السلام و علیکم
ایک دوست سے چاند نظر آنے والے معاملے پر گفتگو کے دوران ایک حدیث کا ذکر ہوا، جس میں مسلمانوں نے روزہ رکھا ہوا تھا اور یمن سے آنے والے ایک مسلمان نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا کہ ان کے علاقے میں چاند دیکھا گیا ہے اور وہاں عید ہے۔ اسکی اس گواہی کی بنیاد پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےمسلمانوں کو روزہ توڑنے کا حکم فرمایا اور عید کا اعلان کر دیا گیا۔
میرا سوال اس پر یہ تھا کہ اگر آجکل کے زمانے میں کوئی اور مسلمان ایسی خبر لے کر آئے تو کیا ہم اس پر ایسے ہی یقین کر لیں؟ جبکہ آجکل کے زمانے میں کوئی جھوٹ بھی بول سکتا ہے اور گمراہ بھی کر سکتا ہے اور فتنہ انگیزی کا بھی سبب بن سکتا ہے؟
میرا پوائینٹ یہ ہے کہ اس حدیث کی بنیاد پر شرعی حکم تو پورا کیا جائے، مگر حالات کے تقاضے کے پیش نظر اس خبر لانے والے سے متعلق تحقیق بھی ہونی چاہئیے
کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسی باتوں کی تصدیق تو اللہ سبحان و تعالٰی سے ہو جاتی تھی، مگر ہمارے دور میں تحقیق و تصدیق کر لینا زیادہ بہتر ہے، بجائے اسکےکہ کوئی بھی آکر جھوٹی قسم کے ساتھ ایسی خبر دے۔ یا اس شخص کو وہم ہوا ہو، وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے اسکا جواب یہ دیا گیا کہ شرعی معاملات میں عقلی دلیل کی گنجائیش نہیں ہوتی؟
برائے مہربانی اس مسئلہ پر گفتگو فرمائیے اور وہ بھی آجکل کے دور کے فتنوں*کو مد نظر رکھتے ہوئے؟
جزاک اللہ
ایک دوست سے چاند نظر آنے والے معاملے پر گفتگو کے دوران ایک حدیث کا ذکر ہوا، جس میں مسلمانوں نے روزہ رکھا ہوا تھا اور یمن سے آنے والے ایک مسلمان نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا کہ ان کے علاقے میں چاند دیکھا گیا ہے اور وہاں عید ہے۔ اسکی اس گواہی کی بنیاد پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےمسلمانوں کو روزہ توڑنے کا حکم فرمایا اور عید کا اعلان کر دیا گیا۔
میرا سوال اس پر یہ تھا کہ اگر آجکل کے زمانے میں کوئی اور مسلمان ایسی خبر لے کر آئے تو کیا ہم اس پر ایسے ہی یقین کر لیں؟ جبکہ آجکل کے زمانے میں کوئی جھوٹ بھی بول سکتا ہے اور گمراہ بھی کر سکتا ہے اور فتنہ انگیزی کا بھی سبب بن سکتا ہے؟
میرا پوائینٹ یہ ہے کہ اس حدیث کی بنیاد پر شرعی حکم تو پورا کیا جائے، مگر حالات کے تقاضے کے پیش نظر اس خبر لانے والے سے متعلق تحقیق بھی ہونی چاہئیے
کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسی باتوں کی تصدیق تو اللہ سبحان و تعالٰی سے ہو جاتی تھی، مگر ہمارے دور میں تحقیق و تصدیق کر لینا زیادہ بہتر ہے، بجائے اسکےکہ کوئی بھی آکر جھوٹی قسم کے ساتھ ایسی خبر دے۔ یا اس شخص کو وہم ہوا ہو، وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے اسکا جواب یہ دیا گیا کہ شرعی معاملات میں عقلی دلیل کی گنجائیش نہیں ہوتی؟
برائے مہربانی اس مسئلہ پر گفتگو فرمائیے اور وہ بھی آجکل کے دور کے فتنوں*کو مد نظر رکھتے ہوئے؟
جزاک اللہ
Comment