بیٹھا ہوا ہے اور ایک شخص کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں لوہے کا آنکس تھا جسے وہ بیٹھنے والے کے جبڑے میں ڈال کر اس کے سرکے پیچھے تک چیردیتا پھر دوسرے جبڑے کے ساتھ بھی اسی طرح کرتا تھا۔ اس دوران میں اس کا پہلا جبڑا صحیح اور اپنی اصلی حالت پر آ جاتا اور پھر پہلے کی طرح وہ اسے دوبارہ چیرتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیاہو رہا ہے؟ میرے ساتھ کے دونوں آدمیوں نے کہا کہ آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک ایسے شخص کے پاس آئے جو سر کے بل لیٹا ہوا تھا اور دوسرا شخص ایک بڑا سا پتھر لیے اس کے سر پر کھڑا تھا۔ اس پتھر سے وہ لیٹے ہوئے شخص کے سر کو کچل دیتا تھا۔ جب وہ اس کے سر پر پتھر مارتا تو سر پر لگ کر وہ پتھر دور چلا جاتا اور وہ اسے جا کر اٹھا لاتا۔ ابھی پتھر لے کر واپس بھی نہیں آتا تھا کہ سر دوبارہ درست ہو جاتا۔ بالکل ویسا ہی جیسا پہلے تھا۔ واپس آ کر وہ پھر اسے مارتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک تنور جیسے گڑھے کی طرف چلے۔ جس کے اوپر کا حصہ تو تنگ تھا لیکن نیچے سے خوب فراخ۔ نیچے آگ بھڑک رہی تھی۔ جب آگ کے شعلے بھڑک کر اوپر کو اٹھتے تو اس میں جلنے والے لوگ بھی اوپر اٹھ آتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ اب وہ باہر نکل جائیں گے لیکن جب شعلے دب جاتے تو وہ لوگ بھی نیچے چلے جاتے۔ اس تنور میں ننگے مرد اور عورتیں تھیں۔ میں نے اس موقع پر بھی پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ لیکن اس مرتبہ بھی جواب یہی ملا کہا کہ ابھی اور آگے چلو ‘ ہم آگے چلے۔ اب ہم خون کی ایک نہر کے اوپر تھے نہر کے اندر ایک شخص کھڑا تھا اور اس کے بیچ میں ایک شخص تھا۔ جس کے سامنے پتھر رکھا ہوا تھا۔ نہر کا آدمی جب باہر نکلنا چاہتا تو پتھر والا شخص اس کے منہ پر اتنی زور سے پتھر مارتاکہ وہ اپنی پہلی جگہ پر چلا جاتا اور اسی طرح جب بھی وہ نکلنے کی کوشش کرتا وہ شخص اس کے منہ پر پتھر اتنی ہی زور سے پھر مارتاکہ وہ اپنی اصلی جگہ پر نہر میں چلا جاتا۔ میں نے پوچھا یہ کیاہو رہا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم اور آگے بڑھے اور ایک ہرے بھرے باغ میں آئے۔ جس میں ایک بہت بڑا درخت تھا اس درخت کی جڑ میں ایک بڑی عمر والے بزرگ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ کچھ بچے بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ درخت سے قریب ہی ایک شخص اپنے آگے آگ سلگا رہا تھا۔ وہ میرے دونوں ساتھی مجھے لے کر اس درخت پر چڑھے۔ اس طرح وہ مجھے ایک ایسے گھر میں لے گئے کہ اس سے زیادہ حسین و خوبصورت اور بابرکت گھر میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس گھر میں بوڑھے، جوان ‘ عورتیں اور بچے (سب ہی قسم کے لوگ) تھے۔ میرے ساتھی مجھے اس گھر سے نکال کر پھر ایک اور درخت پر چڑھا کر مجھے ایک اور دوسرے گھر میں لے گئے جو نہایت خوبصورت اور بہتر تھا۔ اس میں بھی بہت سے بوڑھے اور جوان تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم لوگوں نے مجھے رات بھر خوب سیر کرائی۔ کیا جو کچھ میں نے دیکھا اس کی تفصیل بھی کچھ بتلاؤ گے؟ انہوں نے کہا ہاں وہ جو تم نے دیکھا تھا اس آدمی کا جبڑا لوہے کے آنکس سے پھاڑا جا رہا تھا تو وہ جھوٹا آدمی تھا جو جھوٹی باتیں بیان کیا کرتا تھا۔ اس سے وہ جھوٹی باتیں دوسرے لوگ سنتے۔ اس طرح ایک جھوٹی بات دور دور تک پھیل جایا کرتی تھی۔ اسے قیامت تک یہی عذاب ہوتا رہے گا۔ جس شخص کو تم نے دیکھا کہ اس کا سر کچلا جا رہا تھا تو وہ ایک ایسا انسان تھا جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا تھا لیکن وہ رات کو پڑا سوتا رہتا اور دن میں اس پر عمل نہیں کرتا تھا۔ اسے بھی یہ عذاب قیامت تک ہوتا رہے گا اور جنہیں تم نے تنور میں دیکھا تو وہ زناکار تھے۔ اور جس کو تم نے نہر میں دیکھا وہ سود خوار تھا اور وہ بزرگ جو درخت کی جڑ میں بیٹھے ہوئے تھے وہ ابراہیم علیہ السلام تھے اور ان کے اردگرد والے بچے ‘ لوگوں کی نابالغ اولاد تھی اور جو شخص آگ جلارہا تھا وہ دوزخ کا داروغہ تھا اور وہ گھر جس میں آپ پہلے داخل ہوئے جنت میں عام مومنوں کا گھر تھا اور یہ گھر جس میں تم اب کھڑے ہو ‘ یہ شہداء کا گھر ہے اور میں جبرائیل ہوں اور یہ میرے ساتھ میکائیکل ہیں۔ اچھا اب اپنا سر اٹھاؤ میں نے جو سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے اوپر بادل کی طرح کوئی چیز ہے۔ میرے ساتھیوں نے کہا کہ یہ تمہارا مکان ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ پھر مجھے اپنے مکان میں جانے دو۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تمہاری عمر باقی ہے جو تم نے پوری نہیں کی اگر آپ وہ پوری کر لیتے تو اپنے مکان میں آ جاتے۔چونکہ انبیاء کرام کا خواب بھی وحی ہوتا ہے ہمارے لئے اس حدیث کی روشنی میں مندرجہ ذیل باتوں کی تصدیق ہوتی ہے۔
صحیح بخاری ، کتاب الجنائز
۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت میں وہ مقام دکھا دیا گیا جہاں انہیں اپنی دفات کے بعد رہنا تھا۔
۔ لہذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اب اپنی مدینہ کی قبر میں نہیں بلکہ مقامِ محمود پر زندہ ہیں اور یہ زندگی کسی اعتبار سےدنیاوی زندگی نہیں بلکہ برزخی زندگی ہے اور ہمارے تقریباًٍٍ
تمام فرقوں کا انہیں انکی قبر میں زندہ اور دنیا میں حاضر و ناظر ماننا یا یہ کہنا کہ وہ لوگوں کے خوابوں میں آتے ہیں اور اشارے دیتے ہیں قطعی غلط اور خلافِ قران و حدیث عقائد ہیں۔
۔ تمام انسانی ارواح وفات کے بعداکٹھی یا ایک ہی جگہ پر یعنی عالمِ برزخ میں عذاب یا راحت کی منزلوں سے گزرتی ہیں۔
۔ ارواح کو ملنے والے برزخی اجسام خاص نوعیت کے ہیں جنہیں اگر نقصان پہنچے تو یہ دوبارہ بن جاتے ہیں۔
۔ وہ تمام زنا کار مرد اور عورتیں جو دنیا میں مختلف مقامات پر مرے اور دفنائے یا جلائے گئے وغیرہ ان سب کو برہنہ حالت میں ا یک ساتھ جمع کر کے ایک بڑے تنور میں جھونک دیا جاتا ہے اور آگ کے عذاب سے گزارا جاتا ہے جو قیامت تک جاری رہے گا۔
۔ نیک لوگ یا مومنین ، انبیاء اور شہداء بھی برزخ میں اکٹھے ہیں جہاں انہیں خاص جسم ملتے ہیں جیسے شہداء کو اڑنے والا جسم ملتا ہے
Comment
-
Re: استغفر اللہ جہالت کی انتہا
Originally posted by lovelyalltime View Post
jee sub - zero bhai kia kahaian gay aap. please bat dalial say karian.
