قرآن و سنت سے ماخوذ احناف کے چار اصول
راہِ حق کے متلاشیوں کے لئے
اس وقت پوری دنیا میں فتنوں کا راج ہے، اہل فتنہ ہر طرف دندناتے پھر رہے ہیں اور بے چارے سادہ لوح مسلمان ان فتنوں اور فتنہ پروروں سے پریشان راہِ حق کے متلاشی نظر آتے ہیں۔ اس مختصر مضمون میں راہِ حق کے متلاشیوں کے لئے چار اصول (۱)قرآن مجید (۲)حدیث مبارکہ (۳)اجماع (۴) قیاس واضح کئے جاتے ہیں۔ اگر مسلمان ان چار اصولوں کو ...
چار اصول قرآن پاک کے حوالے سے
(ا) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرما یا ہے 148یاایها الذین اٰمنوا اطیعو الله و اطیعو الرسول و اولی امر منکم147﴿سورة نساء: ۵۹ ﴾ یعنی اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کا حکم مانو اور رسول اللہ ﷺ کا حکم مانو اور اولی الامر لوگوں کا حکم مانو جو تم میں سے ہوں۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں اولی الامر سے مراد علماءاور فقہا ہیں جبکہ ابوہریرہؓ اولی الامر سے امرااور حکام مراد لیتے ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو تین چیزوں کا حکم دے رہے ہیں۔ (۱) اپنی اطاعت کا (۲)رسولﷺ کی اطاعت کا (۳) اولی الامر کی اطاعت کا۔ اب اگر کوئی ان تینوں میں سے پہلے دو حکم تو مانے اورتیسرے حکم کا انکار کر دے تو وہ یقینا 148افتومنون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض147 والی وعید کا مصداق ہوگا۔
(۲)اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : 148اٰمنوا کما امن الناس147﴿بقرة:۳ ۱ ﴾ یعنی ایمان لاوجیسا کہ لوگ (صحابہ کرامؓ) ایمان لائے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرامؓ جیسا ایمان لانے کا حکم دے کر انہیں معیار حق قرار دیا ہے۔ یہاں سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ الناس سے عام لوگ مراد ہیں کیونکہ بنی کریمﷺ کے زمانے میں ایمان لانے والے لوگ صحابی کرامؓ ہی تھے، اسی لئے بعض مفسرین کرام نے الناس سے خاص ابوبکرؓ و عمرؓ اور بعض نے عام صحابہؓ مراد لئے ہیں۔ بہرحال اس آیت سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرامؓ جیسا ایمان ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں معتبر ہے۔
(۳)اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: 148ویتبع غیر سبیل المومنین نوله ما تولیٰ و نصله جهنم ﴿ النساء:۵ ۱۱ ﴾ یعنی جس نے مومنوں کے راستے کو چھوڑا اس کا ٹھکانہ بھی جہنم ہے۔ یہاں پر 148سبیل المومنین147 کے سب سے اولین مستحق صحابہ کرامؓ ہیں کیونکہ یہ سب سے پہلے بنی کریمﷺ پر ایمان لائے اور آپﷺ کی زیارت کی اور آپﷺ کا اتباع کیا۔ ﴿بحواله تفسیر معالم العرفان، ج۴، ص ۵۱۹ ﴾ گویا اس آیت میں اجماع اُمت کو حجت قرار دیتے ہوئے یہ بتلایا گیا ہے کہ جس مسئلہ پر پوری اُمت مسلمہ بالخصوص صحابہ کرامؓ متفق ہو جائیں اس کو چھوڑ کر کسی بھی مسلمان کے لئے انفرادیت کا راستہ اختیار کرنا جائز نہیں۔
(۴)اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں 148ولو ردوہ الی الرسول والیٰ اولامر منهم لعمه الذین يستنبطونه منهم ﴿ النساء:۳ ۸ ﴾ یعنی اگر وہ پہنچا دیتے اس بات کو رسول تک اور اولی الامر (یعنی فقہاء) تک تو جان لیتے اس کو وہ لوگ جو تحقیق کرنے والے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ نئے پیش آمدہ مسائل میں اگر انہیں کوئی مسئلہ پیش آجائے تو اس مسئلہ کے حل کے لئے وہ رسولﷺ کے پاس آئیں۔ اور اگر آپﷺ دنیا سے پردہ فرما گئے ہوں تو پھر فقہائے اُمت کی طرف رجوع کر کے ان سے مسئلہ کی حقیقت پوچھیں کیونکہ شرعی مسائل کی حقیقت یہی لوگ جانتے ہیں۔
