بانی بریلویت کی جہاد مخالفت اور انگریز سے وفاداری
جہاد کی مخالفت اور استعمار کی حمایت
جناب بریلوی کا دور استعمار کا دور تھا۔ مسلمان آزمائش میں مبتلا تھے' ان کا عہد اقتدار ختم ہوچکا تھا۔ انگریز مسلمانوں کو ختم کردینا چاہتے تھے علماء کو تختہ دار پر لٹکایا جارہا تھا' مسلمان عوام ظلم و تشدد کا نشانہ بن رہے تھے اور ان کی جائیدادیں ضبط کی جارہی تھیں' انہیں کالا پانی اور دوسرے عقوبت خانوں میں مختلف سزائیں دی جارہی تھیں۔، ان کی شان و شوکت اور رعب ودبدبہ ختم ہوچکا تھا۔ انگریز مسلمان امت کے وجود کو بر صغیر کی سر زمین سے مٹا دینا چاہتے تھے،۔ اس دور میں اگر کوئی گروہ ان کے خلاف صدا بلند کررہا تھا اور پوری ہمت و شجاعت کے ساتھ جذبہ جہاد سے سرشار ان کا مقابلہ کررہا تھا' تو وہ وہابیوں کا گروہ تھا۔
(وہابی کا لفظ سب سے پہلے اہل حدیث حضرات کے لئے انگریز نے استعمال کیا' تاکہ وہ انہیں بدنام کرسکیں۔ وہابی کا لفظ باغی کے معنوں میں ہوتا تھا۔ بلاشبہ وہابی انگریز کے باغی تھے)
انہوں نے علم جہاد بلند کیا' اپنی جائیدادیں ضبط کروائیں' کالا پانی کی سزائیں برداشت کیں' دارورسن کی عقوبتوں سے دوچار ہوئے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا' مگر انگریزی استعمار کو تسلیم کرنے پر راضی نہ ہوئے۔ اس دور کے وہابی چاہتے تھے کہ برصغیر میں مسلمان سیاسی و اقتصادی طور پر مضبوط ہوجائیں۔
اس وقت ضرورت تھی اتفاق و اتحاد کی' مل جل کر جدوجہد کرنے کی' ایک پرچم تلے متحد ہوکر انگریزی استعمار کو ختم کرنے کی ۔ مگر استعمار یہ نہ چاہتا تھا۔ وہ انہیں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا کرنا چاہتا تھا۔ وہ مسلمانوں کو باہم دست و گریبان دیکھنا چاہتا تھا ۔ اس کے لیے اسے چند افراد درکار تھے' جو اس کے ایجنٹ بن کر مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالیں' انہیں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کردیں اور ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کرکے ان کی قوت و شوکت کو کمزور کردیں ۔ اس مقصد کے لئے انگریز نے مختلف اشخاص کو منتخب کیا' جن میں مرزا غلام احمد قادیانی اور جناب بریلوی کے مخالفین کے مطابق احمد رضا خان بریلوی صاحب سر فہرست تھے ۔
مرزا غلام احمد قادیانی کی سرگرمیاں تو کسی سے مخفی نہیں' مگر جہاں تک احمد رضا صاحب کا تعلق ہے' ان کا معاملہ ذرا محتاج وضاحت ہے۔ جناب احمد رضا بریلوی صاحب نے استعمار کے مخالفین وہابی حضرات کو سب و شتم اور طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا۔ ان وہابیوں کو ' جو انگریز کے خلاف محاذ آراء تھے اور ان کے خلاف جہاد میں مصروف تھے' انگریز کی طرف سے ان کی بستیوں پر بلڈوزر چلائے گئے۔ صرف بنگال میں ایک لاکھ وہابی علماء کو پھانسی کی سزا دی گئی۔
انگریز مصنف ہنٹر نے اعتراف حقیقت کرتے ہوئے اپنی کتاب میں کہا ہے
"ہمیں اپنے اقتدار کے سلسلے میں مسلمان قوم کے کسی گروہ سے خطرہ نہیں ۔ اگر خطرہ ہے تو صرف مسلمانوں کے ایک اقلیتی گروہ وہابیوں سے ہے۔ کیونکہ صرف وہی ہمارے خلاف جدوجہد میں مصروف ہیں
جنگ آزادی 1857ء کے بعد وہابیوں کے تمام اکابرین کو پھانسی کی سزا دی گئی۔
1863ء کا عرصہ ان کے لیے نہایت دشوار تھا۔ اس عرصے میں انگریز کی طرف سے ان پر جو مظالم ڈھائے گئے' ہندوستان کی تاریخ اس کی گواہ ہے۔
