Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

اﷲکہاں ہے؟

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • اﷲکہاں ہے؟


    بسم اللہ الرحمن الرحیم

    الحمد ﷲ وکفیٰ والصلاۃ والسلام علی المصطفی و علی آلہ و صحبہ أجمعین۔
    اما بعد!

    معاویہ بن الحکم رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میری لونڈی تھی جواحداورجوانیہ میں ہماری بکریاں چرایاکرتی تھی ایک دن معلوم کرنے کےلیےدیکتھاہوں کہ بھیڑیا ایک بکری کواٹھالےگیا،انسان ہونے کے ناطے دوسرے لوگوں کی طرح غصہ آیا اور میں نے لونڈی کو ایک تھپڑ رسیدکردیا،پھر میں نےرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کےپاس آیا،جب میں نے آپ کوبتایاتو آپ نےاسے غلط قراردیا،میں نے عرض کیا اے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کیا میں اسےآزاد نہ کردوں؟آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے لونڈی سے پوچھا اﷲ کہاں ہے؟لونڈی نے کہا؛آسمان پر،پھر آپ نے پوچھا،میں کون ہوں؟اس نے کہا آپ اﷲ کے رسول﴿ صلی اﷲ علیہ وسلم ﴾ہیں،آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اسے آزاد کردو یہ مومنہ ہے۔

    ﴿صیح مسلم،ابوداؤد﴾

    اس عظیم حدیث کے چند فوائد ہیں؛

    :صحابہ کرام معمولی معمولی چیزوں میں بھی رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتے تھے تاکہ اس کے متعلق اﷲ کا حکم معلوم کرسکیں۔

    ۲:رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو لونڈی کو امتحان کے لیے طلب کرنا اس بات کی روشن دلیل ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو غیب کا نہیں تھا،اس میں لوگوں پر واضع طور پر رد ہے جو اس بات کی قائل ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو غیب کا علم تھا،سی لیے اﷲ تعالی اپنے نبی کو اس بات کاحکم دے رہاہے کہ وہ لوگوں میں عام منادی کرادیں کہ

    قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّـهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ

    ﴿اعراف؛١۸۸﴾

    ترجمہ:آپ﴿ صلی اﷲ علیہ وسلم﴾ فرمادیجیئے کہ میں خود اپنی ذات لے لئےکسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضررکا،مگر اتنا کہ جتنا اﷲ نے چاہاہو،اگرمیں غیب کی باتیں جانتاتومیں بہت سے منافع حاصل کرلیتااورمجھےکوئی نقصان نہ پہنچتا،میں تومحض ڈرانے والا اور بشارت دینے والاہوں ان لوگوں کے لیے جوایمان رکھتےہیں۔

    یہ عقیدہ رکھنا کہ اﷲ آسمان پرہے صحت ایمان کی دلیل ہے،اور اسکا عقیدہ رکھنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔
    صحت ایمان کی دوسری دلیل محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت کی گوائی دیناہے۔

    قارئین کرام:اس عظیم حدیث کو سامنے رکھتےہوئے اگربرصخیرکے مسلمانوں سے وہی سوال کیاجائے جواﷲ کے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے لونڈی سے کیا تھا تو کم ؤپیش۸۰فیصد مسلمانوں کا یہ جواب ہوگا کہ اﷲ ہر جگہ ہے کائنات کاکوئی ذرہ اس کے وجود سے خالی نہیں ہے کچھ ایسے بھی ہونگےجولاعلمی کا ثبوت دیتے ہوئےدامن بچالیں گے'عوام کو کجا بڑے بڑے علماءکرام ومفتیان عظام بھی صیح جواب نہ سکیں گے حالانکہ آیات قرآنی واحادیث نبوی،عقل سلیم اورانسانی فطرت سب اس بات پر واضع ہیں کہ اﷲ رب العالمین عرش پرہے'آئیے اس مختصر رسالہ میں ہم اس اہم سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں جس کی معرفت صحت ایمان کی علامت ؤپہچان ہے۔