(۵)ارشاد خداوندی ہے 148فاسئلو اهل الذکر ان کنتم لا تعلمون147﴿ انبیاء:۷ ﴾ یعنی اگر تم نہیں جانتے تو اہلِ علم سے پوچھو۔ اس آیت قرآنی میں بھی اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو حکم دیا ہے کہ اہل علم اور فقہاءکی مجالس کو نہیں چھوڑنا۔ یاد رہے کہ 148 اهل الذکر147 سے مراد وہ علمائے امت ہیں جو علم رکھنے کے ساتھ ساتھ عمل بھی کرتے ہوں اور اگر ان کے پاس علم تو ہو لیکن وہ اس پرعمل نہ کرتے ہوں تو ایسے بے عمل علماءکے پاس جاکر مسائل دینیہ پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ وہ خود بھی گمراہ ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ ان پانچوں آیات قرآنی کا ایک دفعہ پھر ٹھنڈے دل سے مطالعہ کریں انشاءاللہ حقیقت سامنے آجائے گی اور آپ یقینا یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ امت مسلمہ کی ہدایت و رہنمائی کے لئے (۱)کتاب اللہ (۲)احادیث و سنت رسول اللہ ﷺ (۳)صحابہ کرامؓ اور ان کا اجماع (۴)باعمل اور مجتہد فقہائے امت کا اجتہاد و قیاس، چاروں چیزیں لے کر چلنا انتہائی اہم اور ضروری ہیں۔
چار اصول احادیث کی رُو سے
انہی چاروں اصولوں کی ایک جھلک، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں بھی دیکھ لیجئے۔ کیونکہ قرآن مجیدمیں نبی کریمﷺ کی ہر بات ماننے کو اہل ایمان کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے، چناچہ اللہ تعالی ٰ کا ارشاد مبارک ہے 148ما اتکم الرسول فخذوہ وما نهکم عنه فانتهوا147 (الحشر:۷) یعنی تمہیں جو اللہ کے رسول دیں وہ لے لو اور جس سے منع فرمائیں اس سے باز آجاو۔ ذیل کی سطور میں صرف تین احادیث لکھی جاتی ہیں ان کا اچھی طرح مطالعہ کریں اور پھر دیکھیں کہ کیا نبی کریمﷺ نے قرآن پاک کے مندرجہ بالا چار اصولوں کی تشریح بیان فرمائی ہے کہ نہیں؟
(ا)رسول اللہﷺ نے جب حضرت معاذ ابن جبلؓ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو فرمایا 148اگر فیصلہ کرنا پڑا تو کیسے کرو گے؟147 حضرت معاذ ؓ نے عرض کیا 148کتاب اللہ سے147۔ آپﷺ نے فرماےا 148اگر کتاب اللہ سے نہ ملا تو پھر؟147 عرض کیا 148سنت رسول سے147۔ آپﷺ نے فرماےا 148وہاں بھی نہ ملا تو پھر؟147 عرض کیا 148اپنی رائے سے اجتہاد کر کے فیصلہ کروں گا147۔ نبی کریمﷺ نے حضرت معاذ ؓ کی اس ترتیب اور جواب کو سن کر خوشی سے فرمایا 148تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے رسولﷺ کے قاصد کو ایسی چیز دی جس سے اللہ کا رسول (ﷺ) راضی ہے147۔ (ابوداود، ترمذی) اس حدیث سے تےن چیزوں کا پتہ چلا، (۱)اگر کوئی مسئلہ پیش آجائے تو کتاب اللہ کو سامنے رکھنا ہے، (۲)اگر کتاب اللہ میں اس مسئلے کی وضاحت نہ ہو تو پھر رسول اللہﷺ کی حدیث کی طرف رجوع کرنا ہے، (۳) اگر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ سے بھی مسئلہ حل نہ ہو تو پھر اجتہاد و قیاس سے کام لینا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے لئے کتاب اللہ، سنت رسول اللہﷺ اور قیاس و اجتہاد تینوں چیزیں حجت ہیں۔
