Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات

    یہ تحریر محمدبن جمیل زینو کی مرتب کی گئی کتاب شمائل نبویہ سے لی گئی ہے

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات
    1

    ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    {وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الخُلْدَ اَفَائِنْ مِّتَّ فَہُمُ الْخٰلِدُوْنَ}(الانبیائ:34)۔ ’’اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی بشر کو دائمی زندگی عطا نہیں کی۔ کیا بھلا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے‘‘؟

    2

    ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں جب کسی امت پر رحمت کرنا چاہتا ہے تو اس کے نبی کو فوت کر دیتا ہے۔ پھر اسے اس امت کے لئے آگے جا کر باعث اجر و پش رو سامان کرنے والا بنا دیتا ہے اور جب وہ کسی امت کی بربادی چاہتا ہے تو نبی کی زندگی میں اس امت کو عذاب دیتا ہے۔ اسے برباد کر دیتا ہے اور اس کا نبی اسے دیکھتا ہے۔ اس کی ہلاکت سے اپنی آنکھ ٹھنڈی کرتا ہے۔ جبکہ انہوں نے اسے جھٹلایا اور نافرمانی کی ہوتی ہے۔

    (رواہ مسلم)


    3

    ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے ایک بندے کو (مراد ان کی اپنی ذات تھی) دنیا کی زندگی، اس کے ساز و سامان اور اللہ کے پاس جو نعمتیں ہیں ان دونوں چیزوں میں اختیار دیا ہے (کہ ان میں سے جو بھی تو پسند کرے وہ عطا کر دیا جائے گا) اس بندے نے اللہ تعالیٰ کے پاس والی نعمتوں کو پسند کیا ہے۔ (یہ سن کر) سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رو پڑے۔ (اس رمز سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سمجھ لیا کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحلت فرمانے والے ہیں۔ وہ مزاج شناسِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے)۔

    رواہ البخاری)۔)

    4

    ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: آخری دفعہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوموار کے دن اپنے چہرے سے پردہ ہٹایا۔ وہ ایسا تھا گویا کہ کتاب کا سفید چمکدار ورق تھا۔ لوگ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے کھڑے تھے۔ لوگ تڑپ رہے تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی طرف اشارہ کیا۔ ثابت قدم رہو۔ صبر کرو۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ انہیں نماز پڑھا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ منہ پر ڈال لیا۔ اور اسی دن کے آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے۔
    (متفق علیہ)۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔

    5

    ۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کی اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری گردن اور سینے کے درمیان تھا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری گود میں تھے

    رواہ البخاری)
    ۔)

    6

    ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موت کو تکلیف پہنچی تو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہائے مصیبت تکلیف! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آج کے بعد تیرے باپ پر کوئی تکلیف نہ ہو گی۔ تیرے باپ کے پاس وہ ذات (فرشتہ) حاضر ہوا ہے جو (وقتِ اجل پر) کسی کو نہیں چھوڑتا۔ اب قیامت کے دن ہی ملاقات ہو گی۔

    رواہ البخاری)
    ۔)

    7

    ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تیرہ سال ٹھہرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی رہی۔ اور مدینہ میں دس سال ٹھہرے۔ جب فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر تریسٹھ (63) سال تھی۔

    رواہ البخاری)
    ۔ )

    8

    ۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے (اس وقت) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ مدینے کی بالائی آبادی میں تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ کھڑے ہو کر کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک کھولا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دیا اور کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر میرا باپ قربان! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور موت خوشگوار رہی۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے: اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو دفعہ کبھی موت نہیں چکھائے گا۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ باہر نکلے اور فرمایا: اے قسم اٹھانے والے یعنی اے عمر (رضی اللہ عنہ)! ٹھہر جلدی نہ کر! جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بات کی تو عمر رضی اللہ عنہ بیٹھ گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی۔ پھر فرمایا: یاد رکھو! جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا (تو وہ جان لے کہ) محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے ہیں۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا (تو وہ جان لے کہ) اللہ تعالیٰ زندہ ہے وہ مرے گا نہیں۔ اور فرمایا:
    {اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّہُمْ مَّیِّتُوْنَ}(سورۃ الزمر آیۃ:30) ’’بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم مرنے والے ہیں اور وہ سب بھی مرنے والے ہیں‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْل قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلْ اَفَاِنْ مَاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی اَعْقَابِکُمْ وَمَنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی اَعْقَابِہٖ فَلَنْ یَضُّرُ اﷲَ شَیْئًا وَ سَیْجْزِی اﷲُ الشَّاکِرِیْن}(آل عمران4) ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ آپ سے پہلے کئی رسول گذر چکے ہیں۔ کیا بھلا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے یا شہید کر دیئے گئے تو تم اپنی ایڑیوں پر پھر جاؤ گے؟ جو شخص اپنی ایڑیوں پر پھر جائے گا (دینِ حق کو چھوڑ دے گا) تو وہ اللہ تعالیٰ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ اور اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو جلد جزا دے گا‘‘۔ (جب سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے خطاب کیا اور آیات پڑھیں) تو لوگ زور سے رونے لگے۔

