Re: چند سوال۔۔۔
واعلکیم اسلام محترم محمد علی جواد صاحب۔۔۔۔
بہت شکریہ تشریف اوری کا بہت سی وجوہات کی بنا پر اپ مجھے ہمیشہ سے ہی عزیز رہے ہیں اور اس پوسٹ میں جن لوگوں کو میں نے مخاطب کیا وہ ہیں جن سے مجھے بحثیت ایک ادنی طالب علم سیکھنے کو بہت کچھ ملا۔۔
باقی رہی اردو فونٹ کی بات تو کوئی مضائقہ نہیں میرے بھئ اپ عربی میں بھی لکھیں تو ہم اس کو کہیں نہ کہیں سے ٹرانسلیٹ کروا لیں گے حصول علم کے لیے یہ چھوٹی موٹی تکالیف کی کون پرواہ کرتا ہے اور یہ اردو تو ہم نے ابھی لکھنا شروع کی ورنہ تو شروع دن سے ہی رومن پڑھتے اور لکھتے آئے ہیں سو یہ کوئی ایشو نہیں ہے۔۔
اپ نے فرمایا کہ سائنس آگے کیسے بڑھ رہی اور مذہب کیسے پیھچے ہٹ رہا؟ جناب من یہ اصل سوال نہیں تھا بلکہ تہمید تھی اس پہ بھی کہوں گا تنزل پذیری کا مفہوم اپ کو معلوم ہونا چاہیے مذہب میں زوال پذیری مجںونانہ تعصب کہا کہا جاتا ہے۔۔مذہاب عالم کی تاریخ اپ جیسے جہاں دیدہ آدمی سے چھپی نیں ہوگی کہ ابتدائی دور میں ہر مذہب کے پیروکاوں میں لطف و کرم روادر اور وسعت مشرب کے اوصاف پاے جاتے ہیں جن سے متاثر ہو کر لوگ جوک در جوک اس مذہب کو قبول کر لیتے ہیں۔۔ لیکن چند نسلوں بعد جب خارجی ماحول کے تقاضوں سے چشم پوشی اختار کر لی جاتی ہے تو اس مذہب کے پیرو سیاسی اخالقی تنزل کا شکار ہو جاتے ہیں وار روادری کے بجائے تعصب بے جا نمو پذیر ہوتا ہے ۔۔فرقہ آرائی کا دوردورا ہوتا ہے اور اصل مذہب متعدد فرقوں میں بٹ جاتا یے اس کی ابتدائی شکل و صورت بھی پہچانی نہیں جاتی۔ فرقے اپس میں نزاع و پیکار کا بازار گرم کرتے ہیں اور ہر شخص کم سواد شخص جو فقہ میں معمولی سا بھی درک رکھتا اپنے خیالات کو دوسروں میں ٹھونسنے کی کوشش کرتا اور مذۃب کو توڑ موڑ کے حسب منشا تاویلں کرتا ہے۔ سو پا گرد و پیش دیکھ سکتے ہیں کہ مذہب اقدار تنزل کا شکار ہیں اور موجودہ سائنسی معاشعرہ کی بنیاد جن علوم پہ جیسے فلیکات، طبعیات، سیاسیات، طب، کیمیا، حیاتیات۔مویسقی، فن تعمیر وغیرہ وغیرہ سب سائٹفک اصولوں پہ مبنی ہیں۔۔تو اس تناظر میں دیکھا جائے تو مذہب روبہ زوال ہے وہ موجودہ دور کی کسی بھی سیاسی علمی سائنسی ذمہ داری قبول کرنے پہ تیار نہیں اور اگر آپ نظر غائر دیکھیں تو میرا پوائیٹ آف ویو ہی یہی کہ اگر مسلمانوں کا قران کسی سیاسی، سماجی، علمی تمدنی نظام کاماخزذ بن سکتا تھا تو اس کے لے کوشش کیوں نہیں کی گئی؟ا
پھر اپ نے کہا پرانی سائنسی تاریخ پہ نظر دوڑائیں تو جناب سقراط سے سرمد تک۔۔ کس گروہ نہ کس کی گردنیں اڑائی کس نے لوگوں کی آواززیں ان کے مجروح سییوں میں قید کی۔کس نے لوگوں کو زندہ آگ میں جھونکا، کس نے لوگوں سے ان کے ھقوق چھینے کس نے خدا کو ایک خوفناک متلون مزاج آمر کے طور پر پپیش کیا اور لوگوں کو مطلق العنان بادشاہوں کی اطاطت پہ مجبور کیا۔؟۔۔گلیلو کو کس عدالت میں پیش کیا گیا تھاِ کس گروہ نے لوگوں کے قتل کے فتوی جاری کئے تھے ایسی بات مت کریں جس سے تاریخ کے زخم ہرے ہوجائیں۔۔
