Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

تدوین احادیث کے متعلق شبہات اور انکا ازالہ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • تدوین احادیث کے متعلق شبہات اور انکا ازالہ

    دیر سے جواب دینے پر معذرت چاہتی ہوں دراصل مجھے اردو ٹائپ کرنے میں تھوڑا مسئلہ ہوتا ہے اور وقت بھی کم ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ آپکی پوسٹ تو میں نے پڑھ لی تھی مگر تفصیل سے جواب دینے کے لیے وقت درکار تھا اس لیے مجھے اگر تفصیل سے جواب دینا ہوتا ہے تو میں تھوڑا تھوڑا لکھ کر اپنے پاس ہی محفوظ کر لیتی ہوں پھر جب جواب مکمل ہو جاتا ہے اسے دوبارہ سے ترتیب دے کر پوسٹ کر دیتی ہوں. میں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے اپنی بات کی وضاحت کرنے کی.
    میں نے آپ کے جوابات دینے کے لیے الگ تھریڈ بنایا ہے کیوں جس تھریڈ میں یہ بحث چل رہی ہے اسکا موضوع با لکل الگ ہے.
    آپ نے کہا کہ جماعت کے حوالے سے میں نے آپکی بات گول کر دی
    میں نے آپ کی کون سی بات گول کی ہے ذرا بتا دیں میں آپ .سے کہ چکی ہوں مگر یہ بات آپکی سمجھ میں نہیں آ رہی اس کا میرے پاس کوئی علاج نہیں ہے، میں نے کبھی نہیں کہا کسی سے کہ آپ اہل حدیث ہو جاؤ میں نے کبھی نہیں کہا کسی اہل حدیث کی بات کو تسلیم کرلو جو قرآن آپ کے پاس ہے اسے پڑھیے جو صحیح بخاری صحیح مسلم آپکے پاس موجود ہے اسے پڑھیے، مگر اس کے لیے آپ کے احادیث کے متعلق جو اعتراضات ہیں انھیں دور کریے، معاف کیجےگا مگر جو اعتراضات آپ نے کئے ہیں یہی اعتراضات منکرین حدیث کرتے ہیں.
    قرآن کے ساتھ حدیث کی حفاظت کی ذمہ داری بھی الله نے لی ہے.

    الله کا فرمان ہے:
    یہ نبی اپنی خواہش سے نہیں بولتا بلکہ وہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے. النجم ٣،٤
    ہم ہی نے اس ذکر کو نازل فرمایا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں. الحجر
    ٠٩
    یہاں ذکر کو نصیحت کے لفظ سے تعبیر کیا ہے. جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح قرآن کریم کو محفوظ کیا گیا اسی طرح ہمارے نبی کے تابندہ نقوش اور ان کے فرمودات کو بھی محفوظ کر کے قیامت تک کے لیے باقی رکھا گیا ہے. یعنی قرآن کریم کے اور سیرت نبوی کے حوالے سے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کا راستہ ہمیشہ کے لیے کھلا ہوا ہے، یہ شرف اور محفوظیت کا مقام پچھلی کسی بھی کتاب اور کسی اور پیغمبر کو حاصل نہیں ہوا.

    قران محظ الفاظ یا صرف معنی کو نہیں کہا جاتا.جب الله نے ذکر کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے بیان ذکر کی حفاظت خود اس میں شامل ہو گئی ہے.جب کہ دوسری آیات میں یہ بات اور بھی صراحت کے ساتھ موجود ہے.
    اگر کوئی پھر بھی اس بات پر اڑا رہے کہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ تو الله نے لیا ہے پر حدیث کی نہیں.پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ حفاظت قرآن والی آیت ہم تک جس ترتیب اور جن ذریعوں سے ہم تک پہنچی ہیں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ہی شخص دو باتیں ایک کو قرآن اور دوسرے کو حدیث کے نام سے بیان کرتا ہے لیکن پھر بھی کوئی کہے کہ آیت پہنچانے میں تو یہ شخص معتبر ہے مگر حدیث پہنچانے میں اسکا اعتبار نہیں کیا جا سکتا. کیا عقل اس بات کو تسلیم کر سکتی ہے ؟؟؟


    اب ہمیں یہ بھی پتا چل گیا کہ قرآن کی طرح حدیث منزل من الله ہے
    لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ قرآن تو تحریری طور پر موجود ہونے کی بنیاد پر حجت ہے مگر احادیث ہمارے پاس لکھی ہوئی نہیں ہے،
    تو اسکا جواب یہ ہے کہ حدیث کی نوعیت اس لیے قرآن سے مختلف تھی کہ اس کے الفاظ قرآن کی طرح نازل نہیں ہوئے بلکہ رسول الله ﷺ نے اسکو اپنی زبان سے ادا کیا تھا پھر اسکا بڑا حصہ ایسا تھا جسے رسول الله ﷺ کے ہم عصروں نے اپنے اپنے الفاظ میں بیان کیا تھا،
    مثلا رسول الله ﷺ نے فلاں فلاں کام کیا رسول الله ﷺ کے اخلاق ایسے تھے، زندگی ایسی تھی. بلکہ اہل زبان سامعین کے لیے یہ جائز تھا کہ وہ آپ ﷺ کی بات سن کر معنی و مفہوم بدلے بغیر اسے اپنے الفاظ میں بیان کر دیں.
    کسی چیز کے حجت ہونے کے لیے اسکا لکھا ہوا ہونا ضروری نہیں ہے اعتماد کی اصل بنیاد اس شخص یا اشخاص کا بھروسہ ہے جس کے ذریعے بات دوسروں تک پہنچے خواہ مکتوب ہو یا غیر مکتوب الله تعالیٰ نے بھی پورا انحصار اس بات پر کیا کہ جو لوگ نبی کو سچا مانیںگے وہ نبی کے اعتماد پر قرآن کو بھی کلام الہی مان لیں گے.
    اور سب سے اہم بات یہ کہ کوئی بھی لکھی ہی چیز اس وقت تک قابل اعتماد نہیں ہوتی جب تک زندہ انسانوں کی شہادت اسکی توثیق نہ کرے.
    محظ لکھی ہوئی چیز ہمیں ملے مگر اسکے متعلق ایسے شواہد موجود نہ ہوں جو اس امر کی تصدیق کریں کہ یہ تحریر اسی شخص کی ہے جس کی طرف منسوب کی گئی ہے. تو ہمارے لیے وہ تحریر کیا معنی رکھ سکتی ہے.
    http://www.islamghar.blogspot.com/

  • #2
    Re: تدوین احادیث کے متعلق شبہات اور انکا ازالہ

    اب ہم اس بات کی طرف آتے ہیں کہ آیا صحابہ کے دور میں حدیث لکھی جاتی تھیں یا نہیں یا انھیں کس طرح محفوظ کیا جاتا تھا
    .
    نبی ﷺ کے عبد بابرکت میں حدیث و سنت کی تدوین کا سلسلہ ایک خاص انداز میں شروع ہو گیا تھا اور صحابہ کرام نے اس کی حفاظت و صیانت کو اپنا مقصد حیات قرار دے لیا تھا۔ وہ ایک اعلی ترین اور اولین اسلامی معاشرہ تھا، جس میں نبی ﷺ کے فرامین اور آپ کے اسوئہ حسنہ پر عمل کی دیواریں استوار کرنا ہر مسلمان کا فرض تھا۔ آپ کا ہر قول اور ہر فعل ان کے لئے بجا طور پر دین کی تشریح کا بنیادی نقطہ تھا، جس سے کسی صورت میں انحراف نہیں ہو سکتا تھا۔ اگر اس سے انحراف کی راہیں تلاش کی جاتیں تو نہ قرآن کی بیان فرمودہ اخلاقی و روحانی تعلیمات پر عمل ہو سکتا تھا اور نہ صحیح اسلامی معاشرہ وجود میں آسکتا۔ یہ نبی ﷺ کی تعلیم ہی کا فیضان ہے کہ لوگوں نے صحیح معنوں میں قرآن حکیم کو سمجھا اور اس کی آفاقی تعلیمات کے مختلف پہلو ان کے فہم کی گرفت میں آئے اور ان کے دلوں پر نقش ہوئے۔

    دوسرے لفظوں میں کہنا چاہیے کہ قرآنی احکام کو سمجھنے کا اصل ذریعہ ارشاداتِ پیغمبر ہیں (ﷺ) ۔ صحابہ کرام نے ارشاداتِ پیغمبر کو مشعل راہ ٹھہرایا اور آپ کے نقوشِ قدم کی پیروی کو لازمہ حیات بنایا تو دنیوی کامیابیاں بھی ان کے حصے میں آئیں اور اُخروی سعادت کی کامرانی بھی ان کا مقدر بنی۔

    ابتدا میں نبی ﷺ نے صحابہ کرام کو کتابت حدیث سے اس اندیشے کی بنا پر روک دیا تھا کہ کہیں احادیث رسول اور آیاتِ قرآن میں اختلات نہ ہو جائے، لیکن جب یہ اندیشہ نہ رہا اور قرآن مجید بہ صورت کتابت محفوظ ہو گیا تو آپ نے صحابہ کو باقاعدہ طور پر کتابت حدیث کا حکم صادر فرما دیا۔ اس کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔

    … حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
    قیدوا العلم قلت و ما تقییدہ؟ قال کتابتہ
    یعنی علم کو مقید کر لو۔ میں نے عرض کیا کس طرح مقید کریں؟ فرمایا: اسے قید تحریر میں لاؤ۔

    … حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
    قلت یارسول اللہ انا نسمع عنک اشیاء افنکتبھا؟ قال اکتبوا ولا حرج۔
    یعنی اے اللہ کے رسول (ﷺ) ہم آپ سے بہت سی باتیں سنتے ہیں، کیا یہ باتیں لکھ لیا کریں؟ آپ نے فرمایا لکھ لیا کرو، اس میں کوئی حرج نہیں۔

    … فتح مکہ کے موقع پر نبی ﷺ نے انسانی حقوق اور بعض اہم مسائل سے متعلق طویل خطبہ ارشاد فرمایا۔ آ خطبے سے فارغ ہوئے تو یمن کے ایک شخص ابوشاہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! مجھے یہ خطبہ لکھوا دیجیے۔ آپ نے حکم دیا:
    اکتبوا لابی شاہ
    (یہ خطبہ ابوشاہ کے لیے لکھ دو)۔

    متعدد صحابہ کرام نے نبی ﷺ کی احادیث مبارکہ کے مجموعے تیار کیے جنہیں صحیفہ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ ان میں سے چند صحیفے مندرجہ ذیل ہیں۔

    … صحیفہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ۔

    … صحیفہ سعد بن عبادہ انصاری رضی اللہ عنہ۔

    … الصحیفة الصادقہ: یہ صحیفہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے احادیث سن کر لکھا۔

    … صحف ابن عباس رضی اللہ عنہ: یہ بہت سی مرویات کا دلکش مجموعہ ہے۔

    … احادیث کا ایک مجموعہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے تیار کیا، جس میں پانچ سو حدیثیں تھیں۔

    … حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنے نے بھی اس موضوع کو مرکز توجہ ٹھہرایا اور نبی ﷺ سے احادیث روایت کیں۔

