Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

علم باطن،علم تصوف۔۔علم لدنی

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • علم باطن،علم تصوف۔۔علم لدنی

    علم باطن،علم تصوف۔۔علم لدنی

    اسلام علیکم امید کرتا ہوں سب بخریت ہونگے۔۔اسی سکیشن میں تصوف پہ میں ایک پوسٹ کر چکا یہ اسی پوسٹ کو متعلق کچھ مذید وضاعت ہے امید کرتا ہوں اپ کے علم میں اضافے کا باعث بنے گی


    خرد دشمن صوفیوں کا خیال ہے کہ انسان کے پانچ طاہری ھواس محض مادی ذرائع کی شناخت کے لیے عقل کے مددگار ہیں مگر روح اصل کا سراغ کبھی نہیں کر سکتے بلکہ نفس انسانی میں عقل کے بالمقابل ایک عنصر جو زیادہ اہم ہے وجدان یا باطنی قوت ہے۔۔علم لدنی ایک ایسا ہی پر اسرار علم ہے جو صرف باطنی حاسے کے حامل شخص کو ھاصل ہو سکتا ہے۔اہل تصوف کا دعویٰ ہے کہ جو شخص علم لدنی کا ھامل ہو وہ اپنے منظور نظر کو سینے سے بھینچ کر یا بیٹھے بٹھائے یہ پراسر علم منتقل کر سکتا ہے۔

    معترفین سے پہلے اس کے نام پہ اعتراض وارد کرتے ہیں لفظ ‘‘ لدنی ’’ کے معنی ہوتے ہیں ‘‘ میرا عطا کردہ ’’ پس اہل باطن جب کسی صاحب علم سے درخواقست کرتے ہیں کہ ‘‘ مجھے علم لدنی عطا ’’ کر دئجے تو وہ گویا کہہ رہا ہوتا کہ مجھے میرا عطا کردہ علم دے دیں۔یہ عجیب اور مضحکہ خیز بات ہے کا طالب علم استاد سے کہے کہ وہ علم جو طالب نے استاد کو عطا کیا تھا واپس لوٹا دے۔۔گویا جب کوئی مرید کہے کے مرشد کے پاس علم لدنی ہے تو وہ دانستہ طور پر اس سے بے ادبی کا مرتکب ہو رہا ہوتا ہے کہ مرشد کا پاس میرا ہی دیا ہوا علم ہے۔ رہا ہ سوال۔۔۔۔کہ علم محض کوئی شخص دوسرے کو متقل کر سکتا ہے ؟ اہل تصوف تو کہتے ہیں کہ باطنیت کے مزے لوٹتے ہوئے وہ خدا سے وصال کرتے ہیں جس کی بابت کچھ بتانا گویا عجلہ عروسی کی واردات کو بیان کرنے کے شرمناک کام کے مترادف ہے پھر وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جو کچھ ان پہ گزری وہ ان احساسات کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں پاتے اس بیان کو سامنے رکھتے ہوئے ولیم جیمز نے کہا ’” سواگر اسی کیفیت کو بیان نہیں کیا جساکتا تو وہ دوسرے کو منتقل بھی نہیں کیا جسکتا لہذا باطنی تجربہ اگر صداقت رکھتا ہو تو یہ صداقت صرف صاحب تجربہ ہی کے کام اسکتی ہے یہ کالص جذباتی احساس کا نام ہے اور جذبات یکسر ذاتی اور گونگے ہوتے ہیں تقوتیکہ وہ دوسرا شخص خود ہی محسوس نہ کرے

    علم باطن کی ماہیت کیا ہے؟ معلوم ہوا کہ اس علم کی تین شاخیں ہیں جن کی اصل ایک ہے یہ عہل ‘“ روح اصل ’’ سے بندوں کو متقل ہوا اور سہنہ بہ سہنہ چلتا رہا اس علم کا مجوعی تاثر کچھ اس طرح ہے کہ۔۔


