اسلام علکیم
امید کرتا ہوں سب بخریت ہونگے۔۔۔مئی کسی بھی حساب میں سیر و تفریخ کے لیے مناسب نہں ۔۔۔لیکن اس دفعہ میری غیر متبدل غربت اسی مہینے میں مجھے بھوج پتر اور کمال بن کے جنگلات میں لے گئی۔۔بھوج پتر کے جنگلات بہت بلندی پر ہہیں اور انہی جنگلات کے بیچوں بیچ گیارہ ہزار فٹ کی بلندی پر ڈنہ میڈوز کی خوبصورت چراہگاہ ہے۔۔۔ڈنہ میڈوز سے ہی ایک پیدل ٹریک کمال بن کے جنگل میں جاتا جو صدیوں پرانا جنگل ہے اور اسی جنگل کے بیچ جہاں گہرا سکوت ہے وہاں انگریز دور کا ایک ریسٹ ہاوس بھی ہے
مجھ پہ کھلا کہ سفر کا کوئی اختتام نہیں۔۔کچھ بھی اخر نہیں ۔۔کوئی منظر بھی سب سے خوبصورت نہیں۔۔۔کوی بھی جگہ سب سے حسین نہیں لامحدود حسن کا ایک سلسہ ہے جس کی بیکراں وسعت سے مجھے کچھ لمحے چننے کا موقع ملا اور میں ان کی ایک معمولی جھلک دیکھنے والا خوش نصیب ٹھہرا۔۔۔اگرچہ تشنگی برقرار رہہی۔۔۔۔یہ تھوڑے سے منظر میرے حصے کے منظر تھے جنہیں میں آپ تک پہنچا رہا۔۔
مختصر حیات۔۔۔پہاڑوں کا تنہا سفر۔۔اداسی اور دکھ۔۔۔۔کوئی اندر کی محرومی اور وقت کی دھول میں گم ہوجانے والا کوئی چاند چہرہ۔۔بس یہی زاد سفر اور یہی رخت سفر۔۔
مجھے اکثر لوگ پوچھے ہیں انتہائی بلندی پہ ان ویران مقام پہ رات گزارتے ڈرتے نہیں۔۔لیکن یہاں کتنا ہی ڈر کیوں نہ ہو لیکن پنجاب پولیس،اور سنگدل راہزنوں، قاتلوں سے زیادہ ڈراونا تو نہیں۔۔۔۔
پہاڑ بے شک بہت بلند لیکن میرے مسائل سے زیادہ بلند نہیں ہیں یہاں کا موسم کتنا ہی بے اعتبار سہی کبھی دھوپ ،چھاوں، بارش برف سہی لیکن ان لوگوں لوگوں سا بھی بے اعتبار نہیں جو ایک دیہاتی دہقانی کی سیدھی سادھی محبت کو جوتے کی نوک پہ رکھتے۔۔۔بے شک پہاڑوں کا سفر کھٹن اور بے مروت لیکن ان دوستوں سے بدرجہ کم جو محض اس لیے منہ موڑ گئے کہ اس شخص کی شکل پہ افلاس کے سائے اور مبادہ کہیں۔۔۔
پانچ دن اور چار راتیں جو یہاں گزاری کچھ تصاویر کے آئنے میں
بہت زیادہ خوش رہیں
عامر احمد خان۔۔۔۔۔۔حاجی شاہ اٹک
jari hai...
Comment