Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

علماء احناف بھی سنت ٨ رکعت تراویح کو ہی مانتے ہیں

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #16
    Re: علماء احناف بھی سنت ٨ رکعت تراویح کو ہی مانتے ہیں

    Originally posted by Faisal Sheikh View Post
    [ATTACH]103664[/ATTACH]

    ایک حنفی کو احادیث کے چکر میں پڑنا ہی نہیں چاہیے، قرآن اور احادیث سے دلائل لینا تو قرآن اور حدیث والوں کا کام ہے جسے قرآن اور حدیث سے مسلہ لینا ہو وہ اہل حدیث سے رجوع کرے اور جسے فقہ سے مسلہ لینا ہو فقہ سے رجوع کرے....ایک حنفی کے لئے تو قول امام ہی دلیل ہے (جو آج کل قول مسجد کا امام ہے کیونکہ مسجد کا امام جو کہتا ہے مان لیتے ہیں ان بیچاروں کو تو یہ بھی نہیں پتا کے امام ابو حنیفہ کے خاص شاگردوں امام محمد اور امام یوسف نے دو تہائی مسائل میں امام ابو حنیفہ کی مخالفت کی ہے بقول فقہ احناف کے ).. اگر کسی مسلے میں کوئی حدیث نا بھی ہو تو بھی ایک حنفی جو کے اگر پکا حنفی ہے تو اسے فقہ حنفی کی ہی کی تقلید کرنی چاہیے..پھر تو اسکا حنفی ہونا سچا ...مگر یہ کیا ایک طرف تو اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں پھر حدیث سے دلائل بھی لانے کی کرتے ہیں اور ظلم یہ کے ضعیف احادیث بھی پیش کرنے میں عار محسوس نہیں
    کرتے..کیوں کے فقہ کی ترجیح جو ثابت کرنی ہے




    Comment


    • #17
      Re: علماء احناف بھی سنت ٨ رکعت تراویح کو ہی مانتے ہیں

      Originally posted by Faisal Sheikh View Post
      [ATTACH]103664[/ATTACH]

      امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235)نے کہا:
      حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، قَالَ: «دَعَا عُمَرُ الْقُرَّاءَ فِي رَمَضَانَ، فَأَمَرَ أَسْرَعَهُمْ قِرَاءَةً أَنْ يَقْرَأَ ثَلَاثِينَ آيَةً، وَالْوَسَطَ خَمْسًا وَعِشْرِينَ آيَةً، وَالْبَطِيءَ عِشْرِينَ آيَةً»[مصنف ابن أبي شيبة: 2/ 162 رقم 7672 واسنادہ صحیح علی شرط الشیخین]۔
      ابوعثمان النہدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے رمضان میں قراء کو بلایا اور تیزرفتار میں قرات کرنے والے کو حکم دیا کہ ایک رکعت میں تیس آیات پڑھے اور متوسط رفتار میں قرات کرنے والے کو حکم دیا کہ وہ ایک رکعت میں پچیس آیات پڑھے اور سست رفتار میں قرات کرنے والے کو حکم دیا کہ وہ ایک رکعت میں بیس آیات پڑھے ۔

      یہ روایت بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح ہے اس صحیح روایت کے مطابق تینوں رفتار میں پڑھنے والے قراء اگر آٹھ رکعات تراویح پڑھیں گے تبھی رمضان میں صرف ایک بار قران ختم ہوگا نیز ر اختتام رمضان سے کچھ دن قبل ہی ختم ہوگا

      فصیل ملاحظہ ہو:

      تیزرفتار قاری کی قرات اور رکعات تراویح:
      عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے تیزرفتار قاری کو ایک رکعات میں تیس (٣٠) آیات پڑھنے کاحکم دیا چنانچہ اگریہ قاری آٹھ رکعات میں تیس تیس آیات پڑھے گا تو ایک دن میں کل ٢٤٠ آیات پڑھی جائیں گی اور تیس دن میں ٧٢٠٠ آیات پڑھی جائیں گی، اورآخری دنوں میں آیات بہت مختصرہوتی ہیں اس لئے ظاہر ہے ان دنوں میں مزید آیات پڑھی جائیں گی ، اور قران میں کل ٦٢٣٦ آیات ہیں ۔
      یعنی ہررکعت میں تیس آیات کی تلاوت کی جائے اوراسی طرح پورے ماہ تک آٹھ رکعات پڑھی جائے تو اس حساب سے رمضان میں کچھ دن قبل ایک بار قران ختم ہوجاتاہے

      متوسط رفتار قاری کی قرات اور رکعات تراویح:
      عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے متوسط رفتار قاری کو ایک رکعات میں پچیس (٢٥) آیات پڑھنے کاحکم دیا چنانچہ اگریہ قاری آٹھ رکعات میں پچیس پچیس آیات پڑھے گا تو ایک دن میں کل ٢٠٠ آیات پڑھی جائیں گی اور تیس دن میں ٦٠٠٠ آیات پڑھی جائیں گی،اورآخری دنوں میں آیات بہت مختصرہوتی ہیں اس لئے ظاہر ہے ان دنوں میں مزید آیات پڑھی جائیں گی، اور قران میں کل ٦٢٣٦ آیات ہیں ۔
      یعنی ہررکعت میں پچیس آیات کی تلاوت کی جائے اوراسی طرح پورے ماہ تک آٹھ رکعات پڑھی جائے تو اس حساب سے بھی رمضان میں کچھ دن قبل ایک بار قران ختم ہوجاتاہے

      سست رفتار قاری کی قرات اور رکعات تراویح:
      عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے سست رفتار قاری کو ایک رکعات میں بیس (٢٠) آیات پڑھنے کاحکم دیا چنانچہ اگریہ قاری آٹھ رکعات میں پچیس پچیس آیات پڑھے گا تو ایک دن میں کل ١٦٠ آیات پڑھی جائیں گی اور تیس دن میں ٤٨٠٠ آیات پڑھی جائیں گی،اورآخری دنوں میں آیات بہت مختصرہوتی ہیں اس لئے ظاہر ہے ان دونوں میں مزید آیات پڑھی جائیں گی، اور قران میں کل ٦٢٣٦ آیات ہیں ۔
      یعنی ہررکعت میں پچیس آیات کی تلاوت کی جائے اوراسی طرح پورے ماہ تک آٹھ رکعات پڑھی جائے تو اس حساب سے بھی رمضان میں کچھ دن قبل ایک بار قران ختم ہوجاتاہے



      Allah-o-Akbar Kabeera, Wal Hamdulillaah-e-Kaseera, Subhan Allah-e-Bukratan-wa-Aseela

      Comment


      • #18
        Re: علماء احناف بھی سنت ٨ رکعت تراویح کو ہی مانتے ہیں

        تمام مسلمانوں کو اسلام و علیکم

        رمضان المبارک قریب آتے ہی فرقہ اہل حدیث کی طرف سے آٹھ رکعت تراویح پڑهنے کی پرزور تبلیغ شروع ہوجاتی ہے مختلف پوسٹراور رسالے نمودارہونا شروع ہوجاتے ہیں ، احناف کوچیلنج بازی کا سلسلہ جاری ہوتا ہے ،حالانکہ تراویح کا مسئلہ علماء امت کے مابین کبهی اس طرح موضوع بحث نہیں رہا جس طرح فرقہ جدید اہل حدیث کے ظہور کے بعد بن گیا ، اورپهر معاملہ اس حد تک پہنچ گیا کہ یہ لوگ احناف کی ضد میں بیس رکعت تراویح کوخلاف سنت اور بدعت کہنے لگے ، اورکچھ جاہل لوگ تواس سے بڑھ کریہ کہنے لگے یہ بیس رکعت تراویح بدعت عُمری ہے .(.معاذالله.).،
        ۔ بہت ہی افسوس ہوتا ہے کہ امت مسلمہ میں یہ لوگ ایسے مسائل میں اختلاف کرنے لگے بلکہ اس اختلاف کو وہ دلوں میں نفرت اوراختلاف کا سبب بنانے لگے ہیں ، اور پهر بیس رکعت تراویح صرف احناف کا عمل نہیں ہے بلکہ عرب وعجم کے طول وعرض میں جمہورامت بیس رکعت تراویح کے ہی قائل وعامل ہیں ، اوراسی پر زمانہ قدیم سے تعامل ہے ، حاصل یہ کہ اس مسئلہ میں فرقہ جدید اہل حدیث کا مذہب یہ ہے کہ تراویح کی تعداد آٹھ رکعت ہے اوربیس رکعت بدعت وخلاف سنت ہے
        ۔

