اہلِ سنت کے اسلام میں صحیح بخاری قرآن کے بعد سب سے زیادہ درست ترین کتاب مانی جاتی ہے اور حدیث کی پہلی باقاعدہ تصنیف ہے، بخاری 194 ہجری کو پیدا ہوئے تھے جبکہ احادیث کی تدوین انہوں نے 16 سال کی عمر میں شروع کی تھی یعنی کوئی 210 ہجری کو، اور 256 ہجری کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے تاہم کوچ کرنے سے پہلے انہوں نے کوئی چھ لاکھ احادیث جمع کیں جن میں سے مکرر سمیت محض 7397 احادیث کو صحیح کا رتبہ بخشا!! اتنی چھان پھٹک کے باوجود پھر بھی اس سنتِ صحیحہ میں عجیب وغریب احادیث ملتی ہیں جیسے “محمد ﷺ کی تھوک کو منہ پر مل لینا” (1) چاند کا شق ہوجانا (2) اونٹھ کا پیشاپ پینا ( جس کی وجہ سے فقہاء آج تک ایک دوسرے سے دست وگریباں ہیں…
سوال یہ ہے کہ کیا دو سو سال بعد محمد ﷺ کے بارے یا ان سے منسوب باتیں درست ہوسکتی ہیں؟؟ خاص طور سے جبکہ انہیں نقل کرنے والے لوگ جنہیں راوی کہا جاتا ہے عام انسان ہی تھے چنانچہ بھولنا، مختلف باتوں کا گڈمڈ ہونا، کسی بات کا اضافہ ہوجانا، اپنی مرضی کی بات کہنا یا سیاسی مفاد کی خاطر کوئی بات شامل کرنا یا گھڑنا سب ممکن ہے.
اسی طرح یہ سوال بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ احادیث کا انتخاب اور ان کی تدوین کس طرح کی گئی؟ کہا جاتا ہے کہ بخاری نے ان احادیث کو سند کی درستگی کی بنیاد پر منتخب کیا جسے عنعنہ کہا جاتا ہے یعنی فلان نے علان سے اور علان نے خلکان سے اور خلکان نے جرمان سے… یوں ایک سے دو درجن حضرات کے نام گنوا کر اصل کہنے والے تک پہنچا جاتا ہے یعنی محمد ﷺ، مطلب یہ ہے کہ سند حدیث کے راویوں کا ایک سلسلہ ہے جو کہ بخاری ودیگر کے ہاں حدیث کا ستون ہے، اگر کوئی ستون گرجائے تو حدیث بھی ساتھ میں زمیں بوس ہوجاتی ہے، اور اگر سند درست ہو تو اس سے قطع نظر کہ حدیث کا مضمون کیا ہے حدیث کو ہر صورت قبول کر لیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے بخاری ودیگر احادیث کی کتابوں میں عجیب وغریب بلکہ بعض اوقات تباہ کن احادیث ملتی ہیں.
یہ بھی فرمایا جاتا ہے کہ بخاری کی کچھ احادیث محض معنی کے حساب سے مروی ہیں یعنی بخاری نے ان احادیث کو ان الفاظ میں پیش نہیں کیا جیسا کہ انہوں نے انہیں نقل کرنے والوں سے سنا تھا، اس کی وجہ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ: “کوئی حدیث بصرہ میں سنی اور شام میں لکھی، کوئی حدیث شام میں سنی اور مصر میں لکھی” بلکہ اعلام النبلاء میں تو یہ بات کچھ یوں بیان ہے: “احید بن ابی جعفر والی بخاری نے کہا: محمد بن اسماعیل نے ایک دن کہا: کوئی حدیث بصرہ میں سنی اور شام میں لکھی، اور کوئی حدیث شام میں سنی اور مصر میں لکھی. میں نے ان سے کہا: اے ابا عبد اللہ کیا اسی کمال کے ساتھ؟ کہا: وہ خاموش ہوگئے” (5).