    جاری ہے
    :(

  • #2
    Re: علم باطن،علم تصوف۔۔علم لدنی

    کہ اگر ان تمام علوم کو جن کا مجموعی نام علم باطن ہے ایک کرہ سے مثال دی جائے تو اس کا قطب شمالی اعلی درجہ کا فلسیفیانہ موشگافی ہے اور اس کا جنوبی قطب ذلیل ترین توہم پرستی ‘‘ ( اقبال تاریخ تصوف جلد اول ) اس علم کی پر اسرارریت میں اضافہ کرنے کے لہیے اہل تصوف کے ہاں علوم کو دو شاخوں میں تقسیم کیا گیا ہے ایک علوم ظاہر اور دوسرے باطنی علوم۔۔اب ظاہری علوم کا ظہار معیوب نہیں لیکن باطنی علوم چونکہ مکاشفات سے متعلق ہیں لہذا مکاشفات کو ضبط تحریر لانا ممنوع ہے۔وحی اور علم لدنی میں کہیں اہل تصوف تفریق کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ وحی نبی پہ مخصوص ہے اور علم لدنی نبیوں کو عطا نہیں ہوا اور کہیں دونوں کا منبع ایک ہی قرار دیتے ہیں

    علم باطن وجدان پر مبنی ہے لفظ وجدان کے معنی ہوتے ہیں پا لینا صوفیوں کا دعوی ہے کہ علم کی طرح نفس انسانی کے بھی دو ھصے ہوتے ہیں پہلا ھصہ عقل ہے جو پانچ حواس کی مدد سے دنیا کے مسائل حل کرتی ہے دوسرا نفس ’’ وجدان ‘‘ ہے جو ایک پراسرار اندرونی قوت ہے اور عقل پر برتری رکھتی ہے اہل خرد اور اہل کشف و باطن میں یہ عقیدہ قدیم عرصہ سے باعث نزاع بن ہوا ہے کہ عقل اور وجدان سے کون برتر ہے اگر اہل خرد اس امر کا قرار کرنے پر تیار ہوتے ہیں کہ بلاشبہ اس امر کے امکانات ہیں کہ عقل مادی ذرائع کے ستعمال تک محدود ہونے کے سبب ب ماورائے مادیت کی لم تک پہنچنے سےمحروم ہیے لیکن اس بات کا ثبوت کیا ہے کہ وجدانی قوت گمراہ کن نہ ہو ؟ کشف ی اوجدان کو کسی طرح بھی معیار صداقت قرار نہیں دیا جاسکتا۔صاحب کشف اپنے تجربہ کی صداقت پر کیسا ہی یقین کیوں نہ ہو لازم نہیں اجاتا کہ اس کا تجربہ عی الواقعہ صداقت ہے۔۔



    جاری ہے-
    :(

    Comment


    • #3
      Re: علم باطن،علم تصوف۔۔علم لدنی

      صاحب کشف اپنے تجربہ کی صداقت پر کیسا ہی یقین کیوں نہ ہو لازم نہیں اجاتا کہ اس کا تجربہ عی الواقعہ صداقت ہے۔۔۔وجدان علم ایک انفرادی تجربہ ہے جو ا“پنی دلیل اپ ہوعتا ہے اس لیے یہ کسی دوسرے شخص کے لیے دلیل و حجت کیسے بن سکتا ہے ؟
      مفکر برگساں کا کہنا ہے کہ وجدان غلطی نہیں کرتا غلطی عقل سے سرزد ہو جاتی ہے۔ اہل کرد کا جواب ہے کہ ٹھیک ہے عقل غلطی کر سکتی ہے مگر غلط اور صھیح کا معیار تو پھر بھی عقل ہی ہے صاحب وجدان اس کسوٹ کے حامل نہیں ہوتے۔وجدانی کیفیت تو صرف اس وقت قابل بھروسہ ہوتی ہے اگرہر صاحب وجدان کا کشف ایک ہی قسم کے نتائج دے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ وجدانی وارداتوں کے نتائج متضاد نوعیت کے نکلتے ہیں اور کوئی پیمانہ نہیں ہو سکتا جس کے ذرائع ان تضادات میں سے غلط اور صھیح کی نشاندہی ممکن ہو۔جیسے ابن عربی کا وجدان سے کہتا ہے کہ وحدت الوجود حقیقت ہے اور مجدد الف ثانی کا وجدان انہیں وحدت الوجود کا بطلان کرنے پہ مجبور کرتا ہے اور کہتا ہے کہ حقیقت تو وحدت الشہود ہے جبکہ شاہ ولی اللہ کا یہ فیصلہ کہ دونوں ہی باتیں درست ہیں