    رواہ البخاری)
    ۔)

    9

    ۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حالت ِ صحت میں فرماتے تھے: ’’ہر نبی اپنی موت سے پہلے جنت میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے۔ پھر اسے دنیا اور آخر کے بارے میں اختیار دیا جاتا ہے (کہ آپ دنیا میں دائمی زندگی کو پسند کرتے ہیں یا آخرت کی زندگی)۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر میری ران پر تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غشی طاری ہو گئی۔ افاقہ ہوا تو اپنی نظر چھت کی طرف اٹھائی پھر کہا: ’
    ’اَللّٰھُمَّ الرَّفِیْقَ اللاعلیٰ‘‘ ’’میں رفیق اعلی اللہ تعالیٰ کی رفاقت چاہتا ہوں‘‘۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں رہنا پسند نہیں کریں گے‘‘۔ وہ کہتی ہیں: میں نے سمجھ لیا کہ صحتمندی کی حالت میں جو حدیث بیان کرتے تھے، یہ حالت اس کی تعبیر ہے۔

    متفق علیہ)
    ۔)

    10

    ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے دین کی تکمیل کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغامِ رسالت پہنچا دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے 11ھ؁ میں سوموار کے دن وفات پائی۔

  • #2
    Re: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات

    منکرین حیاتُ النبی صلی الله علیہ وسلم کی ابتداء

    1956 میں تقریبا جامعہ خیرالمدارس ملتان کے سالانہ جلسہ میں عنایت الله شاه بخاری رح نے عقیده حیات النبی صلی الله علیہ وسلم کے انکار کو اپنی تقریر کا موضوع بنایا ، عام مسلمانوں کو گمراهی سے بچانے کے لیئے ، حضرت مولانا خیرمحمد جالندهری رح نے حضرت مولانا محمد علی جالندهری رح کو حکم دیا کہ وه اپنی تقریر میں بخاری صاحب کو نشانہ بنائے بغیر اس عقیده حقہ کی وضاحت کریں ، لهذا انهوں نے بڑے اچهے انداز اس کی وضاحت کی ، اور فرمایا کہ اسلاف دیوبند کثرهم الله سوادهم انبیا ء علیهم السلام کو ان کی قبور مبارکہ میں روح مع الجسد زنده تسلیم کرتے هیں ، اور عند القبر سماع صلاة و سلام کا عقیده رکهتے هیں ، اور 1400 سال سے پوری امت مسلمہ کا یہی عقیده تها اور آئنده بهی رهے گا ،
    اس پرعنایت الله شاه صاحب نے برهمی کا اظهار کیا ، اسی موقع پر علماء کی ایک محفل رکهی گئ ، تاکہ شاه صاحب کو مسلک حق مسلک دیوبند سمجهایا جائے ، لیکن شاه صاحب نے مسلک حق کو قبول کرنے کے بجائے ، اس مسئلہ کو پورے ملک میں اپنی تقریر کا مستقل موضوع بنا لیا ۰
    اس کے بعد علما ء کرام نے مختلف اوقات میں مصا لحت کی بڑی کو ششیں کیں ،لیکن خاطرخواه کامیابی نہ هوئ ، پهراس کے بعد ان اکابر نے مصالحت کی تمام مساعی ترک کرکے مسلک حق کو شکوک سے بچانے کے خاطر جمیعت علماء اسلام کا ایک اجلاس طلب کیا ، جس میں محدث کبیر حضرت مولانا یوسف بنوری رح کی تحریک اور دیگر اکابر علماء کی تائید سے امام اهل سنت حضرت مولانا سرفرازخان صفدر رح کو منتخب کیاگیا ، کہ وه قرآن وسنت اور اجماع امت کی روشنی میں دلائل کے ساتهہ مسلک دیوبند کی ترجمانی کرتے هوئے اس عقیده حیاتُ النبی صلی الله علیہ وسلم کو واضح کریں ، لهذا حضرت نے
    تسکینُ الصُدور فی تحقیقِ احوالِ الموتی فی البرزخ والقبور ) کے نام ایک عظیم کتاب لکهی اور تحقیق کا پوراحق ادا کردیا)
    اور اس کتاب پر اس وقت کے تمام قابل ذکر اکابر نے تصدیقات لکهیں ۰
    منکرین حیات النبی صلی الله علیہ وسلم کی پوری حقیقت واصلیت جا ننے کے لیئے ، اور عقیده حیات ُالنبی صلی الله علیہ وسلم اهمیت اور حقانیت جا ننے کے لیئے ( تسکینُ الصدور ) کا ضرور مطالعہ کریں ۰

