سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا شوقِ دیدار
مکہ معظمہ میں اسلام کا پہلا تعلیمی اور تبلیغی مرکز کوہِ صفا کے دامن میں واقع دارِارقم تھا، اسی میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھیوں کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس فرماتے۔ ابھی مسلمانوں کی تعداد 39 تک پہنچی تھی کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں چاہتا ہوں کہ کفار کے سامنے دعوتِ اسلام اعلانیہ پیش کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منع فرمانے کے باوجود انہوں نے اصرار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت مرحمت فرما دی۔
و قام أبو بکر فی الناس خطيباً و رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم جالس، فکان أول خطيب دعا إلی اﷲ عزوجل وإلی رسوله صلی الله عليه وآله وسلم.
ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 3 : 230
حلبی، السيرة الحلبيه، 1 : 3475
ديار بکری، تاريخ الخميس، 1 : 4294
طبری، الرياض النضره، 1 : 397
حلبی، السيرة الحلبيه، 1 : 3475
ديار بکری، تاريخ الخميس، 1 : 4294
طبری، الرياض النضره، 1 : 397
آپ کے والدِ گرامی ابو قحافہ، والدہ اور آپ کا خاندان آپ کے ہوش میں آنے کے انتظار میں تھا، مگر جب ہوش آیا اور آنکھ کھولی تو آپ رضی اللہ عنہ کی زبانِ اقدس پر جاری ہونے والا پہلا جملہ یہ تھا :
ما فعل برسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم؟
تمام خاندان اس بات پر ناراض ہو کر چلا گیا کہ ہم تو اس کی فکر میں ہیں اور اسے کسی اور کی فکر لگی ہوئی ہے۔ آپ کی والدہ آپ کو کوئی شے کھانے یا پینے کے لئے اصرار سے کہتیں، لیکن اس عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر مرتبہ یہی جواب ہوتا، کہ اس وقت تک کچھ کھاؤں گا نہ پیوں گا جب تک مجھے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبر نہیں مل جاتی کہ وہ کس حال میں ہیں۔ لختِ جگر کی یہ حالتِ زار دیکھ کر آپ کی والدہ کہنے لگیں :
واﷲ! ما لی علم بصاحبک.
آپ رضی اللہ عنہ نے والدہ سے کہا کہ حضرت اُمِ جمیل رضی اللہ عنہا بنت خطاب سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے پوچھ کر آؤ۔ آپ کی والدہ امِ جمیل رضی اللہ عنہا کے پاس گئیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ماجرا بیان کیا۔ چونکہ انہیں ابھی اپنا اسلام خفیہ رکھنے کا حکم تھا اس لئے انہوں نے کہا کہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کے دوست محمد بن عبداللہ کو نہیں جانتی۔ ہاں اگر تو چاہتی ہے تو میں تیرے ساتھ تیرے بیٹے کے پاس چلتی ہوں۔ حضرت اُمِ جمیل رضی اللہ عنہا آپ کی والدہ کے ہمراہ جب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں تو ان کی حالت دیکھ کر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور کہنے لگیں :
إنی لأرجو أن ينتقم اﷲ لک.
آپ نے فرمایا! ان باتوں کو چھوڑو مجھے صرف یہ بتاؤ :
ما فعل برسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم؟
انہوں نے اشارہ کیا کہ آپ کی والدہ سن رہی ہیں۔ آپ نے فرمایا : فکر نہ کرو بلکہ بیان کرو۔ انہوں نے عرض کیا :
سالم صالح.
پوچھا :
فأين هو؟
انہوں نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دارِ ارقم میں ہی تشریف فرما ہیں۔ آپ نے یہ سن کر فرمایا :
ان لا أذوق طعاما أو شرابا أو آتی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم.
ابن کثير، البدايه والنهايه، (السيرة)، 3 : 230
حلبی، السيرة الحلبيه، 1 : 3476
طبری، الرياض النضره، 1 : 4398
ديار بکری، تاريخ الخميس، 1 : 294
حلبی، السيرة الحلبيه، 1 : 3476
طبری، الرياض النضره، 1 : 4398
ديار بکری، تاريخ الخميس، 1 : 294
شمعِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس پروانے کو سہارا دے کر دارِ ارقم لایا گیا، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عاشقِ زار کو اپنی جانب آتے ہوئے دیکھا تو آگے بڑھ کر تھام لیا اور اپنے عاشقِ زار پر جھک کر اس کے بوسے لینا شروع کر دیئے۔ تمام مسلمان بھی آپ کی طرف لپکے۔ اپنے یارِ غمگسار کو زخمی حالت میں دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عجیب رقت طاری ہو گئی۔
اُنہوں نے عرض کیا کہ میری والدہ حاضر خدمت ہیں، ان کے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں دولتِ ایمان سے نوازے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی اور وہ دولتِ ایمان سے شرف یاب ہوگئیں۔
Comment