فقہ حنفی کے بہت سے مسائل صحیح حدیث سے ثابت
نہیں۔اعترافِ حقیقت!
بریلوی مکتبہ فکر کے مشہور عالم اور دارالعلوم نعیمیہ کراچی کے ’شیخ الحدیث‘
جناب غلام رسول سعیدی صاحب اپنی کتاب’’نعمۃ الباری فی شرح صحیح البخاری‘‘ میں’ حضرت
فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غسل کس نے دیا؟‘ مسئلہ کے تحت ان فقہاء احناف کا ردّ کرتے
ہوئے جن کے نزدیک حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اپنے ہاتھ
سے غسل دینا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے،رقمطراز ہیں:
حضرت علی کے حضرت فاطمہ رضی اللہ
عنہا کو غسل دینے پر ایک شبہ کا ازالہ
بعض علماء احناف نے اس پر اعتراض کرتے
ہوئے لکھا ہے:
یہ کسی حدیث صحیح سے ثابت نہیں کہ مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم
نے خود اپنے ہاتھ سے غسل دیا۔ میں کہتا ہوں کہ فقہ
حنفی اور اہل سنت کے اور بھی مسائل ہیں جو حدیث صحیح سے ثابت نہیں ہیں،پھر حضرت علی
کے غسل دینے کے مسئلہ میں حدیث صحیح کا مطالبہ کیوں کیا جاتا
ہے۔
فقہاء احناف کے نزدیک نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ
باندھنا سنت ہے حالانکہ یہ سنت سنن ابوداؤد کی جس حدیث سے ثابت ہے وہ بالاتفاق ضعیف
ہے۔دیوبندیت کے پر اسرار امام حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نہ جانے وجد میں آکر کیا کیا
کہتے رہے ہیں اور آل تقلید کے سربستہ رازوں کو کیسے کیسے افشاء کرتے رہے ہیں , ایک
جھلک آپ بھی ملاحظہ فرمالیں :
۲۹۰ :۔ میں (راوی ملفوظات) حضرت کی خدمت میں غذائے
روح کا وہ سبق جو شاہ نور محمد صاحب کی شان میں ہے سنا رہا تھا ۔ جب اثر مزار شریف
کا بیا ن آیا تو آپ نے فرمایا کہ میرے حضرت کا ایک جولاہا مرید تھا ۔ بعد انتقال
حضرت کے مزار شریف پر عرض کیا کہ حضرت میں بہت پریشان اور روٹیوں کو محتاج ہوں کچھ
دستگیری فرمائیے ۔ حکم ہوا کہ تم کو ہمارے مزار سے دو آنے یا آدھ آنہ روز ملا کرے
گا ۔ ایک مرتبہ میں زیارت مزار کو گیا ۔ وہ شخص بھی حاضر تھا ۔ اس نے کل کیفیت بیان
کرکے کہا کہ مجھے ہر روز وظیفہ مقرر پائیں قبر سے ملا کرتا ہے ۔
امداد المشتاق
صفحہ ۱۴۴
رسول الله ﷺ کے بعد بھي نبي آسکتا ہے !!!
اگر بالفرض بعد زمانہ نبوي ﷺ کوئي نبي پيدا ہو تو پھر بھي خاتميت محمدي
ﷺ ميں کچھ فرق نہيں آئے گا ۔
مولانا محمد قاسم نانوتوى"
قاسم نانوتوى اور رشید احمد گنگوہی ، دارالعلوم ديوبند كے بانی ہيں شايد اس ليے
صاحب موضوع نے اسے پورے ديوبندى مكتب فكر كى سوچ قرار ديا۔
محرم عورتوں سے زنا اور فقہ حنفی !
