Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

بانی بریلویت کی جہاد مخالفت اور انگریز سے وفاداری

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • بانی بریلویت کی جہاد مخالفت اور انگریز سے وفاداری



    بانی بریلویت کی جہاد مخالفت اور انگریز سے وفاداری


    جہاد کی مخالفت اور استعمار کی حمایت


    جناب بریلوی کا دور استعمار کا دور تھا۔ مسلمان آزمائش میں مبتلا تھے' ان کا عہد اقتدار ختم ہوچکا تھا۔ انگریز مسلمانوں کو ختم کردینا چاہتے تھے علماء کو تختہ دار پر لٹکایا جارہا تھا' مسلمان عوام ظلم و تشدد کا نشانہ بن رہے تھے اور ان کی جائیدادیں ضبط کی جارہی تھیں' انہیں کالا پانی اور دوسرے عقوبت خانوں میں مختلف سزائیں دی جارہی تھیں۔، ان کی شان و شوکت اور رعب ودبدبہ ختم ہوچکا تھا۔ انگریز مسلمان امت کے وجود کو بر صغیر کی سر زمین سے مٹا دینا چاہتے تھے،۔ اس دور میں اگر کوئی گروہ ان کے خلاف صدا بلند کررہا تھا اور پوری ہمت و شجاعت کے ساتھ جذبہ جہاد سے سرشار ان کا مقابلہ کررہا تھا' تو وہ وہابیوں کا گروہ تھا۔


    (وہابی کا لفظ سب سے پہلے اہل حدیث حضرات کے لئے انگریز نے استعمال کیا' تاکہ وہ انہیں بدنام کرسکیں۔ وہابی کا لفظ باغی کے معنوں میں ہوتا تھا۔ بلاشبہ وہابی انگریز کے باغی تھے)


    انہوں نے علم جہاد بلند کیا' اپنی جائیدادیں ضبط کروائیں' کالا پانی کی سزائیں برداشت کیں' دارورسن کی عقوبتوں سے دوچار ہوئے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا' مگر انگریزی استعمار کو تسلیم کرنے پر راضی نہ ہوئے۔ اس دور کے وہابی چاہتے تھے کہ برصغیر میں مسلمان سیاسی و اقتصادی طور پر مضبوط ہوجائیں۔


    اس وقت ضرورت تھی اتفاق و اتحاد کی' مل جل کر جدوجہد کرنے کی' ایک پرچم تلے متحد ہوکر انگریزی استعمار کو ختم کرنے کی ۔ مگر استعمار یہ نہ چاہتا تھا۔ وہ انہیں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا کرنا چاہتا تھا۔ وہ مسلمانوں کو باہم دست و گریبان دیکھنا چاہتا تھا ۔ اس کے لیے اسے چند افراد درکار تھے' جو اس کے ایجنٹ بن کر مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالیں' انہیں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کردیں اور ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کرکے ان کی قوت و شوکت کو کمزور کردیں ۔ اس مقصد کے لئے انگریز نے مختلف اشخاص کو منتخب کیا' جن میں مرزا غلام احمد قادیانی اور جناب بریلوی کے مخالفین کے مطابق احمد رضا خان بریلوی صاحب سر فہرست تھے ۔


    مرزا غلام احمد قادیانی کی سرگرمیاں تو کسی سے مخفی نہیں' مگر جہاں تک احمد رضا صاحب کا تعلق ہے' ان کا معاملہ ذرا محتاج وضاحت ہے۔ جناب احمد رضا بریلوی صاحب نے استعمار کے مخالفین وہابی حضرات کو سب و شتم اور طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا۔ ان وہابیوں کو ' جو انگریز کے خلاف محاذ آراء تھے اور ان کے خلاف جہاد میں مصروف تھے' انگریز کی طرف سے ان کی بستیوں پر بلڈوزر چلائے گئے۔ صرف بنگال میں ایک لاکھ وہابی علماء کو پھانسی کی سزا دی گئی۔


    انگریز مصنف ہنٹر نے اعتراف حقیقت کرتے ہوئے اپنی کتاب میں کہا ہے


    "ہمیں اپنے اقتدار کے سلسلے میں مسلمان قوم کے کسی گروہ سے خطرہ نہیں ۔ اگر خطرہ ہے تو صرف مسلمانوں کے ایک اقلیتی گروہ وہابیوں سے ہے۔ کیونکہ صرف وہی ہمارے خلاف جدوجہد میں مصروف ہیں


