Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

علم اختلاف کے سات مسائل

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • علم اختلاف کے سات مسائل

    علم اختلاف کے سات مسائل


    علماءمسلمین کے ہاں پا ں جانے والا اختلاف ایک بہت بڑا موضوع ہے اور علم کا ایک باقاعدہ باب۔ ایک چھوٹا سا مقالہ نہ تو اس کی تفصیل کر سکتا ہے اور نہ اس موضوع کا حق ادا کر سکتا ہے۔ تاہم میں یہاں چند اساسی مسائل کی جانب محض اشارہ کروں گا جن سے لاعلم رہتے ہوئے ایک طالب علم کو مسائل شریعت اور علوم دین میں نظر پیدا کرنا روا نہیں۔ بلکہ اگر یہ مسائل اس سے روپوش ہیں تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو طالب علم کے مقام پر باور ہی نہ کرے بلکہ اپنا شمار عوام الناس میں اور بے علم لوگوں میں کرے۔

    پہلا مسئلہ

    کچھ شرعی مسائل اور دینی قواعد ایسے ہیں جن میں اختلاف کی کوئی گنجائش ہی نہیں اور ان کو صرف اور صرف تسلیم کر لیا جانا ہی واجب ہے اور جو کہ (ایک اصطلاح کی رو سے) قطعیات کہلاتے ہیں۔ یعنی جو امور قطعی طور پر ثابت ہیں اور علماءاسلام کا ان پر اتفاق ہے: مثلاً ارکان اسلام یا ارکانِ ایمان اور ان پر ایمان لانے کی فرضیت، پانچ نمازیں، نمازوں کی رکعات، زنا یا ربا یا شراب یا ناحق قتل وغیرہ ایسے امور کی حرمت۔ اسی طرح وہ قواعد شریعت بھی جن پر علماءمسلمین کا اتفاق ہے اور وہ احکام شریعت کے فہم استنباط میں مستعمل ہیں۔ مثلاً قاعدہ: لا ضرر ولاضرار یا مثلاً حدود کے شبہات کی بنا پر ٹل جانے کا قاعدہ، یا رفع حرج یا جلب تیسیر وغیرہ کا قاعدہ۔

    پس واضح ہوا کہ قطعات ان تینوں انواع کے اندر پائے جا سکتے ہیں

    عقائد کے اندر بھی

    فروع (احکام) کے اندر بھی
    اور قواعد اصولیہ (فہم و استنباط وغیرہ کے قواعد) کے اندر بھی

    ان میں نہ تو ’اجتہاد‘ کا کوئی گزر ہے اور نہ ’رائے‘ کا اور نہ ’اختلاف‘ کا۔ بلکہ یہ اس شرعِ عظیم الشان کے وہ اسس اور قواعد ہیں جو اٹل ہیں۔ نہ زمان کے بدلنے کی ان پر کوئی تاثیر ہے اور نہ مکان کے بدلنے کی۔ جو شخص ان کے تسلیم کرنے میں ہی تردد کرے یا ان کے معاملے کو مشکوک ٹھہرائے وہ ملت اسلام سے شذوذ کا مرتکب ہوتا ہے اور شیرازہ اسلام کو بکھیر دینے کا۔ اس کا قول مردود باور ہوگا اوراس کا ’اختلاف‘ کرنا باطل....

    البتہ شرع کے وہ مسائل جو ’قطعیات‘ کے ماسوا ہیں اور جن کو کہ کچھ لوگ ’ظنیات‘ کا نام دے لیے تو یہ ہیں اختلاف اور اجتہاد کا محل۔ ان میں ایک عالم کی سمجھ دوسرے کی سمجھ سے مختلف ہو اور آراءمیں یہاں کوئی تنوع پایا جائے تو یہ روا ہے۔ خود شریعت نے ہی اس بات کی ترغیب دی ہے کہ ان امور کے اندر لوگ عقل وفکر سے کام لیں۔ ادراک ومعانی سے لے کر استخراج احکام اور توجیہ عِلل تک مسائل شریعت کے سب پہلوؤں اور حکمتوں تک رسانی کی باقاعدہ دعوت دی گئی ہے۔ وہ لوگ جو اہل نظر ہیں اور اصحاب فکر ہیں اور ذوی العقول اور اولوالالباب ہیں ان کے آگے شریعت نے فکر ونظر کے سب در وا کر دیے ہیں کہ ان میں کا ہر شخص مقدور بھر کوشش کرے کہ وہ معاملے کی تہہ کو پہنچے۔ ہماری شریعت عقل کو آزاد کرانے آئی ہے ان تمام قیود سے جن کے اندر اس سے پہلے ’عقل‘ قید کرکے رکھی گئی تھی۔ اور وہ پہلی قید جس سے اہل علم اور اصحاب فکر کو آزاد کرایا جمود اور تقلید ہے۔ چنانچہ شریعت نے ہر اس شخص کی مذمت کی جو اپنی عقل کو معطل کئے بیٹھا ہے اور اپنے ذہن کی مہار تقلید اور جمود کو سونپ چکا ہے:

    لَهُمْ قُلُوبٌ لاَّ يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لاَّ يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لاَّ يَسْمَعُونَ بِهَا أُوْلَـئِكَ كَالأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ

    (الاعراف179)

    ”وہ دل رکھتے ہیں مگر ان سے سوچنے سمجھنے کا کام نہیں لیتے۔ وہ آنکھیں رکھتے ہیں مگر ان سے دیکھنے کا کام نہیں لیتے۔ وہ کان رکھتے ہیں مگر ان سے سننے کا کام نہیں لیتے۔ یہ چوپایوں کی طرح ہیں۔ نہیں بلکہ ان سے بھی گمراہ“۔


    آخر قرآن کے اتارے جانے اور اس کی آیات کو کھول کر بیان کر دیا جانے اور اس کی امثال کو واضح کر دیا جانے کا اس کے سوا کوئی اور مقصد بھی ہے کہ لوگ ان کے بارے میں سوچیں اور اپنی عقول کو استعمال کریں؟ خدا کا کلام اس موضوع پر کس قدر واضح ہے


    وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ

    (النحل: 44)


    ”اور ہم نے یہ ’ذکر‘ تم پر نازل کیا کہ تم (نبی) لوگوں کیلئے وہ چیز واضح کر دو جو ان کی طرف نازل کی گئی اور تاکہ وہ (بھی) تفکر کریں“۔

    كَذَلِكَ يُبيِّنُ اللّهُ لَكُمُ الآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ

    (البقرۃ:219)


    ”اللہ تعالیٰ اس طرح اپنے احکام صاف صاف تمہارے لئے بیان فرما رہا ہے، تاکہ تم سوچ سمجھ سکو“۔

    (ترجمہ جونا گڑھی)


    وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ

    (الحشر: 21)


    ”یہ مثالیں ہیں جنہیں ہم لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور وفکر کریں“۔

    قرآن نے تفکر پر بے انتہا زور دیا ہے اور جمود کی اور عقل کو معطل کر رکھنے کی بے حد مذمت کی ہے

    قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الأَعْمَى وَالْبَصِيرُ أَفَلاَ تَتَفَكَّرُونَ (الانعام:50) ”کہو کیا ایک اندھا اور ایک دیکھنے والا برابر ہو سکتے ہیں؟ کیا تم تفکر نہیں کرتے؟“۔

    قرآن نے اس بات کی بھی مذمت کی ہے کہ آدمی دوسرے کی عقل پر سہارا کرنے میں اس حد تک چلا جائے کہ یہ اس کے قبول حق میں ہی مانع ہو جائے اور اس کی اپنی عقل وتفکیر بالکل معطل ہی ہو کر رہ جائے۔ یہی بات کفار کے راستے کھو دینے کا سب سے بڑا سبب تھی:

    وَكَذَلِكَ مَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ فِي قَرْيَةٍ مِّن نَّذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءنَا عَلَى أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَى آثَارِهِم مُّقْتَدُونَ (الزخرف:23) ”اسی طرح آپ سے پہلے بھی ہم نے جس بستی میں کوئی ڈرانے والا بھیجا وہاں کے آسودہ حال لوگوں نے یہی جواب دیا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو (ایک راہ پر اور) اور ایک دین پر پایا اور ہم تو انہی کے نقش پا کی پیروی کرنے والے ہیں“۔

    دوسرا مسئلہ

    فکر ونظر اور اجتہاد کا شریعت نے جو در وا کیا ہے اس کے لوازم میں یہ خودبخود آتا ہے کہ ذوی العقول اور اصحاب تفکیر اور اہل اجتہاد کے مابین کسی وقت اختلاف بھی ہو جائے کیونکہ مخلوق میں خدا کی جو سنتیں ہیں ان میں یہ بات معلوم ہے کہ خدا نے اپنی سب مخلوق کو قوتِ ادراک اور صلاحیت فہم اور حدود عقل میں ایک برابر نہیں رکھا تاآنکہ یہ سب کی سب ایک ہی عقل اور ایک ہی فہم بن جائے۔ فہموں کے اندر اختلاف آئے گا اور آراءمیں تنوع لازماً پایا جائے گا کیونکہ عقول اور مدارک کا اپنا ہی معاملہ ایک سا نہیں۔ قوت وصنف کے معاملہ میں بھی اور وسعت ومحدودیت کے معاملہ بھی۔

    نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مِّن نَّشَاء وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ (یوسف:76) ”ہر ذی علم پر فوقیت رکھنے والا دوسرا ذی علم موجود ہے“۔

    چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اختلاف اگر اس باب میں ہو تو شریعت اس پر تشنیع نہیں کرتی بلکہ اس کی گنجائش باقاعدہ طور پر باقی رکھتی ہے۔ تاہم شریعت نے اُمت کا اس معاملہ میں یہ لحاظ رکھا ہے کہ ان پر واضح کر دیا کہ اختلاف ہو جانے کی صورت میں طریق کار کیا اپنائیں اور تب ان کا طرز عمل کیا ہو تاکہ ان کا ’اختلاف‘ کہیں ’انحراف‘ نہ بن جائے اور ’آراءکا تنوع‘ کہیں ’جادہء حق سے خروج‘ تک نہ پہنچ جائے

    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ

    (النساء:59)


    ”اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اپنے میں سے اولی الامر کی۔ پھر اگر نزاع کر لو کسی چیز میں تو لوٹاؤ اسے اللہ کی طرف اور رسول کی طرف“۔

    چنانچہ اس آیت میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ وہ مومنین جو اس بات سے متصف ہوچکے ہیں کہ وہ اللہ اور رسول کی اطاعت اور اولی الامر کی اطاعت کے پابند ہوں ان کے مابین نزاع اور اختلاف آجانا ایک ایسا امر ہے جس سے کوئی مفر نہیں اور یہ ضرر رساں بھی ہرگزنہیں جب تک کہ ’نزاع اور اختلاف‘ کرنے والے اس حَکَم پر متفق ہوں جس کی طرف تحاکم کے وہ ہر حال میں پابند ہوں گے اور جس کے دائرہ اختیار سے وہ کسی حال میں باہر نہ جائیں گے....

    کچھ ایسا ہی مدلول نبی ﷺ کے اس فرمان کا ہے

    اذا اجتہد الحاکم فاصاب فلہ اجر ان واذا اجتہد فاخطا فلہ اجر

    (متفق علیہ)


    ”فیصلہ کرنے والا جب اجتہاد کرے اور درست فیصلہ کرے تو اس کیلئے دو اجر ہیں اور جب وہ اجتہاد کرے اور خطا کرلے تو اس کیلئے ایک اجر“۔

  • #2
    Re: علم اختلاف کے سات مسائل


    کیونکہ ایک سے زیادہ اجتہاد کرنے والوں کا پایا جانا اور پھر یہ کہ اجتہاد میں ’درست‘ نتیجے تک پہنچنے والے شخص اور اجتہاد میں ’غلطی‘ کر لینے والے شخص کا پایا جانا اس کے سوا کوئی معنی ہی نہیں رکھتا کہ مسائل شرع کے فہم میں اختلاف واقع ہو جانا ممکن ہے۔

    اور پھر اگر آپ نبی ﷺ سے ملنے والے صحیح آثار کا تتبع کریں تو بھی آپ اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ نبی ﷺ کی زندگی میں عملاً ایسا ہوا بھی اور آپ نے اس کی باقاعدہ تقریر فرمائی۔ چنانچہ صحابہ کا آنحضرت کے اوامر اور آنحضرت کے اقوال کے فہم میں اختلاف ہوا اور اس معاملہ میں ان کے اَفہام ایک دوسرے سے مغایر ہوئے مگر آپ نے کسی ایک پر بھی سرزنش نہ فرمائی۔ ایسے واقعات پر کسی وقت آپ سکوت اختیار فرماتے اور یا پھر کسی وقت فہم مراد کے معاملہ میں آپ ان کو مدد دیتے۔ اس معاملہ کی واضح ترین دلیلیں حدیث بنی قریظہ اور حدیث عدی بن حاتم ہیں۔ بنو قریظہ کے معاملہ میں آپ نے صحابہ کے (نماز کے وقت پر) اختلاف کی بابت خاموشی فرمائی (متفق علیہ) جبکہ عدی بن حاتم نے قرآن کی آیت (حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود ”جب تک کہ تمہارے لئے سفید دھاری سیاہ دھاری سے علیحدہ نہ ہو جائے“) عدی بن حاتم نے یہاں ظاہر لفظ کو لیتے ہوئے دو دھاگے لئے ایک سفید اور ایک سیاہ اور اپنے تکیے کے نیچے رکھ لئے۔ اس پر آپ نے عدی کو صرف اتنا کہا: ”تب تو تمہارا تکیہ بہت عریض ہوا! بھئی یہ رات کی سیاہی ہے اور صبح کی سفیدی“۔

    (بخاری)


    رسول اللہ ﷺ سے اس باب میں جو تعقیب اور سرزنش وارد ہوئی اس کا محل وہ لوگ ہیں جو علم کے بغیر اجتہاد کرنے لگ جائیں اور بغیر بصیرت اور بلاثبت وتحقیق فتوے دیں۔ جبکہ آپ سے مروی ہے کہ جن لوگوں نے (جہاد میں) ایک شخص کو جس کے سر پر زخم تھا غسل جنابت کرنے کا فتوی دیا اور اس کے نتیجے میں اس کی موت واقع ہو گئی تب آپ نے فرمایا: ”انہوں نے اس کو مار ڈالا۔ خدا انہیں مارے۔ معلوم نہ تھا تو آخر پوچھ لیا ہوتا۔ جہالت کا مداوا یہی تو ہے کہ آدمی کسی سے دریافت کرلے“

    (ابن ماجہ، ابوداؤد، احمد، دارمی، دارقطنی)


    پس وہ سب نصوص جو اختلاف کی مذمت میں وارد ہوئی ہیں اس سے مراد وہ اختلاف ہے جو شرع کے حدود اور آداب سے تجاوز کر گیا ہو۔ یا وہ اختلاف جس سے مقصود حق تک رسائی نہ ہو بلکہ ہوائے نفس ہو اور یا پھر تعصب۔ اسی طرح ہر وہ اختلاف جو اس حَکم arbiter سے بغاوت پر مبنی ہو جس کی جانب رجوع کو شرع نے فرض کیا ہو۔ یا جس سے مقصود عقیدہ کے اساسیات میں اختلاف کرنا ہو۔

    رہی رسول اللہ کی وہ پیشین گوئی کہ آپ کی اُمت میں نزاع ہوگا تو وہ تفرقہ انقسام ہے۔ اسی لئے آپ نے اس سے خبردار فرمایا۔ اسی طرح آپ کا تہتر فرقوں کی پیشین گوئی فرمانا ہے جو سب کے سب جہنمی ہوں گے سوائے ایک کے تو اس سے مراد وہ اختلاف ہے جو عقائد میں ہو اور ان امور میں ہو جو مسلمانوں کے ہاں مسلمہ اور متفق علیہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے مستفترق کا لفظ استعمال فرمایا نہ کہ مستختلف کا۔ کیونکہ مطلق ’اختلاف‘ تو صحابہ میں بھی واقع ہوا۔ بعید نہیں بعض جاہلوں نے (تہتر فرقوں والی) اس حدیث کو ائمہء اسلام کے مذاہب پر بھی چسپاں کیا ہو خصوصاً آئمہء اربعہ کے مذاہب پر۔ حالانکہ ایک ذرہ بھر سمجھ کا مالک شخص بھی جانتا ہے کہ ان آئمہء کا اختلاف ویسا ہی ہے جیسا اختلاف نبی ﷺ کے اصحاب میں ہوا۔ اس کا ’تفرقہ‘ سے کوئی تعلق ہی نہیں اس کا تعلق ہے تو اس ’وسعت‘ اور ’رخصت‘ اور ’گنجائش‘ سے ہے جو اُمت محمد ﷺ کیلئے رکھی گئی ہے۔

    رہ گیا وہ ’تفرقہ‘ جو کچھ ان آخری صدیوں میں آکر مقلدین کے ہاں پایا جانے لگا ہے اور جو کہ انحطاط اور زوال کی صدیاں ہیں، تو اس سے وہ اختلاف معیوب نہیں ٹھہرتا جو ان آئمہء ھدی کے ہاں پایا گیا۔ معیوب ہے تو صرف وہ طرز عمل جو ان کے کچھ بے علم اور متعصب پیرکاروں کے ہاں پایا گیا....