فقہ حنفی کی معتبر ترین کتابوں میں لکھا ہے :
ومن تزوّج امرأۃ لا یحلّ لہ
نکاحہا فوطئہا ، لا حدّ علیہ عند أبی حنیفۃ ۔
''جو شخص ایسی عورت
سے شادی کرے جس سے نکاح کرنا اس کے لیے جائز نہیں، پھر وہ اس سے جماع کر لے تو اس
پر امام ابوحنیفہ کے نزدیک کوئی شرعی سزا نہیں۔''(الہدایۃ : ١/٥١٦، القدوری : ص
١٨٦، واللفظ لہ)
صاحب ِ ہدایہ لکھتے ہیں :
لکنّہ یوجع عقوبۃ إذا کان
علم بذلک ۔
'' اگر اسے اس (کام کے حرام ہونے کے)بارے میں علم تھا
تو اسے بطور سزا مار پیٹ کی جائے گی۔''
یہ بات صاحب ِ ہدایہ کی اپنی ہے، فقہ
حنفی کچھ اور ہی کہتی ہے۔
یہاںایک اور معروف فتویٰ بھی ملاحظہ فرمائیں :
وکذلک لو تزوّج
بذات رحم محرم نحو البنت والأخت والأمّ والعمّۃ والخالۃ ، وجامعہا ، لا حدّ علیہ فی
قول أبی حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالٰی ، وإن قال : علمت أنّہا علیّ حرام ۔
''اسی طرح اگر کوئی آدمی اپنی محرم عورتوں مثلاً بیٹی ، بہن ،
ماں ، پھوپھی ، خالہ سے شادی کرے ، پھر ان کے ساتھ جماع کر لے تو امام ابوحنیفہ کے
نزدیک اس پر کوئی شرعی سزا نہیں ہو گی اگرچہ وہ کہہ بھی دے کہ مجھے ان کا اپنے اوپر
حرام ہونا معلوم ہے۔''
(فتاوی عالمگیری : ٣/٤٦٨)
دیوبندیت کے سرخیل رشید احمد گنگوہی نے اپنا فتاوى
المعروف فتاوى رشیدیہ میں رافضیوں اور بریلویوں کی ہمنوائی میں قبروں پر قرآن پڑھنے
اور مردوں سے فیض حاصل کرنے کی کھلی اجازت دی ہے اور کہا ہے کہ اس میں کوئی حرج
نہیں ۔
ملاحظہ فرمائیں :
قبروں پر شرح صدر
کی اصلیت
سوال :۔ بعض بعض صوفی قبور اولیاء پر چشم بند کرکے بیٹھتے ہیں اور
سورۃ الم نشرح پڑھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا سینہ کھلتا ہے اور ہم کو بزرگوں سے
فیض ہوتا ہے اس بات کی کچھ اصل بھی ہے یا نہیں ۔
جواب :۔ اس کی بھی اصل ہے
اس میں کوئی حرج نہیں اگر بہ نیت خیر ہے فقط واللہ
اعلم
فتاوى رشیدیہ صفحہ ۵۹
اہل قبور سے علم کا حاصل ہونا اور مشورہ کا
جواب ملنا ممکن ہے ۔
یعنی اب آپ بلاجھجک ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے براہ راست
علم حاصل کرسکتے ہیں
یعقوب نانوتی صاحب علمائے دیوبند معروف جادوگر مشایخ
میں سے ہیں , وہ علمائے دیوبند کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
" اور
بعض لوگوں کو جو بطور خرق عادت اہل قبور سے تعلیم علم یا جواب مشورہ وغیرہ امور
حاصل ہوتے ہیں وہ ایک فیض غیبی ہے کہ اہل استعداد کو بوساطت بعضی ارواح کے ہو جاتا
ہے
دیوبندیت کے پر اسرار امام حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نہ جانے وجد
میں آکر کیا کیا کہتے رہے ہیں اور آل تقلید کی بد عقیدگیوں کے سربستہ رازوں کو کیسے
کیسے افشاء کرتے رہے ہیں , ایک جھلک آپ بھی ملاحظہ فرمالیں
:
........... آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم
قبر مقدس خود سے بصورت حضرت میانجو صاحب قدس سرہ نکلے اور عمامہ لیا ہوا اور ترہ
اپنے دست مبارک میں لیے ہوئے تھے میرے سر پر غایت شفقت سے رکھ دیا اور کچھ نہ
فرمایا اور واپس تشریف لے گئے ۔
امداد
المشتاق صفحہ ۱۹
