Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

قرآن و سنت سے ماخوذ احناف کے چار اصول

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • قرآن و سنت سے ماخوذ احناف کے چار اصول

    قرآن و سنت سے ماخوذ احناف کے چار اصول

    راہِ حق کے متلاشیوں کے لئے

    اس وقت پوری دنیا میں فتنوں کا راج ہے، اہل فتنہ ہر طرف دندناتے پھر رہے ہیں اور بے چارے سادہ لوح مسلمان ان فتنوں اور فتنہ پروروں سے پریشان راہِ حق کے متلاشی نظر آتے ہیں۔ اس مختصر مضمون میں راہِ حق کے متلاشیوں کے لئے چار اصول (۱)قرآن مجید (۲)حدیث مبارکہ (۳)اجماع (۴) قیاس واضح کئے جاتے ہیں۔ اگر مسلمان ان چار اصولوں کو ...

    چار اصول قرآن پاک کے حوالے سے

    (ا) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرما یا ہے 148یاایها الذین اٰمنوا اطیعو الله و اطیعو الرسول و اولی امر منکم147﴿سورة نساء: ۵۹ ﴾ یعنی اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کا حکم مانو اور رسول اللہ ﷺ کا حکم مانو اور اولی الامر لوگوں کا حکم مانو جو تم میں سے ہوں۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں اولی الامر سے مراد علماءاور فقہا ہیں جبکہ ابوہریرہؓ اولی الامر سے امرااور حکام مراد لیتے ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو تین چیزوں کا حکم دے رہے ہیں۔ (۱) اپنی اطاعت کا (۲)رسولﷺ کی اطاعت کا (۳) اولی الامر کی اطاعت کا۔ اب اگر کوئی ان تینوں میں سے پہلے دو حکم تو مانے اورتیسرے حکم کا انکار کر دے تو وہ یقینا 148افتومنون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض147 والی وعید کا مصداق ہوگا۔

    (۲)اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : 148اٰمنوا کما امن الناس147﴿بقرة:۳ ۱ ﴾ یعنی ایمان لاوجیسا کہ لوگ (صحابہ کرامؓ) ایمان لائے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرامؓ جیسا ایمان لانے کا حکم دے کر انہیں معیار حق قرار دیا ہے۔ یہاں سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ الناس سے عام لوگ مراد ہیں کیونکہ بنی کریمﷺ کے زمانے میں ایمان لانے والے لوگ صحابی کرامؓ ہی تھے، اسی لئے بعض مفسرین کرام نے الناس سے خاص ابوبکرؓ و عمرؓ اور بعض نے عام صحابہؓ مراد لئے ہیں۔ بہرحال اس آیت سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرامؓ جیسا ایمان ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں معتبر ہے۔

    (۳)اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: 148ویتبع غیر سبیل المومنین نوله ما تولیٰ و نصله جهنم ﴿ النساء:۵ ۱۱ ﴾ یعنی جس نے مومنوں کے راستے کو چھوڑا اس کا ٹھکانہ بھی جہنم ہے۔ یہاں پر 148سبیل المومنین147 کے سب سے اولین مستحق صحابہ کرامؓ ہیں کیونکہ یہ سب سے پہلے بنی کریمﷺ پر ایمان لائے اور آپﷺ کی زیارت کی اور آپﷺ کا اتباع کیا۔ ﴿بحواله تفسیر معالم العرفان، ج۴، ص ۵۱۹ ﴾ گویا اس آیت میں اجماع اُمت کو حجت قرار دیتے ہوئے یہ بتلایا گیا ہے کہ جس مسئلہ پر پوری اُمت مسلمہ بالخصوص صحابہ کرامؓ متفق ہو جائیں اس کو چھوڑ کر کسی بھی مسلمان کے لئے انفرادیت کا راستہ اختیار کرنا جائز نہیں۔

    (۴)اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں 148ولو ردوہ الی الرسول والیٰ اولامر منهم لعمه الذین يستنبطونه منهم ﴿ النساء:۳ ۸ ﴾ یعنی اگر وہ پہنچا دیتے اس بات کو رسول تک اور اولی الامر (یعنی فقہاء) تک تو جان لیتے اس کو وہ لوگ جو تحقیق کرنے والے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ نئے پیش آمدہ مسائل میں اگر انہیں کوئی مسئلہ پیش آجائے تو اس مسئلہ کے حل کے لئے وہ رسولﷺ کے پاس آئیں۔ اور اگر آپﷺ دنیا سے پردہ فرما گئے ہوں تو پھر فقہائے اُمت کی طرف رجوع کر کے ان سے مسئلہ کی حقیقت پوچھیں کیونکہ شرعی مسائل کی حقیقت یہی لوگ جانتے ہیں۔

    (۵)ارشاد خداوندی ہے 148فاسئلو اهل الذکر ان کنتم لا تعلمون147﴿ انبیاء:۷ ﴾ یعنی اگر تم نہیں جانتے تو اہلِ علم سے پوچھو۔ اس آیت قرآنی میں بھی اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو حکم دیا ہے کہ اہل علم اور فقہاءکی مجالس کو نہیں چھوڑنا۔ یاد رہے کہ 148 اهل الذکر147 سے مراد وہ علمائے امت ہیں جو علم رکھنے کے ساتھ ساتھ عمل بھی کرتے ہوں اور اگر ان کے پاس علم تو ہو لیکن وہ اس پرعمل نہ کرتے ہوں تو ایسے بے عمل علماءکے پاس جاکر مسائل دینیہ پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ وہ خود بھی گمراہ ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ ان پانچوں آیات قرآنی کا ایک دفعہ پھر ٹھنڈے دل سے مطالعہ کریں انشاءاللہ حقیقت سامنے آجائے گی اور آپ یقینا یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ امت مسلمہ کی ہدایت و رہنمائی کے لئے (۱)کتاب اللہ (۲)احادیث و سنت رسول اللہ ﷺ (۳)صحابہ کرامؓ اور ان کا اجماع (۴)باعمل اور مجتہد فقہائے امت کا اجتہاد و قیاس، چاروں چیزیں لے کر چلنا انتہائی اہم اور ضروری ہیں۔