(2)نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا 148بنی اسرائیل میں بہتر فرقے تھے، میری امت میں تہتر فرقے ہوں گے، ان میں سے صرف ایک جنت میں جائے گا147۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا 148 یارسول اللہﷺ کون سا فرقہ ہوگا جو جنت میں جائے گا147 تو آپﷺ نے فرمایا 148ما انا علیہ و اصحابی147یعنی جو میرے اور میرے صحابہؓ کے نقش قدم پر چلے گا147۔ (ترمذی) نبی کریمﷺ کے اس ارشاد سے یہ بات واضح ہوئی کہ قیامت کے دن اُمت محمدیہ میں سے صرف وہی جماعت نجات کی حق دار ہوگی جس نے نبیﷺ اور صحابہ کرامؓ کے طریقوں کو اپنایا۔ اور جس جماعت یا گروہ نے نبی کریمﷺ کے طریقے کو تو لیا مگر صحابہؓ کے طریقے کو چھوڑ دیا وہ بھی کامیاب نہ ہو گی۔
(۳)نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا 148علیکم بسنتی و سنت الخلفاء الراشدین المهدیین147 (مشکوٰة) یعنی تم پر میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاءکی سنت لازم ہے۔ اس ارشاد نبویﷺ سے معلوم ہوا کہ آپﷺ نے اپنی سنت پر عمل کرنے کا بھی حکم دیا اور خلفائے راشدینؓ کی سنت کو بھی لازم پکڑنے کی تلقین فرمائی۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ نبی علیہ السلام کی سنت پر تومین عمل کروں گا اور خلفائے راشدینؓ کی سنت پر عمل کرنا میرے لئے لازم نہیں تو یقینَا ایسا آدمی اس حدیث کی خلاف ورزی کر کے ناکامی کا منہ دیکھے گا۔ قرآن مجید کی آیات اور رسول اللہﷺ کی احادیث سے یہ بات اظہر من الشّمس ہوگئی کہ اُمت مسلمہ کی ہدایت کی راہنمائی کے لئے چار چیزیں حجت ہیں (۱)قرآن مجید (۲)احادیث و سنت رسول اللہﷺ (۳)خلفائے راشدینؓ، صحابہ کرامؓ اور ان کا اجماع (۴)فقہائے کرام اور ان کا اجتہاد و قیاس۔
امام ابو حنیفہؒ کے چار اصول
یہ بات ذہن نشین فرمالیں کہ دینی و شرعی مسائل کو سمجھنے کا دارومدار انہی چار اصولوں پر ہے۔ ان کے بغیر کوئی بھی مسلمان راہِ ہدایت کو نہیں پاسکتا۔ احناف اہل سنت والجماعت بھی قرآن و سنت کے انہی چار اصولوں پر کاربند ہیں۔ چنانچہ امام ابو حنیفہؒ کا یہی طریقہ تھا کہ اگر کوئی مسئلہ پیش آجاتا تو آپؒ سب سے پہلے قرآن پاک کی طرف رجوع فرماتے۔ اگر قرآن مجید میں اس مسئلہ کی وضاحت نہ ملتی تو پھر احادیث مبارکہ کی طرف رجوع فرماتے اور اگر احادیث سے بھی کسی مسئلہ کی صراحت نہ ہوتی تو پھر صحابہ کرامؓ کی طرف رجوع فرماتے، اگر صحابہ کرامؓ کی طرف سے بھی اس مسئلہ کا عقدہ حل نہ ہوتا تو پھر امام ابو حنیفہؒ حضرت معاذ بن جبلؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے اجتہاد و قیاس سے کام لیتے۔ اگر ایک عام مسلمان ان چاروں اصولوں کو لے کر شرعی مسائل کو سمجھنے لگ جائیں تو ہر فتنہ و فتنہ پرور سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے قرآن و سنت کے یہ چار اصول یاد کر لئے جائیں پھر جو مسئلہ بھی درپیش ہو، اس کو ان چاروں اصولوں میں نمبر وار تلاش کریں۔ اگر وہ مسئلہ قرآن و سنت کے ان اصولوں کی کسوٹی پر پورا اُترے تو اسے لے لے وگرنہ اس پر عمل نہ کریں۔
چار اصولوں کو سمجھنے کے لئے تین مثالیں
ان چار اصولوں کو ذہن میں بٹھانے کے لئے تین مثالیں ذکر کی جاتی ہیں انہیں اچھی طرح سمجھ لیجئے تاکہ مستقبل میں کوئی فتنہ پرور آپ کو مسائل دینیہ میں دھوکہ نہ دے سکے۔
