Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

مسلمان مشرک

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #16
    Re: مسلمان مشرک

    Originally posted by Baniaz Khan View Post




    بہت باعث شرم ہے جناب
    لولی صاحب

    واقعی حیا کی پھر کوئی حد ہوسکتی ہے پر بے شرمی کی کوئی حد نہیں

    آپ کو اتنا بھی خیال نہیں آیا کہ یہ سب کچھ کر کے
    آپ غلط کررہے ہو

    کس منہ سے خود کو اللہ اور رسول ﷺ کا ماننے والا کہتے ہو

    آپ تو پوری طرح اپنا وقار کھو چکے ہو

    Shame Shame Shame




    ٹوپک پر بات کرو

    قرآن کی آیات یا احادیث
    کی روشنی میں بات کرو
    کیا تمہارا طریقہ یہی ہے
    یا حوالہ نہ دلیل
    اب تم پر ہی فٹ ہوتی ہے تمہاری بات


    کس منہ سے خود کو اللہ اور رسول ﷺ کا ماننے والا کہتے ہو

    آپ تو پوری طرح اپنا وقار کھو چکے ہو

    Shame Shame Shame



    Comment


    • #17
      Re: مسلمان مشرک

      اوہو ای گل تے پکی ٹھکی گل کہ نئیں آونی شرم ایس بندے نوں میرے کولون بھانویں قسم چکا لو ایس نون نئی جئے آونی ہُن شرم ۔للوز
      ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

      Comment


      • #18
        Re: مسلمان مشرک



        ٹاپک پر کیا بات کروں
        اس پر بات کرنا تو بلکل ایسا ہی ہے جیسے میں آپ سے ایک سال پہلے کے اخبار کی کسی سرخی پر بات کرنے لگ جاوں
        خیر
        مجھے واقعی یہ سب کچھ جان کر دلی افسوس ہوا ہے
        آپ کی بے جا فرقہ واریت کی پوسٹز کے باوجود
        میں واقعی آپ کے علم کی قدر کرتا تھا
        اور میں علم ہی کی بنیاد پر قدر کیا کرتا ہوں
        پر یہ سب دیکھ کر واقعی دکھ ہوا ہے

        چلو کاپی پیسٹ کو بھی گوارا کر لیتے ہیں
        پر آپ ایک سائٹ کے ممبر ہوتے ہوئے
        ایک ممنوع تھریڈ میں سے پوری پوسٹ یہاں وہاں ہر جگہ شائع کررہے ہو
        یہ اس فورم کے تو ہر لحاظ سے رولز کے خلاف ہے

        آپ کو نیند خود آجاتی ہے یا گولیاں کھانی پڑتی ہیں
        یہ کیسا علم ہے آپ کے پاس
        کیا اس چیز کو چوری ثابت کرنے کے لیے مجھے کسی قرآنی آیت یا حدیث کو کوٹ کرنا چاہیے

        ہٹ دھرمی سے لاکھ درجے بہتر ہے آپ اپنی غلطی کو قبول کرو
        انسانیت کا ثبوت دیتے ہوئے سب سے پہلے تو اس فورم اور اس تھریڈ کے مالک سے معذرت کرو

        ٹاپک پر بات ٹاپک پر بات
        یہ تو وہی بات ہوگئی
        کسی کی مرغی چرا کر پکائی

        جب کھانے والوں کو پتہ چلا کہ مرغی چوری کی ہے
        تو بجائے اس بات کا جواب دینے کے آپ پوچھ رہے ہو
        یہ بتاو
        مزیدار ہے یا نہیں ہے

        ایسے مسلمان کو میں کیا نام دوں
        جسے بعد از جرم احساس جرم بھی نہیں

        میں آپ سے کوئی بغض کوئی عداوت نہیں رکھتا
        پر ایسی حرکتیں خود نفس انسانی کو تباہ کرتی ہیں
        انسانی ذات مجروح ہوتی ہے







        Comment


        • #19
          Re: مسلمان مشرک

          Originally posted by Baniaz Khan View Post


          ٹاپک پر کیا بات کروں
          اس پر بات کرنا تو بلکل ایسا ہی ہے جیسے میں آپ سے ایک سال پہلے کے اخبار کی کسی سرخی پر بات کرنے لگ جاوں
          خیر
          مجھے واقعی یہ سب کچھ جان کر دلی افسوس ہوا ہے
          آپ کی بے جا فرقہ واریت کی پوسٹز کے باوجود
          میں واقعی آپ کے علم کی قدر کرتا تھا
          اور میں علم ہی کی بنیاد پر قدر کیا کرتا ہوں
          پر یہ سب دیکھ کر واقعی دکھ ہوا ہے

          چلو کاپی پیسٹ کو بھی گوارا کر لیتے ہیں
          پر آپ ایک سائٹ کے ممبر ہوتے ہوئے
          ایک ممنوع تھریڈ میں سے پوری پوسٹ یہاں وہاں ہر جگہ شائع کررہے ہو
          یہ اس فورم کے تو ہر لحاظ سے رولز کے خلاف ہے

          آپ کو نیند خود آجاتی ہے یا گولیاں کھانی پڑتی ہیں
          یہ کیسا علم ہے آپ کے پاس
          کیا اس چیز کو چوری ثابت کرنے کے لیے مجھے کسی قرآنی آیت یا حدیث کو کوٹ کرنا چاہیے

          ہٹ دھرمی سے لاکھ درجے بہتر ہے آپ اپنی غلطی کو قبول کرو
          انسانیت کا ثبوت دیتے ہوئے سب سے پہلے تو اس فورم اور اس تھریڈ کے مالک سے معذرت کرو

          ٹاپک پر بات ٹاپک پر بات
          یہ تو وہی بات ہوگئی
          کسی کی مرغی چرا کر پکائی

          جب کھانے والوں کو پتہ چلا کہ مرغی چوری کی ہے
          تو بجائے اس بات کا جواب دینے کے آپ پوچھ رہے ہو
          یہ بتاو
          مزیدار ہے یا نہیں ہے

          ایسے مسلمان کو میں کیا نام دوں
          جسے بعد از جرم احساس جرم بھی نہیں

          میں آپ سے کوئی بغض کوئی عداوت نہیں رکھتا
          پر ایسی حرکتیں خود نفس انسانی کو تباہ کرتی ہیں
          انسانی ذات مجروح ہوتی ہے



          جو بات بھی اسلام کے بارے میں لکھی جاتی ہے
          کیا صرف
          ایک ہی فورم پر رہنے دی جا ے
          یا اس کو دوسروں کو بھی بتایا جا ے

          اور اگر اس میں کوئی غلطی ھو تو اس کی اصلاح کی جا ے

          اب آپ کوئی حدیث لکھتے ہیں تو کیا

          اگر آپ نے کوئی حدیث اس فورم پر لکھ دی

          اور یہاں سب نے سمجھا کہ یہ صحیح حدیث ہے

          لکن ھو سکتا ہے کہ یہ صحیح حدیث نہ ہو

          اگر اسی حدیث کو دوسری جگہ کسی اور فورم پر لکھنے سے ھو سکتا ہے کہ
          کوئی بتا دے کہ یہ ضعیف ہے
          یا حدیث ہے ہی نہیں




          میں آپ کو اپنا ایک سچا واقعہ سناتا ہوں . میں ایک فورم پر تھا اور ایک حدیث پڑھی اور اس کے حوالے میں لکھا تھا کہ یہ ترمزی شریف سے لی گئی ہے
          آپ یقین کریں کہ جب میں نے ترمذی شریف دیکھی تو شروح سے آخر تک مجھے وہ والی حدیث نہ ملی

          جب میں نے فورم پر لکھا کہ یہ حدیث پوری ترمذی شریف میں نہیں ہے . تو مجھے جواب دیا گیا کہ آپ حوالہ مانگنے والے کون ہوتے ہیں

          حوالہ صرف اڈمن مانگ سکتا ہے . اب آپ بتائیں کہ کیا قرآن یا حدیث کا حوالہ صرف اڈمن ہی مانگ سکتا ہے . کسی کو کوئی حق نہیں کہ وہ حوالہ مانگ سکے

          میرے بھائی کوئی بھی اچھی بات یا حدیث کہیں بھی لکھنے میں کوئی شرم کی بات نہیں ہے



          ھو سکتا ہے کہ بندہ اپنی طرف سے صحیح بات لکھ رہا ہو . لکن جب بات کی تحقیق کی جا ے تو پتا چلے کہ یہ بات صحیح نہیں ہے یا حدیث ضعیف ہے یا بلکل ہے ہی نہیں
          اور جب لکھنے والے کو پتا چلے تو وہ اپنی اصلاح کر لے



          اب اگر میں صحیح بخاری سے کوئی حدیث

          پیغام فورم پر لکھ دوں

          اس کے بعد

          دوسرے فورم پر بھی لکھ دوں

          تو کیا آپ یہ کہیں گے میں نے صحیح بخاری سے چوری کی ہے

          اگر کوئی قرآن کی آیات لکھ دوں
          اور ہر
          فورم
          پر لکھ دوں

          کیا قرآن کی آیات لکھنا چوری ہے

          ہمارا مقصد کسسی بھی صحیح حدیث یا قرآن کی آیات کو پڑھ کر اپنی اصلاح کرنا ہے

          کوئی بھی فورم ہو

          اچھی بات کو ہر جگہ

          لکھ دو

          ھو سکتا ہے کہ اس بات کی وجہ سے کسی کی زندگی بدل جا ے

          آپ کی بھائی

          آپ کا بھائی
          لو لی آل ٹائم








          Comment


          • #20
            Re: مسلمان مشرک

            اس شخص کی بات کا کچھ اعتبار نہیں بے فرقہ واریت کا یہ ماسٹر ماینڈ ہے

            Comment


            • #21
              Re: مسلمان مشرک

              میں سکے بینڈ ہونے پر بہی لولی کو ہی ٖقصور وار مانتا ہوں کیو نکہ یہ ام فتنہ ہے

              Comment


              • #22
                Re: مسلمان مشرک

                Originally posted by aabi2cool View Post

                اسلام علیکم معزز قارئین کرام !
                فتنون کا دور ہے اور یہ فتنے کوئی نئے نہیں ہیں بلکہ صحابہ کرام کے دور سے ہی شروع ہوگئے تھے امام بخاری علیہ رحمہ نے اپنی صحیح میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ وہ خارجیوں کو کائنات کی بدترین مخلوق گردانتے تھے کیونکہ وہ خارجی کفار کہ حق میں وارد شدہ آیات کو پڑھ پڑھ کر مومنین پر چسپاں کیا کرتے تھے ۔۔
                وہ خارجی اپنے زعم میں توحید پرست اوراپنی توحید کو صحابہ کرام کی توحید سے بھی کامل اور اکمل سمجھنے والے تھے اور یوں وہ توحید کہ اصل اور حقیقی ٹھیکدار بنے کی کوشش کرتے رہتے تھے اور ایک طبقہ آج کہ دور کا ہے ، جسکا بھی بعینیہ وہی دعوٰی ہے کہ سوائے انکے کوئی موحد و مومن ہی نہیں لہذا اس طبقہ کو اورکوئی کام ہی نہیں سوائے اس کے یہ بھی قرآن اور حدیث کو فقط اس لیے کھنگالتے ہیں کہ کہیں سے انکو امت مسلمہ کہ جمہور پر کفر و شرک کا حکم لگانے کی کوئی سبیل میسر آجائے ، انا للہ وانا العیہ راجعون ۔
                معزز قارئین کرام کیا آپ نے کبھی ہلکا سا بھی تدبر حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے مذکورہ بالا قول پر کیا ہے ؟؟؟ کیا ہے تو آپ پر صاف ظاہر ہوجائے گا کہ اس وقت کہ نام نہاد توحید پرست خارجی کس قدر دیدہ دلیر تھے کہ وہ اپنی توحید میں خود کو صحابہ کرام سے بھی بڑھ کرسمجھتے تھے تبھی تو وہ اسلام کے خیر القرون کے دور کے صحاب اور تابعین مسلمانوں پر شرک کہ فتوے لگاتے تھے قارئین کرام کیا آپ امیجن کرسکتے ہیں کہ اسلام کہ ابتدائی دور میں جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیار کردہ بہترین جماعت یعنی صحابہ کرام موجود ہوں اور پھر انھی کے شاگرد یعنی تابعین کرام کا طبقہ بھی موجود ہو جو کہ براہ راست صحابہ کرام سے فیض حاصل کررہا ہو اور چند نام نہاد توحید پرستوں کا ٹولہ اٹھے اور توحید کے پرچار کے زعم میں اس پاکیزہ جماعت پرکفر و شرک کے بے جا فتوے لگانا شروع کردے آپ ان کی دیدہ دلیری دیکھیئے ہٹ دھرمی اور جرات کو دیکھیئے اور سر دھنیے انکی توحید پرستی پر۔


