سوال: استخارہ کا معنی ومفہوم کیا ہے اور حدیث کی روشنی میں اس کا صحیح طریقہ کیا ہے،کیا ہرمعاملے میں استخارہ کرنا ضروری ہے، کسی کام سے پہلے استخارہ نہ کرنے والایااستخارہ کرنے کے بعد اگر کوئی شخص کسی وجہ سے اس پر عمل نہ کر سکے ،تو گنہگار تونہیں ہوگا؟،(منوراحمد نعیمی ،ملیر کالونی ،کراچی)۔
جواب:
استخارہ کے لفظی معنٰی ہیں: خیر طلب کرنا اور اس کے جامع معنٰی ہیں: وہ معاملہ جس کے نفع بخش یا نقصان دہ ہونے کا انسان اپنی عقل کی روشنی میں فیصلہ نہ کرسکے اور تردُّدمیں مبتلا ہوجائے کہ اسے کروں یا نہ کروں، تو اللہ تعالیٰ سے رہنمائی طلب کرے، اس کا تعلق ماضی کے معاملات سے نہیں ہے، مستقبل میں درپیش ایسے معاملات سے ہے،جن کو کرناہے۔ ایسے تمام معاملات جن کا خیر ہونا ،شریعت میں ثابت ہے، ان کے لئے استخارہ نہیں کیاجائے گا، جیسے نماز، روزہ، حج اور جہاد وغیرہ،فارسی کا مقولہ ہے " درکارِ خیر حاجتِ استخارہ نیست " ۔ہاں البتہ کسی کارِخیر کے لئے شریعت میں وقت مقرر نہیں ہے بلکہ توسُّع ہے،تو تعیینِ وقت کے لئے استخارہ کرسکتے ہیں۔ بنیادی طور پر استخارہ مباح امور میں ہوتا ہے، جیسے نکاح اپنی اصل کے اعتبار سے مشروع ہے اور سنت ہے اور بعض اشخاص کے لئے ان کے بشری احوال کے مطابق واجب کے درجے میں ہے، لیکن نکاح کے لئے کس کا انتخاب کیا جائے،اس کے لئے اگر کوئی پیغام یا پیشکش آئے،تو اس کے لئے استخارہ کیا جاسکتا ہے،
حدیث پاک میں ہے:
عن جابر رضی اﷲعنہ قال کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یعلمنا الاستخارۃ فی الامورکلھا کالسورۃ من القرآن اذاھم احدکم بالامر فلیرکع رکعتین من غیر الفریضۃ ثم یقول اللھم انی استخیرک بعلمک وأستقدرک بقدرتک وأسئلک من فضلک العظیم فانک تقدر ولااقدر، وتعلم ولااعلم، وانت علام الغیوب، اللھم ان کنت تعلم ان ھذالامر خیر لی فی دینی ومعاشی وعاقبۃ امری۔او قال فی عاجل امری واٰجلہ۔ فاقدرہ لی وان کنت تعلم أن ھذاالامرشرلی فی دینی ومعاشی وعاقبۃ امری اوقال فی عاجل أمری واٰجلہ فاصرفہ عنی واصرفنی عنہ واقدرلی الخیر حیث کان ثم ارضنی بہ ویسمی حاجتہ۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ حدیث پاک میں خواب میں کسی چیز کے نظر آنے یا نہ آنے کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی خواب کا آنا ضروری ہے۔ یہ بزرگوں اوراہل خیر کے اپنے اپنے تجربات ہیں، لیکن اگرخواب نظرآجائے،تو اس سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ مگر اصل چیز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرنے کے بعد جب دل کو کسی ایک جانب سکون و قرار نصیب ہوجائے تو اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھر پور اعتماد کرتے ہوئے اس کام کو کرلے، اللہ تعالیٰ اس میں برکت عطا فرمائے گا۔
اور اگرخدانخواستہ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں کسی ناکامی کا سامان ہو،تو یہ جانے کہ اللہ تعالیٰ کی منشاکو سمجھنے میں مجھ سے خطاہوگئی ہے،اور یا یہ سمجھے کہ اگر اس کے برعکس کیا ہوتا توممکن ہے کہ (خدانخواستہ) اس سے بڑی ناکامی یا نقصان کا سامنا کرناپڑتا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
عسیٰ ان تکرہوا شیئا وھو خیرلکم وعسیٰ ان تحبوا شیئا وھو شرلکم۔
