Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

حدیث کی مصداقیت

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • حدیث کی مصداقیت

    اہلِ سنت کے اسلام میں صحیح بخاری قرآن کے بعد سب سے زیادہ درست ترین کتاب مانی جاتی ہے اور حدیث کی پہلی باقاعدہ تصنیف ہے، بخاری 194 ہجری کو پیدا ہوئے تھے جبکہ احادیث کی تدوین انہوں نے 16 سال کی عمر میں شروع کی تھی یعنی کوئی 210 ہجری کو، اور 256 ہجری کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے تاہم کوچ کرنے سے پہلے انہوں نے کوئی چھ لاکھ احادیث جمع کیں جن میں سے مکرر سمیت محض 7397 احادیث کو صحیح کا رتبہ بخشا!! اتنی چھان پھٹک کے باوجود پھر بھی اس سنتِ صحیحہ میں عجیب وغریب احادیث ملتی ہیں جیسے “محمد ﷺ کی تھوک کو منہ پر مل لینا” (1) چاند کا شق ہوجانا (2) اونٹھ کا پیشاپ پینا ( جس کی وجہ سے فقہاء آج تک ایک دوسرے سے دست وگریباں ہیں…

    سوال یہ ہے کہ کیا دو سو سال بعد محمد ﷺ کے بارے یا ان سے منسوب باتیں درست ہوسکتی ہیں؟؟ خاص طور سے جبکہ انہیں نقل کرنے والے لوگ جنہیں راوی کہا جاتا ہے عام انسان ہی تھے چنانچہ بھولنا، مختلف باتوں کا گڈمڈ ہونا، کسی بات کا اضافہ ہوجانا، اپنی مرضی کی بات کہنا یا سیاسی مفاد کی خاطر کوئی بات شامل کرنا یا گھڑنا سب ممکن ہے.

    اسی طرح یہ سوال بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ احادیث کا انتخاب اور ان کی تدوین کس طرح کی گئی؟ کہا جاتا ہے کہ بخاری نے ان احادیث کو سند کی درستگی کی بنیاد پر منتخب کیا جسے عنعنہ کہا جاتا ہے یعنی فلان نے علان سے اور علان نے خلکان سے اور خلکان نے جرمان سے… یوں ایک سے دو درجن حضرات کے نام گنوا کر اصل کہنے والے تک پہنچا جاتا ہے یعنی محمد ﷺ، مطلب یہ ہے کہ سند حدیث کے راویوں کا ایک سلسلہ ہے جو کہ بخاری ودیگر کے ہاں حدیث کا ستون ہے، اگر کوئی ستون گرجائے تو حدیث بھی ساتھ میں زمیں بوس ہوجاتی ہے، اور اگر سند درست ہو تو اس سے قطع نظر کہ حدیث کا مضمون کیا ہے حدیث کو ہر صورت قبول کر لیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے بخاری ودیگر احادیث کی کتابوں میں عجیب وغریب بلکہ بعض اوقات تباہ کن احادیث ملتی ہیں.

    یہ بھی فرمایا جاتا ہے کہ بخاری کی کچھ احادیث محض معنی کے حساب سے مروی ہیں یعنی بخاری نے ان احادیث کو ان الفاظ میں پیش نہیں کیا جیسا کہ انہوں نے انہیں نقل کرنے والوں سے سنا تھا، اس کی وجہ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ: “کوئی حدیث بصرہ میں سنی اور شام میں لکھی، کوئی حدیث شام میں سنی اور مصر میں لکھی” بلکہ اعلام النبلاء میں تو یہ بات کچھ یوں بیان ہے: “احید بن ابی جعفر والی بخاری نے کہا: محمد بن اسماعیل نے ایک دن کہا: کوئی حدیث بصرہ میں سنی اور شام میں لکھی، اور کوئی حدیث شام میں سنی اور مصر میں لکھی. میں نے ان سے کہا: اے ابا عبد اللہ کیا اسی کمال کے ساتھ؟ کہا: وہ خاموش ہوگئے” (5).

