فتنہ انکار حدیث
" یاد رکھو مجھے الکتاب قرآن اور اس کے ساتھ اس جیسی ایک اور چيز یعنی (حدیث) دی گئی ہے-" (ابو داؤد)
یہ فتنہ آج کا نہیں بلکہ یہ بہت پرانا فتنہ ہے اور آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جن لوگوں نے احادیث کی مخالفت میں مختلف آراء پیش کیں کسی نے کہا:
جو حدیث قرآن کے خلاف ہوگی وہ قبول نہیں کی جائے گی کسی نے کہا حدیث خبر واحد نہیں ہوگی کسی نے کہا جو حدیث امام کے قول کے خلاف ہوگی وا رد کی جائے گی- کسی نے ابو ہریرہ، انس بن مالک، سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ یہ راوی غیر فقیہ ہیں لہذا ان کی روایت کردہ احادیث مسترد ہونگی-
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی ایسے صحابی ہیں جن کی بیان کردہ اکثر احادیث فقہ کے مسائل کے خلاف ہیں اس لیے ان احادیث سے جان چھڑانے کی یہی واحد صورت رہ گئی تھی کہ ان کو ہی غیر فقیہ کہ دیا جائے- اس طرح حدیث کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کیا جاتا رہا جن لوگوں نے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب صحیح بخاری کا نور بصیرت سے مطالعہ کیا ان پر یہ بات مخفی نہیں کہ جب امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے یہ کتاب لکھنے کا ارادہ کیا تو یہ دونوں سول ان کے ذھن میں موجود تھے کیونکہ فتنہ انکار حدیث صرف بیسویں صدی کا فتنہ نہیں- انکار حدیث کی نوعیت اور دلائل میں فرق ہوسکتا ہے اور ہے مگر معص حلقوں کی طرف سے حدیث پر نطر کرم امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ سے پہلے ہی موجود تھی اس لیے دیگر فقہاء و محدثين کے بر عکس امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے سب سے پہلے اس بات کا تعین کیا کہ حدیث کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ بھی دین کا حصہ ہے؟ اور کیا اس کے انکار سے دین کا انکار لازم آتا ہےیا کہ محض تاریخ ہے؟ اگر یہ محض تاریخ ہے تو پھر اس کیلیے قریہ قریہ اور شہر شہر پھرنے اور حمع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
اگر یہ دین نہیں ہے تو ایسی خدمت سر انجام دینے کا کیا فائدہ جس کا دین اسلام سے کوئی فائدہ نہیں ہے- لہذا صحیح بخاری میں احادیث جمع کرنے سے قبل امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے یہ ضروری سمجھا کہ پہلے یہ واضح کردیا جائے کہ حدیث وحی کا حصہ ہے اور اصولی طور پر حدیث کو وحی نہ ماننا کفر ہے- امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے کتاب الوحی وحی کا بیان اس کے بعد باب باندھا ہے "کیف کان بداءالوحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم "- اس باب میں بداء کے معنی وحی اور وحی کی معنی دین ہے لہذا اس باب کے معنی یہ ہے کہ " دین کی وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیسے نازل ہوئی تھی"-
اس باب کے بعد امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے بتایا ایک وحی دین وہ تھی جو بصورت قرآن نازل ہوتی تھی- نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ وحی مجھ پر ایسے آتی ہے جیسے گھنٹے کی جھنکار ہوتی ہے اور یہ وحی مجھ پر بہت گراں ہمتی ہے اور فرشتے نے جو کہا ہوتا ہے مجھے یاد ہوچکا ہوتا ہے- عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب وحی نازل ہوتی تو شدید سردی میں بھی جب فرشتہ واپس جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پر پسینے کے قطرات ہوتے تھے- وحی کی یہ صورت قرآن کے نزول کی ہے یعنی وہ وحی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بصورت کتاب نازل ہوئی جسے قرآن مجید کہا جاتا ہے- اب دیکھنا یہ ہے کہ اس قرآن کی صورت میں جو وحی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتی تھی اور کیا اس وحی کا انکار کفر ہے کہ نہیں-
امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قرآن کے علاوہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی دین نازل ہوتی تھی اور اس کا کنکار کفر ہے کیونکہ قرآن میں اللہ تعلی نے فرمایا ہے:
اے پیغمبر! ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح ہم نے نوح اور اس کے بعد نبیوں پر بھیجی اور جس طرح ابراہیم، اسماعیل، اسحق، یعقوب اور اولاد یعقوب علیہ السلام پر بھیجی اور عیسی، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان علیہ السلام پر بھیجی اور ہم نے داؤد علیہ السلام کو زبور دی- (النساء)