    … حضرت علی رضی اللہ عنہ نے احادیث کا ایک صحیفہ ترتیب دیا۔

    … نبی ﷺ نے خود ایک کتاب لکھوا کر یمن کے لوگوں کے پاس بھجوائی۔
    مستدرک حاکم میں ہے:

    عن النبی ﷺ انہ کتب الی اھل الیمن بکتاب فیہ الفرائض و السنن و الدیات و بعث مع عمرو بن حزم
    یعنی نبی ﷺ نے اہل یمن کے پاس عمرو بن حزم کی معرفت ایک کتاب لکھوا کر بھیجی جس میں فرائض، سنن اور دیات کی تفصیل بیان فرمائی گئی تھی۔

    اس کتاب کو ہم حدیث کی مستقل کتاب قرار دے سکتے ہیں جو خود نبی ﷺ نے لکھوائی۔

    اسی طرح اور بھی متعدد صحائف کا پتہ چلتا ہے جو عصر نبوت میں ضبط تحریر میں آئے اور لوگ ان سے فیض یاب ہوئے۔
    احادیث کو لکھنے اور محفوظ کرنے کا طریقہ بھی ہمیں صحابہ کرام سے پتا چل جاتا ہے ، اس بات کی وضاحت ہمیں اس طرح مل جاتی ہے کہ صحابہ کرام نے روایت کے قبول کرنے کے لیے تحقیق کو لازم قرار دیا ہے اور حدیث کے قبول کرنے کا ایک معیار مقرر کیا تا کہ رسول اللہ کی طرف کوئی من گھڑت بات منسوب نہ کی جاۓ حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
    ہمارے تمام حضرات رسول الله ﷺ سے حدیث نہیں سنتے تھے کیوں کہ ہمارا کاروبار تھا جس میں ہم مشغول رہتے لیکن بات یہ ہے کہ لوگ اس وقت جھوٹ نہیں بولتے تھے جو رسول الله ﷺ کے پاس حاضر ہوتا وہ اس تک حدیث پہنچا دیتا جو غائب ہوتا
    المستدرک ص ١٢٧ ج ١
    مشہور تابعی حضرت قتادہ رحمہ الله فرماتے ہیں کہ
    ایک شخص نے حدیث بیان کی تو کسی نے اس سے پوچھا کیا یہ حدیث آپ نے رسول الله ﷺ سے سنی ہے وہ فرمانے لگے
    جی ہاں میں نے رسول الله ﷺ سے سنی ہے یا پھر مجھ سے اس شخص نے بیان کی ہے جو جھوٹ نہیں بولتا الله کی قسم نہ ہم جھوٹ بولتے ہیں اور نہ ہی ہم جھوٹ سے واقف ہیں مفتاح الجنہ ص ٣٧
    http://www.islamghar.blogspot.com/

    Comment


    • #3
      Re: تدوین احادیث کے متعلق شبہات اور انکا ازالہ

      اب ہمیں یہ بات بھی پتا چل گئی ہے کہ صحابہ کرام کے دور میں احادیث لکھنے کا کام جاری تھا

      اب آتے ہیں اس طرف کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ حدیث جن لوگوں نے ہم تک پہنچائی ہے وہ صحیح طرح پہنچائی ہے یا نہیں ان پر اعتبار کس طرح کیا جاۓ.
      سند کے ذریعے حدیث معلوم کی جاتی ہے اور سند گواہی کے زمرے میں آتی ہے۔یعنی جب کوئی راوی یہ کہہ رہا ہو کہ میں نے نبی علیہ الصلاةوالسلام کی حدیث فلاں شخص سے سنی اور فلاں نے فلاں شخص سے سنی۔۔۔۔ تو وہ راوی گواہی دے رہا یہی وجہ ہے کہ جب راوی ثقہ نہ ہو بلکہ ضعیف و متروک ہو، نیسان کامریض ہو، لقمہ قبول کر لیتا ہو، سند اور متن میں گڑ بڑ کرتا ہو تو اس کی گواہی غیر معتبر اور روایت ضعیف ہو جاتی ہے۔ اور معتبر کی گواہی کو قبول کرنا کتاب و سنت سے ثابت ہے یعنی ہم گواہ کی گواہی کو اتباعِ سنت میں قبول کرتے ہیں نہ کے کسی کی تقلید

      ایک مثال کے ذریعہ سے آپکو سمجھا تی ہوں جیسے کہ مان لیجیے کہ ایک انسان بلکل سچا ہے اور کچھ لوگ اس انسان پر بھروسہ کرتے ہیں دین اور دنیا یعنی حافظے کے اعتبار سے بھی پوری طرح قابل بھروسہ ہے.

      اب وہ انسان کسی دوسرے انسان کی گواہی دے کہ یہ انسان سچا ہے پرہیزگار ہے یا پھر لکھ دے تو اس انسان کے بعد انے والے یہی کہیں گے کہ وہ انسان سچا ہے پرہیزگار ہے کیوں کہ ایک نیک پرہیزگار اور سچے انسان نے اسکی گواہی دی ہے. کبھی کبھی محدث کسی راوی کو ثقہ بول دیتے ہیں مگر پھر لوگ دیکھتے ہیں کہ فلاں فلاں نے اس راوی کی توثیق نہیں کی اس یہ ان سے خطا سرزد ہوئی ہے یعنی اجتہادی غلطی.

      اب ہمیں پتا چل گیا کہ اسناد کی بنیاد پر حدیث کو قبول کیا جاتا ہے اب اسناد کی جانچ کے بارے میں بھی کچھ بتاتی چلوں کہ
      اس فن کو اسماء الرجال کہا جاتا ہے. اس فن کا مقصد یہ تھا کہ احادیث کو کذاب و افترا سے محفوظ کیا جا سکے اور صحیح اور ضعیف و من گھڑت روایات میں واضح امتیاز کیا جا سکے جو لوگ یہ عظیم خدمت سر انجام دیتے انہیں رجال جرح و تعدیل کہا جاتا. محدثین نے احادیث کے راویوں کے حالات ، انکی عدالت ،حفظ و ضبط، امانت و دیانت، اخلاق و عادات اوصاف و خصائل شب و روز کی مصروفیات اور لوگوں سے تعلقات الغرض انکی زندگی کے تمام پہلووں کے بارے میں تحقیق کر کے سری دنیا کے سامنے واضح کر دیا تا کہ کسی بھی راوی کے درجہ ثقاہت و قبولیت کو جاننے میں مشکل پیش نہ آئے یقیناً حدیث کی تدوین اور جمع و ترتیب کے بعد اس کے تحفظ کے لیے اس علم و فن کا معرض وجود میں آنا نہایت ضروری تھا، یہی وجہ ہے کہ اس علم کو اس دور کا ایک بہت بڑا اقدام و کارنامہ تصور کیا جاتا تھا.
      ایک غیر مسلم فلسفی ڈاکٹر اسپرنگر لکھتے ہیں کہ نہ کوئی قوم دنیا میں ایسی گزری نہ آج موجود ہے جس نے مسلمانوں کی طرح اسماء الرجال کا عظیم الشان فن ایجاد کیا ہو جس کی بدولت آج پانچ لاکھ شخصوں کا حال معلوم ہو سکتا ہے.
      http://www.islamghar.blogspot.com/

      Comment


      • #4
        Re: تدوین احادیث کے متعلق شبہات اور انکا ازالہ

        پ نے کہا کہ شیعہ بھی تو قرآن اور حدیث سے دلائل دیتے ہیں تو پھر انھ کس بنا پر کافر کہا جاتا ہے اسکا جواب یہ ہے کہ
        شیعہ اس بات پر اصولی طور پر اہل سنت سے متفق ہیں کہ حدیث شرعی احکام کی اساس ہے ان کے یہاں حدیث کی اصلاحات بھی وہی ہیں جو اہل سنت کی ہیں وہ بھی احادیث کو صحیح ،مشہور ، مرفوع ،موقوف ،متواتر ،اور خبر واحد میں تقسیم کرتے ہیں.
        تاہم بعض دیگر بنیادی مسائل میں وہ اہل سنت سے مختلف نظریہ حدیث رکھتے ہیں.
        اہل سنت کے نزدیک مرفوع حدیث صرف وہ ہوتی ہے جس میں قول و فعل کی نسبت رسول الله ﷺ طرف ہو جس قول و فعل کی نسبت کسی صحابی کی طرف ہو اسے موقوف حدیث یا موقوف روایت کہا جاتا ہے.لیکن فقہ جعفریہ میں ہر اس قول اور فعل کو مرفوع حدیث کہا جاتا ہے جس میں اس قول و فعل اور تقریر کی نسبت رسول الله ﷺ کے علاوہ کسی بھی دیگر امام معصوم کی جانب ہو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت حسن رضی اللہ عنہ، حضرت حسین رضی اللہ عنہ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے نو آئمہ کے اقوال اور افعال کو بھی مرفوع حدیث کہتے ہیں اور جو قول و فعل ان آئمہ معصومین کے اصحاب کی طرف منسوب ہوا ہو اسے وہ موقوف حدیث یا موقوف روایت کہتے ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ شیعہ کے نزدیک دیگر آئمہ کی اطاعت بھی اتنی ہی فرض ہے جتنی رسول الله ﷺ اطاعت فرض ہے اور ان کے اقوال و افعال کو بھی شرعی طور پر وہی درجہ و مقام حاصل ہے جو رسول الله ﷺکے اقوال و افعال کو حاصل ہے فقہ جعفریہ کے اس اصول حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کے نزدیک اسلام صرف الله اور رسول کی اطاعت کا نام نہیں ہے بلکہ مسلمان ہونے کہ لیے رسول الله ﷺ پر ایمان لانے کے علاوہ بارہ آئمہ معصومین پر بھی ایمان لانا ضروری ہے اور انکی غیر مشروط اطاعت کا صدق دل سے اقرار کرنا بھی ضروری ہے
        امید کرتی ہوں کہ آپکو صحیح طرح سے واضح کر چکی ہوں کہ ان لوگوں کس بنیاد پر شیعہ کہا جاتا ہے
        .
        http://www.islamghar.blogspot.com/

        Comment


        • #5
          Re: تدوین احادیث کے متعلق شبہات اور انکا ازالہ

          میں نے اپنی طرف سے بہت محنت کی ہے آپ کے سوالوں کے جوابات دینے کی، لیکن اگر پھر بھی اگر کوئی بات سمجھ نہ آے تو پوچھ لیجیے،
          http://www.islamghar.blogspot.com/

          Comment


          • #6
            Re: تدوین احادیث کے متعلق شبہات اور انکا ازالہ

            Originally posted by shizz View Post
            دیر سے جواب دینے پر معذرت چاہتی ہوں دراصل مجھے اردو ٹائپ کرنے میں تھوڑا مسئلہ ہوتا ہے اور وقت بھی کم ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ آپکی پوسٹ تو میں نے پڑھ لی تھی مگر تفصیل سے جواب دینے کے لیے وقت درکار تھا اس لیے مجھے اگر تفصیل سے جواب دینا ہوتا ہے تو میں تھوڑا تھوڑا لکھ کر اپنے پاس ہی محفوظ کر لیتی ہوں پھر جب جواب مکمل ہو جاتا ہے اسے دوبارہ سے ترتیب دے کر پوسٹ کر دیتی ہوں. میں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے اپنی بات کی وضاحت کرنے کی.
            میں نے آپ کے جوابات دینے کے لیے الگ تھریڈ بنایا ہے کیوں جس تھریڈ میں یہ بحث چل رہی ہے اسکا موضوع با لکل الگ ہے.
            آپ نے کہا کہ جماعت کے حوالے سے میں نے آپکی بات گول کر دی
            میں نے آپ کی کون سی بات گول کی ہے ذرا بتا دیں میں آپ .سے کہ چکی ہوں مگر یہ بات آپکی سمجھ میں نہیں آ رہی اس کا میرے پاس کوئی علاج نہیں ہے، میں نے کبھی نہیں کہا کسی سے کہ آپ اہل حدیث ہو جاؤ میں نے کبھی نہیں کہا کسی اہل حدیث کی بات کو تسلیم کرلو جو قرآن آپ کے پاس ہے اسے پڑھیے جو صحیح بخاری صحیح مسلم آپکے پاس موجود ہے اسے پڑھیے، مگر اس کے لیے آپ کے احادیث کے متعلق جو اعتراضات ہیں انھیں دور کریے، معاف کیجےگا مگر جو اعتراضات آپ نے کئے ہیں یہی اعتراضات منکرین حدیث کرتے ہیں.
            قرآن کے ساتھ حدیث کی حفاظت کی ذمہ داری بھی الله نے لی ہے.