تاہم معمولی سی جانچ سے ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ بخاری ودیگر کی احادیث میں کوئی سچائی نہیں ہے.. کیسے؟
1- اس میں شک نہیں کہ کوئی خبر اگر راویوں کے درمیان طویل عرصے تک گردش کرتی رہے تو اس میں تبدیلی آجاتی ہے، علم الاعلام میں اسے “خبر کی تحریف” کہا جاتا ہے اور اس کی جانچ کے لیے “سرگوشی کا کھیل” کھیلا جاتا ہے جس میں پہلا شخص کوئی جملہ ایجاد کر کے دوسرے کو سرگوشی میں بتاتا ہے اور دوسرا تیسرے کو اور تیسرا چوتھے کو اور اسی طرح یہ کھیل چلتا رہتا ہے حتی کہ وہ جملہ گھوم پھر کر واپس پہلے شخص کے پاس آتا ہے تب سب پر اصل جملے میں تحریف کا انکشاف ہوتا ہے، اس تحریف کی عام مثال ذرائع ابلاغ ہیں جہاں ایک ہی خبر کو مختلف اخبارات اور چینل اس طرح سے پیش کرتے ہیں کہ اصل خبر بیچ میں ہی کہیں گم ہوجاتی ہے، اور عام آدمی کو پتہ ہی نہیں چل پاتا کہ اصل خبر یا بیان دراصل تھا کیا؟
2- محمد ﷺ سے احادیث روایت کرنے والے سب سے بڑے راوی کون ہیں؟ یہ ابو ہریرہ اور عبد اللہ بن عباس ہیں، ابو ہریرہ تو محمد ﷺ سے احادیث کی روایت میں سب پر سبقت لے گئے اور کوئی 5374 احادیث روایت کیں، حالانکہ وہ محمد ﷺ کے ساتھ محض تین سال رہے!! جبکہ عبد اللہ بن عباس نے محمد ﷺ سے کوئی 1660 احادیث روایت کیں حالانکہ محمد ﷺ کی وفات کے وقت ان کی عمر محض 13 سال تھی!! قابلِ غور بات یہ ہے کہ ایک کی محمد ﷺ سے رفاقت محض 3 سال رہی جبکہ دوسرا محمد ﷺ کی وفات کے وقت محض بچہ تھا تو کیا ان دونوں میں اتنی قدرت تھی کہ وہ ایک طویل عرصے تک اتنا سارا ڈیٹا اپنے دماغ میں لے کر گھومتے رہیں اور محمد ﷺ کی وفات کے بعد اسے محض یادداشت پر انحصار کرتے ہوئے “ری سٹور” کر سکیں؟؟
جدید علمی تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ انسان کی یادداشت میں معلومات کی محفوظگی اور ان کی بحالی نامکمل ہوتی ہے، یہ بہت سارے اندرونی وبیرونی عوامل سے اثر انداز ہوتی ہے، مثلاً انسان اپنی یادداشت میں واقعات کو محفوظ کر سکتا ہے مگر جب انہیں واپس بلاتا ہے تو وہم اور حقیقت میں تمیز مشکل ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے اصل یادداشت کے بعض عناصر ضائع ہوجاتے ہیں، 1600 طالب عملوں پر کی جانی والی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ ان میں سے 20% طالب علموں نے ایسی یادداشتیں محفوظ کر رکھی تھیں جن کی کوئی حقیقی بنیاد نہیں تھی بلکہ یہ ایسے واقعات تھے جو کبھی وقوع پذیر ہی نہیں ہوئے یعنی وہم (6).