    چار اصول احادیث کی رُو سے

    انہی چاروں اصولوں کی ایک جھلک، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں بھی دیکھ لیجئے۔ کیونکہ قرآن مجیدمیں نبی کریمﷺ کی ہر بات ماننے کو اہل ایمان کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے، چناچہ اللہ تعالی ٰ کا ارشاد مبارک ہے 148ما اتکم الرسول فخذوہ وما نهکم عنه فانتهوا147 (الحشر:۷) یعنی تمہیں جو اللہ کے رسول دیں وہ لے لو اور جس سے منع فرمائیں اس سے باز آجاو۔ ذیل کی سطور میں صرف تین احادیث لکھی جاتی ہیں ان کا اچھی طرح مطالعہ کریں اور پھر دیکھیں کہ کیا نبی کریمﷺ نے قرآن پاک کے مندرجہ بالا چار اصولوں کی تشریح بیان فرمائی ہے کہ نہیں؟

    (ا)رسول اللہﷺ نے جب حضرت معاذ ابن جبلؓ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو فرمایا 148اگر فیصلہ کرنا پڑا تو کیسے کرو گے؟147 حضرت معاذ ؓ نے عرض کیا 148کتاب اللہ سے147۔ آپﷺ نے فرماےا 148اگر کتاب اللہ سے نہ ملا تو پھر؟147 عرض کیا 148سنت رسول سے147۔ آپﷺ نے فرماےا 148وہاں بھی نہ ملا تو پھر؟147 عرض کیا 148اپنی رائے سے اجتہاد کر کے فیصلہ کروں گا147۔ نبی کریمﷺ نے حضرت معاذ ؓ کی اس ترتیب اور جواب کو سن کر خوشی سے فرمایا 148تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے رسولﷺ کے قاصد کو ایسی چیز دی جس سے اللہ کا رسول (ﷺ) راضی ہے147۔ (ابوداود، ترمذی) اس حدیث سے تےن چیزوں کا پتہ چلا، (۱)اگر کوئی مسئلہ پیش آجائے تو کتاب اللہ کو سامنے رکھنا ہے، (۲)اگر کتاب اللہ میں اس مسئلے کی وضاحت نہ ہو تو پھر رسول اللہﷺ کی حدیث کی طرف رجوع کرنا ہے، (۳) اگر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ سے بھی مسئلہ حل نہ ہو تو پھر اجتہاد و قیاس سے کام لینا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے لئے کتاب اللہ، سنت رسول اللہﷺ اور قیاس و اجتہاد تینوں چیزیں حجت ہیں۔

    (2)نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا 148بنی اسرائیل میں بہتر فرقے تھے، میری امت میں تہتر فرقے ہوں گے، ان میں سے صرف ایک جنت میں جائے گا147۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا 148 یارسول اللہﷺ کون سا فرقہ ہوگا جو جنت میں جائے گا147 تو آپﷺ نے فرمایا 148ما انا علیہ و اصحابی147یعنی جو میرے اور میرے صحابہؓ کے نقش قدم پر چلے گا147۔ (ترمذی) نبی کریمﷺ کے اس ارشاد سے یہ بات واضح ہوئی کہ قیامت کے دن اُمت محمدیہ میں سے صرف وہی جماعت نجات کی حق دار ہوگی جس نے نبیﷺ اور صحابہ کرامؓ کے طریقوں کو اپنایا۔ اور جس جماعت یا گروہ نے نبی کریمﷺ کے طریقے کو تو لیا مگر صحابہؓ کے طریقے کو چھوڑ دیا وہ بھی کامیاب نہ ہو گی۔

    (۳)نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا 148علیکم بسنتی و سنت الخلفاء الراشدین المهدیین147 (مشکوٰة) یعنی تم پر میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاءکی سنت لازم ہے۔ اس ارشاد نبویﷺ سے معلوم ہوا کہ آپﷺ نے اپنی سنت پر عمل کرنے کا بھی حکم دیا اور خلفائے راشدینؓ کی سنت کو بھی لازم پکڑنے کی تلقین فرمائی۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ نبی علیہ السلام کی سنت پر تومین عمل کروں گا اور خلفائے راشدینؓ کی سنت پر عمل کرنا میرے لئے لازم نہیں تو یقینَا ایسا آدمی اس حدیث کی خلاف ورزی کر کے ناکامی کا منہ دیکھے گا۔ قرآن مجید کی آیات اور رسول اللہﷺ کی احادیث سے یہ بات اظہر من الشّمس ہوگئی کہ اُمت مسلمہ کی ہدایت کی راہنمائی کے لئے چار چیزیں حجت ہیں (۱)قرآن مجید (۲)احادیث و سنت رسول اللہﷺ (۳)خلفائے راشدینؓ، صحابہ کرامؓ اور ان کا اجماع (۴)فقہائے کرام اور ان کا اجتہاد و قیاس۔

