القرآن : جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
شرعی، تاریخی، ثقافتی اور تربیتی پہلوؤں کا ایک جائزہ
میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صبح اَوّلیں سے اب تک چودہ صدیوں سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن آج بھی جب اس عظیم ترین ہستی کے پردۂ عالم پر ظہور کا دن آتا ہے تو مسلمانانِ عالم میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ ماہِ ربیع الاول کا یہ مقدس دن اتنی صدیاں گزر جانے کے بعد بھی نویدِ جشن لے کر طلوع ہوتا ہے اور مسلمانوں کا سوادِ اعظم اس روزِ سعید کو بڑھ چڑھ کر مناتا ہے۔
ذیل میں ہم جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مختلف پہلوؤں پر ایک اِجمالی نظر ڈالیں گے تاکہ عمرانی تناظر میں اس کا کوئی گوشہ ہماری نظروں سے اوجھل نہ رہے :
شرعی پہلو (Shariah aspect)
تاریخی پہلو (Historical aspect)
ثقافتی پہلو (Cultural aspect)
تربیتی پہلو (Instructional aspect)
دعوتی و تبلیغی پہلو (Dawah aspect)
ذوقی و حبی پہلو (Motivational aspect)
رُوحانی و توسّلی پہلو (Spriritual aspect)
1۔ شرعی پہلو (Shariah aspect)
جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کے شرعی پہلو کو ہم درج ذیل تناظر میں صحیح طور سمجھ سکتے ہیں :
(1) نعمتِ الہٰیہ کی تذکیر
اللہ تبارک و تعالیٰ نے سابقہ امتوں کے احوال اور ان پر اپنی نعمتوں کا خصوصی تذکرہ کیا ہے اور حکم فرمایا ہے کہ ان احوال و واقعات اور احسانات خداوندی کو یاد بھی کیا کرو تاکہ اس تذکیر سے تمہیں نعمت کی قدر دانی کا احساس رہے۔ ارشاد فرمایا گیا :
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَى بِآيَاتِنَا أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللّهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍO
(ابراهيم، 14 : 5)
بينا موسی عليه السلام فی قومه يذکرهم بأيام اﷲ، وأيام اﷲ بلاؤه ونعماؤه.
(قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 9 : 342)
وَذَکِّرْہُمْ بِاَیَّامِ اﷲِ کی تفسیر کے ذیل میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول نقل کرتے ہوئے کہا کہ اِس سے مراد ہے :
بنعم اﷲ عليهم.
بالنعم التی أنعم بها عليهم : أنجاهم من آل فرعون وفلق لهم البحر وظلّل عليهم الغمام وأنزل عليهم المن والسلوی.
(طبری، جامع البيان فی تفسير القرآن، 13 : 184)
(2) یومِ نزولِ مائدہ کو بہ طورِ عید منانا
قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَO
(المائدة، 5 : 114)
(طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن، 7 : 177)
اِس سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مراد یہ تھی کہ وہ نزولِ مائدہ کا دن بہ طورِ عید منائیں، اس کی تعظیم و تکریم کریں، اﷲ کی عبادت کریں اور شکر بجا لائیں۔ اِس سے یہ اَمر بھی مترشح ہوا کہ جس دن اﷲ تعالیٰ کی کوئی خاص رحمت نازل ہوتی ہے، اس دن شکر الٰہی کے ساتھ اِظہارِ مسرت کرنا، عبادت بجا لانا اور اس دن کو عید کی طرح منانا طریقہ صالحین اور اہل اﷲ کا شیوہ رہا ہے۔ امام الانبیاء، محسنِ انسانیت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دنیائے آب و گل میں تشریف آوری کا دن خدائے بزرگ و برتر کی عظیم ترین نعمت اور رحمت کے نزول کا دن ہے، کیوں کہ اسے خود اﷲ نے نعمت قرار دیا ہے۔ اس لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے دن عید منانا، شکر اِلٰہی بجا لانا اور اظہارِ مسرت و شادمانی کرنا انتہائی مستحسن و محمود عمل ہے، اور یہ ہمیشہ سے مقبولانِ الٰہی کا طریقہ رہا ہے۔
Comment