                اب اتے ہیں اصل مدعا پر دیکھا گیا ہے کہ انـٹرنیٹ پر اسی طبقہ کی اکثریت سورہ یوسف کی آیت نمبرایک سو چھ کو تختہ مشق بنائے ہوئے ہے اور یوں زمانہ خیر القرون کے خارجیوں کی طرح یہ آیت جگہ جگہ نقل کرکے آج کہ دور کے مومنین پر چسپاں کرتے ہوئے انھے کافر و مشرک قرار دینے میں دھڑا دھڑ مصروف عمل ہے لہذا یہ لوگ اس کام کو کچھ اس دلجمعی اور سرعت سے انجام دے رہے ہیں کہ جیسے یہ کوئی بہت بڑا کار ثواب ہو ۔
                تو آئیے معزز قارئین کرام اس آیت سے انکے باطل استدلال کی قلعی کھولیں اور جو مغالطہ دیا جاتا ہے اس کا پردہ چاک کریں لیکن اس سے بھی پہلے ایک بدیہی قاعدہ جان لیں کہ عربی کا مشھور مقولہ ہے کہ الاشیاء تعرف باضدادھا یعنی چیزیں اپنی ضدوں سے پہچانی جاتی ہیں اور ایک قاعدہ یہ بھی ہے اجتماع ضدین محال ہے یعنی دو ایسی اشیاء جو کہ ایک دوسرے کی ضد ہوں انکا بیک وقت کسی ایک جگہ پایا جانا ناممکن ہے یعنی ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی بھی شخص بیک وقت مومن ومسلم بھی ہو اور مشرک و کافر بھی ۔۔۔۔۔۔
                کیونکہ اسلام اور کفر ضد ہیں اور توحید اور شرک آپس میں ضد ہیں اور ایک شخص مسلم تب بنتا ہے جبکہ وہ توحید پر ایمان لے آئے یعنی اللہ کی واحدانیت پر لہذا جب کوئی اللہ کی واحدانیت پر ایمان لے آئے تو تبھی وہ حقیقی مومن ہوگا اور وہ ایک حالت یعنی حالت توحید میں ہوگا اب اسے بیک وقت مومن بھی کہنا اور مشرک بھی کہنا چہ معنی دارد؟؟؟ یا تو وہ مسلم ہوگا یا پھر مشرک دونوں میں کسی ایک حالت پر اسکا ایمان ہوگا اور ایمان معاملہ ہے اصلا دل سے ماننے کا اور یقین رکھنے کا اور پھر اسکے بعد اس کا بڑا رکن ہے زبان سے اقرار ۔
                خیر یہ تو تمہید تھی بات کو سمجھانے کی اب آتے ہیں سورہ یوسف کی مزکورہ بالا آیت کی طرف ۔۔۔
                معزز قارئین کرام آپ سورہ یوسف کی اس آیت کی تفسیر میں امہات التفاسیر میں سے کوئی سی بھی تفسیر اٹھا کر دیکھ لیں کہ تقریبا سب مفسرین نے یہ تصریح کی ہے یہ آیت مشرکین مکہ کی بابت نازل ہوئی لہذا ہم بجائے تمام مفسرین کو نقل کرنے کہ فقط اسی ٹولہ کہ ممدوح مفسر یعنی امام حافظ ابن کثیر علیہ رحمہ کی تفسیر نقل کرتے ہیں جو کہ شیخ ابن تیمیہ کے شاگرد رشید ہیں۔ آپ اپنی تفسیر میں اسی آیت کہ تحت رقم طراز ہیں کہ :
                وقوله: { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِٱللَّهِ إِلاَّ وَهُمْ مُّشْرِكُونَ } قال ابن عباس: من إِيمانهم أنهم إِذا قيل لهم: من خلق السموات، ومن خلق الأرض، ومن خلق الجبال؟ قالوا: الله، وهم مشركون به. وكذا قال مجاهد وعطاء وعكرمة والشعبي وقتادة والضحاك وعبد الرحمن بن زيد بن أسلم، وفي الصحيحين: أن المشركين كانوا يقولون في تلبيتهم: لبيك لا شريك لك، إلا شريكاً هو لك، تملكه وما ملك. وفي صحيح مسلم: أنهم كانوا إِذا قالوا: لبيك لا شريك لك، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قد قد " أي: حسب حسب، لا تزيدوا على هذا.
                مفھوم : آپ دیکھیئے معزز قارئین کرام کہ امام ابن کثیر نے پہلے اس آیت کی تفسیر میں قول ابن عباس رضی اللہ عنہ نقل کیا ہے کہ انکا یعنی مشرکین کا ایمان یہ تھا کہ جب ان سے پوچھا جاتا کہ زمین و آسمان اور پہاڑ کس نے پیدا کیئے ہیں تو وہ کہتے کہ اللہ نے مگر اس کے باوجود وہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھراتے۔اور اسی طرح کا قول مجاہد ،عطا،عکرمہ ،شعبی،قتادہ ،ضحاک اور عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم سے بھی ہے ۔
                جبکہ صحیحین میں روایت ہے کہ : مشرکین مکہ حج کہ تلبیہ میں یہ پڑھتے تھے کہ میں حاضر ہوں اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ کہ جسے تونے خود شریک بنایا اور تو اسکا بھی مالک ہے اور صحیح مسلم میں مزید یہ ہے کہ جب مشرک ایسا کہتے تو یعنی کہ لبیک لا شریک لک تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کہتے کہ بس بس ،بس اسی قدر کافی ہے اس کہ آگے مت کہو
                معزز قارئین کرام آپ نے دیکھا کہ اس آیت کا بیک گراؤنڈ کیا تھا اور یہ کیونکر اور کن کے بارے میں نازل ہوئی ؟ تمام مفسرین نے بالاتفاق اس آیت کہ شان نزول میں مشرکین کہ تلبیہ والا واقعہ نقل کرکے اس آیت کی تفسیر کی ہے ۔ تو ثابت ہوا کہ اس آیت سے مراد مشرکین مکہ کی اکثریت سمیت منافقین مدینہ کی اقلیت تھی کہ جو کہ اس آیت کا حقیقی مصداق بنے، کہ وہی لوگ اس وقت اکثریت میں تھے نہ کہ مسلمان جیسا کہ خود آیت میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کی اکثریت اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے بھی مشرک ہے تو اس وقت جن لوگوں کی اکثریت تھی وہ مشرکین مکہ اور منافقین تھے نہ کہ اس وقت کہ حقیقی مسلمان جو کہ صحابہ کرام تھے معاذاللہ اگر آج کہ دور کہ نام نہاد توحید پرستوں کہ کلیہ کہ مطابق اس آیت کا اطلاق کیا جائے تو یہ تہمت اور بہتان سیدھا جاکر صحابہ کرام پر وارد ہوتا ہے کہ آخر اس وقت کون لوگ تھے جو ایمان والے تھے ؟؟؟ ظاہر ہے جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت صحابہ کرام ہی ایمان والے تھے مگر کیا اس آیت کی رو سے صحابہ کرام کی اکثریت مشرکوں کی تھی نعوذباللہ من ذالک نہیں نہیں ایسا ہرگز نہ تھا بلکہ سیدھی اور صاف بات ہے کہ یہ آیت درحقیقت مشرکین مکہ اور منافقین کی مذمت میں نازل ہوئی جو کہ حقیقت میں مسلمانوں کہ مقابلہ میں اکثریت میں تھے اور اس آیت میں جو لفظ ایمان آیا ہے یعنی ان مشرکوں کو جو ایمان رکھنے والا کہا گیا تو وہ محض لغوی اعتبار سے ایمان والا کہا گیا ہے نہ کہ شرعی اور حقیقی اعتبار سےکیونکہ وہ لوگ اللہ پاک کی خالقیت اور ربوبیت کا چونکہ اقرار کرتے تھے لہذا انکے اس اقرار کرنے کی باعث انکے اس اقرارپرصوری اعتبارسے لفظ ایمان کا اطلاق اللہ پاک نے کیا ہے لہذا وہ لوگ اللہ کی خالقیت اور رزاقیت اور مالکیت اور ربوبیت کا تو اقرار کرتے تھے مگراکیلے اللہ کی معبودیت کا اعتراف نہیں کرتے تھے اسی لیے اپنے تلبیہ میں اپنے خود ساختہ معبودوں کی عبادت کا اقرار کرتے ہوئے اس کا الزام بھی نعوذباللہ من ذالک
                اللہ کی ذات پر دھرتے تھے کہ تیرا کوئی شریک نہیں اور جن کی ہم عبادت کرتے ہیں وہ شریک ہمارے لیے تو نے خود بنایا ہے لہذا ہم اس کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ وہ تیرے بنانے سے تیرا شریک ہے اور توہی اس کا بھی مالک ہے ۔
                جب کہ آج کہ دور میں کوئی جاہل سے جاہل مسلمان بھی کسی غیر اللہ کسی نبی ولی یا نیک شخص کی عبادت نہیں کرتا اور نہ ہی زبان سے یہ کہتا ہے کہ اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا پھر فلاں نبی یا ولی تیرے خاص شریک ہیں کہ تو انکا مالک بھی ہے اور تونے انھے ہمارے لیے اپنا شریک خود بنایا ہے نعوذ باللہ من ذالک الخرافات ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العظیم ۔۔۔والسلام


                محترم اگر اس آیت میں ان مسلمانوں کا ذکر نہیں ہے تو پھر منافقین کو اپ کہاں فٹ کریں گے انھوں نے بھی تو کلمہ پڑھا ہے اور اگر مسلمان شرک نہیں کریں گے تو ان احادیث کا مفہوم سمجھا دیںبڑی مہربانی ہو گی .

                (٤) جو لوگ ایمان لا کر اپنے ایمان میں ظلم کو شامل نہیں کرتے ان کے لئے امن اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں (سورہ الانعام ٨٢) جب یہ ایت نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پریشان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ وہ کون ہے جس نے ظلم نہ کیا ہے ہوگا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اللہ کے نیک بندے(لقمان رضی اللہ عنہ) کا قول نہیں سنا کہ اے بیٹے اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا بے شک شرک ظلم عظیم ہے(بخاری کتاب الایمان باب ظلم دون ظلم رقم ٣٢، ٤٧٧٦)

                فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق مسلمان جب تک شرک میں مبتلا نہیں ہوں گے اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی حدیث پیش ہے
                “" قیامت قائم نہ ہو گی جب تک میری امت کے چند قبیلے مشرکوں سے نہ مل جائیں اور بتوں کی عبادت نہ کر لیں (ابوداود کتاب الفتن باب ذکرہ الفتن رقم ٤٢٥٢)
                اور مسلم میں حدیث ہے " جس مسلمان کے جنازے میں ٤٠ ایسے لوگ شریک ہو جو الله کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے ہوں تو الله ان کی سفارش اس مردے کے حق میں قبول کرے گا (مسلم کتاب الجنائز )
                ان میں نبی صلی الله علیھ وسلم نے اپنے کن امتیوں کے بارے میں بتایا ہےبراۓ مہربانی ان احادیث کی وضاحت فرما دیں .

                Comment


                • #23
                  Re: مسلمان مشرک



                  Allah-o-Akbar Kabeera, Wal Hamdulillaah-e-Kaseera, Subhan Allah-e-Bukratan-wa-Aseela

                  Comment


                  • #24
                    Re: مسلمان مشرک



                    أَلَا إِنَّ لِلَّهِ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ ۗ وَمَا يَتَّبِعُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ شُرَكَاءَ ۚ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ
                    .





                    خبردار جو کوئی آسمانوں میں ہے اور جو کوئی زمین میں ہے سب الله کا ہے اور یہ جو الله کے سوا شریکوں کو پکارتے ہیں وہ نہیں پیروی کرتے مگر گمان کی اور نہیں ہیں وہ مگر اٹکل کرتے ہیں

                    وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ أَشْرَكُوا مَكَانَكُمْ أَنْتُمْ وَشُرَكَاؤُكُمْ ۚ فَزَيَّلْنَا بَيْنَهُمْ ۖ وَقَالَ شُرَكَاؤُهُمْ مَا كُنْتُمْ إِيَّانَا تَعْبُدُونَ

                    اور جس دن ہم ان سب کو جمع کرینگے پھر مشرکوں سے کہیں گے تم اور تمہارے شریک اپنی جگہ کھڑے رہو تو ہم ان میں پھوٹ ڈال دینگے اور ان کے شریک کہیں گے کہ تم ہماری عبادت نہیں کرتے تھے


                    فَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ إِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغَافِلِينَ
                    سو اللہ ہمارے اور تمہارے درمیان گواہ کافی ہے کہ ہمیں تمہاری عبادت کی خبر ہی نہ تھی


                    وَمَا بِكُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ ۖ ثُمَّ إِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَإِلَيْهِ تَجْأَرُونَ
                    اور تمہارے پاس جو نعمت بھی ہے سو الله کی طرف سے ہے پھر جب تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تواسی سے فریاد کرتے ہو

                    .

                    ثُمَّ إِذَا كَشَفَ الضُّرَّ عَنْكُمْ إِذَا فَرِيقٌ مِنْكُمْ بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ
                    پھر جب تم سے تکلیف دور کر دیتا ہےتو فوراً تم میں سے ایک جماعت اپنے رب کے ساتھ شریک بنانے لگتی ہے

                    وَإِذَا رَأَى الَّذِينَ أَشْرَكُوا شُرَكَاءَهُمْ قَالُوا رَبَّنَا هَٰؤُلَاءِ شُرَكَاؤُنَا الَّذِينَ كُنَّا نَدْعُو مِنْ دُونِكَ ۖ فَأَلْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكَاذِبُونَ
                    اور جب مشرک اپنے شریکوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے اے ہمارے رب! یہی ہمارے شریک ہیں جنہیں ہم تیرے سوا پکارتے تھے پھر وہ انہیں جواب دیں گے کہ تم سراسر جھوٹے ہو
                    87. وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ ۖ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ
                    اور وہ اس دن الله کے سامنے سر جھکا دیں گے اور بھول جائیں گے وہ جو جھوٹ بناتے تھے

                    وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ
                    اور جنہیں الله کے سوا پکارتے ہیں وہ کچھ بھی پیدانہیں کرتے اور وہ خود پیدا کیے ہوئے ہیں
                    21. أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ
                    وہ تو مردے ہیں جن میں جان نہیں اور وہ نہیں جانتے کہ لوگ کب اٹھائے جائیں گے


                    إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ ۖ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
                    بے شک جنہیں تم الله کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہیں پھر انہیں پکار کر دیکھو پھر چاہے کہ وہ تمہاری پکار کو قبول کریں اگر تم سچے ہو


                    Allah-o-Akbar Kabeera, Wal Hamdulillaah-e-Kaseera, Subhan Allah-e-Bukratan-wa-Aseela

                    Comment


                    • #25
                      Re: مسلمان مشرک




                      محترم اگر اس آیت میں ان مسلمانوں کا ذکر نہیں ہے تو پھر منافقین کو اپ کہاں فٹ کریں گے انھوں نے بھی تو کلمہ پڑھا ہے اور اگر مسلمان شرک نہیں کریں گے تو ان احادیث کا مفہوم سمجھا دیںبڑی مہربانی ہو گی .

                      اسلام علیکم
                      پہلی بات یہ کیا طریق استدلال ہے ؟؟؟ کہ فریق مخالف کے تحریری اقتباس کو محض کوٹ کیا جائے مگر اس پر ہلکا سا بھی تدبر نہ کیا جائے چناچہ اس میں اٹھائے گئے کسی بھی نقطے کا جواب دینے سے ہمیشہ گریز برتی جائے ؟؟ کیا یہی آپ کا علمی طریق ہے ؟؟ اور اسے ہی استدلال کہتے ہیں ؟؟؟آپ کو چاہیے تھا کہ پہلے* ہماری باتوں کو باقاعدہ ایک ایک کرکے نقل کرتے اور پھر اسی طریق سے ہمارے تمام تر استدلال کی خامیاں ظاہر فرماتے اور پھراپنے مؤقف کے لیے بطوراستشھاد اپنے استدلال کے زریعے ہمارے لیے سوالات فرماتے مگر ہنوز ہمیشہ کی طرح وہی پرانی غیر مقلدانہ روش کے اگلے کی نہ سنو محض اپنی ہانکے جاو ۔۔۔
                      اور دوسری بات کہ ہمیشہ فریق مخالف کو جواب دینے سے پہلے اس کی تحریر کو کم از کم ایک مرتبہ ضرور دھیان سے پڑھ لینا چاہیے تاکہ بعد میں خفت کا سامنا نہ کرنا پڑے آپکو ہماری تحریر میں سورہ یوسف کی*آیت کی تفسیر و وضاحت میں منافقین کی فٹنگ نہیں دکھائی دی ؟؟؟؟ ہم نے تو صاف ساٍ اور انڈر لائین کرکے لکھا کہ ۔۔۔
                      تو ثابت ہوا کہ اس آیت سے مراد مشرکین مکہ کی اکثریت سمیت منافقین مدینہ کی اقلیت تھی کہ جو کہ اس آیت کا حقیقی مصداق بنے، کہ وہی لوگ اس وقت اکثریت میں تھے نہ کہ مسلمان جیسا کہ خود آیت میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کی اکثریت اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے بھی مشرک ہے تو اس وقت جن لوگوں کی اکثریت تھی وہ مشرکین مکہ اور منافقین تھے نہ کہ اس وقت کہ حقیقی مسلمان جو کہ صحابہ کرام تھے معاذاللہ
                      ۔۔۔
                      یہ تھی ہمارے جواب میں منافقین کی فٹنگ جو کہ آپکی نظر سے نہ گزری تو ہم نے دہرا دی طرفہ تماشا یہ ہے کہ آج کہ دور کہ نام نہاد توحید پرست سورہ یوسف کی اس آیت کو ان معنی میں بطور استدلال پیش کرتے ہیں کہ ایک مسلمان بھی مشرک ہوسکتا ہے جبکہ ہمارا دعوٰی ہے کہ اگر کوئی کلمہ گو کوئی ایسا اعتقاد رکھے کہ جس سے شرک لازم آتا ہو یعنی اس سے لزوم کفر ثابت ہوتا ہو تو اس کلمہ گو کو اس کے اس اعتقاد کی لزومیت کفر سے آگاہ کیا جائے اگر پھر بھی وہ اس پر اڑا رہے اور اپنے اس کفر پر التزام برتے تو اس کا یہ کفر لزوم سے نکل التزام کفر کے معنی میں داخل ہوکر اس معین شخص کو دائرہ اسلام سے خارج کردئے گا پھر اسے کافر یا مشرک یا پھر مرتد کہیں گے نہ کہ بیک وقت مسلمان بھی اور مشرک بھی اور یہ ایک ایسا بدیہی امر ہے کہ جس سے ادنٰی سی عقل رکھنے والا انسان بھی واقف ہوگا چناچہ اسی بات کو مشھور ویب بیسڈ جریدے کے ممشھور سلفی رائٹر جناب حامد کمال الدین نے اپنی کتاب نواقض اسلام میں کچھ یون واضح کیا ہے ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ۔۔۔
                      یہاں ”کلمہ گو“ والی غلط فہمی کا ازالہ ایک بار پھر ضروری ہے۔ نواقض اسلام کہتے ہی ان باتوں کو ہیں جو کسی شخص کو اسلام سے خارج کر دیں یعنی کلمہ گو کو کلمہ گو نہ رہنے دیں۔نواقضِ اسلام ہیں ہی وہ باتیں جو آدمی کے کلمہ گو ہونے کو کالعدم کردیں۔ نواقض اسلام کسی کافر کو اسلام سے خارج کرنے والی باتوں کو نہیں کہا جاتا! بلکہ نواقض اسلام تو عین وہ باتیں ہیں جو کسی ”کلمہ گو“ کو کافر قرار دینے کیلئے علماءاور ائمہ نے بیان کی ہیں۔ پس یہ بات جان لینے کے بعد اس امر کی گنجائش نہیں رہتی کہ آپ کسی کلمہ پڑھنے والے شخص کو طاغوت کی مسند پر دیکھیں یا کسی قبر کو سجدہ کرتے ہوئے پائیں تو اسے ”بہرحال مسلمان“ کہنے اور سمجھنے پر مجبور ہوں، کیونکہ وہ آپ کے خیال میں کلمہ پڑھتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
                      آگے چل کر مزید لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ ہمارے یہاں __
                      برصغیر کے بعض موحد حلقوں میں __کسی شخص کو ’مشرک‘ تو نسبتاً بڑے آرام سے کہہ دیا جاتا ہے (کسی کو ایک خاص فرقے کی مسجد میں محض آتے جاتے بھی دیکھ لیا تو جھٹ سے ”مشرک“ کہہ ڈالا!) مگر جب اس کو ”کافر“ کہنے کا سوال آئے تو تب یہ لوگ ’محتاط‘ ہونا ضروری سمجھتے ہیں!
                      حالانکہ ان دونوں باتوں کے لئے ایک ہی درجہ کی احتیاط لازم ہے، کیونکہ یہ دونوں باتیں دراصل لازم وملزوم ہیں۔