وحدت الوجود ایک انتہائی شرکیہ عقیدہ ہے ۔ جس کے
بارہ میں "اہل السنہ" کی دو رائے نہیں ۔ تنظیم اسلامی کے بانی اور معروف مفسر قرآن
جناب ڈاکٹر اسرار احمد اسی عقیدہ کے حامل تھے ۔
وحدت الوجود کے اس عقیدہ کو ابن
العربی صوفی نے پروان چڑھایا ہے ۔ وہ اپنی کتاب فصوص الحکم میں لکھتے ہیں
:
فأنت عبد وأنت رب یعنی تو بندہ ہے
اور تو رب ہے ۔
ڈاکٹر اسرار احمد صاحب ابن عربی کے اسی عقیدہ کو یوں پیش کرتے
ہوئے اپنی تصنیف " ام المسبحات ص ۸۸" میں لکھتے ہیں :
" میرے
نزدیک اس کا حل وہ ہے جو شیخ ابن عربی نے دیا ہے ‘ جو میں بیان کر چکا ہوں ‘ کہ
حقیقت وماہیت کے وجود کے اعتبار سے خالق ومخلوق کا وجود ایک ہے ، کائنات میں وہی
وجود بسیط سرایت کیے ہوئے ہے ۔۔۔۔۔۔۔"
یعنی ڈاکٹر اسرار صاحب کے نزدیک
بھی خالق ومخلوق کا وجود ایک ہے ۔ گویا انسان خالق بھی ہے مخلوق بھی !
یعنی وہی
عقیدہ وحدت الوجود !
اعاذنا اللہ منہا
نہیں۔اعترافِ حقیقت!
بریلوی مکتبہ فکر کے مشہور عالم اور دارالعلوم نعیمیہ کراچی کے ’شیخ الحدیث‘
جناب غلام رسول سعیدی صاحب اپنی کتاب’’نعمۃ الباری فی شرح صحیح البخاری‘‘ میں’ حضرت
فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غسل کس نے دیا؟‘ مسئلہ کے تحت ان فقہاء احناف کا ردّ کرتے
ہوئے جن کے نزدیک حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اپنے ہاتھ
سے غسل دینا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے،رقمطراز ہیں:
حضرت علی کے حضرت فاطمہ رضی اللہ
عنہا کو غسل دینے پر ایک شبہ کا ازالہ
بعض علماء احناف نے اس پر اعتراض کرتے
ہوئے لکھا ہے:
یہ کسی حدیث صحیح سے ثابت نہیں کہ مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم
نے خود اپنے ہاتھ سے غسل دیا۔ میں کہتا ہوں کہ فقہ
حنفی اور اہل سنت کے اور بھی مسائل ہیں جو حدیث صحیح سے ثابت نہیں ہیں،پھر حضرت علی
کے غسل دینے کے مسئلہ میں حدیث صحیح کا مطالبہ کیوں کیا جاتا
ہے۔
فقہاء احناف کے نزدیک نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ
باندھنا سنت ہے حالانکہ یہ سنت سنن ابوداؤد کی جس حدیث سے ثابت ہے وہ بالاتفاق ضعیف
ہے۔دیوبندیت کے پر اسرار امام حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نہ جانے وجد میں آکر کیا کیا
کہتے رہے ہیں اور آل تقلید کے سربستہ رازوں کو کیسے کیسے افشاء کرتے رہے ہیں , ایک
جھلک آپ بھی ملاحظہ فرمالیں :
۲۹۰ :۔ میں (راوی ملفوظات) حضرت کی خدمت میں غذائے
روح کا وہ سبق جو شاہ نور محمد صاحب کی شان میں ہے سنا رہا تھا ۔ جب اثر مزار شریف
کا بیا ن آیا تو آپ نے فرمایا کہ میرے حضرت کا ایک جولاہا مرید تھا ۔ بعد انتقال
حضرت کے مزار شریف پر عرض کیا کہ حضرت میں بہت پریشان اور روٹیوں کو محتاج ہوں کچھ
دستگیری فرمائیے ۔ حکم ہوا کہ تم کو ہمارے مزار سے دو آنے یا آدھ آنہ روز ملا کرے
گا ۔ ایک مرتبہ میں زیارت مزار کو گیا ۔ وہ شخص بھی حاضر تھا ۔ اس نے کل کیفیت بیان
کرکے کہا کہ مجھے ہر روز وظیفہ مقرر پائیں قبر سے ملا کرتا ہے ۔
امداد المشتاق
صفحہ ۱۴۴
رسول الله ﷺ کے بعد بھي نبي آسکتا ہے !!!
