Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

فتنہ انکار حدیث

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • فتنہ انکار حدیث

    فتنہ انکار حدیث


    " یاد رکھو مجھے الکتاب قرآن اور اس کے ساتھ اس جیسی ایک اور چيز یعنی (حدیث) دی گئی ہے-" (ابو داؤد)

    یہ فتنہ آج کا نہیں بلکہ یہ بہت پرانا فتنہ ہے اور آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جن لوگوں نے احادیث کی مخالفت میں مختلف آراء پیش کیں کسی نے کہا:
    جو حدیث قرآن کے خلاف ہوگی وہ قبول نہیں کی جائے گی کسی نے کہا حدیث خبر واحد نہیں ہوگی کسی نے کہا جو حدیث امام کے قول کے خلاف ہوگی وا رد کی جائے گی- کسی نے ابو ہریرہ، انس بن مالک، سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ یہ راوی غیر فقیہ ہیں لہذا ان کی روایت کردہ احادیث مسترد ہونگی-


    ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی ایسے صحابی ہیں جن کی بیان کردہ اکثر احادیث فقہ کے مسائل کے خلاف ہیں اس لیے ان احادیث سے جان چھڑانے کی یہی واحد صورت رہ گئی تھی کہ ان کو ہی غیر فقیہ کہ دیا جائے- اس طرح حدیث کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کیا جاتا رہا جن لوگوں نے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب صحیح بخاری کا نور بصیرت سے مطالعہ کیا ان پر یہ بات مخفی نہیں کہ جب امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے یہ کتاب لکھنے کا ارادہ کیا تو یہ دونوں سول ان کے ذھن میں موجود تھے کیونکہ فتنہ انکار حدیث صرف بیسویں صدی کا فتنہ نہیں- انکار حدیث کی نوعیت اور دلائل میں فرق ہوسکتا ہے اور ہے مگر معص حلقوں کی طرف سے حدیث پر نطر کرم امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ سے پہلے ہی موجود تھی اس لیے دیگر فقہاء و محدثين کے بر عکس امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے سب سے پہلے اس بات کا تعین کیا کہ حدیث کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ بھی دین کا حصہ ہے؟ اور کیا اس کے انکار سے دین کا انکار لازم آتا ہےیا کہ محض تاریخ ہے؟ اگر یہ محض تاریخ ہے تو پھر اس کیلیے قریہ قریہ اور شہر شہر پھرنے اور حمع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

    اگر یہ دین نہیں ہے تو ایسی خدمت سر انجام دینے کا کیا فائدہ جس کا دین اسلام سے کوئی فائدہ نہیں ہے- لہذا صحیح بخاری میں احادیث جمع کرنے سے قبل امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے یہ ضروری سمجھا کہ پہلے یہ واضح کردیا جائے کہ حدیث وحی کا حصہ ہے اور اصولی طور پر حدیث کو وحی نہ ماننا کفر ہے- امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے کتاب الوحی وحی کا بیان اس کے بعد باب باندھا ہے "کیف کان بداءالوحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم "- اس باب میں بداء کے معنی وحی اور وحی کی معنی دین ہے لہذا اس باب کے معنی یہ ہے کہ " دین کی وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیسے نازل ہوئی تھی"-


    اس باب کے بعد امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے بتایا ایک وحی دین وہ تھی جو بصورت قرآن نازل ہوتی تھی- نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ وحی مجھ پر ایسے آتی ہے جیسے گھنٹے کی جھنکار ہوتی ہے اور یہ وحی مجھ پر بہت گراں ہمتی ہے اور فرشتے نے جو کہا ہوتا ہے مجھے یاد ہوچکا ہوتا ہے- عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب وحی نازل ہوتی تو شدید سردی میں بھی جب فرشتہ واپس جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پر پسینے کے قطرات ہوتے تھے- وحی کی یہ صورت قرآن کے نزول کی ہے یعنی وہ وحی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بصورت کتاب نازل ہوئی جسے قرآن مجید کہا جاتا ہے- اب دیکھنا یہ ہے کہ اس قرآن کی صورت میں جو وحی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتی تھی اور کیا اس وحی کا انکار کفر ہے کہ نہیں-


    امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قرآن کے علاوہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی دین نازل ہوتی تھی اور اس کا کنکار کفر ہے کیونکہ قرآن میں اللہ تعلی نے فرمایا ہے:
    اے پیغمبر! ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح ہم نے نوح اور اس کے بعد نبیوں پر بھیجی اور جس طرح ابراہیم، اسماعیل، اسحق، یعقوب اور اولاد یعقوب علیہ السلام پر بھیجی اور عیسی، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان علیہ السلام پر بھیجی اور ہم نے داؤد علیہ السلام کو زبور دی- (النساء)