        ’’ رأي علماء أهل السنة في المسئلة ‘‘
        علماء اہل سنت. (.یعنی سلفی علماء .). کی رائے اس مسئلہ میں


        1. يقول الشيخ محمد عبد الوهاب رحمه الله:
        صلاة التراويح سنّة مؤكدة سنّها رسول اللّه صلى الله عليه وسلم ، وتنسب إلى عمر، لأنه جمع الناس على أبيّ بن كعب" والمختار عند أحمد: عشرون ركعة، وبه قال الشافعي. وقال مالك: ستة وثلاثون. ولنا أنّ عمر لما جمع الناس على أبيّ، كان يصلي بهم عشرين ركعة .
        كتاب مختصر الإنصاف والشرح الكبير للشيخ محمد عبد الوهاب ج 1 / ص 212
        وفي مجموعة الفتاوى النجدية أن الشيخ عبدالله بن محمد بن عبد الوهاب ذكر في جوابه عن عدد ركعات التروايح أن عمر – رضي الله عنه – لما جمع الناس على أبي بن كعب كانت صلاتهم عشرين ركعة .
        أصدرت وزارة الشئون الإسلامية والأوقاف والدعوة والإرشاد كتاباً من إعداد المكتب العلمي بالوزارة بعنوان :
        ’’ توجيهات في شأن صلاة التراويح ودعاء القنوت‘‘

        ورد في الصفحتين 20،21 الطبعة الثانية 1430ھ ، أن الشيخ محمد بن عبدالوهاب رحمه الله، سُئل عن عدد ركعات صلاة التراويح فأجاب : الذي أستحب أن تكون عشرين ركعة.
        الشيخ محمد عبد الوهاب فرماتے ہیں کہ
        صلاة التراويح سنت موکده ہے جس کو رسول اللّه صلى الله عليه وسلم نے مسنون فرمایا ، اورامام أحمد بن حنبل رحمہ الله کے نزدیک افضل ومختار بیس رکعت ہیں ، اوریہی امام شافعی رحمہ الله کا مذہب ہے ، اورامام مالک رحمہ الله کے نزدیک تراویح چهتیس رکعت ہیں ، اور ہماری دلیل .(.شيخ محمد بن عبدالوهاب.). یہ ہے کہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے لوگوں کو حضرب أبيّ بن کعب رضی الله عنہ کی امامت میں جمع کیا اور وه لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑهاتے تهے ۔
        اور یہی بات کتاب ’’ مجموعة الفتاوى النجدية‘‘ میں شيخ عبدالله بن محمد بن عبد الوهاب نے تراویح کی تعداد کے بارے سوال کے جواب میں لکها کہ


        حضرت عمر رضی الله عنہ نے لوگوں کو حضرب أبيّ بن کعب رضی الله عنہ کی امامت میں جمع کیا اور وه لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑهاتے تهے ۔
        اسی طرح وزارة الشئون الإسلامية سعودیہ نے ایک کتاب’’ توجيهات في شأن صلاة التراويح ودعاء القنوت‘‘ کے عنوان سے لکهی ہے ، اس کتاب کے صفحہ 20 اور 21 پر درج ہے کہ شیخ ابن عبدالوهاب سے صلاة التراويح کی رکعات کی تعداد کے بارے پوچها گیا تو شیخ نے جواب دیا کہ میرے نزدیک پسندید اورمستحب بیس رکعات تراویح ہے ۔