    تاہم معمولی سی جانچ سے ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ بخاری ودیگر کی احادیث میں کوئی سچائی نہیں ہے.. کیسے؟

    1- اس میں شک نہیں کہ کوئی خبر اگر راویوں کے درمیان طویل عرصے تک گردش کرتی رہے تو اس میں تبدیلی آجاتی ہے، علم الاعلام میں اسے “خبر کی تحریف” کہا جاتا ہے اور اس کی جانچ کے لیے “سرگوشی کا کھیل” کھیلا جاتا ہے جس میں پہلا شخص کوئی جملہ ایجاد کر کے دوسرے کو سرگوشی میں بتاتا ہے اور دوسرا تیسرے کو اور تیسرا چوتھے کو اور اسی طرح یہ کھیل چلتا رہتا ہے حتی کہ وہ جملہ گھوم پھر کر واپس پہلے شخص کے پاس آتا ہے تب سب پر اصل جملے میں تحریف کا انکشاف ہوتا ہے، اس تحریف کی عام مثال ذرائع ابلاغ ہیں جہاں ایک ہی خبر کو مختلف اخبارات اور چینل اس طرح سے پیش کرتے ہیں کہ اصل خبر بیچ میں ہی کہیں گم ہوجاتی ہے، اور عام آدمی کو پتہ ہی نہیں چل پاتا کہ اصل خبر یا بیان دراصل تھا کیا؟

    2- محمد ﷺ سے احادیث روایت کرنے والے سب سے بڑے راوی کون ہیں؟ یہ ابو ہریرہ اور عبد اللہ بن عباس ہیں، ابو ہریرہ تو محمد ﷺ سے احادیث کی روایت میں سب پر سبقت لے گئے اور کوئی 5374 احادیث روایت کیں، حالانکہ وہ محمد ﷺ کے ساتھ محض تین سال رہے!! جبکہ عبد اللہ بن عباس نے محمد ﷺ سے کوئی 1660 احادیث روایت کیں حالانکہ محمد ﷺ کی وفات کے وقت ان کی عمر محض 13 سال تھی!! قابلِ غور بات یہ ہے کہ ایک کی محمد ﷺ سے رفاقت محض 3 سال رہی جبکہ دوسرا محمد ﷺ کی وفات کے وقت محض بچہ تھا تو کیا ان دونوں میں اتنی قدرت تھی کہ وہ ایک طویل عرصے تک اتنا سارا ڈیٹا اپنے دماغ میں لے کر گھومتے رہیں اور محمد ﷺ کی وفات کے بعد اسے محض یادداشت پر انحصار کرتے ہوئے “ری سٹور” کر سکیں؟؟

    جدید علمی تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ انسان کی یادداشت میں معلومات کی محفوظگی اور ان کی بحالی نامکمل ہوتی ہے، یہ بہت سارے اندرونی وبیرونی عوامل سے اثر انداز ہوتی ہے، مثلاً انسان اپنی یادداشت میں واقعات کو محفوظ کر سکتا ہے مگر جب انہیں واپس بلاتا ہے تو وہم اور حقیقت میں تمیز مشکل ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے اصل یادداشت کے بعض عناصر ضائع ہوجاتے ہیں، 1600 طالب عملوں پر کی جانی والی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ ان میں سے 20% طالب علموں نے ایسی یادداشتیں محفوظ کر رکھی تھیں جن کی کوئی حقیقی بنیاد نہیں تھی بلکہ یہ ایسے واقعات تھے جو کبھی وقوع پذیر ہی نہیں ہوئے یعنی وہم (6).

    3- پتہ نہیں ابو ہریرہ اور عبد اللہ بن عباس کو راویوں کی فہرست میں کیوں شامل کیا گیا جبکہ حدیث کو قبول کرنے کی اولین شرط یہ ہے کہ راوی کی ساکھ اچھی ہونی چاہیے، تاریخ کی کتابیں ہمیں بتاتی ہیں کہ ابو ہریرہ نے بحرین کے مال میں کرپشن کی اور بن عباس نے بصرہ کے مال میں کرپشن کی (7) کیا عوام کا مال کھا کر بھی انسان کی ساکھ باقی رہتی ہے؟ کیا کرپٹ لوگوں سے حدیث لی جاسکتی ہے؟ اگر ان دونوں حضرات سے مروی احادیث ساقط کردی جائیں تو احادیث کی کتابوں میں کیا بچے گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے.