وہابی علماء میں سے جن کو قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار ہونا پڑا' ان میں مولانا جعفر تھانیسری' مولانا عبدالرحیم' مولانا عبد الغفار' مولانا یحیی علی صادق پوری' مولانا احمد اللہ اور شیخ الکل مولانا نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہم سر فہرست ہیں۔
وہابی مجاہدین کی جائیدادیں ضبط کرنے کا حکم جاری کردیا گیا۔
وہابیوں کے مکانوں کو مسمار کردیا گیا اور ان کے خاندانوں کی قبروں تک کو اکھیڑ دیا گیا۔ ان کی بلڈنگوں پر بلڈوزر چلادیے گئے۔ وہابی علماء کو گرفتار کرکے انہیں مختلف سزائیں دی گئیں۔ اس ضمن میں شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی گرفتاری کا واقعہ بہت مشہور ہے۔
ان وہابیوں کے خلاف زبان استعمال کرنے کے لیے اور "فرق تسد" یعنی "لڑاؤ اور حکومت کرو" کی مشہور انگریزی پالیسی کو کامیاب کرنے کے لیے استعمار نے جناب احمد رضا صاحب کو استعمال کیا' تاکہ وہ مسلمانوں میں افتراق وانتشار کا بیج بو کر ان کے اتحاد کو ہمیشہ کے لیے پارہ پارہ کردیں۔
اور عین اس وقت جب کہ انگریز کے مخالفین ان کی حکومت سے نبرد آزما تھے اور جہاد میں مصروف تھے' جناب احمد رضا نے ان جملہ مسلم راہنمایان کا نام لے کر ان کی تکفیر کی' جنہوں نے آزادی کی تحریک کے کسی شعبے میں بھی حصہ لیا۔
وہ جماعتیں جنہوں نے تحریک آزادی ء ہند میں حصہ لیا' ان میں وہابی تحریک کے علاوہ جمیعت علمائے ہند' مجلس احرار' تحریک خلافت' مسلم لیگ' نیلی پوش مسلمانوں میں سے اور آزاد ہند فوج خاص ہندوؤں میں سے اور گاندھی کی کانگرس قابل ذکر ہیں۔
جناب بریلوی آزادیء ہند کی ان تمام تحریکوں سے نہ صرف لاتعلق رہے' بلکہ ان تمام جماعتوں اور ان کے اکابرین کی تکفیر و تفسیق کی۔ ان کے خلاف سب وشتم میں مصروف رہے اور ان میں شمولیت کو حرام قرار دیا۔
جناب احمد رضا تحریک خلافت کے دوران ہی وفات پاگئے' ان کے بعد ان کے جانشیوں نے ان کے مشن کو جاری رکھا اور وہابیوں کے علاوہ مسلم لیگ کی شدید مخالفت کی اور لیگی زعماء کے کافر و مرتد ہونے کے فتوی جاری کیے اور اس طرح انہوں نے بالواسطہ طور پرانگریزی استعمار کے ہاتھ مضبوط کیے۔ جناب احمد رضا کی سرپرستی میں بریلوی زعماء نے مسلمانوں کو ان تحریکوں سے دور رہنے کی تلقین کی اور جہاد کی سخت مخالفت کی ۔ چونکہ شرعاً جہاد آزادی کا دارومدار ہندوستان کے دارالحرب ہونے پر تھا اور اکابرین ملت اسلامیہ ہندوستان کو دارالحرب قرار دے چکے تھے' احمد رضا خاں صاحب نے اس بنا پر جہاد کو منہدم کرنے کے لیے یہ فتوی دیا کہ ہندوستان دارالاسلام ہے۔ اور اس کے لیے بیس صفحات پر مشتمل ایک رسالہ [اعلام بان ھندوستان دارالاسلام] یعنی"اکابرین کو ہندوستان کے دارالاسلام ہونے سے آگاہ کرنا" تحریر کیا۔
جناب احمد رضا خاں صاحب نے اس رسالے کے شروع میں جس چیز پر زور دیا' وہ یہ تھا کہ وہابی کافر مرتد ہیں۔ انبہیں جزیہ لے کر بھی معاف کرنا جائز نہیں۔ اسی طرح نہ انہیں پناہ دینا جائز' نہ ان سے نکاح کرنا' نہ ان کا ذبیحہ جائز' نہ ان کی نماز جنازہ جائز' نہ ان سے میل جول رکھنا جائز' نہ ان سے لین دین جائز' بلکہ ان کی عورتوں کو غلام بنایا جائے اور ان کے خلاف سوشل بائیکاٹ کیا جائے ۔اور آخر میں لکھتے ہیں
( قاتلھم اللہ انّی یوفکون ) یعنی "خدا انہیں غارت کرے وہ کہاں بھٹکے پھرتے ہیں۔
یہ رسالہ جناب احمد رضا کی اصلیت کو بے نقاب کرنے کے لئے کافی ہے ۔ اس سے ان کے مکروہ عزائم کھل کر سامنے آجاتے ہیں کہ وہ کس طرح مجاہدین کی مخالفت کرکے انگریز استعمار کی حمایت و تائید کررہے تھے۔ اور مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر دشمنان دین و ملت کا دست بازو بن چکے تھے۔