      فلسفی جوڈ نے کہا تھا ‘‘ اکثر صوفی جن سے میری ملاقات ہوئی احمق تھے۔چونکہ تصوف عقل کو معیار تسلیم نہیں کرتا نہ اس کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے اس لیے وہ ہر عطائی اور کم سواد شخص کے ہاتھوں کھلونا بن گیا ہے یہ لوگ اپنی کم عقلی کی تلافی یہہ کہہ کر رکتے ہیں کہ ہمیں ذاتی کشف کی صورت میں دوسروں پر برتری حاصل ہے ’’
      اس مقام پر باطنیت کے دو مسائل سامنے آٹے ہیں اول یہ کہ وجدان اپنے اظہار کے لیے بھی عقل کی احیتاج رکھتا ہے دوسرے یہ کہ وجدانی تصوارات میں اختلافات نے وجدان کو بہت رسوا کیا ہے۔۔لیکن کیا اختلافی اومر کی بنیاد پر علم باطن کو ترک کر دینا اور اسے خوش فہمی پر محمول کر کے رسوا کرنا کوئی عمدہ فعل ہے؟ یہ اسیہ وقت ایک حوصلہ افزا عمل ہوگا اگر انسانی تاریخ اس بات کی شہادت دے کے مدعین باطن کے تمام تصوارت اور تمام دعاوی اور سب کے سب افعال گمراہ کن اور جھوٹ پر مبنی تھے۔اگر ایسا ہوتا تو اس سلسے کو ںحرف غلط کی طرح مٹا دینا ہی قابل ستائش ہوتا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے۔۔صوفیوں اور اہل باطن کا طرز عمل اور طرز فکرمجبور کرتا ہے کہ ان امور پہ توجہ دی جائے


      جاری ہے۔۔




      :(

      Comment


      • #4
        Re: علم باطن،علم تصوف۔۔علم لدنی

        اب اس پوسٹ کے سب سے اہم موڑ پہ چلتے ہیں کچھ حقائق جو یقینا غور مطلب ہیں


        اہل تصوف کا طرز فکر اور کائنات کی تکوین کے اسرار و رموز سے متعلق ایسے مباحث جن کی احساس غیر مادی اور تاحال تحقیق طلب امور پر مبنی ہے نہ صرف فکر اننسانی کا عظیم ریکارڈ بلکہ توجہ طلب اور مزید تحقیق کے متقاضی ہیں سردست اک سادہ سی مثال پہ اکتفا کر لیتے ہیں۔۔ مقصد یہ نہیں کہ صوفی ازم کا پر چار کر کے اور رباہنیت کا دور واپس لا کر انسان کو غار کے توہم پرست میں بدل دیا جائے بلکہ عقل و دانش کے ذریعے کسی حتمی فیصلے کی کوشش کو تیز تر کرنا ہے۔