    1 . انبیاء علیہم السلام کی ارواح مبارکہ کا ان کے اجسام عنصری اصلی دنیوی کے ساتهہ تعلق هے ، اوراس تعلق کی وجہ سے اجسام دنیویہ عنصریہ اصلیہ کی حیات کا عقیده متفق علیہ هے .
    2 . اوریہ حیات ان کو اپنی قبورمبارکہ میں حاصل هے ، اور چونکہ قبر عالم برزخ کا ایک حصہ هے اس لیئے اس کو حیات برزخی بهی کها جاتا هے ، اور چونکہ قبرمیں وهی اصلی دنیوی جسم زنده هے اس لیئے اس حیات کو حیات دنیوی یا اس کے مشابہ یا حِسی سے بهی تعبیر کیا جاتا هے ۰

    3 اور انبیاء علیهم السلام کی حیات فی القبرکا عقیده قرآن مجید کی آیات شهداء کے دلالتُ النص اور احادیث مبارکہ کے عبارتُ النص سے ثابت هے.

    4 . . اور خود لفظ نبی کو دیکهہ لیا جائے تو وه بهی حیات فی القبر کا تقاضہ کرتی هے ، کیونکہ وصف نبوت نبی کے لیئے ثابت هوتا هے ، اورزنده کے لیئے نہ کہ مرده کے لیئے لهذا جس طرح وه اپنی دنیوی تکلیفی زندگی میں وصف نبوت کے مُتّصف تهے اسی طرح بعد الموت بهی متصف هوں گے ، جس طرح دنیا کی زندگی میں ان پر ایمان لانا فرض هے اسی طرح اب بهی ان پر ایمان لانا فرض هے ، اور یہ جب هی هو سکتا هے کہ ان کے حیات فی القبر کو تسلیم کیا جائے .

    5 . حیات فی القبر کے اوپر صحابہ کرام رضی الله عنہم ، تابعین ، تبع تابعین ، اور جمیع امت مسلمہ کا اجماع هے ، اور کسی بهی مسئلہ پر پوری امت کا اجماع واتفاق هو تو وه کسی ایک آدمی یا جماعت کے انکار سے نهیں ختم هو سکتا ، بلکہ انکار خود اس اجماع کے انکار کی وجہ سے دائره اهل سنت سے دور هوجاتا هے

    Comment


    • #3
      Re: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات

      انبیاء کرام کا معاملہ بھی دیکھتے ہیں، اور اس حوالے سے بھی صحیح بخاری میں ایک بڑی تفصیلی حدیث ملتی ہے جس سے ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ تمام اچھے اور برے انسان بشمول انبیاء اور مومنین عالمِ برزخ میں زندہ ہیں جہاں وہ اکٹھے راحت و عذاب کے سلسلے سے گزارے جاتے ہیں ۔ اسی طرح اس حدیث سے ہمیں یہ بھی علم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی مدینہ والی قبر میں نہیں بلکہ جنت کے سب سے اعلی گھر میں زندہ ہیں اور اس حدیث کے مطابق انہیں اپنا یہ مقام دکھایا گیا جہاں اپنی وفات کے بعد انہوں نے رہنا تھا۔ یہ حدیث کافی لمبی ہے لیکن انتہائی اہمیت کی حامل ہے سو ہم اسے یہاں مکمل کاپی کر رہے ہیں۔