جو شخص اپنے درپیش مسئلے میں پانچ سات بار عاجزی سے اپنے رب کے حضورالتجا اورطلبِ خیر و دعا کے لئے ذہنی،فکری اور عملی طورپر آمادہ نہ ہو،وہ استخارے کی روح اورحقیقت کو سمجھا ہی نہیں۔ باقی وہ لوگ جو استخارے کے نام پر ماضی کے احوال بتاتے ہیں کہ کسی پر کالا جادو ہوگیا ہے،سفلی عمل کردیا گیا ہے،چند سیکنڈ میں یہ تمام غیبی امور ان پر منکشف ہوجاتے ہیں اور ایک ہی لمحے میں ان کا حل بھی نکل آتا ہے،اس کامجھے علم نہیں ہے، اس سے لوگ توہُّم پرستی اور تشکیک میں مبتلا ہوتے ہیں، تقدیرِ الہٰی پر رضا جومومن کا شعار ہونا چاہئے، اُس میں کمزوری واقع ہوتی ہے ۔پھر لوگ کسی مشکل صورتِ حال میں ،جب انہیں کوئی فیصلہ کن راہ سجھائی نہ دے،اللہ تعالیٰ کی ذات سے براہِ راست رجوع کرنے اور اس کے حبیبِ کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے توسُّل کے بجائے، اِس روش کو ترک کرکے، اِس طرح کے عاملوں سے رجوع کرتے ہیں۔استخارہ تومستقبل میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میںاللہ تعالیٰ سے رہنمائی طلب کر نے کا نام ہے ۔
حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ درپیش معاملات اورمباح امو رمیں سے کسی ایک کے انتخاب کے لئے یاکسی کام کوکرنے یا نہ کرنے کے بارے میں استخارہ کرنا افضل اورمستحب ہے ،لیکن یہ واجب نہیں ہے کہ نہ کرنے پر گنہگارہوگا۔ اورویسے کسی مسئلے کے بارے میں دستیاب معلومات اورقرائن و شواہدکی روشنی میں یا اہل فن واہل نظر اوراہل اللہ سے مشورہ کرنے کے بعد ذہن میں یہ امر واضح ہوجائے کہ یہ کام کرلینا چاہئے،تو اللہ پر توکل کرکے کرلے،اور اللہ تعالیٰ سے اس میں کامیابی اور سرخ رو ہونے کی دعا کرتا رہے۔ واللہ اعلم ورسولہ
(تفھیم المسائل جلد چہارم از مفتی منیب الرحمٰن مد ظلہ العالی )
جواب:
استخارہ کے لفظی معنٰی ہیں: خیر طلب کرنا اور اس کے جامع معنٰی ہیں: وہ معاملہ جس کے نفع بخش یا نقصان دہ ہونے کا انسان اپنی عقل کی روشنی میں فیصلہ نہ کرسکے اور تردُّدمیں مبتلا ہوجائے کہ اسے کروں یا نہ کروں، تو اللہ تعالیٰ سے رہنمائی طلب کرے، اس کا تعلق ماضی کے معاملات سے نہیں ہے، مستقبل میں درپیش ایسے معاملات سے ہے،جن کو کرناہے۔ ایسے تمام معاملات جن کا خیر ہونا ،شریعت میں ثابت ہے، ان کے لئے استخارہ نہیں کیاجائے گا، جیسے نماز، روزہ، حج اور جہاد وغیرہ،فارسی کا مقولہ ہے " درکارِ خیر حاجتِ استخارہ نیست " ۔ہاں البتہ کسی کارِخیر کے لئے شریعت میں وقت مقرر نہیں ہے بلکہ توسُّع ہے،تو تعیینِ وقت کے لئے استخارہ کرسکتے ہیں۔ بنیادی طور پر استخارہ مباح امور میں ہوتا ہے، جیسے نکاح اپنی اصل کے اعتبار سے مشروع ہے اور سنت ہے اور بعض اشخاص کے لئے ان کے بشری احوال کے مطابق واجب کے درجے میں ہے، لیکن نکاح کے لئے کس کا انتخاب کیا جائے،اس کے لئے اگر کوئی پیغام یا پیشکش آئے،تو اس کے لئے استخارہ کیا جاسکتا ہے،
حدیث پاک میں ہے:
عن جابر رضی اﷲعنہ قال کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یعلمنا الاستخارۃ فی الامورکلھا کالسورۃ من القرآن اذاھم احدکم بالامر فلیرکع رکعتین من غیر الفریضۃ ثم یقول اللھم انی استخیرک بعلمک وأستقدرک بقدرتک وأسئلک من فضلک العظیم فانک تقدر ولااقدر، وتعلم ولااعلم، وانت علام الغیوب، اللھم ان کنت تعلم ان ھذالامر خیر لی فی دینی ومعاشی وعاقبۃ امری۔او قال فی عاجل امری واٰجلہ۔ فاقدرہ لی وان کنت تعلم أن ھذاالامرشرلی فی دینی ومعاشی وعاقبۃ امری اوقال فی عاجل أمری واٰجلہ فاصرفہ عنی واصرفنی عنہ واقدرلی الخیر حیث کان ثم ارضنی بہ ویسمی حاجتہ۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ حدیث پاک میں خواب میں کسی چیز کے نظر آنے یا نہ آنے کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی خواب کا آنا ضروری ہے۔ یہ بزرگوں اوراہل خیر کے اپنے اپنے تجربات ہیں، لیکن اگرخواب نظرآجائے،تو اس سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ مگر اصل چیز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرنے کے بعد جب دل کو کسی ایک جانب سکون و قرار نصیب ہوجائے تو اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھر پور اعتماد کرتے ہوئے اس کام کو کرلے، اللہ تعالیٰ اس میں برکت عطا فرمائے گا۔
اور اگرخدانخواستہ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں کسی ناکامی کا سامان ہو،تو یہ جانے کہ اللہ تعالیٰ کی منشاکو سمجھنے میں مجھ سے خطاہوگئی ہے،اور یا یہ سمجھے کہ اگر اس کے برعکس کیا ہوتا توممکن ہے کہ (خدانخواستہ) اس سے بڑی ناکامی یا نقصان کا سامنا کرناپڑتا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
عسیٰ ان تکرہوا شیئا وھو خیرلکم وعسیٰ ان تحبوا شیئا وھو شرلکم۔
جو شخص اپنے درپیش مسئلے میں پانچ سات بار عاجزی سے اپنے رب کے حضورالتجا اورطلبِ خیر و دعا کے لئے ذہنی،فکری اور عملی طورپر آمادہ نہ ہو،وہ استخارے کی روح اورحقیقت کو سمجھا ہی نہیں۔ باقی وہ لوگ جو استخارے کے نام پر ماضی کے احوال بتاتے ہیں کہ کسی پر کالا جادو ہوگیا ہے،سفلی عمل کردیا گیا ہے،چند سیکنڈ میں یہ تمام غیبی امور ان پر منکشف ہوجاتے ہیں اور ایک ہی لمحے میں ان کا حل بھی نکل آتا ہے،اس کامجھے علم نہیں ہے، اس سے لوگ توہُّم پرستی اور تشکیک میں مبتلا ہوتے ہیں، تقدیرِ الہٰی پر رضا جومومن کا شعار ہونا چاہئے، اُس میں کمزوری واقع ہوتی ہے ۔پھر لوگ کسی مشکل صورتِ حال میں ،جب انہیں کوئی فیصلہ کن راہ سجھائی نہ دے،اللہ تعالیٰ کی ذات سے براہِ راست رجوع کرنے اور اس کے حبیبِ کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے توسُّل کے بجائے، اِس روش کو ترک کرکے، اِس طرح کے عاملوں سے رجوع کرتے ہیں۔استخارہ تومستقبل میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میںاللہ تعالیٰ سے رہنمائی طلب کر نے کا نام ہے ۔
حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ درپیش معاملات اورمباح امو رمیں سے کسی ایک کے انتخاب کے لئے یاکسی کام کوکرنے یا نہ کرنے کے بارے میں استخارہ کرنا افضل اورمستحب ہے ،لیکن یہ واجب نہیں ہے کہ نہ کرنے پر گنہگارہوگا۔ اورویسے کسی مسئلے کے بارے میں دستیاب معلومات اورقرائن و شواہدکی روشنی میں یا اہل فن واہل نظر اوراہل اللہ سے مشورہ کرنے کے بعد ذہن میں یہ امر واضح ہوجائے کہ یہ کام کرلینا چاہئے،تو اللہ پر توکل کرکے کرلے،اور اللہ تعالیٰ سے اس میں کامیابی اور سرخ رو ہونے کی دعا کرتا رہے۔ واللہ اعلم ورسولہ
(تفھیم المسائل جلد چہارم از مفتی منیب الرحمٰن مد ظلہ العالی )
Comment