    البتہ وہ اختلاف جو صحابہ وتابعین اور ان ائمہ ہدایت کے ہاں پایا گیا جن پر پوری اُمت اعتماد کرتی ہے اور جن میں کہ ائمہء اربعہ بھی آتے ہیں تو وہ سب کا سب اختلاف دائرہء شرع کے اندر ہے اور وہ فصیل شرح سے خروج نہیں کرتا۔ فصیل شرع سے جس اختلاف نے خروج کیا وہ ہے خوارج کا اختلاف یا مثلاً روافض کا اختلاف یا جہمیہ یا ان جیسے دیگر طوائف کا جنہوں نے ’شبہات‘ کی بنا پر دین کے ’قطعیات‘ میں کلام کیا۔

    تیسرا مسئلہ

    وہ علماءاسلام جن پر اُمت اعتماد کرتی ہے جو کہ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے دور میں پائے گئے ان کا اختلاف صرف اور صرف دلیل کی بنا پر ہوتا ہے اور یا پھر دلیل کا مفہوم اور مدلول متعین کرنے کی بنا پر۔ یہ تصور درست نہیں کہ ان میں سے کوئی عمداً یا کسی دلیل کے بغیر نص کے خلاف چلا گیا ہو۔

    ان علمائے اسلام میں سے بطور خاص مجھے ائمہء اربعہ کا ذکر کرنا ہے یعنی ابوحنیفہ، مالک، شافعی اور احمد۔ جس کا باعث ان کو اس معاملہ میں اُمت کے اندر یہ شہرت حاصل ہو جانا ہے اور جہان کے اندر ان کے مذاہب کا اس زبردست انداز میں پھیل جانا۔

    چنانچہ ہر شخص جو علم رکھنے والا ہے اور ان ائمہء اَعلام کے اقوال وفتاوی کا تتبع کرتا ہے اور ان کے استدلال کی حقیقت پر غور کرتا ہے اور ان کے اختیار کردہ علمی اصول وقواعد پر نظر رکھتا ہے وہ اس بات کی سچائی پر پہنچ کر رہتا ہے۔

    جس کسی نے بھی ان میں سے ایک کو کبھی مطعون ٹھہرایا ہے یا تو اس کا سبب اس کا اپنا تعصب ہوگا اور یا پھر ان ائمہ کی جلالت علمی کی بابت اس کی اپنی جہالت۔ وجہ یہ کہ ایک محدود نظر شخص جب دیکھتا ہے کہ ان ائمہ نے ’اس قدر زیادہ‘ اختلاف کر لیا ہے اور اس کی عقل میں یہ بات نہیں سماتی۔ یوں اس بات کو قبول کرنا اس کے محدود فہم کے بس سے باہر ہو جاتا ہے کیونکہ اس کی نظر اس اختلاف کے ظاہر پر جاتی ہے بغیر اس کے کہ وہ اس کی تہہ تک پہنچ پائے اور ان سب پہلوؤں کا احاطہ کر پائے جن پر ان ائمہ کے اقوال کی بنا رکھی گئی.... تب اسے صرف یہ سمجھ آتا ہے کہ یہ ائمہء علم نصوص سے ’تصادم‘ اختیار کئے ہوئے ہیں!

    شیخ الاسلام ابن تیمیہ اپنی شہرہ آفاق تصنیف رفع اعلان عن الائمۃ الاعلام میں لکھتے ہیں

    ”وہ ائمہ جن کو اُمت کے اندر قبول کیا گیا ہے اور جن کی امامت پر اُمت کے ہاں اتفاق پایا گیا.... یہ ائمہ کسی ایک مسئلہ میں بھی کسی دلیل کے بغیر جو ان پر ظاہر ہوئی ہو کبھی بات نہیں کرتے اگرچہ ایک مبتدی کو دیکھنے میں ایسا لگے کہ یہ ائمہ دلیل سے مفارقت کر گئے ہیں“۔

    (مجموع الفتاوی ج 20 ص250)


    اب میں اس معاملہ میں ایک مثال پیش کروں گا

    مروی ہوا عبدالوارث بن سعید سے، کہا: میں مکہ گیا ___ ایک روایت میں ہے کہ میں کوفہ گیا___ جہاں میں نے (تین ائمہ) ابوحنیفہ، ابن ابی لیلی اور شبرمہ کو پایا میں نے ابوحنیفہ سے دریافت کیا: کیا فرماتے ہیں آپ اس بابت اس شخص کے جو ایک بیع کرتا ہے اور اس پر ایک شرط مشروط کرتا ہے؟“ (ابوحنیفہنے) جواب دیا: بیع باطل اور شرط بھی باطل۔ پھر میں ابن ابی لیلی کے پاس گیا اور ان سے وہی سوال کیا۔ (ابن ابی لیلی نے) جواب دیا: بیع جائز ہے مگر شرط باطل۔ پھر میں ابن شبرمہ کے پاس گیا اور ان سے یہی دریافت کیا۔ (ابن شبرمہ نے) جواب دیا: بیع جائز اور شرط بھی جائز۔ میں نے کہا سبحان اللہ! عراق کے تین فقیہ مجھے ایک ہی مسئلہ میں (تین) مختلف فتوے دیتے ہیں! تب میں ابوحنیفہکے پاس آیا اور ان سے یہ (سب ماجرا) کہا۔ (ابوحنیفہ) بولے: مجھے نہیں معلوم ان دونوں نے کیا کہا ہے البتہ مجھ سے بیان کیا عمرو بن شعیب نے اپنے باپ سے اور آگے اپنے دادا (عبداللہ بن عمر) سے ان النبی ﷺ نھی عن بیع وشرط ”کہ منع فرمایا رسول اللہ ﷺ نے بیع اور (اس پر) شرط سے“ پھر میں ابن ابی لیلی کے پاس آیا اور ان سے یہ سب بیان کیا۔ (ابن ابی لیلی) بولے: مجھے نہیں معلوم ان دونوں نے کیا کہا مجھ سے البتہ بیان کیا ہشام بن عروہ نے اپنے باپ سے، آگے عائشہ سے، فرمایا: ”کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے امیر فرمایا کہ میں بریرہ کو خرید لوں اور اس پر شرط (قبول) کر لوں مگر پھر اس کو آزاد کر دوں“ لہٰذا بیع جائز ہوئی اور شرط باطل۔ پھر میں ابن شبرمہ کے پاس آیا اور ان سے یہ (کہانی) کہی۔ (ابن شبرمہ) کہنے لگے: مجھے نہیں معلوم ان دونوں نے کیا کہا البتہ مجھ سے کہا مسعر بن کدام نے محارب بن دثار سے، آگے جابر بن عبداللہ سے، کہا: ”میں نے نبی ﷺ کو ایک اونٹی بیچی اور شرط رکھی کہ مدینہ تک میں اس پر بوجھ ڈھو لوں“ لہٰذا بیع جائز ہوئی اور شرط بھی جائز ہوئی“۔

    طبرانی نے روایت کیا۔ ھیثمی نے مجمع الزوائد (ج 4 ص 84) میں اسے ذکر کیا اور کہا: اس کے اندر عبداللہ بن عمر کے طریق میں مقال ہے۔ سیوطی نے اسے اپنی کتاب تبییض الصحیفہ فی مناقب ابی حنیفہ (طبع حیدر آباد) میں بیان کیا اور کہا: طبرانی نے الاوسط میں اس کو اس سند سے بیان کیا: حدثنا عبداﷲ بن ایوب القزی ثنا محمد بن سلیمان الذھلی ثنا عبدالوارث بن سعید

    Comment


    • #3
      Re: علم اختلاف کے سات مسائل



      جہاں تک اُمت اسلام کے معروف ائمہ کے مابین ہو جانے والے اختلاف کے اسباب کا تعلق ہے تو اس کی تفصیل جاننے کیلئے کئی ایک علمی تصانیف میسر ہیں۔ اس موضوع پر سب سے اچھی اور مبسوط تصنیف ایک تو شیخ الاسلام ابن تیمیہکی رفع الملام عن الائمۃ الاعلام اور ایک محمد بن عبداللہ بن محمد بن السید البطلیوسی الاندلسی (متوفی521 ھ) کی کتاب

      الانصاف فی التنبیہ علی الاسباب التی اوجبت الخلاف بین المسلمن


      مختصراً یہ اسباب یہ ہیں

      (1)

      کوئی نص ایک امام کو نہ پہنچی ہو۔


      (2)

      اسناد کے معاملہ میں حدیث کے قبول کرنے میں ان کے مابین اختلاف ہو جانا اور قبولِ حدیث کے معاملہ میں ان کے اصول کے مابین کچھ اختلاف پایا جانا۔


      (3)

      کسی نص کو منسوخ ماننے کے معاملہ میں ان کے مابین اختلاف ہو جانا۔


      (4)

      نص سے جو مراد ہے اس کے فہم میں ان کے مابین اختلاف ہوجانا۔


      علاوہ ازیں یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ عربی لغت کے الفاظ جو معانی اور مدلولات رکھتے ہیں وہ بھی کسی وقت مختلف ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ان میں معانی کا اشتراک پایا جاتا ہے۔ بعض اوقات ان کے استعمال کئے جانے کے پہلو مختلف ہوتے ہیں۔ جبکہ نبی ﷺ جوامع الکلم بولتے تھے کسی وقت ان کی تفصیل فرما دیتے اور کسی وقت ان کو مجمل رہنے دیتے۔ ایسا ہی معاملہ قرآن کا بھی ہے۔ بسا اوقات قرآن اور سنت کچھ مسائل کی تفصیل سے خاموش رہتے ہیں اور ان کی تفصیل، مجتہدین کے اجتہاد پر چھوڑ دیتے ہیں جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں غور وفکر کے معاملہ میں گنجائش رکھی گئی ہے اور یہ کہ وہاں اجتہاد کر لیا جانا روا ہے۔

      چوتھا مسئلہ

      جاننا چاہیے کہ علم کو لینے اور آگے پہنچانے کے معاملہ میں سلف کے ہاں دو طریقے پائے گئے۔ ایک مدرسہ محدثین کرام کا اور دوسرا فقہا عظام کا۔

      امام ابن القیم ان دونوں مدرسوں کی تعریف میں لکھتے ہیں

      ”علماءاُمت دو قسموں میں منقسم ہوتے ہیں

      حدیث کے حفاظ اور اسناد کے بزرجمہر جو کہ اُمت کے قائد ہیں اور مخلوق کے امام اور اسلام کے پاسبان، جنہوں نے اُمت کے سب قلعے اور سب مورچے ہمیشہ کیلئے محفوظ بنا دیے اور اس کے علم وفکر کے تمام چشمے گدلے یا بدمزہ ہو جانے سے بچا لیئے۔ یہاں تک کہ ان میں سے وہ ائمہ جن کیلئے خدا نے یہ رتبہء بلند لکھ رکھا تھا علم کے ان صاف شفاف چشموں سے یوں جام بھر بھر کر پیتے رہے کہ ’آرائ‘ نے ذرہ بھر ان کا ذائقہ نہ بدلا تھا۔ ان کی رسائی اس خالص چشمے تک ہو جاتی رہی