    4- سارے قدیم وجدید علمائے حدیث جانتے ہیں کہ 99% احادیث “ظنیہ الثبوت” (قیاساً ثابت شدہ) ہیں یعنی کوئی بھی یہ قطعی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ یہ ساری باتیں محمد ﷺ نے اپنے منہ سے کہی تھیں چاہے اس کی سند درست اور متواتر ہی کیوں نہ ہو.. اس کی وجہ بڑی سادہ سی ہے، کیونکہ محمد ﷺ نے انہیں اپنے دور میں مدون نہیں کیا اور نا ہی چاروں خلفاء نے انہیں اپنے دور میں مدون کیا اسی وجہ سے یہ ظنی ہیں، یعنی اگر ہم فیصد کے حساب سے شرح نکالنا چاہیں کہ یہ ساری احادیث محمد ﷺ نے ہی اپنی زبان سے کہی ہیں تو یہ شرح انتہائی کم ہوگی (0.001%).

    اتنے کم امکانات کے باوجود بھی احادیث کو اتنی مقدس حیثیت حاصل رہی ہے کہ یہ قرآن کے احکامات تک کو منسوخ کردیتی ہیں، مختلف اسلامی فرقوں کی بنیاد اور ان کے آپس کے اختلافات بھی انہی احادیث کی وجہ سے ہیں، احادیث ہی مسلم معاشروں کی طرز زندگی کا تعین کرتی ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا محض اندازوں پر معاشروں کو چلایا جاسکتا ہے؟ کیا محض قیاسات پر قوانین وضع کیے جاسکتے ہیں؟ اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہم چودہ سو بتیس سال بعد بھی ایسی احادیث پر یقین رکھ سکتے ہیں؟

    ———————————-
    حوالہ جات:
    1- بخاری جلد 3 صفحہ 564 ـ 565.
    2- بخاری جلد 4 صفحہ 533.
    3- بخاری 2855 مسلم 1671.
    4- بخاری، حدیث 4698.

    Last edited by Jamil Akhter; 7 July 2012, 14:18.
    ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
    سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

  • #2
    Re: حدیث کی مصداقیت


    ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی ایسے صحابی ہیں جن کی بیان کردہ اکثر احادیث فقہ کے مسائل کے خلاف ہیں اس لیے ان احادیث سے جان چھڑانے کی یہی واحد صورت رہ گئی تھی کہ ان
    کو ہی غیر فقیہ کہ دیا جائے- اس طرح حدیث کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کیا جاتا رہا

    اگر احادیث کی اتنی حفاظت ہوئی ہے تو پھرامام بخاری نے چھ لاکھ احادیث میں سے صرف 7397احادیث کا انتخاب کیوں کیااور باقی کو ردّی کی ٹوکری میں کیوں پھینکا؟


    پہلے تو چھ لاکھ احادیث کی حیثیت سمجھئے محدثین کی اصطلاح میں ہر سند کو حدیث کہاجاتاہے مثلاً رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بات فرمائی جو پانچ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ نے سنی ہر صحابی نے اپنے 5,5شاگردوں کو وہ بات سنائی اس طرح تابعین تک اسکی 25اسناد بن گئیں اب اگر تابعی راوی اپنے 10,10شاگردوں کو روایت بیان کرے تو اس طرح اس حدیث کی 250اسناد بن گئیں محدثین کی اصطلاح میں یہ 250احادیث کہلاتی ہیں اس لئے امام بخاری فرماتے ہیں ۔

    مجھے ایک لاکھ صحیح احادیث یاد ہیں (مقدمہ ابن صلاح) اس کا مطلب ہے ایک لاکھ صحیح اسناد یاد ہیں ان ایک لاکھ میں سے 7397اسناد صحیح بخاری میں درج کرلیں اور یہ بھی درست ہے کہ بعض راویوں نے دین اسلام میں گمراہ کن عقائد داخل کرنے کے لئے حدیث کا سہارا لیا اسی لئے ضعیف اور من گھڑت روایات کی کثرت ہے مگر محدثین نے ایسے اصول مقرر کئے کہ کوئی من گھڑت روایت حدیث کادرجہ نہ پاسکی ۔

    امام بخاری رحمہ اﷲ اور امام مسلم رحمہ اﷲ نے صرف احادیث صحیح جمع کرکے دین پر چلنے والوں کے لئے مزید آسانی کر دی ۔
    Attached Files
    Last edited by lovelyalltime; 7 July 2012, 17:28.