    برادران اسلام:قرآن کریم اﷲ کی کتاب ہے وہ ہمیں ایک رہنما ااصول دیتی ہےکہ اختلاف کی صورت میں اﷲ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو معیارحق سمجھاجائےقرآن کریم کی اس آیت پر غور کریں؛
    فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴿النساء؛٦۵﴾
    ترجمہ؛اے رسول﴿ صلی اﷲ علیہ وسلم ﴾تیرے رب کی قسم اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک آپسی اختلاف میں آپ کو حکم نہ مان لیں،پھر جو فیصلہ آپ ان میں کردیں اس سے ان کے دلوں میں کسی طرح کی تنگی نہ ہو اوراس کے سامنے سرتسلیم خم کردیں۔

    ایک دوسری آیت میں اﷲرب العالمین نے اختلاف کی صورت میں اﷲاوراس کےرسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف مسائل لوٹادینے کوایمان کی علامت قراردیتاہے چنانچہ ارشادفرماتاہے؛

    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ

    ﴿النساء؛۵۹﴾

    ترجمہ؛اےمومنو!!اﷲکی اطاعت کرو اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اورصاحب امر کی اطاعت کرو،پھر اگر کسی چیز میں اختلاف ہوتواسے اﷲ اور اسکے رسول کی طرف لوٹادواگرتمہیں اﷲاورقیامت پرایمان ہےلہذا جب ہم اس حکم پر عمل کرتے ہوئے مذکورہ سؤال کا جواب قرآن ؤحدیث میں تلاش کرتے ہیں تویہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ مختلف پیرایوں میں بصراحت اور بڑے ہی واشگاف انداز میں یہ بیان کیاگیاہےکہ اﷲرب العالمین آسمان میں عرش بریں پر مستوی ہے ارشادربانی ہے

    " الرَّحْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ "

    ﴿طہ؛۵﴾

    رحمان﴿اﷲ﴾عرش پر مستوی ہے

    قرآن میں سات مقامات ایسے ہیں جہاں صراحت کے ساتھ اﷲ رب العالمیں نے عرش پر مستوی ہونے کا ذکر کیا ہے،
    وہ مقامات یہ ہیں

    الاعراف:۵۴۔ ۲:یونس۳ ۳:الرعد۲ ۴طہ۵
    ۵:الفرقان۵۹ ٦:السجدة۴ ۷:الحدید۴

    اور صیح البخاری میں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے

    "یعنی جب اﷲ رب العالمین نے مخلوق کو پیدا کیا تواپنے پاس عرش پر لکھ رکھا ہے کہ میری رحمت غضب پر غالب آگئی،یعنی اﷲ ربچالعالمین عرش پرہےاورکبھی اﷲرب العالمین اپنے علووعرش پراستقرارکا اثبات یوں فرماتاہے

    ﴿أَ
    مْ أَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاءِ أَن يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ۖ فَسَتَعْلَمُونَ كَيْفَ نَذِيرِ﴿الملک؛١۷﴾ ﴾".

    ترجمہ؛کیاتم اس بات سے نڈر ہوگئےکہ جوآسمان میں ہے تم پرپتھربرسادے پھرتمہیں معلوم ہوجائیگا کہ میراڈرنا کیساتھا۔

    صیح مسلم میں ہے کہ آپ صلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا؛

    اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہےکوئی ایسا انسان نہیں جو اپنی بیوی کو بستر کی طرف بلاتاہوپھروہ انکار کردے تووہ ذات جوآسمان پرہےاس عورت پراس وقت تک ناراض رہتی ہےیہاںتک کےشوہراس سےراضی ہوجائے۔

  • #2
    Re: اﷲکہاں ہے؟

    اسطرح اﷲ کے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کےموقعہ پر آسمان کی طرف انگلی اٹھا کراشارہ فرمایا کہ اےاﷲ!!توگواہ کہ تیرے یہ سارے بندےاس بات پر شائد ہیں کہ میں نے تیرے دین کی تبلیخ میں کسی قسم کی کوتاہی نہ برتی اوراسےلوگوں تک پہنچادیا۔