      (عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللَّهِ يُفَجِّرُونَهَا تَفْجِيرًا)

      جو خدا کے خاص عباد کیلئے خاص کر رکھا گیا ہے کہ جہاں سے چاہیں اس کو جاری کر لیں اور جیسے چاہیں پئیں۔


      فقہاءاسلام ___ جن کے اقوال پر مخلوق کو دیے جانے والے سب فتاوی کا دارومدار ہے___ جن کو کہ استنباط احکام کیلئے مختص کیا گیا اور جنہوںنے قواعد حلال وحرام کو ضبط میں لانے کیلئے زندگیاں صرف کر دیں۔ سو زمین میں ان کا وہ مقام ہے جو آسمان میں تاروں کا۔ ایک سرگردان اندھیرے میں انہی کی بدولت راہ پاتا ہے۔ مخلوق کی محتاجی ان کیلئے اس سے بڑھ کر ہے جتنی کہ کھانے اور پینے کیلئے مخلوق کی محتاجی۔ ان کی اطاعت مخلوق پر اس سے کہیں بڑھ کر ہے جتنی کہ ان پر ان کی اپنی ماؤں اور باپوں کی اطاعت، ازروئے نص کتاب: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ ”اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ کی۔ اطاعت کرو رسول اور اپنے میں سے اولی الامر کی“ کہا ابن عباس نے
      اولو الامر ہیں علماء“

      (اعلام الموقعین ص 1 ج9)


      کہنے کا مقصد یہ کہ محدثین کی شب وروز محنت جس میدان میں ہوئی وہ ہے روایتِ سنت، نقدِ اسانید اور معرفتِ رجال۔ یوں وہ اس قابل ہوئے کہ اسلام کی یہ اصل عظیم ان سب آلائشوں سے محفوظ بنا دیں جو حدیثیں گھڑنے والوں کی حیلہ سازیوں یا پھر کچھ صالحین کی غفلتوں اور کمزوریوں کے باعث ذخیرہ دین میں جگہ پا سکتی تھیں۔ ان کا اس عظیم الشان علم میں زندگیاں کھپا دینا اس بات کا سبب بنا کہ وہ استنباط اور فقہ وغیرہ میں کچھ بہت زیادہ علمی ترکہ نہ چھوڑ پائیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ دیکھتے ہیں کچھ شہرہ آفاق محدثین مانند ابن معین، ابن ابی حاتم، بخاری اور مسلم وغیرہ فقہ پر کچھ بہت زیادہ ترکہ چھوڑ کر نہیں گئے۔

      جبکہ فقہاءکی محنت جس میدان میں ہوئی ہے وہ ہے نصوص کا مطالعہ، ان کے معانی کی تفحیص، احکام کی علتوں اور وسعتوں کا استخراج، نصوص کے مابین جمع وترجیح، معرفت ناسخ ومنسوخ، پھر اس کے علاوہ انہوں نے وہ اصول اور قواعد وضع کئے جن کے مطابق نصوص سمجھی جائیں گی اور احکام کا استخراج کیا جائے گا اور حلال وحرام کا تعین ہوگا۔ فقہاءنے اپنے آپ کو فتاوی کیلئے مختص کیا اور اس باب میں ایک ترکہء عظیم چھوڑا۔ قیاس کے باب میں علم کا حق ادا کیا اور اس کی کما حقہ تفریع کی یوں اس باب میں ایک وسیع تراث چھوڑی۔ اس عمل کے نتیجے میں ان کے ہاں پورے کے پورے مذاہب تشکیل پائے۔ ان کے مناہج متمیز ہوئے۔ گو چار مذاہب ان میں سے بہت زیادہ شہرت پا گئے یوں کہ ان میں سے ہر ایک مذہب ایک پورا مدرسہ ہے جو اصول اور قواعد اور فروع پر مشتمل ایک پورا اور باقاعدہ منہج رکھتا ہے....

      فقہا کا اس میدان میں متخصص ہو جانا اور اسی میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دینا اس بات کا باعث ہوا کہ وہ علم روایت واسناد کے مرد میدان نہ بن پائیں چنانچہ عمومی طور پر فقہاءنے روایت واسناد کے باب میں کچھ بہت علمی کام نہیں کیا۔ پس بہت کم آپ یہ پائیں گے کہ ایک امام نے روایت کے اندر بھی تبحر پیدا کیا ہو اور فقہ میں بھی، جس کی ایک مثال امام احمد بن حنبل ہیں رحمہ اللہ

      جہاںتک امام ابوحنیفہ کا تعلق ہے تو آپ نے روایت کم کی ہے۔ اگرچہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ امام ابوحنیفہ حفظ حدیث کا اہتمام نہ کرتے تھے۔ فقہ کے اندر آپ نے جو جواہر چھوڑے ہیں وہ اللہ کے کلام اور رسول کی سنت میں آپ کے غور وفکر کا ہی تو نتیجہ ہے۔ یہ ضرور ہے کہ آپ علم استنباط کیلئے اس حد تک مختص ہوئے رہے کہ جو احادیث آپ تک پہنچیں آپ ان کو آگے باقاعدہ روایت کرنے کا وہ اہتمام نہیں کرتے رہے جیسا کہ محدثین کے ہاں رہا ہے، رہ گیا علم حدیث پر آپ کا نظر رکھنا تو جو بھی اس بات کا تتبع کرے گا کہ ابوحنیفہ دلیل لانے میں کس غایت درجہ کی عرق ریزی کرتے ہیں وہ آپ کی معرفت حدیث کو تسلیم کئے بغیر نہیں رہے گا....

      پھر جبکہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کوفہ اور بصرہ کے اندر امام ابوحنیفہ کے وقت میں ایک سو بیس صحابی پائے گئے اور پھر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ابوحنیفہ نے چھیتر محدثین اور فقہاءسے علم کی سماعت کی جن میں سے ایک تعداد کا حافظ مزی نے ذکر کیا ہے اور جن میں سے کچھ مشہور نام یہ ہیں: طاووس، شعبی، عبداللہ بن دینار، عبدالرحمن بن ھرمز، عطائ، قتادہ، زھری، ہشام بن عروہ ودیگر.... اور پھر جبکہ ہم یہ جانتے ہیں کہ خود ان کے شاگردوں میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو اپنے وقت کے بڑے محدثین اور حفاظ ہیں مثلاً عبداللہ بن المبارک، ابو یوسف، زفر بن ہذیل ودیگر۔ یوں یہ بات پایہء ثبوت کو پہنچتی ہے کہ امام ابوحنیفہکا مذہب آثار و مرویات سے ہی پھوٹتا ہے اور یہ کہ اس مذہب کو بہت سے ندی نالے ایسے حاصل رہے ہیں کہ اسے بھی سنت کے گھاٹ سے ہی پینے کو ملا ہے....


      ابن ابی رزمہ روایت کرتے ہیں کہ جب کبھی کوفہ میں کسی محدث کا ورود ہوتا تو ابوحنیفہ اپنے تلامذہ سے کہتے: معلوم کرو کیا اس کے پاس حدیث میں کوئی ایسی چیز ہے جو ہمارے پاس نہیں۔

      Comment


      • #4
        Re: علم اختلاف کے سات مسائل



        (تبییض الصحیفۃ فی مناقب ابی حنیفۃ للسیوطی)

        ان حقائق کے ہوتے ہوئے کون یہ تصور کر سکتا ہے کہ ابوحنیفہ بس فقیہ ہیں، حدیث کا علم نہیں رکھتے
        (1)
        .... آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ آدمی فقہ میں ایک عظیم امام ہو اور حدیث کا عالم نہ ہو۔ چنانچہ آپ بعض محدثین مانند ابوداؤد اور ابن حجر کو دیکھتے ہیں جب ابوحنیفہ کی سوانح عمری biography لکھتے ہیں تو اس حوالے سے کہ ان کے (علم حدیث وغیرہ کی) بابت کچھ کلام کیا گیا ہے! ابوحنیفہکی امامت کی جانب اشارہ کر دینے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ”ابوحنیفہ امام ہیں“۔ ابن حجر کہتے ہیں ”ابوحنیفہ امام ہیں اور ایک شہرہ رکھتے ہیں‘۔


        پانچواں مسئلہ

        ایک طالب علم کو یہ چیز جان لینا چاہیے کہ روایت حدیث کے ساتھ اسے جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے فقہ اور اس اختلاف کا علم جو صحابہ وتابعین اور ان ائمہ کے ہاں پایا گیا جن پر اُمت اعتماد کرتی ہے۔ یہ چیز اگر اسے حاصل نہیں تو وہ احکام شریعت کا کچھ بھی ادراک نہ کر پائے گا۔ کیونکہ ایک نص سے جو معنی ظاہر ہو رہا ہو ’فقہ‘ بس وہی نہیں۔ فقہ استنباط میں ہے۔ مقاصد شریعت کے جاننے میں ہے۔ احکام کی علتوں کا علم پانے میں ہے۔ ناسخ اور منسوخ کا ان کی تمام انواع سمیت ادراک کرنے میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں، جیسا کہ چوتھے مسئلہ کے بیان میں گزر چکا، کہ بہت سے کبار محدثین اور عظماءحفاظ فقہ کی نسبت سے بہت زیادہ شہرت نہیں رکھتے جبکہ حدیث کے علم اور روایت میں پوری اُمت ان کی حیثیت تسلیم کرتی ہے۔ انصاف پسند علماءکا یہ شیوہ رہا ہے کہ وہ ہر اہل اختصاص کے اختصاص کا برملا اعتراف کرتے تھے۔ امام شافعی کو لے لیجئے کس طرح مختلف لوگوں کے مختلف علوم پر اختصاص اور دسترس کو تسلیم کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں

        ”جو شخص فقہ میں تبحر پانا چاہے وہ ابوحنیفہ کا محتاج ہے۔ ابوحنیفہ کیلئے فقہ کی گتھیاں ہی سلجھا دی گئی تھیں جو شخص شعر میں تبحر پانا چاہے وہ زہیر بن ابی سلمی کا محتاج رہے گا۔ جو مغازی (سیرت) میں تبحر پانا چاہے وہ محمد بن اسحاق کا محتاج رہے گا۔ جو شخص نحو میں تبحر پانے کا خواہشمند ہے وہ کسائی کا محتاج ہوگا اور جو تفسیر میں تبحر پیدا کرنا چاہے وہ مقاتل بن سلیمان کا محتاج رہے گا“۔

        (الانتقاءلابن عبدالبر ص31)


        ابن الماجشون کہتے ہیں: ”اہل علم کے ہاں یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ وہ شخص فقہ میں امام نہیں بن سکتا جو قرآن میں اور آثار میں امام نہیں۔ اور وہ شخص آثار میں امام نہیں ہو سکتا جو فقہ میں امام نہیں۔ مگر اب دیکھ لو کیونکر کچھ لوگوں کو وہم ہو گیا کہ محض ’روایت‘ پر محنت کرلینا ہی ’احکام‘ کا عارف ہو جانے کیلئے کافی ہے اور دیکھو کیسے انہوں نے ’فقہ‘ اور ’اثر‘ کو علیحدہ کردیا“۔

        ایک طالب علم کیلئے ضروری ہے کہ حدیث اور روایت کے علم پر محنت کے ساتھ ساتھ فقہاءکے مذاہب اور ان کے اختلاف کا علم حاصل کرے تاآنکہ اس کے اندر استنباط کا ملکہ پیدا ہو....

        فرمایا

        رسول اللہ ﷺ نے: رُبّ حامل فقہ غیر فقیہ، وَرُبّ حامل فقہ الی من ھو افقہ منہ یعنی ”کتنے ہی فقہ (نصوص حدیث) کو دوسروں تک پہنچانے والے خود غیر فقیہ ہوتے ہیں۔ کتنے ہی فقہ (نصوص حدیث) کو اپنے سے بڑھ کر فقہ کی اہلیت رکھنے والوں تک پہنچا لیتے ہیں“ چنانچہ رسول اللہﷺ نے یہاں حدیث کو فقہ کہا ہے اور واضح کردیا کہ محض اس کے حفظ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اس کو حفظ کر رکھنے والا شخص فقیہ بھی ہے....


        لہٰذا لوگوں کے فہموں میں جو تفاوت پایا جاتا ہے اس کے باعث اہلسنت فقہ میں بھی لوگ متفاوت ہیں۔ فقہ دراصل فہم میں ہے۔ پس بعض ائمہ مجموعی طور پر بعض دوسرے ائمہ کی نسبت زیادہ ’فقہ‘ رکھتے ہیں۔ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ کسی خاص مسئلہ میں کوئی ایک امام کسی دوسرے امام کی نسبت زیادہ فقہ رکھتا ہو۔
        ابوحنیفہ فقیہ ترین ائمہ میں سے ایک ہیں اور بعید نہیں کہ وہ علی الاطلاق فقیہ ترین امام ہوں۔ عبداللہ بن المبارک کا ایک قول مروی ہے کہ ”اگر اثر (روایت) معلوم ہو چکا ہو اور اس پر فہم ورائے درکار ہو تو رائے یا مالککی یا سفیان ثوری اور یا ابوحنیفہ کی۔ جبکہ ابوحنیفہ ان سب میں بہتر اور فہم وفطانت میں سب سے دقیق اور تفقہ میں سب سے گہرے ہیں۔ ان تینوں میں یہی افقہ ہیں“

        (تاریخ بغداد ج 3 ص 343)


        یہ بات کہ تفقہ کے باب میں فقہاءکا معاملہ ایک سا نہیں بلکہ یہ درجہ بدرجہ متفاوت ہیں، اس پر ایک مثال ملاحظہ کیجئے

        مروی ہوا اسماعیل بن حماد ، سے کہا: ”مجھے اپنی بیوی کو طلاق دے دینے کے معاملے میں شک لاحق ہوا (آیا طلاق ہوئی ہے یا نہیں) تب میں نے شریک سے اس بارہ میں دریافت کیا: شریک کہنے لگے: ”اب طلاق دے لو اور رجوع پر گواہ ٹھہرا لو“ پھر میں نے سفیان ثوری سے دریافت کیا۔ وہ کہنے لگے: جاؤ جا کر رجوع کرلو۔ یوں اگر تمہارے اس سے طلاق ہو بھی گئی ہے تو تمہارا اس سے رجوع بھی ہو گیا‘ پھر میں نے زفر بن ہذیل سے دریافت کیا۔ وہ کہنے لگے: ”بھئی جب تک تمہیں طلاق ہو جانے کا تیقن نہیں تب تک وہ تمہاری بیوی ہے“ اس کے بعد میں ابوحنیفہ کے پاس آیا (اور ان سے یہ سب ماجرا کہا)۔ ابوحنیفہ کہنے لگے: جہاں تک سفیان کا تعلق ہے تو اس نے تمہیں ورع (احتیاط) پر مبنی فتوی دیا۔ جہاں تک زفر کا تعلق ہے تو اس نے تمہیں جو فتوی دیا وہ عین فقہ ہے۔ مگر جہاں تک شریک کا تعلق ہے تو اس کی بات تو ایسی ہے کہ تم کسی سے دریافت کرو کہ مجھے شک ہے کہ میرے اس کپڑے کو پیشاب لگا ہے یا نہیں لگا تو وہ تمہیں کہے: تم ایسے کرلو کہ اس پر پیشاب کرلو اور پھر اسے دھو لو!“۔

        چنانچہ ایک طالب علم پر لازم ہے کہ وہ استدلال کی مختلف جہتوں اور استنباط کے مختلف پہلوؤں سے شناسا ہونے پر خوب وقت صرف کرے اور اختلاف مذاہب میں نظر پیدا کرے۔ ایک طالب علم کیلئے درست نہیں کہ وہ استدلال کی بس ایک ہی جہت سے واقف ہو اور استنباط کے کسی ایک ہی پہلو پر کفایت کر بیٹھے۔ طالب علم کیلئے یہ بھی درست نہیں کہ اس کا سب سہارا بس ایک ہی عالم پر ہو (ایسے شخص پر زمانہ قدیم کے کسی اہل علم نے فقرہ چست کیا تھا) کہ وہ جو پائے علم جس کا کل سہارا بس ایک ہی عالم ہو اس شخص جیسا ہے جس کی کل ایک ہی بیوی ہو۔ وہ اگر حالت حیض میں چلی جائے تو یہ صاحب بیٹھے کے بیٹھے!

        (دیکھئے جامع بیان العلم ج 1 ص 130)


        یہ ہے مقصود ائمہء علم کے ہاں رائج ومعروف اس قول سے کہ وہ شخص جو اختلاف فقہاءسے آگاہ نہیں اس نے سمجھو فقہ کی ابھی بو بھی نہیں پائی۔

        چھٹا مسئلہ

        علم رکھنے یا نہ رکھنے کے حوالے سے لوگوں کے تین طبقے ہیں: جیسا کہ علی بن ابی طالب سے مروی ایک قول سے واضح ہے.... فرمایا: ”یا عالم ربانی‘

        یا وہ شخص جو برسبیل نجات علم کی جستجو کرتا ہے‘

        یا پھر بے علم سطح بین، ہر نئی آواز کے پیچھے چل پڑنے والے، جو علم کی روشنی میں اپنا راستہ ہی نہ دیکھ پائے اور اپنے راہ چلنے کیلئے کوئی بہت مضبوط بنیاد اختیار نہ کی“

        جہاں تک پہلے طبقے کی بات ہے بعض علماءربانین تو یہ اُمت محمد ﷺ کے وہ مجتہدین ہیں جو ہر زمان اور مکان میں پائے گئے۔ انہی کے سہارے دین قائم رہا ہے۔ یہی ہیں مسلمانوں کا ذریعہ احکام شریعت معلوم کرنے کے معاملہ میں اور حلال وحرام کو جاننے میں۔ پھر خاص طور پر فقہائے صحابہ۔ یہ نہ ہوں تو ہم جان ہی نہ سکیں کہ شرع کیا ہے اور کتاب وسنت کیا۔ اس امر کیلئے انہی کا واسطہ درکار ہے۔ یہ بہرحال ایک ایسا خاصہ ہے جو صرف اصحاب رسول کو حاصل ہے نہ کہ کسی اور کو“ (اعلام الموقعین) چنانچہ ہر وہ شخص جو شرع کا فہم پانا چاہتا ہے اور علم کتاب وسنت کا جویا ہے اسے چاہیے کہ اس مقصد تک انہی کو ذریعہ بنائے۔ یہ مجتہدین اُمت جس قدر دورِ صحابہ سے اقرب ہوں گے اسی قدر ان کا قرب صواب ہونا اغلب ہوگا۔

        Comment


        • #5
          Re: علم اختلاف کے سات مسائل


          چنانچہ تابعین میں جو مجتہدین ہوئے لازمی بات ہے کہ وہ صحابہ رضوان اللہ علیہم کے اقوال ومذاہب سے اپنے مابعد والوں سے کہیں بڑھ کر واقف ہوں۔ مجتہدین تابعین مذاہب صحابہ سے خروج یا تجاوز بھی نہ کرتے تھے۔ پھر اس طرح تبع تابعین کے دور کے مجتہدین، لازمی بات ہے کہ صحابہ اور تابعین دونوں کے مذاہب سے واقف ہوں علی ھذا القیاس اس تسلسل کے ساتھ ہم اپنے زمانے کے مجتہدین تک پہنچتے ہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ لازمی بات ہے یہ ان تمام سلف کے مذاہب سے واقف ہوں جن کے مذاہب کی علم شریعت میں وقعت واہمیت ہے....

