السلامُ علیکم محترم دوستو! ایک اسلامی واقعہ کسی نہ کسی اردو فورم پر اکثر پڑھنے کو ملتا ہے۔ جو کچھ یوں ہے:
حضرت اویس قرنی کوجناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے بےحدعشق ومحبت تھی چنانچہ جب حضور صلعم کے صحابہ (رضی اللہ عنہم) نے ان سے ملاقات کی توحضرت اویس رحمۃ اللہ نے ان سے کہاکہ آپ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں یہ بتائیے کہ جنگ احد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کاکون سا دانت مبارک شہیدہواتھا۔آپ نے اتباعِ سنت میں اپنے تمام دانت کیوں نہ توڑ ڈالے ؟یہ کہہ کراپنے تمام ٹوٹے ہوئے دانت دکھاکرکہاکہ جب دانت مبارک شہیدہوا تومیں نے اپناایک دانٹ توڑ ڈالاپھرخیال آیاکہ شاید کوئی دوسرادانت شہید ہوا ہواسی طرح ایک ایک کرکے جب تمام دانت توڑ ڈالے اس وقت مجھے سکون نصیب ہوا۔ یہ دیکھ کرحضور صلعم کے صحابہ پررقت طاری ہوگئی ۔حضرت اویس قرنی اگرچہ زیارت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرف نہ ہوسکے لیکن اتباع رسالت کامکمل حق اد اکرگئے اور دنیاکونبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق ومحبت دیتے ہوئے رخصت ہوئے ۔
درج بالا واقعہ پر تھوڑا سا اگر ہم غور کر لیں یا تھوڑی سی تحقیق کر لیں تو اس واقعے کے جھوٹا ہونے کا یقین ہو جائے گا۔ اور معلوم ہو جائے گا کہ کس طرح ایک عظیم تابعی حضرت اویس قرنی رحمة اللہ پر اس طرح بہتان لگایا گیا ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ کہ اس واقعے میں خود کے دانت توڑ لینے کو "اتباعِ رسول (صلی)" سے تشبیہ دی گئی ہے۔ جبکہ صاحبِ قرآن (صلی اللہ علیہ وسلم) نے قرآن کی جو تعلیم دی ہے ، اس کے مطابق ارشاد الٰہی ہے:
وَلاَ تُلْقُواْ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ
اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو
(سورہ بقرہ ، 195)
اور قرآن یہ بھی کہتا ہے:
لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ
بےشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔۔۔۔
(سورہ توبہ ، 128)
اپنے ہی دانت توڑ لینا تو خود کو تکلیف و مشقت میں ڈالنا ہے جس کی قرآن ممانعت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو یہ بات گراں گزرتی ہے۔ تو کیا وہ تابعی جو صحابہ کی جماعت کے بعد قرآن کو زیادہ بہتر جاننے والوں میں سے تھے ، کیا وہ اس طرح قرآن کی حکمت کے خلاف عمل کر سکتے تھے؟
اور دوسری اہم بات یہ کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس واقعے میں ایک تابعی اپنے عمل کے ذریعے حضرات صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت کی برتری جتا رہے ہیں۔ کیا یہ بات قابلِ قبول ہے؟ اس صورت میں بھی جب کہ ہمارے پاس صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کے فضائل میں بیشمار صحیح احادیث ہیں۔ جیسے یہی ایک دیکھ لیں :
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی عظمت اور رتبے کے بارے میں فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ :
تم میں سے کوئی شخص اگر احد پہاڑ جتنا سونا بھی اللہ کی راہ میں خرچ کر دے تب بھی وہ کسی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خرچ کردہ آدھے مُد (ایک مُد = تقریباً ایک سیر) کے برابر نہیں ہو سکتا !