پھر اپ نے فرمایا کے سائنس میں روز بروز نئی تھیوری جاتی اور پرانی کو رد کر دیا جاتا۔۔تو جناب سائنس کی یہی خوبی جو اسے قابل قبول بناتی ہے کہ وہ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔۔اپنے آپ کو بہتر بناتی رہت ہے۔۔کہ یہ کائنات ہمہ وقت حرکت میں ہے۔۔‘ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔۔۔اور مذہب میں وہی ضابطے جو صدیوں پہلے تھے اب بدلتے حالات میں ان کو ساتھ لیے کر نہیں چلا جاسکتا ہے ۔۔ابن رشد نے ہساپنیہ میں مسلمانوں کے زوال کی ایک وجہ ان کی ادھی آبادی یعنی عورتوں کو گملے کا پھول بنانا اور مردوں کے شانہ بشانہ نہ چلن قرار دیا ہے۔اب نیا دور ہے نئے تقاضے ہیں اب اپ کسی کو برائی کرتے دیکھ کر روک نہیں سکتے ورنہ ملک ایک دن بھی نہ چلے کے جتنے فرد اتنے خیر و شر کے معیار ہیں۔
پھر اپ بربادی کو سائنس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں تو جناب ایک مثال ہے کہ اگر بندروں کے ہاتھ میں استرے دے دئے جائیں تو اس کا مطلب یہ نیہں کہ استرے قصور وار ۔اگر جنگیں ہوئی تو سائنس کو کچھ لوگوں نے غلط استعمال کیا اس میں قصور ان بدکیش لوگوں کا تھا نہ کہ سائنس کا اور کس نام جننگں ہوئی مذہب کے نام پہ یہ بھی اپ جانتے ہی ہیں۔
باقی اصل سوال کا جواب اپ نے نہیں دیا میں اپ کی طرف سے اس کا انتظار کروں گا
خوش رہیں
تابانی
بہت شکریہ تشریف اوری کا بہت سی وجوہات کی بنا پر اپ مجھے ہمیشہ سے ہی عزیز رہے ہیں اور اس پوسٹ میں جن لوگوں کو میں نے مخاطب کیا وہ ہیں جن سے مجھے بحثیت ایک ادنی طالب علم سیکھنے کو بہت کچھ ملا۔۔
باقی رہی اردو فونٹ کی بات تو کوئی مضائقہ نہیں میرے بھئ اپ عربی میں بھی لکھیں تو ہم اس کو کہیں نہ کہیں سے ٹرانسلیٹ کروا لیں گے حصول علم کے لیے یہ چھوٹی موٹی تکالیف کی کون پرواہ کرتا ہے اور یہ اردو تو ہم نے ابھی لکھنا شروع کی ورنہ تو شروع دن سے ہی رومن پڑھتے اور لکھتے آئے ہیں سو یہ کوئی ایشو نہیں ہے۔۔
اپ نے فرمایا کہ سائنس آگے کیسے بڑھ رہی اور مذہب کیسے پیھچے ہٹ رہا؟ جناب من یہ اصل سوال نہیں تھا بلکہ تہمید تھی اس پہ بھی کہوں گا تنزل پذیری کا مفہوم اپ کو معلوم ہونا چاہیے مذہب میں زوال پذیری مجںونانہ تعصب کہا کہا جاتا ہے۔۔مذہاب عالم کی تاریخ اپ جیسے جہاں دیدہ آدمی سے چھپی نیں ہوگی کہ ابتدائی دور میں ہر مذہب کے پیروکاوں میں لطف و کرم روادر اور وسعت مشرب کے اوصاف پاے جاتے ہیں جن سے متاثر ہو کر لوگ جوک در جوک اس مذہب کو قبول کر لیتے ہیں۔۔ لیکن چند نسلوں بعد جب خارجی ماحول کے تقاضوں سے چشم پوشی اختار کر لی جاتی ہے تو اس مذہب کے پیرو سیاسی اخالقی تنزل کا شکار ہو جاتے ہیں وار روادری کے بجائے تعصب بے جا نمو پذیر ہوتا ہے ۔۔