Re: ~ Sab kuch dene wala ~
(أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : استتابة المرتدين و المعاندين و قتالهم، باب
aur Deykhein yeh sab naam KAAM Allah taalah k hein
اسلام علیکم پیاری آپی گل
اصل میں آپ اس موضوع پر کنفیوژن کا شکار ہیں ۔ ۔ خوشی نے سعودی میڈڈ برانڈ ویب سائٹ سے لیکر ایک پوسٹ لگائی جس میں اردو کہ چند کلمات (داتا، غریب نواز ،دستگیر ،مشکل کشاء وغیرہ)کو بنیاد بنا کر پوری امت مسلمہ کو مشرک ٹھرا نے کی ناکام کوشش کی گئی ہے یہ کوئی نئی دریافت یا نئی بات نہیں بلکہ صدیوں سے ایسا ہی چلا آرہا ہے جب جنگ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے صلح کہ لیے طرفین سے ایک ایک شخص کو بطور حکم چن لیا تو خارجیوں کا ایک بہت بڑا گروہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر شرک کا فتوٰی لگاتے ہوئے قرآن کی یہ آیت پڑھ کر کہ ۔ ۔ ان الحکم الا للہ ۔ ترجمہ کہ حکم تو صرف اللہ ہی ہے ۔ ۔ اور آپ نے بندوں کو حکم چن کر شرک کیا ہے لہذا وہ خارجی گروہ علیحدہ ہوگیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آیت تو تم لوگوں نے ٹھیک پڑھی مگر اس کا محل (یعنی اطلاق ) غلط رکھا ہے اسی طرح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ خوارج کو بدترین مخلوقعبداللہ) بن عمر رضی اﷲ عنہما ان (خوارج) کو اﷲ تعالیٰ کی بد ترین مخلوق سمجھتے تھے۔ (کیونکہ) انہوں نے اﷲ تعالیٰ کی ان آیات کو لیا جو کفار کے حق میں نازل ہوئی تھیں اور ان کا اطلاق مومنین پر کرنا شروع کردیا۔
اصل میں آپ اس موضوع پر کنفیوژن کا شکار ہیں ۔ ۔ خوشی نے سعودی میڈڈ برانڈ ویب سائٹ سے لیکر ایک پوسٹ لگائی جس میں اردو کہ چند کلمات (داتا، غریب نواز ،دستگیر ،مشکل کشاء وغیرہ)کو بنیاد بنا کر پوری امت مسلمہ کو مشرک ٹھرا نے کی ناکام کوشش کی گئی ہے یہ کوئی نئی دریافت یا نئی بات نہیں بلکہ صدیوں سے ایسا ہی چلا آرہا ہے جب جنگ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے صلح کہ لیے طرفین سے ایک ایک شخص کو بطور حکم چن لیا تو خارجیوں کا ایک بہت بڑا گروہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر شرک کا فتوٰی لگاتے ہوئے قرآن کی یہ آیت پڑھ کر کہ ۔ ۔ ان الحکم الا للہ ۔ ترجمہ کہ حکم تو صرف اللہ ہی ہے ۔ ۔ اور آپ نے بندوں کو حکم چن کر شرک کیا ہے لہذا وہ خارجی گروہ علیحدہ ہوگیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آیت تو تم لوگوں نے ٹھیک پڑھی مگر اس کا محل (یعنی اطلاق ) غلط رکھا ہے اسی طرح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ خوارج کو بدترین مخلوقعبداللہ) بن عمر رضی اﷲ عنہما ان (خوارج) کو اﷲ تعالیٰ کی بد ترین مخلوق سمجھتے تھے۔ (کیونکہ) انہوں نے اﷲ تعالیٰ کی ان آیات کو لیا جو کفار کے حق میں نازل ہوئی تھیں اور ان کا اطلاق مومنین پر کرنا شروع کردیا۔
(أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : استتابة المرتدين و المعاندين و قتالهم، باب
