علم اختلاف کے سات مسائل
علماءمسلمین کے ہاں پا ں جانے والا اختلاف ایک بہت بڑا موضوع ہے اور علم کا ایک باقاعدہ باب۔ ایک چھوٹا سا مقالہ نہ تو اس کی تفصیل کر سکتا ہے اور نہ اس موضوع کا حق ادا کر سکتا ہے۔ تاہم میں یہاں چند اساسی مسائل کی جانب محض اشارہ کروں گا جن سے لاعلم رہتے ہوئے ایک طالب علم کو مسائل شریعت اور علوم دین میں نظر پیدا کرنا روا نہیں۔ بلکہ اگر یہ مسائل اس سے روپوش ہیں تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو طالب علم کے مقام پر باور ہی نہ کرے بلکہ اپنا شمار عوام الناس میں اور بے علم لوگوں میں کرے۔
پہلا مسئلہ
کچھ شرعی مسائل اور دینی قواعد ایسے ہیں جن میں اختلاف کی کوئی گنجائش ہی نہیں اور ان کو صرف اور صرف تسلیم کر لیا جانا ہی واجب ہے اور جو کہ (ایک اصطلاح کی رو سے) قطعیات کہلاتے ہیں۔ یعنی جو امور قطعی طور پر ثابت ہیں اور علماءاسلام کا ان پر اتفاق ہے: مثلاً ارکان اسلام یا ارکانِ ایمان اور ان پر ایمان لانے کی فرضیت، پانچ نمازیں، نمازوں کی رکعات، زنا یا ربا یا شراب یا ناحق قتل وغیرہ ایسے امور کی حرمت۔ اسی طرح وہ قواعد شریعت بھی جن پر علماءمسلمین کا اتفاق ہے اور وہ احکام شریعت کے فہم استنباط میں مستعمل ہیں۔ مثلاً قاعدہ: لا ضرر ولاضرار یا مثلاً حدود کے شبہات کی بنا پر ٹل جانے کا قاعدہ، یا رفع حرج یا جلب تیسیر وغیرہ کا قاعدہ۔
پس واضح ہوا کہ قطعات ان تینوں انواع کے اندر پائے جا سکتے ہیں
عقائد کے اندر بھی
فروع (احکام) کے اندر بھی
اور قواعد اصولیہ (فہم و استنباط وغیرہ کے قواعد) کے اندر بھی
ان میں نہ تو ’اجتہاد‘ کا کوئی گزر ہے اور نہ ’رائے‘ کا اور نہ ’اختلاف‘ کا۔ بلکہ یہ اس شرعِ عظیم الشان کے وہ اسس اور قواعد ہیں جو اٹل ہیں۔ نہ زمان کے بدلنے کی ان پر کوئی تاثیر ہے اور نہ مکان کے بدلنے کی۔ جو شخص ان کے تسلیم کرنے میں ہی تردد کرے یا ان کے معاملے کو مشکوک ٹھہرائے وہ ملت اسلام سے شذوذ کا مرتکب ہوتا ہے اور شیرازہ اسلام کو بکھیر دینے کا۔ اس کا قول مردود باور ہوگا اوراس کا ’اختلاف‘ کرنا باطل....
البتہ شرع کے وہ مسائل جو ’قطعیات‘ کے ماسوا ہیں اور جن کو کہ کچھ لوگ ’ظنیات‘ کا نام دے لیے تو یہ ہیں اختلاف اور اجتہاد کا محل۔ ان میں ایک عالم کی سمجھ دوسرے کی سمجھ سے مختلف ہو اور آراءمیں یہاں کوئی تنوع پایا جائے تو یہ روا ہے۔ خود شریعت نے ہی اس بات کی ترغیب دی ہے کہ ان امور کے اندر لوگ عقل وفکر سے کام لیں۔ ادراک ومعانی سے لے کر استخراج احکام اور توجیہ عِلل تک مسائل شریعت کے سب پہلوؤں اور حکمتوں تک رسانی کی باقاعدہ دعوت دی گئی ہے۔ وہ لوگ جو اہل نظر ہیں اور اصحاب فکر ہیں اور ذوی العقول اور اولوالالباب ہیں ان کے آگے شریعت نے فکر ونظر کے سب در وا کر دیے ہیں کہ ان میں کا ہر شخص مقدور بھر کوشش کرے کہ وہ معاملے کی تہہ کو پہنچے۔ ہماری شریعت عقل کو آزاد کرانے آئی ہے ان تمام قیود سے جن کے اندر اس سے پہلے ’عقل‘ قید کرکے رکھی گئی تھی۔ اور وہ پہلی قید جس سے اہل علم اور اصحاب فکر کو آزاد کرایا جمود اور تقلید ہے۔ چنانچہ شریعت نے ہر اس شخص کی مذمت کی جو اپنی عقل کو معطل کئے بیٹھا ہے اور اپنے ذہن کی مہار تقلید اور جمود کو سونپ چکا ہے:
لَهُمْ قُلُوبٌ لاَّ يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لاَّ يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لاَّ يَسْمَعُونَ بِهَا أُوْلَـئِكَ كَالأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ
(الاعراف179)
”وہ دل رکھتے ہیں مگر ان سے سوچنے سمجھنے کا کام نہیں لیتے۔ وہ آنکھیں رکھتے ہیں مگر ان سے دیکھنے کا کام نہیں لیتے۔ وہ کان رکھتے ہیں مگر ان سے سننے کا کام نہیں لیتے۔ یہ چوپایوں کی طرح ہیں۔ نہیں بلکہ ان سے بھی گمراہ“۔
آخر قرآن کے اتارے جانے اور اس کی آیات کو کھول کر بیان کر دیا جانے اور اس کی امثال کو واضح کر دیا جانے کا اس کے سوا کوئی اور مقصد بھی ہے کہ لوگ ان کے بارے میں سوچیں اور اپنی عقول کو استعمال کریں؟ خدا کا کلام اس موضوع پر کس قدر واضح ہے
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ
(النحل: 44)
”اور ہم نے یہ ’ذکر‘ تم پر نازل کیا کہ تم (نبی) لوگوں کیلئے وہ چیز واضح کر دو جو ان کی طرف نازل کی گئی اور تاکہ وہ (بھی) تفکر کریں“۔