اسی آیت میں انبیاء کا نام لے کر بتایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر دین کی وحی اسی طرح نازل ہوئی جیسے ان انبیاء سابقہ پر نازل ہوئی- ان انبیاء میں کئی نبی ایسے بھی ہیں جن کو کوئی کتاب نہیں ملی جب کہ وہ دین کے داعی تھے رسول تھے اور اس غیر کتابی وحی دین کا قوم نے انکار تو پوری قوم کافر ہوگئی نوح علیہ اسلام نے کہا:
(( رب لا تذر علی الارض من الکافرین دیارا))
میرے رب زمین پر کافروں کا ایک گھر بھی باقی نہ چھوڑ- (سورۃ نوح)
یہ لوگ جن کو نوح علیہ السلام نے کافر کہا اور ان کی تباہی و بربادی کے لیے اپنے رب سے دعا کی کون لوگ تھے؟ وہی جنہوں نے نوح علیہ السلام پر غیر کتابی وحی کے نزول کا انکار کیا اور اللہ عزوجل نے فرمایا اے پیغمبر ہم نے تم پر اسی طرح وحی نازل کی جس طرح نوح علیہ السلام پر ناول کی اس سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر غیر کتابی وحی دین بھی نازل ہوتی تھی اور اس کا انکار اسی طرح کفر ہے جس طرح قوم نوح نے کفر کیا یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی غیر کتابی وحی نازل ہوتی تھی-
یہ بات ثابت ہے کہ موسی علیہ السلام کو تورات اس وقت ملی جب آپ اسرائیل کو فرعون مصر سے نجات دلا کر دریائے نیل عبور کرچکے تھے-
"اور ہم نے پہلی امتوں کے ہلاک کرنے کے بعد موسی کو کتاب دی جو لوگوں کے لیے بصیرت اور ہدایت اور رحمت ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں"- ( سورۃ قصص: 43)
اور فرعون کافر اسی وقت ہی قرار دیا گیا جب ابھی تورات نازل نہیں ہوئی تھی- فرعون اسے لیے کافر قرار پایا کہ اس نے موسی علیہ السلام پر جو غیر کتابی وحی نازل ہوتی تھی اسکا انکار کیا تھا- اس نے توریت کا کنکار نہیں کیا تھا کہ تورات تو اس کے غرق آب ہونے کے بہت بعد ملی- موسی اس وقت نبی نہیں تھے جب انہیں کوہ طور پر اللہ سے ہم کلام ہونے کا شرف ملا اس وقت نبی تھے جب فرعون کے پاس گئے تھے، اس وقت نبی تھے جب بنی اسرائیل کو لے کر دریا عبور کیا حالانکہ تورات موجود نہ تھی یہ وحی دین تھی جو تورات سے قبل بھی موسی علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی- اللہ نے فرمایا ہم نے اے پیغمبر تم پر بھی اسی طرح کی وحی نازل کی جس طرح موسی علیہ السلام پر نازل کی، تورات موسی علیہ السلام کو ملی وہی صاحب کتاب نبی تھے، ہارون علیہ السلام کس وحی کی بناء پر نبی تھے؟ شعیب، یونس، یعقوب، اسمعیل اور اسحق علیہ السلام نبی تھے ان کے پاس تو کوئی کتاب نہیں تھی پھر ان کی نبوت کس وحی کی بنیاد پر تھی اور ان کے مخالفین کیوں کافر تھے؟ ان سب انبیاء کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی جو کتاب کی شکل میں بھی ہے اور غیر کتابی صورت میں بھی ہے، دونوں پر ایمان لانا ضروری ہے جس طرح عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے:
" میں ڈرتا ہوں کہیں بہت زمانہ گزر جائے اور لوگ یہ کہنے لگيں کہ ہم کو اللہ کی کتاب میں رجم کا حکم نہیں ملتا پھر اللہ نے جو حکم ٹھرایا ہے اس کو چھوڑ کر گمراہ ہوجائيں، دیکھو سن لو! جو محض مسلمان ہوکر زنا کرے اور زنا پر گواھ قائم ہوجائيں یا عورت کا حمل ظاہر ہو یا زنا کرنیوالا اقرار کرے تو اس کو رجم کریںگے- سفیان نے کہا مجھے تو یہ حدیث اسی طرح یاد ہے، سن لو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زانی کو رجم کیا اور ہم نے بھی آپ کے بعد رجم کیا-" (بخاری جلد سوم- کتاب المحاربین، حدیث: 1733)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ کسی ایک وحی کا انکار پورے دین کا انکار ہے اور یہ بات کفر ہے جس طرح فرعون اور قوم نوح علیہ السلام غیر کتابی وحی کے انکار کی وجہ سے کافر قرار پائے تھے-
اس وضاحت کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری لکھی تاکہ پڑھنے والا اس محض تاریخ کی کتاب نہ سمجھے بلکہ اسے اپنے دین اسلام کی بنیاد اور اصل سمجھ کر پڑھے اور ان احادیٹ کی اطاعت کرکے نجات پائے-
اسلام میں حدیث کی اہمیت شائع کرنے کی اصل وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں میں اس بات کی وضاحت کی جائے کا حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر دین پر عمل نہیں ہوسکتا- اللہ تعالی ہم سب کو حق بات سمحھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے- (آمین- یا رب العالمین)
والسلام علیکم
Comment