    اورکبھی اﷲ رب العالمین اپنی فوقیت وعلوثابت کرتے ہوئےیوں ارشاد فرماتایے؛

    وہی﴿اﷲ﴾اپنے بندوں کے اوپر غالب وبرترہے

    ﴿الانعام؛۸١﴾

    نمازی سجدہ میں﴿سبحان ربی الآعلی﴾کہتاہے،اور اﷲ رب العالمین کا ایک نام﴿العلی﴾بھی ہے یعنی سب سےبلندوبالاتر۔

    اور قرآن کریم کے متعلق اﷲ رب العالمین نے مختلف عبارتوں میں جابجا یہ فرمایا ہے کہ اس کتاب کا نزول اﷲکی طرف سے ہواہے،یا یہ حکیم وحمید کی طرف نازل کیاگیاہے،اسی طرح فرشتوں نیزاعمال صالحہ کا اﷲ رب العزت کی طرف چڑھنا اور پیش ہونا اور صیح حدیث کےمطابق اﷲ رب العالمین کا آسمانی دنیا پر نزول کرنا یعنی اترنا یہ سب اس امردال ہیں کہ اﷲرب العالمین کی ذات اقدس ہم سےجداہےاوروہ اوپریعنی عرش پر ہے کیونکہ نزول بالائی سے نیچے کی طرف ہوتاہے اگر وہ ہرجگہ ہوتاتواس کے لیے نزول﴿یعنی اوپر سے نیچے اترنا﴾کا لفظ استعمال کرنا چہ معنی داربلکہ کذاب کےسوا کچھ نہیں،لہذا ثابت یہ ہوا کہ اﷲ کہ ذات مبارکہ آسمان یعنی عرش پرہےاسی طرح قرآن ؤاحادیث میں اس عقیدہ کو زوزروشن کی طرح واضع کیا گیا اس طرح عقل وفطرت بھی اس بات پر دال ہیں کہ اﷲرب العالمین ہرجگہ نہیں بلکہ عرش پرمستوی ہے عقل کہتی ہی کہ ہر قسم کی اعلی وکامل صفات سے اﷲ رب العالمین متصف اور ہر نقص و کمی سے وہ منزہ وپاک ہے اور علووبلندی صفت کمال ہے جس کا مستحق اﷲ کی ذات سب سے زیادہ ہےاسی طرح ہرانسان جب دعاکرتاہے تواس کا ہاتھ آسمان کی طرف اٹھتاہےاور اپنی دعاؤں سے اس ذات کو پکارتاہےجو اس کی فطرت کے مطابق آسمان پر ہوتی ہے اسی لیےوہ اپنے ہاتھ،نظر اور عقل وشعور کو اوپر کی متوجہ کرتاہے بنابریں اگربچوں سے سوال کیا جائے کہ اﷲ کہاں ہے؟؟وہ اپنی فطرت سلیمہ سے وہی جواب دیں گےجولونڈی نے دیاتھاکہ اﷲآسمان پرہے۔

    قارئین کرام:یہ قرآن کریم،حدیث،عقل سلیم اور فطرت سلیمہ کے وہ روشن اورٹھوس دلائل ہیں جو ہر مسلمانوں کو اس بات پرمجبور کرتے ہیں کہ اﷲرب العالمین کی ذات مقدسہ عرش پرہے ہرجگہ نہیں،یہ کائنات اﷲ رب العالمین کی ذات کی متحمل نہیں ہوسکتی جب پہاڑ اپنی تمام تر وسعتوں اور پہنائیوں کے باوجود جس ذات کی تجلی نہ برداشت کرسکا اور موسی علیہ السلام بے ہوش ہوکرگرپڑے تویہ پھر کائنات کیسے برداشت کرسکتی ہے۔
    ایک شبہ اوراس کا اذالہ:قرآن میں کچھ آیتیں ہیں جس سے بظاہر یہ سمجھ میں آتاہے کہ اﷲ ہرایک کے ساتھ ہے بطورمثال﴿وھو معکم ٱینماکنتم﴾یعنی تم جہاں کہیں بھی رہواﷲ تمہارے ساتھ ہے۔۔۔نیز اور ہم انسان سے اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں،اسی طرح