    جنگ آزادی 1857ء کے بعد وہابیوں کے تمام اکابرین کو پھانسی کی سزا دی گئی۔


    1863ء کا عرصہ ان کے لیے نہایت دشوار تھا۔ اس عرصے میں انگریز کی طرف سے ان پر جو مظالم ڈھائے گئے' ہندوستان کی تاریخ اس کی گواہ ہے۔


    وہابی علماء میں سے جن کو قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار ہونا پڑا' ان میں مولانا جعفر تھانیسری' مولانا عبدالرحیم' مولانا عبد الغفار' مولانا یحیی علی صادق پوری' مولانا احمد اللہ اور شیخ الکل مولانا نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہم سر فہرست ہیں۔


    وہابی مجاہدین کی جائیدادیں ضبط کرنے کا حکم جاری کردیا گیا۔


    وہابیوں کے مکانوں کو مسمار کردیا گیا اور ان کے خاندانوں کی قبروں تک کو اکھیڑ دیا گیا۔ ان کی بلڈنگوں پر بلڈوزر چلادیے گئے۔ وہابی علماء کو گرفتار کرکے انہیں مختلف سزائیں دی گئیں۔ اس ضمن میں شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی گرفتاری کا واقعہ بہت مشہور ہے۔


    ان وہابیوں کے خلاف زبان استعمال کرنے کے لیے اور "فرق تسد" یعنی "لڑاؤ اور حکومت کرو" کی مشہور انگریزی پالیسی کو کامیاب کرنے کے لیے استعمار نے جناب احمد رضا صاحب کو استعمال کیا' تاکہ وہ مسلمانوں میں افتراق وانتشار کا بیج بو کر ان کے اتحاد کو ہمیشہ کے لیے پارہ پارہ کردیں۔


    اور عین اس وقت جب کہ انگریز کے مخالفین ان کی حکومت سے نبرد آزما تھے اور جہاد میں مصروف تھے' جناب احمد رضا نے ان جملہ مسلم راہنمایان کا نام لے کر ان کی تکفیر کی' جنہوں نے آزادی کی تحریک کے کسی شعبے میں بھی حصہ لیا۔


    وہ جماعتیں جنہوں نے تحریک آزادی ء ہند میں حصہ لیا' ان میں وہابی تحریک کے علاوہ جمیعت علمائے ہند' مجلس احرار' تحریک خلافت' مسلم لیگ' نیلی پوش مسلمانوں میں سے اور آزاد ہند فوج خاص ہندوؤں میں سے اور گاندھی کی کانگرس قابل ذکر ہیں۔


    جناب بریلوی آزادیء ہند کی ان تمام تحریکوں سے نہ صرف لاتعلق رہے' بلکہ ان تمام جماعتوں اور ان کے اکابرین کی تکفیر و تفسیق کی۔ ان کے خلاف سب وشتم میں مصروف رہے اور ان میں شمولیت کو حرام قرار دیا۔


    جناب احمد رضا تحریک خلافت کے دوران ہی وفات پاگئے' ان کے بعد ان کے جانشیوں نے ان کے مشن کو جاری رکھا اور وہابیوں کے علاوہ مسلم لیگ کی شدید مخالفت کی اور لیگی زعماء کے کافر و مرتد ہونے کے فتوی جاری کیے اور اس طرح انہوں نے بالواسطہ طور پرانگریزی استعمار کے ہاتھ مضبوط کیے۔ جناب احمد رضا کی سرپرستی میں بریلوی زعماء نے مسلمانوں کو ان تحریکوں سے دور رہنے کی تلقین کی اور جہاد کی سخت مخالفت کی ۔ چونکہ شرعاً جہاد آزادی کا دارومدار ہندوستان کے دارالحرب ہونے پر تھا اور اکابرین ملت اسلامیہ ہندوستان کو دارالحرب قرار دے چکے تھے' احمد رضا خاں صاحب نے اس بنا پر جہاد کو منہدم کرنے کے لیے یہ فتوی دیا کہ ہندوستان دارالاسلام ہے۔ اور اس کے لیے بیس صفحات پر مشتمل ایک رسالہ [اعلام بان ھندوستان دارالاسلام] یعنی"اکابرین کو ہندوستان کے دارالاسلام ہونے سے آگاہ کرنا" تحریر کیا۔