: (5) قتل الخوارج و الملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، )
تو عرض یہ کررہا تھا کہ ان خارجیوں کی معنوی اولاد آج بھی امت مسلمہ میں موجود ہے اور میرے کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی ایک ایک نشانی پر پورا اتر رہی ہے اور بے دریغ مسلمانوں رپر شرک کہ فتوٰی لگارہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
اب آتا ہوں اصل مسئلہ کی جانب سب سے پہلے تو عرض ہے کہ یہ کسی کا بھی عقیدہ نہیں کہ ہمیں جو کچھ بھی ملتا ہے وہ اللہ پاک سے نہیں ملتا بلکہ اس کہ غیر سے ملتا ہے سب جانتے ہیں اور الحمدللہ مسلمانوں سے نیک گمان رکھنا چاہیے سب کا یہی عقیدہ ہے کہ حقیقی مددگار حقیقی مشکل کشاء اور حقیقی سب کچھ دینے والا اللہ پاک ہی ہے مگر خود اسی اللہ پاک نے اس وسیع کائنات میں وسیع زرائع اور وسائل پیدا کیے ہیں اور قانون یہ بنایا ہے کہ رزق تو میں ہی دوں گا مگر ملے گا تمہیں ان وسائل (یعنی وسیلے) پر چل کر یعنی عمل کرکے ملے گا اب کوئی شخص محض اللہ کو رازق جان کر گھر بیٹھا رہے کہ آسمان سے روٹی اترے گی تو میں کھا لوں گا کیونکہ اللہ ہی رازق ہے تو ایسے شخص کو سب بے وقوف ہی کہیں گے باوجود کہ اللہ پاک اس بات پر قادر ہے کہ کسی بھی شخص کو گھر بیٹھے آسمان سے خوان نازل کرکے کھلاتا رہے بلکہ اللہ تو اس بات پر بھی قادر ہے کہ کوئی شخص ایسا بھی ہو کہ اسے بھوک ہی نہ لگا کرئے اور وہ ہمہ وقت تندرست و توانا بھی رہے مگر یہ اللہ پاک کہ عمومی قانون کہ خلاف ہے ۔ ۔ ۔ عمومی قانون یہی ہے کہ بیمار ہوتو ڈاکٹر کہ سے مدد طلب کرو شفاء میں ہی دوں گا چاہے پونسٹان یا پیرا سٹامول کی گولی ہی کی شکل میں کیوں نہ ہو اب اگر کوئی سردرد میں پیراسٹامول کی گولی کھا کر یہ کہہ دیتا ہے کہ اس گولی نے میری مشکل یعنی سردرد حل کردی تو وہ مشرک نہیں ہوجاتا کہ ظاہر طور پر تو وہ گولی ہی اثر کررہی ہوتی کہ اس گولی میں سائنس دانوں نے تحقیق سے ایسے تمام اجزء شامل کردیئے ہوتے ہیں جو کہ سر درد کی بعض وجوہات کہ لیے باعث شفا بنتے ہیں مگر ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اگرچہ وہ اجزاء دریافت تو سائنس دانوں ہی کی ہیں مگر پیدا کردہ اللہ پاک کہ ہیں اور ان سائنس دانوں کا علم بھی اللہ پاک کا ہی عطا کردہ ہے کہ جسکی بدولت ہے انھوں نے ایک ایسی گولی ایجاد کی جو کہ سر درد میں مشکل کُشا ہے ۔ ۔ لہزا حقیقی طور پر بھی اس گولی کہ پیچھے جو ذات متصرف ہے وہ اللہ پاک ہی کی ہے لہزا جب بھی کوئی شخص کسی سے بھی کوئی مدد طلب کرئے اور سامنے والا اسکی مدد کر بھی دے تو تب بھی حقیقی مدد اللہ پاک ہی کی ہوتی ہے مگر ظاہری طور پر سامنے والے کو مددگار یہ مشکل کہ وقت کام آنے والا کہہ سکتے ہیں اور اس پر یہ اطلاق مجازی معنوں میں ہوگا . . . یہ تو تھی ایک عام اورسادہ سی زبان میں عقیدہ توحید کو سمجھانے کی کوشش اب آتا ہوں آپ کہ ٹیکنکل نقاط کی طرف جو کہ*آپ نے اُٹھائے ہیں ۔ ۔ ۔
سب سے پہلے تو خوشی کو پوسٹ پر آپ نے درج ذیل رپلائی دیا ہے ۔ ۔۔