اگر بالفرض بعد زمانہ نبوي ﷺ کوئي نبي پيدا ہو تو پھر بھي خاتميت محمدي
ﷺ ميں کچھ فرق نہيں آئے گا ۔
مولانا محمد قاسم نانوتوى"
قاسم نانوتوى اور رشید احمد گنگوہی ، دارالعلوم ديوبند كے بانی ہيں شايد اس ليے
صاحب موضوع نے اسے پورے ديوبندى مكتب فكر كى سوچ قرار ديا۔
محرم عورتوں سے زنا اور فقہ حنفی !
فقہ حنفی کی معتبر ترین کتابوں میں لکھا ہے :
ومن تزوّج امرأۃ لا یحلّ لہ
نکاحہا فوطئہا ، لا حدّ علیہ عند أبی حنیفۃ ۔
''جو شخص ایسی عورت
سے شادی کرے جس سے نکاح کرنا اس کے لیے جائز نہیں، پھر وہ اس سے جماع کر لے تو اس
پر امام ابوحنیفہ کے نزدیک کوئی شرعی سزا نہیں۔''(الہدایۃ : ١/٥١٦، القدوری : ص
١٨٦، واللفظ لہ)
صاحب ِ ہدایہ لکھتے ہیں :
لکنّہ یوجع عقوبۃ إذا کان
علم بذلک ۔
'' اگر اسے اس (کام کے حرام ہونے کے)بارے میں علم تھا
تو اسے بطور سزا مار پیٹ کی جائے گی۔''
یہ بات صاحب ِ ہدایہ کی اپنی ہے، فقہ
حنفی کچھ اور ہی کہتی ہے۔
یہاںایک اور معروف فتویٰ بھی ملاحظہ فرمائیں :
وکذلک لو تزوّج
بذات رحم محرم نحو البنت والأخت والأمّ والعمّۃ والخالۃ ، وجامعہا ، لا حدّ علیہ فی
قول أبی حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالٰی ، وإن قال : علمت أنّہا علیّ حرام ۔
''اسی طرح اگر کوئی آدمی اپنی محرم عورتوں مثلاً بیٹی ، بہن ،
ماں ، پھوپھی ، خالہ سے شادی کرے ، پھر ان کے ساتھ جماع کر لے تو امام ابوحنیفہ کے
نزدیک اس پر کوئی شرعی سزا نہیں ہو گی اگرچہ وہ کہہ بھی دے کہ مجھے ان کا اپنے اوپر
حرام ہونا معلوم ہے۔''
(فتاوی عالمگیری : ٣/٤٦٨)
دیوبندیت کے سرخیل رشید احمد گنگوہی نے اپنا فتاوى
المعروف فتاوى رشیدیہ میں رافضیوں اور بریلویوں کی ہمنوائی میں قبروں پر قرآن پڑھنے
اور مردوں سے فیض حاصل کرنے کی کھلی اجازت دی ہے اور کہا ہے کہ اس میں کوئی حرج
نہیں ۔
ملاحظہ فرمائیں :
قبروں پر شرح صدر
کی اصلیت
سوال :۔ بعض بعض صوفی قبور اولیاء پر چشم بند کرکے بیٹھتے ہیں اور
سورۃ الم نشرح پڑھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا سینہ کھلتا ہے اور ہم کو بزرگوں سے
فیض ہوتا ہے اس بات کی کچھ اصل بھی ہے یا نہیں ۔
جواب :۔ اس کی بھی اصل ہے