    اسی آیت میں انبیاء کا نام لے کر بتایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر دین کی وحی اسی طرح نازل ہوئی جیسے ان انبیاء سابقہ پر نازل ہوئی- ان انبیاء میں کئی نبی ایسے بھی ہیں جن کو کوئی کتاب نہیں ملی جب کہ وہ دین کے داعی تھے رسول تھے اور اس غیر کتابی وحی دین کا قوم نے انکار تو پوری قوم کافر ہوگئی نوح علیہ اسلام نے کہا:
    (( رب لا تذر علی الارض من الکافرین دیارا))
    میرے رب زمین پر کافروں کا ایک گھر بھی باقی نہ چھوڑ- (سورۃ نوح)


    یہ لوگ جن کو نوح علیہ السلام نے کافر کہا اور ان کی تباہی و بربادی کے لیے اپنے رب سے دعا کی کون لوگ تھے؟ وہی جنہوں نے نوح ‏علیہ السلام پر غیر کتابی وحی کے نزول کا انکار کیا اور اللہ عزوجل نے فرمایا اے پیغمبر ہم نے تم پر اسی طرح وحی نازل کی جس طرح نوح علیہ السلام پر ناول کی اس سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر غیر کتابی وحی دین بھی نازل ہوتی تھی اور اس کا انکار اسی طرح کفر ہے جس طرح قوم نوح نے کفر کیا یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی غیر کتابی وحی نازل ہوتی تھی-

    یہ بات ثابت ہے کہ موسی علیہ السلام کو تورات اس وقت ملی جب آپ اسرائیل کو فرعون مصر سے نجات دلا کر دریائے نیل عبور کرچکے تھے-
    "اور ہم نے پہلی امتوں کے ہلاک کرنے کے بعد موسی کو کتاب دی جو لوگوں کے لیے بصیرت اور ہدایت اور رحمت ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں"- ( سورۃ قصص: 43)

    اور فرعون کافر اسی وقت ہی قرار دیا گیا جب ابھی تورات نازل نہیں ہوئی تھی- فرعون اسے لیے کافر قرار پایا کہ اس نے موسی علیہ السلام پر جو غیر کتابی وحی نازل ہوتی تھی اسکا انکار کیا تھا- اس نے توریت کا کنکار نہیں کیا تھا کہ تورات تو اس کے غرق آب ہونے کے بہت بعد ملی- موسی اس وقت نبی نہیں تھے جب انہیں کوہ طور پر اللہ سے ہم کلام ہونے کا شرف ملا اس وقت نبی تھے جب فرعون کے پاس گئے تھے، اس وقت نبی تھے جب بنی اسرائیل کو لے کر دریا عبور کیا حالانکہ تورات موجود نہ تھی یہ وحی دین تھی جو تورات سے قبل بھی موسی علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی- اللہ نے فرمایا ہم نے اے پیغمبر تم پر بھی اسی طرح کی وحی نازل کی جس طرح موسی علیہ السلام پر نازل کی، تورات موسی علیہ السلام کو ملی وہی صاحب کتاب نبی تھے، ہارون علیہ السلام کس وحی کی بناء پر نبی تھے؟ شعیب، یونس، یعقوب، اسمعیل اور اسحق علیہ السلام نبی تھے ان کے پاس تو کوئی کتاب نہیں تھی پھر ان کی نبوت کس وحی کی بنیاد پر تھی اور ان کے مخالفین کیوں کافر تھے؟ ان سب انبیاء کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی جو کتاب کی شکل میں بھی ہے اور غیر کتابی صورت میں بھی ہے، دونوں پر ایمان لانا ضروری ہے جس طرح عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے:

    " میں ڈرتا ہوں کہیں بہت زمانہ گزر جائے اور لوگ یہ کہنے لگيں کہ ہم کو اللہ کی کتاب میں رجم کا حکم نہیں ملتا پھر اللہ نے جو حکم ٹھرایا ہے اس کو چھوڑ کر گمراہ ہوجائيں، دیکھو سن لو! جو محض مسلمان ہوکر زنا کرے اور زنا پر گواھ قائم ہوجائيں یا عورت کا حمل ظاہر ہو یا زنا کرنیوالا اقرار کرے تو اس کو رجم کریںگے- سفیان نے کہا مجھے تو یہ حدیث اسی طرح یاد ہے، سن لو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زانی کو رجم کیا اور ہم نے بھی آپ کے بعد رجم کیا-" (بخاری جلد سوم- کتاب المحاربین، حدیث: 1733)