    Comment


    • #3
      Re: حدیث کی مصداقیت

      Originally posted by Sub-Zero View Post
      اہلِ سنت کے اسلام میں صحیح بخاری قرآن کے بعد سب سے زیادہ درست ترین کتاب مانی جاتی ہے اور حدیث کی پہلی باقاعدہ تصنیف ہے، بخاری 194 ہجری کو پیدا ہوئے تھے جبکہ احادیث کی تدوین انہوں نے 16 سال کی عمر میں شروع کی تھی یعنی کوئی 210 ہجری کو، اور 256 ہجری کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے تاہم کوچ کرنے سے پہلے انہوں نے کوئی چھ لاکھ احادیث جمع کیں جن میں سے مکرر سمیت محض 7397 احادیث کو صحیح کا رتبہ بخشا!! اتنی چھان پھٹک کے باوجود پھر بھی اس سنتِ صحیحہ میں عجیب وغریب احادیث ملتی ہیں جیسے “محمد ﷺ کی تھوک کو منہ پر مل لینا” (1) چاند کا شق ہوجانا (2) اونٹھ کا پیشاپ پینا ( جس کی وجہ سے فقہاء آج تک ایک دوسرے سے دست وگریباں ہیں…

      سوال یہ ہے کہ کیا دو سو سال بعد محمد ﷺ کے بارے یا ان سے منسوب باتیں درست ہوسکتی ہیں؟؟ خاص طور سے جبکہ انہیں نقل کرنے والے لوگ جنہیں راوی کہا جاتا ہے عام انسان ہی تھے چنانچہ بھولنا، مختلف باتوں کا گڈمڈ ہونا، کسی بات کا اضافہ ہوجانا، اپنی مرضی کی بات کہنا یا سیاسی مفاد کی خاطر کوئی بات شامل کرنا یا گھڑنا سب ممکن ہے.

      اسی طرح یہ سوال بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ احادیث کا انتخاب اور ان کی تدوین کس طرح کی گئی؟ کہا جاتا ہے کہ بخاری نے ان احادیث کو سند کی درستگی کی بنیاد پر منتخب کیا جسے عنعنہ کہا جاتا ہے یعنی فلان نے علان سے اور علان نے خلکان سے اور خلکان نے جرمان سے… یوں ایک سے دو درجن حضرات کے نام گنوا کر اصل کہنے والے تک پہنچا جاتا ہے یعنی محمد ﷺ، مطلب یہ ہے کہ سند حدیث کے راویوں کا ایک سلسلہ ہے جو کہ بخاری ودیگر کے ہاں حدیث کا ستون ہے، اگر کوئی ستون گرجائے تو حدیث بھی ساتھ میں زمیں بوس ہوجاتی ہے، اور اگر سند درست ہو تو اس سے قطع نظر کہ حدیث کا مضمون کیا ہے حدیث کو ہر صورت قبول کر لیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے بخاری ودیگر احادیث کی کتابوں میں عجیب وغریب بلکہ بعض اوقات تباہ کن احادیث ملتی ہیں.

      یہ بھی فرمایا جاتا ہے کہ بخاری کی کچھ احادیث محض معنی کے حساب سے مروی ہیں یعنی بخاری نے ان احادیث کو ان الفاظ میں پیش نہیں کیا جیسا کہ انہوں نے انہیں نقل کرنے والوں سے سنا تھا، اس کی وجہ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ: “کوئی حدیث بصرہ میں سنی اور شام میں لکھی، کوئی حدیث شام میں سنی اور مصر میں لکھی” بلکہ اعلام النبلاء میں تو یہ بات کچھ یوں بیان ہے: “احید بن ابی جعفر والی بخاری نے کہا: محمد بن اسماعیل نے ایک دن کہا: کوئی حدیث بصرہ میں سنی اور شام میں لکھی، اور کوئی حدیث شام میں سنی اور مصر میں لکھی. میں نے ان سے کہا: اے ابا عبد اللہ کیا اسی کمال کے ساتھ؟ کہا: وہ خاموش ہوگئے” (5).