اب آتا ہوں اصل مسئلہ کی جانب سب سے پہلے تو عرض ہے کہ یہ کسی کا بھی عقیدہ نہیں کہ ہمیں جو کچھ بھی ملتا ہے وہ اللہ پاک سے نہیں ملتا بلکہ اس کہ غیر سے ملتا ہے سب جانتے ہیں اور الحمدللہ مسلمانوں سے نیک گمان رکھنا چاہیے سب کا یہی عقیدہ ہے کہ حقیقی مددگار حقیقی مشکل کشاء اور حقیقی سب کچھ دینے والا اللہ پاک ہی ہے مگر خود اسی اللہ پاک نے اس وسیع کائنات میں وسیع زرائع اور وسائل پیدا کیے ہیں اور قانون یہ بنایا ہے کہ رزق تو میں ہی دوں گا مگر ملے گا تمہیں ان وسائل (یعنی وسیلے) پر چل کر یعنی عمل کرکے ملے گا اب کوئی شخص محض اللہ کو رازق جان کر گھر بیٹھا رہے کہ آسمان سے روٹی اترے گی تو میں کھا لوں گا کیونکہ اللہ ہی رازق ہے تو ایسے شخص کو سب بے وقوف ہی کہیں گے باوجود کہ اللہ پاک اس بات پر قادر ہے کہ کسی بھی شخص کو گھر بیٹھے آسمان سے خوان نازل کرکے کھلاتا رہے بلکہ اللہ تو اس بات پر بھی قادر ہے کہ کوئی شخص ایسا بھی ہو کہ اسے بھوک ہی نہ لگا کرئے اور وہ ہمہ وقت تندرست و توانا بھی رہے مگر یہ اللہ پاک کہ عمومی قانون کہ خلاف ہے ۔ ۔ ۔ عمومی قانون یہی ہے کہ بیمار ہوتو ڈاکٹر کہ سے مدد طلب کرو شفاء میں ہی دوں گا چاہے پونسٹان یا پیرا سٹامول کی گولی ہی کی شکل میں کیوں نہ ہو اب اگر کوئی سردرد میں پیراسٹامول کی گولی کھا کر یہ کہہ دیتا ہے کہ اس گولی نے میری مشکل یعنی سردرد حل کردی تو وہ مشرک نہیں ہوجاتا کہ ظاہر طور پر تو وہ گولی ہی اثر کررہی ہوتی کہ اس گولی میں سائنس دانوں نے تحقیق سے ایسے تمام اجزء شامل کردیئے ہوتے ہیں جو کہ سر درد کی بعض وجوہات کہ لیے باعث شفا بنتے ہیں مگر ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اگرچہ وہ اجزاء دریافت تو سائنس دانوں ہی کی ہیں مگر پیدا کردہ اللہ پاک کہ ہیں اور ان سائنس دانوں کا علم بھی اللہ پاک کا ہی عطا کردہ ہے کہ جسکی بدولت ہے انھوں نے ایک ایسی گولی ایجاد کی جو کہ سر درد میں مشکل کُشا ہے ۔ ۔ لہزا حقیقی طور پر بھی اس گولی کہ پیچھے جو ذات متصرف ہے وہ اللہ پاک ہی کی ہے لہزا جب بھی کوئی شخص کسی سے بھی کوئی مدد طلب کرئے اور سامنے والا اسکی مدد کر بھی دے تو تب بھی حقیقی مدد اللہ پاک ہی کی ہوتی ہے مگر ظاہری طور پر سامنے والے کو مددگار یہ مشکل کہ وقت کام آنے والا کہہ سکتے ہیں اور اس پر یہ اطلاق مجازی معنوں میں ہوگا . . . یہ تو تھی ایک عام اورسادہ سی زبان میں عقیدہ توحید کو سمجھانے کی کوشش اب آتا ہوں آپ کہ ٹیکنکل نقاط کی طرف جو کہ*آپ نے اُٹھائے ہیں ۔ ۔ ۔
سب سے پہلے تو خوشی کو پوسٹ پر آپ نے درج ذیل رپلائی دیا ہے ۔ ۔۔
Walekum salam ...!
MashaAllah Kitni EYE OPENING baat share ki aap nay
MashaAllah Kitni EYE OPENING baat share ki aap nay
aur hamaray haan LOAG inn AZEEM namoun ko ...
INSANOUN k Liyay use kartay hein jo sara sar Gunah hai na..
Astaghfirullah ...!
Allah Taalah hamein Sabhi SHIRKIYAH kaamoun se door rakhay ameen
SUm ameen ..