    امام ابو حنیفہؒ کے چار اصول

    یہ بات ذہن نشین فرمالیں کہ دینی و شرعی مسائل کو سمجھنے کا دارومدار انہی چار اصولوں پر ہے۔ ان کے بغیر کوئی بھی مسلمان راہِ ہدایت کو نہیں پاسکتا۔ احناف اہل سنت والجماعت بھی قرآن و سنت کے انہی چار اصولوں پر کاربند ہیں۔ چنانچہ امام ابو حنیفہؒ کا یہی طریقہ تھا کہ اگر کوئی مسئلہ پیش آجاتا تو آپؒ سب سے پہلے قرآن پاک کی طرف رجوع فرماتے۔ اگر قرآن مجید میں اس مسئلہ کی وضاحت نہ ملتی تو پھر احادیث مبارکہ کی طرف رجوع فرماتے اور اگر احادیث سے بھی کسی مسئلہ کی صراحت نہ ہوتی تو پھر صحابہ کرامؓ کی طرف رجوع فرماتے، اگر صحابہ کرامؓ کی طرف سے بھی اس مسئلہ کا عقدہ حل نہ ہوتا تو پھر امام ابو حنیفہؒ حضرت معاذ بن جبلؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے اجتہاد و قیاس سے کام لیتے۔ اگر ایک عام مسلمان ان چاروں اصولوں کو لے کر شرعی مسائل کو سمجھنے لگ جائیں تو ہر فتنہ و فتنہ پرور سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے قرآن و سنت کے یہ چار اصول یاد کر لئے جائیں پھر جو مسئلہ بھی درپیش ہو، اس کو ان چاروں اصولوں میں نمبر وار تلاش کریں۔ اگر وہ مسئلہ قرآن و سنت کے ان اصولوں کی کسوٹی پر پورا اُترے تو اسے لے لے وگرنہ اس پر عمل نہ کریں۔

    چار اصولوں کو سمجھنے کے لئے تین مثالیں

    ان چار اصولوں کو ذہن میں بٹھانے کے لئے تین مثالیں ذکر کی جاتی ہیں انہیں اچھی طرح سمجھ لیجئے تاکہ مستقبل میں کوئی فتنہ پرور آپ کو مسائل دینیہ میں دھوکہ نہ دے سکے۔

    مثال نمبر: ۱) دیکھیں نماز پنجگانہ اور صوم رمضان کا ذکر کتاب اللہ میں موجود ہے لیکن پانچوں نمازوں کی رکعات اور روزے کی شرائط کا تذکرہ قرآن پاک میں نہیں ملتا، اس لئے ان دونوں عبادتوں کی جزئیات کو سمجھنے کے لئے قرآن و سنت کے دوسرے اصول یعنی 148احادیث نبویہ147 کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ چنانچہ رسول اللہﷺ کے ارشادات میں غور کرنے سے ان دونوں عبادتوں کے ضروری مسائل واضح ہوجاتے ہیں۔

    مثال نمبر: ۲) رمضان المبارک کے مہینہ میں پوری اُمت مسلمہ بیس رکعات تراویح پڑھتی ہے، لیکن نماز تراویح کی بیس رکعات ایک امام کے پیچھے پورا مہینہ باجماعت پڑھنے کا ثبوت نہ قرآن مجید میں ملتا ہے اور نہ ہی احادیث میں، تو اس مسئلہ کو سمجھنے کے لئے قرآن و سنت کے تیسرے اصول صحابہ کرامؓ اور اجماع اُمت کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ چنانچہ احادیث کی کتابوں میں چھان بین کرنے سے اس بات کو پتہ چلتا ہے کہ خلفائے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ بیس رکعات تراویح ایک امام کے پیچھے رمضان المبارک میں پڑھا کرتے تھے۔ اور اس پر صحابہ کرام کا اجماع بھی ہوگیا تھا۔ اور چونکہ اجماع صحابہؓ قرآن و سنت کی رُو سے حجت ہے اس لئے بیس رکعات تراویح والا عمل اُمت مسلمہ کے ہر فرد پر لازم ہوگا۔

    مثال نمبر: ۳) بھینس کا گوشت کھانے اور اس کے دودھ پینے کا ثبوت قرآن و حدیث میں نہیں ملتا اور نہ ہی اجماع صحابہؓ میں اس کی کوئی نظیر پائی جاتی ہے۔ اور چونکہ دینی و دنیوی مسائل کو سمجھنے کے لئے قرآن و سنت اور اجماع اُمت کے بعد قیاس کا نمبر آتا ہے۔ اس لئے قرآنی و نبوی اصولوں کے مطابق مسئلہ ہٰذا کے حل کے لئے قیاس کی طرف آئیں گے۔ چنانچہ فقہائے کرام نے بھینس اور گائے کی علت میں جب غور کیا تو معلوم ہوا کہ بھینس اور گائے میں 148جگالی147 کر کے کھانے والی مشترکہ علت پائی جاتی ہے۔ اس لئے فقہائے اُمت نے بھینس کو گائے پر قیاس کرتے ہوئے حلال قرار دیا۔

    آخری گذارش

    قرآن و سنت کے چاروں اصولوں کو سمجھنے کے لئے یہ تین مثالیں ہی کافی ہیں۔ اگر ان کو ذہن نشین کر لیا جائے تو بہت سارے دیگر مسائل بھی حل ہوجائیں گے۔ یہاں پر ایک اور ضروری بات بھی عرض کر دوں کہ ہمارے بعض مہربان بڑی ڈھٹائی کے ساتھ یہ دعویٰ کرتے ہین کہ 148دنیا جہان کا ہر مسئلہ قرآن و حدیث میں موجود ہے اس لئے کسی تیسری چیز کی طرف جانے کی چنداں ضرورت نہیں۔147 اب آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ان اور دیگر بہت سے مسائل کے حل کے لئے صحابہ کرامؓ یا فقہائے کرامؒ کے قیاس و اجتہاد کی طرف رجوع کرنا پڑے گا یا نہیں؟ اس کی ایک جھلک اوپر گزرنے والی دوسری اور تیسری مثال میں آپ کے سامنے واضح کر دی گئی ہے، اب اگر اس حقیقت کو ہمارے یہ 148کرم فرما147 نہ سمجھیں تو یہ ان کی اپنی عقل کا قصور ہے کوئی دوسرا اس میں کیا کہہ سکتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و سنت کے مطابق ان چاروں اصولوں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین

  • #2
    Re: قرآن و سنت سے ماخوذ احناف کے چار اصول

    ا) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرما یا ہے 148یاایها الذین اٰمنوا اطیعو الله و اطیعو الرسول و اولی امر منکم147﴿سورة نساء: ۵۹ ﴾ یعنی اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کا حکم مانو اور رسول اللہ ﷺ کا حکم مانو اور اولی الامر لوگوں کا حکم مانو جو تم میں سے ہوں۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں اولی الامر سے مراد علماءاور فقہا ہیں جبکہ ابوہریرہؓ اولی الامر سے امرااور حکام مراد لیتے ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو تین چیزوں کا حکم دے رہے ہیں۔ (۱) اپنی اطاعت کا (۲)رسولﷺ کی اطاعت کا (۳) اولی الامر کی اطاعت کا۔ اب اگر کوئی ان تینوں میں سے پہلے دو حکم تو مانے اورتیسرے حکم کا انکار کر دے تو وہ یقینا 148افتومنون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض147 والی وعید کا مصداق ہوگا۔
    بے شک قرآن مجید میں اولولا مر کی اطاعت کا حکم ہے اب سوال یہ ہے کے یہ اطاعت دینی امور میں ہے یا انتظامی اور سیاسی امور میں.اگر دینی امور میں ہے ور انکا فرمان شرعی قانون کی حیثیت رکھتا ہے تو پھر ان سے اختلاف کی اجازت کیوں ہے؟ اور اولولا مر سے اختلاف کے وقت الله اور رسول کی طرف رجوع کا حکم کیوں ہے؟اس کے تو یہ معنی ہوئے کہ انکا فرمان شرعی قانون ہو پھر بھی اس سے اختلاف جائز ، حالانکہ یہ ناممکن ہے، لہذا ثابت ہوا کے انکا حکم دینی امور میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا.اسکو رد کیا جا سکتا ہے اور قرآن اور حدیث سے تحقیق کر کے صحیح مسلے پر عمل کرنا ضروری ہے.جو مسائل قرآن ور سنّت کے مطابق ہیں انکی اطاعت صرف جائز نہیں بلکہ لازم ہے،اور انکی اتباع تو قرآن اور سنّت کی اتباع ہے. قرآن اور سنت کے مطابق تو ہر شخص کی بات واجب التعمیل ہے،اس میں ائمہ کرام اور فقہاکی کیا خصوصیت ہے. کفر کس چیز کا نام ہے ؟ الله کی آیات کا انکار کرنا ہی تو کفر ہے، ایک انسان الله کی آیات کا انکار بھی کرے اور کفر کا انکار بھی کرے تو کیا حل ہے اسکا؟؟؟
    http://www.islamghar.blogspot.com/

    Comment


    • #3
      Re: قرآن و سنت سے ماخوذ احناف کے چار اصول

      jazakalah u nay bahut achi sharing ki........
      sigpic

      Comment


      • #4
        Re: قرآن و سنت سے ماخوذ احناف کے چار اصول

        Originally posted by drsahil View Post
        امام ابو حنیفہؒ کے چار اصول

        یہ بات ذہن نشین فرمالیں کہ دینی و شرعی مسائل کو سمجھنے کا دارومدار انہی چار اصولوں پر ہے۔ ان کے بغیر کوئی بھی مسلمان راہِ ہدایت کو نہیں پاسکتا۔ احناف اہل سنت والجماعت بھی قرآن و سنت کے انہی چار اصولوں پر کاربند ہیں۔ چنانچہ امام ابو حنیفہؒ کا یہی طریقہ تھا کہ اگر کوئی مسئلہ پیش آجاتا تو آپؒ سب سے پہلے قرآن پاک کی طرف رجوع فرماتے۔ اگر قرآن مجید میں اس مسئلہ کی وضاحت نہ ملتی تو پھر احادیث مبارکہ کی طرف رجوع فرماتے اور اگر احادیث سے بھی کسی مسئلہ کی صراحت نہ ہوتی تو پھر صحابہ کرامؓ کی طرف رجوع فرماتے، اگر صحابہ کرامؓ کی طرف سے بھی اس مسئلہ کا عقدہ حل نہ ہوتا تو پھر امام ابو حنیفہؒ حضرت معاذ بن جبلؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے اجتہاد و قیاس سے کام لیتے۔ اگر ایک عام مسلمان ان چاروں اصولوں کو لے کر شرعی مسائل کو سمجھنے لگ جائیں تو ہر فتنہ و فتنہ پرور سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے قرآن و سنت کے یہ چار اصول یاد کر لئے جائیں پھر جو مسئلہ بھی درپیش ہو، اس کو ان چاروں اصولوں میں نمبر وار تلاش کریں۔ اگر وہ مسئلہ قرآن و سنت کے ان اصولوں کی کسوٹی پر پورا اُترے تو اسے لے لے وگرنہ اس پر عمل نہ کریں۔



        سلام بھائی
        صحیح کہا امام ابو حنیفہ رحم اللہ نے




        Attached Files

        Comment


        • #5
          Re: قرآن و سنت سے ماخوذ احناف کے چار اصول


          امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ایک دن قاضی ابو یوسف کو فرمایا