                      جتنا کسی کو ”کافر“ قرار دینا خطرناک ہے اتنا ہی اُس کو ”مشرک“ قرار دینا خطرناک ہے۔ ہر دو کی سنگینی ایک سی ہے۔
                      یہ عجیب ماجرا ہے کہ ہمارے ایک خاص طبقے کے ہاں کسی شخص کو ’مشرک‘ کہہ دینے میں کسی ”احتیاط“ یا کسی ”توقف“ کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ تمام کی تمام احتیاط یہ لوگ اس ”مشرک“ کو ”کافر“ سمجھنے کیلئے پس انداز رکھتے ہیں! جبکہ معاملہ یہ ہے کہ احتیاط دراصل پہلا قدم اٹھانے کے وقت ہی درکار ہے۔
                      قاعدہ یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں ہر وہ شخص جس سے شرک کے زمرے میں آنے والا کوئی فعل سرزد ہو اُس کو فوراً مشرک نہیں کہہ دیا جائے گا۔ ہر وہ شخص جس سے کفر کا کوئی فعل سرزد ہو اُس کو فی الفور کافر نہیں کہہ دیا جائے گا۔ ہر وہ شخص جس سے فسق کا کوئی کام سرزد ہو اُس کو معاً فاسق اور جس سے بدعت کا کوئی کام ہو اس کو جھٹ سے بدعتی نہیں کہہ دیاجائے گا۔ حکمِ مطلق بیان کرنا (کہ فلاں اعتقاد یا فلاں رویہ رکھنے والے شخص کا شریعت کے اندر یہ حکم ہے ایک چیز ہے اور اُس کو بنیاد بنا کر کسی متعین شخص پر وہ فتویٰ لگا دینا ایک اور چیز۔
                      کسی شخص کے ایسے فعل کی بنا پرجو ہمارے نزدیک شرک کے زمرے میں آتا ہے، اس کو مشرک قرار دینے کی کچھ شروط ہیں: وہ اپنے اس فعل کا مطلب جانتا ہو۔ اس پر حجت قائم کر دی گئی ہو۔ اس کی لاعلمی یا شبہات واشکالات اور تاویلات کا علمی انداز سے ازالہ کر دیا گیا ہو وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ جتنی احتیاط ہوسکے وہ یہیں پر، یعنی کسی کو مشرک قرار دیتے وقت، کی جانا ہوتی ہے۔ ’توقف‘ کا اصل مقام یہ ہے۔ لیکن اگر اس سے گزر جانے کا فیصلہ ہو جاتا ہے اور آپ اُس شخص کو ”مشرک“ ہی قرار دے ڈالتے ہیں تو اس کے بعد یہ کہنا کہ یہ شخص ”مشرک“ تو ہو گیا ہے مگر ہے یہ ”مسلمان“، البتہ ایک مضحکہ خیز امر ہے۔
                      حق یہ ہے کہ جب آپ نے کسی کو ”مشرک“ کہہ ڈالا تو اُس کو ”کافر“ کہنے میں آپ نے کوئی کسر ہی نہیں چھوڑی۔ ”احتیاط“ ضروری ہے تو وہ اُس کو مشرک کہتے وقت ہی کر لیا کریں۔ ”شرکِ اکبر“ کی تعریف ہی یہ ہے کہ یہ آدمی کو دائرۂ اسلام سے خارج کر دیتا ہے اور ابدی جہنم کا مستحق۔
                      اس غلط فہمی کے باعث لوگوں میں یہ تاثر پھیل گیا ہے کہ سب مشرک کافر نہیں ہوتے! گویا بعض مشرک مسلمان ہوتے ہیں اور بعض مشرک کافر!
                      اصل قاعدہ یہ ہے کہ ہر وہ کلمہ گو شخص جو شرک کے زمرے میں آنے والے کسی فعل میں پڑ جائے اس کو تب تک مشرک نہیں کہا جائے گا جب تک کہ اہل علم کے ہاتھوں اس پر حجت قائم نہ ہو جائے اور اس پر مشرک ہونے کا باقاعدہ حکم نہ لگا دیا جائے۔ جب تک یہ نہیں ہوجاتا اس کے اس شرکیہ فعل کو شرک تو برملا کہا جائے گا اور اس شرک سے اس کو روکا بھی ضرور جائے گا مگر اس شخص کو ”مشرک“ کہنے سے احتیاط برتی جائے گی۔ البتہ جب وہ شرعی قواعد وضوابط کی رو سے اہل علم کے ہاتھوں مشرک ہی قرار دے دیا جائے تو اس وقت وہ دائرۂ اسلام سے خارج بھی شمار ہوگا۔




                      آج کے نام نہاد توحید پرستوں کا المیہ یہ ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح روایات پیش کی جاتی ہیں کہ جنکے مفھوم کہ مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت پر سے شرک جلی کا کوئی خطرہ نہ تھا تو یہ لوگ آج کہ دور کے مومنین کی اکثریت کو مشرک ثابت کرنے کے لیے پھر سورہ یوسف کی آیت سے استدلال کرتے ہیں کیونکہ اس میں ایک تو لفظ مومن آیا ہے اور دوسرا کثیر لہذا ثابت ہوا کہ آج کہ دور کے کثیر مومن بھی مشرک لا حول ولا قوۃ الا باللہ کس قدر بھونڈا استدلال ہے یہ اور یہی چیز ہم نے اپنے پہلے مراسلہ میں واضح کی کہ آیت میں اگرچہ لفظ مومن آیا ہے مگر وہ اپنے حقیقی معنوں میں نہیں بلکہ صوری اور عرفی معنوں میں استعمال ہوا ہے اور آیت کا شان نزول میں مفسرین نے تینون طبقات کا یعنی مشرکین مکہ ،منافقین مدینہ اور اہل کتاب یہود و نصارٰی وغیرہ کا تذکرہ ہے بحرحال مزکورہ بالا تینوں طبقات میں کسی ایک یا پھر تینوں کی مشترکہ بھی اگر ان آیات کا شان نزول کا باعث مان لیا جائے تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ* آیت بحرحال اس وقت کے حقیقی مومنین کے حق میں ہرگز نازل نہیں ہوئی اور اسی چیز کو ہم نے اوپر واضح کیا ۔ ۔
                      ٤) جو لوگ ایمان لا کر اپنے ایمان میں ظلم کو شامل نہیں کرتے ان کے لئے امن اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں (سورہ الانعام ٨٢) جب یہ ایت نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پریشان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ وہ کون ہے جس نے ظلم نہ کیا ہے ہوگا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اللہ کے نیک بندے(لقمان رضی اللہ عنہ) کا قول نہیں سنا کہ اے بیٹے اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا بے شک شرک ظلم عظیم ہے(بخاری کتاب الایمان باب ظلم دون ظلم رقم ٣٢، ٤٧٧٦)



                      رہ گیا آپ کا سورہ انعام کی آیت سے استدلال کرنا تو وہ بھی درست نہیں بلکہ وہ آپکی بجائے ہماری دلیل ہے کیونکہ جب آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام گھبرا گئے اور انھوں نے لفظ ظلم کا معروف معنی مراد لیا جو کہ ذیادتی بنتا ہے چناچہ انھوں نے گھبرا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یارسول اللہ ہم میں سے کون ہوگا کہ جس سے کبھی نہ کبھی کسی دوسرے کہ حق میں کوئی کمی بیشی نہ ہوئی ہوگی تو کیا ہمارے تمام اعمال ضائع گئے ؟؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آی تکہ حقیقی معنی ان پر واضح کرنے کے لیے سورہ لقمان کی آیت تلاوت کی اور فرمایا کہ یہاں ظلم سے مراد معروف معنوں والا ظلم نہیں بلکہ شرک ہے آیت کی یہ تفسیر سن کر صحابہ کرام کے بے قرار دلوں کو چین میسر ہوا ۔۔۔ اس آیت میں صحابہ رکام کے لیے تنبیہ نہیں بلکہ مژدہ جانفزا تھا کہ ظلم تو حقیقی طور پر ان لوگوں کا ہے کہ جو شرک کرتے ہیں جبکہ تم لوگ تو شرک سے تائب ہوکر پکے سچے مومن ہو ۔۔
                      فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق مسلمان جب تک شرک میں مبتلا نہیں ہوں گے اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی حدیث پیش ہے
                      “" قیامت قائم نہ ہو گی جب تک میری امت کے چند قبیلے مشرکوں سے نہ مل جائیں اور بتوں کی عبادت نہ کر لیں (ابوداود کتاب الفتن باب ذکرہ الفتن رقم ٤٢٥٢)

                      آپکی پیش کردہ اس روایت کی وضاحت میں مفتی ڈاکٹر اشرف آصف جلالی صاحب انے مضمون عقیدہ توحید اور امت توحید میں رقمطراز ہیں کہ ۔۔
                      امت مسلمہ کی یہ ایمانی عظمت اب بھی برقرار ہے عقیدہ توحید باقی ہے۔ لیکن چمک میں فرق آنے لگا ہے۔
                      رسول اللہﷺ نے یہی حقیقت خود بیان فرمائی ۔
                      (۱) ’’مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دے دی گئی ہیں اور میں خدا کی قسم تمہارے بارے میں خطرہ محسوس نہیں کرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے لیکن مجھے خطرہ ہے کہ تم کہیں دنیا کی محبت میں ڈوب نہ جائو۔
                      (بخاری شریف حدیث نمبر۱۳۴۴،مسلم شریف حدیث نمبر ۲۲۹۶)
                      (۲) حضرت عبادہ بن نُسَیّ کہتے ہیں میں حضرت شداد بن اوس کے پاس ان کی جائے نماز میں داخل ہوا تو وہ رو رہے تھے میں نے پوچھا اے ابو عبدالرحمن رونے کی وجہ کیا ہے؟ تو حضرت شداد نے کہا رسول اللہﷺ سے میں نے ایک حدیث سنی تھی اس کی وجہ سے رو رہا ہوں۔ میں نے کہا وہ کونسی حدیث ہے انہوں نے کہا اس دوران کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھا تھا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کے چہرہ مبارک پر ایسی کیفیت ملاحظہ کی جس سے میں غمگین ہوا۔ میں نے کہا یا رسول اللہﷺ میرے والدین آپ پر قربان ہو جائیں آپ کے چہرہ مبارک پر میں کیسی کیفیت دیکھ رہا ہوں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک امر کی وجہ سے میں رنجیدہ ہوں جس کا مجھے میرے بعد اپنی امت پرخطرہ ہے۔ میں نے کہا وہ کونسا امر ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ شرک اور شھوت خفیہ ہے حضرت شداد کہتے ہیں میں نے کہا کیا آپ کی امت آپ کے بعد شرک کرے گی؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا خبردار میری امت کے لوگ نہ سورج کی عبادت کریں گے نہ چاند کی نہ کسی بت کی عبادت کریں گے اور نہ ہی کسی پتھر کی لیکن اپنے اعمال کی وجہ سے لوگوں کیلئے ریاکاری کریں گے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺکیا ریا شرک ہے؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہاں ریا شرک ہے میں نے کہا شہوت خفیہ کیا ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا تم میں سے صبح کے وقت روزے کی حالت میں ہوگا اسے دنیا کی شھوتوں میں سے کوئی شھوت عارض ہو جائے گی تو وہ روزہ توڑ دے گا۔
                      (مستدرک للحاکم جلد نمبر۵ ،ص۴۷۰، کتاب الرقاق، باب الشھوۃ الخفیہ ،حدیث نمبر۸۰۱۰ ،مطبوعہ دارالمعرفۃ ،
                      مسند امام احمد جلد نمبر۵، ص۸۳۵ حدیث نمبر۱۷۲۵۰ ،مطبوعہ عالم الکتب ،
                      ابن ماجہ کتاب الزھد باب الریا والسمعہ، حدیث نمبر۴۲۰۵ ،
                      بیہقی شعب ایمان ،باب فی اخلاص العمل و ترک الریا ،جلد نمبر۵، ص۳۳۳ ، حدیث نمبر۶۸۳۰ ،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ،
                      حلیہ الاولیا، جلد نمبر۱،ص۲۴۷،مطبوعہ دارا احیاء التراث العربی )


                      امام حاکم نے کہا ہے یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔


                      (۳) حضرت عبدالرحمن بن غنم کہتے ہیں میں۔ حضرت ابو درداء اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہم بیٹھے تھے کہ حضرت شداد بن اوس اورحضرت عوف بن مالک تشریف لے آئے اور فرمایا اے لوگو میں نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اس کی وجہ سے مجھے تجھ پر شھوت خفیہ اور شرک کا بہت زیادہ خطرہ ہے۔
                      حضرت عبادہ اور حضرت ابو درداء نے کہا اے اللہ معاف کرے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ ارشاد نہیں فرمایا: شیطان مایوس ہوگیا ہے کہ جزیرہ عرب میں اس کی عبادت کی جائے۔ جہاں تک شھوت خفیہ کا تعلق ہے۔ اسے ہم جانتے ہیں وہ دنیا اور عورتوں کی خواہش ہے۔ اے شداد جس شرک سے آپ ہمیں ڈرار ہے ہیں یہ شرک کیا ہے۔
                      حضرت شداد نے کہا تم خود ہی مجھے بتا ئو جس نے کسی بندے کیلئے دکھلاوا کرتے ہوئے نماز پڑھی یا روزہ رکھا یا صدقہ کیا۔ کیا اس نے شرک کیا؟ حضرت عبادہ اور حضرت ابو دردا نے کہا ہاں حضرت شداد نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے جس نے ریاکاری کرتے ہوئے نماز پڑھی اس نے شرک کیا جس نے ریا کرتے ہوئے روزہ رکھا اس نے شرک کیا اور جس نے ریا کرتے ہوئے صدقہ کیا اس نے شرک کیا۔


                      (سیر اعلام النبلاء للذھبی جلد نمبر۴،ص۹۵،مطبوعہ دارالفکر)
                      رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس انداز میں شرک کی جڑیں کاٹیں کہ ہمیشہ کیلئے اسے ختم کردیا چنانچہ شیطان کو یہ مایوسی صرف جزیرہ عرب کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لحاظ سے ہوئی ملاحظہ ہو۔
                      (۴) حضرت جابر سے مروی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔’’شیطان مایوس ہوگیا ہے کہ نمازی اسکی بندگی کریں۔
                      ( البدایہ ، ابن کثیر جلد نمبر1،ص۶۶،مطبوعہ دارالمعرفۃ)
                      اس مضمون کی موید اور بھی متعدد احادیث ہیں۔
                      ان احادیث سے پتہ چلتا ہے اس امت کا کلمہ توحید پر یقین اتنا دیرپا ہے کہ جب نماز روزہ کا نام بھی باقی نہیں رہے گا یہ کلمہ اس وقت بھی ہوگا اور اس وقت بھی معتبر ہوگا، چنانچہ اس امت میں پہلے عمل میں کمزوری واقع ہوگی عقیدہ توحید بعد میں باقی رہے گا۔امت جس مرحلہ سے گذر رہی ہے یہ امت کے شرک جلی (بت پرستی) میں مبتلا ہونے کا مرحلہ نہیں بلکہ شرک خفی ریا کاری اور دنیا میں رغبت کا مرحلہ ہے۔