      سمرہ بن جندبؓ نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلوٰۃ الفجر پڑھنے کے بعد (عموماً) ہماری طرف منہ کر کے بیٹھ جاتے اور پوچھتے کہ آج رات کسی نے کوئی خواب دیکھا ہو تو بیان کرو۔ راوی نے کہا کہ اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو اسے وہ بیان کر دیتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تعبیر اللہ کو جو منظور ہوتی بیان فرماتے۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمول کے مطابق ہم سے دریافت فرمایا کیا آج رات کسی نے تم میں کوئی خواب دیکھا ہے؟ ہم نے عرض کی کہ کسی نے نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے کہ دو آدمی میرے پاس آئے۔ انہوں نے میرے ہاتھ تھام لیے اور وہ مجھے ارض ِمقدس کی طرف لے گئے۔ اور وہاں سے عالم ِبالا کی مجھ کو سیر کرائی ، وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص تو بیٹھا ہوا ہے اور ایک شخص کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں لوہے کا آنکس تھا جسے وہ بیٹھنے والے کے جبڑے میں ڈال کر اس کے سرکے پیچھے تک چیردیتا پھر دوسرے جبڑے کے ساتھ بھی اسی طرح کرتا تھا۔ اس دوران میں اس کا پہلا جبڑا صحیح اور اپنی اصلی حالت پر آ جاتا اور پھر پہلے کی طرح وہ اسے دوبارہ چیرتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیاہو رہا ہے؟ میرے ساتھ کے دونوں آدمیوں نے کہا کہ آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک ایسے شخص کے پاس آئے جو سر کے بل لیٹا ہوا تھا اور دوسرا شخص ایک بڑا سا پتھر لیے اس کے سر پر کھڑا تھا۔ اس پتھر سے وہ لیٹے ہوئے شخص کے سر کو کچل دیتا تھا۔ جب وہ اس کے سر پر پتھر مارتا تو سر پر لگ کر وہ پتھر دور چلا جاتا اور وہ اسے جا کر اٹھا لاتا۔ ابھی پتھر لے کر واپس بھی نہیں آتا تھا کہ سر دوبارہ درست ہو جاتا۔ بالکل ویسا ہی جیسا پہلے تھا۔ واپس آ کر وہ پھر اسے مارتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک تنور جیسے گڑھے کی طرف چلے۔ جس کے اوپر کا حصہ تو تنگ تھا لیکن نیچے سے خوب فراخ۔ نیچے آگ بھڑک رہی تھی۔ جب آگ کے شعلے بھڑک کر اوپر کو اٹھتے تو اس میں جلنے والے لوگ بھی اوپر اٹھ آتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ اب وہ باہر نکل جائیں گے لیکن جب شعلے دب جاتے تو وہ لوگ بھی نیچے چلے جاتے۔ اس تنور میں ننگے مرد اور عورتیں تھیں۔ میں نے اس موقع پر بھی پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ لیکن اس مرتبہ بھی جواب یہی ملا کہا کہ ابھی اور آگے چلو ‘ ہم آگے چلے۔ اب ہم خون کی ایک نہر کے اوپر تھے نہر کے اندر ایک شخص کھڑا تھا اور اس کے بیچ میں ایک شخص تھا۔ جس کے سامنے پتھر رکھا ہوا تھا۔ نہر کا آدمی جب باہر نکلنا چاہتا تو پتھر والا شخص اس کے منہ پر اتنی زور سے پتھر مارتاکہ وہ اپنی پہلی جگہ پر چلا جاتا اور اسی طرح جب بھی وہ نکلنے کی کوشش کرتا وہ شخص اس کے منہ پر پتھر اتنی ہی زور سے پھر مارتاکہ وہ اپنی اصلی جگہ پر نہر میں چلا جاتا۔ میں نے پوچھا یہ کیاہو رہا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم اور آگے بڑھے اور ایک ہرے بھرے باغ میں آئے۔ جس میں ایک بہت بڑا درخت تھا اس درخت کی جڑ میں ایک بڑی عمر والے بزرگ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ کچھ بچے بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ درخت سے قریب ہی ایک شخص اپنے آگے آگ سلگا رہا تھا۔ وہ میرے دونوں ساتھی مجھے لے کر اس درخت پر چڑھے۔ اس طرح وہ مجھے ایک ایسے گھر میں لے گئے کہ اس سے زیادہ حسین و خوبصورت اور بابرکت گھر میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس گھر میں بوڑھے، جوان ‘ عورتیں اور بچے (سب ہی قسم کے لوگ) تھے۔ میرے ساتھی مجھے اس گھر سے نکال کر پھر ایک اور درخت پر چڑھا کر مجھے ایک اور دوسرے گھر میں لے گئے جو نہایت خوبصورت اور بہتر تھا۔ اس میں بھی بہت سے بوڑھے اور جوان تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم لوگوں نے مجھے رات بھر خوب سیر کرائی۔ کیا جو کچھ میں نے دیکھا اس کی تفصیل بھی کچھ بتلاؤ گے؟ انہوں نے کہا ہاں وہ جو تم نے دیکھا تھا اس آدمی کا جبڑا لوہے کے آنکس سے پھاڑا جا رہا تھا تو وہ جھوٹا آدمی تھا جو جھوٹی باتیں بیان کیا کرتا تھا۔ اس سے وہ جھوٹی باتیں دوسرے لوگ سنتے۔ اس طرح ایک جھوٹی بات دور دور تک پھیل جایا کرتی تھی۔ اسے قیامت تک یہی عذاب ہوتا رہے گا۔ جس شخص کو تم نے دیکھا کہ اس کا سر کچلا جا رہا تھا تو وہ ایک ایسا انسان تھا جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا تھا لیکن وہ رات کو پڑا سوتا رہتا اور دن میں اس پر عمل نہیں کرتا تھا۔ اسے بھی یہ عذاب قیامت تک ہوتا رہے گا اور جنہیں تم نے تنور میں دیکھا تو وہ زناکار تھے۔ اور جس کو تم نے نہر میں دیکھا وہ سود خوار تھا اور وہ بزرگ جو درخت کی جڑ میں بیٹھے ہوئے تھے وہ ابراہیم علیہ السلام تھے اور ان کے اردگرد والے بچے ‘ لوگوں کی نابالغ اولاد تھی اور جو شخص آگ جلارہا تھا وہ دوزخ کا داروغہ تھا اور وہ گھر جس میں آپ پہلے داخل ہوئے جنت میں عام مومنوں کا گھر تھا اور یہ گھر جس میں تم اب کھڑے ہو ‘ یہ شہداء کا گھر ہے اور میں جبرائیل ہوں اور یہ میرے ساتھ میکائیکل ہیں۔ اچھا اب اپنا سر اٹھاؤ میں نے جو سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے اوپر بادل کی طرح کوئی چیز ہے۔ میرے ساتھیوں نے کہا کہ یہ تمہارا مکان ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ پھر مجھے اپنے مکان میں جانے دو۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تمہاری عمر باقی ہے جو تم نے پوری نہیں کی اگر آپ وہ پوری کر لیتے تو اپنے مکان میں آ جاتے۔