    اس روایت سے معلوم ہوا کہ کسی ایک وحی کا انکار پورے دین کا انکار ہے اور یہ بات کفر ہے جس طرح فرعون اور قوم نوح علیہ السلام غیر کتابی وحی کے انکار کی وجہ سے کافر قرار پائے تھے-
    اس وضاحت کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری لکھی تاکہ پڑھنے والا اس محض تاریخ کی کتاب نہ سمجھے بلکہ اسے اپنے دین اسلام کی بنیاد اور اصل سمجھ کر پڑھے اور ان احادیٹ کی اطاعت کرکے نجات پائے-

    اسلام میں حدیث کی اہمیت شائع کرنے کی اصل وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں میں اس بات کی وضاحت کی جائے کا حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر دین پر عمل نہیں ہوسکتا- اللہ تعالی ہم سب کو حق بات سمحھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے- (آمین- یا رب العالمین)

    والسلام علیکم
    Last edited by lovelyalltime; 7 July 2012, 17:10.

  • #2
    Re: فتنہ انکار حدیث

    حدیث کی حقیقت سے انکار کرنے والے شدید غفلت کا شکار ہیں کیونکہ جب اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ "اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرو" رسول کی اطاعت کا ایک ہی طریقہ ہے، حدیث سے رجوع۔ نماز کا نظام قائم ہی نہیں کیا جا سکتا اگر حدیث کا انکار کر دیا جائے۔

    انکار کی صورت کیا یہ نہیں ہو سکتی کہ احادیث مبارکہ کو کتابی صورت میں جمع کرنے کی جو ابتدا ہوئی تھی، وہ نبی پاک ﷺ کی وفات کے کوئی ڈیڑھ سو سال بعد شروع ہوئی تھی، اور آخری صحابی کا انتقال نبی پاک ﷺ کی وفات کے سو سال بعد ہوا تھا۔ اس دوران زمانہ بدل جاتا ہے، سوچیں، خیالات، حالات، واقعات بدل جاتے ، سب سے بڑی بات لوگ بدل جاتے ہیں۔ جو بات سینہ با سینہ چلی آئے اس میں کہیں نا کہیں اختلاف کی گنجائش رہتی ہے۔ اب کچھ احادیث جنیں ایک عالم نے درست کہا ہو، دوسرا اسے ضعیف کہہتا ہے، ایسے میں ایک عام مسلمان کے لیے ان میں سچ کو سمجھنے کا موقع کیسے ملتا ہے؟
    tumharey bas mein agar ho to bhool jao mujhey
    tumhein bhulaney mein shayid mujhey zamana lagey

    Comment


    • #3
      Re: فتنہ انکار حدیث


      کیا 250سال تک احادیث تحریر میں نہیں آئیں؟



      یہ صرف منکرین حدیث کا پروپیگنڈہ ہے خلفائے راشدین اورصحابہ نے احادیث کی حفاظت کا خاص اہتمام کیاپھر تابعین کے دور میں کئی کتب لکھی گئیں موطا امام مالک اب بھی موجود ہے جو صرف 100سال بعد لکھی گئی ان کی عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کی روایت میں صرف امام نافع راوی ہیں انس رضی اﷲ عنہ کی روایت میں امام زہری راوی ہیں غرض موطا میں سینکڑوں سندیں ایسی ہیں جن میں صحابہ اور امام مالک کے درمیان ایک یا دو راوی ہیں اور وہ زبردست امام تھے۔

      امام بخاری سے پہلے کی کتب صحیفہ ہمام صحیفہ صادقہ، مسند احمد، مسند حمیدی، موطا مالک مصنف ابن ابی شیبہ، مصنف عبدالرزاق ، موطا محمد ،مسند شافعی آج بھی موجود ہیں دیگر ائمہ نے بھی درس و تدریس کا ایسا اہتمام کیا ہوا تھا کہ کوئی کذاب حدیث گھڑ کر احادیث صحیحہ میں شامل نہ کر سکا۔جس نے احادیث گھڑ کر صحیح احادیث میں شامل کرنے کی کوشش کی اسکی کوشش کامیاب نہ ہوسکی وہ جھوٹی روایت پکڑی گئی







      کیا صحابہ کرام نے بھی احادیث لکھیں ؟


      جی ہاں خود رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو احادیث لکھوائیں آپ نے عبداﷲ بن عمر سے فرمایا
      ’’احادیث لکھا کرو قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس منہ سے حق کے سوا کوئی بات نہیں نکلتی ‘‘۔(ابو داؤد جلد 1صفحہ 158)

      انس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے جب ان کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا تو زکوۃ کے فرائض لکھ کر دیئے ۔(بخاری کتاب الزکوۃ ) حماد بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ کتاب انس رضی اﷲ عنہ کے پوتے ثمامہ سے حاصل کی ۔(نسائی کتاب الزکوۃ)