    جناب احمد رضا خاں صاحب نے اس رسالے کے شروع میں جس چیز پر زور دیا' وہ یہ تھا کہ وہابی کافر مرتد ہیں۔ انبہیں جزیہ لے کر بھی معاف کرنا جائز نہیں۔ اسی طرح نہ انہیں پناہ دینا جائز' نہ ان سے نکاح کرنا' نہ ان کا ذبیحہ جائز' نہ ان کی نماز جنازہ جائز' نہ ان سے میل جول رکھنا جائز' نہ ان سے لین دین جائز' بلکہ ان کی عورتوں کو غلام بنایا جائے اور ان کے خلاف سوشل بائیکاٹ کیا جائے ۔اور آخر میں لکھتے ہیں


    ( قاتلھم اللہ انّی یوفکون ) یعنی "خدا انہیں غارت کرے وہ کہاں بھٹکے پھرتے ہیں۔


    یہ رسالہ جناب احمد رضا کی اصلیت کو بے نقاب کرنے کے لئے کافی ہے ۔ اس سے ان کے مکروہ عزائم کھل کر سامنے آجاتے ہیں کہ وہ کس طرح مجاہدین کی مخالفت کرکے انگریز استعمار کی حمایت و تائید کررہے تھے۔ اور مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر دشمنان دین و ملت کا دست بازو بن چکے تھے۔


    جس وقت دنیا بھر کے مسلمان ترکی سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے پر انگریزوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کررہے تھے اور مولانا محمد علی جو ہر رحمہ اللہ اور دوسرے اکابرین کی زیر قیادت خلافت اسلامیہ کے تحفظ و بقاء کے لیے انگریزوں سے جنگ لڑرہے تھے' عین اس وقت جناب احمد رضا انگریزوں کے مفاد میں جانے والی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔


    بلاشبہ تحریک خلافت' انگریزوں کو ان کی بدعہدی پر سزا دینے کے لیے نہایت موثر ثابت ہورہی تھی ۔ تمام مسلمان ایک پرچم تلے جمع ہوچکے تھے ۔ علماء و عوام اس تحریک کی حمایت کررہے تھے ۔ خود ایک بریلوی مصنف اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتا ہے


    "1918ء میں جنگ عظیم ختم ہوئی' جرمنی اور اس کے ساتھیوں ترکی آسٹریا وغیرہ کو شکست ہوئی' ترکوں سے آزادیء ہند کے متعلق ایک معاہدہ طے پایا۔ لیکن انگریزوں نے بدعہدی اور وعدہ خلافی کی' جس سے مسلمانوں کو سخت دھچکا لگا۔ چنانچہ وہ بپھر گئے اور ان کے خلاف ہوگئے۔ اہل سیاست اس فکر میں تھے کہ کسی ترکیب سے انگریزوں کو وعدہ خلافی کی سزا دی جائے۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کو یہ باور کرایا کہ خلافت اسلامیہ کا تحفظ فرائض و واجبات میں سے ہے۔ بس پھر کیا تھا ایک طوفان کھڑا ہوگیا۔


    اور حقیقتاً تحریک خلافت انگریزوں کے خلاف ایک موثر ہتھیار ثابت ہورہی تھی ۔ مسلمان انگریزوں کے خلاف متحد ہوچکے تھے۔ قریب تھا کہ یہ تحریک انگریزی سلطنت کے خاتمہ کا باعث بن جاتی۔ اس امر کی وضاحت اہل حدیث جید عالم دین امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ نے بھی فرمائی ہے۔


    مگر بریلوی مکتب فکر کے امام و مجدد نے انگریزوں کے خلاف چلنے والی اس تحریک کے اثرات و نتائج کو بھانپتے ہوئے انگریزوں سے دوستی کا ثبوت دیا اور تحریک خلافت کو نقصان پہنچانے کے لیے ایک دوسرا رسالہ "دوام العیش" کے نام سے تالیف کیا' جس میں انہوں نے واضح کیا کہ چونکہ خلافت شرعیہ کے لیے قریشی ہونا ضروری ہے' اس لیے ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ترکوں کی حمایت ضروری نہیں' کیونکہ وہ قریشی نہیں ہیں۔ اس بنا پر انہوں نے انگریزوں کے خلاف چلائی جانے والی اس تحریک کی بھرپور مخالفت کی اور انگریزی استعمار کی مضبوطی کا باعث بنے۔