          مثلاً دیکھیے ابوحنیفہ کیونکر اپنا منہج بیان کرتے ہیں، فرماتے ہیں
          اگر میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ میں ایک چیز نہ پاؤں تو میں قول صحابہ کو لیتا ہوں، (اختلاف کی صورت میں) صحابہ میں سے جس کا قول چاہوں اختیار کروں اور جس کا چاہوں چھوڑ دوں مگر من جملہ ان کے قول سے خروج نہ کروں گا۔

          (الانتقاءلابن عبدالبر ص142)


          ہر وہ شخص جو سلف کے مذہب خصوصاً سلف کے اجماع کے خلاف جاتا ہے یا کوئی ایسی بات نکال کر لاتا ہے جو سلف نے نہیں کی یا پھر سلف نے اس کی طرف اشارہ تو کیا مگر سلف کے ہاں اس کو شاذ سمجھا گیا، ایسے شخص کی بات تسلیم نہ کی جائے گی اور اس کی رائے بھی معتدبہ نہ ہوگی....

          کوئی مسئلہ ایسا نہیں جس کا شریعت کے اندر حکم موجود نہ ہو۔ یا تو وہ مسئلہ شریعت کی عمومیات سے لیا جائے گا یا وہ شریعت کے اندر علی وجہ التفصیل ہوگا۔ کوئی مسئلہ آج اس دور میں نیا پیش آجائے تو ہمیں اس سے بڑھ کر کچھ نہیں کرنا کہ اس کے نظائر واشباہ پہ اس کا قیاس کریں اور فروع کو ان کے اصول کی جانب لوٹا دیں، یوں اس معاملہ میں بھی سلف ہی کے اجتہاد اور آراءسے مدد لیں....

          امام محمد بن الحسن کہتے ہیں

          ”علم پایا جانا چار صورتوں میں ہے

          جو کتاب اللہ کے اندر واضح اور معلوم ہو اور جو اس قبیل سے ہو جو چیز سنت رسول اللہ میں آگئی ہو یا اس قبیل سے ہو جس چیز پہ صحابہ نے اجماع کر رکھا ہو یا جو اس قبیل سے ہو


          پھر اسی طرح وہ چیز بھی جس میں صحابہ نے گو اختلاف کیا ہو مگر حق پھر بھی انہی کے اقوال کے اندر کہیں ہوگا نہ کہ منجملہ صحابہ کے اقوال سے کہیں باہر۔ پس اگر صحابہ کے ہی اقوال میں سے کوئی بات اختیار کی جائے تو وہ علم ہے اور ہم اسی پر آگے مسائل کو قیاس کر سکتے ہیں، یا جو اس قبیل سے ہو


          جو چیز عام فقہائے اسلام کے ہاں مستحسن جانی گئی ہو، یا جو اس کی قبیل سے یا اس کی نظیر سے ہو....

          (اعلام الموقعین ج 2 ص 26)


          غرض علماءربانیین دراصل وہ ’اہل ذکر‘ ہیں جن سے دریافت کرنے کا کتاب اللہ میں حکم دیا گیا ہے۔ فرمایا

          فاسلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون

          ”دریافت کرو اہل علم سے اگر تم نہیں جانتے“۔

          یہی ہیں وہ ’اہل استنباط‘ جن کی طرف معاملات کو لوٹا دینے کی کتاب اللہ میں بات کہی گئی ہے۔ فرمایا

          وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُوْلِي الأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ

          (النساء:83)


          ”اور اگر لوٹا دیتے یہ اس (امر) کو رسول کی طرف اور اپنے میں سے اولی الامر کی طرف تو علم پا لیتے اس کا ان میں سے وہ لوگ جو اس کا استنباط کر لیتے ہوں“۔

          ہر مبتدی کا یہ کام نہیں کہ وہ استنباط کرے، جب تک کہ اس کے پاس استنباط کے سب اوزار اکٹھے نہ ہو جائیں اور جب تک کہ اس کو استنباط پر ملکہ حاصل ہو جائے۔ ابن قیم فرماتے ہیں

          ”استنباط یہ ہے کہ ایک آدمی کسی ایسی بات کا استخراج کر لینے میں کامیاب ہو جائے جو دوسروں پر مخفی رہنے والی ہو۔ لغت میں استنباط جس چیز کیلئے مستعمل ہے وہ ہے کسی شخص کا کنویں کی تہہ سے یا چشمے کی کھوہ سے پانی نکال لانا۔ یہی بات حضرت علی بن ابی طالب کی اس بات سے واضح ہوتی ہے کہ جب ان سے دریافت کیا گیا: کیا رسول اللہ ﷺ نے آپ لوگوں کو خصوصی طور پر کوئی ایسی چیز دی ہے جو سب لوگوں کو عطا نہیں ہوئی؟ تو فرمایا: نہیں اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پھاڑا اور نفس کی تخلیق کی سوائے یہ کہ ایسا فہم ہو جو خدا پنے کسی خاص بندے کو اپنی کتاب کی بابت عطا فرما دے“ چنانچہ یہ بات تو معلوم ہی ہے کہ (حضرت علی کے الفاظ میں) یہ جو ’فہم‘ ہے وہ کتاب اللہ کے لفظ کو یا اس کے عموم یا خصوص کو محض ’جان لینے‘ سے بڑھ کر کوئی چیز ہے۔ کیونکہ جہاں تک کتاب اللہ کے لفظ کا یا اس کے لغوی معنی کا تعلق ہے تو اس میں تو وہ سب لوگ ہی برابر ہوں گے جو لسان عرب سے واقف ہوں“۔

          (اعلام الموقعین ج 1 ص228)

          دوسری صنف ہے ”وہ شخص جو برسبیل نجات علم کی جستجو کرتا ہے“۔ یہ وہ شخص ہے جو درجہء استنباط کو نہیں پہنچتا سو یہ علما کے پیچھے چلتا ہے۔ ان کے اقوال اور فتاوی میں ہی نظر پیدا کرتا ہے، پھر وہ ان کی ادلہ میں سے ہی کسی ایک کو دوسری پر ترجیح دیتا ہے بشرطیکہ وہ اہل ترجیح میں سے ہو (یعنی ترجیح اولہ کی استطاعت رکھتا ہو) بصورت دیگر اہل علم میں سے ہی کسی کے مذہب کے پیچھے چلتا ہے کیونکہ یہ بہرحال نہیں ہو سکتا کہ وہ علم میں کسی خاص درجے کو پہنچ جانے تک اس معاملہ کو موءخر رکھے۔ اس سے کوئی مفر نہیں کہ ایک طالب علم ان مشہور معتدبہ مذاہب میں سے، جن کو کہ اُمت کا اعتراف حاصل ہے، کسی ایک مذہب کا التزام کرے، اس طرح کہ شرح حنیف کا علم لینے کے عمل میں اس کیلئے وہ ایک ابتدائی بنیاد بن جائے۔ چنانچہ اسے چاہئے کہ وہ اس مذہب کے اصول اور فروع سے شناسائی پانے پر خوب محنت کرے۔ تقلید (یعنی دلیل کا ادراک کئے بغیر قول تسلیم کرلینا) سے احتراز کرے کیونکہ یہ کام عوام کا ہے۔ تعصب سے خبردار رہے کیونکہ یہ کام اہل بدعت واھواءکا ہے۔

          طالب علم کیلئے یہ روا نہیں کہ وہ اقوال اہل علم میں بس رخصتیں اور آسانیاں اور شاذ اقوال ہی تلاش کرتا پھرے۔ انہی کیلئے دلیلیں ڈھونڈے اور یوں بغیر بصیرت اور علم، احکام شریعت کے اندر خبط کا مرتکب ہو۔ یہ ایک بہت خطرناک راہ ہو سکتی ہے خود اس کیلئے بھی اور اگر وہ لوگوں کو فتوی دیتا ہے تو لوگوں کیلئے بھی....