اس میں کوئی حرج نہیں اگر بہ نیت خیر ہے فقط واللہ
اعلم
فتاوى رشیدیہ صفحہ ۵۹
اہل قبور سے علم کا حاصل ہونا اور مشورہ کا
جواب ملنا ممکن ہے ۔
یعنی اب آپ بلاجھجک ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے براہ راست
علم حاصل کرسکتے ہیں
یعقوب نانوتی صاحب علمائے دیوبند معروف جادوگر مشایخ
میں سے ہیں , وہ علمائے دیوبند کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
" اور
بعض لوگوں کو جو بطور خرق عادت اہل قبور سے تعلیم علم یا جواب مشورہ وغیرہ امور
حاصل ہوتے ہیں وہ ایک فیض غیبی ہے کہ اہل استعداد کو بوساطت بعضی ارواح کے ہو جاتا
ہے
دیوبندیت کے پر اسرار امام حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نہ جانے وجد
میں آکر کیا کیا کہتے رہے ہیں اور آل تقلید کی بد عقیدگیوں کے سربستہ رازوں کو کیسے
کیسے افشاء کرتے رہے ہیں , ایک جھلک آپ بھی ملاحظہ فرمالیں
:
........... آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم
قبر مقدس خود سے بصورت حضرت میانجو صاحب قدس سرہ نکلے اور عمامہ لیا ہوا اور ترہ
اپنے دست مبارک میں لیے ہوئے تھے میرے سر پر غایت شفقت سے رکھ دیا اور کچھ نہ
فرمایا اور واپس تشریف لے گئے ۔
امداد
المشتاق صفحہ ۱۹
وحدت الوجود ایک انتہائی شرکیہ عقیدہ ہے ۔ جس کے
بارہ میں "اہل السنہ" کی دو رائے نہیں ۔ تنظیم اسلامی کے بانی اور معروف مفسر قرآن
جناب ڈاکٹر اسرار احمد اسی عقیدہ کے حامل تھے ۔
وحدت الوجود کے اس عقیدہ کو ابن
العربی صوفی نے پروان چڑھایا ہے ۔ وہ اپنی کتاب فصوص الحکم میں لکھتے ہیں
:
فأنت عبد وأنت رب یعنی تو بندہ ہے
اور تو رب ہے ۔
ڈاکٹر اسرار احمد صاحب ابن عربی کے اسی عقیدہ کو یوں پیش کرتے
ہوئے اپنی تصنیف " ام المسبحات ص ۸۸" میں لکھتے ہیں :
" میرے
نزدیک اس کا حل وہ ہے جو شیخ ابن عربی نے دیا ہے ‘ جو میں بیان کر چکا ہوں ‘ کہ
حقیقت وماہیت کے وجود کے اعتبار سے خالق ومخلوق کا وجود ایک ہے ، کائنات میں وہی
وجود بسیط سرایت کیے ہوئے ہے ۔۔۔۔۔۔۔"
یعنی ڈاکٹر اسرار صاحب کے نزدیک
بھی خالق ومخلوق کا وجود ایک ہے ۔ گویا انسان خالق بھی ہے مخلوق بھی !
یعنی وہی
عقیدہ وحدت الوجود !
اعاذنا اللہ منہا
Comment