    احمد رضاخاں صاحب تحریک خلافت کے مسلم زعماء کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے رقمطراز ہیں


    "ترکوں کی حمایت تو محض دھوکے کی ٹٹی ہے ۔ اصل مقصود یہ ہے کہ خلافت کا نام لو ۔ عوام بپھریں' خوب چندہ ملے اور گنگا و جمنا کی مقدس سر زمینیں آزاد ہوں۔"


    جناب احمد رضا نے تحریک ترک موالات کی بھی شدید مخالفت کی۔ کیونکہ انہیں خطرہ تھا کہ یہ تحریک انگریز کے زوال کا باعث بن سکتی ہے۔


    تحریک ترک موالات کا مقصود یہ تھا کہ انگریزوں کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔ انہیں ٹیکس وغیرہ کی ادائیگی نہ کی جائے' اس کے تحت چلنے والے سرکاری محکموں میں منلازمت نہ کی جائے، غرضیکہ ان کی حکومت کو یکسر مسترد کردیا جائے' تاکہ وہ مجبور ہوکر ہندوستان کی سرزمین سے نکل جائیں۔ اس مقصد کے لیے تمام مسلمانوں نے 1920ء میں متحد ہوکر جدوجہد شروع کردی۔ جس سے انگریز حکومت کے خلاف ایک فتنہ کھڑا ہوگیا اور وہ متزلزل ہونے لگی۔ اس تحریک کو گاندھی کے علاوہ جناب احمد رضا نے بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی ۔ اور ایک رسالہ تحریر کرکے اس کی سختی سے ممانعت کی اور اس تحریک کے سرکردہ راہنماؤں کے خلاف کفر کے فتوے صادر کیے۔


    چنانچہ وہ اس مقصد کے لیے تحریر کئے گئے رسالے (والمحجتہ الموتمنہ فی آیۃ الممتحنۃ) میں اعتراف کرتے ہیں ۔


    "اس تحریک کا ہدف انگریز سے آزادی کا حصول ہے"۔


    نیز اس رسالے میں جہاد کی مخالفت کرتے ہوئے ارشاد کرتے ہیں


    "ہم مسلمانان ہند پر جہاد فرض نہیں ہے۔ اور جو اس کی فرضیت کا قائل ہے' وہ مسلمانوں کا مخالف ہے اور انہیں نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔


    نیز لکھتے ہیں


    حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے جہاد سے استدلال کرنا جائز نہیں' کیونکہ ان پر جنگ مسلط کی گئی تھی ۔ اور حاکم وقت پر اس وقت تک جہاد فرض نہیں' جب تک اس میں کفار کے مقابلے کی طاقت نہ ہو۔ چنانچہ ہم پرجہاد کیسے فرض ہوسکتا ہے' کیونکہ ہم انگریز کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔"


    مسلمانوں کو جہاد و قتال' نیز انگریز سے محاذ آرائی سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہوئے لکھتے ہیں


    اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے


    [ یا ایھا الذین اٰمنوا علیکم انفسکم لا یضرکم من ضل اذا ھتدیتم ]


    یعنی"اے ایماندارو' تم اپنے آپ کے ذمہ دار ہو۔ کسی دوسری شخص کا گمراہ ہونا تمہارے لیے نقصان دہ نہیں ہوسکتا' بشرطیکہ تم خود ہدایت پر گامزن ہو۔


    یعنی ہر مسلمان انفرادی طور پر اپنی اصلاح کرے' اجتماعی جدوجہد کی کوئی ضرورت نہیں


    اور اپنے رسالہ کے آخر میں ان تمام راہنماؤں پر کفر کا فتوی لگایا ہے ' جو انگریزی استعمار کے مخالف اور تحریک ترک موالات کے حامی تھے۔


    جناب احمد رضا نے جہاد کے منہدم کرنے کا فتوی اپنے رسالے "دوام العیش" میں بھی دیا ہے۔ لکھتے ہیں