          طالب علم کیلئے یہ البتہ جائز ہے کہ جن مسائل کے بحث وتحقیق کیلئے تاحال اس کی ہمت اس کا ساتھ نہ دے سکی ہو یا جو مسائل اس پر واضح نہ ہو پائے ہوں ان مسائل کے اندر وہ تقلید کرلے یعنی سلف میں سے ایسے علماءکا قول اختیار کرلے جن پر اُمت اعتماد کرتی ہے یا پھر اس امام کا قول اختیار کرلے جس کے مذہب کا اس نے (علمی طور پر) التزام کر رکھا ہے.... یہاں تک کہ اس پر دلیل واضح ہو جائے۔ اس سے بہرحال کوئی مفر نہیں۔ کیونکہ یہ اس کیلئے ممکن ہی نہیں کہ جب تک وہ کسی مسئلہ میں پوری تحقیق نہیں کرلیتا اور اس کے ذہن میںا س مسئلہ کے دلائل اور وجوہ استدلال واضح نہیں ہو جاتے اور اس مسئلہ کے اندر ترجیح ادلہ کی اگر ضرورت ہے تو جب تک وہ ترجیح نہیں دے لیتا تب تک وہ اس مسئلہ میں کوئی بھی عمل کرنے سے رکا ہی رہے، اور یہ کہ شریعت کے سب مسائل کے ساتھ وہ یہی اسلوب برتے.... میں نے اہل علم میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں دیکھا جو کچھ نہ کچھ مسائل میں تقلید نہ کر لیتا ہو، چاہے اسے اس بات کا اندازہ ہو پائے یا نہ۔ کیونکہ یہ کسی کے بس میں نہیں کہ اس نے ہر مسئلہ میں تلاش اور اجتہاد کر لیا ہو.... اگر آپ اخبار سلف کا بھی تتبع کریں تو یہ پائیں گے کہ وہ بھی، ان مسائل میں جو ان پر مخفی رہ گئے ہوں، دوسروں کی تحقیق پر اعتماد کر لیتے اور اس معاملہ میں اپنے سے فقیہ تر شخص کا سہارا لیتے جو ان سے پہلے کسی دور میں گزر گیا ہو یا خود ان کے اپنے ہی دور میں پایا گیا ہو۔ ہاں جو چیز بچنے کی ہے وہ ہے تعصب جو کہ آدمی کو فکر ونظر سے نابینا کر دیتا ہے اور اتباع حق میں مانع ہوتا ہے....

          (ملاحظہ فرمائیے امام ابن القیم کی گفتگو جس میں انہوں نے مفتیوں کے طبقات levels بیان فرمائے ہیں۔ اعلام الموقعین ج 4ص 270)

          Comment


          • #6
            Re: علم اختلاف کے سات مسائل



            رہ گئے عوام تو وہ تقلید کریں گے ان اہل علم کی جو ان کے اپنے مابین پائے جائیں۔ ایک عامی کا یہ کام نہیں کہ وہ کسی معین مذہب کا التزام کرے یا اس کی طرف ہی اپنی نسبت کرے۔ البتہ لوگوں کی ’عوامیت‘ پر غور کریں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ’عوام‘ ہونے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک وہ جو بالکل ہی بنجارے ہیں اور علم ودانش کا کوئی اوزار رکھتے ہی نہیں یعنی مطلق عامی اور یا پھر وہ جو (صلاحیت تو کچھ نہ کچھ رکھتے ہوں گے مگر) علم سے تہی دامن ہیں.... سو یہ ان اہل علم کی جو ان کو فتوی دیں، تقلید کریں گے....

            علماءنے ذکر کیا ہے کہ فتوی دینے کیلئے جہاں ایسا مفتی مجتہد دستیاب نہ ہو جس کے علم اور زہد و ورع پر آدمی کو اطمینان ہو سکے وہاں اس کیلئے جائز ہے کہ اپنی حد تک تو کسی نہ کسی کی تقلید کرلے البتہ جس قول کی وہ تقلید کر رہا ہے دوسروں کو اس کی بنیاد پر فتوی نہ دے۔

            ان شاءاللہ یہی بات حق ہے۔ بصورت دیگر لوگ ان دو میں سے کسی ایک مشکل میں بہرحال پڑے رہیں گے

            الف

            یا تو حرج میں پڑے رہیں گے اور وہ اس صورت میں جب ہم ہر مسلمان کو مکلف کریں گے کہ وہ ایک مسئلہ کے ادلہ میں نظر سے بہرہ ور ہو اور اس کے شرعی حکم کے تعین کا اجتہاد کرے۔ تب لوگ احکام شریعت میں طرح طرح کا خبط ماریں گے کوئی ایک بات کو حلال کہہ رہا ہوگا تو کوئی حرام۔ ہر آدمی ہی فتوی دے رہا ہوگا اور بغیر علم اور بغیر بصیرت اجتہاد کرے گا۔ اختلاف فقہاءکا علم ان کی دسترس سے باہر ہے۔ عوام الناس یہ ادراک ہی نہ کر پائیں گے کہ فقہاءکے مسالک کسی مسئلہ میں مختلف ہوئے تو کیونکر اور اس اختلاف کے پیچھے جو عوامل کارفرما ہیں علمی طور پر ان کی کیا حیثیت ہے۔ ان کا کام نہیں کہ وہ اس بحر ناپیدا کنار میں غوطہ زن ہوں۔


            ب

            اور یا پھر یہ ہوگا کہ لوگ بہت سے احکام شریعت پر عملدرآمد کو ترک یا موءخر کر بیٹھیں گے .... اس انتظار میں کہ ’ترجیح ادلہ‘ کا عمل مکمل ہو جائے اور کسی مسئلہ کی بابت ’آثار وشواہد‘ انسان پر پوری طرح واضح اور بین ہو جائیں.... اور اس انداز فکر کے نتیجہ میں کہ سلف نے اس معاملہ میں جو کوئی موقف اختیار کیا ہے یا علماءنے اس کی بابت جو بیان کیا ہے خود وہ کوئی اتنا کافی ہے اور نہ اس قدر اہم کہ آدمی اسی کو اختیار کرلے!


            ساتواں مسئلہ

            علماءکے ہاں یہ بات معروف ہے کہ ’فتوی‘ یا ’اجتہاد‘ علم کا ایک ایسا درجہ ہے جو خدا کے فضل سے اُمت محمد ﷺ کے اندر ہر زمان اور مکان میں پایا جائے گا تاکہ دین کی حجت قائم رہے اور تاکہ مسلمانوں کا معاملہ استقامت پر رہے۔ پس اللہ تعالیٰ ہر زمانے میں ایسے لوگ پیدا کرتا رہے گا جو احکام شریعت کو مفصل کردیں اور حوادث (نئے پیش آمدہ امور) کا کتاب وسنت سے استنباط کرتے ہوئے فروع کو اصول کی جانب لوٹائیں۔

            اگر آپ زمانہ ہائے اسلام کا تتبع کریں تو آپ ہر زمانہ میں ہی اس بات کا مصداق پائیں گے۔ بلکہ آپ یہ بھی پائیں گے کہ جن زمانوں میں اجتہاد کو اُمت کے اندر خوب ترقی اور عروج حاصل رہا وہی زمانے اسلام کے سنہری دور رہے جن میں کہ مسلمان اپنی قوت اور اپنی تہذیبی ترقی کے عروج پر پائے گئے۔ جبکہ وہ زمانے جن میں کاہلی غالب رہی اور اجتہاد معطل کیا گیا وہ زمانے انحطاط اور تاریکی اور علمی وتہذیبی پسماندگی کے رہے۔ اگر آپ خود اس بات کا جائزہ لینا چاہیں تو اپنی آنکھوں سے ان متون اور شروح اور حواشی کو دیکھ سکتے ہیں جو ان (آخری) زمانوں میں لکھے گئے....

            سوال یہ ہے کہ وہ کونسے اوزار ہیں جن کی بدولت ایک جو یائے علم اس درجہء عظیم کا اہل ہو جائے؟ کب اس کیلئے جائز ہے کہ وہ اس منصب پہ فائز ہو؟ آئیے دیکھتے ہیں سلف اس بارہ میں کیا کہتے ہیں؟

            (1)

            جہاں تک آثار (مرویات) کا علم ہونے کا تعلق ہے: تو سلف کا قول ہے کہ ممکن طور پر وہ اس کے ایک بڑے حصہ پر عبور رکھتا ہو۔ سلف میں سے کسی نے اگر اس کی حد پانچ لاکھ احادیث کے لگ بھگ بیان کی ہے تو وہ برسبیل دقت exact figure نہیں کی، بلکہ برسبیل مثال کی ہے جس سے مقصود یہ کہ معاملہ کی نوعیت کا ذہنوں میں واضح ہو جانا آسان ہو۔ امام احمد سے دریافت کیا گیا: آدمی نے ایک لاکھ احادیث حفظ کر لی ہوں تو وہ فقیہ مانا جائے گا؟ فرمایا: نہیں۔ کہا: تو کیا دو لاکھ؟ فرمایا؟ نہیں۔ کہا تو کیا تین لاکھ؟ فرمایا: نہیں.... شاید اس قول سے امام احمد رحمہ اللہ نے دو اہم باتوں کی جانب اشارہ کیا ہے: ایک یہ کہ حفظ تنہا کافی نہیں کہ آدمی فقیہ ہوا اور فتوی پر قدرت رکھے۔ اور دوسری یہ کہ فقیہ جو فتوی دینے چلا ہو اس پر واجب ہے کہ شدید محتاط ہو اور (حفظ حدیث کے) اس عظیم الشان لازم کو کچھ کم اہم نہ جانے۔