یار تم بھی بات بغیر کاپی پیسٹ کیا کرو مزہ تو جب آئے گا یہ تم ڈھیر لگا کر کچھ ثابت کرنے کی کوشش لطف نہیں دیتی
اردو لکھنا اور اپنے الفاظ میں کچھ لکھا کرو چاہے دو چار سطریں
ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں
Comment
-
Re: استغفر اللہ جہالت کی انتہا
Originally posted by Sub-Zero View Post
یار تم بھی بات بغیر کاپی پیسٹ کیا کرو مزہ تو جب آئے گا یہ تم ڈھیر لگا کر کچھ ثابت کرنے کی کوشش لطف نہیں دیتی
اردو لکھنا اور اپنے الفاظ میں کچھ لکھا کرو چاہے دو چار سطریں
meray bhai jo chez ghalt likhi hoi hai woh bataoo. quran ki ayat bhi haian aur sahih ahadees bhi haian.
lakin jab banday kay pass jawab hee na hoo to aus ko maza kab aata hai.
Comment
-
Re: استغفر اللہ جہالت کی انتہا
@Sub-Zero
Bhai saib abhi khud inki aankhon pay parda hy na jo kisi Mullah ka daala hua hy, jub ye khud iss dunia se rukhsat hoon gay aur tamam parday hatein gay tu pata chalay ga k jinko Murda keh kar touheen kar rahay thay wo danda ley kar istikbaal kar rahay hein :), phir wo jaahil Mullahs inko bachanay nai aaein gay, at least :D
Comment
-
Re: استغفر اللہ جہالت کی انتہا
Originally posted by Son of Mountains View Post@Sub-Zero
Bhai saib abhi khud inki aankhon pay parda hy na jo kisi Mullah ka daala hua hy, jub ye khud iss dunia se rukhsat hoon gay aur tamam parday hatein gay tu pata chalay ga k jinko Murda keh kar touheen kar rahay thay wo danda ley kar istikbaal kar rahay hein :), phir wo jaahil Mullahs inko bachanay nai aaein gay, at least :D
ap agr apni bat men sache hain or apka dawaa hai k Nabi (S.A.W) zinda hain to ap dalail se sabit kyon nhi krte?
Comment
-
Re: استغفر اللہ جہالت کی انتہا
Originally posted by lovelyalltime View Postmeray bhai jo chez ghalt likhi hoi hai woh bataoo. quran ki ayat bhi haian aur sahih ahadees bhi haian.
lakin jab banday kay pass jawab hee na hoo to aus ko maza kab aata hai.
بات یہ نہیں کہ تم قرآنی آیات یا احادیث سے ایک ڈش بنا کر کچھ تمغہ جیت جاؤ گئے مسئلہ یہ ہے دوسروں پہ تقلید کا کہ کر الزام تراشی کرنے لئے اب خود جو دوسروں کی تحقیق بغیر پرکھے کہ سچ جھوٹ کیا چھاپتے چلے جارہے ہو کچھ عقل نام کی چیز ہے یا وہ بھی بیچ کھائی تقلیدی انسان مت بنو ورنہ دوسروں پہ بھی بہتان مت لگاؤ وہ بھی تمھاری طرح کہیں سے سیکھتے سمجھتے ہیں
ٹھیک ہے ہم سب کو مرنا ہے بلکہ ہر نفس جیسے کوئی بھی جاندار چاہے مچھر اور چیونٹی کیوں نا ہو یہ ایک مسلم حقیقت اور قانون ہے جس پہ یہ دنیا کھڑی ہے مگر ایک مسلمان
ہونے کے ناطے ہمیں یہ ماننا ہوگا تمام نیک روحیں اللہ کے پاس زندہ ہیں اور ہمارے پیغام ان تک پہنچتے ہیں
رسول کریمﷺ نے فرمایا
’’مجھ پر جمعہ کے دن کثرت سے درود پڑھا کرو، کیونکہ اس دن فرشتے جمع ہوتے ہیں، اور جب تم سے کوئی شخص مجھ پر درود پڑھتا ہے تو اس درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے، ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ موت کے بعد بھی؟ فرمایا: موت کے بعد بھی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کرام علیہم السلام کو جسم مبارک کو کھانا حرام کر دیا ہے۔ پس اللہ کے نبی زندہ ہوتے اور رزق دئیے جاتے ہیں۔
اسی طرح سیدنا انس سے مروی ایک اور صحیح حدیث مبارکہ میں ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا
’’انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں‘‘ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں
Comment
-
Re: استغفر اللہ جہالت کی انتہا
Thanks [MENTION=6133]Sub-Zero[/MENTION] bhai saib, baat ye hy k iss tarha k boht references main bhi laa sakta hoon but jub koi banda ous reference ki apni taraf se ya kisi mullah ki taraf se banai hui Tafseer paish karnay mein lag jata hy tu actual maani ko maskh kar deta hy....isi liye main ne guraiz kia (Maazrat k saath)
Ab jo aap ne ahadees paish ki hain ya jo wo Shuhada k mutalik ayat hy, tu ye dono baatein Quraan aur Hadees ki roo se iss thread ko ghalat saabit kar rahi hein. but afsoos k hum ne kisi firkay walay ko maan'na hy, Quran aur hadees par apni soch ko naafiz karna hy tu iss behass mein parnay ka faida he kia.