      تاہم معمولی سی جانچ سے ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ بخاری ودیگر کی احادیث میں کوئی سچائی نہیں ہے.. کیسے؟

      1- اس میں شک نہیں کہ کوئی خبر اگر راویوں کے درمیان طویل عرصے تک گردش کرتی رہے تو اس میں تبدیلی آجاتی ہے، علم الاعلام میں اسے “خبر کی تحریف” کہا جاتا ہے اور اس کی جانچ کے لیے “سرگوشی کا کھیل” کھیلا جاتا ہے جس میں پہلا شخص کوئی جملہ ایجاد کر کے دوسرے کو سرگوشی میں بتاتا ہے اور دوسرا تیسرے کو اور تیسرا چوتھے کو اور اسی طرح یہ کھیل چلتا رہتا ہے حتی کہ وہ جملہ گھوم پھر کر واپس پہلے شخص کے پاس آتا ہے تب سب پر اصل جملے میں تحریف کا انکشاف ہوتا ہے، اس تحریف کی عام مثال ذرائع ابلاغ ہیں جہاں ایک ہی خبر کو مختلف اخبارات اور چینل اس طرح سے پیش کرتے ہیں کہ اصل خبر بیچ میں ہی کہیں گم ہوجاتی ہے، اور عام آدمی کو پتہ ہی نہیں چل پاتا کہ اصل خبر یا بیان دراصل تھا کیا؟

      2- محمد ﷺ سے احادیث روایت کرنے والے سب سے بڑے راوی کون ہیں؟ یہ ابو ہریرہ اور عبد اللہ بن عباس ہیں، ابو ہریرہ تو محمد ﷺ سے احادیث کی روایت میں سب پر سبقت لے گئے اور کوئی 5374 احادیث روایت کیں، حالانکہ وہ محمد ﷺ کے ساتھ محض تین سال رہے!! جبکہ عبد اللہ بن عباس نے محمد ﷺ سے کوئی 1660 احادیث روایت کیں حالانکہ محمد ﷺ کی وفات کے وقت ان کی عمر محض 13 سال تھی!! قابلِ غور بات یہ ہے کہ ایک کی محمد ﷺ سے رفاقت محض 3 سال رہی جبکہ دوسرا محمد ﷺ کی وفات کے وقت محض بچہ تھا تو کیا ان دونوں میں اتنی قدرت تھی کہ وہ ایک طویل عرصے تک اتنا سارا ڈیٹا اپنے دماغ میں لے کر گھومتے رہیں اور محمد ﷺ کی وفات کے بعد اسے محض یادداشت پر انحصار کرتے ہوئے “ری سٹور” کر سکیں؟؟

      جدید علمی تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ انسان کی یادداشت میں معلومات کی محفوظگی اور ان کی بحالی نامکمل ہوتی ہے، یہ بہت سارے اندرونی وبیرونی عوامل سے اثر انداز ہوتی ہے، مثلاً انسان اپنی یادداشت میں واقعات کو محفوظ کر سکتا ہے مگر جب انہیں واپس بلاتا ہے تو وہم اور حقیقت میں تمیز مشکل ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے اصل یادداشت کے بعض عناصر ضائع ہوجاتے ہیں، 1600 طالب عملوں پر کی جانی والی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ ان میں سے 20% طالب علموں نے ایسی یادداشتیں محفوظ کر رکھی تھیں جن کی کوئی حقیقی بنیاد نہیں تھی بلکہ یہ ایسے واقعات تھے جو کبھی وقوع پذیر ہی نہیں ہوئے یعنی وہم (6).

