Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

شرعی استخارہ ،حقیقت اور حکم

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • شرعی استخارہ ،حقیقت اور حکم

    سوال: استخارہ کا معنی ومفہوم کیا ہے اور حدیث کی روشنی میں اس کا صحیح طریقہ کیا ہے،کیا ہرمعاملے میں استخارہ کرنا ضروری ہے، کسی کام سے پہلے استخارہ نہ کرنے والایااستخارہ کرنے کے بعد اگر کوئی شخص کسی وجہ سے اس پر عمل نہ کر سکے ،تو گنہگار تونہیں ہوگا؟،(منوراحمد نعیمی ،ملیر کالونی ،کراچی)۔

    جواب:
    استخارہ کے لفظی معنٰی ہیں: خیر طلب کرنا اور اس کے جامع معنٰی ہیں: وہ معاملہ جس کے نفع بخش یا نقصان دہ ہونے کا انسان اپنی عقل کی روشنی میں فیصلہ نہ کرسکے اور تردُّدمیں مبتلا ہوجائے کہ اسے کروں یا نہ کروں، تو اللہ تعالیٰ سے رہنمائی طلب کرے، اس کا تعلق ماضی کے معاملات سے نہیں ہے، مستقبل میں درپیش ایسے معاملات سے ہے،جن کو کرناہے۔ ایسے تمام معاملات جن کا خیر ہونا ،شریعت میں ثابت ہے، ان کے لئے استخارہ نہیں کیاجائے گا، جیسے نماز، روزہ، حج اور جہاد وغیرہ،فارسی کا مقولہ ہے " درکارِ خیر حاجتِ استخارہ نیست " ۔ہاں البتہ کسی کارِخیر کے لئے شریعت میں وقت مقرر نہیں ہے بلکہ توسُّع ہے،تو تعیینِ وقت کے لئے استخارہ کرسکتے ہیں۔ بنیادی طور پر استخارہ مباح امور میں ہوتا ہے، جیسے نکاح اپنی اصل کے اعتبار سے مشروع ہے اور سنت ہے اور بعض اشخاص کے لئے ان کے بشری احوال کے مطابق واجب کے درجے میں ہے، لیکن نکاح کے لئے کس کا انتخاب کیا جائے،اس کے لئے اگر کوئی پیغام یا پیشکش آئے،تو اس کے لئے استخارہ کیا جاسکتا ہے،
    حدیث پاک میں ہے:
    عن جابر رضی اﷲعنہ قال کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یعلمنا الاستخارۃ فی الامورکلھا کالسورۃ من القرآن اذاھم احدکم بالامر فلیرکع رکعتین من غیر الفریضۃ ثم یقول اللھم انی استخیرک بعلمک وأستقدرک بقدرتک وأسئلک من فضلک العظیم فانک تقدر ولااقدر، وتعلم ولااعلم، وانت علام الغیوب، اللھم ان کنت تعلم ان ھذالامر خیر لی فی دینی ومعاشی وعاقبۃ امری۔او قال فی عاجل امری واٰجلہ۔ فاقدرہ لی وان کنت تعلم أن ھذاالامرشرلی فی دینی ومعاشی وعاقبۃ امری اوقال فی عاجل أمری واٰجلہ فاصرفہ عنی واصرفنی عنہ واقدرلی الخیر حیث کان ثم ارضنی بہ ویسمی حاجتہ۔


    آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ حدیث پاک میں خواب میں کسی چیز کے نظر آنے یا نہ آنے کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی خواب کا آنا ضروری ہے۔ یہ بزرگوں اوراہل خیر کے اپنے اپنے تجربات ہیں، لیکن اگرخواب نظرآجائے،تو اس سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ مگر اصل چیز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرنے کے بعد جب دل کو کسی ایک جانب سکون و قرار نصیب ہوجائے تو اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھر پور اعتماد کرتے ہوئے اس کام کو کرلے، اللہ تعالیٰ اس میں برکت عطا فرمائے گا۔
    اور اگرخدانخواستہ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں کسی ناکامی کا سامان ہو،تو یہ جانے کہ اللہ تعالیٰ کی منشاکو سمجھنے میں مجھ سے خطاہوگئی ہے،اور یا یہ سمجھے کہ اگر اس کے برعکس کیا ہوتا توممکن ہے کہ (خدانخواستہ) اس سے بڑی ناکامی یا نقصان کا سامنا کرناپڑتا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