        یہ ہے سلفی اور وہابی مسلک کے امام کا مذهب تراویح کے بارے میں ، اب فرقہ جدید کے جہلاء عوام کے سامنے تو شیخ ابن عبدالوهاب کوشیخ الاسلام شیخ الموحدین غرض مختلف لمبے چوڑے القابات کے ذریعہ ان تعریف کرتے تهکتے نہیں ہیں ، لیکن بے چارے ناواقف عوام کوکیا پتہ کہ جب یہ لوگ احناف کی ضد میں عوام کوباور کراتے ہیں کہ بیس رکعت تراویح خلاف سنت اور بدعت ہے ، ساتھ ہی شیخ ابن عبدالوهاب پربهی بدعت وخلاف سنت کے ارتکاب بهی فتوی لگاتے ہیں ، کیونکہ شیخ کا مذهب بهی بیس رکعت تراویح هے ۔
        اب فرقہ جدید اہل حدیث کے اس فتوی سے شیخ ابن عبدالوهاب کو کون بچائے گا ؟؟
        اوریہاں ایک یہ نکتہ بهی ذہن نشین رکهیں کہ فرقہ جدید اہل حدیث کی اس اصول کی روشنی میں کہ .(.بیس رکعت تراویح خلاف سنت اور بدعت ہے.). شیخ ابن عبدالوهاب کا بدعت کا مرتکب ہونا بهی ثابت ہوگیا ، کیونکہ ان کا مذهب بهی یہی ہے کہ تراویح کی تعداد بیس ہے

        بیس رکعت تراویح کے بارے سلفی علماء کے بہت سارے فتاوی ہیں ، میں صرف ایک فتوی مزید ذکرکرتا ہوں ،
        فتوى

        سماحة الشيخ محمد بن إبراهيم آل الشيخ رحمه الله تعالى
        مفتي المملكة العربية السعودية رحمه الله
        بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
        من محمد بن إبراهيم إلى الأخ المكرم \ ع . ج . سلمه الله تعالى ، السلام عليكم ورحمة الله وبركاته ، وبعد : فقد وصلنا كتابك الذي تسأل فيه بما نصه :

        وبعد:

        فأفتونا جزاكم الله عنا أحسن الجزاء ، عن صلاة التراويح : كم عدد ركعاتها ؛ لأن المتبع لدينا كنا نصليها عشرين ركعة ، ولكن المرشدين اليمنيين ، من قبل فضيلة الشيخ عبد الملك بن إبراهيم آل الشيخ ، للقيام بالوعظ والإرشاد بهذه الجهة قرروا أن صلاة التراويح هي من الوتر إحدى عشرة ركعة فقط ، مستندين في ذلك بما جاء في الحديث المروي عن عائشة ء رضي الله عنها . حيث قالت : ’’ ما كان الرسول ء صلى الله عليه وسلم ء يزيد في رمضان ولا في غيره على إحدى عشرة ركعة ‘‘ .(..1.). إلخ .
        وحيث قد أشكل علينا الأمر ، ونظرا لقرب شهر رمضان ، المبارك فإنا نلتمس من سماحتكم إرشادنا إلى إيضاح عدد ركعات هذه الصلاة ، وتعميم الفتوى الصادرة من سماحتكم في هذا القبيل لكافة الهيئات الدينية ، مع التكرم بإعطائنا نسخة بهذه الفتوى لنكون جميعا على حقيقة من الأمر .
        الجواب :
        الحمد لله . ذهب أكثر أهل العلم كالإمام أحمد والشافعي وأبي حنيفة إلى أن صلاة التراويح عشرون ركعة ؛ لأن عمر رضي الله عنه لما جمع الناس على أبي بن كعب كان يصلي بهم عشرين ركعة ، وكان هذا بمحضر من الصحابة ، فيكون كالإجماع ، وعلى هذا عمل الناس اليوم الآن . فلا ينبغي الإنكار عليهم ، بل يتركون على ما هم عليه ؛ لأنه قد ينشأ من الإنكار عليهم وقوع الاختلاف والنزاع وتشكيك العوام في سلفهم ، ولا سيما في هذه المسألة ، التي هي من التطوع ، والأمر فيها واسع ، وزيادة التطوع أمر مرغوب فيه ، ولا سيما في رمضان ، لحديث : ’’ أن رجلا قال يا رسول الله أسألك مرافقتك في الجنة ؟ قال : فأعني على نفسك بكثرة السجود ‘‘ .(.2.). وإذا كان من عادة أهل بلد فعل صلاة التراويح على وجه آخر ، مما له أصل شرعي ، فلا وجه للإنكار عليهم أيضا . والمقصود من ذلك كله هوالبعد عن أسباب الشقاق والنزاع في أمر فيه سعة .

