مدرّسینِ قرآن کے لیے خصوصی ہدایات
کتاب وسنت کی روشنی میں
پچھلی دو تین دہائیوں سے فہم قرآن کی جو تحریک پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں بالعموم اور شہر لاہور میں بالخصوص جس تیزی سے پھیل رہی ہے و ہ واقعتا ایک بہت ہی مستحسن امر ہے۔اوریہ کہنے میں بھی کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ اس تحریک نے ایک بہت بڑے تعلیم یافتہ طبقے کومتأثر کیا ہے اور ہزاروں افراد کی زندگیوں کے رُخ کویکسر تبدیل کر دیا ہے ۔یہ اسی درسِ قرآن اور ترجمۂ قرآن کی کلاسز کے ہی ثمرات ہیں کہ آج ہر طرف فہم قرآن کے ادارے نظر آتے ہیں اورقرآن کے درس وتدریس کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ہم فہم قرآن کی اس تحریک کے حق میں ہیں اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں،لیکن چونکہ اس تحریک کے اکثر افراد نہ تو دینی مدارس کے فارغ طلبہ یاعلماء ہیں اور نہ ہی انہوں نے ٹھوس علمی بنیادوں پر دین یعنی قرآن وحدیث کاباقاعدہ علم حاصل کیا ہوتا ہے بلکہ یہ عموما دینی اسلامی تحریکوں کے متحرک کارکنان ہوتے ہیں،اس لیے اپنی کم علمی کی وجہ سے یہ حضرات بعض اوقات لا شعوری طور پر درسِ قرآن کے اصل مقصد سے ہٹ کر ایک ایسی راہ پر چلنا شروع کر دیتے ہیں جس سے خیر کم وجود میں آتا ہے اور فتنہ پیدا ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے ۔ایسے مدرسین،اپنے خلوص کے باوصف،معاشرے کی اصلاح کی بجائے اس میں عدم توازن اور باہمی منافرت کا ایک سبب بن جاتے ہیں۔
اس مضمون میں ہمارے پیش نظر قرآن و حدیث کی روشنی میں مدرسین قرآن کی ان کوتاہیوں کی نشاندہی ہے جو عام طور پر معاشرے میں اصلاح کی بجائے خرابی کا باعث بنتی ہیں ۔علاوہ ازیں یہ مضمون ایک مدرسِ قرآن کو ایک منہج بھی فراہم کرتا ہے جس پر چل کر وہ اپنے دروس کو عوام الناس کے لیے زیادہ سے زیادہ مفید بنا سکتا ہے ۔ اس مضمون سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم دروسِ قرآن کے عوامی حلقوں کے خلاف ہیں،بلکہ ان گزارشات سے ہمارا مقصودمدرسینِ قرآن کو صرف یہ حقیقت باورکرانا ہے کہ ان کی اصل حیثیت مصلحین کی ہے نہ کہ مفسرین کی،اور حلقہ ہائے درسِ قرآنی کا اصل ہدف انذار و تبشیر اورتذکیر ہے نہ کہ تفسیر و تأویل۔ اس ضمن میں قرآن و حدیث پر مبنی چند ہدایات درج ذیل ہیں
اخلاص
دین اسلام میں ''نیت'' کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔اللہ کے رسول ۖ کا ارشاد ہے
((اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ))
''اعمال کا دارومدارنیتوں پر ہے ۔''
اللہ کے رسول ۖ کی اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اعمال کی جزا وسزا میں نیت کا عمل دخل بہت زیادہ ہوتا ہے ۔بظاہر ایک عمل لوگوں کے ہاں بہت بڑی نیکی کا کام ہوتا ہے لیکن اللہ کے ہاں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی،بلکہ بعض اوقات یہ عامل کے لیےوبال کا باعث بھی بن جاتا ہے،کیونکہ اس میں اخلاص نہیں ہوتا ۔مدرسین کو چاہیے کہ سب سے پہلے اپنے اندر اخلاص پیدا کریں،خالصتاً اللہ کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لیے درسِ قرآن دیں۔ بعض اچھے مدرسین کے بارے میں سننے میں آیا ہے کہ وہ اپنے دروس میں لوگوں کی تعداد کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں،اگر کسی جگہ لوگوں کی تعداد کم ہو تو وہاں درس دینے سے یا تو انکار کر دیتے ہیں یا اکتاہٹ محسوس کرتے ہیں ۔ایسا طرز ِعمل اختیار کرنااخلاص کے منافی ہے ۔
حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ ایک جگہ ایک بڑے مجمع سے خطاب کے لیے تشریف لے گئے،تقریباً دو گھنٹے توحید پر درس دیا ۔جب آپ کا درس ختم ہو چکا تو تھوڑی دیر بعد ایک بوڑھا شخص وہاں پہنچا ۔حضرت شاہ صاحب نے جب اس بوڑھے سے وہاں آنے کا مقصد پوچھا تو اس نے حضرت شاہ صاحب کوبتایا کہ وہ ان کا درس سننے کے لیے آیا تھا۔حضرت شاہ صاحب اس بوڑھے شخص کے جذبے اور ولولے کو دیکھ کر مکمل درس اس اکیلے بوڑھے کو دوبارہ سنانے کے لیے تیار ہو گئے ۔اس پر وہ بوڑھا حضرت شاہ صاحب سے پوچھنے لگا کیا آپ مجھ اکیلے کے لیے دوبارہ اتنا طویل درس دیں گے ؟تو شاہ صاحب نے اس کو جو جواب دیا وہ واقعتا سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے ۔انہوں نے فرمایا
''پہلے بھی ایک (اللہ تعالیٰ) ہی کوراضی کرنے کے لیے درس دیا تھا اور اب بھی ایک ہی کو راضی کرنا مقصود ہے ''۔
جب انسان کے سامنے اصل مقصود اللہ کی رضا ہو تو پھر اس بات کی اہمیت بہت کم رہ جاتی ہےکہ آپ کا درس سننے کے لیے کتنے افراد تشریف لاتے ہیں۔ہمارے ہاں کامیاب مدرس اس کو شمار کیا جاتا ہے جس کے درس میں لوگوں کی تعداد زیادہ ہو،جبکہ اللہ کے ہاں کامیاب مدرس وہ ہے جس میں اخلاص زیادہ ہو،چاہے اس کے درس میں شریک ہونے والوں کی تعداد بہت کم ہی کیوں نہ ہو۔اس لیے مدرسین کو چاہیے کہ وہ شیطان کے وسوسے میں آ کر حاضرین کی تعداد کو اپنے درس کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار نہ بنائیں،بلکہ اپنا اصل مقصود اللہ کی رضا کوبنائیں۔اللہ تعالیٰ کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے کہ وہ آپ کے اخلاص کی بنیاد پر دیے گئے درس میں شریک فردِ واحد سے ہی دین کی کوئی اتنی بڑی خدمت لے لے جو کہ عدم اخلاص کی بنیاد پر دیے گئے درس میں شریک ہزاروں سامعین کے مجموعی عمل سے کئی گنا زیادہ ہو۔
Comment