            الله کا فرمان ہے:
            یہ نبی اپنی خواہش سے نہیں بولتا بلکہ وہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے. النجم ٣،٤
            ہم ہی نے اس ذکر کو نازل فرمایا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں. الحجر
            ٠٩
            یہاں ذکر کو نصیحت کے لفظ سے تعبیر کیا ہے. جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح قرآن کریم کو محفوظ کیا گیا اسی طرح ہمارے نبی کے تابندہ نقوش اور ان کے فرمودات کو بھی محفوظ کر کے قیامت تک کے لیے باقی رکھا گیا ہے. یعنی قرآن کریم کے اور سیرت نبوی کے حوالے سے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کا راستہ ہمیشہ کے لیے کھلا ہوا ہے، یہ شرف اور محفوظیت کا مقام پچھلی کسی بھی کتاب اور کسی اور پیغمبر کو حاصل نہیں ہوا.

            قران محظ الفاظ یا صرف معنی کو نہیں کہا جاتا.جب الله نے ذکر کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے بیان ذکر کی حفاظت خود اس میں شامل ہو گئی ہے.جب کہ دوسری آیات میں یہ بات اور بھی صراحت کے ساتھ موجود ہے.
            اگر کوئی پھر بھی اس بات پر اڑا رہے کہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ تو الله نے لیا ہے پر حدیث کی نہیں.پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ حفاظت قرآن والی آیت ہم تک جس ترتیب اور جن ذریعوں سے ہم تک پہنچی ہیں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ہی شخص دو باتیں ایک کو قرآن اور دوسرے کو حدیث کے نام سے بیان کرتا ہے لیکن پھر بھی کوئی کہے کہ آیت پہنچانے میں تو یہ شخص معتبر ہے مگر حدیث پہنچانے میں اسکا اعتبار نہیں کیا جا سکتا. کیا عقل اس بات کو تسلیم کر سکتی ہے ؟؟؟


            اب ہمیں یہ بھی پتا چل گیا کہ قرآن کی طرح حدیث منزل من الله ہے
            لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ قرآن تو تحریری طور پر موجود ہونے کی بنیاد پر حجت ہے مگر احادیث ہمارے پاس لکھی ہوئی نہیں ہے،
            تو اسکا جواب یہ ہے کہ حدیث کی نوعیت اس لیے قرآن سے مختلف تھی کہ اس کے الفاظ قرآن کی طرح نازل نہیں ہوئے بلکہ رسول الله ﷺ نے اسکو اپنی زبان سے ادا کیا تھا پھر اسکا بڑا حصہ ایسا تھا جسے رسول الله ﷺ کے ہم عصروں نے اپنے اپنے الفاظ میں بیان کیا تھا،
            مثلا رسول الله ﷺ نے فلاں فلاں کام کیا رسول الله ﷺ کے اخلاق ایسے تھے، زندگی ایسی تھی. بلکہ اہل زبان سامعین کے لیے یہ جائز تھا کہ وہ آپ ﷺ کی بات سن کر معنی و مفہوم بدلے بغیر اسے اپنے الفاظ میں بیان کر دیں.
            کسی چیز کے حجت ہونے کے لیے اسکا لکھا ہوا ہونا ضروری نہیں ہے اعتماد کی اصل بنیاد اس شخص یا اشخاص کا بھروسہ ہے جس کے ذریعے بات دوسروں تک پہنچے خواہ مکتوب ہو یا غیر مکتوب الله تعالیٰ نے بھی پورا انحصار اس بات پر کیا کہ جو لوگ نبی کو سچا مانیںگے وہ نبی کے اعتماد پر قرآن کو بھی کلام الہی مان لیں گے.
            اور سب سے اہم بات یہ کہ کوئی بھی لکھی ہی چیز اس وقت تک قابل اعتماد نہیں ہوتی جب تک زندہ انسانوں کی شہادت اسکی توثیق نہ کرے.
            محظ لکھی ہوئی چیز ہمیں ملے مگر اسکے متعلق ایسے شواہد موجود نہ ہوں جو اس امر کی تصدیق کریں کہ یہ تحریر اسی شخص کی ہے جس کی طرف منسوب کی گئی ہے. تو ہمارے لیے وہ تحریر کیا معنی رکھ سکتی ہے.
            دیکھیں میں منکرین حدیث کا ٹھیکدار نہیں*ہوں*صرف اپنی بات کررہا ہوں

            آپ نے یہ آیت پیش کی

            الله کا فرمان ہے:
            یہ نبی اپنی خواہش سے نہیں بولتا بلکہ وہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے. النجم ٣،٤
            ہم ہی نے اس ذکر کو نازل فرمایا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں. الحجر

            ٹھیک ہے مان لیتے ہیں* کہ اس سے مراد کتب احادیث بھی ہیں*۔۔ لیکن پھر ایک سوال اٹھتا ہے ۔۔

            کہ اس وحی کی یعنی حدیث والی وحی کو کسی صحابی نے یا رسول ص نے خود کیوں* نہیں جمع کیا ۔۔ یا کیوں نہیں لکھوایا ۔۔

            دوسری بات ۔۔اگر خدا کی حفاظت کی ذمہ داری کا یہ عالم ہے کہ حدیث صحیح بھی ہے غلط بھی ۔۔ اور بہت سی احادیث کو تو ان اماموں نے اپنی کتب میں*لکھا ہی نہیں ان لوگوں* کو کیسے پتہ چلا کہ یہ والی وحی نہیں*ہیں*۔۔۔
            اچھا ایک حدیث کو امام بخاری صاحب اپنی کتاب میں*لکھتے ہیں*۔۔ اسی حدیث کو امام مسلم صاحب نہیں لکھتے تو اس کو کیا سمجھا جائے یعی کہ ایک امام کے نزدیک دوسرا امام سچا نہیں*ہے ۔۔ یہ صرف پوائنٹ*ہیں انہیں*خدارا کوئی دوسرا رنگ یا موڑ نہ دیجیے گا۔

            تیسرا ۔۔ خدا نے ایک وحی کا تو قرآن بنایا ۔۔ اگر ان ساری کتابوں کو بھی وحی مان لیا جائے تو کیا قرآن کے مکمل ہونے پر حروف نہیں*آئے گا۔

            پھر احادیث* جمع کرنے والے یہ سارے امام جن کی کتابوں پر ہم ایمان لے کر آتے ہیں بلکل اسی طرح جسیے قرآن پر لاتے ہیں* یہ سب ایرانی ہی کیوں ہیں*۔۔ کوئی ایسا شخص عرب میں نہیں*تھا جو یہ ادھورا کام مکمل کرلیتا

            کیا قرآن کی کسی آیت کے بارے میں*ہم یہ کہہ سکتے ہیں* کہ یہ ضعیف آیت ہے ۔۔ یا قوی ہے یا مرسل ہے وغیرہ وغیرہ

            اگر نہیں تو اسی خدا کی دوسری وحی پر یہ سب باتیں کہاں سے آگئیں* اور کون لے کر آگیا

            اس کے بعد جو پیرا آپ نے لکھا یہ والا
            لیکن پھر بھی کوئی کہے کہ آیت پہنچانے میں تو یہ شخص معتبر ہے مگر حدیث پہنچانے میں اسکا اعتبار نہیں کیا جا سکتا. کیا عقل اس بات کو تسلیم کر سکتی ہے ؟؟؟

            بلکل درست بات ہے ۔۔۔مجھے بہت اچھی لگی اور دلیل بھی موجود ہے ۔۔۔
            لیکن
            پھر قرآن کی بھی ہر آیت کے ساتھ اسی طرح راویوں کی لڑی کیوں*موجود نہیں*ہے جس طرح ہر حدیث*کے ساتھ ہوتی ہے
            اگر ایسا کردیا جائے یا ایسا ہوتا تو پھر آپ کی دلیل کچھ وزن دار ہوسکتی تھی

            پھر آپ نے کہا


            اب ہمیں یہ بھی پتا چل گیا کہ قرآن کی طرح حدیث منزل من اللہ ہے

            پر مجھے تو نہیں*پتہ چلا ۔۔ البتہ جو مشکلات یا رکاوٹیں ہیں* ایسا سمجھنے میں* وہ اوپر پیش کردیں*ہیں

            پھر آپ نے یہ کہا

            تو اسکا جواب یہ ہے کہ حدیث کی نوعیت اس لیے قرآن سے مختلف تھی کہ اس کے الفاظ قرآن کی طرح نازل نہیں ہوئے بلکہ رسول الله ﷺ نے اسکو اپنی زبان سے ادا کیا تھا پھر اسکا بڑا حصہ ایسا تھا جسے رسول الله ﷺ کے ہم عصروں نے اپنے اپنے الفاظ میں بیان کیا تھا

            ایک طرف آپ قرآن کی آیت پیش کرتی ہو کہ رسول ص اپنی طرف سے کچھ نہیں*کہتے یہاں کہہ رہی ہو کہ اس بات کو اپنے الفاظ دیے ۔۔
            ایک ہی وقت میں آپ اپنی بات سے بھی پھر رہی ہو۔۔ دوسرا قرآن کی سچائی پر بھی ایک اعتراض ہے تیسرا نبی پر بھی ۔۔

            اس کے بعد جو آپ نے دوسرے لوگوں کے بارے میں*لکھا ہے تو وہ دوسرے جو مرضی الفاظ*لکھتے رہیں یا بولتے رہیں*
            وہ کوئ بھی ہوں ۔۔ان پر کسی قسم کا ایمان لانے کا حکم تو قرآن میں*بھی نہیں ہے ۔۔

            محض لکھی ہوئی چیز ہم کو ملے والی بات آپ کی ٹھیک ہے ۔۔۔ میں اس کو تسلیم کرتا ہوں مگر اسی جملے کو اگر آپ بھی تسلیم کروتو پھر یہ سوچ بھی آنی چاہیے کہ پھر یہ سب لکھنے کی ضرورت کیوں پڑ گئی