      خلیفہ الثانی عمر رضی اﷲ عنہ نے بھی زکوۃ کے متعلق ایک کتاب تحریر فرمائی تھی امام مالک فرماتے ہیں کہ میں نے عمر رضی اﷲ عنہ کی کتاب پڑھی ۔(موطا امام مالک صفحہ 109)

      علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں ہمارے پاس کوئی چیز نہیں سوائے کتاب اﷲ کے اور اس صحیفہ کے جس میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلمکی احادیث ہیں ۔(بخاری و مسلم کتاب الحج )

      ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ میں سے کوئی شخص مجھ سے زیادہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بیان نہیں کرتاسوائے عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کے اسلئے کہ وہ لکھا کرتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔(بخاری )


      عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کی یہ کتاب ان کی اولاد میں منتقل ہوتی رہی اوران کے پڑپوتے عمرو بن شعیب رحمۃ اﷲ علیہ سے محدثین رحمۃ اﷲ علیہ نے اخذکرکے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لیا ایسے واقعات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ سے مروی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ احادیث کو لکھا کرتے تھے ۔

      مثلاً عبداﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں طرف بیٹھے ہوئے لکھ رہے تھے اسی اثناء میں آپ سے پوچھا گیا کہ کون سا شہر پہلے فتح ہوگا؟قسطنطنیہ یا رومیہ ؟آپ نے فرمایا ہرقل کا شہر قسطنطنیہ (دارمی صفحہ 126)




      کیارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث کی کتابت بھی کروائی؟


      رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر احادیث لکھوائیں چند حوالے ملاحظہ فرمائیں

      (1) عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب الصدقۃ تحریر کروائی امام محمد بن مسلم فرماتے ہیں آپ کی یہ کتاب عمر رضی اﷲ عنہ کے خاندان کے پاس تھی اور مجھے عمر رضی اﷲ عنہ کے پوتے سالم نے یہ کتاب پڑھائی اور میں نے ا س کو پوری طرح محفوظ کرلیا ۔ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اﷲ علیہ نے ا س کتاب کو عمر رضی اﷲ عنہ کے پوتوں سالم اور عبداﷲ سے لے کر لکھوایا۔ (ابو داؤد کتاب الزکوۃ)

      (2) ابو راشد الحزنی فرماتے ہیں کہ عبداﷲ بن عمرو بن عاص نے میرے سامنے ایک کتاب رکھی اور فرمایا یہ وہ کتاب ہے جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوا کر مجھے دی تھی (ترمذی ابواب الدعوات)

      (3) موسی بن طلحہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس وہ کتاب ہے جو معاذ کیلئے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوائی تھی(الدارقطنی فی کتاب الزکوۃ) خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے اس کتاب کو منگوایا اور اس کو سنا(مصنف ابن ابی شیبہ نصب الرایہ کتاب الزکوۃ جلد 2صفحہ 352)

      (4) جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن حزم کو یمن کا عامل بنا کر بھیجا تو اہل یمن کیلئے ایک کتاب بھی لکھوا کر دی جس میں فرائض سنت اور دیت کے مسائل تحریر تھے امام زہری فرماتے ہیں کہ میں نے اس کتاب کو پڑھا یہ کتاب ابوبکر بن حزم کے پاس تھی سعید بن مسیّب نے بھی اس کتاب کوپڑھا (نسائی جلد دوم صفحہ 218)








      Comment


      • #4
        Re: فتنہ انکار حدیث

        جزاک اللہ، مجھے آپ سے انس ہوتا جا رہا ہے۔

        کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ بات اچھالتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق ؓ نے حضرت ابوہریرہ ؓ کو کثرتِ حدیث سنانے کی وجہ سے زندان خانہ بھیجا تھا، اس کے بارے میں کیا معلومات رکھتے ہیں آپ؟
        tumharey bas mein agar ho to bhool jao mujhey
        tumhein bhulaney mein shayid mujhey zamana lagey

        Comment


        • #5
          Re: فتنہ انکار حدیث

          Originally posted by Masood View Post
          جزاک اللہ، مجھے آپ سے انس ہوتا جا رہا ہے۔

          کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ بات اچھالتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق ؓ نے حضرت ابوہریرہ ؓ کو کثرتِ حدیث سنانے کی وجہ سے زندان خانہ بھیجا تھا، اس کے بارے میں کیا معلومات رکھتے ہیں آپ؟