مثال نمبر: ۱) دیکھیں نماز پنجگانہ اور صوم رمضان کا ذکر کتاب اللہ میں موجود ہے لیکن پانچوں نمازوں کی رکعات اور روزے کی شرائط کا تذکرہ قرآن پاک میں نہیں ملتا، اس لئے ان دونوں عبادتوں کی جزئیات کو سمجھنے کے لئے قرآن و سنت کے دوسرے اصول یعنی 148احادیث نبویہ147 کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ چنانچہ رسول اللہﷺ کے ارشادات میں غور کرنے سے ان دونوں عبادتوں کے ضروری مسائل واضح ہوجاتے ہیں۔
مثال نمبر: ۲) رمضان المبارک کے مہینہ میں پوری اُمت مسلمہ بیس رکعات تراویح پڑھتی ہے، لیکن نماز تراویح کی بیس رکعات ایک امام کے پیچھے پورا مہینہ باجماعت پڑھنے کا ثبوت نہ قرآن مجید میں ملتا ہے اور نہ ہی احادیث میں، تو اس مسئلہ کو سمجھنے کے لئے قرآن و سنت کے تیسرے اصول صحابہ کرامؓ اور اجماع اُمت کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ چنانچہ احادیث کی کتابوں میں چھان بین کرنے سے اس بات کو پتہ چلتا ہے کہ خلفائے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ بیس رکعات تراویح ایک امام کے پیچھے رمضان المبارک میں پڑھا کرتے تھے۔ اور اس پر صحابہ کرام کا اجماع بھی ہوگیا تھا۔ اور چونکہ اجماع صحابہؓ قرآن و سنت کی رُو سے حجت ہے اس لئے بیس رکعات تراویح والا عمل اُمت مسلمہ کے ہر فرد پر لازم ہوگا۔
مثال نمبر: ۳) بھینس کا گوشت کھانے اور اس کے دودھ پینے کا ثبوت قرآن و حدیث میں نہیں ملتا اور نہ ہی اجماع صحابہؓ میں اس کی کوئی نظیر پائی جاتی ہے۔ اور چونکہ دینی و دنیوی مسائل کو سمجھنے کے لئے قرآن و سنت اور اجماع اُمت کے بعد قیاس کا نمبر آتا ہے۔ اس لئے قرآنی و نبوی اصولوں کے مطابق مسئلہ ہٰذا کے حل کے لئے قیاس کی طرف آئیں گے۔ چنانچہ فقہائے کرام نے بھینس اور گائے کی علت میں جب غور کیا تو معلوم ہوا کہ بھینس اور گائے میں 148جگالی147 کر کے کھانے والی مشترکہ علت پائی جاتی ہے۔ اس لئے فقہائے اُمت نے بھینس کو گائے پر قیاس کرتے ہوئے حلال قرار دیا۔
آخری گذارش
قرآن و سنت کے چاروں اصولوں کو سمجھنے کے لئے یہ تین مثالیں ہی کافی ہیں۔ اگر ان کو ذہن نشین کر لیا جائے تو بہت سارے دیگر مسائل بھی حل ہوجائیں گے۔ یہاں پر ایک اور ضروری بات بھی عرض کر دوں کہ ہمارے بعض مہربان بڑی ڈھٹائی کے ساتھ یہ دعویٰ کرتے ہین کہ 148دنیا جہان کا ہر مسئلہ قرآن و حدیث میں موجود ہے اس لئے کسی تیسری چیز کی طرف جانے کی چنداں ضرورت نہیں۔147 اب آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ان اور دیگر بہت سے مسائل کے حل کے لئے صحابہ کرامؓ یا فقہائے کرامؒ کے قیاس و اجتہاد کی طرف رجوع کرنا پڑے گا یا نہیں؟ اس کی ایک جھلک اوپر گزرنے والی دوسری اور تیسری مثال میں آپ کے سامنے واضح کر دی گئی ہے، اب اگر اس حقیقت کو ہمارے یہ 148کرم فرما147 نہ سمجھیں تو یہ ان کی اپنی عقل کا قصور ہے کوئی دوسرا اس میں کیا کہہ سکتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و سنت کے مطابق ان چاروں اصولوں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین
راہِ حق کے متلاشیوں کے لئے
اس وقت پوری دنیا میں فتنوں کا راج ہے، اہل فتنہ ہر طرف دندناتے پھر رہے ہیں اور بے چارے سادہ لوح مسلمان ان فتنوں اور فتنہ پروروں سے پریشان راہِ حق کے متلاشی نظر آتے ہیں۔ اس مختصر مضمون میں راہِ حق کے متلاشیوں کے لئے چار اصول (۱)قرآن مجید (۲)حدیث مبارکہ (۳)اجماع (۴) قیاس واضح کئے جاتے ہیں۔ اگر مسلمان ان چار اصولوں کو ...