            امید کرتاہوں ۔۔ معتصابانہ انتہا پسندی سے گریز کیا جائے گا


            اور باقی تمام ممبر سے بھی ہاتھ جوڑ کر درخواست ہے کہ

            پلیز صبر و تحمل سے ہم دونوں کی بات چیت چلنے دیں*





            Comment


            • #7
              Re: تدوین احادیث کے متعلق شبہات اور انکا ازالہ

              thanks aap ki mehnat ka shukriya baqi bad mae prhoo ga





              Comment


              • #8
                Re: تدوین احادیث کے متعلق شبہات اور انکا ازالہ

                Originally posted by Baniaz Khan View Post


                دیکھیں میں منکرین حدیث کا ٹھیکدار نہیں*ہوں*صرف اپنی بات کررہا ہوں

                آپ نے یہ آیت پیش کی

                الله کا فرمان ہے:
                یہ نبی اپنی خواہش سے نہیں بولتا بلکہ وہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے. النجم ٣،٤
                ہم ہی نے اس ذکر کو نازل فرمایا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں. الحجر

                ٹھیک ہے مان لیتے ہیں* کہ اس سے مراد کتب احادیث بھی ہیں*۔۔ لیکن پھر ایک سوال اٹھتا ہے ۔۔

                کہ اس وحی کی یعنی حدیث والی وحی کو کسی صحابی نے یا رسول ص نے خود کیوں* نہیں جمع کیا ۔۔ یا کیوں نہیں لکھوایا ۔۔

                دوسری بات ۔۔اگر خدا کی حفاظت کی ذمہ داری کا یہ عالم ہے کہ حدیث صحیح بھی ہے غلط بھی ۔۔ اور بہت سی احادیث کو تو ان اماموں نے اپنی کتب میں*لکھا ہی نہیں ان لوگوں* کو کیسے پتہ چلا کہ یہ والی وحی نہیں*ہیں*۔۔۔
                اچھا ایک حدیث کو امام بخاری صاحب اپنی کتاب میں*لکھتے ہیں*۔۔ اسی حدیث کو امام مسلم صاحب نہیں لکھتے تو اس کو کیا سمجھا جائے یعی کہ ایک امام کے نزدیک دوسرا امام سچا نہیں*ہے ۔۔ یہ صرف پوائنٹ*ہیں انہیں*خدارا کوئی دوسرا رنگ یا موڑ نہ دیجیے گا۔

                تیسرا ۔۔ خدا نے ایک وحی کا تو قرآن بنایا ۔۔ اگر ان ساری کتابوں کو بھی وحی مان لیا جائے تو کیا قرآن کے مکمل ہونے پر حروف نہیں*آئے گا۔

                پھر احادیث* جمع کرنے والے یہ سارے امام جن کی کتابوں پر ہم ایمان لے کر آتے ہیں بلکل اسی طرح جسیے قرآن پر لاتے ہیں* یہ سب ایرانی ہی کیوں ہیں*۔۔ کوئی ایسا شخص عرب میں نہیں*تھا جو یہ ادھورا کام مکمل کرلیتا

                کیا قرآن کی کسی آیت کے بارے میں*ہم یہ کہہ سکتے ہیں* کہ یہ ضعیف آیت ہے ۔۔ یا قوی ہے یا مرسل ہے وغیرہ وغیرہ

                اگر نہیں تو اسی خدا کی دوسری وحی پر یہ سب باتیں کہاں سے آگئیں* اور کون لے کر آگیا

                اس کے بعد جو پیرا آپ نے لکھا یہ والا
                لیکن پھر بھی کوئی کہے کہ آیت پہنچانے میں تو یہ شخص معتبر ہے مگر حدیث پہنچانے میں اسکا اعتبار نہیں کیا جا سکتا. کیا عقل اس بات کو تسلیم کر سکتی ہے ؟؟؟

                بلکل درست بات ہے ۔۔۔مجھے بہت اچھی لگی اور دلیل بھی موجود ہے ۔۔۔
                لیکن
                پھر قرآن کی بھی ہر آیت کے ساتھ اسی طرح راویوں کی لڑی کیوں*موجود نہیں*ہے جس طرح ہر حدیث*کے ساتھ ہوتی ہے
                اگر ایسا کردیا جائے یا ایسا ہوتا تو پھر آپ کی دلیل کچھ وزن دار ہوسکتی تھی

                پھر آپ نے کہا


                اب ہمیں یہ بھی پتا چل گیا کہ قرآن کی طرح حدیث منزل من اللہ ہے

                پر مجھے تو نہیں*پتہ چلا ۔۔ البتہ جو مشکلات یا رکاوٹیں ہیں* ایسا سمجھنے میں* وہ اوپر پیش کردیں*ہیں

                پھر آپ نے یہ کہا

                تو اسکا جواب یہ ہے کہ حدیث کی نوعیت اس لیے قرآن سے مختلف تھی کہ اس کے الفاظ قرآن کی طرح نازل نہیں ہوئے بلکہ رسول الله ﷺ نے اسکو اپنی زبان سے ادا کیا تھا پھر اسکا بڑا حصہ ایسا تھا جسے رسول الله ﷺ کے ہم عصروں نے اپنے اپنے الفاظ میں بیان کیا تھا

                ایک طرف آپ قرآن کی آیت پیش کرتی ہو کہ رسول ص اپنی طرف سے کچھ نہیں*کہتے یہاں کہہ رہی ہو کہ اس بات کو اپنے الفاظ دیے ۔۔
                ایک ہی وقت میں آپ اپنی بات سے بھی پھر رہی ہو۔۔ دوسرا قرآن کی سچائی پر بھی ایک اعتراض ہے تیسرا نبی پر بھی ۔۔

                اس کے بعد جو آپ نے دوسرے لوگوں کے بارے میں*لکھا ہے تو وہ دوسرے جو مرضی الفاظ*لکھتے رہیں یا بولتے رہیں*
                وہ کوئ بھی ہوں ۔۔ان پر کسی قسم کا ایمان لانے کا حکم تو قرآن میں*بھی نہیں ہے ۔۔

                محض لکھی ہوئی چیز ہم کو ملے والی بات آپ کی ٹھیک ہے ۔۔۔ میں اس کو تسلیم کرتا ہوں مگر اسی جملے کو اگر آپ بھی تسلیم کروتو پھر یہ سوچ بھی آنی چاہیے کہ پھر یہ سب لکھنے کی ضرورت کیوں پڑ گئی


                امید کرتاہوں ۔۔ معتصابانہ انتہا پسندی سے گریز کیا جائے گا


                اور باقی تمام ممبر سے بھی ہاتھ جوڑ کر درخواست ہے کہ

                پلیز صبر و تحمل سے ہم دونوں کی بات چیت چلنے دیں*


                آپ نے کہا کہ
                خدا نے ایک وحی کا تو قرآن بنایا ۔۔ اگر ان ساری کتابوں کو بھی وحی مان لیا جائے تو کیا قرآن کے مکمل ہونے پر حروف نہیں*آئے گا۔
                قرآن مجید کو جس وقت میں لکھوایا گیا یا جمع کیا گیا اس کے الفاظ و معنی دونوں ہی من جانب الله تھے، اس کے الفاظ کو دوسرے الفاظ سے بدلنا بھی جائز نہ تھا. وہ اس لیے نازل ہوا تھا کہ لوگ انہی الفاظ میں اسی ترتیب سے اسکی تلاوت کریں.
                حدیث کی نوعیت اس لیے قرآن سے مختلف تھی کہ اس کے الفاظ قرآن کی طرح نازل نہیں ہوئے بلکہ رسول الله ﷺ نے اسکو اپنی زبان سے ادا کیا تھا پھر اسکا بڑا حصہ ایسا تھا جسے رسول الله ﷺ کے ہم عصروں نے اپنے اپنے الفاظ میں بیان کیا تھا،
                مثلا رسول الله ﷺ نے فلاں فلاں کام کیا رسول الله ﷺ کے اخلاق ایسے تھے، زندگی ایسی تھی. بلکہ اہل زبان سامعین کے لیے یہ جائز تھا کہ وہ آپ ﷺ کی بات سن کر معنی و مفہوم بدلے بغیر اسے اپنے الفاظ میں بیان کر دیں.
                میں اپنی بات سے نہیں پھری. آپ بات کو پوری طرح سمجھیے قرآن کا ایک ایک لفظ الله کا بیان کردہ ہےا ور حدیث اسکی تشریح کرتی ہے.
                قرآن وحی متلو ہے
                یعنی،وہ وحی جس کی تلاوت کی جاتی ہے ، جس کی تلاوت کے ذریعے اللہ کی عبادت کی جاتی ہے ، جس کی تلاوت اِسلام کے بنیادی رکن نماز کی ادائیگی میں لازم قرار دی گئی
                اور یہ قران اللہ کے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز بان مبارک سے ادا ہوتے ہوئے اللہ کے بندوں تک پہنچا ہے ، اور جن بندوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے سنا ، ان میں کچھ نے اسے لکھا اور اکثریت نے اسے زبانی یاد رکھا ، اور سب کی یادداشت کے مطابق ، اور کچھ لکھے ہوئے کو جمع کر کے اس اس طرح یہ ‘‘‘وحی متلو’’’ بعد میں آنے والوں تک ایک مدون کتاب کی صُورت میں پہنچی، اور سب معلومات ہمیں انہی راویوں کے ذریعے ملتی ہیں جن کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے ادا فرمودہ ‘‘‘ وحی غیر متلو ’’’کی روایات ملتی ہیں ،
                دوسری اور آخری قِسم ‘‘‘وحی غیر متلو ’’’ہے ، یعنی،وہ وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی ہے ، جسے اللہ کی ‘‘‘وحی متلو ’’’ کو اللہ کی مُراد کے مطابق سمجھنے کے لیے پڑھا جاتا ہے ، اور یہ وحی بھی ‘‘‘وحی متلو ’’’ ہی کی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے ہی دا کروائی ،اِس‘‘‘وحی غیر متلو ’’’ کو اسلامی علوم کی اصطلاحات میں ‘‘‘حدیث ’’’ کہا جاتا ہے پس جب بھی کہیں اسلامی امور سے متعلق کوئی بات کہی ، سنی یا پرحی جاتی ہے تو ایک عام معروف مفہوم کے مطابق لفظ ‘‘‘حدیث ’’’ سے مُراد ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے وہ فرمان مبارک ہی لیے جاتے ہیں ، جو ‘‘‘ وحی غیر متلو ’’’ ہیں ،

                قران کریم کا ہر ایک حرف اللہ تبارک و تعالیٰ کا اپنا کلام ہے ، اور اُس کا معنی اور مفہوم بھی اللہ ہی کی طرف سے مقرر ہے ، جو اللہ ہی کے کلام اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے کلام کے ذریعے سمجھا جاتا ہے ۔
                جبکہ حدیث قدسی میں بیان فرمودہ باتوں کا مفہوم اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ، یعنی حدیث قدسی میں موجود الفاظ کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے الفاظ نہیں کہا جاتا ،
                ::::::: قران حکیم کی تلاوت اللہ تعالیٰ کی عبادات محضہ میں سے ہے ، جبکہ حدیث قدسی کو پڑھنا عبادات محضہ میں سے نہیں ،

                رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے دینی معاملات کے علاوہ جو کچھ ادا ہوا ، وہ سب کچھ اللہ کی طرف سے وحی نہیں ہوتا تھا ، بلکہ ایک انسان ہونے کے ناطے ، اپنی معاشرتی زندگی کے معاملات میں کچھ اِرشادات ایسے بھی فرماتے تھے جو اللہ کی طرف سے وحی نہ ہوتے تھے ، یعنی ،میرے اس منطوق کا مفہوم یہ ہوا کہ دینی معاملات میں جو کچھ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم زبان مبارک سے ادا ہوا وہ سب اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوتا تھا ، جِس کی گواہی اللہ جلّ و علا نے خود دی کہ(((((وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىoإِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى::: اور ہمارا نبی اپنی خواہش کے مطابق بات نہیں فرماتا o بلکہ وہ (یعنی اُس کی بات) تو وحی ہے جو اُس کی طرف کی جاتی ہے))))

                آپ نے کہا کہ سارے امام ایرانی کیوں ہیں؟؟
                تو مجھے بتا دیجیے کہ امام بخاری ور امام ترمزی کہاں سے ہیں؟؟؟

                آپ نے مزید کہا کہ ایک امام ایک حدیث کو اپنے کتاب میں لکھتا ہے اور دوسرا امام نہی لکھتا تو ان کے مطابق کیا وہ امام سچا نہیں تھا؟
                بھائی یہ چیز تو صحابہ کے دور میں بھی تھی اگر ایک صحابی کو کسی حدیث کا علم نہی ہو پاتا تھا
                یا وہ حدیث ان تک نہیں پہنچ پا تی تھی تو
                تو وہ اجتہاد کے ذریعے سے اگر حدیث کے خلاف بھی عمل کر لیتے تو ان پر کچھ گناہ نہیں ہے کیوں کہ مجتہد کی اجتہادی خطا معاف ہے.
                اسی طرح ایک محدث ایک حدیث کو اپنی کتاب میں لکھتا ہے اور دوسرا نہی لکھتا تو وہ اس کی اجتہادی خطا ہے، کیوں کہ تمام آئمہ کا کام دین کی خدمت تھا پھر اگر کسی دوسرے امام نے اگر اس غلطی کی وضاحت کر دی تو یہ جاننے کے بعد کہ وہ غلطی تھی پھر ب اس پر عمل کرنا جائز نہیں ہے. اور یہی چیز تقلید ہے یعنی غلطی کا علم ہونے کے باوجود اس پر عمل کرنا،
                حدیث قرآن کی تشریح بیان کرتی ہے یہ بات بھی ہمیں قرآن کے ذریعے سے ہی پتا چلتی ہے.
                اور اب ہم نے یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاؤ جو اُن کے لیے اتاری گئی ہے، اور تاکہ لوگ (خود بھی) غور و فکر کریں (سورة النحل : آيت 44) سورة القيامة ميں رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم سے فرمايا جا رہا ہے:
                لَا تُحَرِّ*كْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ﴿١٦إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْ*آنَهُ ﴿١٧﴾ فَإِذَا قَرَ*أْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْ*آنَهُ ﴿١٨﴾ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ﴿١٩﴾
                اے نبیؐ، اِس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو (16) اِس کو یاد کرا دینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے (17) لہٰذا جب ہم اِسے پڑھ رہے ہوں اُس وقت تم اِس کی قرات کو غور سے سنتے رہو (18)پھر اس کا بيان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔
                آپ نے کہا کہ
                اس وحی کی یعنی حدیث والی وحی کو کسی صحابی نے یا رسول ص نے خود کیوں* نہیں جمع کیا ۔۔ یا کیوں نہیں لکھوایا ۔۔
                آپ اگر پوری پوسٹ کو پڑھیں گے تو آگے بتایا گیا ہے کہ احادیث اس دور میں بھی لکھی جاتی تھی.
                مگر اس دور میں نبی ﷺ کی طرف کوئی غلط بات منسوب کرنا ناممکن تھا کیوں کہ وحی کے ذریعے آپ ﷺ کو اطلاع دیدی جاتی تھی، اور صحابہ کرام کی تربیت بھی نبی ﷺ کے ہاتھوں ہوئی تھی اس لیے انکو احادیث کا علم ہوتا تھا کہ کون سی بات نبی ﷺ نے کہی تھی اور کون سی نہیں.
                دین میں وضع حدیث کا فتنہ بعد میں پھیلا .
                آئمہ کرام نے اس صورت حال کو بھانپ لیا اور اس فتنے کے تدارک کے لیے مستعد ہو گۓ روایات میں تحقیق و تفتیش کا عمل تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد شروع ہوا
                http://www.islamghar.blogspot.com/

                Comment


                • #9
                  Re: تدوین احادیث کے متعلق شبہات اور انکا ازالہ

                  Originally posted by shizz View Post


                  آپ نے کہا کہ
                  خدا نے ایک وحی کا تو قرآن بنایا ۔۔ اگر ان ساری کتابوں کو بھی وحی مان لیا جائے تو کیا قرآن کے مکمل ہونے پر حروف نہیں*آئے گا۔
                  قرآن مجید کو جس وقت میں لکھوایا گیا یا جمع کیا گیا اس کے الفاظ و معنی دونوں ہی من جانب الله تھے، اس کے الفاظ کو دوسرے الفاظ سے بدلنا بھی جائز نہ تھا. وہ اس لیے نازل ہوا تھا کہ لوگ انہی الفاظ میں اسی ترتیب سے اسکی تلاوت کریں.
                  حدیث کی نوعیت اس لیے قرآن سے مختلف تھی کہ اس کے الفاظ قرآن کی طرح نازل نہیں ہوئے بلکہ رسول الله ﷺ نے اسکو اپنی زبان سے ادا کیا تھا پھر اسکا بڑا حصہ ایسا تھا جسے رسول الله ﷺ کے ہم عصروں نے اپنے اپنے الفاظ میں بیان کیا تھا،
                  مثلا رسول الله ﷺ نے فلاں فلاں کام کیا رسول الله ﷺ کے اخلاق ایسے تھے، زندگی ایسی تھی. بلکہ اہل زبان سامعین کے لیے یہ جائز تھا کہ وہ آپ ﷺ کی بات سن کر معنی و مفہوم بدلے بغیر اسے اپنے الفاظ میں بیان کر دیں.
                  میں اپنی بات سے نہیں پھری. آپ بات کو پوری طرح سمجھیے قرآن کا ایک ایک لفظ الله کا بیان کردہ ہےا ور حدیث اسکی تشریح کرتی ہے.
                  قرآن وحی متلو ہے
                  یعنی،وہ وحی جس کی تلاوت کی جاتی ہے ، جس کی تلاوت کے ذریعے اللہ کی عبادت کی جاتی ہے ، جس کی تلاوت اِسلام کے بنیادی رکن نماز کی ادائیگی میں لازم قرار دی گئی
                  اور یہ قران اللہ کے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز بان مبارک سے ادا ہوتے ہوئے اللہ کے بندوں تک پہنچا ہے ، اور جن بندوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے سنا ، ان میں کچھ نے اسے لکھا اور اکثریت نے اسے زبانی یاد رکھا ، اور سب کی یادداشت کے مطابق ، اور کچھ لکھے ہوئے کو جمع کر کے اس اس طرح یہ ‘‘‘وحی متلو’’’ بعد میں آنے والوں تک ایک مدون کتاب کی صُورت میں پہنچی، اور سب معلومات ہمیں انہی راویوں کے ذریعے ملتی ہیں جن کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے ادا فرمودہ ‘‘‘ وحی غیر متلو ’’’کی روایات ملتی ہیں ،
                  دوسری اور آخری قِسم ‘‘‘وحی غیر متلو ’’’ہے ، یعنی،وہ وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی ہے ، جسے اللہ کی ‘‘‘وحی متلو ’’’ کو اللہ کی مُراد کے مطابق سمجھنے کے لیے پڑھا جاتا ہے ، اور یہ وحی بھی ‘‘‘وحی متلو ’’’ ہی کی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے ہی دا کروائی ،اِس‘‘‘وحی غیر متلو ’’’ کو اسلامی علوم کی اصطلاحات میں ‘‘‘حدیث ’’’ کہا جاتا ہے پس جب بھی کہیں اسلامی امور سے متعلق کوئی بات کہی ، سنی یا پرحی جاتی ہے تو ایک عام معروف مفہوم کے مطابق لفظ ‘‘‘حدیث ’’’ سے مُراد ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے وہ فرمان مبارک ہی لیے جاتے ہیں ، جو ‘‘‘ وحی غیر متلو ’’’ ہیں ،

                  قران کریم کا ہر ایک حرف اللہ تبارک و تعالیٰ کا اپنا کلام ہے ، اور اُس کا معنی اور مفہوم بھی اللہ ہی کی طرف سے مقرر ہے ، جو اللہ ہی کے کلام اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے کلام کے ذریعے سمجھا جاتا ہے ۔
                  جبکہ حدیث قدسی میں بیان فرمودہ باتوں کا مفہوم اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ، یعنی حدیث قدسی میں موجود الفاظ کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے الفاظ نہیں کہا جاتا ،
                  ::::::: قران حکیم کی تلاوت اللہ تعالیٰ کی عبادات محضہ میں سے ہے ، جبکہ حدیث قدسی کو پڑھنا عبادات محضہ میں سے نہیں ،

                  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے دینی معاملات کے علاوہ جو کچھ ادا ہوا ، وہ سب کچھ اللہ کی طرف سے وحی نہیں ہوتا تھا ، بلکہ ایک انسان ہونے کے ناطے ، اپنی معاشرتی زندگی کے معاملات میں کچھ اِرشادات ایسے بھی فرماتے تھے جو اللہ کی طرف سے وحی نہ ہوتے تھے ، یعنی ،میرے اس منطوق کا مفہوم یہ ہوا کہ دینی معاملات میں جو کچھ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم زبان مبارک سے ادا ہوا وہ سب اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوتا تھا ، جِس کی گواہی اللہ جلّ و علا نے خود دی کہ(((((وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىoإِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى::: اور ہمارا نبی اپنی خواہش کے مطابق بات نہیں فرماتا o بلکہ وہ (یعنی اُس کی بات) تو وحی ہے جو اُس کی طرف کی جاتی ہے))))

                  آپ نے کہا کہ سارے امام ایرانی کیوں ہیں؟؟
                  تو مجھے بتا دیجیے کہ امام بخاری ور امام ترمزی کہاں سے ہیں؟؟؟