          لوگوں کو چھوڑیں. قرآن اور صحیح احادیث کو پکڑیں . انشاللہ سب باتوں کا جواب ملے گا


          اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

          نیکی صرف اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا نام ہے

          صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے کہ تین افراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر تشریف لائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں موجود نہ تھے ۔ انہوں نے پردے کے پیچھے سے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی عبادت کے بارے میں پوچھا ، ان کی خواہش تھی کہ ہماری رات کی عبادت اس کا طریقہ اور اس کا وقت بھی نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طریقہ اور وقت کے مطابق ہو ، بالکل ویسے کریں جیسے اللہ کے پیغمبر کیا کرتے تھے ۔

          حدیث کے الفاظ ہیں :
          فلما اخبروا تقالوھا
          جب انہیں پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عبادت کے بارے میں بتلایا گیا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کو تھوڑا سمجھا ۔ پھر خود ہی کہا کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام تو وہ برگزیدہ ہستی ہیں جن کے اللہ تعالیٰ نے تمام گناہ معاف کر دئیے ہیں اور ہم چونکہ گناہ گار ہیں لہٰذا ہمیں آپ سے زیادہ عبادت کرنی چاہئیے ۔ چنانچہ تینوں نے کھڑے کھڑے عزم کر لیا ۔

          ایک نے کہا میں آج کے بعد رات کو کبھی نہیں سوؤں گا بلکہ پوری رات اللہ کی عبادت کرنے میں گزاروں گا ۔
          دوسرے نے کہا میں آج کے بعد ہمیشہ روزے رکھوں گا اور کبھی افطار نہ کروں گا ۔
          تیسرے نے کہا میں آج کے بعد اپنے گھر نہیں جاؤنگا اپنے گھر بار اور اہل و عیال سے علیحدہ ہو جاؤں گا تا کہ ہمہ وقت مسجد میں رہوں ۔

          چنانچہ تینوں یہ بات کہہ کر چلے گئے اور تھوڑی دیر بعد نبی علیہ الصلوٰۃ والتسلیم تشریف لے آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ تین افراد آئے تھے اور انہوں نے یوں عزم ظاہر کیا ۔

          جب امام الانبیاءنے یہ بات سنی تو حدیث کے الفاظ ہیں :
          فاحمر وجہ النبی کانما فقع علی وجھہ حب الرمان
          ” نبی علیہ السلام کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا یوں لگتا تھا گویا سرخ انار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر نچوڑ دیا گیا ہے اتنے غصے کا اظہار فرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں کو بلا کر پوچھا کہ تم نے یہ کیا بات کی ؟ کیا کرنے کا ارادہ کیا ؟ پھر نبی علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے اپنا عمل بتایا کہ:

          میں تو رات کو سوتا بھی ہوں اور جاگتا بھی ہوں ، نفلی روزے رکھتا بھی ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور میرا گھر بار ہے اور میری بیویاں ہیں ۔ میں انہیں وقت بھی دیتا ہوں اور اللہ کے گھر میں بھی آتا ہوں ۔ یہ میرا طریقہ اور سنت ہے جس نے میرے اس طریقے سے اعراض کیا اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔

          یعنی جس نے اپنے طریقے پر چلتے ہوئے پوری پوری رات قیام کیا ۔ زمانے بھر کے روزے رکھے اور پوری عمر مسجد میں گزار دی اس کا میرے دین سے میری جماعت سے میری امت سے کوئی تعلق نہ ہو گا ۔ وہ دین اسلام سے خارج ہے ۔


          اس کا مطلب یہ ہے کہ نیکی محنت کا نام نہیں بلکہ اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا نام نیکی ہے ۔ ایک عمل اس وقت تک ” عمل صالح نہیں ہو سکتا جب تک اس کی تائید اور تصدیق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ فرمادیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے عمل کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رد کر دیا ۔ کیونکہ وہ عمل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے اور منہج کے خلاف تھا ۔ یاد رہے کہ کوئی راستہ بظاہر کتنا ہی اچھا لگتا ہو اس وقت تک اس کو اپنانا جائز نہیں جب تک اس کی تصدیق و تائید محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ فرمادیں ۔



          سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کا ایک نمازی سے مکالمہ :

          سیدنا حذیفہ بن یمان نبی علیہ السلام کے رازدان صحابی تھے انہوں نے ایک شخص کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو پوچھا ! یہ نماز آپ کب سے پڑھ رہے ہیں ؟ اس نے کہا چالیس سال سے ۔ فرمایا کہ تم نے چالیس سال سے نماز نہیں پڑھی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے ایک بار میرے طریقے کے مطابق وضو کیا اور پھر ایک بار میرے طریقے کے مطابق نماز پڑھی تو اللہ تعالیٰ اس کی سابقہ زندگی کے تمام گناہ معاف کر دے گا ۔ ( سنن نسائی ، ح : 144 )