          اے یعقوب (ابویوسف) تیری خرابی ہو،میری ہر بات نہ لکھا کر، میری آج ایک رائے ہوتی ہے اور کل بدل جاتی ہے۔ کل دوسری رائے ہوتی ہے پھر پرسوں وہ بھی بدل جاتی ہے۔

          (تاریخ بغداد 424/13 ،تاریخ ابن معین 2/607 وسندہ صحيح)


          امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں

          میری ہر بات جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے خلاف ہو (چھوڑ دو) پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سب سے بہتر ہے اور میری تقلید نہ کرو۔

          (آداب الشافعی و مناقبہ لابن ابی حاتم ص51 وسندہ حسن)

          اب سوالات یہ پیدا ہوتے ہیں کہ



          سوال نمبر1: تقلید شخصی اصطلاحی کی تعریف کیا ہے۔ اور یہ فرض ہے، واجب ہے، مستحب ہے یا مباح ہے؟

          سوال نمبر2: اجماع کی تعریف کیا ہے۔ اور اجماع کن لوگوں کا معتبر ہے؟ تقلید شخصی اصطلاحی پر کیا اجماع ہوا ہے۔ اگر ہوا ہے تو کب، کہاں اور کن کا؟

          سوال نمبر3: اجتہاد کی تعریف کیا ہے۔ اجتہاد کے لیے کن علوم کی ضرورت ہے اور کیوں۔ کیا اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے۔ اگر نہیں تو پہلے کیوں کھلا تھا اور کس نے کھولا تھا۔ اب کیوں بند ہو گیا ہے۔ اور کس نے بند کیا ہے؟


          سوال نمبر4: مجتہد کو بھی تقلید کرنے کا حکم ہے یا نہیں؟

          سوال نمبر5: جو امام ان چاروں کے سوا ہوئے ہیں ان کے نام کیا ہیں۔ اور ان کی تقلید فرض ہے یا واجب یا مباح ہے یا نہیں۔ اگر نہیں تو کیوں۔ حالانکہ وہ ان کے استاد ہیں، ادب میں، زہد میں، فقہ میں، جہاد میں، تقوی میں ان کے بھی بڑے ہیں۔ ان کی بزرگی کے قائل تھے اور ان کا ادب کرتے تھے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کی تقلید نہ کر کے نیچے والوں کی تقلید کرنا کونسی عقل مندی ہے؟

          سوال نمبر6: حضرت علی، حضرت حسن ، حضرت حسین رضی اللہ عنہم کو بھی امام کہا جاتا ہے اور وہ صحابی تھے اور حضرت زین العابدین ، حضرت باقر اور حضرت جعفر صادق رحمہم اللہ افضل ہیں چاروں اماموں سے یا چاروں امام افضل ہیں۔ پھر آل ِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے ان بارہ اماموں کے مقلد کو تو ہم کافر اور رافضی کہتے ہیں اور ان سے کم درجے کے اماموں کی تقلید کو فرض مانتے ہیں۔ اس تفریق کی کیا وجہ؟


          سوال نمبر7: حضرت علی رضی اللہ عنہ صحابی تھے۔ جبکہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تابعی تھے (لیکن سمع ثابت نہیں ہے) اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ چاروں آئمہ میں آخری امام تھے جن کے بارے میں امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ حدیث کی صحت پر وہ امام احمد رحمہ اللہ پر اعتماد کرتے ہیں۔ پھر یا تو ہمیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تقلید کرنی چاہیے یا امام احمد رحمہ اللہ لیکن ہم نے ان دونوں آئمہ کو کیونکہ چھوڑا ہوا ہے؟

          سوال نمبر8: چاروں خلفاء رضی اللہ عنہم مجتہد تھے یا نہیں۔ اگر تھے تو ان کی تقلید کیوں چھوڑ دی جاتی ہے؟

          سوال نمبر9: چاروں اماموں کے قبل چاروں خلفاء رضی اللہ عنہم کی تقلید کی جاتی تھی یا نہیں۔ جب نہیں کی جاتی تھی تو پھر اماموں کی کیوں کی جائے؟

          سوال نمبر10: ذرا مہربانی فرما کر یہ بھی بتایا جائے کہ فقہ کی موجودہ کتابوں میں سے کوئی ایک بھی ایسی ہے جسے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے خود لکھا ہو؟


          سوال نمبر11: چاروں امام بھی مقلد تھے یا نہیں۔ اور مقلد تھے تو کس کے، اور اگر نہیں تھے تو کیوں؟

          سوال نمبر12: یہ جو فقہ کی کتابوں میں ہے کہ عامی کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ اس کے کیا معنی ہیں؟ (پھر تو حنفی ہو کر بھی حنفی نہ رہے)
          ہ

          سوال نمبر13: مقلد قرآن و حدیث کا مطلب سمجھ سکتا ہے یا نہیں۔ حالانکہ ہماری فقہ شریف کے اصول کی کتابوں میں ہے کہ مقلد قرآن و حدیث سے دلیل لے ہی نہیں سکتا۔ پھر تو گویا قرآن و حدیث منسوخ اور بےکار ہیں{معاذ اللہ}۔ اگر لے سکتا ہے تو تقلید کی ضرورت ہی کیا۔ اگر نہیں لے سکتا تو قرآن و حدیث کی ضرورت ہی کیا؟