                  آپ نے مزید کہا کہ ایک امام ایک حدیث کو اپنے کتاب میں لکھتا ہے اور دوسرا امام نہی لکھتا تو ان کے مطابق کیا وہ امام سچا نہیں تھا؟
                  بھائی یہ چیز تو صحابہ کے دور میں بھی تھی اگر ایک صحابی کو کسی حدیث کا علم نہی ہو پاتا تھا
                  یا وہ حدیث ان تک نہیں پہنچ پا تی تھی تو
                  تو وہ اجتہاد کے ذریعے سے اگر حدیث کے خلاف بھی عمل کر لیتے تو ان پر کچھ گناہ نہیں ہے کیوں کہ مجتہد کی اجتہادی خطا معاف ہے.
                  اسی طرح ایک محدث ایک حدیث کو اپنی کتاب میں لکھتا ہے اور دوسرا نہی لکھتا تو وہ اس کی اجتہادی خطا ہے، کیوں کہ تمام آئمہ کا کام دین کی خدمت تھا پھر اگر کسی دوسرے امام نے اگر اس غلطی کی وضاحت کر دی تو یہ جاننے کے بعد کہ وہ غلطی تھی پھر ب اس پر عمل کرنا جائز نہیں ہے. اور یہی چیز تقلید ہے یعنی غلطی کا علم ہونے کے باوجود اس پر عمل کرنا،
                  حدیث قرآن کی تشریح بیان کرتی ہے یہ بات بھی ہمیں قرآن کے ذریعے سے ہی پتا چلتی ہے.
                  اور اب ہم نے یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاؤ جو اُن کے لیے اتاری گئی ہے، اور تاکہ لوگ (خود بھی) غور و فکر کریں (سورة النحل : آيت 44) سورة القيامة ميں رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم سے فرمايا جا رہا ہے:
                  لَا تُحَرِّ*كْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ﴿١٦إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْ*آنَهُ ﴿١٧﴾ فَإِذَا قَرَ*أْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْ*آنَهُ ﴿١٨﴾ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ﴿١٩﴾
                  اے نبیؐ، اِس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو (16) اِس کو یاد کرا دینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے (17) لہٰذا جب ہم اِسے پڑھ رہے ہوں اُس وقت تم اِس کی قرات کو غور سے سنتے رہو (18)پھر اس کا بيان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔
                  آپ نے کہا کہ
                  اس وحی کی یعنی حدیث والی وحی کو کسی صحابی نے یا رسول ص نے خود کیوں* نہیں جمع کیا ۔۔ یا کیوں نہیں لکھوایا ۔۔
                  آپ اگر پوری پوسٹ کو پڑھیں گے تو آگے بتایا گیا ہے کہ احادیث اس دور میں بھی لکھی جاتی تھی.
                  مگر اس دور میں نبی ﷺ کی طرف کوئی غلط بات منسوب کرنا ناممکن تھا کیوں کہ وحی کے ذریعے آپ ﷺ کو اطلاع دیدی جاتی تھی، اور صحابہ کرام کی تربیت بھی نبی ﷺ کے ہاتھوں ہوئی تھی اس لیے انکو احادیث کا علم ہوتا تھا کہ کون سی بات نبی ﷺ نے کہی تھی اور کون سی نہیں.
                  دین میں وضع حدیث کا فتنہ بعد میں پھیلا .
                  آئمہ کرام نے اس صورت حال کو بھانپ لیا اور اس فتنے کے تدارک کے لیے مستعد ہو گۓ روایات میں تحقیق و تفتیش کا عمل تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد شروع ہوا


                  قرآن مجید کو جس وقت میں لکھوایا گیا یا جمع کیا گیا اس کے الفاظ و معنی دونوں ہی من جانب الله تھے، اس کے الفاظ کو دوسرے الفاظ سے بدلنا بھی جائز نہ تھا. وہ اس لیے نازل ہوا تھا کہ لوگ انہی الفاظ میں اسی ترتیب سے اسکی تلاوت کریں

                  یہ ساری باتیں*کون بتارہا ہے ۔۔ کہ وہ من جانب خدا تھے یہ دوسرے والے اپنے الفاظ کے ۔۔
                  ایک چیز جس پر انسانوں کے یقین اور ایمان کا دارومدار ہو ۔۔ رسول ص اپنی زبان اور اور الفاظ دیں دوسری طرف آپ قرآن کی آیت پیش کرتی ہیں* کہ یہ رسول اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا
                  یہ عجیب دو قسم کے بیان ہوگئے آپ کی طرف سے ۔۔

                  پھر یہ کہ قرآن تلاوت کرنے کے لیے آیا تھا ۔۔ ہم تو سمجھتے ہیں* وہ مشعل راہ ہے ۔۔ ضابطہ حیات ہے ۔ عمل کرنے کے لیے ہے ۔۔۔

                  پھر یہ بھی بتادیں کہ وحی کی یہ دو اقسام کا ذکر قرآن میں* کہاں*ہے آپ کو کیسے پتہ چلا کہ وحی دو قسم کی ہتی ہے اور اس کے یہ یہ نام ہوتے ہیں*۔۔

                  پھر آپ نے یہ لکھا ۔۔ جو شاید آپ کے الفاظ*نہیں*بلکہ کتب تاریخ میں*درج ہیں*

                  اور یہ قران اللہ کے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز بان مبارک سے ادا ہوتے ہوئے اللہ کے بندوں تک پہنچا ہے ، اور جن بندوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے سنا ، ان میں کچھ نے اسے لکھا اور اکثریت نے اسے زبانی یاد رکھا ، اور سب کی یادداشت کے مطابق ، اور کچھ لکھے ہوئے کو جمع کر کے اس اس طرح یہ ‘‘‘وحی متلو’’’ بعد میں آنے والوں تک ایک مدون کتاب کی صُورت میں پہنچی، اور سب معلومات ہمیں انہی راویوں کے ذریعے ملتی ہیں جن کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے ادا فرمودہ ‘‘‘ وحی غیر متلو ’’’کی روایات ملتی ہیں"

                  یہ قرآن اگر یاداشت کے حوالے سے ہی جمع کیا گیا تو ۔۔۔ پھر تو یہ بھی اعتراض والی بات ہے ۔۔ ایک وحی
                  پہلے مرتب ہورہی ہے ایک ۔۔ صدیوں بعد ۔۔
                  مسلمان امت تو انہی پیچیدگیوں میں الجھی رہے گی اور الجھی ہوئی ہی ہے ۔۔ یہ تسخیر کائنات والے کام کر ہی نہیں*سکتی ۔۔

                  ہم جس طرح* خدا پر یقین کرتے ہیں* بندوں پر اس طرح کا یقین کر ہی نہیں* سکتے ۔۔ اور نہ ہی میرے لیے کسی شخص کی صداقت پر ایمان لانے کا حکم ہے ۔۔ علاوہ پیغرم ۔۔۔

                  مجھے یہ بتادیں* کہ کب یہ وحی کی اقسام تخلیق ہوگیں ۔۔۔ کس شخص نے پہلی بار بتایا کہ یہ اس طرح*ہے ۔۔
                  وحی غیر متلو جسے آپ حدیث کہہ رہی ہیں*۔۔
                  اس میں صحیح غلط کا ہونا ۔۔ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہر وہ چیز جس میں* صحیح*اور غلط ہو قابل یقین نہیں*قابل مشکوک ہوتی ہے ۔۔

                  پھر آپ نے میری بات کو کوٹ کرتے ہوئے یہ پیرالکھا ہے


                  آپ نے مزید کہا کہ ایک امام ایک حدیث کو اپنے کتاب میں لکھتا ہے اور دوسرا امام نہی لکھتا تو ان کے مطابق کیا وہ امام سچا نہیں تھا؟
                  بھائی یہ چیز تو صحابہ کے دور میں بھی تھی اگر ایک صحابی کو کسی حدیث کا علم نہی ہو پاتا تھا
                  یا وہ حدیث ان تک نہیں پہنچ پا تی تھی تو
                  تو وہ اجتہاد کے ذریعے سے اگر حدیث کے خلاف بھی عمل کر لیتے تو ان پر کچھ گناہ نہیں ہے کیوں کہ مجتہد کی اجتہادی خطا معاف ہے"

                  آپ کے نزدیک دین قرآن اور حدیث*کا نام ہے ۔۔ یعنی کہ آدھا دین حدیث ہوا ۔۔ یا اس کے بغیر نا مکمل ہوا ۔۔۔
                  اگر ایک صحابی کو ایک بات کا علم ہی نہں* جو کہ دین ہے تو رسول نے پھر یہ فریضہ کیسے ادا کیا کہ خدا کا دین پورا پورا پہنچا دیا ۔۔۔
                  مجتہد کی اجتہادی خطا معاف ہے ۔۔ کون بتا رہا ہے آپ کو ۔۔۔ اگر مجتہد کے خطا معاف ہی ہے تو پھر اس سے یہ خطا بھی تو ہوسکتی ہے کہ اس نے کسی صحیح حدیچ کو بھی نہ لکھا ہو ۔۔ یا غلط کو صحیح*لکھ دیا تو جب خطا سے پاک نہیں*ہے وہ تو پھر اسکی لکھی ہوئی ہر حدیث کو یعنی اس کی پوری کتاب کو یسے صحیح قرار دیا جاسکتا ہے اور اس پر ایمان لایا جاسکتا ہے ۔۔ دوسری بات اگر یہی چیز ان کے لیے غلط نہیں*تھی کہ وہ ایک امام دوسرے کی حدیث نہ لکھے یا اس نہ ملے ۔۔ تو پھر مجھ پر بھی کوئ گناہ نہیں*کہ میں* ان کی ساری خدمات سے انکار کر دوں ۔۔ جب ایک محدث کے بعد اس کی کتاب پوری ہوجانے کے بعد دوسرا محدث*وہی خدمت کرسکتا ہے تو پھر آج کوئ بھی انسان کرسکتا ہے ۔۔

                  اور سب سے بڑی بات جسے آپ نے صفائی کے غلط رنگ میں*بیان کیا کہ ہوسکتا ہے کہ ایک محدث کو وہ بات ملی ہی نہ ہو ۔۔ ایسا ہے ہی نہیں* ۔۔ جب سب ایک ہی روای سے بلمشافہ مل رہے ہیے اور پیچھے راویوں کی لڑی بھی
                  وہی ہے جو دوسرے کے پاس ہے تو ایسی صورت میں ایک حدیث* ایک امام کی کتاب میں* نہ ہونا ۔۔ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اس نے اس بات کو اس قابل ہی نہیں سمجھا کہ اسے لکھنا گوارا کرتا۔۔۔

                  مجھے افسوس ہے کہ آپ نے بات کو سمجھانے والے انداز* میں* نہیں*بلکہ ۔۔ تاریخ میں جو کچھ جسیے بیان ہوا ویسے ہی یہاں*چھاپا ہے میں*پھر بھی آپ کی محنت کے لیے مشکور ہوں*۔۔
                  صرف آخر میں اتنا ہی کہوں*گا کہ
                  آپ کی باتوں اور ایسی تاریخ کے بعد صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ خدا دین کے ایک حصے کی حفاظت کی ذمہ داری لے رہا ہے یعنی کہ قرآن کی اور دوسرا جو سب سے اہم حصہ ہے بقول آپ کے تشریح*کرتا ہے قرآن کی ۔۔ تو اس
                  کی حفاظت نہیں فرمارہا اس میں*فتنے بھی پیدا ہوگئے ۔ ۔۔ وضع حدیث کے ۔۔ اس کے لیے اس کو پرکھنے کے لیے علم کی بھی ضرورت پڑگئی پھر اس علم کو بھی تخلیق کیا گیا ۔۔ آج اس علم کے ہوتے ہوئے بھی ایک عالم ایک حدیث کو قوی بتاتا ہے دوسرےفرقے کا اسی کو ضعیف ۔۔ آپ کی لیے آپ کے امام حروف آخر ہں یعنی یہ محدث اور شیعوں کے لیے انکے امام ۔۔

                  خدا نے جو کچھ کہا وہ صرف تلاوت کے لیے ہے اور اس پر ایک لفظ پر تیس تیس نیکیاں ۔۔ باقی دین کی اصل خدمت تو ان باتوں*اور کاموں میں*ہے ۔۔۔۔

