رتی گلی جھیل
شاہرہ کاغان پہ ناران سے 29 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک قصبہ بڑوئی واقع ہے
یہاں ایک مختصر سا بازار چند جنرل سٹور وغیرہ واقع ہیں سطع سمندر سے
بڑوئی ساڑھے نو ہزار فٹ بلند ہے اور بڑوئی کی واحد خاس بات کہ یہاں سے
رتی گلی اور اس کے پار رتی گلی جھیل کو راستہ جاتا ہے
رتی گلی جھیل سطع سمندر سے 12 100 فٹ بلند ہے یہ جھیل لالو سر کے بعد
علاقے کی سب سے بڑی جھیل ہے
رتی گلی کے سفر میں میری ساتھ دو ساتھی تھے ایک تھا ملتان کا مدثر جسکی نئی نئی شادی
ہوئی تھی اور پورے رستے میں بار بار کہتا رہا عامر بھائی اگر مجھے
پتہ ہوتا کہ اس ٹریک میں اتنی ذلالت اور خواری ہے تو میں کبھی یہاں آنے
کی حماقت نہ کرتا
اور دوسرے کامرہ کا مجاہد صاحب تھے
بڑوائی سے اپ کو جنوب مشرق کی سمت سے رتی گلی سے انے والا نالہ دکاھئی دیتا یہے
اس نالے کے ساتھ ساتھ ایک جیپ ٹریک رتی گلی کی وادی میں داخل ہوتا ہے
یہ جیپ ٹریک نو کلومیٹر کے فاصٌے پہ ایک گائوں جوڑیاں پر اختتام پذیر ہو جاتا ہے
۔۔جوڑیاں ایک کشادہ اور ہموار قطعہ زمین ہے اور یہاں جنوب سے انے والے دو نالے
جوڑ نالے میں ملتے ہیں۔۔سال کے اوقات اور موسم کی مناسبت سے اگر برف
زیادہ نہ ہو تو جیپ جوڑیاں سے تین چار کلومیٹر اگے بھی جا سکتی ہے لیکن اس سے اگے اپ کو
اپنے قدموں پہ ہی خراماں رتی گلی کی جنت میں گھومنا پڑتا ہے
جوڑیاں سے رتی گلی تک تقریبا پندرہ کلو میٹر کا پیدل سفر ہے اور گلی سے پہلے
سخت چڑھائی کے علاوہ کم و بیش سارا سفر ہوامر اور سیدھا ہے
وادی کا یہ حصہ نسبتا تنگ اور کسی حد تک خطرناک بھی ہے یہاں دونوں طرف
پہاڑوں کی عمودی ڈھلواً نیں ہیں
وادی کے اس تنگ حصے میں اپ جوں جوں اگے بڑھتے جاتے ہیں وادی کشادہ ہوتی جاتی ہے
اور اس کی خوبصورتی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے
دو تین گھنٹے چلنے کے بعد ہم ایک پر شور نالے کے قریب پہنچ گئے جو بائیں سمت سے
سر پٹکتا ہوا ارا تھا
شاہرہ کاغان پہ ناران سے 29 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک قصبہ بڑوئی واقع ہے
یہاں ایک مختصر سا بازار چند جنرل سٹور وغیرہ واقع ہیں سطع سمندر سے
بڑوئی ساڑھے نو ہزار فٹ بلند ہے اور بڑوئی کی واحد خاس بات کہ یہاں سے
رتی گلی اور اس کے پار رتی گلی جھیل کو راستہ جاتا ہے
رتی گلی جھیل سطع سمندر سے 12 100 فٹ بلند ہے یہ جھیل لالو سر کے بعد
علاقے کی سب سے بڑی جھیل ہے
رتی گلی کے سفر میں میری ساتھ دو ساتھی تھے ایک تھا ملتان کا مدثر جسکی نئی نئی شادی
ہوئی تھی اور پورے رستے میں بار بار کہتا رہا عامر بھائی اگر مجھے
پتہ ہوتا کہ اس ٹریک میں اتنی ذلالت اور خواری ہے تو میں کبھی یہاں آنے
کی حماقت نہ کرتا
اور دوسرے کامرہ کا مجاہد صاحب تھے
بڑوائی سے اپ کو جنوب مشرق کی سمت سے رتی گلی سے انے والا نالہ دکاھئی دیتا یہے
اس نالے کے ساتھ ساتھ ایک جیپ ٹریک رتی گلی کی وادی میں داخل ہوتا ہے
یہ جیپ ٹریک نو کلومیٹر کے فاصٌے پہ ایک گائوں جوڑیاں پر اختتام پذیر ہو جاتا ہے
۔۔جوڑیاں ایک کشادہ اور ہموار قطعہ زمین ہے اور یہاں جنوب سے انے والے دو نالے
جوڑ نالے میں ملتے ہیں۔۔سال کے اوقات اور موسم کی مناسبت سے اگر برف
زیادہ نہ ہو تو جیپ جوڑیاں سے تین چار کلومیٹر اگے بھی جا سکتی ہے لیکن اس سے اگے اپ کو
اپنے قدموں پہ ہی خراماں رتی گلی کی جنت میں گھومنا پڑتا ہے
جوڑیاں سے رتی گلی تک تقریبا پندرہ کلو میٹر کا پیدل سفر ہے اور گلی سے پہلے
سخت چڑھائی کے علاوہ کم و بیش سارا سفر ہوامر اور سیدھا ہے
وادی کا یہ حصہ نسبتا تنگ اور کسی حد تک خطرناک بھی ہے یہاں دونوں طرف
پہاڑوں کی عمودی ڈھلواً نیں ہیں
وادی کے اس تنگ حصے میں اپ جوں جوں اگے بڑھتے جاتے ہیں وادی کشادہ ہوتی جاتی ہے
اور اس کی خوبصورتی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے
دو تین گھنٹے چلنے کے بعد ہم ایک پر شور نالے کے قریب پہنچ گئے جو بائیں سمت سے
سر پٹکتا ہوا ارا تھا
Comment