          سوال نمبر14: چار مُصلے مکہ مُعظّمہ میں خاص خانہ ِ کعبہ میں قائم ہوئے تھےان کو کس نے قائم کیا۔ اور کیوں قائم کیا۔ اور کب قائم کیا۔ کیا اس سے مسلمانوں کے دین کے ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہوئے۔ اور اماموں نے اسے کیوں قائم نہ کیا؟
          سوال نمبر15: اہل سنت و الجماعت کی کیا تعریف ہے۔ جب کہ مقلد نہ سنت سے دلیل لے سکے نہ جماعتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اجماع سے۔ پھر اسے اہل سنت و جماعت کیوں کیوں کہا جائے؟
          سوال نمبر16: اہل حدیث یعنی صرف کتاب و سنت پر عمل کرنے والوں کی جماعت، جب سے کتاب و سنت ہے تب ہی سے ہے، یا بیچ میں سے اس کا عامل کوئی نہیں تھا۔ یعنی کتابِ خدا اور حدیثِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ و سلم پر کسی کا عمل نہ تھا؟ (حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ اس کے عامل قیامت تک رہیں گے۔ان شاء اللہ)

          سوال نمبر17: اگر امام کے کسی مقلد کے پاس کوئی صحیح حدیث پہنچے اور وہ اس امام کے قول کے خلاف ہو تو اسے کیا کرنا چاہیے؟ اور جو یہ کہہ کر اس حدیث کو ٹال دے کہ یہ میرے مذہب میں نہیں وہ مسلمان رہا یا اسلام سے خارج ہو گیا اور ایسے وقت مقلد کو کیا کرنا چاہیے ہے؟


          سوال نمبر18: احناف کو اپنے مذہب کی مواقت کے لیے حدیث سازی کی ضرورت کیونکہ پیش آئی؟

          سوال نمبر19: حنفی حضرات اسماعیلی پیر شمس تبریز کے مرید مولانا رومی کی مثنوی کو الہامی کتاب کا درجہ کیوں دیتے ہیں؟

          سوال نمبر20: مفتی تفی عثمانی صاحب مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم کی کتاب "الحیلة الناجزة في الحلیلة العاجزة" کے نئے ایڈیشن کے دیباچے میں فقہ حنفی سے خروج کا جواز تسلیم کرتے ہوئے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ فقہ حنفی میں شوہر سے گلوخلاصی کی خواہش مند عورتوں کو پیش آنے والی مشکلات کا کوئی حل نہیں ہے۔ انہوں نے ایسے بیشتر مسائل میں مالکی مذہب کے مطابق فتویٰ دیا ہے۔ اگر فقہ حنفی مکمل ضابطۂ حیات ہے تو اس مسئلہ کا حل کیوں نہیں ہے؟






          بات یہ ہے کہ جیسے دوسرے لوگوں کے اشکالات ہیں ہمارے بارے میں اسی طرح ہمارے بھی اشکالات ہوتے ہیں۔ تو جیسے ان کے ذہن میں مختلف سوالات اٹھتے ہیں اسی طرح ہمارے ذہن میں بھی سوالات سر اٹھاتے ہیں۔ اسی چیز کی وجہ سے میں نے سوچا کہ اپنے بھائیوں سے ان کا فقہ سمجھنے کی کوشش کروں۔



          Comment


          • #6
            Re: قرآن و سنت سے ماخوذ احناف کے چار اصول

            Originally posted by lovelyalltime View Post

            امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ایک دن قاضی ابو یوسف کو فرمایا

            اے یعقوب (ابویوسف) تیری خرابی ہو،میری ہر بات نہ لکھا کر، میری آج ایک رائے ہوتی ہے اور کل بدل جاتی ہے۔ کل دوسری رائے ہوتی ہے پھر پرسوں وہ بھی بدل جاتی ہے۔

            (تاریخ بغداد 424/13 ،تاریخ ابن معین 2/607 وسندہ صحيح)


            امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں

            میری ہر بات جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے خلاف ہو (چھوڑ دو) پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سب سے بہتر ہے اور میری تقلید نہ کرو۔

            (آداب الشافعی و مناقبہ لابن ابی حاتم ص51 وسندہ حسن)

            اب سوالات یہ پیدا ہوتے ہیں کہ



            سوال نمبر1: تقلید شخصی اصطلاحی کی تعریف کیا ہے۔ اور یہ فرض ہے، واجب ہے، مستحب ہے یا مباح ہے؟

            سوال نمبر2: اجماع کی تعریف کیا ہے۔ اور اجماع کن لوگوں کا معتبر ہے؟ تقلید شخصی اصطلاحی پر کیا اجماع ہوا ہے۔ اگر ہوا ہے تو کب، کہاں اور کن کا؟

            سوال نمبر3: اجتہاد کی تعریف کیا ہے۔ اجتہاد کے لیے کن علوم کی ضرورت ہے اور کیوں۔ کیا اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے۔ اگر نہیں تو پہلے کیوں کھلا تھا اور کس نے کھولا تھا۔ اب کیوں بند ہو گیا ہے۔ اور کس نے بند کیا ہے؟


            سوال نمبر4: مجتہد کو بھی تقلید کرنے کا حکم ہے یا نہیں؟

            سوال نمبر5: جو امام ان چاروں کے سوا ہوئے ہیں ان کے نام کیا ہیں۔ اور ان کی تقلید فرض ہے یا واجب یا مباح ہے یا نہیں۔ اگر نہیں تو کیوں۔ حالانکہ وہ ان کے استاد ہیں، ادب میں، زہد میں، فقہ میں، جہاد میں، تقوی میں ان کے بھی بڑے ہیں۔ ان کی بزرگی کے قائل تھے اور ان کا ادب کرتے تھے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کی تقلید نہ کر کے نیچے والوں کی تقلید کرنا کونسی عقل مندی ہے؟