        وقد لاحظ الرسول ء صلى الله عليه وسلم ء هذا ، وترك أمرا عظيما ، مخافة ما يقع في قلوب الناس ، كما جاء في حديث عائشة : ’’ لولا حدثان قومك بالكفر ‘‘ .(.3.). الحديث ، وترجم البخاري في هذا المعنى فقال : ’ باب من ترك بعض الاختيار ، مخافة أن يقصر فهم بعض الناس عنه فيقعوا في أشد منه‘ وساق حديث عائشة : ’’ لولا حدثان قومك بالإسلام لنقضت الكعبة فجعلت لها بابين ‘‘ .(.3.).الحديث . وقال علي : ’’ حدثوا الناس بما يعرفون ، أتحبون أن يكذب الله ورسوله ‘‘ . وفي رواية : ’’ ودعوا ما ينكرون ‘‘ . وقال ابن مسعود رضي الله عنه .(.الخلاف شر .). وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه أجمعين .

        .(.1.). صحيح البخاري الجمعة
        .(.1096.).،سنن الترمذي الصلاة .(.439.).،سنن النسائي قيام الليل وتطوع النهار .(.1697.).،سنن أبو داود الصلاة .(.1341.).،مسند أحمد بن حنبل. (.6/73.).،موطأ مالك النداء للصلاة. (..265)
        .(.2.).صحيح مسلم الصلاة
        .(.489.).،سنن النسائي التطبيق .(.1138.).،سنن أبو داود الصلاة. (.1320.).

        .(.3.).صحيح البخاري الحج .(.1509.). ،صحيح مسلم الحج .(.1333.).
        یہ فتوی سعودی عرب کے بہت بڑے سلفی شيخ محمد بن إبراهيم آل الشيخ کا فتوی آپ نے ملاحظہ کیا ، شیخ سے تراویح کی تعداد کے بارے سوال ہوا تو شیخ نے جواب دیا کہ أكثر أهل العلم جیسے امام احمد امام شافعی امام ابوحنیفہ کا مذهب یہ ہے کہ تراویح کی تعداد بیس رکعات ہیں ، کیونکہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے جب لوگوں کو حضرب أبيّ بن کعب رضی الله عنہ کی امامت میں جمع کیا تو وه لوگوں کو تمام صحابہ کی موجودگی میں بیس رکعت تراویح پڑهاتے تهے ، لہذا ان کا یہ عمل اجماع کی طرح هے ، اورآج تک لوگوں کا اسی پرعمل هے الخ

        امام ابن_تیمیہ (حنبلی) رح اور مسئلہ_تراویح:


        امام ابن تيمية رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ بات تحقیقی طورپر ثابت ہے کہ حضرت أبي بن كعب رضی الله عنه لوگوں کو بیس رکعات تراویح اورتین رکعات وتر پڑهاتے تهے ، پس کثیرعلماء کرام کی رائے یہی ہے یہ سنت ہے کیونکہ حضرت عمر بن الخطاب رضي الله عنه نے حضرت أبي بن كعب رضی الله عنه کو مهاجرين وانصار صحابه کرام کے مابین امامت کے لیئے کهڑا کیا اورکسی نے بهی ان پرکوئ انکار نہیں کیا الخ