INSANOUN k Liyay use kartay hein jo sara sar Gunah hai na..
Astaghfirullah ...!
Allah Taalah hamein Sabhi SHIRKIYAH kaamoun se door rakhay ameen
SUm ameen ..
اس میں آپ نے دو دعوٰی جات کیے ہیں ایک تو اوپر خوشی کی پوسٹ میں جو نام استعمال ہوئے ہیں ان کو آپ نے اللہ کہ نام قرار دیا ہے اور دوسرا آپ نے بغیر تحقیق کہ محض ان ناموں کہ مخلوق پر اطلاق کو شرک قرار دے دیا ہے
یہ دونوں آپ کہ دعوٰی جات ہیں اور اس معاملے میں اصول یہ ہے کہ مدعی پر اپنے دعوٰی کا ثبوت بطور دلیل لازم ہوا کرتا ہے اب آپ کو چاہیے کہ قرآن و سنت میں جہاں بھی یہ نام بطور اسماء الٰہی کہ استعمال ہوئے ہیں وہ یہاں پیش کریں۔
پھر اس کہ بعد جب ہم نے آپکی اس بات پر گرفت کی تو آپ نے یہ فیصلہ صادر فرمادیا کہ اللہ پاک کا اسم ذات فقط اللہ ہی باقی سب صفات ہی اس کہ نام ہیں ۔ ۔ ۔
دیکھیئے سب سے پہلے تو یہ جان لیجئے کہ اسم اسے کہتے ہیں کہ جس کی نسبت سے کسی خاص چیز ،شخص ،وصف یا ذات پر دلالت کی جائے یہ حق ہے کہ اللہ ذات باری تعالٰی کا اسم ذات ہے اور اسی وجہ سے اسکو عَلَم (عین کی زبر کہ ساتھ)بھی کہا جاتا ہے مگر یہ اسم ذات بھی وصف سے موصوف ہے اور وہ وصف ہے الٰہ ہونا یعنی معبود ہونا اب اگر آپ یہ سوال کریں کہ فقط الٰہ ہونے کی صفت کو ہی کیوں بطور اسم ذات ترجیح دی گئی تو اس کا جواب یہ ہے کہ صفت الٰہ اللہ پاک کی ایک ایسی صفت ہے کہ باقی تمام صفات اس کہ رہین ہیں اور اس صفت کا اطلاق مجازی طور پر بھی کسی پر بھی نہیں ہوسکتا ۔ ۔ ۔ اس لیے اس کہ اسم ذات قرار دیا گیا خیر بات بہت دور نکل گئی میں کہہ رہا تھا کہ اللہ پاک کہ تمام اسماء اس کی صفات کہ ہی مظہر ہیں اور خود اللہ پاک نے قرآن پاک میں اپنے بیشتر صفاتی ناموں کا اپنی مخلوق پر اطلاق کیا ہے اور جب ہم نے آپکو اس کا ثبوت پیش کیا تو آپ نے ایک اور لایعنی اعتراض جڑ دیا یعنی علم النحو کہ ایک قاعدے (معرف باللام) جو کہ نکرہ کو معرفہ بنانے میں استعمال ہوتا ہے کہ حوالے سے . . . .