    عسیٰ ان تکرہوا شیئا وھو خیرلکم وعسیٰ ان تحبوا شیئا وھو شرلکم۔


    جو شخص اپنے درپیش مسئلے میں پانچ سات بار عاجزی سے اپنے رب کے حضورالتجا اورطلبِ خیر و دعا کے لئے ذہنی،فکری اور عملی طورپر آمادہ نہ ہو،وہ استخارے کی روح اورحقیقت کو سمجھا ہی نہیں۔ باقی وہ لوگ جو استخارے کے نام پر ماضی کے احوال بتاتے ہیں کہ کسی پر کالا جادو ہوگیا ہے،سفلی عمل کردیا گیا ہے،چند سیکنڈ میں یہ تمام غیبی امور ان پر منکشف ہوجاتے ہیں اور ایک ہی لمحے میں ان کا حل بھی نکل آتا ہے،اس کامجھے علم نہیں ہے، اس سے لوگ توہُّم پرستی اور تشکیک میں مبتلا ہوتے ہیں، تقدیرِ الہٰی پر رضا جومومن کا شعار ہونا چاہئے، اُس میں کمزوری واقع ہوتی ہے ۔پھر لوگ کسی مشکل صورتِ حال میں ،جب انہیں کوئی فیصلہ کن راہ سجھائی نہ دے،اللہ تعالیٰ کی ذات سے براہِ راست رجوع کرنے اور اس کے حبیبِ کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے توسُّل کے بجائے، اِس روش کو ترک کرکے، اِس طرح کے عاملوں سے رجوع کرتے ہیں۔استخارہ تومستقبل میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میںاللہ تعالیٰ سے رہنمائی طلب کر نے کا نام ہے ۔

    حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ درپیش معاملات اورمباح امو رمیں سے کسی ایک کے انتخاب کے لئے یاکسی کام کوکرنے یا نہ کرنے کے بارے میں استخارہ کرنا افضل اورمستحب ہے ،لیکن یہ واجب نہیں ہے کہ نہ کرنے پر گنہگارہوگا۔ اورویسے کسی مسئلے کے بارے میں دستیاب معلومات اورقرائن و شواہدکی روشنی میں یا اہل فن واہل نظر اوراہل اللہ سے مشورہ کرنے کے بعد ذہن میں یہ امر واضح ہوجائے کہ یہ کام کرلینا چاہئے،تو اللہ پر توکل کرکے کرلے،اور اللہ تعالیٰ سے اس میں کامیابی اور سرخ رو ہونے کی دعا کرتا رہے۔ واللہ اعلم ورسولہ

    (تفھیم المسائل جلد چہارم از مفتی منیب الرحمٰن مد ظلہ العالی )
    ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

  • #2
    Re: شرعی استخارہ ،حقیقت اور حکم

    Originally posted by aabi2cool View Post
    سوال: استخارہ کا معنی ومفہوم کیا ہے اور حدیث کی روشنی میں اس کا صحیح طریقہ کیا ہے،کیا ہرمعاملے میں استخارہ کرنا ضروری ہے، کسی کام سے پہلے استخارہ نہ کرنے والایااستخارہ کرنے کے بعد اگر کوئی شخص کسی وجہ سے اس پر عمل نہ کر سکے ،تو گنہگار تونہیں ہوگا؟،(منوراحمد نعیمی ،ملیر کالونی ،کراچی)۔