چار اصول قرآن پاک کے حوالے سے
(ا) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرما یا ہے 148یاایها الذین اٰمنوا اطیعو الله و اطیعو الرسول و اولی امر منکم147﴿سورة نساء: ۵۹ ﴾ یعنی اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کا حکم مانو اور رسول اللہ ﷺ کا حکم مانو اور اولی الامر لوگوں کا حکم مانو جو تم میں سے ہوں۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں اولی الامر سے مراد علماءاور فقہا ہیں جبکہ ابوہریرہؓ اولی الامر سے امرااور حکام مراد لیتے ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو تین چیزوں کا حکم دے رہے ہیں۔ (۱) اپنی اطاعت کا (۲)رسولﷺ کی اطاعت کا (۳) اولی الامر کی اطاعت کا۔ اب اگر کوئی ان تینوں میں سے پہلے دو حکم تو مانے اورتیسرے حکم کا انکار کر دے تو وہ یقینا 148افتومنون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض147 والی وعید کا مصداق ہوگا۔
(۲)اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : 148اٰمنوا کما امن الناس147﴿بقرة:۳ ۱ ﴾ یعنی ایمان لاوجیسا کہ لوگ (صحابہ کرامؓ) ایمان لائے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرامؓ جیسا ایمان لانے کا حکم دے کر انہیں معیار حق قرار دیا ہے۔ یہاں سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ الناس سے عام لوگ مراد ہیں کیونکہ بنی کریمﷺ کے زمانے میں ایمان لانے والے لوگ صحابی کرامؓ ہی تھے، اسی لئے بعض مفسرین کرام نے الناس سے خاص ابوبکرؓ و عمرؓ اور بعض نے عام صحابہؓ مراد لئے ہیں۔ بہرحال اس آیت سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرامؓ جیسا ایمان ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں معتبر ہے۔
(۳)اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: 148ویتبع غیر سبیل المومنین نوله ما تولیٰ و نصله جهنم ﴿ النساء:۵ ۱۱ ﴾ یعنی جس نے مومنوں کے راستے کو چھوڑا اس کا ٹھکانہ بھی جہنم ہے۔ یہاں پر 148سبیل المومنین147 کے سب سے اولین مستحق صحابہ کرامؓ ہیں کیونکہ یہ سب سے پہلے بنی کریمﷺ پر ایمان لائے اور آپﷺ کی زیارت کی اور آپﷺ کا اتباع کیا۔ ﴿بحواله تفسیر معالم العرفان، ج۴، ص ۵۱۹ ﴾ گویا اس آیت میں اجماع اُمت کو حجت قرار دیتے ہوئے یہ بتلایا گیا ہے کہ جس مسئلہ پر پوری اُمت مسلمہ بالخصوص صحابہ کرامؓ متفق ہو جائیں اس کو چھوڑ کر کسی بھی مسلمان کے لئے انفرادیت کا راستہ اختیار کرنا جائز نہیں۔
(۴)اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں 148ولو ردوہ الی الرسول والیٰ اولامر منهم لعمه الذین يستنبطونه منهم ﴿ النساء:۳ ۸ ﴾ یعنی اگر وہ پہنچا دیتے اس بات کو رسول تک اور اولی الامر (یعنی فقہاء) تک تو جان لیتے اس کو وہ لوگ جو تحقیق کرنے والے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ نئے پیش آمدہ مسائل میں اگر انہیں کوئی مسئلہ پیش آجائے تو اس مسئلہ کے حل کے لئے وہ رسولﷺ کے پاس آئیں۔ اور اگر آپﷺ دنیا سے پردہ فرما گئے ہوں تو پھر فقہائے اُمت کی طرف رجوع کر کے ان سے مسئلہ کی حقیقت پوچھیں کیونکہ شرعی مسائل کی حقیقت یہی لوگ جانتے ہیں۔