دیکھئے عربی میں کسی بھی اسم کو نکرہ سے معرفہ بنانے کہ لیے فقط ایک یہی قاعدہ نہیں ہے کہ اسماء پر الف لام داخل کرکے اسکو عام سے خاص بنادو بلکہ اور بھی دیگر قاعدے ہیں جو کہ اسم معرفہ کہ لیے استعمال ہوتے ہیں مثلا اسم معرفہ کہ دیگر قاعدے دررج زیل ہیں
یہ دونوں آپ کہ دعوٰی جات ہیں اور اس معاملے میں اصول یہ ہے کہ مدعی پر اپنے دعوٰی کا ثبوت بطور دلیل لازم ہوا کرتا ہے اب آپ کو چاہیے کہ قرآن و سنت میں جہاں بھی یہ نام بطور اسماء الٰہی کہ استعمال ہوئے ہیں وہ یہاں پیش کریں۔
پھر اس کہ بعد جب ہم نے آپکی اس بات پر گرفت کی تو آپ نے یہ فیصلہ صادر فرمادیا کہ اللہ پاک کا اسم ذات فقط اللہ ہی باقی سب صفات ہی اس کہ نام ہیں ۔ ۔ ۔
دیکھیئے سب سے پہلے تو یہ جان لیجئے کہ اسم اسے کہتے ہیں کہ جس کی نسبت سے کسی خاص چیز ،شخص ،وصف یا ذات پر دلالت کی جائے یہ حق ہے کہ اللہ ذات باری تعالٰی کا اسم ذات ہے اور اسی وجہ سے اسکو عَلَم (عین کی زبر کہ ساتھ)بھی کہا جاتا ہے مگر یہ اسم ذات بھی وصف سے موصوف ہے اور وہ وصف ہے الٰہ ہونا یعنی معبود ہونا اب اگر آپ یہ سوال کریں کہ فقط الٰہ ہونے کی صفت کو ہی کیوں بطور اسم ذات ترجیح دی گئی تو اس کا جواب یہ ہے کہ صفت الٰہ اللہ پاک کی ایک ایسی صفت ہے کہ باقی تمام صفات اس کہ رہین ہیں اور اس صفت کا اطلاق مجازی طور پر بھی کسی پر بھی نہیں ہوسکتا ۔ ۔ ۔ اس لیے اس کہ اسم ذات قرار دیا گیا خیر بات بہت دور نکل گئی میں کہہ رہا تھا کہ اللہ پاک کہ تمام اسماء اس کی صفات کہ ہی مظہر ہیں اور خود اللہ پاک نے قرآن پاک میں اپنے بیشتر صفاتی ناموں کا اپنی مخلوق پر اطلاق کیا ہے اور جب ہم نے آپکو اس کا ثبوت پیش کیا تو آپ نے ایک اور لایعنی اعتراض جڑ دیا یعنی علم النحو کہ ایک قاعدے (معرف باللام) جو کہ نکرہ کو معرفہ بنانے میں استعمال ہوتا ہے کہ حوالے سے . . . .
دیکھئے عربی میں کسی بھی اسم کو نکرہ سے معرفہ بنانے کہ لیے فقط ایک یہی قاعدہ نہیں ہے کہ اسماء پر الف لام داخل کرکے اسکو عام سے خاص بنادو بلکہ اور بھی دیگر قاعدے ہیں جو کہ اسم معرفہ کہ لیے استعمال ہوتے ہیں مثلا اسم معرفہ کہ دیگر قاعدے دررج زیل ہیں
اسم موصول :- اسم موصول وہ اسم معرفہ ہے جس کو صلہ بعد میں آنے والا جملہ کے ساتھ متعّین کیا جائے جیسے اَلِّذِی ، اَ لِّتِی
اسم اشارہ :-اسم اشارہ وہ اسم معرفہ جس سے کسی معّین چیز کی طرف اشارہ کیا جائے جیسے ھٰذَا (یہ) ، ذٰلِکَ (وہ)
معرّف بالاضافۃ :- وہ اسم معرفہ جس کو اسم معرفہ کی طرف مضاف کیا جائے جیسے فِنَاءُالمَدرَسَۃِ (مدرسہ کا میدان)
،معرّف بالنداء :- وہ اسم نکرہ جس کو حرف نداء کے ساتھ معّین کیا جائے جیسے یَا رَجُُلُ اور اللہ پاک کہ صفاتی ناموں ََیَا حَیُ ََیَا قَیُوم کو بھی اسی قاعدے کہ تحت (بطور ورد )اللہ پاک کو پکارا جاتا ہے۔ ۔
کہنا یہ چاہتا ہوں کہ سمیع اور بصیر اور دیگر صفات الٰٰہیہ پر اگر الف لام نہ بھی داخل کیا جائے تو یہ تب بھی اللہ پاک ہی کی صفات ہیں اور خود اللہ پاک نے اپنے بعض صفاتی ناموں کو بغیر معرف باللام کیئے قرآن پاک میں استعمال کیا ہے جیسے مثال کہ طور پر درج زیل امور پر غور فرمایئے ۔ ۔
اسم اشارہ :-اسم اشارہ وہ اسم معرفہ جس سے کسی معّین چیز کی طرف اشارہ کیا جائے جیسے ھٰذَا (یہ) ، ذٰلِکَ (وہ)
معرّف بالاضافۃ :- وہ اسم معرفہ جس کو اسم معرفہ کی طرف مضاف کیا جائے جیسے فِنَاءُالمَدرَسَۃِ (مدرسہ کا میدان)
