بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد ﷲ وکفیٰ والصلاۃ والسلام علی المصطفی و علی آلہ و صحبہ أجمعین۔
اما بعد!الحمد ﷲ وکفیٰ والصلاۃ والسلام علی المصطفی و علی آلہ و صحبہ أجمعین۔
معاویہ بن الحکم رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میری لونڈی تھی جواحداورجوانیہ میں ہماری بکریاں چرایاکرتی تھی ایک دن معلوم کرنے کےلیےدیکتھاہوں کہ بھیڑیا ایک بکری کواٹھالےگیا،انسان ہونے کے ناطے دوسرے لوگوں کی طرح غصہ آیا اور میں نے لونڈی کو ایک تھپڑ رسیدکردیا،پھر میں نےرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کےپاس آیا،جب میں نے آپ کوبتایاتو آپ نےاسے غلط قراردیا،میں نے عرض کیا اے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کیا میں اسےآزاد نہ کردوں؟آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے لونڈی سے پوچھا اﷲ کہاں ہے؟لونڈی نے کہا؛آسمان پر،پھر آپ نے پوچھا،میں کون ہوں؟اس نے کہا آپ اﷲ کے رسول﴿ صلی اﷲ علیہ وسلم ﴾ہیں،آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اسے آزاد کردو یہ مومنہ ہے۔
﴿صیح مسلم،ابوداؤد﴾
اس عظیم حدیث کے چند فوائد ہیں؛
:صحابہ کرام معمولی معمولی چیزوں میں بھی رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتے تھے تاکہ اس کے متعلق اﷲ کا حکم معلوم کرسکیں۔
۲:رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو لونڈی کو امتحان کے لیے طلب کرنا اس بات کی روشن دلیل ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو غیب کا نہیں تھا،اس میں لوگوں پر واضع طور پر رد ہے جو اس بات کی قائل ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو غیب کا علم تھا،سی لیے اﷲ تعالی اپنے نبی کو اس بات کاحکم دے رہاہے کہ وہ لوگوں میں عام منادی کرادیں کہ
قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّـهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
﴿اعراف؛١۸۸﴾
ترجمہ:آپ﴿ صلی اﷲ علیہ وسلم﴾ فرمادیجیئے کہ میں خود اپنی ذات لے لئےکسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضررکا،مگر اتنا کہ جتنا اﷲ نے چاہاہو،اگرمیں غیب کی باتیں جانتاتومیں بہت سے منافع حاصل کرلیتااورمجھےکوئی نقصان نہ پہنچتا،میں تومحض ڈرانے والا اور بشارت دینے والاہوں ان لوگوں کے لیے جوایمان رکھتےہیں۔
یہ عقیدہ رکھنا کہ اﷲ آسمان پرہے صحت ایمان کی دلیل ہے،اور اسکا عقیدہ رکھنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔
صحت ایمان کی دوسری دلیل محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت کی گوائی دیناہے۔
قارئین کرام:اس عظیم حدیث کو سامنے رکھتےہوئے اگربرصخیرکے مسلمانوں سے وہی سوال کیاجائے جواﷲ کے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے لونڈی سے کیا تھا تو کم ؤپیش۸۰فیصد مسلمانوں کا یہ جواب ہوگا کہ اﷲ ہر جگہ ہے کائنات کاکوئی ذرہ اس کے وجود سے خالی نہیں ہے کچھ ایسے بھی ہونگےجولاعلمی کا ثبوت دیتے ہوئےدامن بچالیں گے'عوام کو کجا بڑے بڑے علماءکرام ومفتیان عظام بھی صیح جواب نہ سکیں گے حالانکہ آیات قرآنی واحادیث نبوی،عقل سلیم اورانسانی فطرت سب اس بات پر واضع ہیں کہ اﷲ رب العالمین عرش پرہے'آئیے اس مختصر رسالہ میں ہم اس اہم سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں جس کی معرفت صحت ایمان کی علامت ؤپہچان ہے۔
برادران اسلام:قرآن کریم اﷲ کی کتاب ہے وہ ہمیں ایک رہنما ااصول دیتی ہےکہ اختلاف کی صورت میں اﷲ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو معیارحق سمجھاجائےقرآن کریم کی اس آیت پر غور کریں؛
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴿النساء؛٦۵﴾
ترجمہ؛اے رسول﴿ صلی اﷲ علیہ وسلم ﴾تیرے رب کی قسم اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک آپسی اختلاف میں آپ کو حکم نہ مان لیں،پھر جو فیصلہ آپ ان میں کردیں اس سے ان کے دلوں میں کسی طرح کی تنگی نہ ہو اوراس کے سامنے سرتسلیم خم کردیں۔
ایک دوسری آیت میں اﷲرب العالمین نے اختلاف کی صورت میں اﷲاوراس کےرسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف مسائل لوٹادینے کوایمان کی علامت قراردیتاہے چنانچہ ارشادفرماتاہے؛
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ
﴿النساء؛۵۹﴾
ترجمہ؛اےمومنو!!اﷲکی اطاعت کرو اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اورصاحب امر کی اطاعت کرو،پھر اگر کسی چیز میں اختلاف ہوتواسے اﷲ اور اسکے رسول کی طرف لوٹادواگرتمہیں اﷲاورقیامت پرایمان ہےلہذا جب ہم اس حکم پر عمل کرتے ہوئے مذکورہ سؤال کا جواب قرآن ؤحدیث میں تلاش کرتے ہیں تویہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ مختلف پیرایوں میں بصراحت اور بڑے ہی واشگاف انداز میں یہ بیان کیاگیاہےکہ اﷲرب العالمین آسمان میں عرش بریں پر مستوی ہے ارشادربانی ہے
" الرَّحْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ "
﴿طہ؛۵﴾
رحمان﴿اﷲ﴾عرش پر مستوی ہے
قرآن میں سات مقامات ایسے ہیں جہاں صراحت کے ساتھ اﷲ رب العالمیں نے عرش پر مستوی ہونے کا ذکر کیا ہے،
وہ مقامات یہ ہیں
الاعراف:۵۴۔ ۲:یونس۳ ۳:الرعد۲ ۴طہ۵
۵:الفرقان۵۹ ٦:السجدة۴ ۷:الحدید۴
اور صیح البخاری میں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
"یعنی جب اﷲ رب العالمین نے مخلوق کو پیدا کیا تواپنے پاس عرش پر لکھ رکھا ہے کہ میری رحمت غضب پر غالب آگئی،یعنی اﷲ ربچالعالمین عرش پرہےاورکبھی اﷲرب العالمین اپنے علووعرش پراستقرارکا اثبات یوں فرماتاہے
﴿أَمْ أَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاءِ أَن يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ۖ فَسَتَعْلَمُونَ كَيْفَ نَذِيرِ﴿الملک؛١۷﴾ ﴾".
ترجمہ؛کیاتم اس بات سے نڈر ہوگئےکہ جوآسمان میں ہے تم پرپتھربرسادے پھرتمہیں معلوم ہوجائیگا کہ میراڈرنا کیساتھا۔
صیح مسلم میں ہے کہ آپ صلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا؛
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہےکوئی ایسا انسان نہیں جو اپنی بیوی کو بستر کی طرف بلاتاہوپھروہ انکار کردے تووہ ذات جوآسمان پرہےاس عورت پراس وقت تک ناراض رہتی ہےیہاںتک کےشوہراس سےراضی ہوجائے۔
Comment