Aehl-e-Makkah, bawajood ye keh jaantay thay k ye Bout hum ne khud apnay haathon se tarashay hein, but khaandani riwayat ka oun k dimaaghon pay itna asar tha k wo Rasool-e-Khuda ki taraf se bataye gaye "sach" ko tasleem nahi kartay thay.....Aj hamaray ooper bhi wohi kaifiyaat hein, hum ne wo maan'na hy jo Molvi saib ne farmaya chahy wo Qura'an k opposite he q na ho.
Main jaanta hon k iss baat ko kehnay par, mujh pay boht tankeed bhi ho sakti hy yahan, but main kahon ga har jaga, har forum aur har platform par, wo jo sach hoga.
Comment
-
Re: استغفر اللہ جہالت کی انتہا
Originally posted by Sub-Zero View Post
بات یہ نہیں کہ تم قرآنی آیات یا احادیث سے ایک ڈش بنا کر کچھ تمغہ جیت جاؤ گئے مسئلہ یہ ہے دوسروں پہ تقلید کا کہ کر الزام تراشی کرنے لئے اب خود جو دوسروں کی تحقیق بغیر پرکھے کہ سچ جھوٹ کیا چھاپتے چلے جارہے ہو کچھ عقل نام کی چیز ہے یا وہ بھی بیچ کھائی تقلیدی انسان مت بنو ورنہ دوسروں پہ بھی بہتان مت لگاؤ وہ بھی تمھاری طرح کہیں سے سیکھتے سمجھتے ہیں
ٹھیک ہے ہم سب کو مرنا ہے بلکہ ہر نفس جیسے کوئی بھی جاندار چاہے مچھر اور چیونٹی کیوں نا ہو یہ ایک مسلم حقیقت اور قانون ہے جس پہ یہ دنیا کھڑی ہے مگر ایک مسلمان
ہونے کے ناطے ہمیں یہ ماننا ہوگا تمام نیک روحیں اللہ کے پاس زندہ ہیں اور ہمارے پیغام ان تک پہنچتے ہیں
رسول کریمﷺ نے فرمایا
’’مجھ پر جمعہ کے دن کثرت سے درود پڑھا کرو، کیونکہ اس دن فرشتے جمع ہوتے ہیں، اور جب تم سے کوئی شخص مجھ پر درود پڑھتا ہے تو اس درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے، ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ موت کے بعد بھی؟ فرمایا: موت کے بعد بھی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کرام علیہم السلام کو جسم مبارک کو کھانا حرام کر دیا ہے۔ پس اللہ کے نبی زندہ ہوتے اور رزق دئیے جاتے ہیں۔
اسی طرح سیدنا انس سے مروی ایک اور صحیح حدیث مبارکہ میں ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا
’’انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں‘‘
سلام . میرے بھائی آپ نے کس بنیاد پر یہاں حدیث پیش کر دی . آپ نے تو پہلے ایک تھریڈ میں خود ہی کہا تھا. اپنا جواب بھی نیچے دیکھ لیں
Originally posted by Sub-Zero View Post
Originally posted by Sub-Zero View Postلولی کیا تمھیں یاد ہے پیغام پہ پندرھویں پوسٹ تم نے کیا کی تھی؟
اچھا یہ نہیں یا کافی سال دو سال ہوگئے اچھا پندرہ دسمبر کو کیا کھایا تھا یہ تو یاد ہوگا؟
مشکل لگتا ہے اچھا آج صبح سب سے پہلی بات چیت تو یاد ہوگی پورے ڈائیلاگ بغیر زیر زبر کی غلطی
کمی بیشی کے بغیر اگر نہیں تو سن رکھو کوئی انسان ماقوف الفطرت نہیں وہ کبھی بھی اتنی باتیں
نا یاد رکھ سکتا ہے نا انہیں ترتیب وار رکھ سکتا ہے جبھی اتنی احادیث مسترد ہوئیں اور باقیوں
کا بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ لکھنے والے اور کہنے والے اور سننے والے اور سنانے والے کی نیت کتنی ہی صاف کیوں نا ہو کہ دو سو سال یاد رکھ سکیں
Comment
-
Re: استغفر اللہ جہالت کی انتہا
sub - zero bhai kahan haian aap. aik taraf aap sahih ahadees pesh ker rahay haian aur doosri taraf aap ahadees ka rad bhi ker rahay haian.