          اب آئیے اس فرق کو سمجھئے ۔

          ایک طرف ایک چالیس سالہ نمازی اور وہ بھی صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تم نے چالیس سال کی نمازوں کے باوجود ایک نماز بھی نہیں پڑھی اور ایک طرف یہ وسعت ہے کہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ایک نماز صحیح وضو کر کے پڑھ لے اللہ تعالیٰ سابقہ تمام گناہوں کو معاف کر دیں گے ۔

          قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ ادھر بھی نماز ہے اور ادھر بھی نماز ہے ۔ وہاں چالیس سال کی نمازیں اور یہاں ایک وقت کی صرف دو رکعت نماز ۔ یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ تم نے ایک نماز بھی نہیں پڑھی ، کوئی ثواب نہیں اور دوسری طرف فرمایا جا رہا ہے کہ اس ایک نماز سے سابقہ زندگی کے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے ۔ کیا فرق ہے اور کون سا فرق ہے ؟



          سچ ہے : محمد فرق بین الناس ( بخاری ، ح : 7281 )

          یہ فرق کرنے والے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ کوئی امام ، فقیہہ ، محدث اور مجتہد نہیں ۔ کسی کا قول و عمل نہیں ، کسی کی ذاتی سوچ نہیں ، کسی کا اجتہاد نہیں بلکہ فرق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے ۔ آج بھی لوگ نمازیں پڑھتے ہیں ۔ محنتیں کرتے ہیں ، عبادتیں اور ریاضتیں کرتے ہیں لیکن ایک بار یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اپنی نمازوں کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پر پیش کر کے دیکھیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کیا تھی ؟ اور ہماری نمازوں کی کیا حالت ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت سے پہلے یہ وقت آئے گا کہ مساجد نمازیوں سے بھری ہوئی ہونگی اور بڑی بڑی مسجدیں ہونگی لیکن اکثریت ان نمازیوں کی ہو گی جنہیں ان کی نماز کا ثواب نہیں ملے گا ۔ صرف اسی نماز کا ثواب ملے گا جو اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کے مطابق ہو گی اور جو آپ کے طریقے اور سنت کے خلاف ہے وہ غلط اور باطل ہے اس میں کوئی اجر و ثواب نہیں بلکہ الٹا وبال جان ہے ۔

          ایک روزے دار کا جذبہ اور فیصلہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم :

          ایک صحابی نبی علیہ السلام کے پاس آیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ کچھ کمزور سا ہو گیا ہے پوچھا کہ تم کمزور کیوں ہو گئے ہو ۔ صحابی نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں گزشتہ سال آپ کے پاس آیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث بیان کی تھی ۔ اس پر میں نے عمل کیا اتنا عمل کیا کہ کمزور ہو گیا ہوں ۔ وہ حدیث یہ تھی کہ ” جو اللہ کیلئے ایک روزہ رکھے گا اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے ستر سال دور کر دیں گے ۔ “ ( بخاری )

          میں نے سوچا کہ اتنی بابرکت حدیث کہ ایک روزے سے جہنم ستر ( 70 ) سال دور ہو جائیگی تو ہر روز روزہ رکھنے کا کتنا ثواب ہوگا ؟ چنانچہ میں نے عزم کر لیا کہ ہمیشہ روزے رکھوں گا اور اپنے عزم کے مطابق ہر روز باقاعدگی سے روزے رکھنے شروع کر دئیے جس کی بناءپر مجھ میں ضعف اور کمزوری پیدا ہوئی ۔ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابی کے اس عمل پر اسے شاباش نہ دی بلکہ حدیث کے الفاظ ہیں ۔


          لا صام من صام الابد ( بخاری و مسلم )
          ” جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس نے ( گویا ) روزہ نہیں رکھا ۔ “



          یعنی ایک روزے کا بھی ثواب نہ ملا ۔ کیونکہ سال بھر کے روزے اگرچہ عمل کے اعتبار سے ڈھیر ہیں لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہج اور طریقے کے خلاف ہیں ۔ ایک طرف سال بھر کے روزے رکھنے والے کو ایک روزے کا ثواب بھی نہیں ملا

          جبکہ دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

          من صام ایام البیض فکانما صام الدھر
          ” جس نے ایام بیض ( یعنی چاند کی 13 ، 14 ، 15 تاریخ ) کے روزے رکھے گویا اس نے زمانے بھر کے روزے رکھے ۔ “