                      ایک حدیث شریف میں جو کچھ قبائل کے مشرک ہو جانے کا ذکر ہے وہ بعد کامعاملہ ہے۔دیکھیے
                      (۵) حضرت حذیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔
                      آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
                      اسلام یوں بوسیدہ ہو جائے گا جس طرح کپڑے کے نقش و نگار مدھم ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ یہ نہیں جانا جائے گا روزہ کیا ہے صدقہ کیا ہے اور قربانی کیا ہے؟ ایک ہی رات میں کتاب اللہ غائب ہو جائے گی زمین پر اس کی ایک آیت بھی باقی نہیں رہے گی لوگوں کے کچھ طبقے باقی رہ جائیں گے بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت کہیں گے ہم نے اپنے آباء کو اس کلمہ لا الہ الا اللہ پر پایا تھا ہم بھی وہی کہ رہے ہیں۔
                      حضرت صلہ بن زفر نے حضرت حذیفہ سے کہا جب انہیں نماز روزہ صدقہ اور قربانی کا پتہ نہیں ہوگا تو لا الہ الا اللہ انہیں کیا فائدہ دے گا؟ حضرت حذیفہ نے ان سے اعراض کیا صلہ نے تین مرتبہ آپ سے پوچھا آپ اعراض کرتے رہے تیسری مرتبہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حضرت صلہ کی طرف متوجہ ہوئے فرمایا اے صلہ یہ کلمہ ان کو نارجھنم سے نجات دے گا۔تین مرتبہ یہ کہا۔(مستدرک للحا کم جلد نمبر ۵ صفحہ نمبر ۶۶۶ حدیث نمبر ۸۵۰۸،
                      سنن ابن ماجہ ، باب ذھا ب القرآن والعلم حد یث نمبر ۴۰۴۹،
                      کتا ب النہایہ فی الفتن لا بن کثیر جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۳۰)
                      امام حاکم نے کہا ہے یہ حدیث صحیح ہے
                      اس حدیث شریف میں جن حا لات کا ذکر کیا گیا ہے ابھی وہ حالات یقینا نہیں آئے ، ابھی تو نما زیو ں سے مسجد یں بھر ی ہو ئی ہیں روزے دار روزہ رکھتے ہیں آج کے حا لات کے مقابلے میں وہ حالات کتنے برے ہو نگے جب نماز روزے کا نا م بھی بھول جائے گا مگر کلمہ اسلام پھر بھی نہیں بھولا ہوگا ۔ اس وقت کے کمزور ترین مومن کا بھی کلمہ معتبر ہوگا ،چنانچہ آج کے مسلما نوں پر تھوک کے لحا ظ سے فتوی شرک کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ۔ جن کے کلمہ کو غیر معتبر قراردے دیا جائے اس کا یہ مطلب نہیں کہ شرک جلی کا امکان نہیں امکا ن توخدائی کے جھوٹے دعوے کا بھی ہے (معاذاللہ) جب کوئی جھوٹا یہ کہہ سکتا ہے کہ میں خود اللہ ہوں (معا ذاللہ) اس کا رب ذوالجلا ل کے علاوہ کسی اور کو معبود مان کر شرک کرنے کا امکا ن موجود ہے لیکن امت میں ہر طرف پھیل جا نے والا شرک وہ شرک خفی ہے ۔ ریا کا ری ہے
                      سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس امت نے خاتم النبین حضر ت محمد مصطفےَصلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر پہرادینے کا حق ادا کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکسی کی جھوٹی نبوت کو برداشت نہیں کر سکی اور اس معنی میں شرک فی الرسالت کا مقابلہ کیا ہے وہ امت سید المر سلین حضر ت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو معبوث کرنے والی ذات اللہ وحدہ لاشریک کے بارے میں شرک کو کیسے برداشت کر سکتی ہے جن کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا ان کے نزدیک ازلی ابدی حی قیوم اللہ کے ہوتے ہوئے کو ئی اور اللہ کیسے ہو سکتا ہے ۔
                      ویسے بھی جب تک قرآن موجو دہے شرک جلی کے امت میں پنپنے کی کوئی گنجا ئش نہیں ہے۔ پہلی امتو ں میں جو بد عملی تھی اس کا اس امت میں آجا نا معاذاللہ ایک اور امر ہے مگر پہلی امتو ں میں جیسے شرک تھا ویسے اس امت میں آنا یہ ہر گزنہیں ہے ان امتوں کی کتابیں محرف ہو گئیں مگر اس امت کا قرآن آج بھی تحریف سے پا ک ہے۔ان امتو ں میں ایسا بگاڑجو آیا تو اصلاح کیلئے نبوت کا دروازہ کھلا تھا ۔ مگر یہ امت آخری امت ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں ۔ چنا نچہ پہلی امتو ں جیسی شر ک کی بیما ری اس امت کا مسئلہ ہی نہیں ہے ۔اگر تھوک کے لحا ظ سے اس امت میں شرک آجانا ہوتا تو نبوت کا دروازہ بند نہ کیا جاتا بلکہ کچھ لوگو ں کے بقو ل ـــ’’آج مشرکین مکہ کے شرک سے بڑا شر ک مسلما نو ںمیں پایا گیا ہے‘‘تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھو ٹے مشرکین کے خلاف جہاد کیلئے نہ بھیجاجاتا بلکہ بڑے مشرکین کے زما نے میں معبوث کیا جا تا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ رسولصلی اللہ علیہ وسلم کو نہا یت گھمبیر شرک کے زمانے میں مبعوث کیا گیااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کی جڑیں ہمیشہ کیلئے کا ٹ دیں اور اپنی امت کی ریا کاری ،دنیا کی رغبت اور شہوت خفیہ کو شدید فتنہ قرار دیا امت کو شرکیہ امور سے ڈرانا ضرور چاہیے تا کہ کہیں جزوی طور پر بھی امکا نی صورت واقع میں نہ پائی جاسکے مگر توسل ،تبرک کا عقیدہ رکھنے والوں پر اور مزارات اولیاء پر حا ضری دینے والوں پر شرک کا فتوی بہت بڑا ظلم بھی ہے اور ملت میں انتشار کا باعث بھی ہے۔
                      ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                      Comment


                      • #26
                        Re: مسلمان مشرک

                        is ka jawab aj mil jaye ga InshaAllah.

                        Comment


                        • #27
                          Re: مسلمان مشرک

                          Originally posted by abdullah786 View Post
                          is ka jawab aj mil jaye ga InshaAllah.
                          ضد ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی کا مظاہرہ ہی کرنا ہے وگرنہ جواب کیا ہوگا بات بڑی کلیئر اور واضح ہے کہ جن احادیث میں امت سے شرک کی برات ثابت ہے اس سے مراد شرک جلی ہے اور جن احادیث سے امت میں شرک کا وقوع ثابت ہے ان سے شرک خفی یعنی ریا اور لذات شہوانی مراد ہیں اور اگر کسی روایت سے امت کے میں شرک جلی کا صدور ثابت بھی ہے تو اس کا ظہور قرب قیامت میں ہوگا جب کہ قرآن پاک بھی اٹھ چکا ہوگا ۔ باقی اگوں توہاڈی مرضی اے سرکار لگے رہوووو۔۔والسلام
                          ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                          Comment


                          • #28
                            Re: مسلمان مشرک

                            Originally posted by aabi2cool View Post

                            ضد ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی کا مظاہرہ ہی کرنا ہے وگرنہ جواب کیا ہوگا بات بڑی کلیئر اور واضح ہے کہ جن احادیث میں امت سے شرک کی برات ثابت ہے اس سے مراد شرک جلی ہے اور جن احادیث سے امت میں شرک کا وقوع ثابت ہے ان سے شرک خفی یعنی ریا اور لذات شہوانی مراد ہیں اور اگر کسی روایت سے امت کے میں شرک جلی کا صدور ثابت بھی ہے تو اس کا ظہور قرب قیامت میں ہوگا جب کہ قرآن پاک بھی اٹھ چکا ہوگا ۔ باقی اگوں توہاڈی مرضی اے سرکار لگے رہوووو۔۔والسلام


                            یہ تھی ہمارے جواب میں منافقین کی فٹنگ جو کہ آپکی نظر سے نہ گزری تو ہم نے دہرا دی طرفہ تماشا یہ ہے کہ آج کہ دور کہ نام نہاد توحید پرست سورہ یوسف کی اس آیت کو ان معنی میں بطور استدلال پیش کرتے ہیں کہ ایک مسلمان بھی مشرک ہوسکتا ہے


                            محترم میرا سوال اپنی جگہ قائم ہے میں نے منافقین کے بارے میں پوچھا تھا ظاہر ہے وہ نماز بھی پڑھتے تھے اور کلمہ گو بھی تھے اسی طرح آج کا مسلمان بھی کلمہ گو ہے مگر غیر الله کو بھی پکارتا ہے اپ نے اس حکم کے شان نزول کے مطابق بیان کیا ہے جبکہ قرآن ابدی ہدایت ہے اور ہر حکم کا ایک ابدی پہلو بھی ہے ما سواے جس آیت کے بارے میں خاص ہو کہ یہ اسی وقت کے لئے ہے چنانچہ یہ آیت قیامت تک کے لئے ہے کے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کے مسلمان بھی کلمہ گو ہونے کے بعد بھی شرک کریں گے اگر ہر آیت کو صرف اسی دور کے لئے مان لئے جائے تو اس آیت میں کیا انبیا کے شرک سے بچنے کی تنبہ کی جا رہی ہے ؟


                            (٣) اور آپ کو اور ان رسولوں کو جو آپ سے قبل گذر چکے یہ وحی کی جا چکی ہے کہ اگر آُپ نے اللہ کے ساتھ شریک بنایا تو آپ کا عمل ضائع ہو جائے گا اور آپ خسارہ پانے والوں میں ہو جائیں گے ،(سورہ الزمر ٦٥)

                            اس آیت میں انبیا سے خطاب کر کے امت محمدی صلی الله علیھ وسلم کو بتایا جا رہا ہے کہ شرک نہ کرنا تو کیا یہ آیت صرف اس وقت کے لئے ہے آج کے امتی کے لئے نہیں ہے بالکل اسی طرح سوره یوسف اپ کے مطابق منافقین کے لئے اتری ہے مگر آج کے مسلمان بھی اس کے مصدق ہیں اور قرآن ابدی ہے خاص زمانے تک محدود نہیں ہے چنانچہ جو حدیث میں نے نقل کی تھے اس میں مسلموں ہی کی کے شرک کا ذکر ہے جو سوره یوسف کے اس آیت کو ثابت کرتی ہے کہ مسلمان ایمان لانے کے بعد شرک میں مبتلا ہوں گے


                            کسی شخص کے ایسے فعل کی بنا پرجو ہمارے نزدیک شرک کے زمرے میں آتا ہے، اس کو مشرک قرار دینے کی کچھ شروط ہیں: وہ اپنے اس فعل کا مطلب جانتا ہو۔ اس پر حجت قائم کر دی گئی ہو۔ اس کی لاعلمی یا شبہات واشکالات اور تاویلات کا علمی انداز سے ازالہ کر دیا گیا ہو وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ جتنی احتیاط ہوسکے وہ یہیں پر، یعنی کسی کو مشرک قرار دیتے وقت، کی جانا ہوتی ہے۔ ’توقف‘ کا اصل مقام یہ ہے۔ لیکن اگر اس سے گزر جانے کا فیصلہ ہو جاتا ہے اور آپ اُس شخص کو ”مشرک“ ہی قرار دے ڈالتے ہیں تو اس کے بعد یہ کہنا کہ یہ شخص ”مشرک“ تو ہو گیا ہے مگر ہے یہ ”مسلمان“، البتہ ایک مضحکہ خیز امر ہے۔


                            اب ذرا شرک کی وضاحت کر لیں اپ نے مشرک اور کافر کو ایک صف میں لا کر کھڑا کر دیا جبکہ ابن عباس کے مطابق مشرک کا معنی کچھ اور ہے .ابن عباس رضی الله فرماتے ہیں “ مشرک وہ ہے جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کی عبادت کرے۔(صحیح بخاری کتاب التفسیر سوره الرعد) مشرک الله کو بھی مانتا ہے اور اس کے ساتھ دوسرے کی بھی عبادت کرتا ہے تو اب اپ کہیں گے ہم عبادت نہیں کرتے ہیں تو بھائی عبادت کے مفہوم بیحد وسع ہے قرآن نے الله کے سوا کسی مردے کو حاجت روی، مشکل کشائی، اولاد، رزق کے لئے پکارنے کو بھی عبادت کہا ہے ..
                            (١) اور اس سی زیادہ گمراہ کون ہو گا جو الله کے سوا ایسے کو پکارے جو قیامت تک اس کی دعا قبول نہیں کر سکتے بلکہ وہ ان کی پکار سے بے خبر ہیں اور جس دن حشر کیے جایئں گے تو وہ ان کی عبادت کا انکار کریں گے (سوره الاحقاف ٥-٦ )
                            اس آیت میں دیکھ لیں کسی کو سجدہ کرنے کا ذکر نہیں ہے مگر الله آخر میں فرما رہا ہے " وہ ان کی عبادت کا انکار کریں گے" تو اس سے معلوم ہوا کہ پکارنا بھی عبادت ہے جیسا حدیث سے بھی اس کی وضاحت ہوتی ہے "
                            الدعاء ھو العبادہ“ دعا عبادت ہے (ابوداؤد رقم ١٤٧٩ ) تو اس حدیث سے بات اور واضح ہو گئی کے پکارنا عبادت ہے تو کیا یا غوث المدد یا علی المدد نہیں پکارا جاتا ہے مزارات پر حجتیں نہیں مانگی جاتی ہیں اولاد نہیں مانگی جاتی ہے یہ سب ہوتا ہے اس کے باوجود بھی کہا جائے کہ امت محمدی صلی الله علیھ وسلم میں شرک نہیں ہو گا


                            آج کے نام نہاد توحید پرستوں کا المیہ یہ ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح روایات پیش کی جاتی ہیں کہ جنکے مفھوم کہ مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت پر سے شرک جلی کا کوئی خطرہ نہ تھا تو یہ لوگ آج کہ دور کے مومنین کی اکثریت کو مشرک ثابت کرنے کے لیے پھر سورہ یوسف کی آیت سے استدلال کرتے ہیں کیونکہ اس میں ایک تو لفظ مومن آیا ہے اور دوسرا کثیر لہذا ثابت ہوا کہ آج کہ دور کے کثیر مومن بھی مشرک لا حول ولا قوۃ الا باللہ کس قدر بھونڈا استدلال ہے یہ اور یہی چیز ہم نے اپنے پہلے مراسلہ میں واضح کی کہ آیت میں اگرچہ لفظ مومن آیا ہے مگر وہ اپنے حقیقی معنوں میں نہیں بلکہ صوری اور عرفی معنوں میں استعمال ہوا ہے اور آیت کا شان نزول میں مفسرین نے تینون طبقات کا یعنی مشرکین مکہ ،منافقین مدینہ اور اہل کتاب یہود و نصارٰی وغیرہ کا تذکرہ ہے بحرحال مزکورہ بالا تینوں طبقات میں کسی ایک یا پھر تینوں کی مشترکہ بھی اگر ان آیات کا شان نزول کا باعث مان لیا جائے تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ* آیت بحرحال اس وقت کے حقیقی مومنین کے حق میں ہرگز نازل نہیں ہوئی اور اسی چیز کو ہم نے اوپر واضح کیا ۔ ۔








                            قرآن ابدی ہدایت ہے اور ہر حکم کا ایک ابدی پہلو بھی ہے ما سواے جس آیت کے بارے میں خاص ہو کہ یہ اسی وقت کے لئے ہے چنانچہ یہ آیت قیامت تک کے لئے ہے کے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کے مسلمان بھی کلمہ گو ہونے کے بعد بھی شرک کریں گے اگر ہر آیت کو صرف اسی دور کے لئے مان لئے جائے تو اس آیت میں کیا انبیا کے شرک سے بچنے کی تنبہ کی جا رہی ہے ؟

                            (٣) اور آپ کو اور ان رسولوں کو جو آپ سے قبل گذر چکے یہ وحی کی جا چکی ہے کہ اگر آُپ نے اللہ کے ساتھ شریک بنایا تو آپ کا عمل ضائع ہو جائے گا اور آپ خسارہ پانے والوں میں ہو جائیں گے ،(سورہ الزمر ٦٥)

                            اس آیت میں انبیا سے خطاب کر کے امت محمدی صلی الله علیھ وسلم کو بتایا جا رہا ہے کہ شرک نہ کرنا تو کیا یہ آیت صرف اس وقت کے لئے ہے آج کے امتی کے لئے نہیں ہے بالکل اسی طرح سوره یوسف اپ کے مطابق منافقین کے لئے اتری ہے مگر آج کے مسلمان بھی اس کے مصدق ہیں اور قرآن ابدی ہے خاص زمانے تک محدود نہیں ہے چنانچہ جو حدیث میں نے نقل کی تھے اس میں مسلموں ہی کی کے شرک کا ذکر ہے جو سوره یوسف کے اس آیت کو ثابت کرتی ہے کہ مسلمان ایمان لانے کے بعد شرک میں مبتلا ہوں گے

                            رہ گیا آپ کا سورہ انعام کی آیت سے استدلال کرنا تو وہ بھی درست نہیں بلکہ وہ آپکی بجائے ہماری دلیل ہے کیونکہ جب آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام گھبرا گئے اور انھوں نے لفظ ظلم کا معروف معنی مراد لیا جو کہ ذیادتی بنتا ہے چناچہ انھوں نے گھبرا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یارسول اللہ ہم میں سے کون ہوگا کہ جس سے کبھی نہ کبھی کسی دوسرے کہ حق میں کوئی کمی بیشی نہ ہوئی ہوگی تو کیا ہمارے تمام اعمال ضائع گئے ؟؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آی تکہ حقیقی معنی ان پر واضح کرنے کے لیے سورہ لقمان کی آیت تلاوت کی اور فرمایا کہ یہاں ظلم سے مراد معروف معنوں والا ظلم نہیں بلکہ شرک ہے آیت کی یہ تفسیر سن کر صحابہ کرام کے بے قرار دلوں کو چین میسر ہوا ۔۔۔ اس آیت میں صحابہ رکام کے لیے تنبیہ نہیں بلکہ مژدہ جانفزا تھا کہ ظلم تو حقیقی طور پر ان لوگوں کا ہے کہ جو شرک کرتے ہیں جبکہ تم لوگ تو شرک سے تائب ہوکر پکے سچے مومن ہو ۔۔




                            سوره الانعام کے حوالے سے بھی میرے موقف یہی ہے کہ یہ آیت ابدی حکم رکھتی ہے اس کے صرف شان نزول تک محدود کرنا انصاف نہیں ہے اس میں امت کو شرک کی نہ کرنے کی تنبہ ہے.