                  یہ بات بھی ذرا سوچیں ۔۔ کبھی کوئی وضع آیات کا فتنہ کیوں نہیں بن سکا ۔۔





                  کاش خدا دین کے اس اہم حصے کی بھی حفاظت کا ذمہ لے لیتا۔۔۔

                  میں نے سارے اماموں*کو ایرانی کہا ۔۔ کیوں*کہا ۔۔ اس کی تحقیق آپ خود کرو فی الحال ایک حوالہ دے دیتا ہوں


                  بخارا ازبکستان کا پانچواں سب سے بڑا شہر اور صوبہ بخارا کا صدر مقام ہے۔ 1999ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی دو لاکھ 37 ہزار 900 ہے۔ بخارا اور سمرقند ازبکستان کی تاجک اقلیت کے دو اہم ترین شہر ہیں۔
                  بخارا تاریخ میں ایرانی تہذیب کا اہم ترین مرکز تھا۔ اسکا طرز تعمیر اور آثار قدیمہ ایرانی تاریخ اور فن کے ستونوں میں سے ایک ہے۔

                  میں معذرت چاہتا ہوں*۔۔ میری سوچ اور علم آپ جیسے علم والوں کے لیے کسی کام کا نہں* ہے اور نہ آپ لوگوں*کی یہ جادو گروں والی باتیں* میرے لیے کوئی دین کی حیثیت رکھ سکتی ہیں*۔۔۔

                  لکم دین کم ولی الدین
                  مزید میرے لیے محنت نہ کیجیے گا۔۔۔

                  بائے بائے





                  Comment


                  • #10
                    Re: تدوین احادیث کے متعلق شبہات اور انکا ازالہ





                    وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْھُرٍ وَّ عَشْرًا فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْ اَنْفُسِھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اﷲُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ


                    سورئہ بقرہ آیت نمبر234)۔)

                    اور جولوگ تم میں سے مر جائیں اور عورتیں چھوڑ جائیں تو عورتیں ’’چار مہینے اور دس‘‘ اپنے آپ کو روکے رہیں اور جب (یہ) عدت پوری کر چکیں تو اپنے حق میں پسندیدہ کام (یعنی نکاح) کر لیں تو تم پر کچھ گناہ نہیں اور اللہ تعالیٰ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے ۔


                    اس آیت میں اللہ رب العزت نے بتایا کہ جو عورتیں ایام عدت میں ہوں یعنی جن کے شوہر انتقال کر جائیں وہ 4 مہینے اور دس … انتظار کریں۔ اب قرآن سے بتائیے کہ یہ دس کیا ہیں؟ چار مہینے اور دس دن؟ چار مہینے اور دس ہفتے؟ چار مہینے اور دس عشرے؟ چار مہینے اور دس سال؟ کیا قرآن نے اس کی وضاحت کی ہے؟۔




                    اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اﷲِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ اِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ




                    سورۃ البقرۃ آیت نمبر173)۔ )

                    اُس نے تم پر مرا ہوا جانور اور لہو اور سؤر کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے حرام کر دیا ہے۔ ہاں جو ناچار ہو جائے (بشرطیکہ) اللہ کی نافرمانی نہ کرے اور حد (ضرورت) سے باہر نہ نکل جائے اُس پر کچھ گناہ نہیں بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا (اور) رحم کرنے والا ہے۔





                    اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مرا ہوا جانور، خنزیر، خون اور جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے وہ حرام قرار دیا ہے۔ آج تقریباً سب لوگ مچھلی کھاتے ہیں جو کہ پانی سے نکلنے کے بعد فوراً مر جاتی ہے۔ اگر صرف قرآن ہی حجت ہے تو بتائیے کہ مچھلی حلال ہے یا حرام؟ اگر یہ کہا جائے کہ سمندری جانور حلال ہے تو سمندری جانور جو زندہ ہو وہ حلال ہے یا سمندری مرا ہوا جانور بھی حلال ہے؟




                    اور اگر احادیث کو تسلیم کر لیا جائے تو صحیح بخاری سے پتہ چلتا ہے کہ مری ہوئی مچھلی حلال ہے)۔)




                    قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَایُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اﷲُ وَرَسُوْلُہٗ وَ لَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّ ھُمْ صَاغِرُوْنَ





                    سورئہ توبہ:29)۔ )


                    جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور نہ روزِ آخرت پر (یقین رکھتے ہیں) اور نہ اُن چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اُس کے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دینِ حق کو قبول کرتے ہیں اُن سے جنگ کرو یہاں تک کہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں۔





                    اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اُن لوگوں کو قتل کرو جو اللہ کے حرام کو حرام نہیں مانتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حرام کو حرام نہیں مانتے۔ اللہ کا حرام تو قرآن سے ثابت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حرام کیا ہے؟ جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو؟ ماننا پڑے گا کہ احادیث بھی دین ہیں۔





                    بروایت مقداد ابنِ معدیکربؓ آپ ﷺ نے فرمایا کہ

                    "الاهل عسى رجل يبلغه الحديث عني وهو متكئ على الركيته فيقول بيننا وبينكم كتاب الله فما وجدنا فيه حلالا استحللنا وما وجدنا فيه حراما حرمناه وان ما حرم رسول الله كما حرم الله " ـ
                    ’’خبردار! عنقریب کسی شخص کو میری حدیث پہنچے گی اور وہ اپنی مسند پر ٹیک لگائے ہوا ہو گا تو وہ کہے گا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب موجود ہے اس میںہم جس چیز کو حلال پائیں گے اسے حلال سمجھیں گے اور جس چیز کو حرام پائیں گے اسے حرام سمجھیں گے۔ خبردار رسول اللہ ﷺ نے جس چیز کو حرام قرار دیا ہے وہ اسی طرح حرام ہے جس طرح اللہ کی حرام کردہ چیز‘‘۔

                    ترمذی، کتاب العلم ۔ ابن ماجہ ، مقدمہ


                    حدیثِ رسول ﷺ کی یہی حیثیت نہیں ہے کہ وہ کلام اللہ کی شارحین اور ترجمان ہے اور اس کی تفصیلات متعین کرتی ہے بلکہ اس کی ایک اہم حیثیت یہ ہے کہ وہ بھی اسلامی شریعت کی تشکیل کرتی ہے۔ اخلاقی اور قانونی احکام دیتی ہے۔ ان کی حدود مقرر کرتی ہے، حرام و حلال کامعیار بتاتی ہے۔ یعنی قرآن ہی کی طرح وہ اسلامی شریعت کا دوسرا یقینی سرچشمہ ہے۔ اسلام کے بنیادی عقیدے میں یہ بات شامل ہے کہ نبی ﷺ صرف پیغام بر یا نامہ بر یا واسطہ نہیں ہیں بلکہ ہادی و رہنما بھی ہیں۔ معلم و مربی بھی ہیں، قائد و قانون ساز بھی ہیں۔ روحانی مرع اورمطاع برحق بھی ہیں اور یہی معاملہ حدیث کا ہے اس کو تسلیم کئے بغیر امان اوراسلام کا دعویٰ قابلِ اعتبار نہیں اور اس کا منکر اللہ کے انعام کا سزاوار نہیں اور یہ مقام نبیﷺ کو خود اللہ کی ذات نے عطا کیا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کو مخاطب کر کے قرآن کہتا ہے کہ

                    مَا اَتَاكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا

                    (الحشر : 7)

                    ’’جوکچھ رسول تمہیں دیں اسے لے لو اور جس چیز سے روک دیں اس سے رک جاؤ‘‘۔

                    چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ بہت سے تشریعی امور، معاشرتی اور اقتصادی مسائل اور سماجی و اخلاقی معاملات میں قرآن اصول و ضوابط بیان کر دیتا ہے۔ تفصیل نہیں بیان کرتا، حکم بیان کرتا ہے۔ قیود و شراط نہیں بتاتا، رُوح بیان کرتا ہے۔ ہئیت پر روشنی نہیں ڈالتا، حکمت بتا دیتا ہے۔ جزئیات اور فروع کا احاطہ نہیں کرتا، ان تمام چیزوں کوشعورِ نبوت کے حوالے کر دیتا ہے جس کی تربیت اللہ تعالیٰ اپنے فیضانِ خاص سے کرتا ہے۔ اب نبی اکرم ﷺ جن احکام کی تشریح کرتے ہیں اور جو کچھ ان کے سلسلے میں طے کرتے ہیں یا ان کو مکمل کرنے والے جو دوسرے احکام جاری کرتے ہیں وہ اسی طرح واجب الاطاعت ہوتے ہیں جس طرح قرآن کے محکم قوانین ہوتے ہیں۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے

                    يَاَيُّهَا الَّذِيْنَ اَمَنُوْا اَطِيْعُوْا اللهَ وَاَطِيْعُوْا الرَّسُوْلَ وَلاَ تُبْطِلُوْا اَعْمَالَكُمْ

                    (محمد : 33)

                    ’’اے مومنو! تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو‘‘












                    Comment


                    • #11
                      Re: تدوین احادیث کے متعلق شبہات اور انکا ازالہ

                      Originally posted by Baniaz Khan View Post




                      قرآن مجید کو جس وقت میں لکھوایا گیا یا جمع کیا گیا اس کے الفاظ و معنی دونوں ہی من جانب الله تھے، اس کے الفاظ کو دوسرے الفاظ سے بدلنا بھی جائز نہ تھا. وہ اس لیے نازل ہوا تھا کہ لوگ انہی الفاظ میں اسی ترتیب سے اسکی تلاوت کریں

                      یہ ساری باتیں*کون بتارہا ہے ۔۔ کہ وہ من جانب خدا تھے یہ دوسرے والے اپنے الفاظ کے ۔۔
                      ایک چیز جس پر انسانوں کے یقین اور ایمان کا دارومدار ہو ۔۔ رسول ص اپنی زبان اور اور الفاظ دیں دوسری طرف آپ قرآن کی آیت پیش کرتی ہیں* کہ یہ رسول اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا
                      یہ عجیب دو قسم کے بیان ہوگئے آپ کی طرف سے ۔۔

                      پھر یہ کہ قرآن تلاوت کرنے کے لیے آیا تھا ۔۔ ہم تو سمجھتے ہیں* وہ مشعل راہ ہے ۔۔ ضابطہ حیات ہے ۔ عمل کرنے کے لیے ہے ۔۔۔

                      پھر یہ بھی بتادیں کہ وحی کی یہ دو اقسام کا ذکر قرآن میں* کہاں*ہے آپ کو کیسے پتہ چلا کہ وحی دو قسم کی ہتی ہے اور اس کے یہ یہ نام ہوتے ہیں*۔۔

                      پھر آپ نے یہ لکھا ۔۔ جو شاید آپ کے الفاظ*نہیں*بلکہ کتب تاریخ میں*درج ہیں*

                      اور یہ قران اللہ کے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز بان مبارک سے ادا ہوتے ہوئے اللہ کے بندوں تک پہنچا ہے ، اور جن بندوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے سنا ، ان میں کچھ نے اسے لکھا اور اکثریت نے اسے زبانی یاد رکھا ، اور سب کی یادداشت کے مطابق ، اور کچھ لکھے ہوئے کو جمع کر کے اس اس طرح یہ ‘‘‘وحی متلو’’’ بعد میں آنے والوں تک ایک مدون کتاب کی صُورت میں پہنچی، اور سب معلومات ہمیں انہی راویوں کے ذریعے ملتی ہیں جن کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے ادا فرمودہ ‘‘‘ وحی غیر متلو ’’’کی روایات ملتی ہیں"

