حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلقِ عشقی
حضرت علی شیرِ خدا رضی اللہ عنہ کی تربیت براہِ راست آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی تھی۔ بچوں میں سب سے پہلے دامنِ اسلام سے وابستہ ہونا سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے مقدر میں لکھا گیا تھا۔ اس مقام پر سیدنا علی شیرِ خدا رضی اللہ عنہ کے اس قول کا ذکر ضروری ہے جس میں آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی لذت آفرین کیفیت کو بیان کر کے ثابت کر دیا کہ عظمتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پرچم سر بلند کرنا اور اطاعتِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قندیل دل میں روشن رکھنا ہی ایمان کی اساس ہے۔
قاضی عیاض رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں کہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا :
کيف کان حبکم لرسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم؟
قاضی عياض، الشفا، 2 : 568
آپ (صحابہ کرام) کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کس قدر محبت تھی؟
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
کان و اﷲ! أحب إلينا من أموالنا وأولادنا و آباء نا و أمهاتنا و من الماء البارد علي الظمأ.
قاضي عياض، الشفاء، 2 : 568
سورج کا پلٹنا اور نمازِ عصر کی ادائیگی
حدیثِ پاک میں آتا ہے کہ غزوہء خیبر کے دوران قلعہ صہباء کے مقام پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں سرِ انور رکھ کر اِستراحت فرما رہے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابھی نمازِ عصر ادا نہیں کی تھی۔ اس وقت چاہتے تو عرض کر دیتے کہ حضور صلی اﷲ علیک وسلم! تھوڑی دیر توقف فرمائیے کہ میں عصر کی نماز پڑھ لوں، پھر حاضرِ خدمت ہوجاتا ہوں۔ عقل کا تقاضا بھی یہی تھا لیکن عقل کا کام تو بقولِ اقبال رحمۃ اﷲ علیہ بہانے تلاش کرنا اور تنقید کرنا ہے۔ فرماتے ہیں :
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اَعمال کی بنیاد رکھ
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
بو علی اندر غبارِ ناقہ گم
دستِ رومی پردۂ محمل گرفت
نمازیں گر قضا ہوں پھر ادا ہوں
نگاہوں کی قضائیں کب ادا ہوں
اِدھر حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی خوش بختی کے کیف میں آفتابِ نبوت کو تکے جا رہے تھے اور ادھرآفتابِ جہاں تاب اپنی منزلیں طے کرتا ہوا غروب ہوتا جا رہا تھا۔ جب ان کی نظر ڈوبتے سورج پر پڑی تو چہرۂ اقدس کا رنگ متغیر ہونے لگا۔ اور آپ رضی اللہ عنہ پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی۔ کبھی نگاہ سورج پر ڈالتے اور کبھی محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخِ زیبا پر۔ کبھی مائل بہ غروب سورج کو تکتے تو کبھی آفتابِ رسالت کے طلوع کا منظر دیکھتے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ سورج ڈوب چلا ہے تو آپ رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ نکلے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدا ر ہوئے تو دیکھا کہ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ پریشانی کے عالم میں محوِ گریہ ہیں۔ پوچھا : کیا بات ہوئی؟ عرض کیا : آقا! میری نمازِ عصر رہ گئی ہے۔ فرمایا : قضا پڑھ لو۔ انہوں نے حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا، جو زبانِ حال سے یہ کہہ رہی تھیں کہ آپ رضی اللہ عنہ لی اﷲ علیک وسلم کی غلامی میں نماز جائے اور قضا پڑھوں؟ اگر اس طرح نماز قضا پڑھوں تو پھر ادا کب پڑھوں گا؟
جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ علی رضی اللہ عنہ قضا نہیں بلکہ نماز ادا ہی کرنا چاہتا ہے تو سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے، اللہ جل مجدہ کی بارگاہ میں دستِ اقدس دعا کے لئے بلند کر دیئے اور عرض کیا :
اللّٰهم! إنّ عليا فی طاعتک و طاعة رسولک، فاردد عليه الشمس.
طبراني، المعجم الکبير، 24 : 151، رقم : 2390
هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 3297
قاضي عياض، الشفا، 1 : 4400
ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 583
سيوطي، الخصائص الکبري، 2 : 6137
حلبي، السيرة الحلبيه، 2 : 103
ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اُس تاجور کی ہے
ردِ شمس کے معجزۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تفصیلی مطالعہ کیلئے راقم کی کتاب سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (جلد نہم، معجزات) ملاحظہ فرمائیں۔
Comment