        اہل تصوف کا ہاں صدیوں سے اس بات کا دعوی کیا جاتا ہے کہ جانداروں کے رادگرد روشنی کا ایک خاص ہالہ ہوتا ہے جو عام آدمیوں کی نظروں سے پوشیدہ رہتا ہے۔عرصہ دراز تک اس دعوے کی تکذیب کی جاتی رہی۔۔روھانیت پسندوں کا دعوی ھا کہ ہ ھالہ جسے وہ نسمے کہتے ہیں ادمی کی بدلتی ہوئی طبع کے ساتھ رنگت بھی تبدیل کرتا رہتا ہے اور صرف صاحب نطر شخص ہی محض رنگت دیکھ کر افراد کی طبعیت اور امراض کی شناخت کا اہل ہوتا ہے۔۔یہ تما باتیں اہل خرد کے نزدیک بہودہ توہمات سے بڑھ کر کچھ نہ تھیں ۔۔مگر۔۔۔1939 میں دو افراد سیمسان اور ویلنٹیان کعلیان نے تجربات کے دوران زندہ اجسام کی فوٹو کھنچ کر یہ عظیم حقیقت دریاف کی کہ فی الحقیقت ہر جاندار کے اردگرد برقناطیسی امواج کا ایک ھالہ موجود ہوتا ہے جو صحت مند اور بیمار اجسام میں مختلف رنگوں اور شدت میں فرق کا حامل ہوتا ہے۔۔اہل تصوف اس عظیم حقیقت سے کیونکر اگاہ تھے ؟؟؟؟




        علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈکٹر ضیا الدین غیر منقسم ہندوستان کےن بلند پایہ ریاضی دانوں میں شمار ہوتے تھے انہوں نے یورپ سے تعلیم حاصل کی تھی۔ ایک مرتبیہ وہ ریاضی کے ایک مسئلے کی پیچیدگی سے اس قدر پریشان ہوئے کہ جرمنی جانے کا فیصلہ کیا۔۔یونیورسٹی کے شعبہ اسلمایات کے ناظم سید سلیمان اشرف کا ڈاکٹر صاحب کی مشکل کا علم ہوا تو انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو بریلی میں مولانا احمد رضا خان سے ملنے کا مشورہ دیا ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ وہ یورپ سے تعلیم ھاصل کر کے ائے ہیں اور ریاضی کے مسائل میں ید طولیٰ رکھتے ہیں پھر ایک مقامی ادمی ریاضی میں ان سے زیادہ معلومات کس طرح رکھ سکتا ہے گو ڈاکتڑ صاحب کا خیال تھا کہ مولوی صاحب سے ملنا گویا وقت برباد کرنا ہے۔۔




        جاری ہے
        :(

        Comment


        • #5
          Re: علم باطن،علم تصوف۔۔علم لدنی

          مگر سید سلیمان کئ اصرار پر بریلی چلے گئے۔۔احمد رضا خان بیمار تھے مگر سید سلیمان اشرف کا نام سنتے ہی فورا ملاقات کی۔۔انیں کہا گیا کہ ریاضی کے ایک پیچیدہ مسئلے کے سلسے میں ھاضر ہوا ہوں اور اطمینان سے بات کی جائے گی۔ مگر احمد رضا خان نے اسی وقت دریافت کرنے پہ اصرار کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے مسئلہ بیان کیا ہی تھا کہ مولوی صاحب نے جواب دے دیا۔۔ڈاکٹر صاحب حیرت سے کنگ ہو گئے بے اختیار بولے میں نے سنا تھا علم لدنی کے بارے میں کہ کوئی شے ہے اج انکھ سے دیکھ لیا۔ مولانا نے اپنا ایک قلمی رسالہ ڈاکٹر صاحب کو دکھایا جس میں علم ہندسہ پر بھث کی گئی تھی۔۔ڈاکٹر صاحب کی حیرت کی انہتا نہ رہی انہوں نے کہا۔۔میں نے یہ علم حاصل کرنے میں بہت صعوبتیں اٹھائیں ملک ملک کا سفر کیا بے انتہا روپیہ صرف کیا یورپین استادوں کی جوتیاں سیدھی کی تب کچھ معلومات ھاصل ہوئی۔مگر اپ جو جانتے ہیں اس کے مقابلے میں میں اپنے آپ کو طفل مکتب سمجھ رہا ہوں۔ مولانا یہ تو فرمائیے کہ اس فن میں اپ کا استاد کون ہے ؟ مولانا نے بتایا کہ میرا کوئی استاد نہیں منیں ے اپنے والد سے چار قاعدے جمع تفیق ضرب تقسیم محض اس لیے سیکھے تھے کہ ترکے کے مسائل میں ان کی ضرورت پڑتی ہے۔۔شرح چغمیلی شروع ہی کی تھی کہ والد صاحب نے فرمایا کیوں اپنا وقت ضائع کرتے ہو مصطفی پیارے کی سرکار سے یہ علوم تم کو خد ہی سکھا دئے جائیں گے،،چنانچہ یہ جو کچھ اپ دیکھ رہے ہیں اپنے مکان کی چار دیواری کے اندر بیٹھا خود ہی کرتا رہتا ہوں یہ سب رسالت ماب کا کرم ہے۔۔