(۵)ارشاد خداوندی ہے 148فاسئلو اهل الذکر ان کنتم لا تعلمون147﴿ انبیاء:۷ ﴾ یعنی اگر تم نہیں جانتے تو اہلِ علم سے پوچھو۔ اس آیت قرآنی میں بھی اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو حکم دیا ہے کہ اہل علم اور فقہاءکی مجالس کو نہیں چھوڑنا۔ یاد رہے کہ 148 اهل الذکر147 سے مراد وہ علمائے امت ہیں جو علم رکھنے کے ساتھ ساتھ عمل بھی کرتے ہوں اور اگر ان کے پاس علم تو ہو لیکن وہ اس پرعمل نہ کرتے ہوں تو ایسے بے عمل علماءکے پاس جاکر مسائل دینیہ پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ وہ خود بھی گمراہ ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ ان پانچوں آیات قرآنی کا ایک دفعہ پھر ٹھنڈے دل سے مطالعہ کریں انشاءاللہ حقیقت سامنے آجائے گی اور آپ یقینا یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ امت مسلمہ کی ہدایت و رہنمائی کے لئے (۱)کتاب اللہ (۲)احادیث و سنت رسول اللہ ﷺ (۳)صحابہ کرامؓ اور ان کا اجماع (۴)باعمل اور مجتہد فقہائے امت کا اجتہاد و قیاس، چاروں چیزیں لے کر چلنا انتہائی اہم اور ضروری ہیں۔
چار اصول احادیث کی رُو سے
انہی چاروں اصولوں کی ایک جھلک، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں بھی دیکھ لیجئے۔ کیونکہ قرآن مجیدمیں نبی کریمﷺ کی ہر بات ماننے کو اہل ایمان کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے، چناچہ اللہ تعالی ٰ کا ارشاد مبارک ہے 148ما اتکم الرسول فخذوہ وما نهکم عنه فانتهوا147 (الحشر:۷) یعنی تمہیں جو اللہ کے رسول دیں وہ لے لو اور جس سے منع فرمائیں اس سے باز آجاو۔ ذیل کی سطور میں صرف تین احادیث لکھی جاتی ہیں ان کا اچھی طرح مطالعہ کریں اور پھر دیکھیں کہ کیا نبی کریمﷺ نے قرآن پاک کے مندرجہ بالا چار اصولوں کی تشریح بیان فرمائی ہے کہ نہیں؟
(ا)رسول اللہﷺ نے جب حضرت معاذ ابن جبلؓ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو فرمایا 148اگر فیصلہ کرنا پڑا تو کیسے کرو گے؟147 حضرت معاذ ؓ نے عرض کیا 148کتاب اللہ سے147۔ آپﷺ نے فرماےا 148اگر کتاب اللہ سے نہ ملا تو پھر؟147 عرض کیا 148سنت رسول سے147۔ آپﷺ نے فرماےا 148وہاں بھی نہ ملا تو پھر؟147 عرض کیا 148اپنی رائے سے اجتہاد کر کے فیصلہ کروں گا147۔ نبی کریمﷺ نے حضرت معاذ ؓ کی اس ترتیب اور جواب کو سن کر خوشی سے فرمایا 148تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے رسولﷺ کے قاصد کو ایسی چیز دی جس سے اللہ کا رسول (ﷺ) راضی ہے147۔ (ابوداود، ترمذی) اس حدیث سے تےن چیزوں کا پتہ چلا، (۱)اگر کوئی مسئلہ پیش آجائے تو کتاب اللہ کو سامنے رکھنا ہے، (۲)اگر کتاب اللہ میں اس مسئلے کی وضاحت نہ ہو تو پھر رسول اللہﷺ کی حدیث کی طرف رجوع کرنا ہے، (۳) اگر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ سے بھی مسئلہ حل نہ ہو تو پھر اجتہاد و قیاس سے کام لینا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے لئے کتاب اللہ، سنت رسول اللہﷺ اور قیاس و اجتہاد تینوں چیزیں حجت ہیں۔