    "مسلمانان ہند پر حکم جہاد و قتال نہیں


    بہرحال احمد رضا صاحب کے متعلق مشہور ہوگیا تھا کہ وہ استعمار کے ایجنٹ ہیں۔ اور ہر اس تحریک کے مخالف ہیں' جو انگریزوں کے خلاف چلائی جاتی ہے۔


    بریلوی اعلٰی حضرت کے ایک پیروکار لکھتے ہیں


    "مسلمان احمد رضا سے بد ظن ہوگئے تھے۔"


    ایک اور مصنف لکھتا ہیں


    "مسئلہ خلافت سے ان کو اختلاف تھا۔ انتقال کے قریب ان کے خلاف مسلمانوں میں بہت چرچا ہوگیا تھا اور ان کے مرید اور معتقد اختلاف خلافت کے سبب ان سے برگشتہ ہوگئے تھے۔


    بہرحال عین اس وقت' جب کہ مسلمانوں کو متحد ہو کر انگریزی استعمار کے خلاف جدوجہد کرنے کی ضرورت تھی' جناب احمد رضا خاں صاحب انگریزوں کے مفاد کے لیے کام کررہے تھے ۔


    اگر یہ نہ بھی کہا جائے کہ احمد رضا خاں صاحب انگریز کے ایجنٹ تھے' تب بھی یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان کی تمام تر سرگرمیاں مسلمانوں کے خلاف اور انگریز کے مفاد میں تھیں ۔ کیونکہ انہوں نے مجاہدین کی تو مخالفت کی' مگر انگریز کے حامی و موید رہے۔


    مشترق فرانسس رابنس نے جناب احمد رضا صاحب کے متعلق لکھا ہے


    "احمد رضا بریلوی انگریزی حکومت کے حامی رہے ۔انہوں نے پہلی جنگ عظیم میں بھی انگریزی حکومت کی حمایت کی ۔ اسی طرح وہ تحریک خلافت میں 1921ء میں وہ انگریز کے حامی تھے ۔ نیز انہوں نے بریلی میں ان علماء کی کانفرنس بھی بلائی' جو تحریک ترک موالات کے مخالف تھے۔

    یہ تھے جناب احمد رضا اور ان کی سر گرمیاں














  • #2
    Re: بانی بریلویت کی جہاد مخالفت اور انگریز سے وفاداری

    Originally posted by miski View Post
    ''علامہ ''وحید الزمان

    مولانا محمد عاطف معاویہ حفظہ اللہ

    اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مقدس میں کس قدر ابدی حقیقتوں کو بیان فرمایا ہے کہ باطل چلا گیا ہے اور باطل جانے ہی والا ہے۔

    146146 جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا 145145

    (الاسراء:81)

    باطل کی وقتی کرّ وفرّ ،وضع داری اوراچھل کود بظاہر بھلی معلوم ہوتی ہے ، لیکن کچھ عرصہ کے بعد ان کی تمام مساعی اکارت جاتی ہیں اور وہ تاریخ کے کباڑ خانے کا حصہ بن جاتے ہیں ۔غیر تو غیر خود ان کے خوشہ چین بھی پھر نقطہ چینی پر اتر آتے ہیں اور اس سے بڑی نا کامی کیا ہوگی کہ خود اپنے گھر کو اپنے ہی گھر کے چراغ سے آگ لگ جائے۔۔۔ ایسے واقعات سے تاریخ کا سینہ اٹا پڑا ہے لیکن سر دست میں جماعت اہلحدیث کے ان کرم فرماؤں کا ذکر کروں گاجن کا اوڑھنا بچھونا مسلکِ اہلِ حدیث کی خدمت تھا ۔مگر جوں ہی زمانہ شباب کو عالم پیری کا سامنا ہوا تو قافلہ اہل حدیث اپنی الحادی تیز روی کو باعث اور خرام رو رہنماوں کو ساتھ لے کر نہ چل سکا اور ان کی جھریوں بھرے چہرے پر تحقیق کا تھپڑ مار کر آگے گزر گئے۔ جو کل تک مسلکِ اہلِ حدیث کے لئے رفعتِ افلاک تھے اب ذرہ خاک بنے طاق نسیاں میں رکھے ہوئے اہل حدیثوں کی اس طوطا چشمی پر نوحہ کناں ہیں اور ہونا بھی چاہیےکہ باطل کی نسل نہیں چلتی۔ ان کے اخلاف اپنے اسلاف کی پگڑیا ں اچھالتے ہیں۔ جو اہل حدیث اس وقت زیر زمین ہیں وہ ''ڈیٹ ایکسپائر'' ہونے کے باعث مع اپنی تحاریر وتقاریر کے مسلک اہل حدیث کے نزدیک متروک،مجہول اورمردود ٹھہرےاور جو اس وقت سطح زمین پر گل کھلانے میں مصروف ہیں عنقریب ان کی تگ وتاز ان کی خدمات اور مساعی غیر جمیلہ بھی اپنے سابقہ پیش آوروں کی طرح انکے ساتھ ہی دفن ہو جائیں گی۔قرآن نے سچ کہا ہے