3- پتہ نہیں ابو ہریرہ اور عبد اللہ بن عباس کو راویوں کی فہرست میں کیوں شامل کیا گیا جبکہ حدیث کو قبول کرنے کی اولین شرط یہ ہے کہ راوی کی ساکھ اچھی ہونی چاہیے، تاریخ کی کتابیں ہمیں بتاتی ہیں کہ ابو ہریرہ نے بحرین کے مال میں کرپشن کی اور بن عباس نے بصرہ کے مال میں کرپشن کی (7) کیا عوام کا مال کھا کر بھی انسان کی ساکھ باقی رہتی ہے؟ کیا کرپٹ لوگوں سے حدیث لی جاسکتی ہے؟ اگر ان دونوں حضرات سے مروی احادیث ساقط کردی جائیں تو احادیث کی کتابوں میں کیا بچے گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے.
4- سارے قدیم وجدید علمائے حدیث جانتے ہیں کہ 99% احادیث “ظنیہ الثبوت” (قیاساً ثابت شدہ) ہیں یعنی کوئی بھی یہ قطعی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ یہ ساری باتیں محمد ﷺ نے اپنے منہ سے کہی تھیں چاہے اس کی سند درست اور متواتر ہی کیوں نہ ہو.. اس کی وجہ بڑی سادہ سی ہے، کیونکہ محمد ﷺ نے انہیں اپنے دور میں مدون نہیں کیا اور نا ہی چاروں خلفاء نے انہیں اپنے دور میں مدون کیا اسی وجہ سے یہ ظنی ہیں، یعنی اگر ہم فیصد کے حساب سے شرح نکالنا چاہیں کہ یہ ساری احادیث محمد ﷺ نے ہی اپنی زبان سے کہی ہیں تو یہ شرح انتہائی کم ہوگی (0.001%).
اتنے کم امکانات کے باوجود بھی احادیث کو اتنی مقدس حیثیت حاصل رہی ہے کہ یہ قرآن کے احکامات تک کو منسوخ کردیتی ہیں، مختلف اسلامی فرقوں کی بنیاد اور ان کے آپس کے اختلافات بھی انہی احادیث کی وجہ سے ہیں، احادیث ہی مسلم معاشروں کی طرز زندگی کا تعین کرتی ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا محض اندازوں پر معاشروں کو چلایا جاسکتا ہے؟ کیا محض قیاسات پر قوانین وضع کیے جاسکتے ہیں؟ اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہم چودہ سو بتیس سال بعد بھی ایسی احادیث پر یقین رکھ سکتے ہیں؟
———————————-
حوالہ جات:
1- بخاری جلد 3 صفحہ 564 ـ 565.
2- بخاری جلد 4 صفحہ 533.
3- بخاری 2855 مسلم 1671.
4- بخاری، حدیث 4698.
سوال یہ ہے کہ کیا دو سو سال بعد محمد ﷺ کے بارے یا ان سے منسوب باتیں درست ہوسکتی ہیں؟؟ خاص طور سے جبکہ انہیں نقل کرنے والے لوگ جنہیں راوی کہا جاتا ہے عام انسان ہی تھے چنانچہ بھولنا، مختلف باتوں کا گڈمڈ ہونا، کسی بات کا اضافہ ہوجانا، اپنی مرضی کی بات کہنا یا سیاسی مفاد کی خاطر کوئی بات شامل کرنا یا گھڑنا سب ممکن ہے.
اسی طرح یہ سوال بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ احادیث کا انتخاب اور ان کی تدوین کس طرح کی گئی؟ کہا جاتا ہے کہ بخاری نے ان احادیث کو سند کی درستگی کی بنیاد پر منتخب کیا جسے عنعنہ کہا جاتا ہے یعنی فلان نے علان سے اور علان نے خلکان سے اور خلکان نے جرمان سے… یوں ایک سے دو درجن حضرات کے نام گنوا کر اصل کہنے والے تک پہنچا جاتا ہے یعنی محمد ﷺ، مطلب یہ ہے کہ سند حدیث کے راویوں کا ایک سلسلہ ہے جو کہ بخاری ودیگر کے ہاں حدیث کا ستون ہے، اگر کوئی ستون گرجائے تو حدیث بھی ساتھ میں زمیں بوس ہوجاتی ہے، اور اگر سند درست ہو تو اس سے قطع نظر کہ حدیث کا مضمون کیا ہے حدیث کو ہر صورت قبول کر لیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے بخاری ودیگر احادیث کی کتابوں میں عجیب وغریب بلکہ بعض اوقات تباہ کن احادیث ملتی ہیں.
