دیر سے جواب دینے پر معذرت چاہتی ہوں دراصل مجھے اردو ٹائپ کرنے میں تھوڑا مسئلہ ہوتا ہے اور وقت بھی کم ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ آپکی پوسٹ تو میں نے پڑھ لی تھی مگر تفصیل سے جواب دینے کے لیے وقت درکار تھا اس لیے مجھے اگر تفصیل سے جواب دینا ہوتا ہے تو میں تھوڑا تھوڑا لکھ کر اپنے پاس ہی محفوظ کر لیتی ہوں پھر جب جواب مکمل ہو جاتا ہے اسے دوبارہ سے ترتیب دے کر پوسٹ کر دیتی ہوں. میں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے اپنی بات کی وضاحت کرنے کی.
میں نے آپ کے جوابات دینے کے لیے الگ تھریڈ بنایا ہے کیوں جس تھریڈ میں یہ بحث چل رہی ہے اسکا موضوع با لکل الگ ہے.
آپ نے کہا کہ جماعت کے حوالے سے میں نے آپکی بات گول کر دی
میں نے آپ کی کون سی بات گول کی ہے ذرا بتا دیں میں آپ .سے کہ چکی ہوں مگر یہ بات آپکی سمجھ میں نہیں آ رہی اس کا میرے پاس کوئی علاج نہیں ہے، میں نے کبھی نہیں کہا کسی سے کہ آپ اہل حدیث ہو جاؤ میں نے کبھی نہیں کہا کسی اہل حدیث کی بات کو تسلیم کرلو جو قرآن آپ کے پاس ہے اسے پڑھیے جو صحیح بخاری صحیح مسلم آپکے پاس موجود ہے اسے پڑھیے، مگر اس کے لیے آپ کے احادیث کے متعلق جو اعتراضات ہیں انھیں دور کریے، معاف کیجےگا مگر جو اعتراضات آپ نے کئے ہیں یہی اعتراضات منکرین حدیث کرتے ہیں.
قرآن کے ساتھ حدیث کی حفاظت کی ذمہ داری بھی الله نے لی ہے.
الله کا فرمان ہے:
یہ نبی اپنی خواہش سے نہیں بولتا بلکہ وہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے. النجم ٣،٤
ہم ہی نے اس ذکر کو نازل فرمایا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں. الحجر
٠٩
یہاں ذکر کو نصیحت کے لفظ سے تعبیر کیا ہے. جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح قرآن کریم کو محفوظ کیا گیا اسی طرح ہمارے نبی کے تابندہ نقوش اور ان کے فرمودات کو بھی محفوظ کر کے قیامت تک کے لیے باقی رکھا گیا ہے. یعنی قرآن کریم کے اور سیرت نبوی کے حوالے سے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کا راستہ ہمیشہ کے لیے کھلا ہوا ہے، یہ شرف اور محفوظیت کا مقام پچھلی کسی بھی کتاب اور کسی اور پیغمبر کو حاصل نہیں ہوا.
قران محظ الفاظ یا صرف معنی کو نہیں کہا جاتا.جب الله نے ذکر کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے بیان ذکر کی حفاظت خود اس میں شامل ہو گئی ہے.جب کہ دوسری آیات میں یہ بات اور بھی صراحت کے ساتھ موجود ہے.