    146146 إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا 145145

    انہی ڈیٹ ایکسپائر لوگوں میں سے ایک ''علامہ'' وحید الزما ن بھی ہے۔جس نے زندگی میں مسلک غیر مقلدیت کی خدمت کی اور آج کے غیر مقلدین اسی ''علامہ'' کے اردو تراجم حدیث پڑھتے ہیں، لیکن جب اس کی قلم سے نکلنے والے تلخ حقائق عوام کے سامنے لائے جاتے ہیں تو غیرمقلدین کہتے ہیں :''یہ ہمارا نہیں، اس کی کتابوں کو آگ لگا دو!'' وغیرہ۔ حالانکہ'' علامہ ''صاحب پکے غیر مقلد تھے ،ان کے فقہی مسائل غیر مقلدین والے ہیں۔

    چند مسائل درج ذیل ہیں ۔

    مسئلہ نمبر1: اما تقلید مجتھد معین فی جمیع المسائل والتزامہ بدعۃ مذمومۃ ۔

    (نزل الابرارص:۷)

    ترجمہ: تمام مسائل میں ایک معین مجتہد کی تقلید کا التزام کرنا بدعت ہے۔

    اور موجودہ دور کے مشہور غیر مقلد ارشاد الحق اثری لکھتے ہیں:کلام ہے تو تقلید شخصی میں ہے جو یقینا بدعت ہے اور جسے ہم برملا بدعت کہتے ہیں ۔

    (مقالات اثری ج:۱ ص:۲۲۱ )

    مسئلہ نمبر 2: ہر قسم کی جرابوں پر مسح جا ئز ہے ۔

    (نزل الابرارص:۳۹ )

    اور موجودہ دور کےغیر مقلدین کا نظریہ بھی یہی ہے کہ جرابوں پر مسح جائز ہے خواہ موٹی ہو ں یا باریک خواہ پھٹی پرانی ہی کیوں نہ ہوں۔

    (فتاویٰ اصحاب الحدیث ج:۱ ص: ۶۷)

    مسئلہ نمبر 3: یجوز المسح علی العمامۃ ۔

    (نزل الابرارص:۴۱ ، کنزالحقائق ص:۱۱)

    ترجمہ: پگڑی پر مسح جائز ہے۔

    اور مولوی یونس غیر مقلد لکھتا ہے: عمامہ پر مسح کرنا جائز ہے

    (دستورالمنتقیٰ ص:۵۹ ، نماز نبوی ص۷۷ )

    مسئلہ نمبر 4 :وحید الزمان کے نزدیک وضو کے شروع میں تسمیہ ضروری ہے ۔

    (کنز الحقائق ص:۱۱)

    یہی بات ڈاکٹر شفیق الرحمن نے لکھی ہے:وضو کے شروع میں بسم اللہ ضرور پڑھنی چاہیے۔

    (نماز نبوی ۶۷)

    مسئلہ نمبر 5:مس ذکر ناقص وضو ء ہے

    (کنز الحقائق ص؛۱۲)

    موجودہ دور کے غیر مقلدین کا نظریہ:ذکر اور فرج کو یا تھ لگانے سے ،اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔

    ( دستورالمنتقیٰ ص؛۶۳ ، نماز نبوی ص:۷۸ )

    مسئلہ نمبر 6:نماز میں قہقہہ نا قض وضوء نہیں ۔

    (کنزالحقائق ص:12)

    موجودہ دور کے غیر مقلدین کا نظریہ:نماز میں کھکھلا کر ہنسنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے لیکن صحیح حدیثوں کے بموجب وضو ء کا ٹوٹنا ثابت نہیں ہوتا ۔