صحيح بخاري ، كتاب فضائل الصحابة ، باب : فضائل اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم
قرآن اور حدیث کی درج بالا تعلیمات کی روشنی میں ہمارے لیے ضروری ہے کہ اس واقعے کے جھوٹے ہونے کا یقین کریں اور اپنے دیگر احباب کو بھی ایسے بےسند اور من گھڑت واقعات کو بیان کرنے سے بچنے کی ترغیب دلائیں۔
حضرت اویس قرنی کوجناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے بےحدعشق ومحبت تھی چنانچہ جب حضور صلعم کے صحابہ (رضی اللہ عنہم) نے ان سے ملاقات کی توحضرت اویس رحمۃ اللہ نے ان سے کہاکہ آپ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں یہ بتائیے کہ جنگ احد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کاکون سا دانت مبارک شہیدہواتھا۔آپ نے اتباعِ سنت میں اپنے تمام دانت کیوں نہ توڑ ڈالے ؟یہ کہہ کراپنے تمام ٹوٹے ہوئے دانت دکھاکرکہاکہ جب دانت مبارک شہیدہوا تومیں نے اپناایک دانٹ توڑ ڈالاپھرخیال آیاکہ شاید کوئی دوسرادانت شہید ہوا ہواسی طرح ایک ایک کرکے جب تمام دانت توڑ ڈالے اس وقت مجھے سکون نصیب ہوا۔ یہ دیکھ کرحضور صلعم کے صحابہ پررقت طاری ہوگئی ۔حضرت اویس قرنی اگرچہ زیارت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرف نہ ہوسکے لیکن اتباع رسالت کامکمل حق اد اکرگئے اور دنیاکونبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق ومحبت دیتے ہوئے رخصت ہوئے ۔
درج بالا واقعہ پر تھوڑا سا اگر ہم غور کر لیں یا تھوڑی سی تحقیق کر لیں تو اس واقعے کے جھوٹا ہونے کا یقین ہو جائے گا۔ اور معلوم ہو جائے گا کہ کس طرح ایک عظیم تابعی حضرت اویس قرنی رحمة اللہ پر اس طرح بہتان لگایا گیا ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ کہ اس واقعے میں خود کے دانت توڑ لینے کو "اتباعِ رسول (صلی)" سے تشبیہ دی گئی ہے۔ جبکہ صاحبِ قرآن (صلی اللہ علیہ وسلم) نے قرآن کی جو تعلیم دی ہے ، اس کے مطابق ارشاد الٰہی ہے:
وَلاَ تُلْقُواْ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ
اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو
(سورہ بقرہ ، 195)
اور قرآن یہ بھی کہتا ہے:
لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ
بےشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔۔۔۔
(سورہ توبہ ، 128)
اپنے ہی دانت توڑ لینا تو خود کو تکلیف و مشقت میں ڈالنا ہے جس کی قرآن ممانعت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو یہ بات گراں گزرتی ہے۔ تو کیا وہ تابعی جو صحابہ کی جماعت کے بعد قرآن کو زیادہ بہتر جاننے والوں میں سے تھے ، کیا وہ اس طرح قرآن کی حکمت کے خلاف عمل کر سکتے تھے؟
اور دوسری اہم بات یہ کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس واقعے میں ایک تابعی اپنے عمل کے ذریعے حضرات صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت کی برتری جتا رہے ہیں۔ کیا یہ بات قابلِ قبول ہے؟ اس صورت میں بھی جب کہ ہمارے پاس صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کے فضائل میں بیشمار صحیح احادیث ہیں۔ جیسے یہی ایک دیکھ لیں :
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی عظمت اور رتبے کے بارے میں فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ :
تم میں سے کوئی شخص اگر احد پہاڑ جتنا سونا بھی اللہ کی راہ میں خرچ کر دے تب بھی وہ کسی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خرچ کردہ آدھے مُد (ایک مُد = تقریباً ایک سیر) کے برابر نہیں ہو سکتا !
صحيح بخاري ، كتاب فضائل الصحابة ، باب : فضائل اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم
قرآن اور حدیث کی درج بالا تعلیمات کی روشنی میں ہمارے لیے ضروری ہے کہ اس واقعے کے جھوٹے ہونے کا یقین کریں اور اپنے دیگر احباب کو بھی ایسے بےسند اور من گھڑت واقعات کو بیان کرنے سے بچنے کی ترغیب دلائیں۔
Comment