اگر کوئی پھر بھی اس بات پر اڑا رہے کہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ تو الله نے لیا ہے پر حدیث کی نہیں.پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ حفاظت قرآن والی آیت ہم تک جس ترتیب اور جن ذریعوں سے ہم تک پہنچی ہیں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ہی شخص دو باتیں ایک کو قرآن اور دوسرے کو حدیث کے نام سے بیان کرتا ہے لیکن پھر بھی کوئی کہے کہ آیت پہنچانے میں تو یہ شخص معتبر ہے مگر حدیث پہنچانے میں اسکا اعتبار نہیں کیا جا سکتا. کیا عقل اس بات کو تسلیم کر سکتی ہے ؟؟؟
اب ہمیں یہ بھی پتا چل گیا کہ قرآن کی طرح حدیث منزل من الله ہے
لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ قرآن تو تحریری طور پر موجود ہونے کی بنیاد پر حجت ہے مگر احادیث ہمارے پاس لکھی ہوئی نہیں ہے،
تو اسکا جواب یہ ہے کہ حدیث کی نوعیت اس لیے قرآن سے مختلف تھی کہ اس کے الفاظ قرآن کی طرح نازل نہیں ہوئے بلکہ رسول الله ﷺ نے اسکو اپنی زبان سے ادا کیا تھا پھر اسکا بڑا حصہ ایسا تھا جسے رسول الله ﷺ کے ہم عصروں نے اپنے اپنے الفاظ میں بیان کیا تھا،
مثلا رسول الله ﷺ نے فلاں فلاں کام کیا رسول الله ﷺ کے اخلاق ایسے تھے، زندگی ایسی تھی. بلکہ اہل زبان سامعین کے لیے یہ جائز تھا کہ وہ آپ ﷺ کی بات سن کر معنی و مفہوم بدلے بغیر اسے اپنے الفاظ میں بیان کر دیں.
کسی چیز کے حجت ہونے کے لیے اسکا لکھا ہوا ہونا ضروری نہیں ہے اعتماد کی اصل بنیاد اس شخص یا اشخاص کا بھروسہ ہے جس کے ذریعے بات دوسروں تک پہنچے خواہ مکتوب ہو یا غیر مکتوب الله تعالیٰ نے بھی پورا انحصار اس بات پر کیا کہ جو لوگ نبی کو سچا مانیںگے وہ نبی کے اعتماد پر قرآن کو بھی کلام الہی مان لیں گے.
اور سب سے اہم بات یہ کہ کوئی بھی لکھی ہی چیز اس وقت تک قابل اعتماد نہیں ہوتی جب تک زندہ انسانوں کی شہادت اسکی توثیق نہ کرے.
محظ لکھی ہوئی چیز ہمیں ملے مگر اسکے متعلق ایسے شواہد موجود نہ ہوں جو اس امر کی تصدیق کریں کہ یہ تحریر اسی شخص کی ہے جس کی طرف منسوب کی گئی ہے. تو ہمارے لیے وہ تحریر کیا معنی رکھ سکتی ہے.
میں نے آپ کے جوابات دینے کے لیے الگ تھریڈ بنایا ہے کیوں جس تھریڈ میں یہ بحث چل رہی ہے اسکا موضوع با لکل الگ ہے.
آپ نے کہا کہ جماعت کے حوالے سے میں نے آپکی بات گول کر دی
میں نے آپ کی کون سی بات گول کی ہے ذرا بتا دیں میں آپ .سے کہ چکی ہوں مگر یہ بات آپکی سمجھ میں نہیں آ رہی اس کا میرے پاس کوئی علاج نہیں ہے، میں نے کبھی نہیں کہا کسی سے کہ آپ اہل حدیث ہو جاؤ میں نے کبھی نہیں کہا کسی اہل حدیث کی بات کو تسلیم کرلو جو قرآن آپ کے پاس ہے اسے پڑھیے جو صحیح بخاری صحیح مسلم آپکے پاس موجود ہے اسے پڑھیے، مگر اس کے لیے آپ کے احادیث کے متعلق جو اعتراضات ہیں انھیں دور کریے، معاف کیجےگا مگر جو اعتراضات آپ نے کئے ہیں یہی اعتراضات منکرین حدیث کرتے ہیں.
قرآن کے ساتھ حدیث کی حفاظت کی ذمہ داری بھی الله نے لی ہے.