،معرّف بالنداء :- وہ اسم نکرہ جس کو حرف نداء کے ساتھ معّین کیا جائے جیسے یَا رَجُُلُ اور اللہ پاک کہ صفاتی ناموں ََیَا حَیُ ََیَا قَیُوم کو بھی اسی قاعدے کہ تحت (بطور ورد )اللہ پاک کو پکارا جاتا ہے۔ ۔
کہنا یہ چاہتا ہوں کہ سمیع اور بصیر اور دیگر صفات الٰٰہیہ پر اگر الف لام نہ بھی داخل کیا جائے تو یہ تب بھی اللہ پاک ہی کی صفات ہیں اور خود اللہ پاک نے اپنے بعض صفاتی ناموں کو بغیر معرف باللام کیئے قرآن پاک میں استعمال کیا ہے جیسے مثال کہ طور پر درج زیل امور پر غور فرمایئے ۔ ۔
اللہ قران میں اپنے لیے فرما رہا ھے کہ وہ کریم ہے۔
فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ
القران 27:40 ۔۔۔ اور میرا رب بے نیاز اور کریم ہے
لیکن اسی قران میں اللہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی فرما رہا ہے:
إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيم
بے شک یہ (قرآن) بزرگی و عظمت والے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا (منزّل من اللہ) فرمان ہے، (جسے وہ رسالۃً اور نیابۃً بیان فرماتے ہیں
الحاقہ 40۔
اسی طرح قوی بھی اللہ کی صفت اور نام ہے۔ اللہ قران میں اپنے متعلق فرماتا ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيز
(القران 22:74) بیشک اللہ بڑا قوی اور غالب اور زبردست ہے۔
مگر اسی قران میں اللہ تعالیٰ یہ بھی فرما رہا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی قوت والا ہے
ذِي قُوَّةٍ عِندَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ
(القران 81:20) وہ صاحبِ قوت ہے اور صاحبِ عرش کی بارگاہ کا مکین ہے۔
رؤوف اور رحیم
یہ دونوں صفات اللہ کی ہیں۔ اللہ قران میں اپنے لیے فرما رہا ہے:
إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ
(القران 2:143) بیشک اللہ تو لوگوں کے لیے بہت رؤوف (شفیق) اور رحیم ہے۔
مگر اسی قران میں اللہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے فرما رہا ہے:
لَقَدْ جَاءكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ
(القران 9:12 لوگو تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں جنہیں تمہاری تکلیف گراں معلوم ہوتی ہے اور تمہاری بھلائی کے خواہش مند ہیں اور مومنوں پر نہایت روؤف (شفیق) اور رحیم ہیں۔
نوٹ:- یہاں بھی دیکھے کہ ۔ ۔إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ ۔ ۔ میں اللہ پاک نے دونوں صفات یعنی رؤف اور رحیم کو بغیر الف لام کہ اپنے لیے استعمال کیا ہے اور پھر انہی دونوں صفات کو اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کہ لیے استعمال کیا ہے ۔ ۔۔ اسی طرح الحمدللہ رب العٰلمین میں صفت رب بغیر الف لام کہ استعمال ہوئی ہے اللہ پاک کے لیے اس طرح کی اور بھی کئی مثالیں قرآن پاک سے دی جاسکتی ہیں جس سے کہ آپ نے جو نقطہ اُٹھایا تھا اس کا بطلان خود قرآن ہی سے ہوتا ہے اور ہمارے دعویٰ کی تصدیق ہوتی ہے کہ لفظوں کا ظاہری التباس سے شرک نہیں ہوتا جبکہ ان سے ان حقیقی معنٰی کا قصد نہ کیا جائے جو کہ اللہ پاک کہ لیے مخصوص ہیں اور ان معنٰی کا قصد فقط انسان کہ باطن کا معاملہ ہے