            سوال نمبر6: حضرت علی، حضرت حسن ، حضرت حسین رضی اللہ عنہم کو بھی امام کہا جاتا ہے اور وہ صحابی تھے اور حضرت زین العابدین ، حضرت باقر اور حضرت جعفر صادق رحمہم اللہ افضل ہیں چاروں اماموں سے یا چاروں امام افضل ہیں۔ پھر آل ِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے ان بارہ اماموں کے مقلد کو تو ہم کافر اور رافضی کہتے ہیں اور ان سے کم درجے کے اماموں کی تقلید کو فرض مانتے ہیں۔ اس تفریق کی کیا وجہ؟


            سوال نمبر7: حضرت علی رضی اللہ عنہ صحابی تھے۔ جبکہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تابعی تھے (لیکن سمع ثابت نہیں ہے) اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ چاروں آئمہ میں آخری امام تھے جن کے بارے میں امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ حدیث کی صحت پر وہ امام احمد رحمہ اللہ پر اعتماد کرتے ہیں۔ پھر یا تو ہمیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تقلید کرنی چاہیے یا امام احمد رحمہ اللہ لیکن ہم نے ان دونوں آئمہ کو کیونکہ چھوڑا ہوا ہے؟

            سوال نمبر8: چاروں خلفاء رضی اللہ عنہم مجتہد تھے یا نہیں۔ اگر تھے تو ان کی تقلید کیوں چھوڑ دی جاتی ہے؟

            سوال نمبر9: چاروں اماموں کے قبل چاروں خلفاء رضی اللہ عنہم کی تقلید کی جاتی تھی یا نہیں۔ جب نہیں کی جاتی تھی تو پھر اماموں کی کیوں کی جائے؟

            سوال نمبر10: ذرا مہربانی فرما کر یہ بھی بتایا جائے کہ فقہ کی موجودہ کتابوں میں سے کوئی ایک بھی ایسی ہے جسے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے خود لکھا ہو؟


            سوال نمبر11: چاروں امام بھی مقلد تھے یا نہیں۔ اور مقلد تھے تو کس کے، اور اگر نہیں تھے تو کیوں؟

            سوال نمبر12: یہ جو فقہ کی کتابوں میں ہے کہ عامی کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ اس کے کیا معنی ہیں؟ (پھر تو حنفی ہو کر بھی حنفی نہ رہے)
            ہ

            سوال نمبر13: مقلد قرآن و حدیث کا مطلب سمجھ سکتا ہے یا نہیں۔ حالانکہ ہماری فقہ شریف کے اصول کی کتابوں میں ہے کہ مقلد قرآن و حدیث سے دلیل لے ہی نہیں سکتا۔ پھر تو گویا قرآن و حدیث منسوخ اور بےکار ہیں{معاذ اللہ}۔ اگر لے سکتا ہے تو تقلید کی ضرورت ہی کیا۔ اگر نہیں لے سکتا تو قرآن و حدیث کی ضرورت ہی کیا؟

            سوال نمبر14: چار مُصلے مکہ مُعظّمہ میں خاص خانہ ِ کعبہ میں قائم ہوئے تھےان کو کس نے قائم کیا۔ اور کیوں قائم کیا۔ اور کب قائم کیا۔ کیا اس سے مسلمانوں کے دین کے ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہوئے۔ اور اماموں نے اسے کیوں قائم نہ کیا؟
            سوال نمبر15: اہل سنت و الجماعت کی کیا تعریف ہے۔ جب کہ مقلد نہ سنت سے دلیل لے سکے نہ جماعتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اجماع سے۔ پھر اسے اہل سنت و جماعت کیوں کیوں کہا جائے؟
            سوال نمبر16: اہل حدیث یعنی صرف کتاب و سنت پر عمل کرنے والوں کی جماعت، جب سے کتاب و سنت ہے تب ہی سے ہے، یا بیچ میں سے اس کا عامل کوئی نہیں تھا۔ یعنی کتابِ خدا اور حدیثِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ و سلم پر کسی کا عمل نہ تھا؟ (حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ اس کے عامل قیامت تک رہیں گے۔ان شاء اللہ)

            سوال نمبر17: اگر امام کے کسی مقلد کے پاس کوئی صحیح حدیث پہنچے اور وہ اس امام کے قول کے خلاف ہو تو اسے کیا کرنا چاہیے؟ اور جو یہ کہہ کر اس حدیث کو ٹال دے کہ یہ میرے مذہب میں نہیں وہ مسلمان رہا یا اسلام سے خارج ہو گیا اور ایسے وقت مقلد کو کیا کرنا چاہیے ہے؟


            سوال نمبر18: احناف کو اپنے مذہب کی مواقت کے لیے حدیث سازی کی ضرورت کیونکہ پیش آئی؟

            سوال نمبر19: حنفی حضرات اسماعیلی پیر شمس تبریز کے مرید مولانا رومی کی مثنوی کو الہامی کتاب کا درجہ کیوں دیتے ہیں؟

            سوال نمبر20: مفتی تفی عثمانی صاحب مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم کی کتاب "الحیلة الناجزة في الحلیلة العاجزة" کے نئے ایڈیشن کے دیباچے میں فقہ حنفی سے خروج کا جواز تسلیم کرتے ہوئے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ فقہ حنفی میں شوہر سے گلوخلاصی کی خواہش مند عورتوں کو پیش آنے والی مشکلات کا کوئی حل نہیں ہے۔ انہوں نے ایسے بیشتر مسائل میں مالکی مذہب کے مطابق فتویٰ دیا ہے۔ اگر فقہ حنفی مکمل ضابطۂ حیات ہے تو اس مسئلہ کا حل کیوں نہیں ہے؟