الله کا فرمان ہے:
یہ نبی اپنی خواہش سے نہیں بولتا بلکہ وہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے. النجم ٣،٤
ہم ہی نے اس ذکر کو نازل فرمایا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں. الحجر
٠٩
یہاں ذکر کو نصیحت کے لفظ سے تعبیر کیا ہے. جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح قرآن کریم کو محفوظ کیا گیا اسی طرح ہمارے نبی کے تابندہ نقوش اور ان کے فرمودات کو بھی محفوظ کر کے قیامت تک کے لیے باقی رکھا گیا ہے. یعنی قرآن کریم کے اور سیرت نبوی کے حوالے سے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کا راستہ ہمیشہ کے لیے کھلا ہوا ہے، یہ شرف اور محفوظیت کا مقام پچھلی کسی بھی کتاب اور کسی اور پیغمبر کو حاصل نہیں ہوا.
قران محظ الفاظ یا صرف معنی کو نہیں کہا جاتا.جب الله نے ذکر کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے بیان ذکر کی حفاظت خود اس میں شامل ہو گئی ہے.جب کہ دوسری آیات میں یہ بات اور بھی صراحت کے ساتھ موجود ہے.
اگر کوئی پھر بھی اس بات پر اڑا رہے کہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ تو الله نے لیا ہے پر حدیث کی نہیں.پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ حفاظت قرآن والی آیت ہم تک جس ترتیب اور جن ذریعوں سے ہم تک پہنچی ہیں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ہی شخص دو باتیں ایک کو قرآن اور دوسرے کو حدیث کے نام سے بیان کرتا ہے لیکن پھر بھی کوئی کہے کہ آیت پہنچانے میں تو یہ شخص معتبر ہے مگر حدیث پہنچانے میں اسکا اعتبار نہیں کیا جا سکتا. کیا عقل اس بات کو تسلیم کر سکتی ہے ؟؟؟
اب ہمیں یہ بھی پتا چل گیا کہ قرآن کی طرح حدیث منزل من الله ہے
لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ قرآن تو تحریری طور پر موجود ہونے کی بنیاد پر حجت ہے مگر احادیث ہمارے پاس لکھی ہوئی نہیں ہے،
تو اسکا جواب یہ ہے کہ حدیث کی نوعیت اس لیے قرآن سے مختلف تھی کہ اس کے الفاظ قرآن کی طرح نازل نہیں ہوئے بلکہ رسول الله ﷺ نے اسکو اپنی زبان سے ادا کیا تھا پھر اسکا بڑا حصہ ایسا تھا جسے رسول الله ﷺ کے ہم عصروں نے اپنے اپنے الفاظ میں بیان کیا تھا،
مثلا رسول الله ﷺ نے فلاں فلاں کام کیا رسول الله ﷺ کے اخلاق ایسے تھے، زندگی ایسی تھی. بلکہ اہل زبان سامعین کے لیے یہ جائز تھا کہ وہ آپ ﷺ کی بات سن کر معنی و مفہوم بدلے بغیر اسے اپنے الفاظ میں بیان کر دیں.
کسی چیز کے حجت ہونے کے لیے اسکا لکھا ہوا ہونا ضروری نہیں ہے اعتماد کی اصل بنیاد اس شخص یا اشخاص کا بھروسہ ہے جس کے ذریعے بات دوسروں تک پہنچے خواہ مکتوب ہو یا غیر مکتوب الله تعالیٰ نے بھی پورا انحصار اس بات پر کیا کہ جو لوگ نبی کو سچا مانیںگے وہ نبی کے اعتماد پر قرآن کو بھی کلام الہی مان لیں گے.
اور سب سے اہم بات یہ کہ کوئی بھی لکھی ہی چیز اس وقت تک قابل اعتماد نہیں ہوتی جب تک زندہ انسانوں کی شہادت اسکی توثیق نہ کرے.
محظ لکھی ہوئی چیز ہمیں ملے مگر اسکے متعلق ایسے شواہد موجود نہ ہوں جو اس امر کی تصدیق کریں کہ یہ تحریر اسی شخص کی ہے جس کی طرف منسوب کی گئی ہے. تو ہمارے لیے وہ تحریر کیا معنی رکھ سکتی ہے.
Comment