یہ بھی فرمایا جاتا ہے کہ بخاری کی کچھ احادیث محض معنی کے حساب سے مروی ہیں یعنی بخاری نے ان احادیث کو ان الفاظ میں پیش نہیں کیا جیسا کہ انہوں نے انہیں نقل کرنے والوں سے سنا تھا، اس کی وجہ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ: “کوئی حدیث بصرہ میں سنی اور شام میں لکھی، کوئی حدیث شام میں سنی اور مصر میں لکھی” بلکہ اعلام النبلاء میں تو یہ بات کچھ یوں بیان ہے: “احید بن ابی جعفر والی بخاری نے کہا: محمد بن اسماعیل نے ایک دن کہا: کوئی حدیث بصرہ میں سنی اور شام میں لکھی، اور کوئی حدیث شام میں سنی اور مصر میں لکھی. میں نے ان سے کہا: اے ابا عبد اللہ کیا اسی کمال کے ساتھ؟ کہا: وہ خاموش ہوگئے” (5).
تاہم معمولی سی جانچ سے ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ بخاری ودیگر کی احادیث میں کوئی سچائی نہیں ہے.. کیسے؟
1- اس میں شک نہیں کہ کوئی خبر اگر راویوں کے درمیان طویل عرصے تک گردش کرتی رہے تو اس میں تبدیلی آجاتی ہے، علم الاعلام میں اسے “خبر کی تحریف” کہا جاتا ہے اور اس کی جانچ کے لیے “سرگوشی کا کھیل” کھیلا جاتا ہے جس میں پہلا شخص کوئی جملہ ایجاد کر کے دوسرے کو سرگوشی میں بتاتا ہے اور دوسرا تیسرے کو اور تیسرا چوتھے کو اور اسی طرح یہ کھیل چلتا رہتا ہے حتی کہ وہ جملہ گھوم پھر کر واپس پہلے شخص کے پاس آتا ہے تب سب پر اصل جملے میں تحریف کا انکشاف ہوتا ہے، اس تحریف کی عام مثال ذرائع ابلاغ ہیں جہاں ایک ہی خبر کو مختلف اخبارات اور چینل اس طرح سے پیش کرتے ہیں کہ اصل خبر بیچ میں ہی کہیں گم ہوجاتی ہے، اور عام آدمی کو پتہ ہی نہیں چل پاتا کہ اصل خبر یا بیان دراصل تھا کیا؟
2- محمد ﷺ سے احادیث روایت کرنے والے سب سے بڑے راوی کون ہیں؟ یہ ابو ہریرہ اور عبد اللہ بن عباس ہیں، ابو ہریرہ تو محمد ﷺ سے احادیث کی روایت میں سب پر سبقت لے گئے اور کوئی 5374 احادیث روایت کیں، حالانکہ وہ محمد ﷺ کے ساتھ محض تین سال رہے!! جبکہ عبد اللہ بن عباس نے محمد ﷺ سے کوئی 1660 احادیث روایت کیں حالانکہ محمد ﷺ کی وفات کے وقت ان کی عمر محض 13 سال تھی!! قابلِ غور بات یہ ہے کہ ایک کی محمد ﷺ سے رفاقت محض 3 سال رہی جبکہ دوسرا محمد ﷺ کی وفات کے وقت محض بچہ تھا تو کیا ان دونوں میں اتنی قدرت تھی کہ وہ ایک طویل عرصے تک اتنا سارا ڈیٹا اپنے دماغ میں لے کر گھومتے رہیں اور محمد ﷺ کی وفات کے بعد اسے محض یادداشت پر انحصار کرتے ہوئے “ری سٹور” کر سکیں؟؟
جدید علمی تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ انسان کی یادداشت میں معلومات کی محفوظگی اور ان کی بحالی نامکمل ہوتی ہے، یہ بہت سارے اندرونی وبیرونی عوامل سے اثر انداز ہوتی ہے، مثلاً انسان اپنی یادداشت میں واقعات کو محفوظ کر سکتا ہے مگر جب انہیں واپس بلاتا ہے تو وہم اور حقیقت میں تمیز مشکل ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے اصل یادداشت کے بعض عناصر ضائع ہوجاتے ہیں، 1600 طالب عملوں پر کی جانی والی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ ان میں سے 20% طالب علموں نے ایسی یادداشتیں محفوظ کر رکھی تھیں جن کی کوئی حقیقی بنیاد نہیں تھی بلکہ یہ ایسے واقعات تھے جو کبھی وقوع پذیر ہی نہیں ہوئے یعنی وہم (6).