                            آپکی پیش کردہ اس روایت کی وضاحت میں مفتی ڈاکٹر اشرف آصف جلالی صاحب انے مضمون عقیدہ توحید اور امت توحید میں رقمطراز ہیں کہ ۔۔
                            امت مسلمہ کی یہ ایمانی عظمت اب بھی برقرار ہے عقیدہ توحید باقی ہے۔ لیکن چمک میں فرق آنے لگا ہے۔
                            رسول اللہﷺ نے یہی حقیقت خود بیان فرمائی ۔
                            (۱) ’’مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دے دی گئی ہیں اور میں خدا کی قسم تمہارے بارے میں خطرہ محسوس نہیں کرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے لیکن مجھے خطرہ ہے کہ تم کہیں دنیا کی محبت میں ڈوب نہ جائو۔
                            (بخاری شریف حدیث نمبر۱۳۴۴،مسلم شریف حدیث نمبر ۲۲۹۶)






                            اس حدیث کو اگر اپ فتح الباری کی شرح کے ساتھ پڑھ لیتے تو یہ بات نہ لکھتے مگر اپ کا قصور نہیں ہے اپ نے بھی اس کو کسی کتاب میں پڑھ کر لکیر کے فقیر کی طرح اگے بڑھا دیا ہے ابن حجر اس کی شرح میں فرماتے ہیں

                            "ما أخاف عليكم أن تشركوا" أي على مجموعكم، لأن ذلك قد وقع من البعض أعاذنا الله تعالى.
                            (بخاری تحت رقم ١٣٤٤ ) یہ مجموعی امت کے لئے ہے ورنہ بعض شرک کے واقعے رونما ہوۓ ہے الله ہم کو بچاے " ابن ہجر ٧٠٠ سال پہلے امت کے شرک میں مبتلا ہونے کے واقعے دیکھ اور پڑھ چکے ہے جس کو انھوں نے بیان کیا ہے مگر آج لوگوں کو نظر نہیں آ رہا ہے تو اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کے امت مجموعی طور پر شرک نہیں کرے گی مگر کچھ لوگ کریں گے جیسا میں نے حدیث نقل کی ہے " امت کے کچھ قبیلے شرک کریں گے " تو اس حدیث میں بھی تمام امت کا ذکر نہیں ہے صرف کچھ قوموں کا ذکر ہے اس لئے اپ کی پیش کردہ حدیث سے اپ کا استدلال باطل ہے


                            (۲) حضرت عبادہ بن نُسَیّ کہتے ہیں میں حضرت شداد بن اوس کے پاس ان کی جائے نماز میں داخل ہوا تو وہ رو رہے تھے میں نے پوچھا اے ابو عبدالرحمن رونے کی وجہ کیا ہے؟ تو حضرت شداد نے کہا رسول اللہﷺ سے میں نے ایک حدیث سنی تھی اس کی وجہ سے رو رہا ہوں۔ میں نے کہا وہ کونسی حدیث ہے انہوں نے کہا اس دوران کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھا تھا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کے چہرہ مبارک پر ایسی کیفیت ملاحظہ کی جس سے میں غمگین ہوا۔ میں نے کہا یا رسول اللہﷺ میرے والدین آپ پر قربان ہو جائیں آپ کے چہرہ مبارک پر میں کیسی کیفیت دیکھ رہا ہوں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک امر کی وجہ سے میں رنجیدہ ہوں جس کا مجھے میرے بعد اپنی امت پرخطرہ ہے۔ میں نے کہا وہ کونسا امر ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ شرک اور شھوت خفیہ ہے حضرت شداد کہتے ہیں میں نے کہا کیا آپ کی امت آپ کے بعد شرک کرے گی؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا خبردار میری امت کے لوگ نہ سورج کی عبادت کریں گے نہ چاند کی نہ کسی بت کی عبادت کریں گے اور نہ ہی کسی پتھر کی لیکن اپنے اعمال کی وجہ سے لوگوں کیلئے ریاکاری کریں گے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺکیا ریا شرک ہے؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہاں ریا شرک ہے میں نے کہا شہوت خفیہ کیا ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا تم میں سے صبح کے وقت روزے کی حالت میں ہوگا اسے دنیا کی شھوتوں میں سے کوئی شھوت عارض ہو جائے گی تو وہ روزہ توڑ دے گا۔




                            یہ جو حدیث اپ نے نقل کی ہے وہ میری بیان کردہ حدیث سے متضاد ہے اپ کی حدیث میں کہا گیا ہے کہ امت بتوں کی عبادت نہیں کرے گی جبکہ میں نے جو حدیث نقل کی ہے اس میں بتوں کی عبادت کرنے کا ذکر ہے تو بھائی اپ کی بیان کردہ یہ حدیث بہت ضعیف ہے اس میں ایک راوی عبدالالواحد بن زید متروک ہے (لسان المیزان )تو امت مجموعی طور پر نہیں کچھ قومیں شرک کریں گی اس کو ایک اور حدیث سے واضح کرتا ہوں .

                            أبي واقد الليثي أن رسول الله صلى الله عليه و سلم لما خرج إلى خيبر مر بشجرة للمشركين يقال لها ذات أنواط يعلقون عليها أسلحتهم فقالوا يا رسول الله أجعل لنا ذات أنوط كما لهم ذات أنواط فقال النبي صلى الله عليه و سلم سبحان الله هذا كما قال قوم موسى اجعل لنا إلها كما لهم آلهة والذي نفسي بيده لتركبن سنة من كان قبلكم (سنن ترمزی کتاب الفتن رقم ٢١٨٠ )
                            واقد الليثي فرماتے ہیں ، ہم (جب شروع دور اسلام میں )نبی صلی الله علیھ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف گئے ایک درخت جس پر مشرکین منت اور برکت کے لئے اپنے ہھتیار ٹانگتے تھے اس کو مشرکین ذات أنواط کہتے تھے ہم نے کہا یا رسول الله صلى الله عليه و سلم کیا اپ ہمارے لئے بھی اس طرح کا کوئی ذات أنواط بنادے گے جیسا انھوں نے بنایا ہے تو نبی صلى الله عليه و سلم نے فرمایا سبحان الله تم تو اسی طرح کی بات کر رہے ہو جیسی موسیٰ علیھ السلام کی قوم نے کی تھی کہ ہمارے لئے معبود بنادیں جیسا ان لوگوں نے بنا رکھے ہیں اور قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم لازما ان کے طریقوں پر چلو گے جو تم سے پہلے تھے.

                            اس حدیث کے مطابق امت لازما پہلے کے طریقے پر چلے گی اور پہلوں کا طریقہ کیا تھا یہ بھی حدیث ہی سے نقل کر رہا ہوں

                            فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : "إن أولئك إذا كان فيهم الرجل الصالح فمات بنوا على قبره مسجدا وصوروا فيه تلك الصور أولئك شرار الخلق عند الله يوم القيامة" (بخاری کتاب الجنائز رقم ٤٣٤ )

                            ام حبیبہ رضی الله عنہا نے حبشہ میں تصاویر دیکھی تو نبی صلی الله علیھ وسلم سے اس کا ذکر کیا اپ نے فرمایا '" یہ وہ لوگ ہیں جن میں جب کوئی نیک آدمی مارتا تو اس کی قبر کو سجدے کی جگہ بنا لیتے اور اپنے گرجوں میں ان کی تصاویر لگا لیتے قیامت کے دن الله کے نزدیک بد ترین مخلوق یہ ہو گی .(نوٹ : یہ حدیث بخاری میں دوسری جگہ بھی موجود ہے دیکھئے کتاب المغازی باب ہجرت حبشہ )

                            تو یہ امت پہلی امتوں کے طریق پر چلے گی اور ان کا طریق کیا تھا یہ میں نے حدیث سے واضح کر دیا ہے کہ انھوں نے تصاویر اور بت بناے تصاویر تو بن چکی ہیں اور پچھلی امتوں میں شرک تصاویر سے ہی پھیلا ہے جہاں تک یہ بات ابھی وقت نہیں ہے تو بھائی یہ بات تدریجا ہو گی جس طرح نوح علیھ السلام کی قوم نے کیا تھا روایت پیش ہے .

                            امام قرطبی فرماتے ہیں : جیسا ابن عباس رضی الله عنھما وغیرہ سے بیان ہے کہ یہ بت اور ان کی تصویر قوم نوح میں ان کی عبادت ہوتی تھی پھر ان کی عبادت عرب میں کی گئی ، اور جمہور نے اس کو بیان کیا ہے .

                            اور یہ صرف بت نہیں تھے بلکہ یہ قوم نوح کے نیک لوگ تھے جن کے مرنے کے بعد ان کے بت بنے اور اس کو بیان کرتے ہوا امام قرطبی فرماتے ہیں " قال محمد بن كعب أيضا ومحمد بن قيس : بل كانوا قوما صالحين بين آدم ونوح ، وكان لهم تبع يقتدون بهم ، فلما ماتوا زين لهم إبليس أن يصوروا صورهم ليتذكروا بها اجتهادهم ، وليتسلوا بالنظر إليها ؛ فصورهم. فلما ماتوا هم وجاء آخرون قالوا : ليت شعرنا هذه الصور ما كان آباؤنا يصنعون بها ؟ فجاءهم الشيطان فقال : كان آباؤكم يعبدونها فترحمهم وتسقيهم المطر. فعبدوها فابتدئ عبادة الأوثان من ذلك الوقت.

                            قلت : وبهذا المعنى فسر ما جاء في صحيح مسلم من حديث عائشة : أن أم حبيبة وأم سلمة ذكرتا كنيسة رأينها بالحبشة تسمى مارية ، فيها تصاوير لرسول الله صلى الله عليه وسلم ؛ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : "إن أولئك إذا كان فيهم الرجل الصالح فمات بنوا على قبره مسجدا وصوروا فيه تلك الصور أولئك شرار الخلق عند الله يوم القيامة" (تفسیر قرطبی جلد ٥ سوره نوح آیت ٢٤ )



                            محمد بن کعب اور محمد بن قیس فرماتے ہیں : یہآدم علیھ السلام اور نوح علیھ السلام کے دور کے نیک لوگ تھے اور لوگ ان کی اتباع کرتے تھے پھر جب ان کا انتقال ہو گیا تو شیطان نے ان کو بہکایا کہ ان کی تصاویر بناؤ تاکہ تم میں بھی ذکر کرنے کا شوق ہو اور یہ تمہارے سامنے بھی رہیں گے تو انھوں نے ان کی تصاویر بنائی پھر جب وہ نسل ختم ہو گئی جب نئی نسل نے کہا کاش ہمیں معلوم ہو جائے کہ ہمارے آباؤ اجداد نے اسے کیوں بنایا تو شیطان نے ان کے پاس آکر کہا کہ تمہارے آباؤ اجداد اس کی عبادت کرتے تھے اس سے رحم اور بارش کی دعا کرتے تھے .

                            میں کہتا ہوں اس معنی (یعنی نیک لوگوں کی تصویر اور بت بنانا )وضاحت صحيح مسلم کی حدیث میں آئی ہے ام حبیبہ رضی الله عنہا نے حبشہ میں تصاویر دیکھی تو نبی صلی الله علیھ وسلم سے اس کا ذکر کیا اپ نے فرمایا '" یہ وہ لوگ ہیں جن میں جب کوئی نیک آدمی مارتا تو اس کی قبر کو سجدے کی جگہ بنا لیتے اور اپنے گرجوں میں ان کی تصاویر لگا لیتے قیامت کے دن الله کے نزدیک بد ترین مخلوق یہ ہو گی .

                            تو یہ تصاویر ہی ہیں جس سے پہلی امتوں میں شرک پھیلا اور نبی صلی الله علیھ وسلم کے فرمان کے مطابق اس یہ امت بھی شرک کرے گے کیوں یہ انہی کا فرمان ہے یہ تم پہلی امتوں کے طریق پر چلو گے تو تصاویر تک تو ہم پہچ گئے ہیں بعض عبادت تک بھی پہچ گئے ہیں (عبادت میں نے پکارنے کے مفہوم میں لکھا ہے ) باقی صرف بت بنانا رہ گئے ہیں وہ آیندہ نسلوں میں ہو جائے گی کیونکہ نبی صلی الله علیھ وسلم کا فرمان لازما پورا ہونا ہے کے امت کے چند گروہ شرک کریں گے . اور اپ نے اس کا رخ شرک خفی کی جانب کر دیا ہے افسوس صد افسوس .

                            اسلام یوں بوسیدہ ہو جائے گا جس طرح کپڑے کے نقش و نگار مدھم ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ یہ نہیں جانا جائے گا روزہ کیا ہے صدقہ کیا ہے اور قربانی کیا ہے؟ ایک ہی رات میں کتاب اللہ غائب ہو جائے گی زمین پر اس کی ایک آیت بھی باقی نہیں رہے گی لوگوں کے کچھ طبقے باقی رہ جائیں گے بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت کہیں گے ہم نے اپنے آباء کو اس کلمہ لا الہ الا اللہ پر پایا تھا ہم بھی وہی کہ رہے ہیں۔
                            حضرت صلہ بن زفر نے حضرت حذیفہ سے کہا جب انہیں نماز روزہ صدقہ اور قربانی کا پتہ نہیں ہوگا تو لا الہ الا اللہ انہیں کیا فائدہ دے گا؟ حضرت حذیفہ نے ان سے اعراض کیا صلہ نے تین مرتبہ آپ سے پوچھا آپ اعراض کرتے رہے تیسری مرتبہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حضرت صلہ کی طرف متوجہ ہوئے فرمایا اے صلہ یہ کلمہ ان کو نارجھنم سے نجات دے گا۔تین مرتبہ یہ کہا۔(مستدرک للحا کم جلد نمبر ۵ صفحہ نمبر ۶۶۶ حدیث نمبر ۸۵۰۸،
                            سنن ابن ماجہ ، باب ذھا ب القرآن والعلم حد یث نمبر ۴۰۴۹،
                            کتا ب النہایہ فی الفتن لا بن کثیر جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۳۰





                            اس حدیث سے بھی میرے ہی موقف کی تائید ہوتی ہے اس حدیث میں بھی چند لوگوں کا ذکر ہے کہ وہ کلمہ پڑھتے ہوں گے اور میں نے جو حدیث پیش کی تھے جس میں لوگوں کے کچھ قبیلوں کے شرک کرنے کا ذکر اس حدیث میں یہ الفاظ بھی موجود ہے " ولا تزال طائفة من أمتي على الحق " قال ابن عيسى " ظاهرين " ثم اتفقا " لايضرهم من خالفهم حتى يأتي أمر الله تعالى " .(سنن ابوداود رقم ٤٢٥٢ ) میری امت میں ہمیشہ ایک گروہ حق پر قائم رہے گا اور ان کے مخالف ان کو کوئی نقصان نہیں دے سکیں گے یہاں تک کہ الله اپنا حکم (قیامت ) قائم کرے گا .
                            تو بھائی اپ نے جو حدیث بتائی ہے اس میں کلمہ گو وہی گروہ ہے جو اس وقت حق (یعنی کلمہ )پر قائم ہو گا باقی تو مشرک ہو چکے ہوں گے تو حدیث کے مطابق یہ گروہ ہمشہ ہو گا تو یہ بعد کے حالت ضرور ہے کہ بتوں کی عبادت ہو گی مگر اس کا راستہ تصاویر اور قبر پرستی سے شروع ہو چکا ہے جو بت پرستی تک جائے گا کیو فرمان نبی صلی الله علیھ وسلم پورا ہو کر رہے گا.

                            ویسے بھی جب تک قرآن موجو دہے شرک جلی کے امت میں پنپنے کی کوئی گنجا ئش نہیں ہے۔ پہلی امتو ں میں جو بد عملی تھی اس کا اس امت میں آجا نا معاذاللہ ایک اور امر ہے مگر پہلی امتو ں میں جیسے شرک تھا ویسے اس امت میں آنا یہ ہر گزنہیں ہے ان امتوں کی کتابیں محرف ہو گئیں مگر اس امت کا قرآن آج بھی تحریف سے پا ک ہے۔ان امتو ں میں ایسا بگاڑجو آیا تو اصلاح کیلئے نبوت کا دروازہ کھلا تھا ۔ مگر یہ امت آخری امت ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں ۔ چنا نچہ پہلی امتو ں جیسی شر ک کی بیما ری اس امت کا مسئلہ ہی نہیں ہے ۔اگر تھوک کے لحا ظ سے اس امت میں شرک آجانا ہوتا تو نبوت کا دروازہ بند نہ کیا جاتا بلکہ کچھ لوگو ں کے بقو ل ـــ’’آج مشرکین مکہ کے شرک سے بڑا شر ک مسلما نو ںمیں پایا گیا ہے‘‘تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھو ٹے مشرکین کے خلاف جہاد کیلئے نہ بھیجاجاتا بلکہ بڑے مشرکین کے زما نے میں معبوث کیا جا تا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ رسولصلی اللہ علیہ وسلم کو نہا یت گھمبیر شرک کے زمانے میں مبعوث کیا گیااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کی جڑیں ہمیشہ کیلئے کا ٹ دیں اور اپنی امت کی ریا کاری ،دنیا کی رغبت اور شہوت خفیہ کو شدید فتنہ قرار دیا امت کو شرکیہ امور سے ڈرانا ضرور چاہیے تا کہ کہیں جزوی طور پر بھی امکا نی صورت واقع میں نہ پائی جاسکے مگر توسل ،تبرک کا عقیدہ رکھنے والوں پر اور مزارات اولیاء پر حا ضری دینے والوں پر شرک کا فتوی بہت بڑا ظلم بھی ہے اور ملت میں انتشار کا باعث بھی ہے۔





                            اب اپ کی آخری بات کے توسل اور تبروک کو شرک کہتے ہے بھائی ہم جس کو شرک کہتے ہیں وہ میں اوپر بیان کر چکا ہوں اپ کے لئے دوبارہ بیان کر دیتا ہوں مردوں سے مانگنا ان سے حاجت روائی کی امید رکھنا مدد کے لئے پکارنا یہ ہوتا ہے مزارات پر اگر یہ توسل ہے تو پھر اس توسل کے قرآن اور سنت سے ثابت کر دیں میں اپ کی بات مان لوں گا کہ مزارات پر شرک نہیں سنت کے مطابق توسل کیا جاتا ہے اب امید ہے اپ اس کا جواب عنایت کریں گے .