      صحیح بخاری ، کتاب الجنائز





      چونکہ انبیاء کرام کا خواب بھی وحی ہوتا ہے ہمارے لئے اس حدیث کی روشنی میں مندرجہ ذیل باتوں کی تصدیق ہوتی ہے۔


      ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت میں وہ مقام دکھا دیا گیا جہاں انہیں اپنی دفات کے بعد رہنا تھا۔


      ۔ لہذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اب اپنی مدینہ کی قبر میں نہیں بلکہ مقامِ محمود پر زندہ ہیں اور یہ زندگی کسی اعتبار سےدنیاوی زندگی نہیں بلکہ برزخی زندگی ہے اور ہمارے تقریباًٍٍ


      تمام فرقوں کا انہیں انکی قبر میں زندہ اور دنیا میں حاضر و ناظر ماننا یا یہ کہنا کہ وہ لوگوں کے خوابوں میں آتے ہیں اور اشارے دیتے ہیں قطعی غلط اور خلافِ قران و حدیث عقائد ہیں۔


      ۔ تمام انسانی ارواح وفات کے بعداکٹھی یا ایک ہی جگہ پر یعنی عالمِ برزخ میں عذاب یا راحت کی منزلوں سے گزرتی ہیں۔


      ۔ ارواح کو ملنے والے برزخی اجسام خاص نوعیت کے ہیں جنہیں اگر نقصان پہنچے تو یہ دوبارہ بن جاتے ہیں۔


      ۔ وہ تمام زنا کار مرد اور عورتیں جو دنیا میں مختلف مقامات پر مرے اور دفنائے یا جلائے گئے وغیرہ ان سب کو برہنہ حالت میں ا یک ساتھ جمع کر کے ایک بڑے تنور میں جھونک دیا جاتا ہے اور آگ کے عذاب سے گزارا جاتا ہے جو قیامت تک جاری رہے گا۔


      ۔ نیک لوگ یا مومنین ، انبیاء اور شہداء بھی برزخ میں اکٹھے ہیں جہاں انہیں خاص جسم ملتے ہیں جیسے شہداء کو اڑنے والا جسم ملتا ہے



      Comment


      • #4
        Re: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات



        اس طرح سے ہمیں بتا دیا گیا کہ شہداء ’’عندربھم‘‘ یعنی اپنے رب کے پاس ہیں اور وہاں رزق پا رہے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے مناسب ہے کہ ہم صحیح مسلم کی مندرجہ ذیل حدیث دیکھیں کہ جب صحابۂ کرام نے شہداء کے حوالے سے یہی سوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو انہوں نے کیا ارشاد فرمایا۔