فرقہ آرائی کا دوردورا ہوتا ہے اور اصل مذہب متعدد فرقوں میں بٹ جاتا یے اس کی ابتدائی شکل و صورت بھی پہچانی نہیں جاتی۔ فرقے اپس میں نزاع و پیکار کا بازار گرم کرتے ہیں اور ہر شخص کم سواد شخص جو فقہ میں معمولی سا بھی درک رکھتا اپنے خیالات کو دوسروں میں ٹھونسنے کی کوشش کرتا اور مذۃب کو توڑ موڑ کے حسب منشا تاویلں کرتا ہے۔ سو پا گرد و پیش دیکھ سکتے ہیں کہ مذہب اقدار تنزل کا شکار ہیں اور موجودہ سائنسی معاشعرہ کی بنیاد جن علوم پہ جیسے فلیکات، طبعیات، سیاسیات، طب، کیمیا، حیاتیات۔مویسقی، فن تعمیر وغیرہ وغیرہ سب سائٹفک اصولوں پہ مبنی ہیں۔۔تو اس تناظر میں دیکھا جائے تو مذہب روبہ زوال ہے وہ موجودہ دور کی کسی بھی سیاسی علمی سائنسی ذمہ داری قبول کرنے پہ تیار نہیں اور اگر آپ نظر غائر دیکھیں تو میرا پوائیٹ آف ویو ہی یہی کہ اگر مسلمانوں کا قران کسی سیاسی، سماجی، علمی تمدنی نظام کاماخزذ بن سکتا تھا تو اس کے لے کوشش کیوں نہیں کی گئی؟ا
پھر اپ نے کہا پرانی سائنسی تاریخ پہ نظر دوڑائیں تو جناب سقراط سے سرمد تک۔۔ کس گروہ نہ کس کی گردنیں اڑائی کس نے لوگوں کی آواززیں ان کے مجروح سییوں میں قید کی۔کس نے لوگوں کو زندہ آگ میں جھونکا، کس نے لوگوں سے ان کے ھقوق چھینے کس نے خدا کو ایک خوفناک متلون مزاج آمر کے طور پر پپیش کیا اور لوگوں کو مطلق العنان بادشاہوں کی اطاطت پہ مجبور کیا۔؟۔۔گلیلو کو کس عدالت میں پیش کیا گیا تھاِ کس گروہ نے لوگوں کے قتل کے فتوی جاری کئے تھے ایسی بات مت کریں جس سے تاریخ کے زخم ہرے ہوجائیں۔۔
پھر اپ نے فرمایا کے سائنس میں روز بروز نئی تھیوری جاتی اور پرانی کو رد کر دیا جاتا۔۔تو جناب سائنس کی یہی خوبی جو اسے قابل قبول بناتی ہے کہ وہ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔۔اپنے آپ کو بہتر بناتی رہت ہے۔۔کہ یہ کائنات ہمہ وقت حرکت میں ہے۔۔‘ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔۔۔اور مذہب میں وہی ضابطے جو صدیوں پہلے تھے اب بدلتے حالات میں ان کو ساتھ لیے کر نہیں چلا جاسکتا ہے ۔۔ابن رشد نے ہساپنیہ میں مسلمانوں کے زوال کی ایک وجہ ان کی ادھی آبادی یعنی عورتوں کو گملے کا پھول بنانا اور مردوں کے شانہ بشانہ نہ چلن قرار دیا ہے۔اب نیا دور ہے نئے تقاضے ہیں اب اپ کسی کو برائی کرتے دیکھ کر روک نہیں سکتے ورنہ ملک ایک دن بھی نہ چلے کے جتنے فرد اتنے خیر و شر کے معیار ہیں۔
پھر اپ بربادی کو سائنس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں تو جناب ایک مثال ہے کہ اگر بندروں کے ہاتھ میں استرے دے دئے جائیں تو اس کا مطلب یہ نیہں کہ استرے قصور وار ۔اگر جنگیں ہوئی تو سائنس کو کچھ لوگوں نے غلط استعمال کیا اس میں قصور ان بدکیش لوگوں کا تھا نہ کہ سائنس کا اور کس نام جننگں ہوئی مذہب کے نام پہ یہ بھی اپ جانتے ہی ہیں۔
باقی اصل سوال کا جواب اپ نے نہیں دیا میں اپ کی طرف سے اس کا انتظار کروں گا
خوش رہیں
تابانی
Comment