                            Comment


                            • #29
                              Re: مسلمان مشرک


                              محترم میرا سوال اپنی جگہ قائم ہے میں نے منافقین کے بارے میں پوچھا تھا ظاہر ہے وہ نماز بھی پڑھتے تھے اور کلمہ گو بھی تھے اسی طرح آج کا مسلمان بھی کلمہ گو ہے مگر غیر الله کو بھی پکارتا ہے اپ نے اس حکم کے شان نزول کے مطابق بیان کیا ہے جبکہ قرآن ابدی ہدایت ہے اور ہر حکم کا ایک ابدی پہلو بھی ہے ما سواے جس آیت کے بارے میں خاص ہو کہ یہ اسی وقت کے لئے ہے چنانچہ یہ آیت قیامت تک کے لئے ہے کے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کے مسلمان بھی کلمہ گو ہونے کے بعد بھی شرک کریں گے اگر ہر آیت کو صرف اسی دور کے لئے مان لئے جائے تو اس آیت میں کیا انبیا کے شرک سے بچنے کی تنبہ کی جا رہی ہے ؟
                              اسلام علیکم !محترم آپ مسلسل خلط مبحث فرما رہے ہیں اور بار بار اصل موضوع سے ہٹ رہے ہیں خیر یہ آپ کا قصور نہیں جس طبقہ کی آپ نمائندگی کرتے ہیں یہ انکا پرانا ٹیکٹس ہے کہ گفتگو میں اصل موضوع سے ہٹ کر اس قدر ادھر ادھر کی ہانکی جائے کہ سادہ لوح قارئین کہ ذہنوں سے اصل موضوع اور نقطہ فراموش ہوجائے ۔خیر آپکی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ تھریڈ کا عنوان ہے " مسلمان مشرک " ،جس پر ہمارا موقف شروع دن سے ہی یہ رہا ہے کہ جو مشرک ہو وہ پھر مسلمان نہیں رہتا جبکہ صاحب مقالہ کا مؤقف ہے کہ ایک شخص بیک وقت مومن و مشرک دونوں ہوسکتا ہے جبکہ ہم کہتے ہیں ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ بدیہی و منطقی اعتبار سے یہ محال عقلی ہے کہ اس سے اجتماع ضدین لازم آتا ہے جو کہ ہرگز ممکن نہیں ۔ لہذا آپ سے گذارش ہے کہ اصل موضوع پرقائم رہیے اور اس بات پر دلائل قائم کیجیئے کہ کیسے ایک شخص مشرک ہوکر بھی مسمان برقرار رہ سکتا ہے نہ کہ اس بات پر بار بار دلیل لائیے کہ مسلمانوں میں شرک در آئے گا یا نہیں وہ الگ موضوع ہے کہ جسے آپ لوگ سیاق و سباق سے ہٹا کر خلط ملت کرکے پیش کرتے ہیں ۔اب آتا ہوں کہ آپ کے قائم کردہ تازہ ترین دلائل پر آپ نے سورہ یوسف کی زیر بحث آیت سے استدلال کرکے اولین آج کہ دور کے مسلمانوں کو مشرک ثابت کیا، جب ہم نے آپ پر اس آیت کی صحیح تفیسر واضح کی کہ وہ آیت ایک خاص پس منظر میں بطور خبر کے نازل ہوئی تھی نہ کہ بطور حکم تو اب آپ نے خلط مبحث کرتے ہوئے اپنے باطل استدلال کی بنا اس بنیاد پر رکھی ہے کہ جیسے اُس آیت کا مصداق اُس وقت کے منافقین تھے ویسے ہی اس آیت کا مصداق آج کہ دور کے جمہور مسلمان کی اکثریت ہے۔ خلط مبحث آپ نے یوں فرمایا کہ آیت کہ شان نزول کو تو مخصوص مانا مگر ساتھ ہی میں اس آیت میں بیان کی گئی خبر کو حکم قرار دے کراس کے حکم کے قیامت تک ہونے کا مؤقف اختیار کرلیا جبکہ ہمیں اس سے تو اختلاف ہی نہیں کہ اس آیت میں وارد شدہ خبر کا اطلاق قیامت تک کے لیے ہے یا نہیں ہے اور نہ ہی ہماری یہ بحث ہے اس کے برعکس ہمارا مؤقف تو یہ ہے کہ اس آیت میں ایک امر واقعہ کی خبر دی جارہی تھی اور اسکے مخاطبین مشرکین ومنافقین تھے کہ وہ اللہ پر بحیثیت خالق تو ایمان لاتے تھے مگر بحیثیت معبود وہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھراتے تھے ۔ لہذا آیت میں جو انکی بابت ایمان کی نسبت بطور خبر کے کی گئی وہ نسبت مجازی تھی نہ کہ حقیقی یعنی وہ حقیقت میں مومن نہیں ہیں لیکن کیونکہ مسلمانوں کی طرح وہ بھی اپنا خالق اللہ ہی کو مانتے تھے لہذا لفظ ایمان کی نسبت مجازی انکی طرف کردی گئی لیکن چونکہ مسلمانوں کے برعکس وہ اپنا معبود خالص خدائے واحد کو نہیں مانتے تھے سو لہذا وہ مشرک ٹھرے ۔۔۔ باقی آپ نے جو اس وقت کے منافقین کا مسئلہ بار بار چھیڑا ہے اور اس وقت کے منافقین پر موجودہ دور کی امت مسلمہ کی اکثریت کو قیاس کرکے انکو مشرک ٹھرانے کی ناپاک سعی کی ہے تو اس پر ہم سوائے انا للہ وانا الیہ راجعون کہ اور کچھ نہیں کہہ سکتے کہ ایسے شخص کو کیا کہا جائے کہ جسے نفاق حقیقی کے معنی بھی نہیں معلوم اور جو اس دور کے منافقین کہ جب وحی کے زریعہ انکا نفاق واضح کردیا گیا تھا مگر وحی ہی کی وجہ سے ان پر حکما اسلام کا اطلاق کیا جاتا رہا تھا کو حقیقی مومن و مسلم سمجھ رہا ہے آپ کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ جو شخص واقعیت میں منافق ہو وہ حقیقت میں مومن ہرگز نہیں ہوتا اور نفاق معاملہ ہے دل کا جو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر تو بذریعہ وحی کے روز و روشن کی طرح عیاں تھا اور آپ کے توسط سے صحابہ کرام پر بھی مگر آپ کے پاس وہ کونسا الہامی سورس ہے کہ جسکی بنیاد پر آپ موجودہ دور کے مسلمانوں کو اس دور کے منافقین کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے زیر بحث آیت کا مصداق ٹھرا رہے ہیں ؟؟؟آپکو اتنی سی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اس وقت کے منافقین دل سے تو اسلام قبول ہی نہیں کرتے تھے اسی لیے تو منافق کہلواتے تھے اور انھوں نے اسلام کا لبادہ فقط اوڑھا ہی اس لیے تھا کہ اپنی ریشہ دوانیوں کہ زریعہ اسلام اور حقیقی مومنین کو جتنا ہوسکے نقصان پہنچا سکیں ۔۔
                              جبکہ آج کہ دور کے مسلمانوں کا وہ کونسا طبقہ ہے کہ جس نے منافقت کی چادر میں اسلام کو قبول کیا ہوا ہے ؟؟؟؟ ہاں یہ ضرور ہوسکتا ہے آج کہ دور کے مسلمانوں کا کوئی عمل آپکے نزدیک اسلام نہ ہو بلکہ کفر یا پھر شرک ہو اور اگر برسبیل تنزل ایسا حقیقت میں بھی ہو کہ بعض مسلمان جہالت کی وجہ سے کسی غیر اسلامی یا مشرکانہ فعل کو اسلام سمجھ کر اپناتے ہوں تو تب بھی انکا یہ فعل انکے نفاق پر تو دلالت نہیں کرتا بلکہ اسکی وجہ جہالت یاکوئی اور فیکٹر ہوسکتا ہے ۔
                              اسکے بعد آپ نے بار بار قرآن کی ابدی تعلیمات کا ذکر کیا ہے جو کہ محل نزاع ہی نہیں اور نہ ہی موضوع بحث ہے ہمیں اس سے ہرگز اختلاف نہیں کہ قرآن کی تمام تعلیمات ابدی ہیں مگر اتنی بات ضرور ہے کہ قرآن کی کسی مخصوص آیت کی " خبر مخصوصہ " کو قرآن کی ابدی تعلیمات کہ بطور پیش کرنا علوم قرآن سے سراسر عدم واقفیت کی بنا پر ہے کیونکہ زیر بحث آیت میں کوئی تعلیم نہیں دی جارہی بلکہ ایک امر واقعہ کو بطور خبر کے پیش کیا جارہا ہے ۔ جبکہ آپ کے نزدیک اس آیت سے یہ حکم اخذ ہورہا ہے کہ مسلمانوں میں سے خواہ اس وقت کے ہوں یا آج کہ انکی اکثریت مشرک ہوگی لاحول ولا قوۃ الا باللہآپ ایک خبر سے ایک حکم اخذ کررہے ہیں اب اس بنائے استدلال پر بندہ کیا کرسکتا ہے سوائے ایک بار پھر انا للہ وانا الیہ راجعون کہنے کہ۔۔۔


                              (٣) اور آپ کو اور ان رسولوں کو جو آپ سے قبل گذر چکے یہ وحی کی جا چکی ہے کہ اگر آُپ نے اللہ کے ساتھ شریک بنایا تو آپ کا عمل ضائع ہو جائے گا اور آپ خسارہ پانے والوں میں ہو جائیں گے ،(سورہ الزمر ٦٥)

                              اس آیت میں انبیا سے خطاب کر کے امت محمدی صلی الله علیھ وسلم کو بتایا جا رہا ہے کہ شرک نہ کرنا تو کیا یہ آیت صرف اس وقت کے لئے ہے آج کے امتی کے لئے نہیں ہے بالکل اسی طرح سوره یوسف اپ کے مطابق منافقین کے لئے اتری ہے مگر آج کے مسلمان بھی اس کے مصدق ہیں اور قرآن ابدی ہے خاص زمانے تک محدود نہیں ہے چنانچہ جو حدیث میں نے نقل کی تھے اس میں مسلموں ہی کی کے شرک کا ذکر ہے جو سوره یوسف کے اس آیت کو ثابت کرتی ہے کہ مسلمان ایمان لانے کے بعد شرک میں مبتلا ہوں گے





                              پھر وہی رونا اور بار بار خلط مبحث کیا ہمارا آپکا یہ اختلاف ہے کہ امت مسلمہ میں کبھی بھی کسی بھی طبقہ میں شرک کا وقوع کبھی بھی نہ ہوگا ؟؟؟ یا پھر ہمارا اور آپکا یہ اختلاف ہے کہ آپ ایک آیت سے باطل استدلال کرکے امت مسلمہ کی اکثریت کو مشرک بھی مان رہے اور مومن بھی ؟؟؟ اور یہی ہمارا اور آپ کا اصل اختلاف ہے آپ کے نزدیک امت مسلمہ کی اکثریت مشرک ہوچکی ہے جبکہ ہمارے نزدیک اولا امت مسلمہ میں اگر کبھی شرک جلی آیا بھی تو وہ کوئی قابل ذکر تعداد میں نہ ہوگا کہ جس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطرہ ہوتا کہ جیسے کہ انھوں نے اپنے مبارک ارشاد میں فرمایا کہ مجھے تم پر شرک کا خوف نہیں ہے اور ثانیا یہ تب ہوگا کہ جب قیامت نزدیک ہوگی اور قیامت کہ تمام بڑے آثار واضح ہوجائیں گے جن میں سے ایک نشانی قرآن پاک کا اٹھا لیا جانا ہے اور یہ سب خبریں مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ہیں لہذا یونہی ہوکر رہے گا ان شاء اللہ ۔۔آپ لوگ جس آیت سے امت کی اکثریت کا مشرک ہوجانا ثابت کرتے ہیں اس سے استدلال متعدد وجوہات کی بنا پر باطل ہے اول آیت بطورحکم نہیں بلکہ بطور خبر کے نازل ہوئی ہے دوم آیت کا مصداق حقیقی مسلمان معاشرہ کبھی بھی نہ تھا بلکہ اس مراد مشرکین و منافقین تھے اور ہونگے سوم آیت میں لفظ اکثر آیا ہے لہذا اس وقت بھی اور آج بھی اکثریت میں جو طبقہ ہے وہ اسلام کے مقابلہ میں غیر مسلمز کا ہے کہ جن میں اہل کتاب یہودی اور عیسائی اور منافقین ومشرکین سب شامل تھے اور رہیں گے ۔ اگر اس کے باوجود بھی آپ ایک غلط بات پر اڑئے ہوئے ہیں اور آیت کے مخصوص پس منظر میں وقوع سے کترا رہے ہیں تو پھرآپ پر لازم ہے کہ آپ عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی اس بات کا بھی جواب دیں کہ جس میں انھوں نے خارجیوں کو کائنات کی بدترین مخلوق محض اس وجہ سے قرار دیا تھا کہ وہ قرآنی آیات کو مسلمانوں پر چسپاں کرتے تھے کیا ابن عمر رضی اللہ کو نہیں معلوم تھا کہ قرآنی تعلیمات بقول آپ کے ابدی ہیں ؟؟؟ تو پھر وہ کیوں خارجیون کے باطل استدلال کو محل غیر میں قرار دے کر انھے بدترین مخلوق گردانتے تھے؟؟؟اس سوال کا جواب ذریت نجد پر کل بھی ادھار تھا اورآج بھی ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک ادھار ہی رہے گا ۔
                              رہا سورہ زمر کی مذکورہ آیت سے آپکا استدلال تو وہ بھی باطل ہے کیونکہ اول اس آیت کا مخاطبین جو انبیاء کو اولا ٹھرایا گیا ہے وہ بطور مجاز کے ہے جبکہ حقیقت میں امتی مراد ہیں کیونکہ اصل میں اس آیت میں جو لفظ شرک کی نسبت انبیاء کی طرف کی گئی ہے وہ بفرض محال ہے جبکہ اس سے حقیقت میں امتیوں کو متنبہ کرنا مقصود ہے کہ انبیاء سے تو شرک کا صدور ممکن ہی نہیں لہذا یہی وجہ ہے کہ امام بغوی نے اپنی تفسیر میں لکھا کہ ۔۔۔

                              { وَلَقَدْ أُوْحِىَ إِلَيْكَ وَإِلَى ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنّ عَمَلُكَ } ، الذي عملته قبل الشرك وهذا خطاب مع الرسول صلى الله عليه وسلم، والمراد منه غيره. وقيل: هذا أدب من الله عزّ وجلّ لنبيه وتهديد لغيره، لأن
                              الله تعالى عصمه من الشرك.


                              مفھوم : یعنی وہ اعمال جو قبل از وقع شرک کے انجام دیئے ہونگے اور اس آیت میں خطاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے مگر مراد اس کا غیر ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے اس کے رسولوں کا ادب اور انکے غیروں کے لیے بطور تھدید کے ہے یعنی ڈراوے کہ کیونکہ اللہ پاک نے انبیاء کو شرک سے پاک رکھا ہے . . .