        مسروق نے کہا کہ ہم نے عبداللہ بن مسعود سے قران کی اس آیت ’’اور جو لوگ الله کی راہ میں مارے گئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس رزق پا رہےہیں‘‘ (سورۃ آل عمران ۱٦۹ ) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے اس آیت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ شہدا کی روحیں سبز اُڑنے والے قالبوں میں ہیں اور ان کے لئے قندیلیں عرش الٰہی سے لٹکی ھوئی ہیں۔ وہ جنت میں جہاں چاہیں گھومتے پھرتے ہیں اور پھر ان قندیلوں میں آکر بسیرا کرتے ہیں۔ ان کی طرف ان کے رب نے جھانکا اور ارشاد فرمایا کہ کسی اور چیز کی تمہیں خواہش ہے؟ شہدا نے جواب دیا کہ اب ہم کس چیز کی خواہش کر سکتے ہیں، جب ہمارا یہ حال ہے کہ ہم جنت میں جہاں چاہیں مزے کریں، اللہ تعالٰی نے اس طرح تین بار ان سے یہی دریافت کیا اور شہدا نے دیکھا کہ جب تک وہ کسی خواہش کا اظہار نہ کریں گے ان کا رب ان سے برابر پوچھتا رہے گا تو انہوں نے کہا مالک ہماری تمّنا یہ ہے کہ ہماری روحوں کو پھر ہمارے جسموں میں لوٹا دیا جائے اور ہم دوسری بار تیری راہ میں شہید کئے جائیں۔ اب مالک نے دیکھ لیا کہ انہیں کسی اور چیز کی خواہش نہیں تو پھر ان سے پوچھنا چھوڑ دیا۔








        صحیح مسلم جلد ۲






        اس صحیح حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ شہداء کی ارواح کو خاص قسم کے اڑنے والے جسم دیئے گئے ہیں اور وہ اپنی زمینی قبروں میں نہیں بلکہ جنتوں میں خوش و خرم ہیں ۔ اللہ تعالٰی ان سے کلام فرماتا ہے اور پوچھتا ہے کہ اگر تمہیں کسی اور چیز کی تمنا ہو تو بتاؤ لیکن جب وہ اس خواہش کو ظاہر کرتے ہیں کے انکی روح کو واپس ان کے دنیاوی جسم میں لوٹا دیا جائے تاکہ وہ ایک بار پھر اللہ کی راہ میں جہاد کر کے شہادت کی سعادت حاصل کریں تو مالکِ کائنات اس خواہش کے جواب میں اپنی سنت نہیں بدلتا بلکہ انہیں جنت میں عیش و عشرت کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔










        Comment


        • #5
          Re: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات




          نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے حوالے سے ہمیں ایک اور صحیح حدیث بھی ملتی ہے جو انکی وفات سے ذرا پہلے کی ہے اور عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں حاضر و نا ظر رہنے کی بجائے اللہ کی رفاقت کی دعا کی یعنی جنت میں دکھائے گئے مقام پر رہنے کو ترجیح دی ۔


          عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار نہیں تھے تو فرمایا کرتے تھے کہ جب بھی کسی نبی کی روح قبض کی جاتی تو پہلے جنت میں اس کا ٹھکانا دکھا دیا جاتا ہے ، اس کے بعد اسے اختیار دیا جاتا ہے ( کہ چاہیں دنیا میں رہیں یا جنت میں چلیں) چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور سرمبارک میری ران پر تھا ۔ اس وقت آپ پر تھوڑی دیر کے لئے غشی طاری ہوئی ۔ پھر جب آپ کو اس سے کچھ ہوش ہوا تو چھت کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگے ، پھر فرمایا ’’اللھم الرفيق الاعلیٰ‘‘ یعنی ’’ اے اللہ رفیق اعلیٰ ‘‘ ۔ میں نے سمجھ لیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اب ہم دنیا والوں (کی رفاقت) اختیار نہ کریں گے ۔ میں سمجھ گئی کہ جو بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحت کے زمانے میں بیان فرمایا کرتے تھے ، یہ وہی بات ہے ۔ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری کلمہ تھا جو آپ نے زبان سے ادا فرمایا کہ’’اللھم الرفيق الاعلیٰ‘‘۔