    جواب:
    استخارہ کے لفظی معنٰی ہیں: خیر طلب کرنا اور اس کے جامع معنٰی ہیں: وہ معاملہ جس کے نفع بخش یا نقصان دہ ہونے کا انسان اپنی عقل کی روشنی میں فیصلہ نہ کرسکے اور تردُّدمیں مبتلا ہوجائے کہ اسے کروں یا نہ کروں، تو اللہ تعالیٰ سے رہنمائی طلب کرے، اس کا تعلق ماضی کے معاملات سے نہیں ہے، مستقبل میں درپیش ایسے معاملات سے ہے،جن کو کرناہے۔ ایسے تمام معاملات جن کا خیر ہونا ،شریعت میں ثابت ہے، ان کے لئے استخارہ نہیں کیاجائے گا، جیسے نماز، روزہ، حج اور جہاد وغیرہ،فارسی کا مقولہ ہے " درکارِ خیر حاجتِ استخارہ نیست " ۔ہاں البتہ کسی کارِخیر کے لئے شریعت میں وقت مقرر نہیں ہے بلکہ توسُّع ہے،تو تعیینِ وقت کے لئے استخارہ کرسکتے ہیں۔ بنیادی طور پر استخارہ مباح امور میں ہوتا ہے، جیسے نکاح اپنی اصل کے اعتبار سے مشروع ہے اور سنت ہے اور بعض اشخاص کے لئے ان کے بشری احوال کے مطابق واجب کے درجے میں ہے، لیکن نکاح کے لئے کس کا انتخاب کیا جائے،اس کے لئے اگر کوئی پیغام یا پیشکش آئے،تو اس کے لئے استخارہ کیا جاسکتا ہے،
    حدیث پاک میں ہے:
    عن جابر رضی اﷲعنہ قال کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یعلمنا الاستخارۃ فی الامورکلھا کالسورۃ من القرآن اذاھم احدکم بالامر فلیرکع رکعتین من غیر الفریضۃ ثم یقول اللھم انی استخیرک بعلمک وأستقدرک بقدرتک وأسئلک من فضلک العظیم فانک تقدر ولااقدر، وتعلم ولااعلم، وانت علام الغیوب، اللھم ان کنت تعلم ان ھذالامر خیر لی فی دینی ومعاشی وعاقبۃ امری۔او قال فی عاجل امری واٰجلہ۔ فاقدرہ لی وان کنت تعلم أن ھذاالامرشرلی فی دینی ومعاشی وعاقبۃ امری اوقال فی عاجل أمری واٰجلہ فاصرفہ عنی واصرفنی عنہ واقدرلی الخیر حیث کان ثم ارضنی بہ ویسمی حاجتہ۔


    آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ حدیث پاک میں خواب میں کسی چیز کے نظر آنے یا نہ آنے کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی خواب کا آنا ضروری ہے۔ یہ بزرگوں اوراہل خیر کے اپنے اپنے تجربات ہیں، لیکن اگرخواب نظرآجائے،تو اس سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ مگر اصل چیز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرنے کے بعد جب دل کو کسی ایک جانب سکون و قرار نصیب ہوجائے تو اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھر پور اعتماد کرتے ہوئے اس کام کو کرلے، اللہ تعالیٰ اس میں برکت عطا فرمائے گا۔
    اور اگرخدانخواستہ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں کسی ناکامی کا سامان ہو،تو یہ جانے کہ اللہ تعالیٰ کی منشاکو سمجھنے میں مجھ سے خطاہوگئی ہے،اور یا یہ سمجھے کہ اگر اس کے برعکس کیا ہوتا توممکن ہے کہ (خدانخواستہ) اس سے بڑی ناکامی یا نقصان کا سامنا کرناپڑتا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