                              اور ایسے ہی اسی آیت کی تفسیر میں امام رازی نے تیسرے سوال کے تحت یہ نقطہ ارقام فرمایا ہے کہ ۔۔
                              السؤال الثالث: كيف صح هذا الكلام مع علم الله تعالى أن رسله لا يشركون ولا تحبط أعمالهم؟ والجواب أن قوله قضية شرطية والقضية الشرطية لا يلزم من صدقها صدق جزأيها۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔، قال الله تعالى:{ لَوْ كَانَ فِيهِمَا الِهَةٌ إِلاَّ ٱللَّهُ لَفَسَدَتَا }
                              [الأنبياء: 22] ولم يلزم من هذا صدق القول بأن فيهما آلهة وبأنهما قد فسدتا.۔۔

                              مفھوم : یہ کلام کیسے صحیح ہوسکتا ہے کہ جب اللہ پاک کے علم میں ہے کہ اس کے رسل ہرگز کبی شرک نہ کریں گے اور نہ ہی ان کے اعمال ضبط ہونگے جواب اس کا یہ ہے کہ آیت میں جملہ { لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ } یہ قضیہ شرطیہ ہے اور قضیہ شرطیہ کے لیے یہ
                              لازم نہیں کہ وہ اپنے وقوع اور جزا میں مبنی بر صدق بھی ہو ۔۔
                              لہذا اس آیت میں امت کو شرک کرنے پر تہدید کی جارہی ہے یعنی ڈرایا جارہا ہے کہ شرک باعث کفر ہے بلکہ کفر اکبر ہے لہذا اگر تم نے کبھی شرک کیا تو تمہارے تمام پچھلے اعمال ضبط کرلیے جائیں گے اور قاعدہ یہ ہے کہ اعمال ضبط ہی تب ہوتے ہیں کہ جب کفر لازم آئے لہذا یہ آیت بھی ہماری ہی دلیل ہے کہ شرک سے کفر لازم ضرور آتا ہے کیونکہ شرک خاص ہے کفر سے جبکہ کفر عام ہے شرک سے لہذا ہر کفر شرک نہیں جبکہ ہر شرک کفر ضرور بالضرور ہے

                              یاد رہے یہان شرک سے ہماری مراد شرک جلی ہے ۔ لہذا آپ برائے مہربانی آیت کے اصل مفھوم کو ہی مراد لیں نہ کے اس کے مفھوم مخالف کو جو کہ شرعا معتبر بھی نہیں ہوتا
                              یعنی اگر آیت میں امت کو شرک میں مبتلا ہوجانے سے روکا اور ڈرایا گیا ہے تو آپ اس کا مفھوم مخالف یہ مراد لیں کہ چونکہ امت کو ایک امر سے ڈرایا گیا ہے سو لہذا وہ امر ہوکر بھی لازم رہے گا اور ثانیا چونکہ آیت کا مـخاطبین انبیاء ہیں تو آپ یہ باطل استدلال کررہے ہیں کہ شرک مسلمانوں میں تو کیا انبیاء میں بھی آسکتا تھا تبھی تو آیت میں آیا ہے نعوذ باللہ من ذالک الخرافات اللہ ایسی الٹی سمجھ کسی کو نہ دے کہ جس سے ایمان خطرے میں پڑ جائے ۔۔ سیدھی سی بات ہے کہ آیت میں امت کو شرک سے روکتے ہوئے اس کے مجمرات سے ڈرایا گیا ہے نہ کہ
                              آیت کا یہ مفھوم نکل رہا ہے کہ امت مشرک بھی ضرور ہوگی لہذا وہ مسلمان مشرک کہلائے گی انا للہ وانا الیہ راجعون ۔۔

                              اب ذرا شرک کی وضاحت کر لیں اپ نے مشرک اور کافر کو ایک صف میں لا کر کھڑا کر دیا جبکہ ابن عباس کے مطابق مشرک کا معنی کچھ اور ہے .ابن عباس رضی الله فرماتے ہیں “ مشرک وہ ہے جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کی عبادت کرے۔(صحیح بخاری کتاب التفسیر سوره الرعد) مشرک الله کو بھی مانتا ہے اور اس کے ساتھ دوسرے کی بھی عبادت کرتا ہے تو اب اپ کہیں گے ہم عبادت نہیں کرتے ہیں تو بھائی عبادت کے مفہوم بیحد وسع ہے قرآن نے الله کے سوا کسی مردے کو حاجت روی، مشکل کشائی، اولاد، رزق کے لئے پکارنے کو بھی عبادت کہا ہے ..

                              (١) اور اس سی زیادہ گمراہ کون ہو گا جو الله کے سوا ایسے کو پکارے جو قیامت تک اس کی دعا قبول نہیں کر سکتے بلکہ وہ ان کی پکار سے بے خبر ہیں اور جس دن حشر کیے جایئں گے تو وہ ان کی عبادت کا انکار کریں گے (سوره الاحقاف ٥-٦ )
                              اس آیت میں دیکھ لیں کسی کو سجدہ کرنے کا ذکر نہیں ہے مگر الله آخر میں فرما رہا ہے " وہ ان کی عبادت کا انکار کریں گے" تو اس سے معلوم ہوا کہ پکارنا بھی عبادت ہے جیسا حدیث سے بھی اس کی وضاحت ہوتی ہے "


                              وہی بچگانہ باتیں اور سفیہانہ استدلالات کہ جن کو پڑھ کر بے اختیار ہنسی چھوٹ جاتی ہے اوہ خدا کے بندے کس نے کہا کہ مشرک اللہ کو نہیں مانتا لہذا اس وجہ سے اسے مشرک کہا جاتا ہے یعنی کہ لاحول ولا قوۃ الا باللہ کہ جو بات ہم نے کہی نہیں اس پر بنا کرتے ہوئے ہم پر فاسدانہ اعتراضات وارد کیے جارہے ہیں ہم نے کب کہا کہ مشرک اسے کہتے ہیں کہ جو اللہ کو نہ مانتا ہو ؟؟؟ جبکہ ہماری بحث تو یہ چل رہی ہے کہ آیا جو مشرک ہوگا وہ کیا مسلمان بھی کہلواسکتا ہے بیک وقت مشرک ہوتے ہوئے ؟؟؟ہمارے نزدیک نہیں ہوسکتا جبکہ آپ اس پر مصر ہیں اور ابھی تک ایک بھی دلیل نہیں دی کہ ایک مومن بیک وقت کیسے مومن و مشرک دونوں رہ سکتا ہے ؟؟؟ ہمارا دعوٰی یہ ہے کہ اگر کسی مسلم سے شرک کا وقوع ہر طرح سے اس پر حجت تمام ہوجانے کہ بعد ثابت ہوجائے تو پھر وہ مومن نہیں رہتا بلکہ کافر و مشرک ہوجاتا ہے اور ہمارا یہ دعوٰی جہاں بدیہی ہے وہیں اس پر بے شمار دلائل نقل و عقل ہر طریق سے ثابت ہیں جیسا کہ اوپر آپ ہی کی پیش کردہ سورہ زمر کی آیت نمبر پینسٹھ میں آیا کہ جو کوئی شرک کرئے گا اس کے سارے اعمال ضبط کرلیے جائیں گے لہذا ایک مسلمان چاہے وہ کس قدر ہی گناہ کبیرہ کا مرتکب کیوں نہ ہوتا ہو محض اسی وقت اس کے سارے اعمال ضبط ہونگے جب اس سے کفر صریح کا ارتکاب ہو یا پھر ارتداد کا کیونکہ یہ اصول ہے کہ کفر سے اعمال کی ضبطگی لازم آتی ہے ۔
                              لہذا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ مشرک کی توضیح ہرگز ہمارے خلاف نہیں کہ اس میں مشرک کہ حقیقی وصف شرک کو بیان کیا گیا ہے نہ کہ یہ بتلایا گیا ہے کہ مشرک کافر نہیں ہوتا ۔۔

                              الدعاء ھو العبادہ“ دعا عبادت ہے (ابوداؤد رقم ١٤٧٩ ) تو اس حدیث سے بات اور واضح ہو گئی کے پکارنا عبادت ہے تو کیا یا غوث المدد یا علی المدد نہیں پکارا جاتا ہے مزارات پر حجتیں نہیں مانگی جاتی ہیں اولاد نہیں مانگی جاتی ہے یہ سب ہوتا ہے اس کے باوجود بھی کہا جائے کہ امت محمدی صلی الله علیھ وسلم میں شرک نہیں ہو گا
                              ان باتوں کی وضاحت میں بات بہت دور نکل جائے گی اور اصل موضوع پھر پیچھے چلا جائے گا اگر ان پر بات کرنی ہے تو استمداد اولیاء و ندائے غیر اللہ کا الگ سے تھریڈ کھول لیجیئے اور وہاں پر پہلے اپنا عقیدہ بیان کیجیئے اور ہم اپنا
                              کریں گے پھر اگر آپ کو ہمارے عقیدہ پر کوئی اعتراض ہوا تو دو دو ہاتھ کرلیں گے کہیئے کیا کہتے ہیں ؟؟

                              قرآن ابدی ہدایت ہے اور ہر حکم کا ایک ابدی پہلو بھی ہے ما سواے جس آیت کے بارے خاص ہو کہ یہ اسی وقت کے لئے ہے چنانچہ یہ آیت قیامت تک کے لئے ہے کے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کے مسلمان بھی کلمہ گو ہونے کے بعد بھی شرک کریں گے اگر ہر آیت کو صرف اسی دور کے لئے مان لئے جائے تو اس آیت میں کیا انبیا کے شرک سے بچنے کی تنبہ کی جا رہی ہے ؟

                              اب بندہ اپنا سر پیٹے یا روئے کہ جس آیت سے خبر کا صدور ہورہا ہو وہاں سے آپ حکم اخذ کرتے ہیں اور جس آیت میں بطور تہدید کوئی قضیہ شرطیہ پیش کیا گیا ہو اس آیت کو آپ بطور خبر کے لیتے ہیں جو شخص اردو محاورہ میں خبر اور حکم کی پہچان سے نا آشنا ہے وہ کیا کسی کو قرآن وسنت کی تعلیم دے گا ارے میرے بھائی آیت میں کب کہا گیا ہے کہ تم لوگ ضرور شرک کرو گے جبکہ آیت میں محض تادیب و تہدید ہے یعنی یہ عجب ہے کہ اگر میں کہوں کہ عبداللہ شراب مت پینا وگرنہ حد لگے گی تو زید یہ سمجھے بھئی اب تو عبداللہ ضرور بالضرور شراب پیئے گا کیونکہ عابد نے اسے منع جو کردیا ہے یعنی کہ لاحول ولا قوۃ الا باللہ


                              اس حدیث کو اگر اپ فتح الباری کی شرح کے ساتھ پڑھ لیتے تو یہ بات نہ لکھتے مگر اپ کا قصور نہیں ہے اپ نے بھی اس کو کسی کتاب میں پڑھ کر لکیر کے فقیر کی طرح اگے بڑھا دیا ہے ابن حجر اس کی شرح میں فرماتے ہیں

                              "ما أخاف عليكم أن تشركوا" أي على مجموعكم، لأن ذلك قد وقع من البعض أعاذنا الله تعالى.
                              (بخاری تحت رقم ١٣٤٤ ) یہ مجموعی امت کے لئے ہے ورنہ بعض شرک کے واقعے رونما ہوۓ ہے الله ہم کو بچاے " ابن ہجر ٧٠٠ سال پہلے امت کے شرک میں مبتلا ہونے کے واقعے دیکھ اور پڑھ چکے ہے جس کو انھوں نے بیان کیا ہے مگر آج لوگوں کو نظر نہیں آ رہا ہے تو اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کے امت مجموعی طور پر شرک نہیں کرے گی مگر کچھ لوگ کریں گے جیسا میں نے حدیث نقل کی ہے " امت کے کچھ قبیلے شرک کریں گے " تو اس حدیث میں بھی تمام امت کا ذکر نہیں ہے صرف کچھ قوموں کا ذکر ہے اس لئے اپ کی پیش کردہ حدیث سے اپ کا استدلال باطل ہے

                              چلیں جی ہم لکیر کے فقیر نہیں بنتے اور اس حدیث کی شرح فتح الباری پیش کرکے جو تیر آپ نے مار لیا ہے اس کا مظاہرہ بھی دیکھ لیتے ہیں جی تو ابن حجر کو پیش کرکے آپ نے ہمارے مؤقف کیسے تردید کرڈالی جبکہ ابن ہجر علیہ رحمہ بھی وہی فرما رہے ہیں جو کہ ہمارا مؤقف ہے یعنی اول تو انکی گفتگو مسلمانوں کو مشرک قرار دینے کے باب میں نہیں یعنی ابن ہجر نے یہ کہیں نہیں کہا کہ امتی مسلمان بھی ہوسکتا ہے اور مشرک بھی , جبکہ ابن ہجر کی اصل گفتگو امت میں دخول شرک کے باب میں اس پس منظر میں ہے کہ کس قدر امت شرک کا شکار ہوگئی سو وہ بھی ہمارے حق میں ہے انتہائی قلیل امت شرک کا شکار ہوگئ لہذا اس کے علاوہ ابن حجر نے اس بات پر کوئی روشنی نہیں ڈالی کہ کب ہوگئی کیسے ہوگی اور ہونے والے آیا کیا مسلمان بھی کہلائیں گےوہ بھی بیک وقت مشرک ومومن ہوتے ہوئے ؟؟؟؟


                              یہ جو حدیث اپ نے نقل کی ہے وہ میری بیان کردہ حدیث سے متضاد ہے اپ کی حدیث میں کہا گیا ہے کہ امت بتوں کی عبادت نہیں کرے گی جبکہ میں نے جو حدیث نقل کی ہے اس میں بتوں کی عبادت کرنے کا ذکر ہے تو بھائی اپ کی بیان کردہ یہ حدیث بہت ضعیف ہے اس میں ایک راوی عبدالالواحد بن زید متروک ہے (لسان المیزان )تو امت مجموعی طور پر نہیں کچھ قومیں شرک کریں گی اس کو ایک اور حدیث سے واضح کرتا ہوں .

                              پہلی بات کیا محض ایک روای کے قلیل ضعف کی وجہ سے ساری کی ساری روایت ساقط الاعتبار ٹھرے گی خصوصا ایسے میں کہ اس روایت سے امت مرحومہ کی ایک سنگین خطرے سے برات ظاہر ہورہی ہو دوم کیا ہوا جو ایک راوی ضعیف ہے تو ہم اس حدیث سے کوئی شرعی حکم تو وضع نہیں کررہے کہ حلال و حرام کے لیے صحیح روایت کی ہی ضرورت ہوتی جب کہ اس روایت سے ایک امر واقعہ کے مستقبل میں وقوع پزیر ہونے کے امر کی طرف اشارہ ہے جبکہ ایک اور امر سے امت کہ محفوظ رہنے کی طرف سوم اس ایک روایت کی ایک سند کو اگر نہ بھی دھیان میں رکھا جائے تو پھر بھی اس روایت کو متعدد محدیثین نے متعدد کتب میں روایت و تخریج کیا ہے مختلف صحیح
                              متصل ،حسن اسناد کے ساتھ اگر مطالبہ کیا گیا تو اسناد پیش کردی جائیں گی ۔نیز اس روایت کے متعدد توابع اور شواہد بھی ہیں مختلف الفاظ کے ساتھ جو سب اس کی تقویت کا باعث بن رہے ہیں




                              اس حدیث سے بھی میرے ہی موقف کی تائید ہوتی ہے اس حدیث میں بھی چند لوگوں کا ذکر ہے کہ وہ کلمہ پڑھتے ہوں گے اور میں نے جو حدیث پیش کی تھے جس میں لوگوں کے کچھ قبیلوں کے شرک کرنے کا ذکر اس حدیث میں یہ الفاظ بھی موجود ہے " ولا تزال طائفة من أمتي على الحق " قال ابن عيسى " ظاهرين " ثم اتفقا " لايضرهم من خالفهم حتى يأتي أمر الله تعالى " .(سنن ابوداود رقم ٤٢٥٢ ) میری امت میں ہمیشہ ایک گروہ حق پر قائم رہے گا اور ان کے مخالف ان کو کوئی نقصان نہیں دے سکیں گے یہاں تک کہ الله اپنا حکم (قیامت ) قائم کرے گا .