          صحیح بخاری، کتاب الدعوات



          لہذا اس طرح سے قران و صحیح حدیث کی روشنی میں یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ ہر انسان کی اصلی قبر عالمِ برزخ ہے یہ دنیاوی گڑھا نہیں جہاں صرف اسلئے مردہ جسم کو ٹھکانے لگانے کی نیت سے دفن کیا جاتا ہے تاکہ وہ مٹی میں مٹی ہو جائے اور تعفن نہ پھیلے۔ اسی طرح دنیا میں لوگ مختلف طریقوں سے مرتے ہیں، کسی کو زندہ جلا دیا جاتا ہے، کوئی ٹریفک حادثے میں مرتا ہے تو کسی کا جسم بم دھماکے میں پرزے پرزے ہو جاتا ہے، کسی کی موت ہوائی حادثے میں ہو جاتی ہے تو کوئی سیلاب یا دیگر قدرتی آفات کا شکار ہو کر لقمۂ اجل بنتا ہے اور کچھ کو جانور کھا جاتے ہیں۔ اسی طرح ہر مذہب یا معاشرے کا اپنے مردوں کو ٹھکانے لگانے کا طریقہ بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے جیسے ہندو اپنے مردے جلا دیتے ہیں اور انکی راکھ گنگا میں بہا دی جاتی ہے اسی طرح پارسی اپنے مردوں کو پرندوں کے کھانے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں کہ انکے خیال میں یوں مردہ جسم کو قدرت کے حوالے کر دینا ہی مناسب طریقہ ہے، اسی طرح بہت سی لاوارث لاشوں کو چیر پھاڑ کر میڈیکل کے طالبعلم اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں اور ایسی لاشوں کو بعد میں تیزاب میں گلا کر ختم کر دیا جاتا ہے ۔ یعنی بہت سے لوگوں کو تو دنیا میں قبر ملتی ہی نہیں لیکن جب ہم قران پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ قبر ہر انسان کو دی جاتی ہے ۔


          قُتِلَ الْإِنسَانُ مَا أَكْفَرَهُ۔ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ۔ مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ۔ ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ۔ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ۔ ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَهُ





          انسان پر خدا کی مار وہ کیسا ناشکرا ہے۔ کس چیز سے اللہ نے اس کو بنایا؟ نطفہ کی ایک بوند سے اللہ نے اسے پیدا کیا ، پھر اس کی تقدیر مقرر کی، پھر اسکے لئے زندگی کی راہ آسان کی، پھر اسے موت دی اور قبر عطا فرمائی، پھر جب اسے چاہے گا زندہ کرے گا۔



          سورة عبس آیات ۱۷ تا ۲۲





          پس ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہر مرنے والے کو قبر ملتی ہے چاہے دنیا میں اسکی لاش جلا کر راکھ کردی جائے اور یا پھر وہ جانوروں اور مچھلیوں کی خوراک بن جائے اور یہی وہ اصلی قبر ہے جو ہر ایک کو ملتی ہے اور جہاں روح کو قیامت تک رکھا جائے گا اور ثواب و عذاب کے ادوار سے گزارا جائے گا۔ اسی حوالے سے ایک اور مثال ہمیں فرعو ن اور اسکے حواریوں کی ملتی ہے جن کے بارے میں قران ہمیں بتاتا ۔


          حَتَّىٰ إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ

          أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا الَّذِي

          آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِي۔

          آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ۔ فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ





          اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کر دیا پھر فرعون اور اس کے لشکر نے ظلم اور زيادتی سے ان کا پیچھا کیا یہاں تک کہ جب ڈوبنےلگا کہا میں ایمان لایا کہ کوئی معبود نہیں مگر جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں فرمانبردار میں سے ہوں۔ اب یہ کہتا ہے اورتو اس سے پہلے نافرمانی کرتا رہا اور مفسدوں میں داخل رہا۔ سو آج ہم تیرے بدن کو نکال لیں گے تاکہ تو پچھلوں کے لیے عبرت ہو اوربے شک بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے بے خبر ہیں۔



          سورة یونس، آیات ۹۰ تا ۹۲





          فَوَقَاهُ اللَّهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا ۖ وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ۔ النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ





          پھر الله نے اسے تو ان کے فریبوں کی برائی سے بچایا اور خود فرعونیوں پر سخت عذاب آ پڑا۔ وہ صبح او رشام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہو گی (حکم ہوگا) فرعونیوں کو سخت عذاب میں لے جاؤ۔