    عسیٰ ان تکرہوا شیئا وھو خیرلکم وعسیٰ ان تحبوا شیئا وھو شرلکم۔


    جو شخص اپنے درپیش مسئلے میں پانچ سات بار عاجزی سے اپنے رب کے حضورالتجا اورطلبِ خیر و دعا کے لئے ذہنی،فکری اور عملی طورپر آمادہ نہ ہو،وہ استخارے کی روح اورحقیقت کو سمجھا ہی نہیں۔ باقی وہ لوگ جو استخارے کے نام پر ماضی کے احوال بتاتے ہیں کہ کسی پر کالا جادو ہوگیا ہے،سفلی عمل کردیا گیا ہے،چند سیکنڈ میں یہ تمام غیبی امور ان پر منکشف ہوجاتے ہیں اور ایک ہی لمحے میں ان کا حل بھی نکل آتا ہے،اس کامجھے علم نہیں ہے، اس سے لوگ توہُّم پرستی اور تشکیک میں مبتلا ہوتے ہیں، تقدیرِ الہٰی پر رضا جومومن کا شعار ہونا چاہئے، اُس میں کمزوری واقع ہوتی ہے ۔پھر لوگ کسی مشکل صورتِ حال میں ،جب انہیں کوئی فیصلہ کن راہ سجھائی نہ دے،اللہ تعالیٰ کی ذات سے براہِ راست رجوع کرنے اور اس کے حبیبِ کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے توسُّل کے بجائے، اِس روش کو ترک کرکے، اِس طرح کے عاملوں سے رجوع کرتے ہیں۔استخارہ تومستقبل میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میںاللہ تعالیٰ سے رہنمائی طلب کر نے کا نام ہے ۔

    حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ درپیش معاملات اورمباح امو رمیں سے کسی ایک کے انتخاب کے لئے یاکسی کام کوکرنے یا نہ کرنے کے بارے میں استخارہ کرنا افضل اورمستحب ہے ،لیکن یہ واجب نہیں ہے کہ نہ کرنے پر گنہگارہوگا۔ اورویسے کسی مسئلے کے بارے میں دستیاب معلومات اورقرائن و شواہدکی روشنی میں یا اہل فن واہل نظر اوراہل اللہ سے مشورہ کرنے کے بعد ذہن میں یہ امر واضح ہوجائے کہ یہ کام کرلینا چاہئے،تو اللہ پر توکل کرکے کرلے،اور اللہ تعالیٰ سے اس میں کامیابی اور سرخ رو ہونے کی دعا کرتا رہے۔ واللہ اعلم ورسولہ

    (تفھیم المسائل جلد چہارم از مفتی منیب الرحمٰن مد ظلہ العالی )
    Jazak Allah...!! Bohut informative sharing hai.,..!!

    Abid Bhai....ye tu 'Istekhara' say mutaaliq maloomat aap nay faraham ki hain...

    Sahaba Kiram (R.z) ka qaoul hai....k akser jab Nabi Karim (S.A.W) ku 02 muaamlaat darpesh hotay jin main aik bazaahir qadray mushkil hota aur aik asaan hota tu aap (S.a.w) asaan kaam ku ikhtiar kertay thay.....main chahoon ga iss per bhi thoree see rooshni daliye....

    Waslam...Jawad


    Allah-o-Akbar Kabeera, Wal Hamdulillaah-e-Kaseera, Subhan Allah-e-Bukratan-wa-Aseela

    Comment


    • #3
      Re: شرعی استخارہ ،حقیقت اور حکم

      السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ
      بہت ہی عمدہ اور مددگار تحریر شئیر کرنےکا شکریہ
      فلحال لائٹ جانےوالی ہے اس لئےمکمل نہیں پڑھ پاوںگا۔استخارہ کو لےکر کچھ سوالات میرے زہن میں پچھلے ایک ہفتے سے ہیں لیکن کوئی مناسب زریعہ نہیں مل رہا تھا جہاں اپنی الجھن شئیر کر سکوں اب ان شاءاللہ یہ پوری تحریر پڑھ کر اپنے سوال لے کر حاضر ہوں گا
      اللہ جی آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائیں آمین
      :star1:

      Comment


      • #4
        Re: شرعی استخارہ ،حقیقت اور حکم

        السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ
        آبی بھائی اُمید ہےکہ خیروعافیت سے ہونگے ،پلیز جب کبھی آپ کا آنا ہو اور آپ ان سوالات کے جوابات دیں تو مجھے "پی ایم"ضرور کیجئے گا میں آپ کےجوابات کا منتطر رہوں گا
        سوال 1:۔اگر میں خود استخارہ نہ کروں اور نہ ہی کسی کو اس کے لئے کہوں تو کیا استخارے کے بعد کے جواب کی تمام پابندیاں مجھ پر لاگو ہونگی؟(کہنے کا مطلب کہ کسی نے میرے کہے بنا میرے مسلےپر استخارہ کیا اور میں اس کے استخارہ کے جواب سے مطمین نہیں "تو کیا میں گناہ گار ہوں گا ؟؟
        سوال نمبر2:۔اگر ایک ہی مسلے پر مختلف لوگ استخارہ کریں تو کیا جواب مختلف ہو سکتے ہیں؟
        سوال نمبر3:۔اگر جوابات مختلف ہوں تو کس کے جواب کو درست تصور کیا جائے گا؟
        سوال نمبر 4:۔کیا استخارہ کے جواب کی کوئی "لمٹ ہے؟"جیسے کہ ایک جواب نفی میں ہے تو کیا کچھ عرصے کچھ مہینوں یا سالوں بعد اسی مسلے پر دوبارہ استخارہ کیا جاسکتا ہے؟یا یہ کہ استخارہ کا جواب حتمی ہے اور یہ پوری زندگی پر لاگو ہوگا؟؟؟
        والسلام
        دعا ہے کہ آپ جلد واپس آئیں اور جوابات سے آگاہ کریں
        :star1:

        Comment


        • #5
          Re: شرعی استخارہ ،حقیقت اور حکم

          السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ
          آبی بھائی اُمید ہےکہ خیروعافیت سے ہونگے ،پلیز جب کبھی آپ کا آنا ہو اور آپ ان سوالات کے جوابات دیں تو مجھے "پی ایم"ضرور کیجئے گا میں آپ کےجوابات کا منتطر رہوں گا
          وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !

          سوال 1:۔اگر میں خود استخارہ نہ کروں اور نہ ہی کسی کو اس کے لئے کہوں تو کیا استخارے کے بعد کے جواب کی تمام پابندیاں مجھ پر لاگو ہونگی؟(کہنے کا مطلب کہ کسی نے میرے کہے بنا میرے مسلےپر استخارہ کیا اور میں اس کے استخارہ کے جواب سے مطمین نہیں "تو کیا میں گناہ گار ہوں گا ؟؟

          اول تو استخارہ خود ہی کرنا سنت ہے کسی سے کروانا جائز تو ہوگا مگر سنت نہیں لیکن اگر کسی نے آپ کے کہے بغیر آپ کے کسی مسئلہ پر استخارہ کیا تو اس پر آپ کا عمل کرنا کوئی فرض یا واجب نہیں ہوتا کیونکہ استخارہ تو کیا ہی اس وقت جاتا ہے کہ جب کسی آئندہ پیش آنے والے معاملہ میں آپ کا دل متعدد آراء میں سے کسی ایک پر مطمئن نہ ہو تب بندہ اپنے علم کو جھکا کر بارگاہ ایزدی میں التجا گزین ہوتا ہے کہ یا باری تعالٰی میں نے ایک بندہ ہونے کی حیثیت سے خوب کوشش کی مگر کسی نتیجہ پر نہ پہنچ سکا کیونکہ میں ناقص اور میرا علم ناقص جبکہ تو کامل ذات اور تیری صفت علم بھی کامل لہذا میرے لیے کوئی بہتر راستہ تجویز فرما اور میرے اس امر کو مجھ پر آسان کردے ۔ یہ ہوتا ہے استخارہ کا فلسفہ اب اگر بندہ کو کوئی خواب نظر آجائے یا بنا خواب کے دل اس معاملہ میں کسی جانب جھک جائے تو اسے اللہ کی رضا سمجھ کر عمل کرلے اگر طبعیت کے مواقف آجائے تو شکر الحمدللہ وگرنہ صبر کرنے والے تو ہمیشہ رب کے ساتھ ہیں
          ۔
          سوال نمبر2:۔اگر ایک ہی مسلے پر مختلف لوگ استخارہ کریں تو کیا جواب مختلف ہو سکتے ہیں؟