yeh doghli policy kis liya.
apnay doono jawab dekh laian.
Originally posted by Sub-Zero View Post
بات یہ نہیں کہ تم قرآنی آیات یا احادیث سے ایک ڈش بنا کر کچھ تمغہ جیت جاؤ گئے مسئلہ یہ ہے دوسروں پہ تقلید کا کہ کر الزام تراشی کرنے لئے اب خود جو دوسروں کی تحقیق بغیر پرکھے کہ سچ جھوٹ کیا چھاپتے چلے جارہے ہو کچھ عقل نام کی چیز ہے یا وہ بھی بیچ کھائی تقلیدی انسان مت بنو ورنہ دوسروں پہ بھی بہتان مت لگاؤ وہ بھی تمھاری طرح کہیں سے سیکھتے سمجھتے ہیں
ٹھیک ہے ہم سب کو مرنا ہے بلکہ ہر نفس جیسے کوئی بھی جاندار چاہے مچھر اور چیونٹی کیوں نا ہو یہ ایک مسلم حقیقت اور قانون ہے جس پہ یہ دنیا کھڑی ہے مگر ایک مسلمان
ہونے کے ناطے ہمیں یہ ماننا ہوگا تمام نیک روحیں اللہ کے پاس زندہ ہیں اور ہمارے پیغام ان تک پہنچتے ہیں
رسول کریمﷺ نے فرمایا
’’مجھ پر جمعہ کے دن کثرت سے درود پڑھا کرو، کیونکہ اس دن فرشتے جمع ہوتے ہیں، اور جب تم سے کوئی شخص مجھ پر درود پڑھتا ہے تو اس درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے، ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ موت کے بعد بھی؟ فرمایا: موت کے بعد بھی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کرام علیہم السلام کو جسم مبارک کو کھانا حرام کر دیا ہے۔ پس اللہ کے نبی زندہ ہوتے اور رزق دئیے جاتے ہیں۔
اسی طرح سیدنا انس سے مروی ایک اور صحیح حدیث مبارکہ میں ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا
’’انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں‘‘
سلام . میرے بھائی آپ نے کس بنیاد پر یہاں حدیث پیش کر دی . آپ نے تو پہلے ایک تھریڈ میں خود ہی کہا تھا. اپنا جواب بھی نیچے دیکھ لیں
Originally posted by Sub-Zero View Post
Originally posted by Sub-Zero View Postلولی کیا تمھیں یاد ہے پیغام پہ پندرھویں پوسٹ تم نے کیا کی تھی؟
اچھا یہ نہیں یا کافی سال دو سال ہوگئے اچھا پندرہ دسمبر کو کیا کھایا تھا یہ تو یاد ہوگا؟
مشکل لگتا ہے اچھا آج صبح سب سے پہلی بات چیت تو یاد ہوگی پورے ڈائیلاگ بغیر زیر زبر کی غلطی
کمی بیشی کے بغیر اگر نہیں تو سن رکھو کوئی انسان ماقوف الفطرت نہیں وہ کبھی بھی اتنی باتیں
نا یاد رکھ سکتا ہے نا انہیں ترتیب وار رکھ سکتا ہے جبھی اتنی احادیث مسترد ہوئیں اور باقیوں
کا بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ لکھنے والے اور کہنے والے اور سننے والے اور سنانے والے کی نیت کتنی ہی صاف کیوں نا ہو کہ دو سو سال یاد رکھ سکیں
Comment
Comment