علم باطن،علم تصوف۔۔علم لدنی
اسلام علیکم امید کرتا ہوں سب بخریت ہونگے۔۔اسی سکیشن میں تصوف پہ میں ایک پوسٹ کر چکا یہ اسی پوسٹ کو متعلق کچھ مذید وضاعت ہے امید کرتا ہوں اپ کے علم میں اضافے کا باعث بنے گی
خرد دشمن صوفیوں کا خیال ہے کہ انسان کے پانچ طاہری ھواس محض مادی ذرائع کی شناخت کے لیے عقل کے مددگار ہیں مگر روح اصل کا سراغ کبھی نہیں کر سکتے بلکہ نفس انسانی میں عقل کے بالمقابل ایک عنصر جو زیادہ اہم ہے وجدان یا باطنی قوت ہے۔۔علم لدنی ایک ایسا ہی پر اسرار علم ہے جو صرف باطنی حاسے کے حامل شخص کو ھاصل ہو سکتا ہے۔اہل تصوف کا دعویٰ ہے کہ جو شخص علم لدنی کا ھامل ہو وہ اپنے منظور نظر کو سینے سے بھینچ کر یا بیٹھے بٹھائے یہ پراسر علم منتقل کر سکتا ہے۔
معترفین سے پہلے اس کے نام پہ اعتراض وارد کرتے ہیں لفظ ‘‘ لدنی ’’ کے معنی ہوتے ہیں ‘‘ میرا عطا کردہ ’’ پس اہل باطن جب کسی صاحب علم سے درخواقست کرتے ہیں کہ ‘‘ مجھے علم لدنی عطا ’’ کر دئجے تو وہ گویا کہہ رہا ہوتا کہ مجھے میرا عطا کردہ علم دے دیں۔یہ عجیب اور مضحکہ خیز بات ہے کا طالب علم استاد سے کہے کہ وہ علم جو طالب نے استاد کو عطا کیا تھا واپس لوٹا دے۔۔گویا جب کوئی مرید کہے کے مرشد کے پاس علم لدنی ہے تو وہ دانستہ طور پر اس سے بے ادبی کا مرتکب ہو رہا ہوتا ہے کہ مرشد کا پاس میرا ہی دیا ہوا علم ہے۔ رہا ہ سوال۔۔۔۔کہ علم محض کوئی شخص دوسرے کو متقل کر سکتا ہے ؟ اہل تصوف تو کہتے ہیں کہ باطنیت کے مزے لوٹتے ہوئے وہ خدا سے وصال کرتے ہیں جس کی بابت کچھ بتانا گویا عجلہ عروسی کی واردات کو بیان کرنے کے شرمناک کام کے مترادف ہے پھر وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جو کچھ ان پہ گزری وہ ان احساسات کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں پاتے اس بیان کو سامنے رکھتے ہوئے ولیم جیمز نے کہا ’” سواگر اسی کیفیت کو بیان نہیں کیا جساکتا تو وہ دوسرے کو منتقل بھی نہیں کیا جسکتا لہذا باطنی تجربہ اگر صداقت رکھتا ہو تو یہ صداقت صرف صاحب تجربہ ہی کے کام اسکتی ہے یہ کالص جذباتی احساس کا نام ہے اور جذبات یکسر ذاتی اور گونگے ہوتے ہیں تقوتیکہ وہ دوسرا شخص خود ہی محسوس نہ کرے
علم باطن کی ماہیت کیا ہے؟ معلوم ہوا کہ اس علم کی تین شاخیں ہیں جن کی اصل ایک ہے یہ عہل ‘“ روح اصل ’’ سے بندوں کو متقل ہوا اور سہنہ بہ سہنہ چلتا رہا اس علم کا مجوعی تاثر کچھ اس طرح ہے کہ۔۔
جاری ہے
اسلام علیکم امید کرتا ہوں سب بخریت ہونگے۔۔اسی سکیشن میں تصوف پہ میں ایک پوسٹ کر چکا یہ اسی پوسٹ کو متعلق کچھ مذید وضاعت ہے امید کرتا ہوں اپ کے علم میں اضافے کا باعث بنے گی
خرد دشمن صوفیوں کا خیال ہے کہ انسان کے پانچ طاہری ھواس محض مادی ذرائع کی شناخت کے لیے عقل کے مددگار ہیں مگر روح اصل کا سراغ کبھی نہیں کر سکتے بلکہ نفس انسانی میں عقل کے بالمقابل ایک عنصر جو زیادہ اہم ہے وجدان یا باطنی قوت ہے۔۔علم لدنی ایک ایسا ہی پر اسرار علم ہے جو صرف باطنی حاسے کے حامل شخص کو ھاصل ہو سکتا ہے۔اہل تصوف کا دعویٰ ہے کہ جو شخص علم لدنی کا ھامل ہو وہ اپنے منظور نظر کو سینے سے بھینچ کر یا بیٹھے بٹھائے یہ پراسر علم منتقل کر سکتا ہے۔
معترفین سے پہلے اس کے نام پہ اعتراض وارد کرتے ہیں لفظ ‘‘ لدنی ’’ کے معنی ہوتے ہیں ‘‘ میرا عطا کردہ ’’ پس اہل باطن جب کسی صاحب علم سے درخواقست کرتے ہیں کہ ‘‘ مجھے علم لدنی عطا ’’ کر دئجے تو وہ گویا کہہ رہا ہوتا کہ مجھے میرا عطا کردہ علم دے دیں۔یہ عجیب اور مضحکہ خیز بات ہے کا طالب علم استاد سے کہے کہ وہ علم جو طالب نے استاد کو عطا کیا تھا واپس لوٹا دے۔۔گویا جب کوئی مرید کہے کے مرشد کے پاس علم لدنی ہے تو وہ دانستہ طور پر اس سے بے ادبی کا مرتکب ہو رہا ہوتا ہے کہ مرشد کا پاس میرا ہی دیا ہوا علم ہے۔ رہا ہ سوال۔۔۔۔کہ علم محض کوئی شخص دوسرے کو متقل کر سکتا ہے ؟ اہل تصوف تو کہتے ہیں کہ باطنیت کے مزے لوٹتے ہوئے وہ خدا سے وصال کرتے ہیں جس کی بابت کچھ بتانا گویا عجلہ عروسی کی واردات کو بیان کرنے کے شرمناک کام کے مترادف ہے پھر وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جو کچھ ان پہ گزری وہ ان احساسات کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں پاتے اس بیان کو سامنے رکھتے ہوئے ولیم جیمز نے کہا ’” سواگر اسی کیفیت کو بیان نہیں کیا جساکتا تو وہ دوسرے کو منتقل بھی نہیں کیا جسکتا لہذا باطنی تجربہ اگر صداقت رکھتا ہو تو یہ صداقت صرف صاحب تجربہ ہی کے کام اسکتی ہے یہ کالص جذباتی احساس کا نام ہے اور جذبات یکسر ذاتی اور گونگے ہوتے ہیں تقوتیکہ وہ دوسرا شخص خود ہی محسوس نہ کرے
علم باطن کی ماہیت کیا ہے؟ معلوم ہوا کہ اس علم کی تین شاخیں ہیں جن کی اصل ایک ہے یہ عہل ‘“ روح اصل ’’ سے بندوں کو متقل ہوا اور سہنہ بہ سہنہ چلتا رہا اس علم کا مجوعی تاثر کچھ اس طرح ہے کہ۔۔
جاری ہے
Comment