        فإنه قد ثبت أن أبي بن كعب كان يقوم بالناس عشرين ركعة في قيام رمضان ويوتر بثلاث . فرأى كثير من العلماء أن ذلك هو السنة ؛ لأنه أقامه بين المهاجرين والأنصار ولم ينكره منكر
        مجموع فتاوى ابن تيمية ، باب صلاة التطوع ٢٣/١١٢ و ١١٣، نزاع العلماء في مقدار قيام رمضان


        فرقہ جدید نام نہاد اہل_حدیث بیس رکعت تراویح کو "بدعت و ناجائز" کہتے ہیں، جو دراصل اپنے دوسرے وساوس کی طرح یہ وسوسہ بھی روافض (شیعہ) سے چرایا ہے.
        چناچہ جب رافضیوں (شیعہ) نے حضرت عمر (رضی الله عنہ) پر الزام لگایا کہ انہوں نے بیس رکعت تراویح کی جماعت قائم کر کی بدعت کا ارتکاب کا ہے، تو امام ابن_تیمیہ رح نے حضرت عمر (رض) کے دفاع میں یہ جواب دیا کہ:
        ترجمہ: اگر عمر (رض) کا بیس رکعت تراویح کو قائم کرنا قبیح اور منھی عنہ (جس سے روکا جانا چاہیے) ہوتا تو حضرت علی (رض) اس کو ختم کردیتے جب وہ کوفہ میں امیر المومنین تھے. بس جب ان کے دور میں بھی حضرت عمر(رض) کا یہ طریقہ جاری رہا تو "یہ اس عمل کے اچھا ہونے پر دلالت کرتا ہے" بلکہ حضرت علی (رض) سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا الله تعالیٰ حضرت عمر (رض) کی قبر کو روشن کرے جس طرح انہوں نے ہمارے لئے ہماری مسجد کو روشن کردیا.(اسد الغابہ:٤/١٨٣)
        ابو عبدالرحمٰن السلمی سے روایت ہے کہ سیدنا علی (رضی الله عنہ) نے رمضان میں قاریوں کو بلاکر ان میں سے ایک قاری کو حکم دیا کہ وہ انھیں بیس (٢٠) رکعت پرھاۓ (اور) وہ کہتے ہیں سیدنا علی انھیں وتر پڑھایا کرتے تھے.(السنن الکبریٰ البیہقی: ٢/٤٩٦)
        [مہاج السنّه: ٢/٢٢٤]



        امام محمد أنور شاه الكشميري الحنفي رحمه الله فرماتے ہیں کہ ائمہ اربعہ میں سے کوئی بهی بیس رکعات سے کم تراویح کا قائل نہیں ہے اور جمہور صحابه کرام کا عمل بهی اسی پر ہے الخ
        اورایک دوسرے مقام پر امام محمد أنور شاه الكشميري الحنفي رحمه الله نے فرمایا کہ حضرت فاروق الأعظم رضی الله عنه کا یہ فعل سنت ہے اوراسی بیس رکعات تراویح پر ہی عمل برقرار رہا ہے الخ

        وقال العلامة محمد أنور شاه الكشميري الحنفي رحمه الله ، لم يقل أحد من الأئمة الأربعة بأقل من عشرين ركعة فى التراويح وعليه جمهور الصحابة الخ
        أقول : إن سنة الخلفاء الراشدين أيضاً تكون سنة الشريعة لما في الأصول أن السنة سنة الخلفاء وسنته، وقد صح في الحديث :عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين‘‘ فيكون فعل الفاروق الأعظم أيضاً سنة... واستقر الأمر على عشرين ركعة. اھ۔
        العَرف الشذي شرح سنن الترمذي جلد 2 صفحہ 208




        Attached Files

        Comment

        Working...
        X