(2)نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا 148بنی اسرائیل میں بہتر فرقے تھے، میری امت میں تہتر فرقے ہوں گے، ان میں سے صرف ایک جنت میں جائے گا147۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا 148 یارسول اللہﷺ کون سا فرقہ ہوگا جو جنت میں جائے گا147 تو آپﷺ نے فرمایا 148ما انا علیہ و اصحابی147یعنی جو میرے اور میرے صحابہؓ کے نقش قدم پر چلے گا147۔ (ترمذی) نبی کریمﷺ کے اس ارشاد سے یہ بات واضح ہوئی کہ قیامت کے دن اُمت محمدیہ میں سے صرف وہی جماعت نجات کی حق دار ہوگی جس نے نبیﷺ اور صحابہ کرامؓ کے طریقوں کو اپنایا۔ اور جس جماعت یا گروہ نے نبی کریمﷺ کے طریقے کو تو لیا مگر صحابہؓ کے طریقے کو چھوڑ دیا وہ بھی کامیاب نہ ہو گی۔
(۳)نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا 148علیکم بسنتی و سنت الخلفاء الراشدین المهدیین147 (مشکوٰة) یعنی تم پر میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاءکی سنت لازم ہے۔ اس ارشاد نبویﷺ سے معلوم ہوا کہ آپﷺ نے اپنی سنت پر عمل کرنے کا بھی حکم دیا اور خلفائے راشدینؓ کی سنت کو بھی لازم پکڑنے کی تلقین فرمائی۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ نبی علیہ السلام کی سنت پر تومین عمل کروں گا اور خلفائے راشدینؓ کی سنت پر عمل کرنا میرے لئے لازم نہیں تو یقینَا ایسا آدمی اس حدیث کی خلاف ورزی کر کے ناکامی کا منہ دیکھے گا۔ قرآن مجید کی آیات اور رسول اللہﷺ کی احادیث سے یہ بات اظہر من الشّمس ہوگئی کہ اُمت مسلمہ کی ہدایت کی راہنمائی کے لئے چار چیزیں حجت ہیں (۱)قرآن مجید (۲)احادیث و سنت رسول اللہﷺ (۳)خلفائے راشدینؓ، صحابہ کرامؓ اور ان کا اجماع (۴)فقہائے کرام اور ان کا اجتہاد و قیاس۔
امام ابو حنیفہؒ کے چار اصول
یہ بات ذہن نشین فرمالیں کہ دینی و شرعی مسائل کو سمجھنے کا دارومدار انہی چار اصولوں پر ہے۔ ان کے بغیر کوئی بھی مسلمان راہِ ہدایت کو نہیں پاسکتا۔ احناف اہل سنت والجماعت بھی قرآن و سنت کے انہی چار اصولوں پر کاربند ہیں۔ چنانچہ امام ابو حنیفہؒ کا یہی طریقہ تھا کہ اگر کوئی مسئلہ پیش آجاتا تو آپؒ سب سے پہلے قرآن پاک کی طرف رجوع فرماتے۔ اگر قرآن مجید میں اس مسئلہ کی وضاحت نہ ملتی تو پھر احادیث مبارکہ کی طرف رجوع فرماتے اور اگر احادیث سے بھی کسی مسئلہ کی صراحت نہ ہوتی تو پھر صحابہ کرامؓ کی طرف رجوع فرماتے، اگر صحابہ کرامؓ کی طرف سے بھی اس مسئلہ کا عقدہ حل نہ ہوتا تو پھر امام ابو حنیفہؒ حضرت معاذ بن جبلؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے اجتہاد و قیاس سے کام لیتے۔ اگر ایک عام مسلمان ان چاروں اصولوں کو لے کر شرعی مسائل کو سمجھنے لگ جائیں تو ہر فتنہ و فتنہ پرور سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے قرآن و سنت کے یہ چار اصول یاد کر لئے جائیں پھر جو مسئلہ بھی درپیش ہو، اس کو ان چاروں اصولوں میں نمبر وار تلاش کریں۔ اگر وہ مسئلہ قرآن و سنت کے ان اصولوں کی کسوٹی پر پورا اُترے تو اسے لے لے وگرنہ اس پر عمل نہ کریں۔
چار اصولوں کو سمجھنے کے لئے تین مثالیں
ان چار اصولوں کو ذہن میں بٹھانے کے لئے تین مثالیں ذکر کی جاتی ہیں انہیں اچھی طرح سمجھ لیجئے تاکہ مستقبل میں کوئی فتنہ پرور آپ کو مسائل دینیہ میں دھوکہ نہ دے سکے۔