          سورة غافر، آیات ٤۵۔٤٦





          اسطرح ہمیں بتایا جاتا ہے کہ فرعون اور اسکے لوگ صبح شام آگ پر پیش کئے جاتے ہیں اور قیامت کے بعد اس عذاب میں مزید شدت آ جائے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان لوگوں کو صبح و شام کا یہ عذاب کہاں ہو رہا ہے؟ کیونکہ مصر کے لوگ تو اپنے مردوں کو ممی بنا کر محفوظ کر لیتے تھے اور آج صدیاں گزر جانے کے بعد بھی انکی لاشیں یا ممیاں شیشے کے تابوتوں میں مصر اور دنیا کے دیگر عجائب خانوں میں ساری دنیا کے سامنے پڑی ہیں۔ اب جو یہ فرقے یہ دعوی کرتے ہیں کہ تمام انسانوں کی ارواح کو مستقل طور پر انکی قبروں میں مدفون مردہ اجسام سے جوڑ دیا جاتا ہے تو فرعون اور فرعونیوں کے حوالے سے یہ سب ہمیں کیوں دکھائی نہیں دیتا؟ کیا کبھی کسی نے ان ممیوں کو ہلتے یا عذاب کی حالت میں چیختے چلاتے دیکھا ہے؟ لہذا اصل بات وہی ہے جو ہم اپنے ہر مضمون میں اپنے پڑھنے والوں کے لئے دہراتے ہیں کہ ان فرقوں کے چند نامی گرامی علماء نے قران و حدیث کے خلاف عقائد و تعلیمات گھڑ لئے اور اب ان سب فرقوں کا حال یہ ہے کہ اپنے اپنے علماء کی اندھی تقلید کی وجہ سے یہ لوگ انکی ان غلط تعلیمات کا انکار نہیں کر پاتے چاہے اس سب میں قران و حدیث کا واضح انکار ہو جائے۔


          قران کے علاوہ حدیث میں بھی ہمیں ایسی مثالیں ملتی ہیں جن سے علم ہوتا ہے کہ مردے سے سوال و جواب اور اسکے بعد عذاب کا سلسلہ فوراً ہی شروع ہو جاتا ہے چاہے اسکی لاش ابھی دفنائی بھی نہ گئی ہو۔ ملاحظہ کیجئے صحیح مسلم کی یہ حدیث:
          قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، عبداللہ بن ابوبکر، عمرۃبنت عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودیہ کے جنازے پر سے گزرے اس پر رویا جا رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ لوگ تو اس پر رو رہے ہیں اور اس کو اسکی قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے۔





          صحیح مسلم، جلد اول، جنازوں کا بیان







          فرقوں کے بقول مردہ انسان کی تدفین کے فوراً بعد انسانی روح اسکے جسم میں واپس ڈال دی جاتی ہے پھر فرشتے آکر اسے اٹھا کر بٹھاتے ہیں اور اس سے سوال و جواب کرتے ہیں اور پھر اسکے جوابات کی روشنی میں اس پر عذاب یا راحت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو جسم اور روح دونوں پر یکساں ہوتا ہے۔ اب سوال یہ اٹھتاہے کہ پھر مندرجہ بالاحدیث میں اس یہودیہ کے سوال و جواب کہاں ہوئے اور کہاں اس پر عذاب شروع بھی ہو گیا جبکہ اسے ابھی دفن بھی نہیں کیا گیا تھا؟ اور کیوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں اور اسے عذاب دیا جا رہا ہے؟ لہذا ایک بار پھر ہمیں یہی بتایا جاتا ہے کہ مردے کے سوال و جواب اور پھر سزا و جزا اسکی اصلی قبر یعنی برزخ میں وفات کے فوراً بعد ہی شروع ہو جاتے ہیں چاہے اسکے لواحقین کئی دن اسے دفن نہ بھی کریں کہ اللہ کا نظام اور اس کی سنّت انسانوں کے قوانین اور ضابطوں کے محتاج نہیں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ دنیا میں تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لاوارث لاشیں کئی کئی ماہ مردہ خانوں میں پڑی رہتی ہیں جب تک کہ انکے رشتہ دار مل نا جائیں اور یا پھر جو لوگ قتل ہوتے ہیں انکا پہلے پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے، تحقیقات ہوتی ہیں اور پھر کہیں جا کر لاش ورثاء کو ملتی ہے تو کیا فرشتے اتنا عرصہ انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کب مردے کے لواحقین لاش کو دفن کریں اور وہ اس میں روح لوٹا کر سوال و جواب کریں؟
          اسی طرح قران اس معاملے میں بھی بالکل صاف حکم دیتا ہے کہ تمام انسان اپنی دنیاوی وفات کے بعد صرف اور صرف قیامت کے دن ہی دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔



          Comment


          • #6
            Re: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات

            ............

            Comment


            • #7
              صحیح ہے

              Comment

              Working...
              X