جس وقت دنیا بھر کے مسلمان ترکی سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے پر انگریزوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کررہے تھے اور مولانا محمد علی جو ہر رحمہ اللہ اور دوسرے اکابرین کی زیر قیادت خلافت اسلامیہ کے تحفظ و بقاء کے لیے انگریزوں سے جنگ لڑرہے تھے' عین اس وقت جناب احمد رضا انگریزوں کے مفاد میں جانے والی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔
بلاشبہ تحریک خلافت' انگریزوں کو ان کی بدعہدی پر سزا دینے کے لیے نہایت موثر ثابت ہورہی تھی ۔ تمام مسلمان ایک پرچم تلے جمع ہوچکے تھے ۔ علماء و عوام اس تحریک کی حمایت کررہے تھے ۔ خود ایک بریلوی مصنف اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتا ہے
"1918ء میں جنگ عظیم ختم ہوئی' جرمنی اور اس کے ساتھیوں ترکی آسٹریا وغیرہ کو شکست ہوئی' ترکوں سے آزادیء ہند کے متعلق ایک معاہدہ طے پایا۔ لیکن انگریزوں نے بدعہدی اور وعدہ خلافی کی' جس سے مسلمانوں کو سخت دھچکا لگا۔ چنانچہ وہ بپھر گئے اور ان کے خلاف ہوگئے۔ اہل سیاست اس فکر میں تھے کہ کسی ترکیب سے انگریزوں کو وعدہ خلافی کی سزا دی جائے۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کو یہ باور کرایا کہ خلافت اسلامیہ کا تحفظ فرائض و واجبات میں سے ہے۔ بس پھر کیا تھا ایک طوفان کھڑا ہوگیا۔
اور حقیقتاً تحریک خلافت انگریزوں کے خلاف ایک موثر ہتھیار ثابت ہورہی تھی ۔ مسلمان انگریزوں کے خلاف متحد ہوچکے تھے۔ قریب تھا کہ یہ تحریک انگریزی سلطنت کے خاتمہ کا باعث بن جاتی۔ اس امر کی وضاحت اہل حدیث جید عالم دین امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ نے بھی فرمائی ہے۔
مگر بریلوی مکتب فکر کے امام و مجدد نے انگریزوں کے خلاف چلنے والی اس تحریک کے اثرات و نتائج کو بھانپتے ہوئے انگریزوں سے دوستی کا ثبوت دیا اور تحریک خلافت کو نقصان پہنچانے کے لیے ایک دوسرا رسالہ "دوام العیش" کے نام سے تالیف کیا' جس میں انہوں نے واضح کیا کہ چونکہ خلافت شرعیہ کے لیے قریشی ہونا ضروری ہے' اس لیے ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ترکوں کی حمایت ضروری نہیں' کیونکہ وہ قریشی نہیں ہیں۔ اس بنا پر انہوں نے انگریزوں کے خلاف چلائی جانے والی اس تحریک کی بھرپور مخالفت کی اور انگریزی استعمار کی مضبوطی کا باعث بنے۔
احمد رضاخاں صاحب تحریک خلافت کے مسلم زعماء کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے رقمطراز ہیں
"ترکوں کی حمایت تو محض دھوکے کی ٹٹی ہے ۔ اصل مقصود یہ ہے کہ خلافت کا نام لو ۔ عوام بپھریں' خوب چندہ ملے اور گنگا و جمنا کی مقدس سر زمینیں آزاد ہوں۔"
جناب احمد رضا نے تحریک ترک موالات کی بھی شدید مخالفت کی۔ کیونکہ انہیں خطرہ تھا کہ یہ تحریک انگریز کے زوال کا باعث بن سکتی ہے۔
تحریک ترک موالات کا مقصود یہ تھا کہ انگریزوں کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔ انہیں ٹیکس وغیرہ کی ادائیگی نہ کی جائے' اس کے تحت چلنے والے سرکاری محکموں میں منلازمت نہ کی جائے، غرضیکہ ان کی حکومت کو یکسر مسترد کردیا جائے' تاکہ وہ مجبور ہوکر ہندوستان کی سرزمین سے نکل جائیں۔ اس مقصد کے لیے تمام مسلمانوں نے 1920ء میں متحد ہوکر جدوجہد شروع کردی۔ جس سے انگریز حکومت کے خلاف ایک فتنہ کھڑا ہوگیا اور وہ متزلزل ہونے لگی۔ اس تحریک کو گاندھی کے علاوہ جناب احمد رضا نے بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی ۔ اور ایک رسالہ تحریر کرکے اس کی سختی سے ممانعت کی اور اس تحریک کے سرکردہ راہنماؤں کے خلاف کفر کے فتوے صادر کیے۔