مثال نمبر: ۱) دیکھیں نماز پنجگانہ اور صوم رمضان کا ذکر کتاب اللہ میں موجود ہے لیکن پانچوں نمازوں کی رکعات اور روزے کی شرائط کا تذکرہ قرآن پاک میں نہیں ملتا، اس لئے ان دونوں عبادتوں کی جزئیات کو سمجھنے کے لئے قرآن و سنت کے دوسرے اصول یعنی 148احادیث نبویہ147 کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ چنانچہ رسول اللہﷺ کے ارشادات میں غور کرنے سے ان دونوں عبادتوں کے ضروری مسائل واضح ہوجاتے ہیں۔
مثال نمبر: ۲) رمضان المبارک کے مہینہ میں پوری اُمت مسلمہ بیس رکعات تراویح پڑھتی ہے، لیکن نماز تراویح کی بیس رکعات ایک امام کے پیچھے پورا مہینہ باجماعت پڑھنے کا ثبوت نہ قرآن مجید میں ملتا ہے اور نہ ہی احادیث میں، تو اس مسئلہ کو سمجھنے کے لئے قرآن و سنت کے تیسرے اصول صحابہ کرامؓ اور اجماع اُمت کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ چنانچہ احادیث کی کتابوں میں چھان بین کرنے سے اس بات کو پتہ چلتا ہے کہ خلفائے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ بیس رکعات تراویح ایک امام کے پیچھے رمضان المبارک میں پڑھا کرتے تھے۔ اور اس پر صحابہ کرام کا اجماع بھی ہوگیا تھا۔ اور چونکہ اجماع صحابہؓ قرآن و سنت کی رُو سے حجت ہے اس لئے بیس رکعات تراویح والا عمل اُمت مسلمہ کے ہر فرد پر لازم ہوگا۔
مثال نمبر: ۳) بھینس کا گوشت کھانے اور اس کے دودھ پینے کا ثبوت قرآن و حدیث میں نہیں ملتا اور نہ ہی اجماع صحابہؓ میں اس کی کوئی نظیر پائی جاتی ہے۔ اور چونکہ دینی و دنیوی مسائل کو سمجھنے کے لئے قرآن و سنت اور اجماع اُمت کے بعد قیاس کا نمبر آتا ہے۔ اس لئے قرآنی و نبوی اصولوں کے مطابق مسئلہ ہٰذا کے حل کے لئے قیاس کی طرف آئیں گے۔ چنانچہ فقہائے کرام نے بھینس اور گائے کی علت میں جب غور کیا تو معلوم ہوا کہ بھینس اور گائے میں 148جگالی147 کر کے کھانے والی مشترکہ علت پائی جاتی ہے۔ اس لئے فقہائے اُمت نے بھینس کو گائے پر قیاس کرتے ہوئے حلال قرار دیا۔
آخری گذارش
قرآن و سنت کے چاروں اصولوں کو سمجھنے کے لئے یہ تین مثالیں ہی کافی ہیں۔ اگر ان کو ذہن نشین کر لیا جائے تو بہت سارے دیگر مسائل بھی حل ہوجائیں گے۔ یہاں پر ایک اور ضروری بات بھی عرض کر دوں کہ ہمارے بعض مہربان بڑی ڈھٹائی کے ساتھ یہ دعویٰ کرتے ہین کہ 148دنیا جہان کا ہر مسئلہ قرآن و حدیث میں موجود ہے اس لئے کسی تیسری چیز کی طرف جانے کی چنداں ضرورت نہیں۔147 اب آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ان اور دیگر بہت سے مسائل کے حل کے لئے صحابہ کرامؓ یا فقہائے کرامؒ کے قیاس و اجتہاد کی طرف رجوع کرنا پڑے گا یا نہیں؟ اس کی ایک جھلک اوپر گزرنے والی دوسری اور تیسری مثال میں آپ کے سامنے واضح کر دی گئی ہے، اب اگر اس حقیقت کو ہمارے یہ 148کرم فرما147 نہ سمجھیں تو یہ ان کی اپنی عقل کا قصور ہے کوئی دوسرا اس میں کیا کہہ سکتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و سنت کے مطابق ان چاروں اصولوں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین
Comment