            (2)

            جہاں تک رائے میں قوی ہونے کا تعلق ہے تو اس کو اہل فقہ کے مذاہب پر دسترس حاصل ہونی چاہیے اور فقہاءکی آراءپر مطلع ہونا چاہیے۔ علی بن شقیق کہتے ہیں میں سن رہا تھا کہ عبداللہ بن المبارک سے دریافت کیا گیا: آدمی کیلئے کب یہ جائز ہو جاتا ہے کہ وہ فتوی دے لے؟ فرمایا: جب وہ اثر (مرویات) کا عالم ہو اور رائے کے اندر صاحب نظر ہو۔

            (جامع بیان العلم لابن عبدالبر ج 1 ص 31)

            (3)

            اس پر لازم ہے کہ وہ علوم شریعت کا المام رکھتا ہو اور شریعت کے ان قواعد کے اندر اس کو درک حاصل ہو جن پر شریعت اپنے احکام کے معاملہ میں بنا کرتی ہے اور جن کے بغیر شریعت کے احکام نہیں سمجھے جا سکتے۔

            مثلاً امام شافعی کہتے ہیں

            کسی کیلئے جائز نہیں کہ وہ اللہ کے دین کے اندر فتوی دینے لگے، سوائے یہ کہ وہ ایک ایسا آدمی ہو جو کتاب اللہ میں گہری نظر رکھتا ہو۔ اس کے ناسخ ومنسوخ، اس کے محکم ومتشابہ سب پر دسترس رکھتا ہو۔ پھر ایسی ہی نظر اس کو حدیث میںحاصل ہو۔ پھر یہ کہ اشعار عرب پہ نظر رکھتا ہو۔ لغت کا عالم ہو۔ پھر (جس مسئلہ میں فتوی دے رہا ہو اس میں) سنت اور قرآن کی سب مطلوبہ نصوص کو جان چکا ہو۔ پھر یہ کہ اعتدال رکھنے والا ہو۔ پھر یہ کہ خطہ ہائے اسلام کے اندر جو فقہی طرز عمل رائج ہے ان کے اختلافات سے واقف ومطلع ہو۔ پھر یہ کہ اس کو اس معاملہ میں ایک ذوق اور ایک قدرتی صلاحیت حاصل ہو۔ پس اگر یہ ہو تو اس کیلئے جائز ہے کہ وہ رائے ظاہر کرے اور حلال وحرام کے اندر فتوی دے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو اس کیلئے روا نہیں کہ وہ فتوی دے۔


            (الفقیہ والمتفقہ للخطیب البغدادی)


            امام احمد بن حنبل کہتے ہیں

            جو آدمی فتوی دینا اپنے لئے روا سمجھتا ہو اس پر لازم ہے کہ وہ قرآن کی (قراءتوں اور دلالتوں وغیرہ کے) سب وجوہ کا عالم ہو اور اسانید کا بھی باقاعدہ عالم ہو۔

            (اِعلام الموقعین ج 1 ص 36)


            یحییٰ بن اَثم کہتے ہیں

            علوم میں سے کوئی بھی علم ایسا نہیں جس کا حاصل کرنا علماءپر اور طلبہء علم پر اور سب مسلمانوں پر اس سے واجب تر ہو جتنا کہ قرآن کے ناسخ ومنسوخ کا علم۔

            ابن سیرین حضرت حذیفہ سے روایت کرتے ہیں، کہا

            لوگوں کو فتوی دے دینے کیلئے تین ہی قسم کے آدمی کھڑے ہوتے ہیں


            ایک وہ جو قرآن کے ناسخ ومنسوخ کا علم رکھتا ہے۔ دوسرا، کوئی امیر عہدے دار جسے کسی معاملہ کو نمٹانے کیلئے بہرحال کوئی فیصلہ صادر کرنا ہے اور تیسرا، احمق جو خوامخواہ ایک کام اپنے سر لیتا ہے۔ ابن سیرینکہا کرتے تھے: جہاں تک پہلی دو صنفوں کا تعلق ہے تو ان میں میں آتا نہیں اور تیسری صنف میں شمار ہونے کی مجھے کوئی خواہش نہیں!

            (دیکھیے حوالہء سابق)


            البتہ جب ہم ’قرآن کے ناسخ ومنسوخ کا علم‘ رکھنے کی بابت سلف کے ہاں سنتے ہیں تو اس سے ایک بہت وسیع چیز ان کے ہاں مقصود ہوتی ہے۔ ابن القیم فرماتے ہیں: سلف کی مراد ناسخ ومنسوخ سے کسی وقت ہوتی ہے ایک حکم کا کلیتاً ختم کر دیا جانا جو کہ (نسخ کے حوالے سے) متاخرین کی اصطلاح ہے اور کسی وقت ان کی مراد ہوتی ہے دلالت عام ومطلق وظاہر وغیرہ جس کی (شریعت میں) کہیں تخصیص کر دی گئی ہو یا تقیید یا مطلق کا مقید پر محمول ہونا، یا اس کو کوئی (دقیق) تفسیر اور تبیین دی جانا یہاں تک کہ وہ لوگ استثناءیا شرط یا صفت کے آجانے کو بھی ’نسخ‘ بول دیتے تھے“۔

            ایک طالب علم کے یہ علم میں ہونا چاہیے کہ مرتبہء فتویٰ سب کے سب صحابہ کو بھی حاصل نہیں رہا حالانکہ جہاں تک لغت (اور ’ترجمہ‘) کا تعلق ہے تو سب کے سب صحابہ آج کے کسی بڑے سے بڑے فصیح سے بڑھ کر عربی میں فصیح تھے۔ پھر ان کو رسول اللہ ﷺ کی صحبت کا شرف حاصل ہونا اور آیات تنزیل کا ان کے اپنے دور میں اور ان کے سامنے اترا ہونا اس پر مستزاد۔ پھر بھی فتوں کی نسبت سے ان میں سات آدمی ہی مشہور ہوئے۔ دوسرے فتوی دینے میں یا درمیانے رہے اور یا پھر بہت کم فتوی دینے والے لوگ۔ کل صحابہ جن کا فتوی دینا تاریخ میں مذکور ہوا ایک سو تیس سے کچھ اوپر بنتے ہیں، جیسا کہ ابن القیم نے اپنی اعلام الموقعین کے اندر اس کی کچھ تفصیل دی ہے۔

            پس ہر شخص جو اپنے آپ کو اس رتبہ کیلئے نامزد کرتا ہے اور احکام شریعت میں نظر اور حلال و حرام میں معروفت رکھنے پر عازم ہے اور فتوی واجتہاد کیلئے آگے بڑھنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ ان سب اوزاروں پہ دسترس پائے اور یہ سب اہلیتیں اپنے اندر پیدا کرے۔ اس کیلئے آستینیں چڑھا لے۔ عزیمت کو زندہ کرے اور حصول علم میں راتیں جاگے.... خدا سے ہمیشہ دُعاگو رہے کہ اسے یہ نور مل جائے۔ علم دراصل ایک نور ہے جسے خدا کسی شخص کے قلب میں بھر دیتا ہے جیسا کہ

            امام مالک کا قول ہے

            ”علم کثرت مرویات کا نام نہیں۔ یہ تو ایک نور ہے جسے خدا کی جانب سے قلوب میں ڈال دیا جاتا ہے“۔

            میں نے یہ چند سطریں اس عظیم الشان موضوع پر لکھ دیں تو اس سے میرا مقصد یہ ہے کہ علم شریعت وفقہ کیلئے ہمتوں کو ایک مہمیز ملے اور عزائم کو ایک تحریک ہو اور یہ کہ حقیقت کے دو اساسی مصدروں یعنی کتاب اور سنت پر نظریں اور توجہ مرکوز ہو جائے اور افکار کو یہ شعور ملے کہ اس جوئے آب میں اترنا ہے تو کیسے اور اس سے سیراب ہونا ہے تو کیونکر اور اگر اوروں کو اس سے سیراب کرنا ہے تو اس کا کیا طریقہ۔

            اور پھر اس خوف کے ساتھ جو مجھے خود اپنی بابت اور طلاب علم دین کی بات لاحق ہونا چاہئے کہ کہیں ہم پر ہمارے امام اعظم ﷺ کا یہ فرمان منطبق نہ ہو

            ان اﷲ لا یقبض العلم انتزاعاً ینتزعہ من العباد، ولکن یقبض العلماء، حتی اذا لم یُبق عالماً اتخذ الناس روساً جُھالاً فسئلوا فافتوا بغیر علم فضلوا واضلوا

            (البخاری)


            ”خدا علم کو قبض کرے گا تو ایسے نہیں کہ اس کو یونہی بندوں سے اٹھا لے، بلکہ یوں کرے گا کہ علماءکو قبض کرے گا، یہاں تک کہ جب کوئی عالم بھی نہ رہنے دے گا تو لوگ جاہلوں کو ہی ریاست علم سونپ دیں گے۔ تب ان سے فتوے دریافت ہوں گے اور وہ بغیر علم فتوے دیں گے۔ سو وہ خود بھی بھٹکیں گے اور اوروں کو بھی بھٹکائیں گے“۔


            جہاں کچھ محدثین نے جرح وتعدیل کے باب میں فنی طور پر ابوحنیفہ کی تضعیف کی ہے وہاں کچھ محدثین مانند امام ذھبی نے ابوحنیفہ کو کبار حفاظ میں گنا ہے۔

            Comment

            Working...
            X