          یعنی صرف تین روزوں کا ثواب زمانے بھر کے روزوں کے ثواب کے برابر ہے ۔ اس لئے کہ عمل کی صالحیت کثرت اور محنت سے نہیں بلکہ اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے ہے ۔ کیونکہ اسوہ حسنہ ، آئیڈیل ، کسوٹی اور مثال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔



          سفر حج میں صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیہوشی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ :

          صحیح بخاری کتاب الایمان میں حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر حج میں ایک شخص بیہوش ہوگیا لوگ اس کو سنبھال رہے تھے ۔
          نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ جونہی اس آدمی پر پڑی تو پوچھا کہ کیا معاملہ ہے ؟
          صحابہ رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ ایک شخص یہاں بے ہوش پڑا ہے۔
          آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بیہوشی کا سبب پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا جب یہ آدمی گھر سے نکلا تو سوچا کہ سفر حج بڑا بابرکت ہے اور مزید یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت اور ساتھ بھی نصیب ہوا ہے اور دین اسلام میں تکلیف جس قدر زیادہ ہو اتنا ہی زیادہ ثواب ملتا ہے لہٰذا جب تک یہ سفر قائم ہے اس وقت تک نہ کھانا کھاؤں گا نہ پانی پیؤں گا ، نہ سواری پر بیٹھوں گا بلکہ پیدل چلوں گا اور لوگ جہاں پڑاؤ ڈالیں گے وہاں سائے تلے نہیں بیٹھوں گا بلکہ تپتی دھوپ میں بیٹھوں گا تا کہ تکلیف زیادہ ہو تو ثواب بھی زیادہ ملے ۔ چنانچہ بھوکا ، پیاسا اور پیدل چل رہا ہے بالآخر بیہوش ہو کر گر پڑا۔

          نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ ” اس نے جس تکلیف میں اپنے آپ کو ڈالا ہے اللہ ناراض ہو چکا ہے ۔ ( اسے بتلاؤ ) اگر یہ چاہتا ہے کہ اللہ راضی ہو ، حج مقبول ہو تو کھانا کھائے ، پانی پئے ، سائے تلے بیٹھے اور سواری پر سوار ہو ۔ “
          اس لئے کہ میں کھا رہا ہوں ، پی رہا ہوں ، سواری پر سوار ہوں ، سائے تلے بیٹھ رہا ہوں۔


          تو ایک عمل کی صالحیت ہماری خواہش پر قائم نہیں کہ ہمیں فلاں کام اچھا لگتا ہے لہٰذا وہ اچھا ہوگا ۔ نہیں ! اچھا کام تب ہی ہو گا جب اس کی تائید اور موافقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما دیں ۔ کیونکہ اسوہ حسنۃ ، میزان اکبر اور فرق صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔



          ام المومنین زینب رضی اللہ عنہ کا عمل اور میزان رسول صلی اللہ علیہ وسلم :

          ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں دیکھا کہ ایک رسی بندھی ہوئی لٹک رہی ہے ۔ پوچھا یہ رسی کس کی ہے بتایا گیا کہ یہ ام المومنین زینب رضی اللہ عنہ کی رسی ہے ۔ وہ رات کو قیام کرتی ہیں جب کھڑے کھڑے تھک جاتی ہیں تو رسی کا سہارا لے لیتی ہیں جس سے کچھ تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس رسی کو اکھاڑ دو ، کھول دو اور زینب رضی اللہ عنہ سے کہو اس وقت تک قیام کرے جب تک طاقت اور استطاعت ہو جب تھک جاؤ تو رسی کو پکڑنے کی بجائے آ کر سو جاؤ ۔ نماز میں رسی کے سہارے لینا اور تھکاوٹ کے باوجود نفل پڑھنے کی کوشش کرنا میرے منہج اور طریقے کے خلاف ہے ۔


          معلوم ہوا ، کوئی عمل خواہ ام المومنین زینب رضی اللہ عنہ کیوں نہ اپنا لے جب تک اللہ کے پیغمبر کی تائید نہ ہو گی وہ عمل صحیح اور قابل قبول نہ ہو سکے گا ۔ عمل کی قبولیت کسی صحابی کی پسند پر نہیں بلکہ محمد رسول اللہ کی چاہت پر ہے ۔



          ابوبردۃ بن نیار رضی اللہ عنہ کے جذبات اور اسوہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم :

          صحیح بخاری کتاب الاضاحی میں حدیث ہے کہ معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم عید کی نماز کیلئے عیدگاہ کی طرف رواں دواں تھے ۔ نالی سے بہتا ہوا خون دیکھا تو پوچھا یہ کس کا گھر ہے ؟ تحقیق کی تو پتہ چلا یہ گھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار ساتھی ابوبردۃ بن نیار رضی اللہ عنہ کا ہے ۔