    (دستور المتقی ص:۶۳ )

    مسئلہ نمبر7: تحیتہ المسجد ضروری ہے ۔

    (نزل الابرار ص۱۱۸ )

    مبشر ربانی غیر مقلد لکھتے ہیں:جب بھی کوئی آدمی مسجد میں داخل ہو تو اسے دو رکعتیں پڑھے بغیر بیٹھنا نہیں چاہیے ۔

    (آپ کے مسائل اوران کا حل ج:۲ ص: ۲۱۹)

    مسئلہ نمبر8:وتر کم از کم ایک رکعت ہے

    ( نز ل الابرار ص:۱۲۲ )

    موجودہ دور کے غیر مقلدین کا نظریہ:وتر کم از کم ایک رکعت مشروع ہے ۔

    (رسول اکرم کا صحیح طریقہ نماز ص:۵۷۳ )

    مسئلہ نمبر 9:تین رکعات وتر دو تشہد اور ایک سلام سے پڑھنا ممنوع ہے ۔

    (نزل الابرار ص:۱۲۲،۱۲۳)

    مولوی محمد علی جانباز تین رکعت وتر پڑھنے کا طریقہ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:''اکٹھے پڑھے، درمیان میں التحیات کے لیے نہ بیٹھے بلکہ آخرمیں التحیات پڑھ کر سلام پھیر دے۔

    (صلوۃ المصطفی ص311)

    مسئلہ نم بر10:وتر میں قنوت 146146اللھم اھدنی فیمن ھدیت 145145رکوع کے بعد ہاتھ اٹھا کر بلند آواز سے پڑھنی چاہیے ۔

    (نزل الابرارص:۱۲۳)

    اور غیر مقلدین بھی وتر میں قنوت146146اللھم اھدنی 145145رکوع کے بعد ہاتھ اٹھا کر پڑھتے ہیں۔

    (صلوۃ المصطفی ص316)

    مسئلہ نمبر11: نماز تراویح کی آٹھ رکعتیں پڑھنا راجح ہے ۔

    (نزل الابرارص:۱۲۶)

    مبشر ربانی غیر مقلد لکھتے ہیں:آپ ﷺ کی سنت نماز تراویح میں آٹھ رکعات ہے ۔

    (آپ کے مسائل اور ان کا حل ج:۱ ص:۳۰۴)

    مسئلہ نمبر12:نماز تہجد اور تراویح ایک ہیں ۔

    (نزل الابرارص:۱۲۶ ،۱۲۷)

    غیر مقلد ین: ماہ رمضان میں تہجد اور قیام رمضان الگ الگ نہیں ،بلکہ ایک ہی نماز ہے

    (نماز نبوی ص:۲۴۱ ،آپ کے مسائل اور ان کا حل ج:۱ ص:۳۰۲ )

    مسئلہ نمبر13:فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھنا افضل ہے ۔

    (نز ل الابرار ص:۱۳۰ )

    موجودہ دور کے غیر مقلدین :فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھنا مناسب ہے ۔

    (دستورالمنتقی ص:۶۶،صلوۃ الرسول ص؛۱۱۳)

    مسئلہ نمبر14:146146ولا یجوز لہ الشروع فی ای صلوۃ اذا اقیمت الصلوۃ المکتوبۃ ولا فرقہ بین رکعتی الفجر وغیرھا فی ھذالحکم ولا بین ان یودیھا فی المسجد ام خارجہ عند بابہ وقول الاحناف انہ یصلی رکعتی الفجر عند با ب ا لمسجد مردود بنص الحدیث 145145

    (نزل لابرارص؛۱۳۲،۱۳۳)

    کہ جب صبح کی نماز کھڑی ہو جائے تو سنتیں ادا کرنا درست نہیں ۔

    موجودہ دور کے غیر مقلدین :اگر نماز ایسے وقت میں پہنچیں کہ جماعت کھڑی ہو گئی ہواور سنتیں آپ نے نہ پڑھی ہو ں تو پھر جماعت کے پاس سنتیں مت پڑھنی شروع کردیں کیو نکہ جماعت کے ہوتے ہوئے پاس کو ئی نماز نہیں ہوتی ۔