            بات یہ ہے کہ جیسے دوسرے لوگوں کے اشکالات ہیں ہمارے بارے میں اسی طرح ہمارے بھی اشکالات ہوتے ہیں۔ تو جیسے ان کے ذہن میں مختلف سوالات اٹھتے ہیں اسی طرح ہمارے ذہن میں بھی سوالات سر اٹھاتے ہیں۔ اسی چیز کی وجہ سے میں نے سوچا کہ اپنے بھائیوں سے ان کا فقہ سمجھنے کی کوشش کروں۔



            bhai apka jazba qabal sataish hai, fiqa seekhne ke liye ap ulma e ahal sunnat se rabta farmaye ye darul uloom islamia se maloom kare wo apko achi tarha sb samjha den ge me tu ek adna talib ilam ho

            Comment


            • #7
              Re: قرآن و سنت سے ماخوذ احناف کے چار اصول

              Originally posted by drsahil View Post
              bhai apka jazba qabal sataish hai, fiqa seekhne ke liye ap ulma e ahal sunnat se rabta farmaye ye darul uloom islamia se maloom kare wo apko achi tarha sb samjha den ge me tu ek adna talib ilam ho

              کیا جواب دیا آپ نے

              آپ نے یہاں سے کاپی تو کر لیا

              قرآن و سنت سے ماخوذ احناف کے چار اصول

              یہ تھریڈ چھاپ کر آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں

              آپ تو ثابت کر رھے ہیں کہ فقہ حنفی ١٠٠ فیصد

              صحیح ہے

              لکن جب آپ سے اسی فقہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ کو دارلعلوم یاد آ گیا

              میں تو پچھلے دو تین سالوں سے یہ سوالات آپ کے دارلعلوم سے پوچھ رہا ہوں لکن

              جواب ندارد

              اگر آپ ہی پوچھ کر بتا دیں تو نوازش ھو گی

              شکریہ آپ کا بھائی

              لولی آل ٹائم
              :rose




              Comment


              • #8
                Re: قرآن و سنت سے ماخوذ احناف کے چار اصول

                Originally posted by lovelyalltime View Post

                کیا جواب دیا آپ نے

                آپ نے یہاں سے کاپی تو کر لیا

                یہ تھریڈ چھاپ کر آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں




                شرم تم کو مگر نہیں آتی
                جو کام خود کرتے ہو وہی آج کسی دوسرے نے کیا تو کس دھڑلے سے اسے بتا رہے کہ اس نے فلاں جگہ سے کاپی کیا جبکہ اپنا تمہارا حال یہ ہے کہ سوائے ان چند الفاظ کہ تم نے بھی وہ 372-hahaپورے کا پورا جوابی تھریڈ کاپی پیسٹ ہی کیا پھر مگر شرم تم کو نہیں آنی
                ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                Comment


                • #9
                  Re: قرآن و سنت سے ماخوذ احناف کے چار اصول

                  میں تو طالب علم ہوں اور کتابیں پڑہتا ہوں نہ تو کوی محقق ہون نہ مصنف ہوں ہمیں دارلعلوم اس لیے یاد آتا ہے کے وہاں عالم ہوتے ہیں اپ آپ کتنے سچے ہو اس کا تو ہمیں انداہ ہے

                  Comment


                  • #10
                    Re: قرآن و سنت سے ماخوذ احناف کے چار اصول

                    Originally posted by drsahil View Post
                    bhai apka jazba qabal sataish hai, fiqa seekhne ke liye ap ulma e ahal sunnat se rabta farmaye ye darul uloom islamia se maloom kare wo apko achi tarha sb samjha den ge me tu ek adna talib ilam ho

                    ا
                    تَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَاباً مِنْ دُونِ اللَّهِ (توبہ 9:31)
                    انہوں نے اپنے علماء و مشائخ کو اللہ کو چھوڑ کر اپنا رب بنا لیا تھا۔

                    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے سیدنا عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ نے اس آیت سے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا:
                    حدثنا الحسين بن يزيد الكوفي حدثنا عبد السلام بن حرب عن غطيف بن أعين عن مصعب بن سعد عن عدي بن حاتم قال : أتيت النبي صلى الله عليه وسلم وفي عنقي صليب من ذهب فقال يا عدي اطرح عنك هذا الوثن وسمعته يقرأ في سورة براءة { اتخذوا أحبارهم ورهبانهم أربابا من دون الله } قال أما إنهم لم يكونوا يعبدونهم ولكنهم كانوا إذا أحلوا لهم شيئا استحلوه وإذا حرموا عليهم شيئا حرموه. (ترمذی؛ کتاب التفسیر؛ حدیث
                    صحیح 3095)

                    سیدنا عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے پاس آیا تومیرے گلے میں سونے کی ایک صلیب لٹک رہی تھی۔ آپ نے فرمایا، "اے عدی! اس بت کو اتار دو۔" میں نے آپ کو سورۃ توبہ کی یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا، "ان (اہل کتاب نے) اللہ کو چھوڑ کر اپنے علماء اور صوفیاء کو اس کا شریک بنا لیا تھا۔"
                    اور فرمایا، "یہ لوگ ان کی عبادت تو نہیں کرتے تھے مگر جب وہ کسی چیز کو حلال قرار دیتے تو اسے حلال سمجھنے لگتے اور جب حرام قرار دیتے تو اسے حرام سمجھنے لگتے۔"
                    یہی وہ ذہنی غلامی تھی جس کے نتیجے میں علماء و مشائخ کو خدا کے پیغمبر کا اور پیغمبر کو خود خدا کا درجہ دے دیا گیا۔

                    غور فرمائیے!

                    بعض لوگ اللہ کے نیک بندوں کو خدا کا درجہ دے کر ان کے ساتھ کیا معاملات کرتے ہیں،



                    Allah-o-Akbar Kabeera, Wal Hamdulillaah-e-Kaseera, Subhan Allah-e-Bukratan-wa-Aseela

                    Comment

                    Working...
                    X