          ان کو بلایا گیا اور کہا اے ابوبردۃ بن نیار ! یہ کیا معاملہ ہے ؟ ابھی ہم نے عید کی نماز ادا ہی نہیں کی آپ نے پہلے ہی جانور ذبح کر دیا ہے ۔

          صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آج کا دن کھانے پینے کا دن ہے میرے سارے پڑوسی غریب اور مسکین ہیں میں نے چاہا کہ جلدی جلدی اپنا جانور ذبح کر کے ان کو گوشت کھلاؤں تا کہ آج کے دن ان کو انتظار نہ کرنا پڑے ۔ لہٰذا میں نے فجر کی نماز پڑھتے ہی جانور ذبح کر دیا۔

          آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبردۃ رضی اللہ عنہ ( اذبح مکانھا شاۃ ) اللہ نے تمہاری قربانی قبول نہیں کی اس لئے کہ تمہاری قربانی ہمارے طریقے اور سنت کے خلاف تھی ۔ مسنون طریقہ یہ تھا کہ پہلے نماز پھر قربانی ۔ تم نے قربانی پہلے کر دی نمازبعد میں ادا کرو گے ۔ ترتیب الٹ ہو گئی اب تمہیں قربانی کیلئے ایک اور جانور ذبح کرنا پڑے گا ۔

          یہ دین جذبات کا نام نہیں ہے ۔ جذبات خواہ کتنے پاکیزہ ہوں ایک عمل خواہ کتنا اچھا ہو لیکن اس وقت تک کوئی عمل ، عمل صالح نہیں بنتا جب تک اس کی تصدیق اور تائید اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نہ فرما دیں ۔



          امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا فیصلہ کن قول :

          شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:


          دو باتیں اگر کوئی شخص پہچان لے تو اس نے پورے دین کو پہچان لیا ۔ پورا دین اس کے پاس محفوظ ہوگیا ۔ ایک یہ کہ عبادت کس کی کرنی ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے صرف اللہ تعالیٰ کی ، کسی حجر و شجر کی نہیں ، قبے اور مزار کی نہیں اور نہ ہی کسی نبی ، ولی اور فرشتے کی ۔ دوسرا یہ کہ کس طرح کرنی ہے ؟ جیسے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ۔ پس جو شخص ان دو باتوں کو پہچان لے اس نے سارے دین کو پہچان لیا اور یہ پورے دین کی اساس و بنیاد ہے ۔



          اس لئے ہمیں اپنا عقیدہ ، عمل ، منہج ، معیشت و معاشرت ، سیاست سمیت دیگر تمام امور اللہ کے رسول کے طریقے کے مطابق بنانا ہوں گے تب اللہ رب العالمین انہیں شرف قبولیت سے نوازیں گے ۔ بصورت دیگر تمام اعمال ، عبادتیں اور ریاضتیں برباد ہو جائیں گی اور کسی عمل کا فائدہ نہ ہو گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔
          ھل اتاک حدیث الغاشیۃ وجوہ یومئذ خاشعۃ عاملۃ ناصبۃ تصلیٰ ناراً حامیۃ ( الغاشیۃ : 1-4 )


          قیامت کے دن بہت سے چہرے ذلیل و رسوا ہونگے ۔ اس لئے نہیں کہ وہ عمل نہیں کرتے تھے ، محبت اور کوشش نہیں کرتے تھے بلکہ عمل کرتے تھے اور بہت زیادہ کرتے تھے عمل کرتے کرتے تھک جایا کرتے تھے لیکن یہ دھکتی ہوئی جہنم کی آگ کا لقمہ بن جائیں گے ۔ بے تحاشا عمل کرنے والے محنتیں اور ریاضتیں کرنے والے ، صبح و شام سفر کرنے والے جہنم کی آگ کا ایندھن بنیں گے ۔ کیوں ! اس لئے کہ ان کا عمل اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور طریقے کے مطابق نہ تھا ۔ قرآن و حدیث کے مطابق نہ تھا ۔ اگر عمل سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہو اور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ کو بلا جھجک اور بلا چوں و چراں تسلیم کر لیا جائے تو یہی کامیابی ہے اور یہی ایمان ہے ۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمارے عقیدے ، عمل اور منہج کو کتاب و سنت کے مطابق بنا دے ۔ تا کہ ہم قرآن و حدیث کو ہی اپنا مرکز اطاعت ٹھہرا لیں ۔ ( آمین )



          وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وعلیٰ اٰلہ وصحبہ اجمعین ۔



          Last edited by lovelyalltime; 8 July 2012, 17:35.

          Comment


          • #6
            Re: فتنہ انکار حدیث

            jazakAllah khair

            Comment

            Working...
            X