      3- پتہ نہیں ابو ہریرہ اور عبد اللہ بن عباس کو راویوں کی فہرست میں کیوں شامل کیا گیا جبکہ حدیث کو قبول کرنے کی اولین شرط یہ ہے کہ راوی کی ساکھ اچھی ہونی چاہیے، تاریخ کی کتابیں ہمیں بتاتی ہیں کہ ابو ہریرہ نے بحرین کے مال میں کرپشن کی اور بن عباس نے بصرہ کے مال میں کرپشن کی (7) کیا عوام کا مال کھا کر بھی انسان کی ساکھ باقی رہتی ہے؟ کیا کرپٹ لوگوں سے حدیث لی جاسکتی ہے؟ اگر ان دونوں حضرات سے مروی احادیث ساقط کردی جائیں تو احادیث کی کتابوں میں کیا بچے گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے.

      4- سارے قدیم وجدید علمائے حدیث جانتے ہیں کہ 99% احادیث “ظنیہ الثبوت” (قیاساً ثابت شدہ) ہیں یعنی کوئی بھی یہ قطعی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ یہ ساری باتیں محمد ﷺ نے اپنے منہ سے کہی تھیں چاہے اس کی سند درست اور متواتر ہی کیوں نہ ہو.. اس کی وجہ بڑی سادہ سی ہے، کیونکہ محمد ﷺ نے انہیں اپنے دور میں مدون نہیں کیا اور نا ہی چاروں خلفاء نے انہیں اپنے دور میں مدون کیا اسی وجہ سے یہ ظنی ہیں، یعنی اگر ہم فیصد کے حساب سے شرح نکالنا چاہیں کہ یہ ساری احادیث محمد ﷺ نے ہی اپنی زبان سے کہی ہیں تو یہ شرح انتہائی کم ہوگی (0.001%).

      اتنے کم امکانات کے باوجود بھی احادیث کو اتنی مقدس حیثیت حاصل رہی ہے کہ یہ قرآن کے احکامات تک کو منسوخ کردیتی ہیں، مختلف اسلامی فرقوں کی بنیاد اور ان کے آپس کے اختلافات بھی انہی احادیث کی وجہ سے ہیں، احادیث ہی مسلم معاشروں کی طرز زندگی کا تعین کرتی ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا محض اندازوں پر معاشروں کو چلایا جاسکتا ہے؟ کیا محض قیاسات پر قوانین وضع کیے جاسکتے ہیں؟ اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہم چودہ سو بتیس سال بعد بھی ایسی احادیث پر یقین رکھ سکتے ہیں؟

      ———————————-
      حوالہ جات:
      1- بخاری جلد 3 صفحہ 564 ـ 565.
      2- بخاری جلد 4 صفحہ 533.
      3- بخاری 2855 مسلم 1671.
      4- بخاری، حدیث 4698.






      کیا 250سال تک احادیث تحریر میں نہیں آئیں؟



      یہ صرف منکرین حدیث کا پروپیگنڈہ ہے خلفائے راشدین اورصحابہ نے احادیث کی حفاظت کا خاص اہتمام کیاپھر تابعین کے دور میں کئی کتب لکھی گئیں موطا امام مالک اب بھی موجود ہے جو صرف 100سال بعد لکھی گئی ان کی عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کی روایت میں صرف امام نافع راوی ہیں انس رضی اﷲ عنہ کی روایت میں امام زہری راوی ہیں غرض موطا میں سینکڑوں سندیں ایسی ہیں جن میں صحابہ اور امام مالک کے درمیان ایک یا دو راوی ہیں اور وہ زبردست امام تھے۔

      امام بخاری سے پہلے کی کتب صحیفہ ہمام صحیفہ صادقہ، مسند احمد، مسند حمیدی، موطا مالک مصنف ابن ابی شیبہ، مصنف عبدالرزاق ، موطا محمد ،مسند شافعی آج بھی موجود ہیں دیگر ائمہ نے بھی درس و تدریس کا ایسا اہتمام کیا ہوا تھا کہ کوئی کذاب حدیث گھڑ کر احادیث صحیحہ میں شامل نہ کر سکا۔جس نے احادیث گھڑ کر صحیح احادیث میں شامل کرنے کی کوشش کی اسکی کوشش کامیاب نہ ہوسکی وہ جھوٹی روایت پکڑی گئی