کہ جس پر کوئی بھی سوائے اس انسان یا اللہ پاک کہ مطلع نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ انسان خود وضاحت نہ کردے کہ وہ فلاں کو کن معنوں میں سمیع یا بصیر یا نصیررب ،کریم ، رؤف اور رحیمیعنی ازلی و ابدی اور ذاتی ) استعمال ہوتے ہیں جبکہ قرآن پاک میں یہی صفات یعنی روف اور رحیم اور کریم جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کہ لیے استعمال کی جاتی ہیں تو ان سے مراد مجازی (یعنی اللہ پاک کی عطا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم رحیم اور کریم ہونا ) ہوتا ہے یہاں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اللہ پاک نے اپنے لیےبھی صفت کریم جو کہ اس کا اسم صفت بھی ہے کو بغیر الف لام کہ استعمال کیا ہے الفاظ بظاہر دونوں جگہ ایک ہی ہیں اور ان سے جن معنوں کا قصد کیا گیا ہے وہ بھی ایک ہی ہیں مگر اللہ کی صفت کریم اسکی ذاتی ازلی اور ابدی ہے اور اس میں اسکا کوئی شریک نہیں جبکہ اللہ کہ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت کریم خود اللہ پاک کی عطا کردہ یعنی عطائی محدود اور حادث ہے اور ان دونوں پر صفت کہ استعمال میں جو حقیقی اور مجازی کا فرق ہے وہ فرق ظاہری الفاظ کہ استعمال کی بنا پر نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس فرق کو باطن میں پوشیدہ نظریہ کی بنا پر ہی معلوم کیا جاسکتا ہے اور نظریہ ایک ایسی چیز ہے جو کہ باطن میں ہوتی ہے اور کسی بھی عقیدہ کی بنیاد بنتی ہےلہذا عقیدہ بھی ہمیشہ انسان کہ باطن میں ہوتا ہے کہ جس پر کوئی بھی شخص بغیر اس انسان کہ خود (کہ جس کا جو عقیدہ ہو) بتلائے مطلع نہیں ہوسکتا ۔ اور اگر ہم اس حقیقی اور مجازی معنوں کے فرق کو ملحوظِ خاطر نہ رکہیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ اللہ اپنی صفت میں دوسرے کو شریک کر کے معاذ اللہ خود شرک کر رہا ہے۔
باقی آخر میں اتنا عرض کروں گا یہ کہ یہاں وہی ہورہا ہے کہ جس کا مجھے ڈر تھا اور اب ایک لمبی اور لاحاصل بحث شروع ہوجائے گی کہ جس کا کوئی بھی انجام آج تک نہیں ہوسکا ۔ ۔ ۔ میں نے ایک عمر اسی دشت کی سیاہی میں مناظرے اور مباحثے کرتے گذاری ہے اب جبکہ میں یہ سب کچھ ترک کرچکا ہوں تو آپ لوگ مجھے مجبور کررہے ہیں پھر اسی سمندر میں غوطہ زنی پر ۔ ۔ ۔ فقط والسلام
فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ
القران 27:40 ۔۔۔ اور میرا رب بے نیاز اور کریم ہے
لیکن اسی قران میں اللہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی فرما رہا ہے:
إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيم
بے شک یہ (قرآن) بزرگی و عظمت والے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا (منزّل من اللہ) فرمان ہے، (جسے وہ رسالۃً اور نیابۃً بیان فرماتے ہیں
الحاقہ 40۔
اسی طرح قوی بھی اللہ کی صفت اور نام ہے۔ اللہ قران میں اپنے متعلق فرماتا ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيز
(القران 22:74) بیشک اللہ بڑا قوی اور غالب اور زبردست ہے۔
مگر اسی قران میں اللہ تعالیٰ یہ بھی فرما رہا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی قوت والا ہے
ذِي قُوَّةٍ عِندَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ
(القران 81:20) وہ صاحبِ قوت ہے اور صاحبِ عرش کی بارگاہ کا مکین ہے۔
رؤوف اور رحیم
یہ دونوں صفات اللہ کی ہیں۔ اللہ قران میں اپنے لیے فرما رہا ہے:
إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ
(القران 2:143) بیشک اللہ تو لوگوں کے لیے بہت رؤوف (شفیق) اور رحیم ہے۔
مگر اسی قران میں اللہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے فرما رہا ہے:
لَقَدْ جَاءكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ
(القران 9:12 لوگو تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں جنہیں تمہاری تکلیف گراں معلوم ہوتی ہے اور تمہاری بھلائی کے خواہش مند ہیں اور مومنوں پر نہایت روؤف (شفیق) اور رحیم ہیں۔
نوٹ:- یہاں بھی دیکھے کہ ۔ ۔إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ ۔ ۔ میں اللہ پاک نے دونوں صفات یعنی رؤف اور رحیم کو بغیر الف لام کہ اپنے لیے استعمال کیا ہے اور پھر انہی دونوں صفات کو اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کہ لیے استعمال کیا ہے ۔ ۔۔ اسی طرح الحمدللہ رب العٰلمین میں صفت رب بغیر الف لام کہ استعمال ہوئی ہے اللہ پاک کے لیے اس طرح کی اور بھی کئی مثالیں قرآن پاک سے دی جاسکتی ہیں جس سے کہ آپ نے جو نقطہ اُٹھایا تھا اس کا بطلان خود قرآن ہی سے ہوتا ہے اور ہمارے دعویٰ کی تصدیق ہوتی ہے کہ لفظوں کا ظاہری التباس سے شرک نہیں ہوتا جبکہ ان سے ان حقیقی معنٰی کا قصد نہ کیا جائے جو کہ اللہ پاک کہ لیے مخصوص ہیں اور ان معنٰی کا قصد فقط انسان کہ باطن کا معاملہ ہے
کہ جس پر کوئی بھی سوائے اس انسان یا اللہ پاک کہ مطلع نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ انسان خود وضاحت نہ کردے کہ وہ فلاں کو کن معنوں میں سمیع یا بصیر یا نصیررب ،کریم ، رؤف اور رحیمیعنی ازلی و ابدی اور ذاتی ) استعمال ہوتے ہیں جبکہ قرآن پاک میں یہی صفات یعنی روف اور رحیم اور کریم جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کہ لیے استعمال کی جاتی ہیں تو ان سے مراد مجازی (یعنی اللہ پاک کی عطا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم رحیم اور کریم ہونا ) ہوتا ہے یہاں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اللہ پاک نے اپنے لیےبھی صفت کریم جو کہ اس کا اسم صفت بھی ہے کو بغیر الف لام کہ استعمال کیا ہے الفاظ بظاہر دونوں جگہ ایک ہی ہیں اور ان سے جن معنوں کا قصد کیا گیا ہے وہ بھی ایک ہی ہیں مگر اللہ کی صفت کریم اسکی ذاتی ازلی اور ابدی ہے اور اس میں اسکا کوئی شریک نہیں جبکہ اللہ کہ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت کریم خود اللہ پاک کی عطا کردہ یعنی عطائی محدود اور حادث ہے اور ان دونوں پر صفت کہ استعمال میں جو حقیقی اور مجازی کا فرق ہے وہ فرق ظاہری الفاظ کہ استعمال کی بنا پر نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس فرق کو باطن میں پوشیدہ نظریہ کی بنا پر ہی معلوم کیا جاسکتا ہے اور نظریہ ایک ایسی چیز ہے جو کہ باطن میں ہوتی ہے اور کسی بھی عقیدہ کی بنیاد بنتی ہےلہذا عقیدہ بھی ہمیشہ انسان کہ باطن میں ہوتا ہے کہ جس پر کوئی بھی شخص بغیر اس انسان کہ خود (کہ جس کا جو عقیدہ ہو) بتلائے مطلع نہیں ہوسکتا ۔ اور اگر ہم اس حقیقی اور مجازی معنوں کے فرق کو ملحوظِ خاطر نہ رکہیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ اللہ اپنی صفت میں دوسرے کو شریک کر کے معاذ اللہ خود شرک کر رہا ہے۔
باقی آخر میں اتنا عرض کروں گا یہ کہ یہاں وہی ہورہا ہے کہ جس کا مجھے ڈر تھا اور اب ایک لمبی اور لاحاصل بحث شروع ہوجائے گی کہ جس کا کوئی بھی انجام آج تک نہیں ہوسکا ۔ ۔ ۔ میں نے ایک عمر اسی دشت کی سیاہی میں مناظرے اور مباحثے کرتے گذاری ہے اب جبکہ میں یہ سب کچھ ترک کرچکا ہوں تو آپ لوگ مجھے مجبور کررہے ہیں پھر اسی سمندر میں غوطہ زنی پر ۔ ۔ ۔ فقط والسلام
Comment