كَذَلِكَ يُبيِّنُ اللّهُ لَكُمُ الآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ
(البقرۃ:219)
”اللہ تعالیٰ اس طرح اپنے احکام صاف صاف تمہارے لئے بیان فرما رہا ہے، تاکہ تم سوچ سمجھ سکو“۔
(ترجمہ جونا گڑھی)
وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ
(الحشر: 21)
”یہ مثالیں ہیں جنہیں ہم لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور وفکر کریں“۔
قرآن نے تفکر پر بے انتہا زور دیا ہے اور جمود کی اور عقل کو معطل کر رکھنے کی بے حد مذمت کی ہے
قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الأَعْمَى وَالْبَصِيرُ أَفَلاَ تَتَفَكَّرُونَ (الانعام:50) ”کہو کیا ایک اندھا اور ایک دیکھنے والا برابر ہو سکتے ہیں؟ کیا تم تفکر نہیں کرتے؟“۔
قرآن نے اس بات کی بھی مذمت کی ہے کہ آدمی دوسرے کی عقل پر سہارا کرنے میں اس حد تک چلا جائے کہ یہ اس کے قبول حق میں ہی مانع ہو جائے اور اس کی اپنی عقل وتفکیر بالکل معطل ہی ہو کر رہ جائے۔ یہی بات کفار کے راستے کھو دینے کا سب سے بڑا سبب تھی:
وَكَذَلِكَ مَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ فِي قَرْيَةٍ مِّن نَّذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءنَا عَلَى أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَى آثَارِهِم مُّقْتَدُونَ (الزخرف:23) ”اسی طرح آپ سے پہلے بھی ہم نے جس بستی میں کوئی ڈرانے والا بھیجا وہاں کے آسودہ حال لوگوں نے یہی جواب دیا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو (ایک راہ پر اور) اور ایک دین پر پایا اور ہم تو انہی کے نقش پا کی پیروی کرنے والے ہیں“۔
دوسرا مسئلہ
فکر ونظر اور اجتہاد کا شریعت نے جو در وا کیا ہے اس کے لوازم میں یہ خودبخود آتا ہے کہ ذوی العقول اور اصحاب تفکیر اور اہل اجتہاد کے مابین کسی وقت اختلاف بھی ہو جائے کیونکہ مخلوق میں خدا کی جو سنتیں ہیں ان میں یہ بات معلوم ہے کہ خدا نے اپنی سب مخلوق کو قوتِ ادراک اور صلاحیت فہم اور حدود عقل میں ایک برابر نہیں رکھا تاآنکہ یہ سب کی سب ایک ہی عقل اور ایک ہی فہم بن جائے۔ فہموں کے اندر اختلاف آئے گا اور آراءمیں تنوع لازماً پایا جائے گا کیونکہ عقول اور مدارک کا اپنا ہی معاملہ ایک سا نہیں۔ قوت وصنف کے معاملہ میں بھی اور وسعت ومحدودیت کے معاملہ بھی۔
نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مِّن نَّشَاء وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ (یوسف:76) ”ہر ذی علم پر فوقیت رکھنے والا دوسرا ذی علم موجود ہے“۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اختلاف اگر اس باب میں ہو تو شریعت اس پر تشنیع نہیں کرتی بلکہ اس کی گنجائش باقاعدہ طور پر باقی رکھتی ہے۔ تاہم شریعت نے اُمت کا اس معاملہ میں یہ لحاظ رکھا ہے کہ ان پر واضح کر دیا کہ اختلاف ہو جانے کی صورت میں طریق کار کیا اپنائیں اور تب ان کا طرز عمل کیا ہو تاکہ ان کا ’اختلاف‘ کہیں ’انحراف‘ نہ بن جائے اور ’آراءکا تنوع‘ کہیں ’جادہء حق سے خروج‘ تک نہ پہنچ جائے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ
(النساء:59)
”اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اپنے میں سے اولی الامر کی۔ پھر اگر نزاع کر لو کسی چیز میں تو لوٹاؤ اسے اللہ کی طرف اور رسول کی طرف“۔
چنانچہ اس آیت میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ وہ مومنین جو اس بات سے متصف ہوچکے ہیں کہ وہ اللہ اور رسول کی اطاعت اور اولی الامر کی اطاعت کے پابند ہوں ان کے مابین نزاع اور اختلاف آجانا ایک ایسا امر ہے جس سے کوئی مفر نہیں اور یہ ضرر رساں بھی ہرگزنہیں جب تک کہ ’نزاع اور اختلاف‘ کرنے والے اس حَکَم پر متفق ہوں جس کی طرف تحاکم کے وہ ہر حال میں پابند ہوں گے اور جس کے دائرہ اختیار سے وہ کسی حال میں باہر نہ جائیں گے....
کچھ ایسا ہی مدلول نبی ﷺ کے اس فرمان کا ہے
اذا اجتہد الحاکم فاصاب فلہ اجر ان واذا اجتہد فاخطا فلہ اجر
(متفق علیہ)
”فیصلہ کرنے والا جب اجتہاد کرے اور درست فیصلہ کرے تو اس کیلئے دو اجر ہیں اور جب وہ اجتہاد کرے اور خطا کرلے تو اس کیلئے ایک اجر“۔
Comment