یہ تحریر محمدبن جمیل زینو کی مرتب کی گئی کتاب شمائل نبویہ سے لی گئی ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات
1رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الخُلْدَ اَفَائِنْ مِّتَّ فَہُمُ الْخٰلِدُوْنَ}(الانبیائ:34)۔ ’’اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی بشر کو دائمی زندگی عطا نہیں کی۔ کیا بھلا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے‘‘؟
2
۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں جب کسی امت پر رحمت کرنا چاہتا ہے تو اس کے نبی کو فوت کر دیتا ہے۔ پھر اسے اس امت کے لئے آگے جا کر باعث اجر و پش رو سامان کرنے والا بنا دیتا ہے اور جب وہ کسی امت کی بربادی چاہتا ہے تو نبی کی زندگی میں اس امت کو عذاب دیتا ہے۔ اسے برباد کر دیتا ہے اور اس کا نبی اسے دیکھتا ہے۔ اس کی ہلاکت سے اپنی آنکھ ٹھنڈی کرتا ہے۔ جبکہ انہوں نے اسے جھٹلایا اور نافرمانی کی ہوتی ہے۔
(رواہ مسلم)
3
۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے ایک بندے کو (مراد ان کی اپنی ذات تھی) دنیا کی زندگی، اس کے ساز و سامان اور اللہ کے پاس جو نعمتیں ہیں ان دونوں چیزوں میں اختیار دیا ہے (کہ ان میں سے جو بھی تو پسند کرے وہ عطا کر دیا جائے گا) اس بندے نے اللہ تعالیٰ کے پاس والی نعمتوں کو پسند کیا ہے۔ (یہ سن کر) سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رو پڑے۔ (اس رمز سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سمجھ لیا کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحلت فرمانے والے ہیں۔ وہ مزاج شناسِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے)۔
رواہ البخاری)۔)
4
۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: آخری دفعہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوموار کے دن اپنے چہرے سے پردہ ہٹایا۔ وہ ایسا تھا گویا کہ کتاب کا سفید چمکدار ورق تھا۔ لوگ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے کھڑے تھے۔ لوگ تڑپ رہے تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی طرف اشارہ کیا۔ ثابت قدم رہو۔ صبر کرو۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ انہیں نماز پڑھا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ منہ پر ڈال لیا۔ اور اسی دن کے آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے۔ (متفق علیہ)۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔
5
۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کی اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری گردن اور سینے کے درمیان تھا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری گود میں تھے
رواہ البخاری)۔)
6
۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موت کو تکلیف پہنچی تو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہائے مصیبت تکلیف! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آج کے بعد تیرے باپ پر کوئی تکلیف نہ ہو گی۔ تیرے باپ کے پاس وہ ذات (فرشتہ) حاضر ہوا ہے جو (وقتِ اجل پر) کسی کو نہیں چھوڑتا۔ اب قیامت کے دن ہی ملاقات ہو گی۔
رواہ البخاری)۔)
7
۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تیرہ سال ٹھہرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی رہی۔ اور مدینہ میں دس سال ٹھہرے۔ جب فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر تریسٹھ (63) سال تھی۔
رواہ البخاری)۔ )
8
۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے (اس وقت) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ مدینے کی بالائی آبادی میں تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ کھڑے ہو کر کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک کھولا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دیا اور کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر میرا باپ قربان! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور موت خوشگوار رہی۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے: اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو دفعہ کبھی موت نہیں چکھائے گا۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ باہر نکلے اور فرمایا: اے قسم اٹھانے والے یعنی اے عمر (رضی اللہ عنہ)! ٹھہر جلدی نہ کر! جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بات کی تو عمر رضی اللہ عنہ بیٹھ گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی۔ پھر فرمایا: یاد رکھو! جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا (تو وہ جان لے کہ) محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے ہیں۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا (تو وہ جان لے کہ) اللہ تعالیٰ زندہ ہے وہ مرے گا نہیں۔ اور فرمایا: {اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّہُمْ مَّیِّتُوْنَ}(سورۃ الزمر آیۃ:30) ’’بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم مرنے والے ہیں اور وہ سب بھی مرنے والے ہیں‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْل قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلْ اَفَاِنْ مَاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی اَعْقَابِکُمْ وَمَنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی اَعْقَابِہٖ فَلَنْ یَضُّرُ اﷲَ شَیْئًا وَ سَیْجْزِی اﷲُ الشَّاکِرِیْن}(آل عمران4) ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ آپ سے پہلے کئی رسول گذر چکے ہیں۔ کیا بھلا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے یا شہید کر دیئے گئے تو تم اپنی ایڑیوں پر پھر جاؤ گے؟ جو شخص اپنی ایڑیوں پر پھر جائے گا (دینِ حق کو چھوڑ دے گا) تو وہ اللہ تعالیٰ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ اور اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو جلد جزا دے گا‘‘۔ (جب سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے خطاب کیا اور آیات پڑھیں) تو لوگ زور سے رونے لگے۔
رواہ البخاری)۔)
9
۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حالت ِ صحت میں فرماتے تھے: ’’ہر نبی اپنی موت سے پہلے جنت میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے۔ پھر اسے دنیا اور آخر کے بارے میں اختیار دیا جاتا ہے (کہ آپ دنیا میں دائمی زندگی کو پسند کرتے ہیں یا آخرت کی زندگی)۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر میری ران پر تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غشی طاری ہو گئی۔ افاقہ ہوا تو اپنی نظر چھت کی طرف اٹھائی پھر کہا: ’’اَللّٰھُمَّ الرَّفِیْقَ اللاعلیٰ‘‘ ’’میں رفیق اعلی اللہ تعالیٰ کی رفاقت چاہتا ہوں‘‘۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں رہنا پسند نہیں کریں گے‘‘۔ وہ کہتی ہیں: میں نے سمجھ لیا کہ صحتمندی کی حالت میں جو حدیث بیان کرتے تھے، یہ حالت اس کی تعبیر ہے۔
متفق علیہ)۔)
10
۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے دین کی تکمیل کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغامِ رسالت پہنچا دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے 11ھ میں سوموار کے دن وفات پائی۔
Comment