          سنت اور بہتر یہی ہے کہ اپنے ذاتی معاملات میں خود ہی استخارہ کیا جائے جبکہ ایک ہی مسئلہ میں متعدد لوگوں کا کیا گیا استخارہ بلاشبہ متعدد اشارات میں ہوسکتا ہے اور ایسی صورت میں استخارہ کرنے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا کیونکہ استخارہ کرنے سے قبل جو صورت حال تھی وہ بدستور قائم رہی یعنی استخارہ جو اس لیے کیا گیا تھا کہ کسی ایک رائے پر دل مطمئن ہو متعدد لوگوں سے کروانے کہ بعد متعدد جوابات آنے کہ بعد پھر بھی وہی حالت در آئی سو ایسے میں کیا گیا استخارہ حقیقتا استخارہ ہی نہ ہوا ۔

          ۔
          سوال نمبر3:۔اگر جوابات مختلف ہوں تو کس کے جواب کو درست تصور کیا جائے گا؟
          کسی پر بھی عمل نہیں کیا جائے گا بلکہ بہتر یہ ہے کہ خود استخارہ کرے اور اگر کوئی غیبی اشارہ نہ ملے اور دل بھی غیبی طور پر کسی ایک بات پر مطمئن نہ ہوتو پھر اپنی تمام تر فہم و فراست کو استعمال کرتے ہوئے جو بہتر سمجھے وہی فیصلہ کرلے اور بھروسہ اللہ ہی پر رکھے ۔



          سوال نمبر 4:۔کیا استخارہ کے جواب کی کوئی "لمٹ ہے؟"جیسے کہ ایک جواب نفی میں ہے تو کیا کچھ عرصے کچھ مہینوں یا سالوں بعد اسی مسلے پر دوبارہ استخارہ کیا جاسکتا ہے؟یا یہ کہ استخارہ کا جواب حتمی ہے اور یہ پوری زندگی پر لاگو ہوگا؟؟؟
          جی نہیں ایسی کوئی شرط استخارہ کرنے کہ بعد لاگو نہیں ہوتی باقی واللہ اعلم ورسولہ
          ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

          Comment


          • #6
            Re: شرعی استخارہ ،حقیقت اور حکم

            وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ
            ۔محترم آبی بھائی توجہ دینے اور سوال بہ سوال جواب دینے کا بہت بہت شکریہ
            میرے آخری سوال "کہ کیا استخارہ کا جواب پوری زندگی پر محیط ہوتا ہے "پر آپ کے جواب نے ایک ڈھارس دی ہے جس کے لئے میں آپ کا بہت مشکور ہوں"کاش اس جواب کو آپ تھوڑا تفصیل سے بیان کردیتے
            میں جن لوگوں کے ساتھ ہوں اُنہوں نے میرے کہے بنا میرے مسلے پر استخارہ کیا اور جب میں اُن کے جواب سے مطمین نہ ہوا تو وہ مسلسل مجھے یہ کہتے رہےکہ تم گناہ کے مرتکب ہو رہےہو،دوسرے یہ کہ اب اس مسلے پر دوبارہ استخارہ نہیں کیا جاسکتا ،آپ کے جواب سے میں دلی طور پر مطمئین ہوگیا ہوں اُمید ہےکہ اللہ جی میرے لئے وہ کریں گےجو میرے لئے بہتر ہوگا
            ایک مرتبہ پھر آپ کی توجہ کا بہت بہت شکریہ اللہ تعالیٰ آپ کے علم میںمزید اضافہ فرمائیں آمین
            :star1:

            Comment


            • #7
              Re: شرعی استخارہ ،حقیقت اور حکم

              abee2cool ne bilkul sahi aur tafsilee jawab diya hai
              jazakallah

              Comment

              Working...
              X