                              آپکی تائید حضور کیسے ہے آپ تو جمیع امت کہ جمہور پر شرک کا فتوٰی لگائے بیٹھے ہیں آپ اور جنکے آپ پیرو ہیں یعنی سعودیہ والے نجدی و سعودی جو کہ پوری امت میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں وہ تو اپنے سوائے کسی کو موحد تسلیم ہی نہیں کرتے اور انکے بقول تو موجودہ دور کے مسلمان کی جمیع اکثریت مشرک ہوچکی ہے اور شرک تما بلاد اسلامیہ کے گلی کوچوں میں پھیل چکا ہے نیز یہ کہ موجودہ دور کے مشرکین تو مشرکین مکہ سے بھی بڑے درجے کے مشرک ہیں وغیرہ وغیرہ سو آپکی تائید اس حدیث سے کیسے ہوگئی حضورررر جبکہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میں کل قیامت والے د ن اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا کہ قیامت میں کل مومنین کی ایک سو بیس صفیں ہونگی کہ جن میں سے اسی فقط میری امت کی ہونگی اب آپ ہی بتلایئے کیا وہ اسی صفیں ان ڈھائی ڈھنگیرؤں سے بھری جائیں گی جو کہ اپنے علاوہ سب کو کافر و مشرک قرار دیتے ہیں اور جو خود امت کا ایک فی صد بھی نہیں ہیں اورکیا یہ ہونگے وہ کہ جن پر میرے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ناز ہوگا لا حول ولا قوۃ الا باللہ ۔۔اس کے علاوہ آپکی تمام باتیں موضوع سے ہٹ کر تھیں سو اسی لیے ہم نے در خور اعتنا
                              نہ جانا والسلام

                              ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                              Comment


                              • #30
                                Re: مسلمان مشرک

                                جس پر ہمارا موقف شروع دن سے ہی یہ رہا ہے کہ جو مشرک ہو وہ پھر مسلمان نہیں لہذا آپ سے گذارش ہے کہ اصل موضوع پرقائم رہیے اور اس بات پر دلائل قائم کیجیئے کہ کیسے ایک شخص مشرک ہوکر بھی مسمان برقرار رہ سکتا ہے

                                محترم میں نے اپ کو بہترین دلیل دی تھے دوبارہ دے دیتا ہوں " میری امت کے کچھ قبیلے بتوں کی عبادت کریں گے " نبی صلی الله علیھ وسلم ان کو اپنا امتی کہ رہے ہے تو بھائی اس سے بڑی کیا دلیل ہے ہو سکتی ہے ان کو اپنی امت سے خارج نہیں کیا ہے بھائی مشرکین عرب بھی الله کو مانتے تھے اور اپنے اپ کو ابراہیم علیھ السلام کی ملت پر مانتے تھے قرآن نے بتایا یہ مشرک ہیں اوراب سوره یوسف کی آیات ١٠٦ کے تحت ابن کثیر نے حذیفہ رضی الله عنھ سے ایک روایت نقل کی ہے جو شاید اپ کی آنکھیں کھول دے " حذیفہ رضی الله عنھ ایک بیمار کے پاس گئے اس کے ہاتھ پر دھاگہ بندھا ہوا دیکھ کر اس کوتوڑ دیا اور یہی آیت پڑھی ایماندار ہوتے ہوۓ مشرک بنتے ہو (تفسیر ابن کثیر سوره یوسف آیت ١٠٦) تو صحابی نے ان کو سمجھایا تو اس بیمار نے مان لیا کہ یہ شرک ہے اور انھوں نے وہی آیت پیش کی ہے جس کے بارے میں اپ کہ رہے ہیں کہ یہ مشرکوں اور منافقوں کے بارے میں اتری ہے اور صحابی اس کو ایک مسلمان پر پڑھ کر اسے بتا رہے ہے کے ایمان لانے کے بعد مشرک بنتے ہوں تو صحابی رسول کو نہ معلوم ہوا کہ یہ آیت مسلمانوں کے بارے میں اتری نہیں تھی اور وہ اسے مسلمانوں پر لگا رہے تھے اور آج اپ کو معلوم ہو گیا کہ یہ مسلمانوں کے بارے میں نہیں ہے اب میں اپ کی سوچ پر افسوس کرنے کے سوا اور کیا کروں .

                                تو بھائی مسلمانوں کی اکثریت بھی یہ جانتی ہی نہیں ہے کہ ہم الله کے ساتھ شرک کے مرتکب ہو رہے ہیں . جب ان کو بتایا جاتا ہے تووہ اپ کی طرح ہڈ دھرمی پر اتر آتے ہے اور یہ نہیں مانتے کے وہ الله کے ساتھ شرک کر رہے ہیں تو بھائی وہ اپنے اپ کو مسلمان ہی سمجھتے ہیں مگر حقیقت یہ نہیں ہے .

                                آپ کے نزدیک امت مسلمہ کی اکثریت مشرک ہوچکی ہے جبکہ ہمارے نزدیک اولا امت مسلمہ میں اگر کبھی شرک جلی آیا بھی تو وہ کوئی قابل ذکر تعداد میں نہ ہوگا کہ جس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطرہ ہوتا کہ جیسے کہ انھوں نے اپنے مبارک ارشاد میں فرمایا کہ مجھے تم پر شرک کا خوف نہیں ہے اور ثانیا یہ تب ہوگا کہ جب قیامت نزدیک ہوگی اور قیامت کہ تمام بڑے آثار واضح ہوجائیں گے جن میں سے ایک نشانی قرآن پاک کا اٹھا لیا جانا ہے اور یہ سب خبریں مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ہیں لہذا یونہی ہوکر رہے گا ان شاء اللہ ۔



                                اپ کا یہ کہنا بھی اپ ہی کی پیش کردہ حدیث کے خلاف ہے بھائی اس میں چند لوگوں کا ذکر ہے جو کلمہ پڑھتے ہوں گے باقی اکثریت نہ اسے جانتی ہو گی اور نہ پڑھتی ہے تو وہ مشرک ہو چکی ہوگی جیسامیں نے بھی اکثریت کی بات کی ہے جو شرک کرنے کے بعد اس پر مصر ہے کہ ہم نے شرک نہیں کرتے ہیں تو کس طرح وہ یہ ماننے گے وہ مشرک ہو چکے وہ تو اپنے کو مسلمان ہی مانتے ہے جیسا مشرکین عرب خود کو ملت ابراہیم علیھ السلام پر مانتے تھے.


                                تو پھرآپ پر لازم ہے کہ آپ عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی اس بات کا بھی جواب دیں کہ جس میں انھوں نے خارجیوں کو کائنات کی بدترین مخلوق محض اس وجہ سے قرار دیا تھا کہ وہ قرآنی آیات کو مسلمانوں پر چسپاں کرتے تھے کیا ابن عمر رضی اللہ کو نہیں معلوم تھا کہ قرآنی تعلیمات بقول آپ کے ابدی ہیں ؟؟؟

                                قرآن کی تعلیمات ابدی ہیں مگر صحابہ کی دونیاوی حیات ابدی نہیں ہے ابن عمر رضی الله عنھ نے صحابہ کرام کو دیکھ کرکے خوارج کے طرز عمل کے بارے میں یہ بیان کیا ہے کیونکہ صحابہ شرک سے دور تھے مگر آج کا مسلمان قبر پرستی میں ڈوبا ہوا ہے مگر اپنی کم علمی کی وجہ شرک کو ماننے کو تیار نہیں ہے . اور حذیفه رضی الله عنھ کا قول میں نے نقل کیا ہے کہ انہوں نے یہی آیت قرانی مسلمان پر چسپاں کی ہے تو ان کے بارے میں کیا خیال ہے
                                چنانچہ ابن عمر کا قول اس وقت کے حالت کے مطابق تھا جو انھوں نے خوارج کو دیکھ کر بیان کیا تھا اگر وہ آج حیات ہوتے تو وہ بھی آج کے مسلمانوں کو دیکھ کر وہی کہتے جو حذیفه رضی الله عنھ نے اس آدمی کے ہاتھ پر دھاگہ دیکھ کر کہا تھا

                                تو اگر نہ مانو تو اپ کی مرضی ہے کہ مسلمان آج شرک میں مبتلا ہے اور آئندہ نسلیں بت بھی بنا لیں گی جیسا میں نے حدیث نقل کی ہے .


                                لہذا وہ امر ہوکر بھی لازم رہے گا اور ثانیا چونکہ آیت کا مـخاطبین انبیاء ہیں تو آپ یہ باطل استدلال کررہے ہیں کہ شرک مسلمانوں میں تو کیا انبیاء میں بھی آسکتا تھا تبھی تو آیت میں آیا ہے نعوذ باللہ من ذالک الخرافات


                                اپ نے میرے کن الفاظ سے یہ مفہوم اخذ کیا ہے میرے لئے بیان کریں گے جبکہ میں نے کہا تھا "

                                اس آیت میں انبیا سے خطاب کر کے امت محمدی صلی الله علیھ وسلم کو بتایا جا رہا ہے کہ شرک نہ کرنا تو کیا یہ آیت صرف اس وقت کے لئے ہے آج کے امتی کے لئے نہیں ہے"

                                مجھے اس کے بعد اس بارے میں کچھ نہیں کہنا میں امید کرتا ہوں شاید اپ کے ضمیر میں اتنی سکت ابھی باقی ہو گی جو اپ کو جھنجھوڑ سکے .


                                کہ آیا جو مشرک ہوگا وہ کیا مسلمان بھی کہلواسکتا ہے بیک وقت مشرک ہوتے ہوئے ؟؟؟ہمارے نزدیک نہیں ہوسکتا جبکہ آپ اس پر مصر ہیں اور ابھی تک ایک بھی دلیل نہیں دی کہ ایک مومن بیک وقت کیسے مومن و مشرک دونوں رہ سکتا ہے ؟؟؟ ہمارا دعوٰی یہ ہے کہ اگر کسی مسلم سے شرک کا وقوع ہر طرح سے اس پر حجت تمام ہوجانے کہ بعد ثابت ہوجائے تو پھر وہ مومن نہیں رہتا بلکہ کافر و مشرک ہوجاتا ہے

                                دلائل اپ کے لئے ایک بار پھر لکھ رہا ہوں شاید کے تیرے دل میں اتر جائے بات میری ،

                                " میری امت کے کچھ قبیلے بتوں کی عبادت کریں گے " نبی صلی الله علیھ وسلم ان کو اپنا امتی کہ رہے ہے تو بھائی اس سے بڑی کیا دلیل ہے ہو سکتی ہے ان کو اپنی امت سے خارج نہیں کیا ہے بھائی مشرکین عرب بھی الله کو مانتے تھے اور اپنے اپ کو ابراہیم علیھ السلام کی ملت پر مانتے تھے قرآن نے بتایا یہ مشرک ہیں اوراب سوره یوسف کی آیات ١٠٦ کے تحت ابن کثیر نے حذیفہ رضی الله عنھ سے ایک روایت نقل کی ہے جو شاید اپ کی آنکھیں کھول دے " حذیفہ رضی الله عنھ ایک بیمار کے پاس گئے اس کے ہاتھ پر دھاگہ بندھا ہوا دیکھ کر اس کوتوڑ دیا اور یہی آیت پڑھی ایماندار ہوتے ہوۓ مشرک بنتے ہو (تفسیر ابن کثیر سوره یوسف آیت ١٠٦) تو صحابی نے ان کو سمجھایا تو اس بیمار نے مان لیا کہ یہ شرک ہے اور انھوں نے وہی آیت پیش کی ہے جس کے بارے میں اپ کہ رہے ہیں کہ یہ مشرکوں اور منافقوں کے بارے میں اتری ہے اور صحابی اس کو ایک مسلمان پر پڑھ کر اسے بتا رہے ہے کے ایمان لانے کے بعد مشرک بنتے ہوں تو صحابی رسول کو نہ معلوم ہوا کہ یہ آیت مسلمانوں کے بارے میں اتری نہیں تھی اور وہ اسے مسلمانوں پر لگا رہے تھے اور آج اپ کو معلوم ہو گیا .
                                اتنی دلیل کافی ہیں.

                                ہمارا یہ دعوٰی جہاں بدیہی ہے وہیں اس پر بے شمار دلائل نقل و عقل ہر طریق سے ثابت ہیں جیسا کہ اوپر آپ ہی کی پیش کردہ سورہ زمر کی آیت نمبر پینسٹھ میں آیا کہ جو کوئی شرک کرئے گا اس کے سارے اعمال ضبط کرلیے جائیں گے


                                مجھے دکھ ہوتا ہے اپ کی عقل پر عمل دنیا میں ضبط ہوں گے یا آخرت میں یقینا آخرت میں تو دنیا میں تو وہ اپنے کو صاحب ایمان ہی سمجھے گا یہ تو آخرت میں پتا چلے گا کے اس کے عمل ریت کا ڈھیر ہیں .

                                ان باتوں کی وضاحت میں بات بہت دور نکل جائے گی اور اصل موضوع پھر پیچھے چلا جائے گا اگر ان پر بات کرنی ہے تو استمداد اولیاء و ندائے غیر اللہ کا الگ سے تھریڈ کھول لیجیئے اور وہاں پر پہلے اپنا عقیدہ بیان کیجیئے اور ہم اپنا
                                کریں گے پھر اگر آپ کو ہمارے عقیدہ پر کوئی اعتراض ہوا تو دو دو ہاتھ کرلیں گے کہیئے کیا کہتے ہیں ؟؟

                                میں تیار ہوں میں نے تھریڈ بنا دیا ہے میں نے اپنا عقیدہ بیان کر دیا ہے اب اپ سے گزارش ہے اپنا عقیدہ اس کے رپلائی میں بیان کریں لنک یہ ہے .http://www.pegham.com/mazameen/83309...%82%D8%AA.html





                                اگر میں کہوں کہ عبداللہ شراب مت پینا وگرنہ حد لگے گی تو زید یہ سمجھے بھئی اب تو عبداللہ ضرور بالضرور شراب پیئے گا کیونکہ عابد نے اسے منع جو کردیا ہے یعنی کہ لاحول ولا قوۃ الا باللہ

                                بھائی قرآن کو صرف اپنی عقل پر سمجھے گے تو یہی حال ہو گا شارح قرآن سے سمجھے گے تو گمراہ نہیں ہو گے " اگر میں کہوں عبداللہ شراب مت پینا ورنہ حد لگے گی تو زید یہ
                                سمجھے کہ اب عبداللہ بالضرور شراب پیے گا" توبھائی زید نے اس سے نہیں سمجھا ہے کہ عبداللہ شراب پیے گا
                                بلکہ زید کو بتایا ہے کہ عبداللہ شراب پیے گا دلیل پیش ہے" قیامت قائم نہ ہوگی جب تک میری امت بتوں کی عبادت
                                نہ کر لے " تو بھائی قرآن کو شارح قرآن صلی اللہ علیہ وسلم سے سمجھوجن کے مطابق امت قیامت سے قبل
                                شرک کرے گی



                                چلیں جی ہم لکیر کے فقیر نہیں بنتے اور اس حدیث کی شرح فتح الباری پیش کرکے جو تیر آپ نے مار لیا ہے اس کا مظاہرہ بھی دیکھ لیتے ہیں جی تو ابن حجر کو پیش کرکے آپ نے ہمارے مؤقف کیسے تردید کرڈالی

                                بات کرو کوڑے کی اور سمجھتے ہیں پکوڑے کی .
                                بھائی میں نے ابن حجر کی جو دلیل دی تھی وہ اپ کی اس بات پر دی تھی "آج کے نام نہاد توحید پرستوں کا المیہ یہ ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح روایات پیش کی جاتی ہیں کہ جنکے مفھوم کہ مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت پر سے شرک جلی کا کوئی خطرہ نہ تھا"
                                اس کے بعد اپ نے وہ حدیث نقل کی تھی جس کے جواب میں ابن حجر کا قول میں نے نقل کیا تھا تو میرے جواب میں صرف یہ وضاحت تھی یہ امت میں شرک کا خوف نہ ہونے سے مراد مجموعی امت ہیں اور اس کو اپ اتہائی قلیل پر بھی قیاس نہیں کر سکتے یعنی امت میں آٹے میں نمک کے برابر افراد شرک کریں گے کیونکہ اس میں تعداد کا متین نہیں ہے وہ کتنے بھی لوگ ہو سکتے ہیں جیسا کہ نبی صلی الله علیھ وسلم نے فرمایا "میری امت پانی میں ڈوب کر ہلاک نہیں ہو گی (مسلم ) تویہ بھی بحثیت مجموعی ہے ورنہ ہزاروں مسلمان ١٤٠٠ سو سال میں ڈوب چکے ہیں اور ایک ہی وقت میں ہزاروں لوگ بھی ڈوب جاتے ہیں (جیسے سیلاب وغیرہ انے سے )تو امت کے شرک کی تعداد کو متین نہیں کیا جا سکتا ہے تو بھائی میں نے صرف ابن حجر کے قول سے یہی ثابت کیا تھا کے امت مجموعی طور پر شرک میں مبتلا نہیں ہو گی اپ پتا نہیں کیا سمجھے .



                                پہلی بات کیا محض ایک روای کے قلیل ضعف کی وجہ سے ساری کی ساری روایت ساقط الاعتبار ٹھرے گی


                                اپ کی باتوں سے ہی اندازہ ہو گیا کہ اپ اصول حدیث سے فارغ ہیں یہ ایک وسیع موضوع ہے اس پر تفصیل سے بات کہیں اور کریں گے فلحال اپ کی معلومات کے لئے اتنا کافی ہے کے فضائل میں بھی متروک راوی کی روایت قبول نہیں ہوتی ہے اور اس میں عبدالواحد بن زید متروک ہے اور اس کی روایت فضائل میں بھی قبول نہیں ہے ہاں اپ نے دیگر اسناد کی بات کی ہے اس کے حوالے دیں ان کو بھی چیک کر لیا جائے گا باقی یہ روایت بہت ضیف ہے معمولی ضیف نہیں ہے .


                                اب آپ ہی بتلایئے کیا وہ اسی صفیں ان ڈھائی ڈھنگیرؤں سے بھری جائیں گی جو کہ اپنے علاوہ سب کو کافر و مشرک قرار دیتے ہیں اور جو خود امت کا ایک فی صد بھی نہیں ہیں اورکیا یہ ہونگے وہ کہ جن پر میرے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ناز ہوگا لا حول ولا قوۃ الا باللہ
                                بھائی جب اپ امت کا تصور کرنے جاتے ہو تو صرف آج ہی کے مسلمان اپ کو نظر آتے ہے بھائی صرف حج الوداع پر ١٢٥٠٠٠ صحابہ کرام موجود تھے اس کے بعد ١٣٠٠ صدی تک کیا مسلمان ہی نہیں تھے (نعوذباللہ ) اور قیامت تک مسلمان نہیں ہوں گے بھائی اس حساب سے تو اپ لوگوں کی تعداد ڈھائی ڈھنگیرؤں کی سی ہے امت کی تعداد بہت ہوگی انشا الله .
                                اپ سے دو دو ہاتھ کا انتظار رہے گا .





                                Comment

                                Working...
                                X