    وَهُوَ اللَّـهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْضِ

    ﴿الانعام؛۳﴾

    "وہی اﷲآسمانوں پر اور زمینوں میں ہے"

    امام ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ تمام مفسرین کا اجماع ہےکہ ہمارا عقیدہ نہیں جوگمراہ فرقہ جہمیہ کاہے کہ اﷲ ہر جگہ پر موجود ہےاﷲ ان کی غلط باتوں سے پاک وبرترہے۔ایسی تمام آیتوں کا مطلب ہے کہ اﷲ کی ذات عرش پرہے اور اس کا علم پر ہرایک کے ساتھ وہ ہماری باتیں سنتااور ہمیں دیکھتاہے یہاں تک کہ اس کے علم کے بغیر کوئی پتہ نھی نہیں گرتاہے اس کی قدرت کائنات کے ہرہرذرہ کو محیط ہے جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے

    "یعنی اﷲہرچیزکواپنے احاطے علم میں لئےہوئےہے۔

    قارئین کرام؛یہ جان کر حیرت ہوگی کہ وحدت الوجود﴿یعنی اس کائنات میں ایک ہی ذات کا وجود ہے﴾کا عقیدہ فلسفہ ہندومت سے لیاگیاہے ان کے اہم ترین ماخذ"اپنشدوں"میں مذکور ہے کہ ساری فطرت کروڑہا جیون یعنی روحوں پر مشتمل ہے اور ایشو ہر چیز میں سرائیت کئےہوئے ان کے فلسفہ ونظریہ کی دین ہے کہ ان کی کتاب "رگ وید"میں دیوتاؤں کی کل تعدادد﴿۳۳﴾بتائی گئی ہے جو بعد میں بڑھکر﴿۳۳۳۹﴾پھر بعد میں کڑوڑون تک پہنچ جاتی ہےہے بلکہ کائنات کی جانداروبےجان ہرچیز ہندوقوم کی عقیدت کا مرکز اور اس کا معبود ہے وحدة الوجود کا یہی فلسفہ ہے کو شرک و بت پرستی کے لیے مستحکم بنیادیں فراہم کرتاہتے کیونکہ جب ہر شے میں اﷲ ہے توہرشے کی پرشتش وعبادت عین اﷲ کی عبادت ہے۔

    برادران اسلام:بڑے افسوس کا مقام ہے کہ وحدت الوجود کے متوالے صوفیاء نے نہ صرف انسانوں بلکہ اس کائنات کی ہرشے کورب بناڈالا یہودونصاری تو حلول خاص کے قائل تھے یعنی اﷲ تعالی اپنے مقرب بندوں جسیے عزیروعیسی وجبریل علیہم السلام یا مریم میں حلول کرگیا لیکن صوفیاء انہیں پیچھے چھوڑ کر حلول عام کے قائل ہیں یعنی کائنات کی ہر چیز میں اﷲ کی ذات ٹھیک اس طرح حلول کرگئی جس طر پانی میں شکرگھل کر اپنا وجود کھودیتی ہے نعوذباﷲ من ذالک،یہ ہے وحدت الوجود کا وہ نظریہ جسے ماننے کے بعد مومن وکافرکےدرمیان امتیاز ہی مٹ جاتاہےاورجووحدت ادیان پرجاکرختم ہوجاتاہے پتھر کوسجدہ کرویا سورج چاند کی حقیقت میں سب سجدے اﷲہی کےلئےہیں'
    اﷲتعالی اس کفریہ عقیدہ سےہرمسلمان کومحفوظ رکھےآمین یا رب العالمین

    Comment


    • #3
      Re: اﷲکہاں ہے؟

      :jazak:
      اللہ ھم کو دین پر قائم رکھے

      امین

      Comment

      Working...
      X