                      یہ قرآن اگر یاداشت کے حوالے سے ہی جمع کیا گیا تو ۔۔۔ پھر تو یہ بھی اعتراض والی بات ہے ۔۔ ایک وحی
                      پہلے مرتب ہورہی ہے ایک ۔۔ صدیوں بعد ۔۔
                      مسلمان امت تو انہی پیچیدگیوں میں الجھی رہے گی اور الجھی ہوئی ہی ہے ۔۔ یہ تسخیر کائنات والے کام کر ہی نہیں*سکتی ۔۔

                      ہم جس طرح* خدا پر یقین کرتے ہیں* بندوں پر اس طرح کا یقین کر ہی نہیں* سکتے ۔۔ اور نہ ہی میرے لیے کسی شخص کی صداقت پر ایمان لانے کا حکم ہے ۔۔ علاوہ پیغرم ۔۔۔

                      مجھے یہ بتادیں* کہ کب یہ وحی کی اقسام تخلیق ہوگیں ۔۔۔ کس شخص نے پہلی بار بتایا کہ یہ اس طرح*ہے ۔۔
                      وحی غیر متلو جسے آپ حدیث کہہ رہی ہیں*۔۔
                      اس میں صحیح غلط کا ہونا ۔۔ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہر وہ چیز جس میں* صحیح*اور غلط ہو قابل یقین نہیں*قابل مشکوک ہوتی ہے ۔۔

                      پھر آپ نے میری بات کو کوٹ کرتے ہوئے یہ پیرالکھا ہے


                      آپ نے مزید کہا کہ ایک امام ایک حدیث کو اپنے کتاب میں لکھتا ہے اور دوسرا امام نہی لکھتا تو ان کے مطابق کیا وہ امام سچا نہیں تھا؟
                      بھائی یہ چیز تو صحابہ کے دور میں بھی تھی اگر ایک صحابی کو کسی حدیث کا علم نہی ہو پاتا تھا
                      یا وہ حدیث ان تک نہیں پہنچ پا تی تھی تو
                      تو وہ اجتہاد کے ذریعے سے اگر حدیث کے خلاف بھی عمل کر لیتے تو ان پر کچھ گناہ نہیں ہے کیوں کہ مجتہد کی اجتہادی خطا معاف ہے"

                      آپ کے نزدیک دین قرآن اور حدیث*کا نام ہے ۔۔ یعنی کہ آدھا دین حدیث ہوا ۔۔ یا اس کے بغیر نا مکمل ہوا ۔۔۔
                      اگر ایک صحابی کو ایک بات کا علم ہی نہں* جو کہ دین ہے تو رسول نے پھر یہ فریضہ کیسے ادا کیا کہ خدا کا دین پورا پورا پہنچا دیا ۔۔۔
                      مجتہد کی اجتہادی خطا معاف ہے ۔۔ کون بتا رہا ہے آپ کو ۔۔۔ اگر مجتہد کے خطا معاف ہی ہے تو پھر اس سے یہ خطا بھی تو ہوسکتی ہے کہ اس نے کسی صحیح حدیچ کو بھی نہ لکھا ہو ۔۔ یا غلط کو صحیح*لکھ دیا تو جب خطا سے پاک نہیں*ہے وہ تو پھر اسکی لکھی ہوئی ہر حدیث کو یعنی اس کی پوری کتاب کو یسے صحیح قرار دیا جاسکتا ہے اور اس پر ایمان لایا جاسکتا ہے ۔۔ دوسری بات اگر یہی چیز ان کے لیے غلط نہیں*تھی کہ وہ ایک امام دوسرے کی حدیث نہ لکھے یا اس نہ ملے ۔۔ تو پھر مجھ پر بھی کوئ گناہ نہیں*کہ میں* ان کی ساری خدمات سے انکار کر دوں ۔۔ جب ایک محدث کے بعد اس کی کتاب پوری ہوجانے کے بعد دوسرا محدث*وہی خدمت کرسکتا ہے تو پھر آج کوئ بھی انسان کرسکتا ہے ۔۔

                      اور سب سے بڑی بات جسے آپ نے صفائی کے غلط رنگ میں*بیان کیا کہ ہوسکتا ہے کہ ایک محدث کو وہ بات ملی ہی نہ ہو ۔۔ ایسا ہے ہی نہیں* ۔۔ جب سب ایک ہی روای سے بلمشافہ مل رہے ہیے اور پیچھے راویوں کی لڑی بھی
                      وہی ہے جو دوسرے کے پاس ہے تو ایسی صورت میں ایک حدیث* ایک امام کی کتاب میں* نہ ہونا ۔۔ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اس نے اس بات کو اس قابل ہی نہیں سمجھا کہ اسے لکھنا گوارا کرتا۔۔۔

                      مجھے افسوس ہے کہ آپ نے بات کو سمجھانے والے انداز* میں* نہیں*بلکہ ۔۔ تاریخ میں جو کچھ جسیے بیان ہوا ویسے ہی یہاں*چھاپا ہے میں*پھر بھی آپ کی محنت کے لیے مشکور ہوں*۔۔
                      صرف آخر میں اتنا ہی کہوں*گا کہ
                      آپ کی باتوں اور ایسی تاریخ کے بعد صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ خدا دین کے ایک حصے کی حفاظت کی ذمہ داری لے رہا ہے یعنی کہ قرآن کی اور دوسرا جو سب سے اہم حصہ ہے بقول آپ کے تشریح*کرتا ہے قرآن کی ۔۔ تو اس
                      کی حفاظت نہیں فرمارہا اس میں*فتنے بھی پیدا ہوگئے ۔ ۔۔ وضع حدیث کے ۔۔ اس کے لیے اس کو پرکھنے کے لیے علم کی بھی ضرورت پڑگئی پھر اس علم کو بھی تخلیق کیا گیا ۔۔ آج اس علم کے ہوتے ہوئے بھی ایک عالم ایک حدیث کو قوی بتاتا ہے دوسرےفرقے کا اسی کو ضعیف ۔۔ آپ کی لیے آپ کے امام حروف آخر ہں یعنی یہ محدث اور شیعوں کے لیے انکے امام ۔۔

                      خدا نے جو کچھ کہا وہ صرف تلاوت کے لیے ہے اور اس پر ایک لفظ پر تیس تیس نیکیاں ۔۔ باقی دین کی اصل خدمت تو ان باتوں*اور کاموں میں*ہے ۔۔۔۔

                      یہ بات بھی ذرا سوچیں ۔۔ کبھی کوئی وضع آیات کا فتنہ کیوں نہیں بن سکا ۔۔





                      کاش خدا دین کے اس اہم حصے کی بھی حفاظت کا ذمہ لے لیتا۔۔۔

                      میں نے سارے اماموں*کو ایرانی کہا ۔۔ کیوں*کہا ۔۔ اس کی تحقیق آپ خود کرو فی الحال ایک حوالہ دے دیتا ہوں


                      بخارا ازبکستان کا پانچواں سب سے بڑا شہر اور صوبہ بخارا کا صدر مقام ہے۔ 1999ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی دو لاکھ 37 ہزار 900 ہے۔ بخارا اور سمرقند ازبکستان کی تاجک اقلیت کے دو اہم ترین شہر ہیں۔
                      بخارا تاریخ میں ایرانی تہذیب کا اہم ترین مرکز تھا۔ اسکا طرز تعمیر اور آثار قدیمہ ایرانی تاریخ اور فن کے ستونوں میں سے ایک ہے۔

                      میں معذرت چاہتا ہوں*۔۔ میری سوچ اور علم آپ جیسے علم والوں کے لیے کسی کام کا نہں* ہے اور نہ آپ لوگوں*کی یہ جادو گروں والی باتیں* میرے لیے کوئی دین کی حیثیت رکھ سکتی ہیں*۔۔۔

                      لکم دین کم ولی الدین
                      مزید میرے لیے محنت نہ کیجیے گا۔۔۔

                      بائے بائے


                      میں ایسے انسان سے کیا بات کروں اب جو یہ کہ رہا ہے صحیح احادیث میں شک و شبہات ہیں، گویا کہ الله ہمیں ایسی چیز کی اطاعت کا حکم دے رہا ہے کہ جس میں شک موجود ہے نعوزبا الله.
                      موضوع احادیث کیوں گھڑی جاتی رہیں؟؟ نقل اسی کی بنی جاتی ہے جس کے اصل کا کوئی مقام ہو.
                      مجتہد کی اجتہادی خطا معاف ہے یہ میں آپکو ضرور بتاتی اور صحیح احادیث سے ہی بتاتی مگر اس کے لیے آپکو احادیث پر اعتماد کرنا پڑیگا جو کہ آپ نہیں کرتے،
                      الله نے نے ہمیں قرآن میں اپنی اور اپنے نبی کی اطاعت کا حکم دیا ہے الله کی اطاعت تو قرآن پر عمل ہے اور نبی کی اطاعت کیا ہے؟ جب کہ آپ کے مطابق احادیث میں شک مو جود ہے، تو اب رسول الله کی اطاعت کس طرح کی جاۓ..
                      نبی صلى اللہ عليہ وسلم پر قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی یہ بھی میں ثابت کر سکتی ہوں اور وہ بھی قرآن سے، مگر جو انسان احادیث کو رد کرنے میں نہیں ہچکچایا وہ قرآن کو بھی رد کر سکتا ہے.
                      آپ نے کہا کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کسی صحابی کو حدیث کا علم ہی نہ ہوا ہو.
                      میں نے اس کے بارے میں بھی اپنی پوسٹ میں ایک صحابی کا قول نقل کیا ہے
                      حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
                      ہمارے تمام حضرات رسول الله ﷺ سے حدیث نہیں سنتے تھے کیوں کہ ہمارا کاروبار تھا جس میں ہم مشغول رہتے لیکن بات یہ ہے کہ لوگ اس وقت جھوٹ نہیں بولتے تھے جو رسول الله ﷺ کے پاس حاضر ہوتا وہ اس تک حدیث پہنچا دیتا جو غائب ہوتا
                      مگر کیا فائدہ جب آپ احادیث کا انکار کر سکتے ہیں تو پھر صحابی کا قول بھی رد کر سکتے ہیں.
                      احادیث کو جمع کرنے کا کام تحقیق کے ذریعے کیا گیا اور تحقیق کا طریقہ ہمیں قرآن سے ہی پتا چلتا ہے.
                      آپ نے کہا کہ راویوں کی لڑی ایک ہی ہے تو پھر کس طرح سے ایک حدیث ضعیف اور صحیح بھی ہو سکتی ہے؟
                      تمام حدیث کے راوی ایک نہیں ہوتے ہے تحقیق کے دوران ان کے درمیان میں کوئی نہ کوئی راوی ایسا نکل آتا ہے جس کی وجہ سے حدیث کو ضعیف کہا جاتا ہے.
                      واقعی ٹھیک کہا آپ نے آپ جیسی گہری سوچ رکھنے والے انسان کی باتیں ہمارے کیسے سمجھ میں آینگی
                      http://www.islamghar.blogspot.com/

                      Comment


                      • #12
                        Re: تدوین احادیث کے متعلق شبہات اور انکا ازالہ

                        Comment

                        Working...
                        X