3- پتہ نہیں ابو ہریرہ اور عبد اللہ بن عباس کو راویوں کی فہرست میں کیوں شامل کیا گیا جبکہ حدیث کو قبول کرنے کی اولین شرط یہ ہے کہ راوی کی ساکھ اچھی ہونی چاہیے، تاریخ کی کتابیں ہمیں بتاتی ہیں کہ ابو ہریرہ نے بحرین کے مال میں کرپشن کی اور بن عباس نے بصرہ کے مال میں کرپشن کی (7) کیا عوام کا مال کھا کر بھی انسان کی ساکھ باقی رہتی ہے؟ کیا کرپٹ لوگوں سے حدیث لی جاسکتی ہے؟ اگر ان دونوں حضرات سے مروی احادیث ساقط کردی جائیں تو احادیث کی کتابوں میں کیا بچے گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے.
4- سارے قدیم وجدید علمائے حدیث جانتے ہیں کہ 99% احادیث “ظنیہ الثبوت” (قیاساً ثابت شدہ) ہیں یعنی کوئی بھی یہ قطعی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ یہ ساری باتیں محمد ﷺ نے اپنے منہ سے کہی تھیں چاہے اس کی سند درست اور متواتر ہی کیوں نہ ہو.. اس کی وجہ بڑی سادہ سی ہے، کیونکہ محمد ﷺ نے انہیں اپنے دور میں مدون نہیں کیا اور نا ہی چاروں خلفاء نے انہیں اپنے دور میں مدون کیا اسی وجہ سے یہ ظنی ہیں، یعنی اگر ہم فیصد کے حساب سے شرح نکالنا چاہیں کہ یہ ساری احادیث محمد ﷺ نے ہی اپنی زبان سے کہی ہیں تو یہ شرح انتہائی کم ہوگی (0.001%).
اتنے کم امکانات کے باوجود بھی احادیث کو اتنی مقدس حیثیت حاصل رہی ہے کہ یہ قرآن کے احکامات تک کو منسوخ کردیتی ہیں، مختلف اسلامی فرقوں کی بنیاد اور ان کے آپس کے اختلافات بھی انہی احادیث کی وجہ سے ہیں، احادیث ہی مسلم معاشروں کی طرز زندگی کا تعین کرتی ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا محض اندازوں پر معاشروں کو چلایا جاسکتا ہے؟ کیا محض قیاسات پر قوانین وضع کیے جاسکتے ہیں؟ اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہم چودہ سو بتیس سال بعد بھی ایسی احادیث پر یقین رکھ سکتے ہیں؟
———————————-
حوالہ جات:
1- بخاری جلد 3 صفحہ 564 ـ 565.
2- بخاری جلد 4 صفحہ 533.
3- بخاری 2855 مسلم 1671.
4- بخاری، حدیث 4698.
Comment