    (صلوۃ الرسول ص:۲۸۵ ، نمازنبوی ص:۲۱۷ ، آپ کے مسائل اور ان کا حل ج:۱ ص:۲۰۰ )

    مسئلہ نمبر15:نماز میں قرآن کریم سے دیکھ کر تلاوت کرنا جائز ہے ۔

    (نز ل الابرار ص:۱۳۱ )

    مبشر ربانی غیر مقلد لکھتے ہیں:نماز میں قرآن مجید کو اٹھا کر قرآت کرنا جائز و درست ہے۔

    (آپ کے مسائل اوران کا حل ۱۳۱)

    مسئلہ نمبر16:نماز جمعہ شہر ،گاؤں اور جنگل میں بھی جائز ہے ۔

    (نز ل الابرارص:۱۵۲ )

    ڈاکٹر شفیق الرحمن لکھتاہے:گاؤں میں بھی جمعہ پڑھنا ضروری ہے

    (نماز نبوی ص:۲۵۰ )

    مسئلہ نمبر17:عیدین کی تکبیر یں بارہ 12 ہیں

    (نز ل الابرارص:۱۵۷ )

    ڈاکٹر شفیق الرحمن لکھتاہے:عیدین کی تکبیریں بارہ ہیں ۔

    (نماز نبوی ص:۲۶۳ )

    مسئلہ نمبر18:عیدین کی نماز کے لئے عورتوں کا عید گاہ کی طرف نکلنا مستحب ہے

    (نز ل الابرارص:۱۵۹ )

    غیر مقلدین:عیدین کے موقع پر شوکت اسلام کے اظہار کے لئے عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ مردوں کے ہمراہ میدان میں نماز عید ادا کریں۔

    (فتاویٰ اصحاب الحدیث ج:۱ ص:۴۱۴، صلوۃ الرسول ص:۳۳۳)

    مسئلہ نمبر19:غائبانہ نماز جنازہ درست ہے

    (نز ل الابرارص:۱۷۳ )

    غیر مقلدین:ہمارا رجحان جواز کی طرف ہے ۔

    (فتاویٰ اصحاب الحدیث ج:۱ ص:۱۶۴ ،حاشیہ نماز نبوی : ص؛۲۹۶ )

    مسئلہ نمبر20:میت اگر مرد ہو تو امام سر کے سامنے کھڑا ہوگا اور اگر عورت ہو تو اس کے درمیان کھڑا ہوگا ۔

    (نز ل الابرارص:۱۷۳ )

    یہی بات ڈاکٹر شفیق نے نماز نبوی ص:۲۹۲پر لکھی ہے ۔

    مسئلہ نمبر 21:نماز جنازہ میں فاتحہ کی قرات کی جائے

    (نز ل الابرارص:۱۷۳)

    غیر مقلدین:تکبیر اولیٰ کے بعد فاتحہ پڑھنا سنت ہے ۔

    (نماز نبوی ص:۲۹۳ ،دستورالمتقی ص:۱۸۰ ،آپ کے مسائل اور ان کا حل :۲۴۴)

    مسئلہ نمبر22:ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک کلمہ سے ہوں یا الگ الگ کلمات سے ایک واقع ہوتی ہے ۔

    (نز ل الابرارص:ج:۳ص:۸۴)

    اور غیر مقلدین کے فتاوی میں درج ہے:کتاب و سنت کی رو سے ایک مجلس میں سی ہوئے بیک وقت تین طلاقیں دینے سے ایک رجعی طلاق واقع ہوتی ہے ۔

    (فتاویٰ اصحاب الحدیث ج:۱ ص:۳۷۴،آپ کے مسائل اور ان کا حل ج:۱ ص:۳۷۷)

    مسئلہ نمبر23:جلسہ استراحت سنت ہے ۔

    (کنزالحقائق ص؛۲۰)

    مولوی یونس غیرمقلد ''سنت کے مطابق نماز پڑھنے کی کیفیت''کا عنوان قائم کرتا ہے اور اس میں جلسہ استراحت کرنے کا ذکر بھی کرتا ہے ۔

    (دستور المنتقی ص:۸۲ ، نماز نبوی ص:۱۹۰ )


    andhay muqalid jahan say yeh sara chapa hai wahan say 14 august wala baner to hata dena tha.

    Ha ha ha ha ha ha ha ha

    Comment

    Working...
    X