      کیا صحابہ کرام نے بھی احادیث لکھیں ؟


      جی ہاں خود رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو احادیث لکھوائیں آپ نے عبداﷲ بن عمر سے فرمایا
      ’’احادیث لکھا کرو قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس منہ سے حق کے سوا کوئی بات نہیں نکلتی ‘‘۔(ابو داؤد جلد 1صفحہ 158)

      انس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے جب ان کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا تو زکوۃ کے فرائض لکھ کر دیئے ۔(بخاری کتاب الزکوۃ ) حماد بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ کتاب انس رضی اﷲ عنہ کے پوتے ثمامہ سے حاصل کی ۔(نسائی کتاب الزکوۃ)

      خلیفہ الثانی عمر رضی اﷲ عنہ نے بھی زکوۃ کے متعلق ایک کتاب تحریر فرمائی تھی امام مالک فرماتے ہیں کہ میں نے عمر رضی اﷲ عنہ کی کتاب پڑھی ۔(موطا امام مالک صفحہ 109)

      علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں ہمارے پاس کوئی چیز نہیں سوائے کتاب اﷲ کے اور اس صحیفہ کے جس میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلمکی احادیث ہیں ۔(بخاری و مسلم کتاب الحج )

      ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ میں سے کوئی شخص مجھ سے زیادہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بیان نہیں کرتاسوائے عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کے اسلئے کہ وہ لکھا کرتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔(بخاری )


      عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کی یہ کتاب ان کی اولاد میں منتقل ہوتی رہی اوران کے پڑپوتے عمرو بن شعیب رحمۃ اﷲ علیہ سے محدثین رحمۃ اﷲ علیہ نے اخذکرکے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لیا ایسے واقعات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ سے مروی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ احادیث کو لکھا کرتے تھے ۔

      مثلاً عبداﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں طرف بیٹھے ہوئے لکھ رہے تھے اسی اثناء میں آپ سے پوچھا گیا کہ کون سا شہر پہلے فتح ہوگا؟قسطنطنیہ یا رومیہ ؟آپ نے فرمایا ہرقل کا شہر قسطنطنیہ (دارمی صفحہ 126)




      کیارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث کی کتابت بھی کروائی؟


      رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر احادیث لکھوائیں چند حوالے ملاحظہ فرمائیں

      (1) عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب الصدقۃ تحریر کروائی امام محمد بن مسلم فرماتے ہیں آپ کی یہ کتاب عمر رضی اﷲ عنہ کے خاندان کے پاس تھی اور مجھے عمر رضی اﷲ عنہ کے پوتے سالم نے یہ کتاب پڑھائی اور میں نے ا س کو پوری طرح محفوظ کرلیا ۔ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اﷲ علیہ نے ا س کتاب کو عمر رضی اﷲ عنہ کے پوتوں سالم اور عبداﷲ سے لے کر لکھوایا۔ (ابو داؤد کتاب الزکوۃ)

      (2) ابو راشد الحزنی فرماتے ہیں کہ عبداﷲ بن عمرو بن عاص نے میرے سامنے ایک کتاب رکھی اور فرمایا یہ وہ کتاب ہے جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوا کر مجھے دی تھی (ترمذی ابواب الدعوات)

      (3) موسی بن طلحہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس وہ کتاب ہے جو معاذ کیلئے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوائی تھی(الدارقطنی فی کتاب الزکوۃ) خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے اس کتاب کو منگوایا اور اس کو سنا(مصنف ابن ابی شیبہ نصب الرایہ کتاب الزکوۃ جلد 2صفحہ 352)

      (4) جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن حزم کو یمن کا عامل بنا کر بھیجا تو اہل یمن کیلئے ایک کتاب بھی لکھوا کر دی جس میں فرائض سنت اور دیت کے مسائل تحریر تھے امام زہری فرماتے ہیں کہ میں نے اس کتاب کو پڑھا یہ کتاب ابوبکر بن حزم کے پاس تھی سعید بن مسیّب نے بھی اس کتاب کوپڑھا (نسائی جلد دوم صفحہ 218)








      Comment


      • #4
        Re: حدیث کی مصداقیت

        jazakAllah khair

        Comment

        Working...
        X