          یہ علم باطنی کی ایک مثال تھی جس کی روایت صدیوں سے کی جا رہی تھی۔یہ تھا باطنی علم کا وہ شعبہ جسے محض اتفاق کہہ کر نظر انداز کرنا کوئی حوصلہ افزا امر نہ ہوگا۔اگر وجدان اور باطنی علم محض خوش فہمی ہے تو ان امور کو کس کنج میں ڈالا جائے گا جو خواراق عادت کہلاتے ہیں جن کے شاید بیک وقت کئی کئی قابل بھروسہ اور سنجیدہ شخصیات ہوتی ہیں اور جو اہل تصوف کے بقول وجدان کو تقویت دینے کے لیے استعمال ہونے والے امور مثلا، تجرد گزینی، ارتکاز و استغراق مراقبہ و چلہ کشی کے دوران طالبین سے سرزد ہوا کرتے ہیں ‘‘ کرامتیں ‘‘ کے عنوان سے چند ایسے اور اسرار کو بھی میں نے پیغام پہ شئیر کیا تھا اگر کوئی طالب علم پڑھنا چاہتا تو اسے یہاں لنک کر دوں گا



          خوش رہیں


          پروفیسر بےتاب تابانی
          :(

          Comment


          • #6
            Re: علم باطن،علم تصوف۔۔علم لدنی

            Tassuwaf ko mehaz Takhayyalati ilam keh kar Rad kar denay walay dar-hakeekat apna he nuksaan kartay hein.......Har ilam aur har harkat ki base khayal hy. Khayal mein boht taakat hoti hy. Agar Fly karnay ka khayal insaan ko na aata tu aaj jahaz eejad na hua hota....!

            Ye khayal (power of concentration) tha jis ki waja se Benzene ka Molecular structure oss Scientist ko Khawab mein nazar aaya keh 6 adad saanmp (snakes) circle mein bethay hein aur sub ne aik doosray ki tail apnay mouth mein li hoi hy.....When he awake up, he designed that shape on paper, which he saw in dream. Now that shape is Molecular formula of Benzene.

            Agar humen khayal na aaye tu hum khana ni khaa saktay

            Ye Khayal ki power hy k aap ghar se bahar nikaltay hein, acahanak yaad aya k mobile ghar bhool gay tu foran wapas Murtay hein

            Aalam tamam halqa-e-daam-eKhayal hay.

            Muraqaba wo tareeka hy jis k zariye hum apni Khayal ki power ko use kartay huay Ghaib ki dunia mein daakhil ho jatay hein

            Tassawuf wo ilam hy jo humein Allah Taalah se rabt aur Taaluk Qaim karnay ka tareeka sikhaata hy...!!

            Comment

            Working...
            X