چنانچہ وہ اس مقصد کے لیے تحریر کئے گئے رسالے (والمحجتہ الموتمنہ فی آیۃ الممتحنۃ) میں اعتراف کرتے ہیں ۔
"اس تحریک کا ہدف انگریز سے آزادی کا حصول ہے"۔
نیز اس رسالے میں جہاد کی مخالفت کرتے ہوئے ارشاد کرتے ہیں
"ہم مسلمانان ہند پر جہاد فرض نہیں ہے۔ اور جو اس کی فرضیت کا قائل ہے' وہ مسلمانوں کا مخالف ہے اور انہیں نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔
نیز لکھتے ہیں
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے جہاد سے استدلال کرنا جائز نہیں' کیونکہ ان پر جنگ مسلط کی گئی تھی ۔ اور حاکم وقت پر اس وقت تک جہاد فرض نہیں' جب تک اس میں کفار کے مقابلے کی طاقت نہ ہو۔ چنانچہ ہم پرجہاد کیسے فرض ہوسکتا ہے' کیونکہ ہم انگریز کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔"
مسلمانوں کو جہاد و قتال' نیز انگریز سے محاذ آرائی سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہوئے لکھتے ہیں
اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے
[ یا ایھا الذین اٰمنوا علیکم انفسکم لا یضرکم من ضل اذا ھتدیتم ]
یعنی"اے ایماندارو' تم اپنے آپ کے ذمہ دار ہو۔ کسی دوسری شخص کا گمراہ ہونا تمہارے لیے نقصان دہ نہیں ہوسکتا' بشرطیکہ تم خود ہدایت پر گامزن ہو۔
یعنی ہر مسلمان انفرادی طور پر اپنی اصلاح کرے' اجتماعی جدوجہد کی کوئی ضرورت نہیں
اور اپنے رسالہ کے آخر میں ان تمام راہنماؤں پر کفر کا فتوی لگایا ہے ' جو انگریزی استعمار کے مخالف اور تحریک ترک موالات کے حامی تھے۔
جناب احمد رضا نے جہاد کے منہدم کرنے کا فتوی اپنے رسالے "دوام العیش" میں بھی دیا ہے۔ لکھتے ہیں
"مسلمانان ہند پر حکم جہاد و قتال نہیں
بہرحال احمد رضا صاحب کے متعلق مشہور ہوگیا تھا کہ وہ استعمار کے ایجنٹ ہیں۔ اور ہر اس تحریک کے مخالف ہیں' جو انگریزوں کے خلاف چلائی جاتی ہے۔
بریلوی اعلٰی حضرت کے ایک پیروکار لکھتے ہیں
"مسلمان احمد رضا سے بد ظن ہوگئے تھے۔"
ایک اور مصنف لکھتا ہیں
"مسئلہ خلافت سے ان کو اختلاف تھا۔ انتقال کے قریب ان کے خلاف مسلمانوں میں بہت چرچا ہوگیا تھا اور ان کے مرید اور معتقد اختلاف خلافت کے سبب ان سے برگشتہ ہوگئے تھے۔
بہرحال عین اس وقت' جب کہ مسلمانوں کو متحد ہو کر انگریزی استعمار کے خلاف جدوجہد کرنے کی ضرورت تھی' جناب احمد رضا خاں صاحب انگریزوں کے مفاد کے لیے کام کررہے تھے ۔
اگر یہ نہ بھی کہا جائے کہ احمد رضا خاں صاحب انگریز کے ایجنٹ تھے' تب بھی یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان کی تمام تر سرگرمیاں مسلمانوں کے خلاف اور انگریز کے مفاد میں تھیں ۔ کیونکہ انہوں نے مجاہدین کی تو مخالفت کی' مگر انگریز کے حامی و موید رہے۔
مشترق فرانسس رابنس نے جناب احمد رضا صاحب کے متعلق لکھا ہے
"احمد رضا بریلوی انگریزی حکومت کے حامی رہے ۔انہوں نے پہلی جنگ عظیم میں بھی انگریزی حکومت کی حمایت کی ۔ اسی طرح وہ تحریک خلافت میں 1921ء میں وہ انگریز کے حامی تھے ۔ نیز انہوں نے بریلی میں ان علماء کی کانفرنس بھی بلائی' جو تحریک ترک موالات کے مخالف تھے۔
یہ تھے جناب احمد رضا اور ان کی سر گرمیاں
Comment